Tag: مرزا غالب

  • غالب: شخصیت اور شاعری: نئے مطالعے کے امکانات

    غالب: شخصیت اور شاعری: نئے مطالعے کے امکانات

    میں نہ تو غالب کا ماہر ہوں اور نہ ہی میں نے غالیبات کے سلسلے میں لکھی گئی ساری کتابیں اور مضامین پڑھے ہیں، ہاں چند کتابوں اور چند مضامین کا مطالعہ کیا ہے اور کلیات غالب (ڈاکٹر گیان چند نسخہ عرشی کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح بھی ہے) کا مطالعہ کرنے کا شرف ضرور حاصل ہے، اس لیے میں اپنے ’’پراگندہ ذہن‘‘ کی مدد سے چند باتیں لکھنے کی جرأت کر رہا ہوں۔

    غالب کے ماہرین اور محققین سے بہ صد عجز عرض ہے کہ دیوانے کی ہو بھی کبھی کبھی قابل توجہ ہوتی ہے۔

    مجھے ہمیشہ کی طرح غالب کی شخصیت کا مطالعہ ایک ایسے ڈیلیما سے دوچار کرتا ہے جس کا حل آسان نہیں ہے۔ غالب کے محققین نے ان کی شخصیت کے اتنے ایکسرے پیش کیے ہیں کہ ان کی زندگی کے شب و روز کبھی دھوپ اور کبھی چاندنی کی طرح تیز گرم، روشن اور ٹھنڈے دھندلے عکس نظر آتے ہیں مگر محققین کی اس ’’کام یابی‘‘ کے باوجود غالب کی شخصیت کے سارے پیچ و خم کھل کر سامنے نہیں آتے ہیں۔ غالب سے مکمل تعارف بھی ایک قسم کی پراسراریت کو قائم رکھتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مکمل تجزیہ ہمیشہ تشنہ ہی رہے گا۔ غالب اپنے اشعار اور خطوط میں اتنا عریاں نہیں ہیں جتنا کہ قیس تصویر کے پردے میں تھا، اس لیے کہ قیس تو ایک یک رخا عاشق اور غالب ’’مجموعۂ اضداد‘‘ ہیں اور یہی رنگا رنگی ہے جو ہم لوگوں کے لیے ’سوہانِ روح‘ بن گئی ہے۔

    اگر اس پر یقین آ جائے کہ ان کی شخصیت کا جائزہ ممکن ہی نہیں ہے تو بحث ختم ہو جاتی ہے اور ان کی شاعری کے بارے میں یقین سے رائے دی جا سکتی ہے مگر ناتمامی اور تشنگی کا یہ مسلسل احساس ہی ان کی شخصیت اور شاعری کو اور بھی قابل توجہ بناتا ہے۔ جشن غالب (۱۹۶۹ء) کے بعد یہ خیال کیا جاتا تھا کہ نئے ناقدین غالب پر ’حملہ آور‘ ہوں گے اور غالب کی پرانی آرزو یعنی’’اڑیں گے پرزے‘‘ پوری ہوگی۔ تماشا تو خوب دھوم سے ہوا مگر کچھ نہ ہوا۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غالب آج بھی اردو تنقید پر خندہ زن ہیں۔ میری کیا بساط ہے کہ میں ان کی دیرینہ آرزو پوری کروں، میں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں:

    رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
    آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

    غالب کی شخصیت پر لکھے گئے درجنوں مضامین، غالب کے خطوط اور ان کی شاعری کا تمام تر مطالعہ مجھے اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ وہ ایک Precocious Child تھے، کم عمری میں بالغ ہو گئے تھے۔ بچوں کی نفسیات کے ایک امریکی ماہر ڈاکٹر اسپاک Dr. Spock کا خیال ہے کہ ایسے ذہین بچے اکثر اپنی ذہانت کا خود شکار ہو جاتے ہیں اور بہت جلد تازگی اور ندرت کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ بچے شاید ان غنچوں کی طرح ہیں جو کھلتے ہی مرجھا جاتے ہیں مگر غالب اس تجزیے سے مستثنا نظر آتے ہیں۔ وہ خاصی کم سنی میں فارسی اور اردو زبانوں میں اعلیٰ پائے کے شعر موزوں کرنے کے اہل ہو گئے تھے، یہی نہیں پندرہ بر س کی عمر میں وہ آفات زمانہ کی تلخیوں سے بھی لطف اندوز ہونے کا سلیقہ جان گئے تھے۔ ان کے خطوط ان کی کھلی ہوئی شخصیت Open Personality کی ا چھی مثالیں ہیں مگر اس کے باوجود اپنی شخصیت کے سارے پہلو عیاں نہیں کرتے ہیں۔

    وہ اپنی انا کے ساتھ خاکساری کے جواہر بھی پیش کرتے ہیں، وہ دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن ہونے کے باوجود دوستی کے حدود اور دشمنی کی بیکرانی سے واقف ہیں۔ وہ شخص جو کم سنی میں یتیم ہو گیا ہو، جس کو اپنی ماں سے کوئی خاص محبت بھی نہ ہو، جس نے کم عمری سے آزادانہ جنسی زندگی گزاری ہو اور جو اپنی شخصیت کی تعمیر میں اتنا کوشاں بھی نہ ہو کہ ہر قدم پر احتیاط کرتا ہو، ایسے شخص کی زندگی سے ساری نقابیں اٹھ جائیں تووہ عریاں نظر آئے گا مگر غالب پھر بھی اپنی شخصیت کا کوئی نہ کوئی پہلو چھپا جاتے ہیں۔ جان بوجھ کر اپنے کو چھپانے والا شخص سہما ہوا اور اکثر بکتر بند نظر آتا ہے۔
    غالب کی بے پناہ ذہانت ان کا مطالعہ کرنے والی نظروں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ اگر یہ معلوم بھی ہو جائے کہ وہ بذلہ سنج تھے، شاعر نغز گو تھے، ہشت پہلو شخصیت رکھتے تھے، پھر بھی یہ احساس کیسے قائم رہتا ہے کہ غالب سے ملے لیکن غالب کو نہ سمجھ پائے۔ مجھے دو ایک ماہر غالبیات سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے اور میرے مسلسل سوالات کے بعد بھی وہ میری تشفی نہیں کر سکے۔

    غالب کی شخصیت میں خود پر خندہ زن ہونے کی جو بے مثال صلاحیت ہے وہ انہیں (شاید) پراسرار بنائے رکھتی ہے۔ حالی کے ’’حیوان ظریف‘‘ کی ذہانت، فطانت اور ندرت تجزیہ نگار کو مبہوت کر دیتی ہے۔ آپ لاکھ ان کی شخصیت کو مختلف خانوں میں بند کرنے کی کوشش کریں وہ بند بھی نظر آتے ہیں اور نہیں بھی۔ اور ان کی شخصیت کے ایک پراسرار پہلو پر تیز شعاعیں ڈالی جائیں یعنی ان کے طنز و مزاح کا گہرا تجزیہ کیا جائے تو وہ کبھی ایک دل جلے کی ہنسی ہنستے ہیں جیسے:

    اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
    ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے

    مگر یہ تبسم بھی پھیکا نہیں ہے اور معنی خیز ہے اور کبھی ایک ایسے دانشور کے تبسمِ زیرِ لب کا احساس ہوتا ہے جو دل ہی دل میں قہقہے لگاتا ہے مگر اس کے چہرے کی سنجیدگی پوری طرح قائم رہتی ہے، صرف آنکھوں کی چمک شوخ تر نظر آتی ہے:

    کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یارب
    سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

    وہ شخصیت جو اپنے ’’یارب‘‘ سے اتنے گہرے دوستانہ مراسم رکھتی ہو، اس کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ لگانا: دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ غالب کی آزادانہ شخصیت اپنی آزادی کے حدود سے واقف تھی۔ وہ زخمی ہوکر اپنا ضبط و غم نہیں کھوتے بلکہ اپنی شکست کو بھی ایسے طنز آمیز تبسم سے قبول کرتے ہیں کہ فاتح بھی ان کو دیکھ کر دنگ رہ جائے۔ چارلی چپلین نے اپنی خودنوشت سوانح عمری میں کہیں لکھا ہے کہ ’’وہ مسخرہ کس کام کا جو دوسروں کو صرف ہنسا سکے۔‘‘ غالب تبسم کی زیریں لہر میں خاموش غم کو بھی اس طرح سمونے کا فن جانتے تھے کہ آدمی دکھی ہو کر بھی ان کی خندہ زنی میں شریک ہو جاتا ہے، بے دلی سے نہیں بلکہ کشادہ دلی سے:

    ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
    یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

    اور اس شعر کا ’’اگر‘‘ گناہوں پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ ناکردہ گناہوں کو جنسی تلذذ کی خواب بندی کہا جا سکتا ہے۔ غالب کی شخصیت کا بنیادی مطالعہ ہمیں حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ وہ یتیم تھے مگر ان کا بچپن محرومیوں سے بہت دور تھا۔ انہیں اپنے باپ کی یاد بھی بہت کم آتی ہے۔ گو کہ خطوط میں وہ اپنے باپ اور چچا کی موت کا اکثر ذکر کرتے ہیں۔ خورشید الاسلام کا خیال ہے کہ ’’افسردگی اور تصوف سے دلچسپی کے اسباب ان کے تجربوں میں ڈھونڈنے چاہیے۔‘‘ یعنی یتیمی، کم عمری کی شادی اور ۲۵ برس کی عمر میں عشق۔ میری ناچیز رائے یہ ہے کہ بچے کو اگر شروع میں محرومی کا احساس نہ ہو تو یتیم ہونے کے باوجود اپنے والد کے سائے کا خواہاں نہیں رہتا ہے بلکہ اس پودے کی طرح تیزی سے بڑھتا اور پروان چڑھتا ہے جس پر کوئی برگد سایہ فگن نہیں ہوتا ہے، کیونکہ غالب کی شخصیت میں وسیع المشربی، رندی، شوخی اور طنز کے جو بنیادی عناصر ہیں وہ اسی وجہ سے اتنے گہرے اور پائیدار ثابت ہوتے ہیں کہ ان کی ترقی میں کوئی روک ٹوک نہ تھی۔

    جنس کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس کو عام بنے بنائے پیمانے سے نہیں ناپا جا سکتا، اس لیے خورشید صاحب نے شخصیت کے نقوش اجاگر کرنے کے لیے جو پیمانہ بنایا ہے وہ اپنی جگہ تمثیلی ہوتے ہوئے بھی غالب کے لیے نامناسب ہے۔ ان کی کم عمری میں شادی بھی اسی لیے کی گئی تھی کہ انہیں آزادانہ زندگی بسر کرنے سے روکا جا سکے۔ اسی لیے انہوں نے شادی کو’بیڑی‘ کہا ہے، ورنہ وہ اپنی بیوی سے محبت نہ کرتے ہوئے بھی نفرت نہیں کرتے تھے۔ اس کا ثبوت اولادیں ہیں۔ ہاں ان کے عشق کے سلسلے میں قیاس آرائیاں کی جا سکتی ہیں۔ حمیدہ سلطان نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’امراؤ بیگم نے ان کے (غالب کے) ذوق شعر کو بلند کیا، کردار کو پاکیزگی بخشی، آگرے کی بے راہ روی اور رنگ رلیاں دلّی کے مستقل قیام کے بعد تقریباً ختم ہو گئیں۔‘‘ حمیدہ سلطان کے اس بیان پر ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے صحیح نکتہ چینی کی ہے، اس لیے کہ آگے چل کر خود حمیدہ سلطان یہ بھی کہتی ہیں کہ ترک نامی ایک خاتون تھی جس سے مرزا کا عشق تھا۔ محترمہ کے الفاظ ہیں:

    ’’مرزا کی شاعری کا بے مثل حسن، انفرادی بانک پن جس نگہِ ناز کا عطیہ ہے، مرزا کے فکر کو جس دلکش خیال نے رنگینی و دل آویزی بخشی، اس شعلہ خُو حسینہ کے حسنِ صورت پر ہی نہیں حسنِ سیرت و ذہانت پر بھی مرزا فریفتہ تھے۔ بہت ممکن ہے کہ غالب کے ہر شعر میں جو دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے، وہ ترک کا عطیہ ہو۔‘‘ (اقتباس از مضمون ڈاکٹر عبدالسلام خورشید، نقوش غالب نمبر ص ۳۶۸، ۱۹۶۹ء)

    یہ ایک بیوہ خاتون تھیں۔ ان سے غالب کا عشق ثابت کرنا ایک قسم کی قیاس آرائی ہے۔ اصل میں غالب کا کوئی ایک محبوب نہیں ہے۔ وہ نہ بھونرے ہیں اورنہ مگس، ان میں ان دونوں کی ایک ایک خوبی ہے یعنی حسن پرستی مگر یہاں بھی غالب کی دانشورانہ طراری کبھی سپر نہیں ڈالتی، وہ اپنے آپ کو کسی حسین سے کمتر نہیں سمجھتے تھے اور یہ خود نگری اور خود سری اس انا کو جنم دیتی ہے جو ان کی ہمیشہ ممد و معاون رہی اور تیزابی ذہانت کے ساتھ ساتھ وہ درد مند دل بخشا کہ اس کو کسی ایک نفسیاتی پیمانے سے نہیں ناپا جا سکتا ہے۔

    کہا گیا ہے کہ جینیئس خود اپنا پیمانہ لے کر آتا ہے۔ جبھی تو غالب کی کم سنی، جوانی اور عمر کی خستگی کا اندازہ ایک پیمانے، ایک نظریے اور ایک معیار سے نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ غالب کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے غالب سے مستعار لے کر معیارات قائم کرنے ہوں گے، اس لیے کہ وہ صرف فخرِ عرفی اور رشک طالب نہیں تھے بلکہ ان سے اپنا الگ معیار رکھتے تھے۔

    (ممتاز نقاد اور روایت شکن قلم کار باقر مہدی کے مضمون سے اقتباسات)

  • پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟

    پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟

    آج کل شہر میں جسے دیکھو، پوچھتا پھر رہا ہے کہ غالب کون ہے؟ اس کی ولدیت، سکونت اور پیشے کے متعلق تفتیش ہو رہی ہے۔

    ہم نے بھی اپنی سی جستجو کی۔ ٹیلی فون ڈائریکٹری کو کھولا۔ اس میں غالب آرٹ اسٹوڈیو تو تھا لیکن یہ لوگ مہ رخوں کے لیے مصوری سیکھنے اور سکھانے والے نکلے۔ ایک صاحب غالب مصطفے ہیں جن کے نام کے ساتھ ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ لکھا ہے۔ انہیں آٹے دال کے بھاؤ اور دوسرے مسائل سے کہاں فرصت ہو گی کہ شعر کہیں۔ غالب نور اللہ خاں کا نام بھی ڈائریکٹری میں ہے لیکن ہمارے مؤکل کا نام تو اسد اللہ خاں تھا جیسا کہ خود فرمایا ہے۔

    اسد اللہ خاں تمام ہوا
    اے دریغا وہ رند شاہد باز

    بے شک بعض لوگ اس شعر کو غالب کا نہیں گنتے۔ ایک بزرگ کے نزدیک یہ اسد اللہ خاں تمام کوئی دوسرے شاعر تھے۔ ایک اور محقق نے اسے غالب کے ایک گمنام شاگرد دریغا دہلوی سے منسوب کیا ہے لیکن ہمیں یہ دیوان غالب ہی میں ملا ہے۔

    ٹیلی فون ڈائریکٹری بند کر کے ہم نے تھانے والوں کو فون کرنے شروع کیے کہ اس قسم کا کوئی شخص تمہارے روزنامچے یا حوالات میں ہو تو مطلع فرماؤ کیونکہ اتنا ہم نے سن رکھا ہے کہ کچھ مرزا صاحب کو یک گونہ بیخودی کے ذرائع شراب اور جوئے وغیرہ سے دل چسپی تھی اور کچھ کوتوال ان کا دشمن تھا۔ بہرحال پولیس والوں نے بھی کان پر ہاتھ رکھا کہ ہم آشنا نہیں، نہ ملزموں میں ان کا نام ہے نہ مفروروں میں، نہ ڈیفنس رولز کے نظر بندوں میں، نہ اخلاقی قیدیوں میں، نہ تین میں نہ تیرہ میں۔

    مرزا ظفر الحسن ہمارے دوست نے مرزا رسوا کو رسوائی کے مقدمے سے بری کرانے کے بعد اب مرزا غالب کی یاد کا بیڑا اٹھایا ہے۔ مرزا کو مرزا ملے کر کر لمبے ہاتھ۔ پچھلے دنوں انہوں نے ایک ہوٹل میں ادارۂ یادگارِ غالب کا جلسہ کیا تو ہم بھی کچے دھاگے میں بندھے پہنچ گئے۔ ظفر الحسن صاحب کی تعارفی تقریر کے بعد صہبا لکھنوی نے تھوڑا سا تندیٔ صہبا سے موضوع کے آبگینے کو پگھلایا۔
    اس کے بعد لوگوں نے مرزا جمیل الدین عالی سے اصرار کیا کہ کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں۔ وہ نہ نہ کرتے رہے کہ ہے ادب شرط منہ نہ کھلواؤ لیکن پھر تاب سخن نہ کر سکے اور منہ سے گھنگنیاں نکال کر گویا ہوئے۔ غالب ہر چند کہ اس بندے کے عزیزوں میں تھا لیکن اچھا شاعر تھا۔ لوگ تو اسے اردو کا سب سے اونچا شاعر کہتے ہیں۔ مرزا ظفر الحسن قابلِ مبارک باد ہیں کہ اس کے نام پر منظوم جلسہ یعنی بیت بازی کا مقابلہ کرا رہے ہیں اور اسے کسوٹی پر بھی پرکھ رہے ہیں لیکن اس عظیم شاعر کی شایانِ شان دھوم دھامی صد سالہ برسی کے لیے ہندوستان میں لاکھوں روپے کے صرف کا اہتمام دیکھتے ہوئے ہم بھی ایک بڑے آدمی کے پاس پہنچے کہ خزانے کے سانپ ہیں اور ان سے کہا کہ گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی۔ کچھ غالب نام آور کے لئے بھی ہونا چاہیے ورنہ، طعنہ دیں گے بت کہ غالب کا خدا کوئی نہیں ہے۔

    ان صاحب نے کہا، ’’آپ غالب کا ڈومیسائل سرٹیفیکٹ لائے؟‘‘ یہ بولے، ’’نہیں۔‘‘ فرمایا، ’’پھر کس بات کے روپے مانگتے ہو، وہ تو کہیں آگرے، دلّی میں پیدا ہوا، وہیں مر کھپ گیا۔ پاکستان میں شاعروں کا کال ہے۔‘‘ عالی صاحب نے کہا، ’’اچھا پھر کسی پاکستانی شاعر کا نام ہی بتا دیجیے کہ غالب کا سا ہو۔‘‘ بولے، ’’میں زبانی تھوڑا ہی یاد رکھتا ہوں۔ شاعروں کے نام، اچھا اب لمبے ہو جائیے، مجھے بجٹ بنانا ہے۔‘‘

    خیر ہندوستان کے شاعر تو ہندوستانیوں ہی کو مبارک ہوں۔ خواہ وہ میر ہوں یا انیس ہوں یا امیر خسرو ساکن پٹیالی واقع یوپی لیکن غالب کے متعلق ایک اطلاع حال میں ہمیں ملی ہے جس کی روشنی میں ان سے تھوڑی رعایت برتی جا سکتی ہے۔ ہفت روزہ قندیل لاہور کے تماشائی نے ریڈیو پاکستان لاہور سے ایک اعلان سنا کہ اب اردن کے مشہور شاعر غالب کا کلام سنیے۔ یہ بھی تھا کہ ’’اردن کو مرزا غالب پر ہمیشہ ناز رہے گا۔‘‘ تو گویا یہ ہمارے دوست ملک اردن کے رہنے والے تھے۔ تبھی ہم کہیں کہ ان کا ابتدائی کلام ہماری سمجھ میں کیوں نہیں آتا اور عربی فارسی سے اتنا بھرپور کیوں ہے اور کسی رعایت سے نہیں تو اقربا پروری کے تحت ہی ہمیں یوم غالب کے لیے روپے کا بندوبست کرنا چاہیے کہ اردن سے ہماری حال ہی میں رشتے داری بھی ہو گئی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ صد سالہ برسی فروری میں ہے۔
    فردوسی کی طرح نہ ہو کہ ادھر اس کا جنازہ نکل رہا تھا۔ ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا اور ادھر خدام ادب اشرفیوں کے توڑوں کا ریڑھا دھکیلتے غزنی کے دروازے میں داخل ہو رہے تھے۔

    عالی صاحب کا اشارہ تو خدا جانے کس کی طرف تھا۔ کسی سیٹھ کی طرف یا کسی اہل کار کی طرف۔ لیکن مرزا ظفر الحسن صاحب نے دوسرے روز بیان چھپوا دیا کہ ہم نے حکومت سے کچھ نہیں مانگا، نہ اس کی شکایت کرتے ہیں، جو دے اس کا بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ یہ شکوہ شکایت ادارہ یادگارِ غالب کے حساب میں نہیں، مرزا جمیل الدین عالی کے حساب میں لکھا جائے، ہم تو پنسیلیں بیچ کر یوم غالب منائیں گے۔‘‘

    ہم نے پہلے یہ خبر پڑھی تو ’’پنسلین‘‘ سمجھے اور خیال کیا کہ کہیں سے مرزا صاحب کو ’’پنسلین‘‘ کے ٹیکوں کا ذخیرہ ہاتھ آگیا ہے۔ بعد ازاں پتا چلا کہ نہیں۔۔۔ وہ پنسلیں مراد ہیں جن سے ہم پاجاموں میں ازار بند ڈالتے ہیں اور سگھڑ بیبیاں دھوبی کا حساب لکھتی ہیں۔ خیر مرزا ظفر الحسن صاحب کا جذبہ قابل تعریف ہے لیکن دو مرزاؤں میں تیسرے مرزا کو حرام ہوتے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ حکومت سے غالب یا کسی اور شاعر کے نام پر کچھ مانگنا یا شکوہ کرنا کوئی جرم تو نہیں، آخر یہ کسی راجے یا نواب کی شخصی حکومت تھوڑا ہی ہے۔ خزانہ عامرہ کا پیسہ ہمارے ہی ٹیکسوں کا پیسہ ہے۔ اب یہ تو ٹھیک ہے کہ انجمن ترقی اردو والے یا ڈاکٹر حمید احمد خان اس موقع پر کچھ کتابیں چھاپ رہے ہیں اور مرزا ظفر الحسن صاحب منظوم جلسے کا اہتمام کر رہے ہیں یا غالب کو کسوٹی پر پرکھ رہے ہیں، لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں۔ چار کتابوں کا چھپنا اور منظوم جلسے میں ہم ایسے شاعروں کا غالب کی زمینوں میں ہل چلانا حق سے ادا ہونا تو نہ ہوا۔ وہ مرحوم تو بڑی اونچی نفیس طبیعت کے مالک تھے۔

    منزل اِک بلندی پر اور ہم بنا لیتے
    عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکان اپنا

    (ممتاز مزاح نگار، شاعر و ادیب ابنِ انشا کی ایک شگفتہ تحریر)

  • غالب کی قرض خواہوں کو تسلیاں اور سفرِ کلکتہ

    غالب کی قرض خواہوں کو تسلیاں اور سفرِ کلکتہ

    برصغیر کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب ہمہ گیر شخصیت کے حامل تھے، اس دور کے مروجہ علوم پر انھیں مکمل عبور حاصل تھا۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت شاعری تھی جو دو صدیاں گزرنے کے بعد بھی کم نہیں ہوئی۔

    شعر و ادب کے ساتھ غالب کی شخصیت خصوصاً ان کا شاعرانہ مزاج بھی ہمیشہ لوگوں کی دلچسپی کا مرکز رہا۔ اس شاعرانہ بلکہ شاہانہ مزاج کی بدولت وہ تاحیات زیر بار قرض رہے مگر اپنی روش نہیں بدلی۔ ان کا اپنا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا بس انگریز سرکار سے ملنے والی خاندانی پنشن پر گزارا تھا۔ یہ پنشن غالب کے گھریلو اور ”ذاتی“ اخراجات کے لیے ناکافی تھی۔ لہذا مرزا تا حیات قرض پہ قرض لیتے رہے۔ قرض کی نا دہندگی کی وجہ سے اکثر مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا بلکہ قید و بند کے مراحل سے بھی گزرنا پڑا۔ اس دور میں انگریز سرکار کا قانون تھا کہ دیوانی مقدمات میں ملوث ملزمان کو گھر سے باہر اور دن کے وقت ہی حراست میں لے سکتے تھے۔ لہٰذا جب گرفتاری کا خدشہ ہوتا تو ان دنوں غالب دن کے اجالے میں گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ اگر کہیں جانا ہوتا تو رات کے وقت جاتے۔

    قرض خواہوں کو تسلی دینے اور اپنی آمدنی میں اضافے کی غالب کے پاس ایک ہی امید تھی کہ ان کی پنشن میں اضافہ ہو جائے اور یہ اضافہ بھی ان کی پیدائش کے وقت سے ہو تاکہ انھیں یکمشت ایک خطیر رقم حاصل ہو جائے۔ اس امید پر مرزا نے عمر گزار دی۔ قریباً تیس برس اسی تگ و دو میں گزرے۔ ان گنت درخواستیں دائر کیں جو مقامی افسران سے لے کر گورنر جنرل اور ملکہ برطانیہ تک کو ارسال کی گئیں۔

    انگریز افسروں کے روبرو اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لیے غالب نے متعدد سفر کیے جس میں کان پور، فیروز پور جھرکا اور فرحت پور شامل ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا طویل ترین سفر دہلی سے کلکتے کا تھا اور یہی غالب کی زندگی کا سب سے لمبا سفر تھا۔ تقریباً تین برس پر محیط اس سفر نے غالب کے مشاہدات و تجربات اور علم و فکر میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔

    اس سے قبل کہ مرزا غالب کے سفر کی روداد بیان کی جائے اس سفر کی وجہ یعنی انھیں ملنے والی پنشن اور ان کے خاندانی پس منظر کا مختصر جائزہ لے لیتے ہیں۔ غالب 1797 ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ابھی چار برس کے تھے کہ ان کے والد مرزا عبداللہ انتقال کر گئے۔ لہذا غالب کے خاندان کے سرپرست ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ قرار پائے۔ نصر اللہ بیگ مرہٹوں کی فوج میں شامل تھے اور آگرہ کی حفاظت پر مامور تھے۔ جب انگریزوں نے آگرہ حملہ کیا تو نصر اللہ بیگ نے بغیر مزاحمت کے آگرہ انگریزوں کے کمان دار لارڈ لیک کے حوالے کر دیا۔ اس کے بدلے میں انگریزوں نے نصر اللہ بیگ کو آگرہ کے قلعے کا قلعہ دار بنا دیا۔ علاوہ ازیں انھیں جاگیر اور انعام و کرام سے بھی نوازا۔ لیکن یہ انعام و کرام اور جاگیریں تا دیر نصر اللہ بیگ کے کام نہ آئیں اور 1806 ء میں ہاتھی سے گر کر انتقال کر گئے۔ ان کے بیوی بچے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ جیسا کہ انگریزوں کا دستور تھا کہ وہ اپنے وفاداروں کو نسل در نسل نوازتے تھے، سرکار نے پس ماندگان کے لیے پنشن مقرر کر دی جس کے نگران نصر اللہ بیگ کے سالے نواب احمد بخش قرار پائے۔ ان کے بقول یہ رقم پانچ ہزار روپے سالانہ تھی۔ جس کی تقسیم کچھ یوں ہوئی (1) خواجہ حاجی دو ہزار روپے سالانہ (2) نصر اللہ بیگ کی والدہ اور تین بہنیں ڈیڑھ ہزار روپے سالانہ (3) مرزا غالب اور ان کے بھائی مرزا یوسف ڈیڑھ ہزار روپے سالانہ۔ غالب اس میں سے چھ سو سالانہ بھائی مرزا یوسف کو دیتے تھے۔ جبکہ بقیہ نو میں سے چار سو اپنی زوجہ امراؤ جان کو دینے کا حکم تھا کیونکہ امراؤ جان نواب احمد بخش کی بھتیجی تھی۔ مرزا غالب اور امراؤ جان کا عقد 1810 ء میں ہوا تھا اس وقت غالب کی عمر تیرہ اور امراؤ جان کی دس برس تھی۔ اسی برس غالب آگرہ سے دہلی منتقل ہو گئے۔ دہلی میں وہ کرائے کے مختلف مکانات میں فروکش رہے ان میں سے آخری بلی ماراں والا مکان تھا۔

    مرزا غالب نے ہوش سنبھالا تو انھیں علم ہوا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ ان کے اعتراضات یہ تھے۔ (اول) پنشن کی اصل رقم پانچ نہیں دس ہزار روپے سالانہ ہے۔ (دوئم) خواجہ حاجی ان کے برائے نام رشتہ دار تھے اس لیے ان کو دی جانے والی رقم غالب اور ان کے بھائی کو ملنی چاہیے۔ مرزا غالب نے جب یہ معاملہ نواب احمد بخش کے سامنے اٹھایا تو بقول غالب انھوں نے پنشن کی رقم دس ہزار تو تسلیم نہیں کی، لیکن خواجہ حاجی کو حصہ دینے کی غلطی تسلیم کی اور وعدہ کیا کہ خواجہ حاجی کے انتقال کے بعد ان کا حصہ غالب اور ان کے بھائی کو ملے گا۔

    لیکن 1823 ء میں خواجہ حاجی کے انتقال کے بعد یہ رقم ان کے بیٹوں کو ملنے لگی۔ یہیں سے غالب کی شکایت میں شدت پیدا ہوئی۔ انھوں نے اس نا انصافی پر آواز اٹھائی لیکن کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔ نواب احمد بخش سے مایوس ہو کر غالب نے دلی میں تعینات انگریز ریذیڈنٹ سے ملاقات کی کوشش شروع کر دی مگر بوجوہ یہ ملاقات نہ ہو سکی یا احمد بخش نے نہ ہونے دی۔ 1825 ء تک غالب کی مالی حالت انتہائی دگرگوں ہو چکی تھی۔ وہ ننھیال اور ددھیال کی تمام موروثی جائیداد بیچ کر کھا چکے تھے اس پر مستزاد بیس ہزار روپے کے مقروض ہو چکے تھے۔

    اس وقت غالب کی عمر صرف اٹھائیس برس تھی۔ اس سے غالب کی شاہ خرچی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ آمدنی جتنی بھی ہو ان کا طرز حیات نہیں بدلا۔ ایک مرتبہ متھرا داس مہاجن نے عدم ادائیگی قرض پر غالب پر مقدمہ کر دیا۔ غالب مفتی صدر الدین آزردہ کی عدالت میں پیش ہوئے جو خود اچھے شاعر اور غالب کے مداح تھے۔ انھوں نے غالب سے پوچھا ”مرزا نوشہ یہ آپ اس قدر قرض کیوں لیا کرتے ہیں“ غالب نے برجستہ جواب میں یہ شعر سنایا:

    قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
    رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

    مفتی صدر الدین ہنس پڑے۔ انھوں نے فیصلہ تو مدعی کے حق میں دیا لیکن غالب کا زر ڈگری ایک دوست کی حیثیت سے خود ادا کر دیا۔

    مرزا غالب کا بال بال قرضے میں جکڑا تھا مگر اس معاملے میں وہ خوش قسمت بھی تھے کہ کسی نہ کسی سے مزید قرض لے لیتے تھے۔ حالانکہ قرض دینے والوں کو بھی علم تھا کہ اس کی واپسی تقریباً نا ممکن ہے۔ جیسا کہ متھرا داس مہاجن غالب کے گھر قرض کی واپسی کا تقاضا کرنے گئے، الٹا دو ہزار روپے مزید دے کر لوٹے۔ ان معاملات کے باوجود غالب کی شاعری اور ان کی شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ حتٰی کہ ان کے مخالفین بھی ان کی شاعری کے معترف تھے۔

    ویسے بھی وہ فن شاعری کی قدرو منزلت کا دور تھا۔ مشاعروں میں ہزاروں کا مجمع ہوتا۔ جہاں چار پڑھے لکھے افراد جمع ہوتے شعر و شاعری کا تذکرہ لازمی ہوتا۔ غالب کی شاعری نوجوانی میں ہی سند قبولیت حاصل کر چکی تھی۔ ابھی ان کا دیوان شائع نہیں ہوا تھا کہ ان کے اشعار زبان زد عام ہو چکے تھے۔ کوٹھے کی مغنیہ ہو یا گلی میں پھرتے بنجارے ہر ایک کی زبان پر غالب کے اشعار ہوتے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں زندگی شاعری کے بل بوتے نہیں گزرتی، اس کے تقاضے اور بھی ہیں۔

    جب دہلی میں شنوائی نہیں ہوئی تو غالب نے کلکتہ جا کر گورنر جنرل سے ملنے کا ارادہ کر لیا۔ اس دور میں ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے بھی ویسی ہی تیاری کرنی پڑتی تھی جیسے پردیس جا رہے ہوں۔ اکتوبر 1826ء میں غالب براستہ کانپور لکھنؤ پہنچے۔ دوران سفر وہ بیمار پڑ گئے وہ بھی ایسے کہ صحت یاب ہوکے نہیں دیتے تھے۔ اگرچہ اس وقت وہ نوجوان تھے مگر انھیں کئی بیماریاں لاحق تھیں۔ اودھ میں مرزا کے قریبی دوست امام بخش ناسخ رہتے تھے ان کی بدولت غالب کا علاج جاری رہا۔

    ان دنوں اودھ پایہ تخت دہلی سے آزاد ایک خود مختار ریاست تھی۔ غازی الدین حیدر اس کے بادشاہ تھے معتمد الدولہ آغا میر وزیر اعظم تھے۔ آغا میر شعر و شاعری کے قدردان تھے اور شعرا کی سرپرستی کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے غالب سے ملنے خواہش ظاہر کی۔ غالب کو خلعت اور انعام کرام ملنے کی امید پیدا ہوئی۔ انھوں نے اپنے دوست امام بخش ناسخ کے مشورے پر آغا میر کے لیے ایک سو دس اشعار پر مشتمل قصیدہ لکھا۔ مگر اپنی افتادِ طبع کے مطابق تین شرائط بھی رکھ دیں۔

    پہلی شرط یہ کہ معتمد الدولہ کھڑے ہو کر ان کا استقبال کریں گے۔ دوسری شرط، ان سے معانقہ کریں گے اور تیسری شرط، غالب کو نذر پیش کرنے سے معافی دی جائے۔ ان کے پاس دینے کے لیے کچھ تھا بھی نہیں۔ وزیر اعظم نے غالب کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا اور غالب نے ملاقات سے معذرت کر لی۔ غریب الوطنی اور مالی مجبوریوں کے باوجود حاکم وقت کے آگے ایسی شرائط رکھنا اور پھر ملنے سے انکار کرنا، بظاہر نادانی لگتی ہے مگر وہ غالب تھے۔ ایسے لوگ دماغ سے نہیں دل سے سوچتے ہیں۔ ان کی طبیعت کا غنا انھیں کسی کے آگے سر جھکانے نہیں دیتا۔ انھی کا مشہور شعر ہے۔

    بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
    تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں

    شاہ میر غالب کے خلاف ہو گیا اور اس نے انھیں شاہ اودھ سے بھی ملنے نہیں دیا۔ غالب نو ماہ تک لکھنؤ میں مقیم رہے۔ ان کی بیماری میں افاقہ نہیں ہوا۔ مجبوراً اسی حالت میں انھوں نے رخت سفر باندھا اور اکیس جون 1827 ء کو لکھنؤ سے روانہ ہو گئے۔ اس دور کی مشکلات سفر کا اندازہ لگائیے کہ لکھنؤ سے کانپور کے درمیان تقریباً سو کلومیٹر کا فاصلہ پانچ دن میں طے ہوا۔ یہ سفر یکے پر کیا گیا۔ کان پور سے غالب باندہ پہنچے جہاں کے نواب ذوالفقار بہادر علی غالب کے عزیز اور شاگرد تھے۔

    انھوں نے غالب کی خوب مدارت کی اور علاج بھی کروایا جس سے انھیں کچھ افاقہ ہوا۔ غالب کلکتہ جانا چاہتے تھے مگر زاد سفر کے نام پر ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں تھی۔ مناسب موقع پا کر انھوں نے نواب ذوالفقار علی سے دو ہزار روپے قرض مانگ لیا۔ غالب کے بقول انھوں نے براہ راست تو یہ رقم نہیں دی کہ شاید میں واپس نہ کر سکوں لیکن ایک مہاجن سیٹھ امی کرن سے دو ہزار روپے قرض دلوا دیے۔ غالب کا مسئلہ وقتی طور پر حل ہو گیا اور وہ دو ہزار روپے لے کر باندے سے بذریعہ بیل گاڑی روانہ ہو گئے۔

    راستے میں انھوں نے ایک گھوڑا خرید لیا۔ جمنا کنارے پہنچے تو کشتی کرائے پر لی اور گھوڑے سمیت اس پر سوار ہو گئے۔ ستائیس نومبر 1827ء وہ الہ آباد پہنچے۔ غالب کا ارادہ یہاں چند ہفتے قیام کرنے کا تھا مگر پہلی ہی شام ایک ادبی تقریب میں ان کی مولوی امام شہید سے تلخ کلامی ہو گئی۔ مولوی شہید، قتیل کے شاگرد تھے جس سے غالب شدید متنفر تھے۔ اس واقعہ سے غالب اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ اگلے ہی روز بنارس روانہ ہو گئے۔ اپنے خطوط میں غالب نے الہ آباد کے باسیوں کو آداب محفل سے نا آشنا اور اجڈ قرار دیا۔ انھیں یہ شہر، شہر نہیں ویرانہ لگا۔ آگے کا سفر بھی غالب نے جمنا کی لہروں پر ڈولتی کشتی میں کیا اور وہ بنارس پہنچ گئے۔

    بنارس شہر غالب کو خوب بھایا۔ جمنا کے کنارے بسا یہ شہر، اس کے سر سبز نظارے، صبح دم مندروں کی گھنٹیوں کی صدا، سر شام جمنا کے پانیوں کو چھوتی ہوا اور اس کا غارت ایماں حسن غالب کے دل میں گھر کر گیا۔ ان کا دل چاہا کہ ہمیشہ کے لیے اس شہر میں بس جائیں۔ حالانکہ دیگر شہروں کی نسبت بنارس میں ان کا کوئی قریبی دوست نہیں تھا۔ ان کا مزاج بھی ایسا نہیں تھا کہ احباب کے بغیر تنہا خوش رہیں۔ آثار سے لگتا ہے کہ کسی غارت گر کے عشق نے غالب کے قدم روک دیے تھے۔

    دوسرا یہ معجزہ بھی ہوا کہ اس شہر کی آب و ہوا غالب کو راس آئی اور ان کی صحت بحال ہو گئی۔ بہرحال انھوں نے چار ہفتے بنارس میں قیام کیا۔ غالب جہاں جہاں قیام کرتے رہے وہاں کے احباب سے سفارشی خطوط بھی لکھوا کر ساتھ رکھتے رہے تاکہ کلکتہ جا کر انھیں استعمال کر سکیں۔ جیسے باندہ کے سول جج نواب محمد علی خان غالب کے دوست بن گئے تھے انھوں نے کلکتے کے ایک معزز نواب اکبر علی خان کے نام رقعہ لکھ دیا۔

    دہلی سے کلکتہ کا ایک ہزار میل کا یہ سفر غالب نے 17 ماہ میں طے کیا۔ یوں تو یہ سفر حصول پنشن کی غرض سے تھا مگر مرزا غالب نے اسے سیاحتی، تفریحی اور تہذیبی سفر بھی بنا دیا۔ جس شہر میں جاتے وہاں طویل قیام کرتے، ادبی اور سماجی حلقوں سے رابطے ہوتے اور شعر و شاعری کے جھنڈے گاڑ کر داد و تحسین وصول کرتے۔ اگرچہ زاد سفر قرض لے کر نکلے تھے مگر کہیں تنگ چشمی سے کام نہیں لیا اور دریا دلی سے خرچ کرتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جو دو ہزار روپے باندہ سے قرض لے کر نکلے تھے کلکتہ پہنچنے تک اس میں سے چھ صد روپے باقی بچے تھے۔ حالانکہ اس دور میں روپے کی قدر اتنی تھی کہ کلکتہ پہنچ کر انھوں نے جو مکان کرائے پر لیا اس کا ماہانہ کرایہ چھ روپے تھا۔ مکان خاصا بڑا تھا اور اس میں گھوڑا رکھنے کی بھی گنجائش تھی۔

    کلکتہ میں ابتدا ہی میں غالب کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب وہ باندے کے نواب محمد علی خان کا تعارفی خط لے کر اور کشتی کرائے پر لے کر نواب اکبر علی خان کے گھر پہنچے جو کلکتہ کے مضافاتی علاقے بگلی میں واقع تھا۔ انھیں معلوم ہوا تھا کہ نواب اکبر علی خان کے انگریز کلکٹر سے دوستانہ روابط ہیں۔ مگر جب غالب گئے تو نواب صاحب نے بتایا کہ کلکٹر صاحب سے ان کے تعلقات اب کشیدہ ہو چکے ہیں اور وہ کسی قسم کی مدد کرنے سے قاصر ہیں۔

    اودھ حکومت کے سفیر منشی عاشق علی سے غالب کو کافی امید تھی اور ان کے نام بھی سفارشی خط لکھو اکر لائے تھے۔ مگر شومئی قسمت سے غالب کے پہنچنے تک منشی عاشق علی کو لکھنؤ واپس بلا لیا گیا۔ گویا ہر جانب مایوسی اور ناکامی کا سامنا تھا۔ جہاں تک ادبی پذیرائی کا تعلق ہے کلکتہ میں بھی غالب کے پرستار موجود تھے مگر ان کی تعداد مٹھی بھر تھی۔ اس کی ایک وجہ تو دہلی سے دوری اور رسل و رسائل کی کمی تھی۔ ویسے بھی یہاں بنگالی زبان بولی جاتی تھی اور اردو کا چلن عام نہیں تھا۔

    دوسری وجہ مرزا محمد حسین قتیل (1759۔ 1818) کی مقبولیت تھی۔ مرزا قتیل اپنے عہد کے ممتاز فارسی داں تھے اور فارسی میں ہی شاعری کرتے تھے۔ انھوں نے فارسی قواعد کی چند کتب لکھی تھیں جن میں چہار شربت اور نہر الفصاحت مشہور ہیں۔ اگرچہ ان کا تعلق لکھنؤ سے تھا مگر وہ کلکتہ میں بھی خاصے مقبول تھے۔ جب غالب کلکتہ گئے تو ان کا انتقال ہوئے دس برس گزر چکے تھے لیکن ان کی مقبولیت برقرار تھی۔ دوسری جانب غالب بزعم خود اپنے دور کے سب سے بڑے فارسی دان تھے اور اپنے مقابل کسی کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔

    یہ تو سب جانتے ہیں کہ جو غالب کے دل میں ہوتا تھا اسے زبان پر لانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ لہذا قتیل سے ان کی نفرت پوشیدہ نہ رہ سکی۔ دوسری جانب قتیل کے شیدائیوں اور چاہنے والوں کی بڑی تعداد کلکتہ میں تھی۔ وہ موقع کی تلاش میں تھے۔ ایک مشاعرے میں غالب نے فارسی اشعار سنائے تو ایک شخص کھڑا ہو گیا اور اعتراض اٹھا دیا کہ اس میں قواعد گرائمر کی غلطی ہے۔ بس پھر کیا تھا غالب کے خلاف شور مچ گیا اور محفل درہم برہم ہو گئی۔ اگلے دن پورے شہر میں اس واقعے کا چرچا تھا۔

    غالب کو یہ بھی فکر تھی کہ میں تو واپس دلّی چلا جاؤں گا مگر اس شہر کے لوگ کہیں گے کہ ایک شر پسند اور فسادی شخص آیا تھا فساد برپا کر کے چلا گیا۔ لہذا انھوں نے تحریری معذرت کی اور قتیل کی کچھ توصیف بھی کی۔ بہرحال مرزا غالب کو کلکتے میں وہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکی جس کے وہ مستحق تھے۔ اب اسی کلکتے میں اس گلی کا نام غالب سے موسوم ہے جس میں ان کا قیام تھا جس طرح دہلی میں غالب میوزیم اور غالب اکیڈمی موجود ہیں۔ لیکن جانے والے کو اب کیا فائدہ۔ حیات انسانی کے دیگر بے شمار موضوعات کے ساتھ اس موضوع پر بھی غالب کا شعر موجود ہے۔ :

    کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
    ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

    کلکتے میں غالب کے مخالفین میں مرزا افضل بیگ نمایاں تھے۔ وہ حاجی جان کے بیٹوں کے ماموں اور ان کے وکیل تھے۔ خاندان مغلیہ کا شاہی وکیل ہونے کے وجہ سے انگریز سرکار سے ان کے قریبی روابط تھے۔ مرزا افضل بیگ نے سرکاری حلقوں اور عوام الناس میں غالب کے خلاف خوب زہر بھرا۔ انھوں نے ہی یہ مشہور کیا تھا کہ غالب قتیل کو برا بھلا کہتے ہیں۔ غالب کو ملحد اور زندیق مشہور کر دیا گیا اور یہ کہ وہ بار بار نام بدلتے رہتے ہیں۔ مجبوراً نام کے معاملے میں غالب کو تحریری صفائی دینی پڑی۔ یوں غالب کے خلاف ہر جانب محاذ کھڑا کیا گیا۔

    مارچ 1828ء میں گورنر جنرل کا دربار لگنا تھا۔ درخواست کی جانچ پڑتال اور اس کا انگریزی ترجمہ کرنے کی ذمہ داری William Frazer کی تھی۔ غالب نے اپنی درخواست میں تین استدعا کی تھیں (1) حکومت نصر اللہ بیگ کے ورثا کا تعین خود کرے اور ہر وارث کو الگ پنشن دی جائے (2) دوئم یہ کہ جو رقم نواب احمد بخش نے حکومت سے لی اور ورثا میں تقسیم نہیں کی وہ اس کی جائیداد ضبط کر کے وصول کی جائے اور ورثا میں تقسیم کی جائے (3) آئندہ پنشن براہ راست سرکار کے خزانے سے ادا کی جائے۔

    درخواست داخل کرنے کے لیے غالب ولیم فریزر سے ملاقات کے لیے گئے تو انھیں اپنے مقام و مرتبے کا بھی احساس تھا مگر وہ مطمئن لوٹے کیونکہ ولیم فریزر نے کھڑے ہو کر ان کا سلام قبول کیا اور عطر اور پان سے ان کی تواضع کی۔ ولیم فریزر نے یہ بھی بتایا کہ درخواست دہلی ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے توسط سے پیش کرنی چاہیے تھی۔ تاہم اس نے درخواست گورنر کے سامنے پیش کرنے کی منظوری دے دی۔ گورنر جنرل نے اس دن دس درخواستیں نمٹانی تھیں۔ غالب کا ان میں آخری اور دسواں نمبر تھا۔

    افضل بیگ وکیل نے جوابی دعویٰ پیش کیا اور غالب پر دروغ گوئی اور مکاری کا الزام عائد کیا کہ موقع کی مناسبت سے یہ شخص اپنا نام بدلتا رہتا ہے کبھی نوشہ، کبھی اسد، کبھی غالب اور کبھی نام کے ساتھ بیگ اور خان بھی لکھتا ہے۔ گویا غالب کی افتاد طبع کو ان کی دھوکا دہی اور نوسر بازی کا نام دے دیا گیا۔ گورنر جنرل نے غالب کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کردی کہ اسے دہلی کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے توسط سے آنا چاہیے تھا۔ یہ غالب کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ وہ سالوں سے جو بھاگ دوڑ کر رہے تھے اور تین برسوں سے گھر سے بے گھر مسافر بنے ہوئے تھے، وہ ساری محنت اکارت گئی تھی۔ انھیں بے نیل مرام واپس لوٹنا پڑا۔

    پنشن تو بحال نہ ہوئی مگر دلّی واپس جانے کے لیے غالب کو ڈیڑھ ہزار روپوں کی ضرورت تھی۔ گھوڑا وہ پہلے ہی ڈیڑھ سو روپے میں فروخت کرچکے تھے۔ باندے والے دوست محمد علی خان دو مرتبہ دو دو سو روپے بھجوا چکے تھے۔ آگرہ سے والدہ نے 475 روپے بھجوائے۔ غالب نے کلکتہ کے ایک بڑے مہاجن راؤ شیو رام سے بھی ملاقاتیں کیں۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انھیں کتنا قرض ملا۔ کلکتہ جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا الٹا قرض کا بوجھ مزید بڑھ گیا۔ غالب کو یہ بھی فکر تھی اب قرض خواہوں کا سامنا کیسے کریں گے۔

    وہ اس لیے بھی دلّی جلد لوٹنا چاہتے تھے کہ گورنر جنرل دلّی کے دورے پر آرہے تھے۔ غالب ان سے پہلے پہنچ کر اپنی درخواست ریذیڈنٹ کے ایڈیٹر کے توسط سے انھیں پیش کرنا چاہتے تھے۔ وہ 20 اگست 1829ء کو کلکتہ سے روانہ ہو کر 8 نومبر 1829ء کو دہلی پہنچے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ دہلی پہنچ کر انھیں علم ہوا کہ گورنر جنرل نے بنارس پہنچ کر اپنا ارادہ بدل دیا اور دلی آنے کے بجائے کلکتہ واپس لوٹ گئے۔

    1835ء میں نواب شمس الدین کو ولیم فریزر کے قتل کی سزا میں پھانسی ہو گئی اور ان کی جائیداد ضبط ہو گئی۔ موقع غنیمت جان کر غالب نے آگرہ پریزیڈنسی میں ایک اور درخواست بھجوائی کہ مرزا نصر اللہ بیگ کا وارث ہونے کی حیثیت سے اس جائیداد کا ایک حصہ انھیں ملنا چاہیے تاکہ وہ قرض سے نجات پا سکیں۔ گورنر جنرل نے یہ درخواست بھی رد کردی اور یہ فائل ہمیشہ کے لیے بند کر دی۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر غالب نے گورنر جنرل کے توسط سے ہی ایک درخواست لندن میں ملکہ وکٹوریہ کو بھیجی جس کا جواب کبھی نہیں آیا۔ مرزا غالب نے 1823ء سے 1860ء تک تقریباً 37 برس تک پنشن میں اضافے کے لیے مسلسل جدوجہد کی مگر انھیں کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ ان کا یہ شعر ان پر صادق آتا ہے۔

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
    اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

    (آسٹریلیا میں مقیم افسانہ نگار، کالم نویس اور متعدد کتابوں کے مصنّف طارق مرزا کی تحریر)

  • علّامہ اقبال حضرت محبوب الہیٰ کے مزار پر

    علّامہ اقبال حضرت محبوب الہیٰ کے مزار پر

    1905ء میں یورپ روانگی کے ارادے سے علّامہ اقبال لاہور سے دلّی پہنچے تو وہاں خواجہ نظام الدّین اولیاء کی درگاہ پر حاضری دی۔ اس درگاہ پر اقبال نے اپنی نظم ’التجائے مسافر‘ پڑھی تھی۔

    محبوب الٰہی نظام الدّین اولیاء سلسلۂ چشتیہ کے چوتھے صوفی بزرگ تھے جن کے ارادت مند برصغیر میں پھیلے ہوئے تھے اور آج بھی ان کے عرس پر کثیر تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ علّامہ اقبال کو اولیاء اللہ اور صوفیائے کرام سے بڑی عقیدت تھی اور اس کا اندازہ ان کی نظم کے اشعار سے کیا جاسکتا ہے۔ اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں؛ ’دو دفعہ حضرت خواجہ نظام الدّین کی درگاہ پر حاضر ہوا تھا۔ خواجہ حسن نظامی صاحب نے بہت اچھی قوالی سنوائی۔‘

    علّامہ کبھی کبھار دلّی آتے تھے، جس کی ایک وجہ ان کا حکیم نابینا سے علاج معالجہ کا سلسلہ بھی تھا۔ ستمبر میں یورپ روانگی سے قبل دلّی آمد کے بعد وہاں مختصر قیام کے دوران علّامہ اقبال اردو کے مشہور شاعر مرزا غالب کے مدفن پر بھی گئے تھے۔

    دلّی کی روداد علّامہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیے: ریلوے اسٹیشن پر خواجہ سید حسن نظامی اور شیخ نذر محمد صاحب اسسٹنٹ انسپکٹر مدارس موجود تھے۔ تھوڑی دیر کے لیے شیخ صاحب موصوف کے مکان پر قیام کیا۔ ازاں بعد حضرت محبوب الہیٰ کے مزار پر حاضر ہوا اور تمام دن بسر کیا۔ اللہ اللہ! حضرت محبوب الہیٰ کا مزار بھی عجیب جگہ ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ دہلی کی پرانی سوسائٹی حضرت کے قدموں میں مدفون ہے۔ خواجہ حسن نظامی کیسے خوش قسمت ہیں کہ ایسی خاموش اور عبرت انگیز جگہ میں قیام رکھتے ہیں۔ شام کے قریب ہم اس قبرستان سے رخصت ہونے کو تھے کہ میر نیرنگ نے خواجہ صاحب سے کہا کہ ذرا غالب مرحوم کے مزار کی زیارت بھی ہوجائے کہ شاعروں کا حج یہی ہوتا ہے۔ خواجہ صاحب موصوف ہم کو قبرستان کے ایک ویران سے گوشے میں لے گئے جہاں وہ گنج معانی مدفون ہے، جس پر خاکِ دہلی ہمیشہ ناز کرے گی۔ حسنِ اتفاق سے اس وقت ہمارے ساتھ ایک نہایت خوش آواز لڑکا ولایت نام تھا، اس ظالم نے مزار کے قریب بیٹھ کر”دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی…..” کچھ ایسی خوش الحانی سے گائی کہ سب کی طبیعتیں متاثر ہوگئیں، بالخصوص جب اس نے یہ شعر پڑھا:

    وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
    اٹھیے بس اب کہ لذت خوابِ سحر گئی

    تو مجھ سے ضبط نہ ہوسکا، آنکھیں پرنم ہوگئیں اور بے اختیار لوحِ مزار کو بوسہ دے کر اس حسرت کدے سے رخصت ہوا۔ یہ سماں اب تک ذہن میں ہے اور جب کبھی یاد آتا ہے تو دل کو تڑپاتا ہے۔

    اگرچہ دہلی کے کھنڈر مسافر کے دامنِ دل کو کھینچتے ہیں، مگر میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ہر مقام کی سیر سے عبرت اندوز ہوتا۔ شہنشاہ ہمایوں کے مقبرے پر فاتحہ پڑھا، دارا شکوہ کے مزار کی خاموشی میں دل کے کانوں سے ھوالموجود کی آواز سنی اور دہلی کی عبرت ناک سرزمین سے ایک ایسا اخلاقی اثر لے کر رخصت ہوا، جو صفحۂ دل سے کبھی نہ مٹے گا۔ تین ستمبر کی صبح کو میر نیرنگ اور شیخ محمد اکرام اور باقی دوستوں سے دہلی میں رخصت ہو کر بمبئی کو روانہ ہوا اور 4 ستمبر کو خدا خدا کر کے اپنے سفر کی پہلی منزل پر پہنچا۔

  • ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!‘‘

    ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!‘‘

    ادھر کئی مہینوں سے مکان کی تلاش میں شہر کے بہت سے حصوں اور گوشوں کی خاک چھاننے اور کئی محلّوں کی آب و ہوا کو نمونے کے طور پر چکھنے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ جس طرح ہر گلی کے لیے کم سےکم ایک کم تول پنساری، ایک گھر کا شیر کتا، ایک لڑا کا ساس، ایک بد زبان بہو، ایک نصیحت کرنے والے بزرگ، ایک فضیحت پی جانے والا رند، اور حوائجِ ضروری سے فارغ ہوتے ہوئے بہت سے بچوں کا ہونا لازمی ہوتا ہے، اسی طرح کسی نہ کسی بھیس میں ایک ماہرِ غالبیات کا ہونا بھی لازمی ہوتا ہے اور بغیر اس کے گرد و پیش کا جغرافیہ کچھ ادھورا رہ جاتا ہے۔

    اچھا بھلا ایک مکان مل گیا تھا لیکن ابھی اس میں منجملہ اسبابِ ویرانی میرا لپٹا ہوا بستر بھی ٹھیک سے کھل نہیں پایا تھا کہ محلّے کے ماہرِ غالبیات نے نہیں معلوم کیسے سونگھ لیا کہ میں سخن فہم نہ سہی غالب کا طرف دار ضرور ہوں اور مجھے اپنی غالبانہ گرفت میں ایک صید زبوں کی طرح جکڑ لیا۔ آتے ہی آتے انہوں نےغالب کے متعلق دوچار حیرت انگیز انکشافات کے بعد مجھے پھانسنے کے لیے ایک آدھ ہلکے پھلکے سوالات کر دیے۔ اب میری حماقت ملاحظہ ہو۔۔۔ کہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو بہت بڑاغالب فہم سمجھتا۔ میں نے ان کو نرم چارہ سمجھ کر ان پر دوچار منھ ماردیے یا یوں سمجھ لیجیے ان کی دُم پر پیر رکھ دیا یعنی ان کے سامنے غالب کو اپنے مخصوص زاویہ نگاہ سے پیش کرنے کی ’’سعی لا حاصل‘‘ کر بیٹھا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ میں کسی بارود کے خزانے کے قریب دیا سلائی جلانے کی کوشش کر رہا ہوں؟

    پھر کیا تھا، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں‘‘ چیخ کر ماہرِ غالبیات پھٹ تو پڑے مجھ پر! اور میری معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے فنِ غالبیات کی ایسی ایسی توپوں اور آتش فشانوں کے دہانے کھول دیے کہ میں سراسیمہ، مبہوت اور ششدر ہو کر ہمیشہ کے لیے عہد کر بیٹھا کہ اب آئندہ کسی اجنبی بزرگ کے سامنے حضرت غالب کا نام اپنی زبان بے لگام سے ہرگز ہرگز نکلنے نہ دوں گا۔ دوسرے ہی دن سے ماہر غالبیات نے، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ کے عنوان سے میری باقاعدہ تعلیم شروع کر دی۔ سویرے میں بستر ہی پر ہوتا کہ وہ ’’لذت خواب سحر‘‘ پر دھاوا بولتے آپہنچتے اور پہلے غالب کے کچھ انتہائی سنگلاخ اشعار پڑھ کر ان کے معنی مجھ سے پوچھتے، گویا میرا آموختہ سنتے اور پھر قبل اس کے کہ میں ایک لفظ بھی اپنی زبان سے نکال پاؤں، وہ ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ فرما کر ان کے معنی اور مطالب خود بیان کرنا شروع کر دیتے۔

    آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
    مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

    اور پھر نوبت یہاں تک پہنچتی کہ میں داڑھی بنارہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ حسن سمجھا رہے ہیں۔ میں کنگھا کر رہا ہوں اور وہ آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز، میں مسئلہ ارتقا کو پروان چڑھتے دیکھ رہے ہیں۔ میں کپڑے بدل رہا ہوں اور وہ ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا، پڑھ پڑھ کر اور گاہے گاہے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگا لگا کر غالب کو ہندوستان کا سب سے پہلا انقلابی ثابت کر رہے ہیں۔ میں جوتے کی ڈوریاں باندھ رہا ہوں اور وہ ’بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے‘ والے مصرع سے فضائے آسمانی پر اسپٹنگ چھوڑ رہے ہیں۔ میں ناشتہ کر رہا ہوں اور وہ ’’مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے‘‘ دہرا دہرا کر غالب کے علم الغذا پر کچھ اس انداز سے روشنی ڈال رہے ہیں کہ میرے منہ کا نوالہ حلق میں جانے سے انکار کر بیٹھتا ہے۔ میں دفتر جانے کے لیے سائیکل نکال رہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ عمرانیات بیان کر رہے ہیں۔ میں سائیکل پر بیٹھ چکا ہوں اور وہ شام کو دفتر سے میری واپسی پر غالب اور ضبطِ تولید کے موضوع پر اپنے تازہ ترین الہامات کو مجھ پر نازل کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

    شام کو ظہور پذیر ہوتے تو غالب اور دوسرے شعرا کا موازنہ شروع فرما دیتے اور غالب کے منہ لگنے والے دیگر تمام شعرا کو قابل گردن زدنی قرار دے کر بھی جب تسلی نہ ہوتی تو غالب کے مختلف شارحین کا پہلے سرکس پھر کشتی شروع کرا دیتے اور کافی دھر پٹخ کے بعد جب ہر شارح کافی پست ہو چکتا تو خود بھی اکھاڑے میں کود پڑتے اور فرداً فرداً ہر شارح کو پچھاڑتے اور پھر ہر شعر کے متعلق اپنی ایک انوکھی، اچھوتی اور عجوبۂ روزگار شرح کا آغاز کر دیتے جس کا انجام غالباً اس وقت تک نہ ہوتا جب تک میں اپنے ہوش و حواس کی قید و بند سے نجات پاکر وہاں نہ پہنچ جاتا جہاں سے خود مجھ کو میری خبر نہ آتی، یعنی بالکل ہی بے سدھ ہو کر اپنے بستر پر گر نہ جاتا۔

    کئی مرتبہ تکلف برطرف کرکے منت سماجت کی، ہاتھ جوڑے، داڑھی میں ہاتھ دیا، کان پکڑ کر اٹھا بیٹھا اور حرف مطلب یوں زبان پر لایا کہ اے ماہرِ غالبیات آپ کو آپ کے حضرت غالب مبارک! مجھ مغلوب کو میرے ہی حال پر چھوڑ دیجیے تو آپ کی غالبیت میں کون سا بٹا لگ جائے گا؟ میں ایک گدائے بے نوا ہوں، احمق، جاہل اور ہیچمداں ہوں۔ میرے ایسے ذرۂ ناچیز کو غالب ایسے آفتاب عالم تاب سے کیا نسبت؟ میں حضرت غالب کا صرف اس قدر گنہگار ہوں کہ عالمِ طفولیت میں ایک مولوی صاحب نے اسکول میں کورس کی کتاب سے ان کی چند غزلیں زبردستی پڑھا دی تھیں۔ اس کے علاوہ مجھ سے قسم لے لیجیے جو میں نے کبھی انہیں ہاتھ بھی لگایا ہو اور ہاتھ لگاتا بھی خاک…. ہاتھ آئیں تو لگائے نہ بنے! غالب کو میں کیا میری سات پشتیں بھی نہیں سمجھ سکتیں۔

    لیکن ماہرِ غالبیات بھلا کب ماننے والے تھے؟ میرے اظہارِ بیچارگی سے ان کی ہمہ دانی میں اور بھی چار چاند لگ جاتے اور فخر و تمکنت سے ان کے گلے کی رگیں پہلے سے بھی زیادہ پھولنے لگتیں،

    ’’ہو گا کوئی ایسا بھی جو غالب کو نہ جانے؟

    دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور!

    آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!

    اے دریغاوہ رند شاہد باز!‘‘

    اور یہ فرمانے کے بعد وہ غالب کے متعلق اپنی تحقیق اور دریافت کی گولہ باری مجھ پر کچھ اور تیز کر دیتے۔

    بس کیا عرض کیا جائے کہ کس طرح عاجز اور پریشان کر رکھا تھا ان ماہرِ غالبیات نے۔ ان سے جان چھڑانے کے لیے بیسیوں ترکیبیں کیں۔ محلّے کے با اثر لوگوں کا دباؤ ڈالوایا۔ گمنام خطوط لکھے۔ ایک انسپکٹر پولیس سے ان کے خلاف کوئی فرضی مقدمہ چلانے کی فرمائش کی، بیماری کا ڈھونگ بنایا۔ بہرے بنے (تو التفات دونا ہوگیا۔) دوستوں کے گھر جا کر پناہ لی، گھر کے دروازے بند کرائے۔ نوکر کو ہدایت کی کہ ’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے!‘‘ لیکن اجی توبہ کیجیے۔…. اہل تدبیر کی وا ماندگیاں!

    ان حالات میں اسے چاہے میری بد ذاتی کہیے، چاہے اقدامِ قتل سے گریز کہ جیسے ہی مجھے ایک دوسرا مکان ملا جو اگرچہ میرے پہلے مکان کا صرف نصف بہتر معلوم ہوتا، میں رسیاں تڑا کر بھاگا۔ ماہر غالبیات سے میں نے کہہ دیا کہ میں شہر کیا صوبہ چھوڑ رہا ہوں اور وہ مجھے آبدیدہ ہوکر رخصت کرنے آئے تو بڑے رقت انگیز لہجے میں فرمایا، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ اور اگر میں ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی۔‘‘ نہ چیختا اور غلطی سے تانگے والا اس اس کا مخاطب اپنے آپ کو سمجھ کر فوراً تانگہ ہانک نہ دیتا تو یقیناً ماہرِ غالبیات مجھے ایک فی البدیہ الوداعی جلاب دیے بغیر ہرگز نہ مانتے۔ اپنے ان جان لیوا ماہرِ غالبیات سے چھٹکارا پاکر مجھے جو مسرتِ بے پایاں حاصل ہوئی اس کا اظہار غالباً غیرضروری ہے۔

    (ادیب اور طنز و مزاح نگار وجاہت علی سندیلوی کے قلم سے)

  • نجات کا طالب غالب

    نجات کا طالب غالب

    مرزا غالب کی غزلیں‌ ہی نہیں ان کے خطوط بھی مشہور ہیں۔ غالب نے اردو زبان میں خطوط نویسی میں پُر تکلّف زبان، القاب اور روایتی طریقۂ سلام و پیام کو اہمیت نہ دی بلکہ اس روش کو ترک کر کے اردو خطوط نویسی کو خوش مزاجی، لطف اور تازگی سے بھر دیا۔ ابنِ‌ انشاء اردو کے ممتاز مزاح نگار اور شاعر تھے جن کی کتاب خمارِ گندم میں شامل غالب کا ایک فرضی خط یہاں ہم نقل کر رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    منشی صاحب میاں داد خاں سیاح

    یہ خط نواب غلام بابا خاں کے توسط سے بھیج رہا ہوں کہ تمہارا تحقیق نہیں اس وقت کہاں ہو۔ اشرف الاخبار تمہارے نام بھجوایا تھا، وہ واپس آگیا کہ مکتوب الیہ شہر میں موجود نہیں۔ اس اخبار کے مہتمم صاحب کل آئے تو کچھ اخبار بلاد دیگر کے دے گئے کہ مرزا صاحب انہیں پڑھیے اور ہو سکے تو رنگ ان لوگوں کی تحریر کا اختیار کیجیے کہ آج کل اسی کی مانگ ہے۔

    یہ اخبار لاہور اور کرانچی بندر کے ہیں۔ کچھ سمجھ میں آئے کچھ نہیں آئے۔ آدھے آدھے صفحے تو تصویروں کے ہیں۔ دو دو رنگ کی چھپائی موٹی موٹی سرخیاں۔ افرنگ کی خبریں۔ اگر بہت جلد بھی آئیں تو مہینہ سوا مہینہ تو لگتا ہی ہے لیکن یہ لوگ ظاہر کرتے ہیں کہ آج واردات ہوئی اور آج ہی اطلاع مل گئی۔ گویا لوگوں کو پرچاتے ہیں۔ بے پر کی اڑاتے ہیں۔ پھر ایک ہی اخبار میں کشیدہ کاری کے نمونے ہیں، ہنڈیا بھوننے کے نسخے ہیں۔ کھیل تماشوں کے اشتہار ہیں۔ ایک لمبا چوڑا مضمون دیکھا، ’’اداکارہ دیبا کے چلغوزے کس نے چرائے۔‘‘ سارا پڑھ گیا۔ یہ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا بات ہوئی۔ کسی کی جیب سے کسی نے چلغوزے نکال لیے تو یہ کون سی خبر ہے۔

    خیر یہ سب سہی، لطیفے کی بات اب کہتا ہوں۔ کرانچی کے ایک اخبار میں میرے تین خط چھپے ہیں۔ ایک منشی ہرگوپال تفتہ کے نام ہے، ایک میں نواب علائی سے تخاطب اور ایک میر مہدی مجروح کے نام۔ میں حیران کہ ان لوگوں نے میرے خطوط اخبار والوں کو کیوں بھیجے۔ اب پڑھتا ہوں تو مضمون بھی اجنبی لگتا ہے۔ اب کہ جو شراب انگریزی سوداگر دے گیا ہے کچھ تیز ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ کبھی کبھی کیفیت اک گونہ بے خودی سے آگے کی ہو جاتی ہے۔ یا تو میں نے اس عالم میں لکھے اور کلیان اٹھا کر ڈاک میں ڈال آیا۔ یا پھر کسی نے میری طرف سے گھڑے ہیں اور اندازِ تحریر اڑانے کی کوشش کی ہے۔ کونے میں کسی کا نام بھی لکھا ہے، ابنِ انشا۔

    کچھ عجب نہیں یہی صاحب اس شرارت کے بانی مبانی ہوں۔ نام سے عرب معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کیا حرکت ہے۔ سراسر دخل در معقولات ہے۔ اخبار نویسی میں ٹھٹول کیا معنی؟ بھئی مجھے بات پسند نہیں آئی۔ امید ہے وہ ٹوپیاں تم نے نواب صاحب کو پہنچا دی ہوں گی۔ نواب صاحب سے میرا بہت بہت سلام اور اشتیاق کہنا۔ میں سادات کا نیاز مند اور علی کا غلام ہوں۔

    نجات کا طالب
    غالب

  • ’ہوئی مدت کہ غالب مَر گیا پر یاد آتا ہے!‘

    ’ہوئی مدت کہ غالب مَر گیا پر یاد آتا ہے!‘

    مرزا غالب اردو کے واحد شاعر ہیں جن کے کلام کی کئی شرح بازار میں مل جاتی ہیں۔ ان کا فارسی کلام بھی اردو زبان میں ترجمہ کیا گیا اور غالب کے خطوط بھی کتابی شکل میں شایع ہوئے۔ پاکستان اور بھارت میں ہر شخص غالب کا مداح ہے، خواہ وہ شاعری سے شغف نہ رکھتا ہو۔

    15 فروری 1869ء کو اسد اللہ خاں غالب اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ یہ تحریر ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے ہے۔ شاعری ہو یا نثر غالب کی شوخی، ظرافت، فلسفہ اور اندازِ بیاں انھیں ہندوستان کا سب سے بڑا اور مقبول شاعر بناتے ہیں۔ اگر غالب کی شاعری گنجینۂ معنی کا طلسم ہے تو اُن کی نثر بہار آفرین۔ غالب اُس دور میں مشہور ہوئے تھے جب دلّی کے تخت پر مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اپنے آخری دن پورے کر رہے تھے اور غالب کو بھی ان کے دربار تک رسائی حاصل ہوئی تھی۔

    یہاں ہم سید ابو الاعلیٰ مودودی کی تصنیف "شخصیات” سے ایک اقتباس پیش کررہے ہیں جس میں‌ برصغیر کے اس بڑے مفکر، عالم، مصنّف اور مشہور سیاست داں نے بھی غالب کی فن کارانہ عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ایک نکتہ بھی سامنے رکھا ہے۔ مودودی لکھتے ہیں:

    "میں صرف مرزا اسد اللہ خان غالب کے کلام ہی کا مداح نہیں ہوں، بلکہ ان سے میرا ایک ذاتی تعلق بھی ہے۔ میرے نانا، مرزا قربان علی بیگ سالک مرحوم، ان کے خاص شاگردوں میں سے تھے اور ان کا مکان بھی دہلی میں میری ننھیال کے مکان سے بالکل متصل واقع تھا۔

    اس طرح میں نے آنکھیں ہی ایک ایسے خاندان میں کھولی ہیں جو ان کے کلام ہی سے نہیں، ان کی ذات سے بھی بہت قریبی تعلقات رکھتا تھا۔ مجھے بچپن سے ان کے کلام کے ساتھ عشق رہا ہے اور میں ان کو ہند و پاکستان ہی کے نہیں، دنیا کے شعراء کی صفِ اوّل کا شاعر سمجھتا ہوں۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمارے اندر ایسا بے نظیر سخن ور پیدا ہوا، اور یہ اس کی بد قسمتی تھی کہ وہ ایک پس ماندہ قوم کے بھی انتہائی انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوا۔ جس کی وجہ سے دنیا نے شعر و ادب کی تاریخ میں آج تک اس کو وہ مقام بھی نہ دیا جو اس سے بہت فروتر درجے کے شعراء کو صرف اس لیے مل گیا کہ وہ ایک جاندار قوم میں پیدا ہوئے تھے۔”

  • غالبؔ کی عملی زندگی پنشن، روزی کے لئے جدوجہد اور ادبی کاموں تک محدود تھی!

    غالبؔ کی عملی زندگی پنشن، روزی کے لئے جدوجہد اور ادبی کاموں تک محدود تھی!

    غالبؔ عملاً کسی مخصوص گروہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ ان کی عملی زندگی، پنشن اور روزی کے لئے جدوجہد کرنے اور ادبی کاموں میں لگے رہنے تک محدود تھی۔

    روزی کے لئے جدوجہد ان کی طبقاتی زندگی کا مظہر تھی۔ ان کی محنت دماغی تھی جس کے خریدار اور قدر داں امراء اور کھاتے پیتے لوگ ہو سکتے تھے۔ ان کی نگاہ میں عرب اور ایران کے قدر داں بادشاہ اور امراء تھے، خود ہندوستان میں مغل سلاطین، امرائے گولکنڈہ اور بیجا پور کے دربار تھے، جہاں عرفیؔ، نظیریؔ، قدسیؔ، صائبؔ، کلیمؔ اور ظہوریؔ وغیرہ اپنی اسی خصوصیت کی قیمت پا چکے تھے اور عزت کی زندگی بسر کر چکے تھے۔ اس لئے وہ بھی اچھے سے اچھے قصائد لکھ کر، اچھی سے اچھی غزلیں کہہ کر، علمی کام کر کے باوقار زندگی بسر کرنے کا حق اور اطمینان چاہتے تھے۔ ان کے سپاہ پیشہ بزرگوں نے تلوار سے عزت حاصل کی تھی، وہ قلم سے وہی کام لینا چاہتے تھے۔

    اس طرح ان کی عملی زندگی محدود تھی۔ انفرادی اور ذاتی تجربات کا لازوال خزانہ ان کے پاس تھا لیکن اسے اجتماعی زندگی کے ڈھانچہ میں بٹھانا آسان نہ تھا۔ لامحالہ انھوں نے اس طور پر عمارت کھڑی کی جو انھیں ذہنی طور پر ورثہ میں ملا تھا۔ بس انھوں نے یہ کیا کہ بدلتے ہوئے حالات اور ذاتی تجربات سے مدد لے کر اس عمارت میں چند ایسے گوشے بھی تعمیر کر دیے جو ان کے پیش روؤں سے نہ تو ممکن تھے نہ جن کے نقشہ ذہن میں تعمیر ہوئے تھے۔ ان ذاتی تجربات کے علاوہ غالبؔ کا وسیع مطالعہ تھا جو ان کے ذہن کے لئے غذا فراہم کرتا تھا اور علوم کے ذریعہ سے نئے تجربوں کو سمجھنے کی کوشش میں انھیں ایک نیا رنگ دینے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ اسی چیز کو ان کے نقادوں نے جدت، تازگی اور طرفگیٔ مضامین سے تعبیر کیا ہے۔

    اسلام اور دوسرے مذاہب کا مطالعہ، تاریخ، اخلاقیات، ہیئت، طب، منطق، تصوف، یہی وہ علوم ہیں جو رائج تھے اور انہی سے غالبؔ نے زندگی کے سمجھنے میں مدد لی تھی۔ اسلامی علوم اور تصوف جو غالبؔ تک پہنچے تھے، ایران ہو کر پہنچے تھے، اور جب ہم ایران میں لکھی ہوئی مذہب، تاریخ اور اخلاقیات کی کتابوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ تاریخی تقاضوں سے ان میں کئی عناصر جذب ہو گئے تھے۔ بعض عناصر تو مقامی تھے۔ بعض تجارتی راہوں سے وہاں آئے تھے۔ چنانچہ ایران میں جو علمی آثار عباسیوں کے زمانے میں نمایاں ہوئے ان میں عربی، یونانی، زردشتی اور ہندی اثرات تلاش کئے جا سکتے ہیں۔

    عباسیوں کے زمانے میں ایران کا قومی احیاء بھی ہوا جسے تاتاریوں کی یورش سے دب جانا پڑا۔ ایران نے تاجر اور سپاہی پیدا کئے لیکن تاجر منظم نہ ہو سکے اور سپاہیوں نے انفرادی طور پر سلطنتیں قائم کرکے شاہی نظام کو مضبوط بنا دیا۔ یہیں سے غالبؔ کو وہ فلسفۂ مذہب و اخلاق ملا جس کو آج تک اسلامی نظام فلسفہ میں اونچی جگہ حاصل ہے اور غالبؔ کے زمانہ میں تو دوسرے خیالات کی طرف ہندوستانیوں کا ذہن جا ہی نہیں رہا تھا۔ یہیں سے انھوں نے تصوف کے وہ خیالات لئے جو ایران میں تو افلاطونیت سے مخلوط ہوکر اسلامی عقائد کی سخت گیری کے خلاف پیدا ہوئے تھے، اور جنھیں رسمی مذہب پرستی سے اختلاف رکھنے والے شاعروں نے ہر دل عزیز بنایا۔ یہاں پھر یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ غالبؔ صوفی مشرب ہونے اور وحدت میں عقیدہ رکھنے کے باوجود تصوف کے سارے اصول کو عملی صوفیوں کی طرح نہیں مانتے تھے۔ وحدت الوجود کی طرف ان کا میلان کچھ تو مسائل کائنات کے سمجھنے کے سلسلہ میں پیدا ہوا تھا اور مذہب کی ان ظاہر داریوں سے بچ نکلنے کا ایک بہانہ تھا جو ان کی آزاد پسند طیعت پر بار تھیں۔

    غالبؔ جس سماج کے فرد تھے اس میں باغیانہ میلان اور آزادی کا جذبہ داخلی طور پر تصوف ہی میں نمایاں ہو سکتا تھا کیونکہ غالبؔ کو کوئی خارجی سہارا آزادی کے لئے حاصل نہ تھا۔ کوئی علمی یا ادبی تحریک جس سے وابستہ ہوکر وہ اپنے طبقہ کے ماحول میں گھرے ہونے کے باوجود آگے بڑھ جاتے، موجود نہیں تھی۔ وہ زمانہ کچھ دن بعد آیا۔ جب سرسیدؔ، حالیؔ اور آزاد نے وقت کے تقاضوں کو سمجھا اور زندگی کے نئے مطالبات کی روشنی میں ایک ادبی تحریک کی بنیاد ڈال دی۔ غالبؔ کی ذہنی ترقی کا دور غدر تک ختم ہو چکا تھا۔ گو وہ اس کے بعد بھی بارہ سال تک زندہ رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ غدر کے بعد غالبؔ کی شاعری تقریباً ختم ہو چکی تھی اور اس کے اثرات ان کے خطوں میں جس طرح نمایاں ہیں، ان کے اشعار میں نمایاں نہ ہو سکے۔ انھوں نے غدر کے پہلے ہی فضا کی ساری اداسی اور افسردگی کو داخلی بنا کر سینہ میں بھر لیا تھا، اس لئے جذبہ کا وہ تسلسل قائم رہا اور خارجی تغیرات نے نئی داخلی سمتیں نہیں اختیار کیں۔
    ذرائع پیداوار اور انسانی شعور کے عمل اور رد عمل سے زندگی آگے بڑھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک مختلف سماجی اور معاشی منزل پر ہوتے ہیں اور ان کے فلسفۂ زندگی اور تمدنی شعور کی منزلیں بھی کم وبیش اس سے مناسبت رکھتی ہیں۔

    انیسویں صدی کے وسط میں جب ہندوستان اقتصادی پستی کی اس منزل میں تھا، یورپ میں مشینی انقلاب ہو چکا تھا اور سماجی شعور ڈارونؔ، مارکس اور اینگلزؔ کو پیدا کر چکا تھا۔ ہندوستان کا ذہین سے ذہین مفکر اس تخلیقی گرمی سے خالی تھا جو قوموں کی تقدیر بدل دیتی ہے اور اپنے اندر اجتماعی روح کی پرورش کرتی ہے۔ غالبؔ نے بھی عملی زندگی کی جگہ فکری زندگی میں آسودگی حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس کے اندر انسان اور کائنات، فنا اور بقا، خوشی اور غم، عشق اور آلام روزگار، مقصد حیات اور جستجوئے مسرت، آرزوئے زیست اور تمنائے مرگ، کثافت اور لطافت، روایت اور بغاوت، جبر و اختیار، عبادت و ریا کاری غرضیکہ ہر ایسے مسئلہ پر اظہارِ خیال کیا جو ایک متجسس ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔

    غالبؔ کے مطالعہ کے دوران میں ایک دل کش حقیقت کی طرف ذہن ضرور منتقل ہوتا ہے کہ گو وہ ہندوستانی سماج کے دورِ انحطاط سے تعلق رکھتے تھے یعنی ایسے انحطاط سے تعلق رکھتے تھے جو ہر طبقہ کو بے جان بنائے ہوئے تھا لیکن ان کی فکر میں توانائی اور تازگی، ان کے خیالوں میں بلندی اور بیباکی کی غیرمعمولی طور پر پائی جاتی ہیں۔ اس توانائی کا سرچشمہ کہاں ہے؟ اس طبقہ میں اور اس کے نصب العین میں تو ہرگز نہیں ہو سکتا جس سے غالبؔ کا تعلق تھا۔ پھر اس کی جستجو کہاں کی جائے؟ کیا یہ سب کچھ تخیل محض کا نتیجہ ہے؟ ان کی شاعری کا سارا حسن ان کے انفرادی بانکپن کا عکس ہے یا غالبؔ انسان سے کچھ امیدیں رکھتے تھے اور گو ان کی نگاہوں کے سامنے ان کو جنم دینے والی تہذیب نزع کی ہچکیاں لے رہی تھی، جس کے واپس آنے کی کوئی امید نہ تھی لیکن وہ پھر بھی نئے آدم کے منتظر تھے جو زندگی کو پھر سے سنوار کر محبت کرنے کے قابل بنادے۔

    (سیّد احتشام حسین کے مضمون ‘غالب کا تفکر’ سے اقتباسات، آج مرزا غالب کا یومِ پیدائش ہے)

  • پاکستانی فلمی صنعت اور مرزا غالب

    پاکستانی فلمی صنعت اور مرزا غالب

    قیامِ پاکستان کے بعد فلم انڈسٹری میں پچاس کا پہلا عشرہ اداکار سدھیر کو مقبولیت کی بلندیوں پر لے گیا۔ وہ ایکشن فلموں کے مقبول اور کام یاب ہیرو رہے۔ ان کی فلمیں تہلکہ خیز ثابت ہوئیں۔ لیکن فلم ’’غالب‘‘ میں سدھیر کو شائقین نے بالکل پسند نہیں‌ کیا۔ فلم غالب 1961 آج ہی کے روز ریلیز ہوئی تھی۔

    سدھیر پاکستانی فلموں میں جنگجو ہیرو کے طور پر شائقین میں‌ بہت مقبول تھے اور اس تاریخی فلم میں ان کو مرزا غالب کے روپ میں پیش کیا گیا تھا اور یہ کردار اُن کے لیے بھی بڑا چیلنج تھا۔ برصغیر کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالب کی زندگی پر مبنی اس فلم میں مغلیہ سلطنت کے زوال اور دہلی کی ماند پڑتی رونق کی عکاسی بھی ہوتی ہے جس نے اسے تاریخی حیثیت دے دی تھی۔

    فلم غالب کراچی کے ناز سنیما اور لاہور کے ریوالی سینما میں ریلیز ہوئی اور شائقین نے اسے پسند کیا۔ تاہم یہ کئی اعتبار سے کمزور فلم تھی۔ یہ فلم ایک طرف بکھرتے ہوئے دلّی کو دکھاتی ہے اور دوسری طرف اس افراتفری اور انتشار کے زمانے میں بطور شاعر ابھرتے ہوئے غالب کو بھی سامنے لاتی ہے۔ اس سے قبل بھارت میں بھی اس عظیم شاعر پر ’’مرزا غالب‘‘ کے نام سے فلم بن چکی تھی، اور اس میں بھارت بھوشن نے غالب کا کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان میں فلم ساز اور ہدایت کار عطاء اللہ شاہ ہاشمی نے یہ فلم بنائی تو جنگجو ہیرو کے طور پر شہرت یافتہ اور مقبول اداکار سدھیر کو غالب کا رول سونپا۔ اس فلم کی کہانی شاعر غزنوی جب کہ مکالمے آغا شورش کاشمیری نے تحریر کیے تھے۔ اداکار سدھیر کا جو خاکہ شائقینِ‌ سنیما کے ذہن میں تھا، اس سے ہٹ کر غالب کے روپ میں‌ اس ‘فولادی شخصیت’ کو قبول کرنا شاید ان کے لیے بہت مشکل تھا۔ فلم بینوں کی اکثریت انھیں ایکشن کرداروں میں دیکھنا پسند کرتی تھی۔ لیکن ہاشمی صاحب نے ان کو یہ کردار دیا۔ اس فلم میں ایک اہم کردار طوائف کا تھا جو مرزا غالب پر دل و جان سے فدا تھی اور ان کی شاعری کی دیوانی تھی۔ وہ اپنے بالا خانے پر مجرے کرتے ہوئے اکثر غالب کا کلام گایا کرتی تھیں۔ یہ عورت بازارِ حسن میں ’’چودہویں‘‘ کے نام سے مشہور تھی۔ یہ کردار ملکۂ ترنم نور جہاں نے ادا کیا تھا۔

    اداکارہ یاسمین نے اس فلم میں مرزا غالب کی بیوی کا کردار نبھایا تھا، جو غالب کی آزاد طبیعت، اپنے دوستوں‌ کے ساتھ شطرنج کی بازیاں‌ لگانے اور مے نوشی سے بے حد تنگ تھیں۔ ادھر بازارِ حسن کا ایک اور کردار خورشید بائی بھی غالب پر مر مٹتی ہے، مگر غالب تو صرف چودہویں کو چاہتے تھے۔ فلم میں‌ دکھایا گیا ہے کہ خورشید بائی اس حقیقت کو تسلیم نہیں‌ کرپاتی اور غالب کے خلاف سازش کرتی ہے۔ ادھر چودہویں کی ماں اپنی بیٹی کو ایک کنگلے اور بدنام شاعر سے دور رکھنا چاہتی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ اس کی لڑکی عشق کرے گی تو بالا‌ خانے کی رونق متاثر ہوگی۔

    فلم کے دیگر اداکاروں میں لیلٰے، دلجیت مرزا، سلیم رضا، غریب شاہ، جی این بٹ اور اداکار ساقی نے بھی کام کیا۔

    فلم میں غالب کے کردار کو ایک عاشق اور رومان پرور شاعر کے طور پر اس طرح‌ دکھایا گیا ہے کہ وہ اردو شاعری میں ان کی حیثیت اور مقام کی عکاسی نہیں‌ کرتا۔ موسیقار تصدق حسین نے اس فلم میں مرزا غالب کی غزلوں کو اپنی دھنوں میں خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔

    فلم میں غالب کی مشہور غزل ’’مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے‘‘ نورجہاں کی آواز میں بہت پسند کی گئی۔

    اداکار سدھیر نے بڑی ریاضت سے اور بخوبی مرزا غالب کا کردار نبھایا، لیکن فلم بینوں نے انھیں اس روپ میں قطعاً پسند نہیں کیا۔ نور جہاں‌ نے چودھویں کا کردار بڑی عمدگی سے نبھایا۔ اداکارہ نے فطری انداز میں ایک نوجوان طوائف کی زندگی اور عشق میں بے قراری کو اپنی آواز کے اتار چڑھاؤ اور نرمی و مٹھاس سے دل فریب بنایا۔

    فلم میں کئی مناظر میں کمی اور ہدایت کاری کی کمزوریاں بھی نظر آتی ہیں‌ جس میں ایک طرف تو غالب کو صحیح معنوں‌ میں‌ پیش نہیں‌ کیا جا سکا جب کہ کچھ ملبوسات بھی اس دور سے مطابقت نہیں‌ رکھتے تھے، اور یہ فلم کے مجموعی تأثر پر اثر انداز ہوا۔ اس فلم کے بعد پاکستانی سنیما میں مرزا غالب جیسی عظیم ادبی شخصیت پر کوئی فلم نہیں بنائی گئی۔

  • غالب کی شاعری اور مولانا مودودی

    غالب کی شاعری اور مولانا مودودی

    غالب اردو کے وہ عظیم شاعر ہیں جن کا کلام اور جن کی شخصیت برصغیر میں ہر خاص و عام اور ہر طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والوں میں مقبول ہے۔ اپنے زمانے کے مشہور اسلامی مفکّر اور جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا مودودی بھی مرزا غالب کے پرستاروں میں سے ایک تھے۔

    مولانا مودودی نے اپنی کتاب "شخصیات” میں خود کو مرزا غالب کی شاعری کا مداح لکھا ہے اور بتایا ہے کہ وہ کس طرح غالب سے ایک قسم کا ذاتی تعلق بھی رکھتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "مرزا اسد اللہ خان غالب کے کلام ہی کا مداح نہیں ہوں، بلکہ ان سے میرا ایک ذاتی تعلق بھی ہے۔ میرے نانا، مرزا قربان علی بیگ سالک مرحوم، ان کے خاص شاگردوں میں سے تھے اور ان کا مکان بھی دہلی میں میری ننھیال کے مکان سے بالکل متصل واقع تھا۔ اس طرح میں نے آنکھیں ہی ایک ایسے خاندان میں کھولی ہیں جو ان کے کلام ہی سے نہیں، ان کی ذات سے بھی بہت قریبی تعلقات رکھتا تھا۔ مجھے بچپن سے ان کے کلام کے ساتھ عشق رہا ہے اور میں ان کو ہند و پاکستان ہی کے نہیں، دنیا کے شعراء کی صفِ اوّل کا شاعر سمجھتا ہوں۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمارے اندر ایسا بے نظیر سخن ور پیدا ہوا، اور یہ اس کی بدقسمتی تھی کہ وہ ایک پس ماندہ قوم کے بھی انتہائی انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوا۔ جس کی وجہ سے دنیا نے شعر و ادب کی تاریخ میں آج تک اس کو وہ مقام بھی نہ دیا جو اس سے بہت فرو تر درجے کے شعراء کو صرف اس لیے مل گیا کہ وہ ایک جان دار قوم میں پیدا ہوئے تھے۔”

    (اقتباس)