Tag: مرزا غالب

  • مرزا غالب کا دستر خوان

    مرزا غالب کا دستر خوان

    اگر اردو نثر و ںظم میں خواجہ الطاف حسین حالی کو ایک مجدّد اور تنقید کے بانی کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا تو ‘یادگارِ غالب’ بھی وہ سوانح ہے جو حالی کی شناخت اور پہچان کبھی ماند نہیں پڑنے دے گی۔ الطاف حسین حالی، مرزا غالب کے ایک ایسے معتقد تھے جن کی غالب سے دوستی بھی تھی، اور ان کے وہ شاگرد بھی تھے۔

    یہاں ہم اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کی زندگی کے آخری ایّام، اُن کی خوراک اور انھیں‌ مرغوب غذا کے بارے میں حالی کی تحریر سے یہ پارے نقل کررہے ہیں‌ جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "مرزا کی نہایت مرغوب غذا گوشت کے سوا اور کوئی چیز نہ تھی۔ ایک وقت بھی بغیر گوشت کے نہیں رہ سکتے تھے۔ یہاں تک کہ مسہل کے دن بھی انہوں نے کھچڑی یا شوربہ نہیں کھایا۔ اخیر میں ان کی خوراک بہت کم ہوگئی تھی۔ صبح کو وہ اکثر شیرہ بادام پیتے تھے۔ دن کو جو کھانا ان کے لئے گھر میں سے آتا تھا اس میں صرف پاؤ سیر گوشت کا قورمہ ہوتا تھا۔ ایک پیالہ میں بوٹیاں اور دوسرے میں لعاب یا شوربہ، ایک پیالی میں ایک پھلکے کا چھلکا شوربے میں ڈوبا ہوا۔ ایک پیالی میں کبھی کبھی ایک انڈے کی زردی، ایک اور پیالی میں دو تین پیسہ بھر دہی اور شام کو کسی قدر شامی کباب یا سیخ کے کباب۔ بس اس سے زیادہ ان کی خوراک اور کچھ نہ تھی۔

    ایک روز دوپہر کا کھانا آیا اور دسترخوان بچھا۔ برتن تو بہت سے تھے مگر کھانا نہایت قلیل تھا۔ مرزا نے مسکرا کر کہا، ’’اگر برتنوں کی کثرت پر خیال کیجے تو میرا دسترخوان یزید کا دسترخوان معلوم ہوتا ہے اور جو کھانے کی مقدار کو دیکھیے تو بایزید کا۔‘‘

    ایک دن قبل غروب آفتاب کے مرزا صاحب شام کو کھانا کھا رہے تھے اور کھانے میں صرف شامی کباب تھے۔ میں بھی وہاں موجود تھا اور ان کے سامنے بیٹھا رومال سے مکھیاں جھل رہا تھا، مرزا نے کہا آپ ناحق تکلیف فرماتے ہیں، میں ان کبابوں میں سے آپ کو کچھ نہ دوں گا۔ پھر آپ ہی یہ حکایت بیان کی۔ نواب عبدالاحد خاں کے دسترخوان پر ان کے مصاحبوں اور عزیزوں اور دوستوں کے لئے ہر قسم کے کھانے چنے جاتے تھے، مگر خاص ان کے لئے ہمیشہ ایک چیز تیار ہوتی تھی۔ وہ اس کے سوا کچھ نہ کھاتے تھے۔ ایک روز ان کے لئے مز عفر پکا تھا وہی ان کے سامنے لگایا گیا۔ مصاحبوں میں ایک ڈوم بہت منہ لگا ہوا تھا جو اس وقت دسترخوان پر موجود تھا۔ نواب نے اس کو کھانا دینے کے لئے خالی رکابی طلب کی۔ اس کے آنے میں دیر ہوئی۔ نواب کھانا کھاتے جاتے تھے اور خالی رکابی بار بار مانگتے تھے۔ وہ مصاحب نواب کے آگے رومال ہلانے لگا اور کہا، ’’حضور رکابی کیا کیجیے گا اب یہی خالی ہوئی جاتی ہے۔‘‘ نواب یہ فقرہ سن کر پھڑک گئے اور وہی رکابی اس کی طرف سرکا دی۔ "

  • جرم و سزا، واقعاتِ اسیری اور قید خانے

    جرم و سزا، واقعاتِ اسیری اور قید خانے

    مرزا اسد اللہ خاں غالب کے واقعاتِ اسیری کے بابت بہت کم معلوم ہوسکا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس زمانہ کے لوگ وضع داری اور پردہ پوشی کے قائل تھے۔ وہ شخصی کمزوریوں کو بیان کرنے سے گریز کرتے تھے۔ غالب نے بھی اپنے واقعۂ اسیری کو اپنی ’’بے آبروئی‘‘ تصوّر کرتے ہوئے اس کا عام ذکر نہیں کیا۔ لیکن ادبی تذکروں میں آیا ہے کہ وہ دو دفعہ معتوب ہوئے تھے۔ ان پر الزام قمار بازی کا تھا۔

    ہمارا مقصد اردو کے اس عظیم شاعر کو بدنام اور بعد از مرگ اُن کی شہرت کو ‘داغ دار’ کرنا نہیں ہے، بلکہ یہاں ہم اس تمہید کے ساتھ جرم و سزا اور قید خانوں کی تاریخ سے متعلق چند اقتباس نقل کررہے ہیں جو پاکستان کے نام وَر مؤرخ، محقق اور اسکالر ڈاکٹر مبارک علی کے مضمون سے لیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:

    ہندوستان میں قید خانوں کے نہ ہونے کی وجہ سے عام مجرموں کو کہاں رکھا جاتا تھا، اس کے بارے میں ہماری معلومات بہت کم ہیں لیکن قیدی اُمراء کو یا تو کسی امیر کے حوالے کر دیا جاتا تھا کہ وہ اس کی نگہداشت کرے یا پھر انہیں گوالیار کے قلعے میں بھیج دیا جاتا تھا۔

    روایت یہ تھی کہ سازشی اور خطرناک قیدیوں کو روز صبح پوست کا پانی پلایا جاتا تھا، جس کے زہر سے وہ آہستہ آہستہ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ اورنگزیب نے شہزادہ مراد کو یہیں قید کیا اور قید خانے میں ہی اس کی وفات ہوئی۔ جب دارا شکوہ کے بیٹے سلیمان شکوہ کو گرفتار کر کے لایا گیا تو فرانسیسی سیاح برنیر کے مطابق شہزادے نے اپنے چچا یعنی اورنگزیب سے یہ درخواست کی تھی کہ اسے پوست کا پانی نہ پلایا جائے۔ جہانگیر نے اپنی تزک میں ذکر کیا ہے کہ کہ شیخ احمد سرہندی کو گوالیار کے قلعے میں قید رکھا جائے تاکہ ان کی اصلاح ہو سکے۔

    خطرناک مجرموں، باغیوں اور حکومت کے خلاف سازش کرنے والوں کو فوراً سزائے موت دے دی جاتی تھی۔ ابنِ بطوطہ نے محمد تغلق کے بارے میں لکھا ہے کہ دربار کے باہر جلاد تیار کھڑے ہوتے تھے اور بادشاہ کے حکم پر مجرم کا سَر اڑا دیتے تھے۔ ایک ڈچ سیاح نے جہانگیر کے دور میں بیان کیا ہے کہ عام مجرموں کو گھسیٹتے ہوئے لایا جاتا تھا اور پھر ان کو فوری قتل کر دیا جاتا تھا۔

    یورپی ملکوں میں بھی ابتدائی زمانے میں قید خانے کا رواج نہ تھا۔ وہاں بھی قلعوں کو بطور قید خانہ استعمال کیا جاتا تھا۔ جیسے پیرس میں بیسٹل کا مشہور قلعہ تھا، جہاں سیاسی قیدی رکھے جاتے تھے۔ والٹیر کو بھی وہاں بطور قیدی رکھا گیا تھا لیکن فرانسیسی انقلاب کے موقع پر 14جولائی 1789ء کو مجمعے نے قلعے پر حملہ کر کے قیدیوں کو چھڑایا اور قلعے کو مسمار کر دیا۔

    برطانیہ میں قیدی اُمراء کے لیے ٹاور آف لندن کی عمارت تھی، جہاں انہیں قید رکھا جاتا تھا اور سزائے موت کی صورت میں باہر ایک چبوترے پر پبلک کے سامنے اس کی گردن اڑا دی جاتی تھی اور جلاد اس کے سَر کو اٹھا کر اعلان کرتا تھا کہ یہ ایک غدار یا سازشی کا سَر ہے۔ Thomas More کو یہاں قید بھی رکھا گیا اور 1535ء میں سزائے موت بھی دی گئی۔

  • یومِ وفات: کلامِ غالب کو گنجینۂ معنی کا طلسم سمجھیے

    یومِ وفات: کلامِ غالب کو گنجینۂ معنی کا طلسم سمجھیے

    اردو زبان کے عظیم شاعر مرزا غالب کی نثر بھی بہت مقبول ہے۔ ان کی مقبولیت کی بڑی وجہ ان کا اسلوب اور سادہ و دل پذیر اندازِ بیان ہے جس نے ان کو عوام سے قریب کیا۔

    ایک طرف ان کے اشعار گویا ہر دل کی بات بیان کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کے خطوط اور ان سے منسوب قصّے (لطائف) بھی ہر خاص و عام میں مقبول ہیں.
    مرزا غالب کی شاعری ایسی ہے کہ ہر شخص ان کے شعر کا کوئی نہ کوئی مطلب نکال ہی لیتا ہے۔ غالب کی شاعری موضوعات کے اعتبار سے منفرد اور ژرف نگاہی کے ساتھ ان کی سادہ بیانی نے ان کے کلام کو پراثر بنایا ہے۔ دنیا داری، خدا پرستی، درویشی اور اپنی دانائی کے لیے ہی نہیں شوخی اور ظرافت میں بھی غالب مشہور ہیں۔ غالب کے خطوط اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

    آج اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ غالب کا یومِ وفات ہے۔ 15 فروری 1869ء کو غالب اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    غالب ہر عمر اور طبقہ ہائے سماج میں یکساں مقبول ہیں اور بالخصوص نوجوان اور ادب کے نئے قاری غالب پر مباحث میں‌ دل چسپی لیتے ہیں۔ غالب نے فارسی زبان میں‌ بھی شاعری کی اور خود کو طرزِ بیدل کا مشتاق بتایا جو کہ فارسی کا عظیم شاعر گزرا ہے۔

    آئیے مرزا غالب کی زندگی کی کتاب کے چند اوراق الٹتے ہیں۔

    خاندان اور غالب کی نجی زندگی
    والد کا نام عبداللہ بیگ تھا۔ یہ خاندان آگرہ کے ایک محلے میں رہتا تھا۔ 27 دسمبر1797 کو عبداللہ بیگ کے گھر بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اسد اللہ بیگ رکھا گیا۔

    زندگی کے چند برس ہی والد کی شفقت اور پیار نصیب ہوا۔ وہ ایک جنگ میں زندگی کی بازی ہار گئے تھے اور یوں غالب کم عمری میں یتیم ہو گئے۔

    پرورش کی ذمہ داری ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے اٹھا لی، لیکن غالب آٹھ سال کے تھے کہ چچا بھی فوت ہو گئے۔ یوں بچپن محرومیوں اور مشکلات میں کٹ گیا۔

    شادی اور پریشانیاں
    13 سال کی عمر میں اسد اللہ کی شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد آبائی وطن چھوڑ کر دہلی میں سکونت اختیار کرلی۔

    اب زندگی اور ضروریات کا تقاضا اور تھا۔ شادی کے بعد اخراجات اور مالی مسائل بڑھ گئے۔ مے نوشی نے بھی مشکلات سے دوچار کیا اور غالب مقروض ہو گئے۔

    مالی پریشانیوں نے مجبور کیا تو شاہی دربار میں ملازمت کی کوشش کی۔ تذکروں میں لکھا ہے کہ انھیں تاریخ لکھنے پر مامور کیا گیا۔

    بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب دیا۔ اسی کے ساتھ وظیفہ مقرر ہوا۔

    غدر اور مرزا کی پنشن
    غدر کے بعد مرزا غالب کو ایک مرتبہ پھر مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کو جو پنشن ملتی تھی وہ بند ہو گئی۔ گزر بسر مشکل اور قرض خواہوں کے تقاضے بڑھ گئے۔

    1857 کے بعد نواب یوسف علی خاں والیِ رام پور تک کسی طرح احوال پہنچایا تو انھوں نے سو روپے ماہ وار باندھ دیے۔ کہتے ہیں مرزا غالب یہ وظیفہ تادمِ مرگ پاتے رہے۔

    آخری آرام گاہ
    غالب کو دنیا سے گئے زمانہ بیت گیا، مگر ان کا اعجازِ سخن ہی ہے کہ ان کی شخصیت پر آج بھی بات کی جاتی ہے، لکھا جاتا ہے اور کلامِ‌ غالب کو نئے انداز سے دیکھنے کی کوشش اور ان کے اشعار کی تشریح کی جاتی ہے۔ غالب کا مقبرہ دہلی میں‌ آج بھی ان کے مداحوں کی نظر میں رہتا ہے۔

  • غالب جدید شعرا کی ایک مجلس میں

    دورِ جدید کے شعرا کی ایک مجلس میں مرزا غالب کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ اس مجلس میں تقریباً تمام جلیلُ القدر جدید شعرا تشریف فرما ہیں۔ مثلاً م۔ ن ارشدؔ، ہیرا جیؔ، ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ، میاں رقیق احمد خوگر، راجہ عہد علی خاںؔ، پروفیسر غیظ احمد غیظؔ، بکرما جیت ورما، عبدالحی نگاہؔ وغیرہ۔ یکایک مرزا غالب داخل ہوتے ہیں۔

    ان کی شکل و صورت بعینہ وہی ہے جو مولانا حالیؔ نے ’’یاد گارِ غالب‘‘ میں بیان کی ہے۔ ان کے ہاتھ میں ’’دیوانِ غالب‘‘ کا ایک نسخہ ہے۔ تمام شعرا کھڑے ہو کر آداب بجا لاتے ہیں۔

    غالبؔ: ’’حضرات! میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے جنت میں دعوت نامہ بھیجا اور اس مجلس میں مدعو کیا۔ میری مدت سے آرزو تھی کہ دورِ جدید کے شعرا سے شرفِ نیاز حاصل کروں۔

    ایک شاعر: یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے وگرنہ

    وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
    کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں‘‘

    غالب: رہنے بھی دیجیے اس بے جا تعریف کو، ’’من آنم کہ من دانم‘‘

    دوسرا شاعر: تشریف رکھیے گا۔ کہیے جنت میں خوب گزرتی ہے۔ آپ تو فرمایا کرتے تھے ’’ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن…‘‘

    غالب: (مسکرا کر) بھئی جنت بھی خوب جگہ ہے۔ جب سے وہاں گیا ہوں، ایک شعر بھی موزوں نہیں کر سکا۔

    دوسرا شاعر: تعجب! جنت میں تو آپ کو کافی فراغت ہے اور پھر ہر ایک چیز میسر ہے۔ پینے کو شراب، انتقام لینے کو پری زاد، اور اس پر یہ فکر کوسوں دور کہ

    آپ کا بندہ اور پھروں ننگا
    آپ کا نوکر اور کھاؤں ادھار

    باوجود اس کے آپ کچھ لکھ… تیسرا شاعر: (بات کاٹ کر) ’’سنائیے اقبالؔ کا کیا حال ہے؟‘‘

    غالب: وہی جو اس دنیا میں تھا۔ دن رات خدا سے لڑنا جھگڑنا۔ وہی پرانی بحث۔

    مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا

    پہلا شاعر: میرے خیال میں وقت کافی ہو گیا ہے۔ اب مجلس کی کارروائی شروع کرنی چاہیے۔

    دوسرا شاعر: میں کرسیٔ صدارت کے لیے جناب م۔ ن۔ ارشد کا نام تجویز کرتا ہوں۔

    (ارشد صاحب کرسئ صدارت پر بیٹھنے سے پہلے حاضرینِ مجلس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔)

    م۔ ن۔ ارشد: میرے خیال میں ابتدا مرزا غالب کے کلام سے ہونی چاہیے۔ میں نہایت ادب سے مرزا موصوف سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنا کلام پڑھیں۔

    غالب: بھئی جب ہمارے سامنے شمع لائی جائے گی تو ہم بھی کچھ پڑھ کر سنا دیں گے۔

    م۔ ن۔ ارشد: معاف کیجیے گا مرزا، اس مجلس میں شمع وغیرہ کسی کے سامنے نہیں جائے گی۔ شمع کی بجائے یہاں پچاس کینڈل پاور کا لیمپ ہے، اس کی روشنی میں ہر ایک شاعر اپنا کلام پڑھے گا۔

    غالب: بہت اچھا صاحب تو غزل سنیے گا۔

    باقی شعرا: ارشاد۔

    غالب: عرض کیا ہے
    خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
    ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

    (باقی شعرا ہنستے ہیں۔ مرزا حیران ہو کر ان کی جانب دیکھتے ہیں۔)

    غالب: جی صاحب یہ کیا حرکت ہے۔ نہ داد نہ تحسین، اس بے موقع خندہ زنی کا مطلب؟

    ایک شاعر: معاف کیجیے مرزا، ہمیں یہ شعر کچھ بے معنی سا معلوم ہوتا ہے۔

    غالب: بے معنی؟

    ہیرا جی: دیکھیے نا مرزا، آپ فرماتے ہیں ’’خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو‘‘ اگر مطلب کچھ نہیں تو خط لکھنے کا فائدہ ہی کیا۔ اور اگر آپ صرف معشوق کے نام کے ہی عاشق ہیں تو تین پیسے کا خط برباد کرنا ہی کیا ضرور، سادہ کا غذ پر اس کا نام لکھ لیجیے۔

    ڈاکٹر قربان حسین خالص، میرے خیال میں اگر یہ شعر اس طرح لکھا جائے تو زیادہ موزوں ہے،

    خط لکھیں گے کیوں کہ چھٹی ہے ہمیں دفتر سے آج
    اور چاہے بھیجنا ہم کو پڑے بیرنگ ہی
    پھر بھی تم کو خط لکھیں گے ہم ضرور
    چاہے مطلب کچھ نہ ہو

    جس طرح سے میری اک اک نظم کا کچھ بھی تو مطلب نہیں

    خط لکھیں گے کیوں کہ الفت ہے ہمیں
    میرا مطلب ہے محبت ہے ہمیں
    یعنی عاشق ہیں تمہارے نام کے

    غالب: یہ تو اس طرح معلوم ہوتا ہے، جیسے آپ میرے اس شعر کی ترجمانی کر رہے ہیں۔

    بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
    کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

    ہیرا جی: جنوں، جنوں کے متعلق مرزا میں نے کچھ عرض کیا ہے اگر اجازت ہو تو کہوں۔

    غالب: ہاں، ہاں بڑے شوق سے۔

    ہیرا جی: جنوں ہوا جنوں ہوا
    مگر کہاں جنوں ہوا
    کہاں ہوا وہ کب ہوا
    ابھی ہوا یا اب ہوا
    نہیں ہوں میں یہ جانتا
    مگر جدید شاعری
    میں کہنے کا جو شوق ہے
    تو بس یہی ہے وجہ کہ
    دماغ میرا چل گیا
    یہی سبب ہے جو مجھے
    جنوں ہوا جنوں ہوا

    غالب: (ہنسی کو روکتے ہوئے) سبحان اللہ کیا برجستہ اشعار ہیں۔

    م۔ن۔ ارشد: اب مرزا، غزل کا دوسرا شعر فرمائیے۔

    غالب: میں اب مقطع ہی عرض کروں گا، کہا ہے۔

    عشق نے غالبؔ نکما کر دیا
    ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

    عبدالحی نگاہ: گستاخی معاف مرزا، اگر اس شعر کا پہلا مصرع اس طرح لکھا جاتا تو ایک بات پیدا ہو جاتی۔

    غالب: کس طرح؟

    عبدالحی نگاہ:
    عشق نے، ہاں ہاں تمہارے عشق نے
    عشق نے سمجھے؟ تمہارے عشق نے
    مجھ کو نکما کر دیا
    اب نہ اٹھ سکتا ہوں میں
    اور چل تو سکتا ہی نہیں
    جانے کیا بکتا ہوں میں
    یعنی نکما کر دیا
    اتنا تمہارے عشق نے
    گرتا ہوں اور اٹھتا ہوں میں
    اٹھتا ہوں اور گرتا ہوں میں
    یعنی تمہارے عشق نے
    اتنا نکما کردیا

    غالب: (طنزاً) بہت خوب۔ بھئی غضب کر دیا۔

    غیظ احمد غیظؔ: اور دوسرا مصرع اس طرح لکھا جاسکتا تھا۔

    جب تک نہ مجھ کو عشق تھا
    تب تک مجھے کچھ ہوش تھا
    سب کام کر سکتا تھا میں
    اور دل میں میرے جوش تھا
    اس وقت تھا میں آدمی
    اور آدمی تھا کام کا
    لیکن تمہارے عشق نے
    مجھ کو نکما کر دیا

    غالب: واللہ۔ کمال ہی تو کردیا، بھئی اب آپ لوگ اپنا کلام سنائیں۔

    م۔ ن۔ ارشد: اب ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ، جو جدید شاعری کے امام ہیں اپنا کلام سنائیں گے۔

    ڈاکٹر خالصؔ: اجی ارشد صاحب میں کیا کہوں، اگر میں امام ہوں تو آپ مجتہد ہیں۔ آپ جدید شاعری کی منزل ہیں اور میں سنگ میل اس لیے آپ اپنا کلام پہلے پڑھیے۔

    م۔ ن۔ ارشد: توبہ توبہ! اتنی کسر نفسی۔ اچھا اگر آپ مصر ہیں تو میں ہی اپنی نظم پہلے پڑھتا ہوں۔ نظم کا عنوان ہے۔ ’’بدلہ‘‘ عرض کیا ہے۔

    آ مری جان مرے پاس انگیٹھی کے قریب
    جس کے آغوش میں یوں ناچ رہے ہیں شعلے
    جس طرح دور کسی دشت کی پہنائی میں
    رقص کرتا ہو کوئی بھوت کہ جس کی آنکھیں
    کرم شب تاب کی مانند چمک اٹھتی ہیں
    ایسی تشبیہہ کی لذت سے مگر دور ہے تو
    تو کہ اک اجنبی انجان سی عورت ہے جسے
    رقص کرنے کے سوا اور نہیں کچھ آتا
    اپنے بے کار خدا کے مانند
    دوپہر کو جو کبھی بیٹھے ہوئے دفتر میں
    خودکشی کا مجھے یک لخت خیال آتا ہے
    میں پکار اٹھتا ہوں یہ جینا بھی ہے کیا جینا
    اور چپ چاپ دریچے میں سے پھر جھانکتا ہوں
    آ مری جان مرے پاس انگیٹھی کے قریب
    تاکہ میں چوم ہی لوں عارض گلفام ترا
    اور ارباب وطن کو یہ اشارہ کردوں
    اس طرح لیتا ہے اغیار سے بدلہ شاعر
    اور شب عیش گزر جانے پر
    بہر جمع درم و دام نکل جاتا ہے
    ایک بوڑھے سے تھکے ماندے سے رہوار کے پاس
    چھوڑ کر بستر سنجاف و سمور

    (نظم سن کر سامعین پر وجد کی حالت طاری ہو جاتی ہے۔ ہیرا جی یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔ یہ نظم اس صدی کی بہترین نظم ہے، بلکہ میں تو کہوں گا کہ اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس میں انگیٹھی، بھوت اور دفتر، تہذیب و تمدن کی مخصوص الجھنوں کے حامل ہیں۔)

    (حاضرین ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے زیر لب مسکراتے ہیں۔)

    غالب: ارشد صاحب معاف کیجیے۔ آپ کی یہ نظم کم از کم میرے فہم سے تو بالا تر ہے۔

    غیظ احمد غیظ: یہ صرف ارشد پر ہی کیا منحصر ہے، مشرق کی جدید شاعری ایک بڑی حد تک مبہم، اور ادراک سے بالا تر ہے۔

    م۔ ن۔ ارشد: مثلاً میرے ایک دوست کے اس شعر کو لیجیے۔

    پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالو
    پایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سے

    اب بتائیے اس شعر کا کیا مطلب ہے؟

    غالب: (شعر کو دہرا کر) صاحب سچ تو یہ ہے کہ اگر چہ اس شعر میں سر اور پیر کے الفاظ شامل ہیں، مگر باوجود ان کے اس شعر کا نہ سر ہے نہ پیر۔

    م۔ن۔ ارشد: اجی چھوڑیے اس حرف گیری کو۔ آپ اس شعر کو سمجھے ہی نہیں۔ مگر خیر اس بحث میں کیا رکھا ہے۔ کیوں نہ اب ڈاکٹر قربان حسین خالصؔ سے درخواست کی جائے کہ اپنا کلام پڑھیں۔

    ڈاکٹر خالصؔ: میری نظم کا عنوان ہے ’’عشق‘‘ عرض کیا ہے۔

    عشق کیا ہے؟
    میں نے اک عاشق سے پوچھا
    اس نے یوں رو کر کہا
    عشق اک طوفان ہے
    عشق اک سیلاب ہے
    عشق ہے اک زلزلہ
    شعلہ جوالہ عشق
    عشق ہے پیغام موت

    غالب: بھئی یہ کیا مذاق ہے، نظم پڑھیے۔ مشاعرے میں نثر کا کیا کام؟

    ڈاکٹر خالص: (جھنجھلا کر) تو آپ کے خیال میں یہ نثر ہے؟ یہ ہے آپ کی سخن فہمی کا عالم، اور فرمایا تھا آپ نے،

    ’’ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں‘‘

    غالب: میری سمجھ میں تو نہیں آیا کہ یہ کس قسم کی نظم ہے نہ ترنم، نہ قافیہ، نہ ردیف۔

    ڈاکٹر خالص: مرزا صاحب! یہی تو جدید شاعری کی خصوصیت ہے۔ آپ نے اردو شاعری کو قافیہ اور ردیف کی فولادی زنجیروں میں قید کر رکھا تھا۔ ہم نے اس کے خلاف جہاد کر کے اسے آزاد کیا ہے اور اس طرح اس میں وہ اوصاف پیدا کیے ہیں جو محض خارجی خصوصیات سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ میری مراد رفعت تخیل، تازگیٔ افکار اور ندرتِ فکر سے ہے۔

    غالب: رفعت تخیل، کیا خوب۔ کیا پرواز ہے، میں نے اک عاشق سے پوچھا، اس نے یوں رو کر کہا…

    ڈاکٹر خالص: (چڑ کر) عاشق رو کر نہیں کہے گا تو کیا قہقہہ لگا کر کہے گا؟ مرزا آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ عشق اور رونے میں کتنا گہرا تعلق ہے۔

    غالب: مگر آپ کو قافیہ اور ردیف ترک کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔

    رقیق احمد خوگر: اس کی وجہ مغربی شعرا کا تتبع نہیں بلکہ ہماری طبیعت کا فطری میلان ہے، جو زندگی کے دوسرے شعبو ں کی طرح شعر و ادب میں بھی آزادی کا جویا ہے۔ اس کے علاوہ دور جدید کی روح انقلاب، کشمکش، تحقیق، تجسس، تعقل پرستی اور جدوجہد ہے۔

    ماحول کی اس تبدیلی کا اثر ادب پر ہوا ہے۔ اور میرے اس نکتے کو تھیکرے نے بھی اپنی کتاب وینٹی فیئر میں تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ اسی لیے ہم نے محسوس کیا کہ قدیم شاعری ناقص ہونے کے علاوہ روح میں وہ لطیف کیفیت پیدا نہیں کر سکتی، جو مثال کے طور پر ڈاکٹر خالص کی شاعری کا جوہر ہے۔ قدیم شعرا اور جدید شعرا کے ماحول میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

    ن۔ م۔ ارشد: اب میں ہندوستان کے مشہور شاعر پروفیسر غیظ سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے تازہ افکار سے ہمیں نوازیں۔

    پروفیسر غیظ: میں نے تو کوئی نئی چیز نہیں لکھی۔

    ہیرا جی: تو پھر وہی نظم سنا دیجیے جو پچھلے دنوں ریڈیو والوں نے آپ سے لکھوائی تھی۔

    پروفیسر غیظ: آپ کی مرضی، تو وہی سن لیجیے۔ عنوان ہے ’’لگائی۔‘‘

    فون پھر آیا دل زار! نہیں فون نہیں
    سائیکل ہو گا، کہیں اور چلا جائے گا
    ڈھل چکی رات اترنے لگا کھمبوں کا بخار
    کمپنی باغ میں لنگڑانے لگے سرد چراغ
    تھک گیا رات کو چلا کے ہر اک چوکیدار
    گل کرو دامن افسردہ کے بوسیدہ داغ
    یاد آتا ہے مجھے سرمۂ دنبالہ دار
    اپنے بے خواب گھروندے ہی کو واپس لوٹو
    اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

    (نظم کے دوران میں اکثر مصرعے دو دو بلکہ چار چار بار پڑھوائے جاتے ہیں اور پروفیسر غیظ بار بار مرزا غالب کی طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ مرزا غالب مبہوت ہیں۔)

    م۔ ن۔ ارشد: اب جناب بکرما جیت صاحب ورما سے استدعا کی جاتی ہے کہ اپنا کلام سنائیں۔

    بکرما جیت ورما: میں نے حسبِ معمول کچھ گیت لکھے ہیں۔

    غالب: (حیران ہو کر) شاعر اب گیت لکھ رہے ہیں۔ میرے اللہ دنیا کدھر جارہی ہے۔

    بکرما جیت ورما: مرزا، آپ کے زمانے میں گیت شاعری کی ایک باقاعدہ صنف قرار نہیں دیے گئے تھے، دورِ جدید کے شعرا نے انھیں ایک قابل عزت صنف کا درجہ دیا ہے۔

    غالب: جی ہاں، ہمارے زمانے میں عورتیں، بھانڈ، میراثی یا اس قماش کے لوگ گیت لکھا کرتے تھے۔

    بکرما جیت: پہلا گیت ہے’’برہن کا سندیس‘‘، عرض کیا ہے،
    اڑجا دیس بدیس رے کوے اڑ جا دیس بدیس
    سن کر تیری کائیں کائیں

    غالب: خوب، سن کر تیری کائیں کائیں

    بکرما جیت ورما: عرض کیا ہے،
    سن کر تیری کائیں کائیں
    آنکھوں میں آنسو بھر آئیں
    بول یہ تیرے من کو بھائیں
    مت جانا پردیس رے کوے اڑ جا دیس بدیس

    م۔ ن ارشد: بھئی کیا اچھوتا خیال ہے۔ پنڈت صاحب میرے خیال میں ایک گیت آپ نے کبوتر پر بھی لکھا تھا، وہ بھی مرزا کو سنا دیجیے۔

    بکرما جیت، سنیے پہلا بند ہے۔

    بول کبوتر بول
    دیکھ کوئلیا کوک رہی ہے
    من میں میرے ہوک اٹھی ہے
    کیا تجھ کو بھی بھوک لگی ہے
    بول غٹرغوں بول کبوتر
    بول کبوتر بول

    باقی شعرا: (یک زبان ہو کر) بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول۔

    (اس اثنا میں مرزا غالب نہایت گھبرا ہٹ اور سراسیمگی کی حالت میں دروازے کی طرف دیکھتے ہیں۔)

    بکرما جیت ورما: اب دوسرا بند سنیے،

    بول کبوتر بول
    کیا میرا ساجن کہتا ہے
    کیوں مجھ سے روٹھا رہتا ہے
    کیوں میرے طعنے سہتا ہے
    بھید یہ سارے کھول کبوتر
    بول کبوتر بول!

    باقی شعرا: (یک زبان ہو کر) بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول کبوتر۔ بول۔

    (اس شور و غل کی تاب نہ لا کر مرزا غالب بھاگ کر کمرے سے باہر نکل جاتے ہیں۔)

    (طنز و مزاح از قلم کنہیا لال کپور )

  • ’مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے‘

    اُردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کا آج 225واں یوم پیدائش منایا جارہا ہے ایسے میں بھارتی گلوکارہ عظیم شاعر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے مزار پر گئیں۔

    فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر گلوکارہ شلپا راؤ نے ویڈیو شیئر کی ہے جس میں انہیں مرزا غالب کا مشہور شعر ’مت پوچھ کہ کیا حال ہے مرا ترے پیچھے۔‘ گنگناتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

    گلوکارہ نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کیپشن میں لکھا کہ ’مرزا غالب کے مزار پر حاضری دینے کا موقع ملا۔‘

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Shilpa Rao (@shilparao)

    شلپا راؤ نے لکھا کہ ’یہ میرے لیے فخر اور کسی خواب سے کم نہیں ہے کہ میں شعر گنگنا رہی ہوں۔‘ گلوکارہ نے مرزا غالب کو مبارک باد بھی دی اور ان کے الفاظ پر ان کا شکریہ ادا کیا۔‘

    اردو شاعری میں قومیت اور مرزا غالب – (arynews.tv)

    واضح رہے کہ اسداللہ خان غالب 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے، لڑکپن سے ہی وہ شعر کہنے لگے تھے اُن کی شخصیت اپنی مثال آپ تھی۔

    یہ پڑھیں: اردو شاعر الگزینڈر ہیدر لی جو مرزا غالب کا شاگرد تھا

    اُردو شاعری میں نئی روح پھونکنے والے مرزا غالب نے  نئے موضوعات بخشے ان کی شاعری میں فلسفیانہ بھی خیالات ملتے ہیں۔

  • مرزا غالب کو کنوؤں کا غم

    مرزا غالب کو کنوؤں کا غم

    "غالبؔ کے خطوط میں جہاں جہاں غدر کا ذکر ضمناً آیا تھا، میں نے پوری تلاش و محنت سے اس کو الگ کر لیا اور ایسے طریقے سے چھانٹا کہ روزنامچہ کی عبارت معلوم ہونے لگی۔”

    پیشِ نظر سطور خواجہ حسن نظامی کے قلم سے نکلی ہیں جو اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور انشا پرداز تھے۔ اردو صحافت میں ان کا بڑا نام تھا۔ متعدد قابلِ‌ ذکر اخبار اور جرائد ان کی سرپرستی اور ادارت میں شائع ہوئے۔ اردو ادب کی تاریخ میں بتاتی ہے کہ خواجہ حسن نظامی ہی تھے جنھوں نے روزنامچہ کو باقاعدہ صنف کی حیثیت دی۔ شخصی خاکے تحریر کیے۔ وہ ایک مؤرخ بھی تھے۔ اور 1857ء کے انقلاب پر ان کی گہری نظر تھی۔ اس ضمن میں ان کی تصنیف کردہ کتابیں تاریخ کا بیش قیمت سرمایہ اور مستند دستاویز ہیں۔

    یہاں‌ ہم مرزا غالب کی زبانی غدر اور اس کے بعد بالخصوص دلّی کے حالات اور ویرانی کا جو احوال پڑھنے جارہے ہیں، اسے خواجہ حسن نظامی نے غالب کا روزنامچۂ غدر کے عنوان سے شایع کروایا تھا۔ خواجہ حسن نظامی اس کا پس منظر کچھ اس طرح‌ بیان کرتے ہیں، "غالبؔ کے مکتوباتِ مطبوعہ و غیر مطبوعہ میں غدر کی کیفیت ایسی دبی ہوئی پڑی تھی کہ کوئی شخص اس کی خوبی و اہمیت کو محسوس نہ کر سکتا تھا اور خطوں کے ذیل میں ان عبارتوں کو بھی بے توجہی سے پڑھ لیا جاتا تھا۔ میں نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ اردو زبان میں غدر دہلی کی یہ لا ثانی تاریخ جو موتیوں سے بھی زیادہ بیش قیمت ہے، اس طرح دبی ہوئی نہ پڑی رہے، اس لیے اس کو علیحدہ کرنا شروع کیا اور کہیں کہیں اپنے حاشیے بھی لکھے تاکہ آج کل کے لوگوں کو دہلی کی بعض مقامی باتوں سے واقفیت ہو جائے اور جس چیز کا مطلب سمجھ میں نہ آئے، حاشیہ کی مدد سے سمجھ لیں۔”

    ‘غالب کو کنوؤں کا غم’ کے عنوان سے خواجہ حسن نظامی نے غالب کی زبانی دہلی کے حالات اور ان کی کیفیت کو بھی نقل کیا ہے۔ یہ پارہ آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہے:

    "اب اہلِ دہلی ہندو ہیں یا اہلِ حرفہ ہیں یا خاکی ہیں یا پنجابی ہیں یا گورے ہیں۔ لکھنؤ کی آبادی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ ریاست تو جاتی رہی۔ باقی ہر فن کے کامل لوگ موجود ہیں۔ خس کی ٹٹی، پُروا ہوا اب کہاں؟ لطف تو وہ اسی مکان میں تھا۔ اب میر خیراتی کی حویلی میں وہ چھت اور سمت بدلی ہوئی ہے۔ بہرحال میگزرد۔

    مصیبتِ عظیم یہ ہے کہ قاری کا کنواں بند ہو گیا۔ لال ڈگی کے کنوئیں یک قلم کھاری ہو گئے۔ خیر کھاری ہی پانی پیتے۔ گرم پانی نکلتا ہے۔ پرسوں میں سوار ہو کر کنوؤں کا حال دریافت کرنے گیا تھا۔ مسجد جامع سے راج گھاٹ دروازہ تک بے مبالغہ ایک صحرا لق و دق ہے۔ اینٹوں کے ڈھیر جو پڑے ہیں، وہ اگر اٹھ جائیں تو ہُو کا مقام ہو جائے۔ مرزا گوہر کے باغیچہ کے اس جانب کوکنی بانس نشیب میں تھا۔ اب وہ باغیچہ کے صحن کے برابر ہوگیا۔ یہاں تک کہ راج گھاٹ کا دروازہ بند ہوگیا۔ فصیل کے کنگورے کھلے رہتے ہیں۔ باقی سب اٹ گیا۔

    آہنی سڑک کے واسطے کلکتہ دروازہ سے کابلی دروازہ تک میدان ہوگیا۔ پنجابی کٹرہ، دھوبی واڑہ، رام جی گنج، سعادت خاں کا کٹرہ۔ جرنیل کی بی بی کی حویلی، رام جی داس گودام والے کے مکانات، صاحب رام کا باغ اور حویلی ان میں سے کسی کا پتہ نہیں ملتا۔ قصہ مختصر شہر صحرا ہو گیا تھا، اب جو کنوئیں جاتے رہے اور پانی گوہر نایاب ہو گیا تو یہ صحرا صحرائے کربلا ہو جائے گا۔ اللہ اللہ دلّی والے اب تک یہاں کی زبان کو اچھا کہے جاتے ہیں۔ واہ رے حسنِ اعتقاد۔ اردو بازار نہ رہا اردو کہاں۔ دلّی کہاں۔ واللہ اب شہر نہیں ہے کیمپ ہے۔ چھاؤنی ہے۔ نہ قلعہ، نہ شہر، نہ بازار، نہ نہر۔”

    غالب کے خط سے یہ ٹکڑا نقل کرنے کے بعد خواجہ حسن نظامی لکھتے ہیں کہ اس عبارت میں غالبؔ نے دہلی کی ان شاندار عمارات کی بربادی کا نقشہ کھینچا ہے جن میں سے اکثر کے نام سے بھی اب دہلی والے واقف نہیں۔ اور میں بھی نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں تھیں۔

    معلوم ہوتا ہے غالبؔ کو سب سے زیادہ کنوؤں کے بند کر دینے کا صدمہ ہے۔ وہ یہ سن کر کہ کنوئیں بند کیے جارہے ہیں، خود گھر سے نکلے تاکہ اپنی آنکھ سے دیکھیں۔ حالانکہ ان کا گھر سے نکلنا آج کل کی طرح کوئی معمولی بات نہ تھی۔ مشرق والے خصوصاً ہندوستان اور دہلی والے کنوؤں کے پانی کو بہت پسند کرتے ہیں اور ان کو نلوں کے پانی سے کسی قسم کی محبت نہیں ہے۔

    حضرت اکبر الہ آبادی (مرحوم) بھی ایک جگہ لکھتے ہیں۔
    حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
    پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
    پیٹ چلتا ہے، آنکھ آئی ہے
    کنگ جاج کی دہائی ہے

    انگریزوں نے حفظِ صحت کے خیال سے کنوئیں بند کیے تھے کہ ان کا پانی جلد خراب ہو جاتا ہے، مگر اہلِ مشرق اپنی پرانی عادات کے خلاف کسی مصحلت کو قبول کرنا نہیں چاہتے۔

    تحریر کے شروع میں غالبؔ نے دہلی کی آبادی کے بارے میں سچ لکھا ہے کہ غدر کے بعد ایسی جماعتیں وہاں آکر آباد ہوگئی تھیں جن کو زبان اور تہذیب و علم سے کچھ سروکار نہ تھا، اس لیے آج کل دہلی کی بگڑی ہوئی زبان پر اعتراض کرنا بھی فضول ہے کہ یہ زبان اہلِ دہلی کی نہیں ہے۔ وہ تو پھانسی پاگئے اور جو لوگ یہ زبان بولتے ہیں، وہ دہلی والے نہیں ہیں، پردیسی ہیں۔

  • مرزا غالب: خدا نے انھیں دونوں جہان دے دیے تھے

    مرزا غالب: خدا نے انھیں دونوں جہان دے دیے تھے

    آپ مرزا کے مختصر سوانح حیات سنیے، بخوفِ طوالت صرف چند واقعات کے بیان پر ہی اکتفا کروں گا جو عام محققوں اور تذکرہ نویسوں کی نظر سے اوجھل رہے۔

    مرزا کی زندگی اگرچہ عسرت میں گزری تھی لیکن اس کے لیے اللہ میاں ذمہ دار نہ تھے، خود مرزا کو اقرار ہے کہ خدا نے انھیں دونوں جہان دے دیے تھے۔ سنیے،
    دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
    یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں

    سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ دونوں جہاں گئے کہاں؟ جواب مرزا کے اس شعر میں موجود ہے:
    لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے
    یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں

    پس دونوں جہان بھی گھر کے ساتھ ہی لٹا دیے ہوں گے۔

    غالب کا گھر نہ صرف ویران تھا بلکہ اس میں ویرانی سی ویرانی تھی۔ چنانچہ:
    کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
    دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

    لیکن یہ گھر وسیع نہ تھا اور مرزا کو ورزش کے لیے یا شاید گیند بلاّ کھیلنے کے لیے بہت کھلی جگہ کی ضرورت تھی، اس لیے جنگل میں جارہے تھے، فرماتے ہیں:
    کم نہیں وہ بھی خرابی میں پہ وسعت معلوم
    دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں

    جنگلوں کی زندگی مرزا کو بہت عزیز تھی اور انھوں نے اپنے گھر کو طاقِ نسیاں پر رکھ کر قفل لگا دیا تھا۔ مرزا کے پاؤں میں چکر تھا، وہ کسی جگہ بیٹھ نہیں سکتے تھے۔ جب چلتے چلتے پاؤں میں چھالے پڑ جاتے تو اس وقت انھیں جھاڑ جھنکاڑ کی تلاش ہوتی تھی۔ کانٹوں کو دیکھ کر آپ کا دل مسرت و شادمانی کے جھولے میں جھولنے لگتا تھا۔ کہتے ہیں:
    ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
    جی خوش ہوا ہے راہ کو پُرخار دیکھ کر

    مرزا بڑے سادہ لوح اور صاف دل انسان تھے۔ اکثر ایسی حرکتیں کر بیٹھتے جن کا نتیجہ ان کے حق میں بہت برا ہوتا تھا۔ چنانچہ ایک دن محبوب کی گلی میں بیٹھے بیٹھے کسی ذرا سی غلطی پر پاسبان سے اپنی چندیا گنجی کرا لی، اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے:
    گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئی
    اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے

    ایک مرتبہ خود محبوب کے ہاتھوں سے بھی پٹے مگر چوں کہ قصور اپنا تھا اس لیے نہایت ایمان داری سے اعتراف بھی کرلیا کہ
    دھول دھپّا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
    ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن

    اس سادہ لوحی کی بدولت ایک دن محبوب کی حد سے زیادہ تعریف کر کے ایک راز دار کو رقیب بنا لیا، ثبوت ملاحظہ ہو:
    ذکر اس پری وش کا اور پھر بیان اپنا
    بن گیا رقیب آخر تھا جو راز داں اپنا

    لیکن دیوانہ بکار خویش ہشیار کبھی کبھی رقیب کو جل بھی دے جاتے:
    تا کرے نہ غمازی کر لیا ہے دشمن کو
    دوست کی شکایت میں ہم نے ہمزباں اپنا

    مرزا نجوم اور جوتش کے نہ صرف قائل تھے بلکہ محبت کے معاملوں میں بھی جوتشیوں سے پوچھ گچھ کرتے رہتے تھے، اسی لیے کہا ہے:
    دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
    اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

    غالب کا دل عام لوگوں کی طرح خون کا قطرہ یا گوشت کا لوتھڑا نہ تھا بلکہ آفت کا ایک بڑا سا ٹکڑا تھا۔ اس میں کئی جگہ ٹیڑھ میڑھ تھے اور وہ ہروقت شوروغل مچائے رکھتا تھا۔ مرزا بھی اس کی آوارگی کے ہمیشہ شاکی رہتے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے:
    میں اور اک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی کہ ہے
    عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا

    مرزا کبھی کبھی اپنے اس دل سے کام بھی لے لیا کرتے تھے۔ مثلاً ایک دفعہ محبوب کی تمنا کہیں آپ کے ہتھے چڑھ گئی۔ آپ نے جی بھر کے انتقام لیے اور دل کے شور و غل کے ذریعے اس بے چاری کے کانوں کے پردے پھٹے جاتے تھے۔ رات دن دل میں چکر کاٹتی مگر باہر نکلنے کا راستہ نہیں ملتا۔ آخر ایک دن خود اس پر ترس کھا کر محبوب سے درخواست کی ہے:
    ہے دلِ شوریدۂ غالب طلسمِ پیچ و تاب
    رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے

    لیکن خدا کے فضل و کرم سے مرزا کو جلد ہی اس سے رہائی مل گئی۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے سوزِ نہاں کا دورہ ہوا اور سارے کا سارا دل بے محابا جل گیا۔ اس حادثۂ فاجعہ کا ذکر مرزا نے یوں کیا ہے:
    دل مرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا
    آتشِ خاموش کی مانند گویا جل گیا

    بد قسمتی سے مرزا کے ناخن بہت جلد بڑھتے تھے۔ چنانچہ دل کا زخم ابھی بھرنے بھی نہ پاتا تھاکہ ناخنوں کے کھرپے پھر تیز ہوجایا کرتے تھے، فرماتے ہیں:
    دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
    زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا

    (ہری اختر چند کی شگفتہ بیانی، مضمون غالب اپنے کلام کے آئینے میں سے مقتبس)

  • "گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل….”

    "گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل….”

    اردو، خاص طور پر ادب میں فارسی زبان کے مصرعے، فقرے اور محاورے اس لیے بھی اجنبی یا نامانوس نہیں رہے کہ کبھی یہی ہندوستان کے شاہی دربار سے دفاتر تک رائج رہنے والی زبان تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اردو زبان میں‌ عام بول چال سے ادب تک فارسی کے بہت سے مصرع یا محاورے ضرب الامثال کے طور پر برتے جاتے ہیں۔

    یہ حقیقت ہے کہ زبان کا طور اور الفاظ کا یہ مشترکہ ذخیرہ باعثِ ترقیٔ اردو بنا اور ایک عظیم تہذیب اور خوب صورت ثقافت کا امین ہے۔ ہندوستان میں‌ جب فارسی کی جگہ اردو نے لی تو اردو ادب میں فارسی کے موضوعات، تشبیہ و استعارہ، صنائع و بدائع بھی داخل ہوئے اور اس طرح اردو میں گھل مل گئے کہ لگتا ہے کہ یہ اردو ہی کے ہیں۔ آج بھی اردو بولنے والے ان محاورات کا استعمال کرتے ہیں اور ان کا بَرمحل استعمال بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔

    یہاں ہم مرزا غالب کے دو اشعار نقل کررہے ہیں جس کا ایک مصرع اردو میں ضربُ المثل کے طور پر اہلِ زبان اور ادبی تخلیق کار خوب استعمال کرتے ہیں۔

    مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
    سن سن کے اسے سخنورانِ کامل
    آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمایش
    گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل

    اسی رباعی کا یہ فارسی مصرع آپ نے سنا ہو گا، "گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل…” جس کا مطلب ہے اگر بولوں تو مشکل اور نہ بولوں تو بھی مشکل۔

    کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی معاملے میں‌ انسان خاموش رہے تو بھی مشکل اور مصیبت میں گرفتار ہوتا اور بولنے پر بھی۔ اس موقع پر یہ مصرع استعمال کیا جاتا ہے۔ مشہور یہ ہے کہ مرزا غالب نے جب شاعری شروع کی تو بہت مشکل زبان اور فارسی اشعار کہا کرتے تھے، اور بیشتر لوگوں کی سمجھ میں‌ نہیں‌ آتے تھے۔ عام لوگوں اور شعرا میں بھی اس مشکل پر پسندی پر غالب مذاق اور طنز کا نشانہ بنے۔ ایک مشہور شاعر آغا جان عیشؔ نے اس پر یہ قطعہ موزوں کیا۔

    اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
    مزا کہنے کا جب ہے، اک کہے اور دوسرا سمجھے
    کلامِ میر سمجھے اور زبانِ میرزا سمجھے
    مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

    آغا جان عیش کے اس قطعہ کے جواب میں اسد اللہ خاں غالب نے وہ رباعی کہی جو ہم نے اوپر نقل کی ہے اور اسی رباعی کا آخری مصرع ضربُ المثل کے طور پر مشہور ہے۔

  • مرزا نوشہ اور چودھویں

    مرزا نوشہ اور چودھویں

    مرزا غالب اپنے دوست حاتم علی مہر کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں، ’’مغل بچے بھی عجیب ہوتے ہیں کہ جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں، میں نے بھی اپنی جوانی میں ایک ستم پیشہ ڈومنی کو مار رکھا تھا۔‘‘

    سنہ بارہ سو چونسٹھ ہجری میں مرزا غالب چوسر کی بدولت قید ہوئے۔ اس واقعہ کے بارے میں ایک فارسی خط میں لکھتے ہیں، ’’کوتوال دشمن تھا اور مجسٹریٹ ناواقف، فتنہ گھات میں تھا اور ستارہ گردش میں، باوجودیکہ مجسٹریٹ کوتوال کا حاکم تھا، میرے معاملے میں کوتوال کا ماتحت بن گیا۔ اور میری قید کا حکم سنا دیا۔‘‘

    افسانہ نگار کے لیے یہ چند اشارے مرزاغالب کی رومانی زندگی کا نقشہ تیار کرنے میں کافی مدد دے سکتے ہیں۔ رومان کی پرانی مثلث تو ’’ستم پیشہ ڈومنی‘‘ اور ’’کوتوال دشمن تھا‘‘ کے مختصر الفاظ نے ہی مکمل کر دیے ہیں۔ ستم پیشہ ڈومنی سے مرزا غالب کی ملاقات کیسے ہوئی۔ آئیے ہم تصور کی مدد سے اس کی تصویر بناتے ہیں۔

    صبح کا وقت ہے، مرغ اذانیں دے رہے ہیں۔ مرزا نوشہ ہوادار میں بیٹھا ہے جسے چار کہار لیے جا رہے ہیں، مرزانوشہ کے بیٹھنے سے پتہ چلتا ہے کہ سخت اداس ہے، اداسی کی وجہ یہ ہے کہ اس نے مشاعرے میں اپنی بہترین غزل سنائی مگر حاضرین نے داد نہ دی۔ ایک فقط نواب شیفتہ نے اس کے کلام کو سراہا اور صدر الدین آزردہ نے اس کا حوصلہ بڑھایا تھا، لیکن بھرے ہوئے مشاعرے میں دو آدمیوں کی داد سے کیا ہوتا ہے، مرزا نوشہ کی طبیعت اور بھی زیادہ مکدر ہوگئی تھی جب لوگوں نے ذوق کے کلام کو صرف اس لیے پسند کیا کیونکہ وہ بادشاہ کا استاد تھا۔

    مشاعرہ جاری تھا مگر مرزا نوشہ اٹھ کر چلا آیا۔ وہ اور زیادہ کوفت برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ مشاعرے سے باہر نکل کر وہ ہوا دار میں بیٹھا، کہاروں نے پوچھا، ’’حضور! کیا گھر چلیں گے؟‘‘ مرزا نوشہ نے کہا، ’’نہیں! ہم ابھی کچھ دیر سیر کریں گے۔ ایسے بازاروں سے لے چلو جو سنسان پڑے ہوں۔‘‘ کہار بہت دیر تک مرزا نوشہ کو اٹھائے پھرتے رہے، جس بازا سے بھی گزرتے وہ سنسان تھا، چودھویں کا چاند ڈوبنے کے لیے نیچے جھک گیا تھا۔ اس کی روشنی اداس ہوگئی تھی۔ ایک بہت ہی سنسان بازار سے ہوا دار گزر رہا تھا کہ دور سے سارنگی کی آواز آئی۔ بھیرویں کے سُر تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد کسی عورت کے گانے کی تھکی ہوئی آواز سنائی دی، مرزا نوشہ چونک پڑا۔ اسی کی غزل کا ایک مطلع بھیرویں کے سروں پر تیر رہا تھا،

    نکتہ چیں ہے، غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
    کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

    آواز میں درد تھا، جوانی تھی لیکن یہ مطلع ختم ہوتے ہی آواز ڈوب گئی۔

    دور ایک کوٹھے پر ملکہ جان جماہیاں لے رہی ہے۔ چاندنی بچھی ہوئی ہے، جس کی سلوٹوں سے اور موتیا اور گلاب کی بکھری اور مسلی ہوئی پتیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ناچ کی محفل کو ختم ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔ ملکہ جان نے ایک لمبی جماہی لی اور اپنا ضعیف بدن جھٹک کر اپنی سانولی سلونی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں والی نوچی سے جو گاؤ تکیے پر سر رکھے اپنی گاودم انگلیاں چٹخا رہی تھی کہا، ’’مومن ہے، شیفتہ ہے، آزردہ ہے، استاد شاہ ذوق ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کل کے اس مبتدی شاعر غالب کے کلام میں کیا دھرا ہے کہ جب نہ تب تو اسی کی غزل گائے گی۔‘‘ نوچی مسکرائی۔ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں چمک پیدا ہوگئی۔ ایک سرد آہ بھر کر اس نے کہا،

    دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا
    میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

    ملکہ جان نے پہلے سے بھی زیادہ لمبی جماہی لی اور کہا، ’’بھئی اب سو بھی چکو۔ بہت راہ دیکھی جمعدار حشمت خاں کی۔‘‘

    شوخ چشم نوچی نے انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر بازو اوپر لے جا کر ایک جماہی لیتے ہوئے کہا، ’’بس اب آتے ہی ہوں گے۔ میں نے تو ان سے کہا تھا مرزا غالب کے آگے سے جوں ہی شمع ہٹے وہ ان کی غزل کی نقل لے کر چلے آئیں۔‘‘ ملکہ جان نے برا سامنہ بنایا، ’’اس نگوڑے مرزا غالب کے لیے اب تو اپنی نیند بھی حرام کرے گی۔‘‘ نوچی مسکرائی۔ سامنے فدن میاں سارنگی پر ٹھوڑی ٹکائے پنک میں اونگھ رہا تھا۔ نوچی نے طنبورہ اٹھایا اور اس کے تار ہولے ہولے چھیڑنا شروع کیے، پھر اس کے حلق سے خود بخود شعر راگ بن کر نکلنے لگے۔

    نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
    کیا بنے بات جہاں بات بنائے نے بنے

    فدن میاں ایک دم چونکا۔ آنکھیں مندی رہیں، لیکن سارنگی کے تاروں پر اس کا گز چلنے لگا۔

    میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل
    اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے

    گانے والی کی تسکین نہ ہوئی چنانچہ اس نے شعر کو یوں گانا شروع کیا،

    میں بلاتی تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل
    ان پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے

    ملکہ جان ایک دم چونکی۔ اس نے نوچی کو اشارہ کیا، وہ بھی چونک پڑی، سامنے دہلیز میں مرزا نوشہ تھا۔ ملکہ جان فوراً اٹھی اور تسلیمات بجائی، نوچی نے بھی اٹھ کر کھڑے قدم تعظیم دی، یہ جان کر کہ شہر کے کوئی رئیس ہیں، ملکہ استقبال کے لیے آگے بڑھی، ’’آئیے، آئیے، تشریف لائیے، زہے قسمت کہ آپ ایسے رئیس مجھ غریب کو سرفراز فرمائیں۔ آپ کے آنے سے میرا گھر روشن ہوگیا۔‘‘

    مرزا نوشہ نے حسنِ ملیح کے نادر نمونے کی طرف دیکھا، نوچی نے جھک کر کہا، ’’آئیے ادھر مسند پر تشریف رکھیے۔‘‘ مرزا نوشہ ذرا رک کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا، ’’تمہارا گلا بہت سریلا ہے اور تمہاری آواز میں درد ہے، نہ جانے کیوں بے کھٹک اندر چلا آیا۔ کیا تمہارا نام پوچھ سکتا ہوں؟‘‘

    نوچی نے پاس ہی بیٹھتے ہوئے کہا، ’’جی! مجھے چودھویں کہتے ہیں۔‘‘ مرزا نوشہ مسکرایا، ’’یعنی آج کی رات۔‘‘ چودھویں مسکرا دی، مرزا نوشہ نے کہا، ’’بھئی خوب گاتی ہو۔‘‘ چودھویں نے حسبِ دستور جواب دیا، آپ مجھے بنا رہے ہیں۔‘‘

    مرزا نوشہ کو مذاق سوجھا، ’’بنائی ترکاری سبزی جاتی ہے تم کو تھوڑا ہی بنایا جا سکتا ہے۔‘‘ چودھویں کو کچھ جواب دینا ہی تھا، چنانچہ اس نے کہا، ’’خوب! خوب! یہ بھی خوب! میں بنی بنائی ہوں، اللہ نے مجھے بنایا ہے۔‘‘ مرزا نوشہ نے اسی لہجے میں کہا ’’اللہ نے سبھی کو بنایا ہے، پر تم بنی ابھی، نئی بنی ہو۔‘‘

    چودھویں کے سانولے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کے چمکیلے دانت موتیوں کی طرح چمکے۔ مرزا نوشہ نے فرمائش کی، ’’ضلع جگت کی چھوڑو اور ذرا پھر وہی غزل گاؤ، نامعلوم کس کی غزل ہے۔۔۔ نکتہ چیں ہے غم دل۔۔۔ ہاں ذرا شروع کرو۔‘‘

    چودھویں کو فرمائش کا یہ انداز پسند نہیں آیا۔ چنانچہ اس نے ذرا تنک کر کہا، ’’یہ غزل غالب کی ہے اور غالب کا سمجھنا کوئی سہل نہیں۔‘‘ مرزا نوشہ نے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘

    ’’سمجھے تو کوئی پختہ کار سمجھے، آپ ایسے نوجوان کیا سمجھیں گے؟‘‘ مرزا نوشہ مسکرایا، ’’بھاؤ بتا کر گاؤ تو کچھ بھاؤ کے انگوں سے شاید سمجھ لوں۔‘‘ اب چودھویں کو جگت سوجھی، پھلکی سی ناک چڑھا کر کہا، ’’بھاؤ کا بھاؤ مہنگا پڑ جائے گا۔‘‘ مرزا نوشہ ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوگیا، پھر چودھویں سے مخاطب ہوا، ’’آپ کو غالب کا کلام بہت پسند ہے۔‘‘ چودھویں نے مسکرا کر جواب دیا، ’’جی ہاں!‘‘

    ملکہ جان جو ابھی تک خاموش بیٹھی تھی مرزا نوشہ سے مخاطب ہوئی، ’’حضور! کئی بار سمجھا چکی ہوں اسے کہ ذوق ہے، مومن ہے، نصیر ہے، شیفتہ ہے۔ سب مانے ہوئے استاد ہیں، پَر نہ جانے اسے اس عطائی شاعر غالب میں کیا خاص بات نظر آتی ہے کہ آپ مومن کی فرمائش کریں گے اور یہ غالب شروع کردے گی۔‘‘

    مرزا نوشہ نے مسکرا کر چودھویں کی طرف دیکھا اور کہا، ’’ایسی کوئی خاص بات ہو گی؟‘‘

    چودھویں سنجیدہ ہوگئی، ’’یہ تو وہی سمجھے جسے لگی ہو۔‘‘

    مرزا نوشہ نے دل چسپی لیتے ہوئے پوچھا، ’’کیا میں سن سکتا ہوں وہ آپ کے دل کی لگی کیا ہے؟‘‘

    چودھویں نے سرد آہ بھری۔ ’’نہ پوچھیے کہاں میں ایک غریب ڈومنی، کہاں غالب! جانے دیجیے اس بات کو، کہیے آپ کس کی غزل سنیں گے؟‘‘ مرزا نوشہ مسکرایا، ’’غالب کی، اور کہیے تو میں آپ کو غالب کے پاس لے چلوں، چودھویں کا چاند برج اسد میں طلوع ہو جائے۔‘‘ چودھویں اس کا مطلب نہیں سمجھی، ’’مجھ ایسی کو وہ کیا پوچھیں گے۔ خاک ہو جائیں گے ہم ان کو خبر ہونے تک۔‘‘

    مشاعرے میں مرزا نوشہ کو جو کوفت ہوئی تھی اب بالکل دور ہوچکی تھی، اس کے سامنے سانولے سلونے رنگ کی موٹی موٹی آنکھوں والی ایک لڑکی بیٹھی تھی جس کو اس کے کلام سے بے حد محبت تھی۔ یہ کیوں اور کیسے پیدا ہوئی، مرزا نوشہ بہت دیر تک باتیں کرنے کے باوجود بھی نہ جان سکا۔ آخر میں مرزا نوشہ نے اس سے پوچھا، ’’کیا تم نے غالب کو کبھی دیکھا ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ چودھویں نے جواب دیا۔ مرزا نوشہ نے کہا، ’’میں انھیں جانتا ہوں بہت ہی بگڑے رئیس ہیں، تم چاہو تو میں انھیں لا سکتا ہوں یہاں۔‘‘ چودھویں کا چہرہ تمتما اٹھا، ’’سچ؟‘‘ مرزا نے کہا، ’’میں کوشش کروں گا۔‘‘

    اور یہ کہہ کر جیب سے ایک کاغذ نکالا، ’’میرا کلام سنو گی؟‘‘ چودھویں نے رسمی طور پر کہا، ’’سنائیے۔۔۔ ارشاد!‘‘ مرزا نوشہ نے مسکرا کر کاغذ کھولا، ’’یوں تو میں بھی شعر کہتا ہوں پر تمہیں تو غالب کے کلام سے محبت ہے، میرا کلام تمہیں کیا پسند آئے گا۔‘‘ چودھویں نے پھر رسمی طور پر کہا، ’’جی نہیں، کیوں پسند نہ آئے گا، آپ ارشاد فرمائیے۔‘‘

    مرزا نوشہ نے ابھی اس کاغذ کے دو ہی شعر سنائے ہوئے ہوں گے جو اس نے مشاعرے میں پڑھی تھی کہ چودھویں نے ٹوک کر پوچھا، ’’آپ اس مشاعرے میں شریک تھے جو مفتی صدرالدین آزردہ کے یہاں ہو رہا تھا؟‘‘ مرزا نوشہ نے جواب دیا، ’’جی ہاں۔‘‘ چودھویں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا، ’’غالب تھے؟‘‘ مرزا نوشہ نے جواب دیا، ’’جی ہاں۔‘‘ چودھویں نے اور زیادہ اشتیاق سے کہا، ’’کوئی ان کی غزل کا شعر یاد ہو تو سنائیے۔‘‘ مرزا نوشہ نے افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ ’’اس وقت کوئی یاد نہیں آرہا ہے۔‘‘

    اس نے اب مذاق کو زیادہ طول نہ دینا چاہا۔ ایک گلوری چودھویں کے ہاتھ کی بنی ہوئی لی، خاص دان میں ایک اشرفی رکھی اور رخصت چاہی۔

    کوٹھے سے نیچے اترا تو سیڑھیوں کے پاس مرزا نوشہ کی مڈ بھیڑ جمعدار حشمت خاں سے ہوئی جو مشاعرے سے واپس آ رہا تھا۔ حشمت خاں اس کو دیکھ کر بھونچکا رہ گیا، ’’مرزا نوشہ! آپ یہاں کہاں؟‘‘ مرزا نوشہ خاموش رہا، حشمت خاں نے معنی خیز انداز میں کہا، ’’تو یہ کہیے کہ آپ کا بھی اس وادی میں کبھی کبھی گزر ہوتا ہے۔‘‘ مرزا نوشہ نے مختصر سا جواب دیا، ’’فقط آج اور وہ بھی اتفاق سے۔ خدا حافظ۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ ہوا دار میں بیٹھ گیا، حشمت خاں اوپر گیا تو چودھویں دیوانہ وار اس کی طرف بڑھی، ’’کہیے غالب کی غزل لائے؟‘‘

    حشمت خاں کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہے۔ غزل کا کاغذ جیب سے نکالا اور بڑبڑایا، ’’لایا ہوں۔۔۔ لو۔‘‘ چودھویں نے پُر اشتیاق ہاتھوں سے کاغذ لیا تو حشمت خاں نے ذرا لہجے کو سخت کرتے ہوئے کہا، ’’پر غالب تو ابھی ابھی تمہارے کوٹھے سے اتر کر گئے، یہ ماجرا کیا ہے؟‘‘ چودھویں چکرا سی گئی۔

    ’’غالب؟ میرے کوٹھے پر! ابھی ابھی اتر کر گئے! مجھے دیوانہ بنا رہے ہو۔ میرا کوٹھا کہاں۔۔۔ غالب کہاں؟‘‘

    جمعدار نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا، ’’واقعی! سچ کہتا ہوں وہ غالب تھے جو ابھی ابھی تمہارے کوٹھے سے اترے۔‘‘ چودھویں اور زیادہ چکرا گئی، ’’جھوٹ؟‘‘

    ’’نہیں چودھویں سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘

    چودھویں نے پاگلوں کی طرح حشمت خاں کو دیکھنا شروع کیا، ’’میری جان کی قسم غالب تھے؟ جھوٹ! مجھ کو بنا رہے ہو۔ اللہ! سچ کہو غالب تھے؟‘‘ حشمت خاں بھنا گیا، ’’ارے تمہاری ہی جان کی قسم غالب تھے۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب جو مرزا نوشہ کے نام سے مشہور ہیں اور جو اسد بھی تخلص کرتے ہیں۔‘‘ چودھویں بھاگی ہوئی کھڑکی کی طرف گئی، ’’ہائے میں مرگئی! غالب تھے!‘‘ نیچے جھانک کر دیکھا مگر بازار خالی تھا، ’’میرا ستیا ناس ہو! میں نے ان کی خاطر مدارات بھی نہ کی۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے غزل کا کاغذ کھول کر دیکھا اور سَر پیٹ لیا، ’’اللہ! یہ خواب ہے یا بیداری، سچ ہے۔ تو وہ غالب ہی تھے سو میں غالب ہزار میں غالب تھے۔ جمعدار صاحب! سچ کہا آپ نے وہ ضرور غالب تھے۔ ہائے! میں نے ان سے کہا آپ غالب کے کلام کو کیا سمجھیں گے۔ میں مر جاؤں۔۔۔ بھلا وہ کیا دل میں کہتے ہوں گے۔ ہائے کیسی میٹھی میٹھی باتیں کر رہے تھے۔ اُف! نہ معلوم کیا کیا ان سے کہہ گئی؟‘‘

    یہ کہتے کہتے اس نے غزل کا کاغذ منہ پر پھیلا لیا اور رونے لگی۔

    (از: سعادت حسن منٹو)

  • آج اردو کے عظیم شاعر اسد اللہ خاں غالب کی برسی ہے

    آج اردو کے عظیم شاعر اسد اللہ خاں غالب کی برسی ہے

    یہ اُس آتش بیان کا تذکرہ ہے جو دنیا کو بازیچۂ اطفال خیال کرتا تھا۔ اسے اپنا فارسی کلام بہت پسند تھا، لیکن جو مقبولیت اور شہرتِ دوام اسے حاصل ہوئی، وہ اردو شاعری کی بدولت ہوئی۔ اسے برصغیر کا عظیم شاعر تسلیم کیا گیا۔ آج ہر خاص و عام اسے مرزا غالب کے نام سے جانتا ہے۔

    مرزا اسد اللہ خان کا وطن آگرہ تھا، وہی آگرہ جو ایک اعجوبہ و نادرِ زمانہ عمارت تاج محل کے لیے بھی دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔ مرزا غالب 27 دسمبر 1797ء کو پیدا ہوئے۔ دلّی میں پرورش پائی۔ کم سنی ہی میں شعر گوئی کا آغاز کردیا تھا۔ غالب کا ابتدائی کلام فارسی زبان و تراکیب اور ان کی مشکل پسندی کی وجہ سے تنقید کی زد میں آیا مگر غالب نے اپنے اس اندازِ بیان کو نہ چھوڑا۔

    ناقدین کے مطابق انھوں‌ نے مسلسل تنقید کے بعد اپنے کلام کو کچھ تبدیلی کے ساتھ ضرور پیش کیا، لیکن ان کی مخالفت کم نہ ہوسکی۔ غالب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے:

    نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا
    گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

    ادھر دلّی کے حالات ابتر اور خود غالب کی زندگی کی مشکلات بڑھتی جارہی تھیں۔ وہ معاش کی فکر اور تنگ دستی سے پریشان تھے۔ تبھی غالب کی شاعری میں ایک جدّت بھی پیدا ہوئی۔ مگر ان کی شاعری کا رنگ نرالا ہی رہا۔ غالب نے اپنی شاعری میں روایتی موضوعات کو بھی نہایت پُرلطف اور الگ ہی ڈھب سے باندھا اور ایسے مقبول ہوئے کہ آج تک ان کا سحر برقرار ہے۔ مرزا غالب نے سنجیدہ اور گہرے مضامین کو نہایت بے تکلفی سے اپنے اشعار میں‌ باندھا ہے اور یہی ان کی وجہِ انفرادیت ہے۔

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

    غالب کے اشعار کی خوبی یہ ہے کہ ہر بار قاری ایک نئے معنٰی اور نئے مفہوم سے آشنا ہوتا ہے۔

    اردو زبان کے اس عظیم شاعر کا زمانہ وہ تھا جب مغل حکومت کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔ ہندوستان میں ابتری اور انتشار تھا۔ عہدِ طفلی میں غالب اپنے والد سے محروم ہوگئے اور بھائی بھی نہ رہے۔ پرورش کی ذمہ داری ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے اٹھا لی، لیکن غالب آٹھ سال کے تھے کہ چچا بھی فوت ہو گئے۔ یوں بچپن محرومیوں اور مشکلات میں کٹ گیا۔ کم عمری میں‌ ان کی شادی نواب الٰہی بخش کی بیٹی سے ہوگئی تھی۔ شادی ہوئی تو خدا نے متعدد بار اولاد دی جو بچپن میں ہی مٹی کا رزق بن گئی۔ اس پر غالب کی شراب نوشی اور مالی خستگی نے بڑا غضب ڈھایا۔

    غالب غزل گو شاعر، قصیدہ نگار اور اچھے نثر نگار تھے۔ خطوط نویسی میں ان کا جواب نہیں۔ انھوں‌ نے خط کو مکالمہ بنا دیا تھا۔ ان کے دواوین 1841ء، 1847ء، 1861ء، 1862ء اور 1863ء میں شائع ہوئے۔ مشکل پسندی کا زمانہ ختم ہوا تو غالب نے سلاست، روانی اور نہایت خوب صورتی سے اپنے خیالات کو غزل میں پیش کرکے اس وقت کے شعرا میں‌ نمایاں مقام حاصل کیا۔ ان کے کلام میں‌ فلسفیانہ انداز، عشق اور تصوف کے موضوعات کا نہایت لطیف اظہار ملتا ہے۔

    فارسی کی تراکیب اور مشکل الفاظ کے استعمال کو چھوڑ کر جب غالب نے اردو شاعری پر توجہ دی تو ان کے کلام میں فصاحت اور بلاغت عروج پر تھی جس نے انھیں‌ مقبولیت دی۔

    انھیں مغل دربار تک رسائی حاصل ہوئی تو وہ نجم الدّولہ، دبیرُ الملک، مرزا نوشہ اور نظام جنگ جیسے خطاب اور القاب سے نوازے گئے۔ غالب کی شاعرانہ عظمت کا راز صرف ان کے کلام میں حسن اور بیان کی خوبی ہی نہیں بلکہ انھوں نے زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو نہایت خوب صورتی سے اپنے اشعار میں‌ سمویا اور اسی لیے ممتاز ہوئے۔ غدر کے بعد والیٔ رام پور کے دربار سے وابستہ ہوگئے جہاں سے آخر عمر تک وظیفہ ملتا رہا۔

    غالب بحیثیت نثار بھی اردو ادب میں نہایت اہم مقام رکھتے ہیں اور خاص طور پر ان کے خطوط کا شہرہ ہوتا ہے جس میں انھوں نے نثر کو ایک نیا آہنگ اور اسلوب دیا۔ اس زمانے میں خطوط نگاری پُرتکلف القاب و آداب، مقفع اور مسجع زبان میں کی جاتی تھی، لیکن مرزا غالب نے اپنے دوستوں اور مختلف شخصیات کو لکھے گئے خطوط میں سادہ اور عام زبان کے ساتھ دل چسپ انداز اختیار کیا اور گویا ’’مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔‘‘

    مرزا غالب سے کئی لطائف اور تذکرے منسوب ہیں لیکن ہم یہاں وہ واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جس سے غالب کی دردمندی اور انسان دوستی عیاں ہوتی ہے۔

    "غالب کا عام طریقہ یہ تھا کہ جب تک واقعی اچھا شعر نہ ہوتا، تعریف نہ کرتے اور خاموش بیٹھے رہتے۔

    خواجہ حالی فرماتے ہیں کہ اس بنا پر بعض معاصرین ان سے آزردہ رہتے تھے اور ضد میں آکر ان کی شاعری پر طرح طرح کی نکتہ چینیاں کرتے تھے۔ ویسے غالب طبعاً صلح جو تھے اور ہر شخص کی دلداری کا انتہائی خیال رکھتے تھے۔

    "تذکرہ غوثیہ” میں ایک واقعہ حضرت غوث علی شاہ پانی پتی کی زبانی مرقوم ہے کہ ایک روز مرزا، رجب علی بیگ سرور، مصنف فسانہ عجائب سے ملے۔ اثنائے گفتگو پوچھا کہ اُردو زبان کس کتاب کی عمدہ ہے۔ جواب ملا کہ "چہار درویش” کی۔

    سرور نے "فسانہ عجائب” کا نام لیا۔ غالب کو معلوم نہ تھا کہ خود مصنفِ "فسانہ عجائب” استفسار کررہا ہے۔ بے تکلف جواب دیا۔ "اجی لاحول ولا قوۃ” اس میں لطفِ زبان کہاں۔ ایک تک بندی اور بھٹیار خانہ جمع ہے۔

    جب سرور چلے گئے اور غالب کو معلوم ہوا کہ یہ "فسانہ عجائب” کے مصنف تھے تو بہت افسوس کیا اور کہا، "ظالمو پہلے سے کیوں نہ کہا۔”

    دوسرے دن غوث علی شاہ صاحب ملے، انھیں سارا قصہ سنایا اور کہا کہ حضرت! یہ امر مجھ سے بے خبری میں سرزد ہوگیا۔ آئیے آج سرور کے مکان پر چلیں اور کل کی مکافات کر آئیں۔

    چناں چہ وہاں گئے۔ مزاج پرسی کے بعد غالب نے عبارت آرائی کا ذکر چھیڑا اور بولے، جناب مولوی صاحب رات میں نے "فسانہ عجائب” کو بہ غور دیکھا تو اس کی خوبی عبارت اور رنگینی کا کیا بیان کروں، نہایت ہی فصیح و بلیغ ہے۔ غرض اس قسم کی باتوں سے سرور کو مسرور کیا۔

    دوسرے دن ان کی دعوت کی اور غوث علی شاہ صاحب کو بھی بلایا۔

    شاہ صاحب یہ واقعہ بیان فرمانے کے بعد کہتے ہیں:

    "مرزا صاحب کا مذہب یہ تھا کہ دل آزاری بڑا گناہ ہے۔” لیکن اشعار کی داد میں راہِ حق سے بال برابر بھی انحراف گوارا نہ تھا۔” واضح ہو کہ یہ واقعہ مولانا غلام رسول مہر کی کتاب سے نقل کیا گیا ہے۔

    اپنے ایک خط میں‌‌ غالب نے اپنی مکان سے متعلق پریشانی کا تذکرہ کیا تھا۔ یہ مرزا غالب کے ایک چہیتے شاگرد منشی ہر گوپال المعروف مرزا تفتہ سے منسوب ہے۔ انھیں لکھے گئے غالب کے ایک ایسے ہی خط سے چند سطور ہم یہاں نقل کررہے ہیں‌۔ اس میں اسد اللہ خان غالب نے اپنے مستقر کی تبدیلی سے متعلق مرزا تفتہ کو اپنی تکلیف اور پریشانی سے آگاہ کیا تھا۔ لکھتے ہیں،

    "مالک نے مکان بیچ ڈالا۔ جس نے لیا ہے اس نے مجھ سے پیام بلکہ ابرام کیا کہ مکان خالی کر دو۔ مکان کہیں ملے تو میں اوٹھوں (اٹھوں) بیدرد نے مجھ کو عاجز کیا اور مدد لگا دی۔ وہ صحن بالا خانے کا جس کا دو گز کا عرض اور دس گز کا طول، اس میں پاڑ بندھ گئی۔ رات کو وہیں سویا۔

    گرمی کی شدت پاڑ کا قرب، گمان یہ گزرتا تھا کہ یہ کٹکڑ ہے اور صبح کو مجھ کو پھانسی ملے گی۔ تین راتیں اسی طرح گزریں۔ دو شنبہ 9 جولائی کو دوپہر کے وقت ایک مکان ہاتہ (ہاتھ) آ گیا، وہاں جا رہا، جان بچ گئی۔ یہ مکان بہ نسبت اس مکان کے بہشت ہے اور یہ خوبی کہ محلّہ وہی بلی ماروں کا۔

    اگرچہ ہے یوں کہ میں اگر اور محلّہ میں‌ بھی جا رہتا تو قاصدانِ ڈاک وہاں پہنچتے، یعنی اب اکثر خطوط لال کنویں کے پتے سے آتے ہیں اور بے تکلف یہیں پہنچتے ہیں۔ بہرحال تم وہی دلّی بلی ماروں کا محلّہ لکھ کر خط بھیجا کرو۔

    دو مسودے تمہارے اور ایک مسودہ بے صبر کا یہ تین کاغذ درپیش ہیں۔ دو ایک دن میں بعد اصلاح ارسال کیے جائیں گے۔ خاطر عاطر جمع رہے۔

    صبح جمعہ
    28 جولائی 1860ء

    حالی کی مشہور تصنیف "یادگارِ غالبؔ” سے بھی اس عظیم شاعر کی شخصیت اور اپنے احباب کے لیے ان کی فکر کا اندازہ ہوتا ہے۔ کتاب میں‌ لکھا ہے:

    غالبؔ کے ایک امیر دوست جن کی حالت غدر میں بہت سقیم ہوگئی تھی، چھینٹ کا فرغل پہنے ہوئے ملنے آئے۔

    غالبؔ نے انھیں کبھی مالیدے یا جامہ دار کے چغوں کے سوا نہیں دیکھا تھا۔

    چھینٹ کا فرغل دیکھ کر غالبؔ کا دل بھر آیا، امداد کا خیال پیدا ہوا، لیکن دوست کی دل داری کا تقاضا یہ تھا کہ اس کے ساتھ ایسے طریق پر سلوک کیا جائے کہ اسے اپنی بے چارگی اور بے بسی کا احساس نہ ہو اور پیش کردہ ہدیہ قبول کرتے ہوئے عار نہ آئے۔

    غالبؔ نے یہ عرض مدِنظر رکھ کر چھینٹ کے فرغل کی بے حد تعریف کی۔

    پوچھا کہ یہ چھینٹ کہاں سے لی ہے اور (دوست سے) درخواست کی کہ مجھے بھی اس کا فرغل بنوا دیا جائے۔

    دوست نے بلا تکلف کہا کہ ”اگر آپ کو یہ بہت پسند ہے تو یہی لے لیجیے۔“

    غالب نے کہا، ”جی تو یہی چاہتا ہے کہ آپ سے ابھی چھین لوں، لیکن جاڑا شدت سے پڑ رہا ہے، آپ یہاں سے مکان(اپنے گھر تک) کیا پہن کر جائیں گے۔“

    اسی کے ساتھ اپنا مالیدے کا نیا چغہ (اپنے دوست کو) پہنا دیا۔

    15 فروری 1869ء کو مرزا غالب ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ گئے تھے، مگر ان کے اعجازِ سخن کا چرچا آج بھی ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔