Tag: مرزا غالب

  • ’’آم کھائو اور اودی جامنوں کو یاد رکھو!‘‘

    ’’آم کھائو اور اودی جامنوں کو یاد رکھو!‘‘

    یہ آم بھی عجب پھل ہے۔ پھلوں کے حساب سے کوئی ایسا نام وَر پھل بھی نہیں ہے، مگر جب بازار میں اس کی نمود ہوتی ہے تو باقی سب پھل پھیکے پڑ جاتے ہیں۔

    ارے! آپ کو پتہ ہے کہ آموں کے عشاق میں ہمارے دو نامی گرامی شاعر بھی شامل ہیں۔ بھلا کون؟ غالب اور اقبال۔

    غالب نے تو شعر لکھ کر آم کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور آم کو بہشت کا پھل بتایا ہے۔ کہتے ہیں:

    باغبانوں نے باغِ جنّت سے
    انگبیں کے بہ حکمِ ربُّ النّاس
    بھر کے بھیجے ہیں سر بہ مُہر گلاس

    اور اب اس ذیل میں ایک لطیفہ بھی سن لیجیے۔ مرزا غالب اپنے گھر کے چبوترے پر بیٹھے تھے۔ یار دوست جمع تھے۔ سامنے سے کچھ گدھے گزرے۔ گزر گاہ کے ایک گوشے میں آم کی گٹھلیوں اور چھلکوں کو دیکھ کر ایک گدھا ٹھٹھکا۔ گٹھلیوں چھلکوں کو سونگھا اور آگے بڑھ گیا۔ ایک دوست نے از راہِ تفنّن کہا مرزا صاحب آپ نے ملاحظہ فرمایا، گدھے بھی آم نہیں کھاتے۔

    مرزا مسکرائے۔ بولے ’’ہاں گدھے آم نہیں کھاتے۔‘‘

    آموں کی ایک فصل علامہ اقبال پر بہت بھاری گزری۔ حکیم صاحب نے انھیں ہدایت کی کہ آموں سے پرہیز کیجیے، مگر جب دیکھا کہ مریض بہت مچل رہا ہے تو کہا کہ اچّھا آپ دن میں ایک آم کھا سکتے ہیں۔ تب علّامہ صاحب نے علی بخش کو ہدایت کی کہ بازار میں گھوم پھر کر دیکھو، جو آم سب سے بڑا نظر آئے وہ خرید کر لایا کرو۔

    اقبالیات کے محققین عجب بد ذوق ہیں۔ کسی نے اقبال اور آم کے مضمون میں تحقیق کے جوہر نہیں دکھائے۔ ہاں یاد آیا ایک برس ڈاکٹر جمیل جالبی یومِ اقبال کی تقریب سے پنجاب یونیورسٹی کے بلاوے پر کراچی سے یہاں آئے تھے۔ انھوں نے اقبال کے خطوط کو اپنے مقالہ میں چھانا پھٹکا تھا۔ کچھ خطوط انھوں نے آم و جامن کے حوالے سے بھی برآمد کیے تھے۔ ایک خط دربارۂ آم ملاحظہ فرمائیے۔

    ’’آموں کی کشش، کششِ علم سے کچھ کم نہیں۔ یہ بات بلا مبالغہ عرض کرتا ہوں کہ کھانے پینے کی چیزوں میں صرف آم ہی ایک ایسی شے ہے جس سے مجھے محبت ہے۔ ہاں آموں پر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ گزشتہ سال مولانا اکبر نے مجھے لنگڑا آم بھیجا تھا۔ میں نے پارسل کی رسید اس طرح لکھی ؎

    اثر یہ تیرے اعجازِ مسیحائی کا ہے اکبر
    الہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک آیا‘‘

    اس زمانے میں آموں کے نام سب سے بڑھ کر لنگڑے کی دھوم تھی۔ اکبر الہ آبادی نے اس تقریب سے علامہ کو لنگڑے کا تحفہ بھیجا۔ اب لنگڑا، لنگڑاتا لنگڑاتا کہیں پیچھے رہ گیا۔ اب کون اس کا نام لیوا ہے۔ اب تو چونسہ کا بول بالا ہے۔

    عجب بات ہے کہ یوں تو آم و جامن کا چولی دامن کا ساتھ ہے، مگر آموں کے رسیا آم کھاتے ہوئے اتنے مست ہو جاتے ہیں کہ غریب جامن کو خاطر ہی میں نہیں لاتے۔

    خیر، ایسی بات بھی نہیں ہے کہ جامن کے قدر دان سرے سے مفقود ہوں۔ تو مت بھولو کہ برکھا کی یہ رُت خالی آموں کی رت نہیں ہوتی۔ آموں کے ساتھ جامنیں بھی ہیں۔ اور جامنوں کا اپنا ذائقہ ہے اور اپنا رنگ روپ ہے جسے ہم جامنی رنگ کہتے ہیں۔ چاہیں تو آپ انھیں اودی اودی جامنیں کہہ لیں۔

    آم کھائو اور اودی جامنوں کو یاد رکھو۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، ناول اور افسانہ نگار اور نقّاد انتظار حسین کے ایک کالم سے اقتباسات)

  • اردو، فارسی، عربی کے عالم اور غالب شناس مالک رام کا تذکرہ

    اردو، فارسی، عربی کے عالم اور غالب شناس مالک رام کا تذکرہ

    برصغیر کے اردو، فارسی اور عربی کے مشہور عالم اور ماہرِ غالبیات مالک رام کی زندگی کا سفر 16 اپریل 1993ء کو تمام ہوا۔ وہ نہ صرف اردو، انگریزی کے بلند پایہ ادیب، نقّاد اور محقق تھے بلکہ انھوں نے اسلام اور اس کی تعلیمات کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور اس حوالے سے مختلف موضوعات پر نہایت جامع اور مستند مضامین سپردِ‌ قلم کیے۔ انھیں غالب شناس کہا جاتا ہے۔

    ادب، مذہب اور تاریخ مالک رام کی دل چسپی کے موضوعات ہیں جب کہ انھوں نے 200 سے زائد مقالے اور مضامین لکھے جو پاک و ہند کے مشہور و معروف جرائد میں شایع ہوئے۔

    دہلی میں وفات پانے والے مالک رام کا تعلق متحدہ ہندوستان کے علاقے پھالیہ سے تھا جہاں انھوں نے 1906ء میں آنکھ کھولی۔ وزیر آباد میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج، لاہور میں داخلہ لیا۔ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انھوں نے لاہور کے ماہانہ ادبی جریدے نیرنگِ خیال کے لیے معاون مدیر کی حیثیت سے کام کیا اور بعد میں اس کے مدیر بنے۔ انھوں نے انڈین فارن سروس میں شمولیت کے دوران ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے مختلف ممالک کے دورے کیے جہاں اپنے علمی و ادبی شوق کے سبب لائبریریوں، عجائب گھروں اور تاریخی مقامات کی سیر کی اور ان سے متعلق معلوماتی مضامین اور تذکرے لکھے۔ مالک رام مختلف اداروں اور جرائد سے منسلک رہے اور بکثرت لکھا۔

    مالک رام نے اپنی زندگی کا بڑا حصّہ مرزا اسد اللہ خان غالب کے مطالعے میں گزارا۔ انھوں نے اردو اور فارسی میں غالب کے زیادہ تر کلام کی تدوین کی اور حاشیے بھی لکھے۔ ان میں سبدِ چین، دیوانِ غالب، گلِ رعنا اور خطوطِ غالب شامل ہیں۔

    ذکرِ غالب وہ کتاب تھی جو غالب کی حیات اور تخلیقات پر مالک رام کی علمی اور تحقیقی مہارت کا نمونہ ہے۔ اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے اور اسے غالب پر تحقیقی اعتبار سے سند مانا جاتا ہے۔

    مالک رام کو اسلامی ثقافت اور ادب پر بھی خاصا عبور حاصل تھا۔ انھوں نے اسلامی ادب، روایات اور رسومات پر کئی مضامین لکھے۔ ان کی دو کتب ہر خاص و عام کے لیے مفید ہیں جن میں ایک ‘عورت اور اسلامی تعلیم‘ ہے جس کا انگریزی، عربی زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا جب کہ اسلامیات کے حوالے سے ان کی دوسری اہم کتاب کا نام ہی ‘اسلامیات‘ تھا۔ اس میں مالک رام نے اسلام اور اسلامی روایات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔

    مالک رام نے ادبی دنیا کے کئی اعزازات حاصل کرنے کے علاوہ بھارتی حکومت سے بھی اپنی علمی اور ادبی کاوشوں کے اعتراف میں ایوارڈ حاصل کیے۔

  • انگریزوں کے ملازم آزردہؔ بہادر شاہ ظفر کے وفادار تھے

    انگریزوں کے ملازم آزردہؔ بہادر شاہ ظفر کے وفادار تھے

    مفتی صدر الدّین آزردہ غالب کے عہد کی ایک ممتاز و معزّز شخصیت تھے۔ وہ غالب کے نہایت قریبی دوست بھی تھے۔

    ملک پر انگریزوں کے تسلّط سے پہلے وہ دہلی اور آس پاس کے علاقوں کے مفتی تھے اور برطانوی دورِ حکومت میں انھیں صدرُ الصدور کے عہدہ سے نوازا گیا، جو اس زمانے میں انگریزوں کی طرف سے کسی ہندوستانی کو دیا جانے والا سب سے بڑا عدالتی عہدہ تھا۔

    اپنے سرکاری فرائض کے علاوہ مفتی صاحب درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ اور ان کے نام وَر شاگردوں میں سر سیّد احمد خاں، یوسف علی خاں ناظم (نواب رامپور)، مولانا ابوالکلام آزاد کے والد مولانا خیرالدّین، نواب صدیق حسن خان (بھوپال) اور مولانا فیضُ الحسن خان جیسے لوگ شامل تھے۔

    آزردہ انگریزوں کی ملازمت کرتے ہوئے بھی انگریزوں کی صف میں شامل نہیں تھے بلکہ بہادر شاہ کے دربار سے منسلک رہنا پسند کرتے تھے۔

    دوسری جانب انگریز اس بات سے واقف تھے کہ دہلی علم و ادب کا مرکز ہے، اس لیے یہاں کے بااثر علما و فضلا میں سے ہی انگریزی ملازمت کے لیے ’صدر امین‘ اور ’صدرُالصّدور‘ یعنی آج کی اصطلاح میں جج بنایا جائے تو زیادہ موزوں ثابت ہو گا۔ اس لیے دہلی میں مفتی صدرالدّین آزردہ کو عہدہ دیا گیا، لیکن وہ وقت بھی آیا جب ان کو جیل جانا پڑا۔

    اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب ان تمام واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ اپنے خطوط میں غالب نے اس وقت کے حالات کا احباب سے تذکرہ کیا ہے۔ جیل سے آزردہ کی رہائی کے بعد ان کی مالی حالت اور طرزِ زندگی کے بارے میں غالب نے حکیم سیّد احمد حسن مودودی کو ایک خط میں لکھا:

    ’’مولوی صدرُ الدّین صاحب بہت دن حوالات میں رہے۔ کورٹ میں مقدمہ پیش ہوا۔ روبکاریاں ہوئیں۔ آخر صاحبانِ کورٹ نے جاں بخشی کا حکم دیا۔ نوکری موقوف، جائیداد ضبط، ناچار خستہ و تباہ حال لاہور گئے۔ فنانشل کمشنر اور لفٹنٹ گورنر نے از راہِ ترحّم نصف جائیداد وا گزاشت کی۔ اب نصف جائیداد پر قابض ہیں۔ اپنی حویلی میں رہتے ہیں۔ کرایہ پر معاش کا مدار ہے۔ اگرچہ بہ آمدنی ان کے گزارے کو کافی ہے۔ کس واسطے کہ ایک آپ اور ایک بی بی۔ تیس چالیس روپے مہینہ کی آمدنی۔‘‘ (اردوئے معلّٰی)

    (ہندوستان پر انگریزوں کے تسلّط اور غدر کے حوالے سے ایک تحقیقی مضمون سے چند پارے)

  • اردو شاعر الگزینڈر ہیدر لی جو مرزا غالب کا شاگرد تھا

    اردو شاعر الگزینڈر ہیدر لی جو مرزا غالب کا شاگرد تھا

    الگزینڈر ہیدر لی ایک فرانسیسی خاندان کے رکن تھے۔ ولادت غالباً ہندوستان ہی میں ہوئی تھی۔ سالِ ولادت تقریباً 1829ء۔

    اٹھارہ سال کی عمر سے اردو شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ مشورۂ سخن کے لیے کلام نواب زین العابدین خاں عارف (شاگردِ عزیز مرزا غالب) اور خود غالب کی خدمت میں بھیجنا شروع کیا۔ ان حضرات کا فیضِ توجہ کہیے یا خود آزاد کی طبّاعی کہ کچھ ہی روز میں اچھی خاصی مشق حاصل کر لی، اور کلام میں وہ پختگی آ گئی جو ایک غیر قوم کے فرد کے لیے بہت بڑی بات ہے۔ عمر نے وفا نہ کی۔

    کُل 32 سال کی عمر میں 7 جولائی 1861ء کو انتقال کیا۔ تاہم اس نوعمری میں کلام کا مجموعہ جس قدر ہو گیا تھا، وہ اوسط ضخامت کے دیوان کے لیے کافی تھا۔ چنانچہ وفات کے دو ہی برس بعد ان کے برادر کلاں طامس ہیدر لی نے اس دیوان کو شائع کر دیا۔

    تخلص آزادؔ کرتے تھے۔ اس لیے دیوان ہی دیوانِ آزادؔ کے نام سے موسوم ہے۔

    ابتدا میں دو دیباچے ہیں۔ پہلا دیباچہ فارسی میں منشی شوکت علی ساکن شاہ پور ضلع فتح پور کا ہے۔ اب یہ صاحب خود گم نام اور محتاجِ تعارف ہیں۔ اپنے زمانہ میں معلوم ہوتا ہے کہ مشہور منشیوں میں شمار ہوتے تھے۔ طرزِ بیان تقریظ نگاروں کے عام دستور کے مطابق شاعرانہ اور بعض بیانات مبالغہ آمیز۔

    آگے چل کر اسی دیباچے میں یہ ذکر ہے کہ ہیدر لی کو طب میں بھی یدِ طولیٰ حاصل تھا۔ مریض عموماً ان کے علاج سے شفا یاب ہوتے تھے، مزاج میں سخاوت و فیاضی حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ دوائیں بلا قیمت تقسیم کرتے اور دوسرے طریقوں سے بھی غربا کی دست گیری کرتے رہتے۔ خود عسرت سے بسر کرتے لیکن دوسروں کی حاجت روائی کے لیے قرض لینے سے بھی دریغ نہ کرتے۔ ریاست الور میں توپ خانہ کے کپتان مقرر ہو کر گئے۔ اسی سال وفات پائی۔

    (جیّد عالمِ دین، انشا پرداز، بے مثل ادیب اور صحافی عبد الماجد دریا بادی کے مضمون "غالب کا ایک فرنگی شاگرد آزاد فرانسیسی” سے انتخاب)

  • عظیم شاعر مرزا غالب کا یومِ پیدائش

    عظیم شاعر مرزا غالب کا یومِ پیدائش

    آج مرزا اسد اللہ خاں کا یومِ پیدائش منایا جارہا ہے جو جہانِ سخن میں غالب مشہور ہوئے۔ وہ 27 دسمبر 1797ء آگرہ میں پیدا ہوئے تھے۔

    اردو اور فارسی زبان کے اس شاعر نے نثر میں بھی اپنا کمال دکھایا اور ان کے دوستوں اور شاگردوں کے نام خطوط اور مراسلت بہت مشہور ہے۔ اسی طرح غالب کی بذلہ سنجی اور ان کی ظرافت سے متعلق کئی قصّے اور لطائف بھی ہمیں پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    غالب کے آباء و اجداد کا پیشہ سپہ گری تھا۔ وہ 13 برس کے تھے جب دہلی کے ایک خاندان میں شادی کے بعد اسی شہر کے ہو رہے۔ مے نوش اور یار باش غالب نے تنگ دستی دیکھی۔ اولاد سے محروم رہے۔ 1855ء میں استاد ذوق دنیا سے گئے تو مرزا غالب بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے دربار میں استاد مقرر ہوئے۔ دربار سے نجم الدولہ، دبیرُ الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے۔

    غالب نے سہل ممتنع اور سادہ و رواں بحروں میں مضامین کو اس خوبی اور عمدگی سے باندھا کہ آج بھی ہر خاص و عام میں مقبول ہیں۔ غالب نے شاعری کے ساتھ نثر نگاری میں نئے ڈھب اور اسلوب کو متعارف کروایا۔ ان کے خطوط ان کی نثر نگاری کا عمدہ نمونہ اور مثال ہیں۔

    15 فروری 1869ء کو مرزا غالب نے دہلی میں وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔ ان کی ایک غزل دیکھیے۔

    ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
    بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

    نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
    بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

    ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
    وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے

    محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
    اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

    کہاں مے خانے کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
    پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

  • غالب اور شریکِ غالب

    غالب اور شریکِ غالب

    اچھا بھلا ایک مکان مل گیا تھا، لیکن ابھی اس میں منجملہ اسبابِ ویرانی میرا لپٹا ہوا بستر بھی ٹھیک سے کھل نہیں پایا تھا کہ محلّے کے ماہرِ غالبیات نے نہیں معلوم کیسے سونگھ لیا کہ میں سخن فہم نہ سہی غالب کا طرف دار ضرور ہوں اور مجھے اپنی غالبانہ گرفت میں ایک صیدِ زبوں کی طرح جکڑ لیا۔

    آتے ہی آتے انھوں نے غالب کے متعلق دو چار حیرت انگیز انکشافات کے بعد مجھے پھانسنے کے لیے ایک آدھ ہلکے پھلکے سوالات کر دیے۔ اب میری حماقت ملاحظہ ہو کہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو بہت بڑاغالب فہم سمجھتا۔

    میں نے ان کو نرم چارہ سمجھ کر ان پر دو چار منھ مار دیے یا یوں سمجھ لیجیے اُن کی دُم پر پیر رکھ دیا یعنی ان کے سامنے غالب کو اپنے مخصوص زاویہ نگاہ سے پیش کرنے کی ’’سعیِ لا حاصل‘‘ کر بیٹھا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ میں کسی بارود کے خزانے کے قریب دیا سلائی جلانے کی کوشش کر رہا ہوں؟

    پھر کیا تھا، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ چیخ کر ماہرِ غالبیات پھٹ تو پڑے مجھ پر! اور میری معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے فنِ غالبیات کی ایسی ایسی توپوں اور آتش فشانوں کے دہانے کھول دیے کہ میں سراسیمہ، مبہوت اور ششدر ہو کر ہمیشہ کے لیے عہد کر بیٹھا کہ اب آئندہ کسی اجنبی بزرگ کے سامنے حضرتِ غالب کا نام اپنی زبانِ بے لگام سے ہرگز ہرگز نکلنے نہ دوں گا۔

    دوسرے ہی دن سے ماہرِ غالبیات نے، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں‘‘ کے عنوان سے میری باقاعدہ تعلیم شروع کردی۔

    سویرے میں بستر ہی پر ہوتا کہ وہ ’’لذّتِ خوابِ سحر‘‘ پر دھاوا بولتے آ پہنچتے اور پہلے غالب کے کچھ انتہائی سنگلاخ اشعار پڑھ کر ان کے معنیٰ مجھ سے پوچھتے، گویا میرا آموختہ سنتے اور پھر قبل اس کے کہ میں ایک لفظ بھی اپنی زبان سے نکال پاؤں، وہ ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں‘‘ فرما کر ان کے معنٰی اور مطالب خود بیان کرنا شروع کر دیتے۔

    اور پھر اپنی’’گل افشانیِ گفتار‘‘ سے جدت آفرینی، حسنِ تخیل، لطفِ بیان، شکوہ الفاظ، بلند پروازی، ندرتِ کلام بلکہ پھانس کو بانس اور رائی کو پہاڑ بنانے کے ایسے ایسے ’’گل کترتے‘‘ کہ میرے لیے ’’صاعقہ و شعلہ و سیماب‘‘ کا عالم ہو جاتا اور وہ خود اس شعر کی مجسم تفسیر بن کر رہ جاتے۔

    آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
    مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

    اور پھر نوبت یہاں تک پہنچتی کہ میں داڑھی بنارہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ حسن سمجھا رہے ہیں۔ میں کنگھا کر رہا ہوں اور وہ آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز، میں مسئلہ ارتقا کو پروان چڑھتے دیکھ رہے ہیں۔ میں کپڑے بدل رہا ہوں اور وہ ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا، پڑھ پڑھ کر اور گاہے بگاہے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگا لگا کر غالب کو ہندوستان کا سب سے پہلا انقلابی ثابت کر رہے ہیں۔

    میں جوتے کی ڈوریاں باندھ رہا ہوں اور وہ ’بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے‘ والے مصرع سے فضائے آسمانی پر اسپٹنگ چھوڑ رہے ہیں۔ میں ناشتہ کر رہا ہوں اور وہ ’’مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے‘‘ دہرا دہرا کر غالب کے علم الغذا پر کچھ اس انداز سے روشنی ڈال رہے ہیں کہ میرے منہ کا نوالہ حلق میں جانے سے انکار کر بیٹھتا ہے۔

    میں دفتر جانے کے لیے سائیکل نکال رہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ عمرانیات بیان کر رہے ہیں۔ میں سائیکل پر بیٹھ چکا ہوں اور وہ شام کو دفتر سے میری واپسی پر غالب اور ضبطِ تولید کے موضوع پر اپنے تازہ ترین الہامات کو مجھ پر نازل کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

    شام کو ظہور پذیر ہوتے تو غالب اور دوسرے شعرا کا موازنہ شروع فرما دیتے اور غالب کے منہ لگنے والے دیگر تمام شعرا کو قابلِ گردن زدنی قرار دے کر بھی جب تسلّی نہ ہوتی تو غالب کے مختلف شارحین کا پہلے سرکس پھر کشتی شروع کرا دیتے۔

    اور کافی دھر پٹخ کے بعد جب ہر شارح کافی پست ہو چکتا تو خود بھی اکھاڑے میں کود پڑتے اور فرداً فرداً ہر شارح کو پچھاڑتے اور پھر ہر شعر کے متعلق اپنی ایک انوکھی، اچھوتی اور عجوبۂ روزگار شرح کا آغاز کر دیتے جس کا انجام غالباً اس وقت تک نہ ہوتا جب تک میں اپنے ہوش و حواس کی قید و بند سے نجات پاکر وہاں نہ پہنچ جاتا جہاں سے خود مجھ کو میری خبر نہ آتی، یعنی بالکل ہی بے سدھ ہو کر اپنے بستر پر گرنہ جاتا۔

    (اردو ادیب اور شاعر وجاہت علی سندیلوی کے قلم سے)

  • جب مرزا غالب کو مکان چھوڑنا پڑا!

    جب مرزا غالب کو مکان چھوڑنا پڑا!

    مرزا غالب کے ایک چہیتے شاگرد منشی ہر گوپال المعروف مرزا تفتہ تھے جو ان کم نصیب شعرا میں‌ سے ہیں جنھیں‌ محققین اور ناقدین نے ان کے کلام سے زیادہ غالب کی خط کتاب اور مراسلت کے آئینے میں‌ ہی دیکھا اور ان کا زیادہ تذکرہ دنیائے سخن کے تاج وَر مرزا غالب کے خطوط کے ذیل میں‌ ہوا ہے۔ یہاں‌ ہم ایک ایسے ہی خط سے اقتباس پیش کررہے ہیں‌ جس میں اردو کے عظیم شاعر اسد اللہ خان غالب نے اپنے مستقر کی تبدیلی سے متعلق مرزا تفتہ کو اپنی تکلیف اور پریشانی سے آگاہ کیا تھا۔

    مرزا غالب کے اس خط سے چند سطور ملاحظہ کیجیے۔

    "مالک نے مکان بیچ ڈالا۔ جس نے لیا ہے اس نے مجھ سے پیام بلکہ ابرام کیا کہ مکان خالی کر دو۔ مکان کہیں ملے تو میں اوٹھوں (اٹھوں) بیدرد نے مجھ کو عاجز کیا اور مدد لگا دی۔ وہ صحن بالا خانے کا جس کا دو گز کا عرض اور دس گز کا طول، اس میں پاڑ بندھ گئی۔ رات کو وہیں سویا۔

    گرمی کی شدت پاڑ کا قرب، گمان یہ گزرتا تھا کہ یہ کٹکڑ ہے اور صبح کو مجھ کو پھانسی ملے گی۔ تین راتیں اسی طرح گزریں۔ دو شنبہ 9 جولائی کو دوپہر کے وقت ایک مکان ہاتہ (ہاتھ) آ گیا، وہاں جا رہا، جان بچ گئی۔ یہ مکان بہ نسبت اس مکان کے بہشت ہے اور یہ خوبی کہ محلّہ وہی بلی ماروں کا۔

    اگرچہ ہے یوں کہ میں اگر اور محلّہ میں‌ بھی جا رہتا تو قاصدانِ ڈاک وہاں پہنچتے، یعنی اب اکثر خطوط لال کنویں کے پتے سے آتے ہیں اور بے تکلف یہیں پہنچتے ہیں۔ بہرحال تم وہی دلّی بلی ماروں کا محلّہ لکھ کر خط بھیجا کرو۔

    دو مسودے تمہارے اور ایک مسودہ بے صبر کا یہ تین کاغذ درپیش ہیں۔ دو ایک دن میں بعد اصلاح ارسال کیے جائیں گے۔ خاطر عاطر جمع رہے۔

    صبح جمعہ
    28 جولائی 1860ء

  • کیا دنیا میں آپ سے بڑھ کر بھی کوئی بلا ہے؟

    کیا دنیا میں آپ سے بڑھ کر بھی کوئی بلا ہے؟

    اسد اللہ خاں جنھیں دنیا مرزا غالب کے نام سے جانتی ہے، ان کی نکتہ آفرینی ہی نہیں شوخی، ظرافت اور مزاح بھی مشہور ہے۔ اردو کے نام ور ادیبوں، تذکرہ نویسوں اور سوانح نگاروں نے مرزا غالب کی ظرافت سے متعلق متعدد واقعات اور ادبی لطائف نقل اور بیان کیے ہیں۔

    مشہور ہے کہ مرزا غالب کی بیگم ان کی مے نوشی سے سخت بیزار اور پریشان رہتی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ انھیں نماز نہ پڑھنے اور روزہ نہ رکھنے پر بھی ٹوکتی تھیں اور مرزا ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ کردیتے یا اپنی حسِّ مزاح سے کام لیتے اور ایسی بات کردیتے کہ کوئی بھی ہار مان کر چپ ہوجانے میں ہی اپنی عافیت جانتا۔

    مرزا غالب ؔ کی کوئی اولاد بھی بچپن نہ دیکھ سکی جس کا ان کی زوجہ کوسخت صدمہ اور قلق تھا اور وہ آزردہ خاطر رہتیں۔ غالبؔ ایک دردمند اور حساس طبع انسان ہونے کے ناتے ان کا یہ دکھ خوب سمجھتے تھے، اس لیے وہ ان کی دل دہی اور انھیں بہلانے کی خاطر اکثر ان سے متعلق شگفتہ بیانی اور مزاح سے کام لیتے تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ادبی تذکروں یوں بیان کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ ڈاکٹر محمد عطااللہ خان کی تحقیق و جستجو کا نتیجہ ہے۔

    ایک دفعہ غالب مکان بدلنا چاہتے تھے۔ ایک مکان آپ خود دیکھ کر آئے۔ اس کا دیوان خانہ پسند آگیا، مگر محل سرا نہ دیکھ سکے۔ گھر پر آکر اس کو دیکھنے کے لیے بیوی کو بھیجا۔ وہ دیکھ کر آئیں تو غالبؔ نے بیوی سے پوچھا۔

    ”مکان پسند آیا یا نہیں؟“ انھوں نے کہا کہ اس میں بلئیات ہیں۔

    مرزا غالب نے کہا ”کیا دنیا میں آپ سے بڑھ کر بھی کوئی بلا ہے۔“

  • یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

    یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

    مرزا غالب کی یہ مشہور غزل آپ میں سے اکثر قارئین نے پڑھی بھی ہو گی اور مختلف غزل گائیکوں کی آواز میں‌ یہ کلام سنا بھی ہو گا۔ یہ غزل مختصر بحر اور سہلِ ممتنع کی خوب صورت مثال ہے۔

    غالب کو ابتدا میں ان کے موضوعات اور مشکل گوئی کی وجہ سے پسند نہ کیا گیا، مگر جب انھوں نے مختصر اور رواں بحروں کا انتخاب کیا تو سننے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ آج ہندوستان ہی کیا، دنیا بھر میں‌ جہاں‌ کہیں‌ اردو شاعری کی بات ہوتی ہے تو غالب کو ضرور یاد کیا جاتا ہے۔

    مرزا غالب کی یہ غزل آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔

    غزل

    دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
    آخر اس درد کی دوا کیا ہے

    ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
    یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے

    میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
    کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

    جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
    پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

    سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
    ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے

    ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
    جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

    ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
    اور درویش کی صدا کیا ہے

    جان تم پر نثار کرتا ہوں
    میں نہیں جانتا دعا کیا ہے

    میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
    مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

  • دلّی ہم نے دیکھا….

    دلّی ہم نے دیکھا….

    میں جامعہ کے غیر مقیم طالبِ علموں میں سے تھا، یعنی جامعہ کی کسی اقامت گاہ میں نہیں رہتا تھا۔ میرا قیام بستی نظام الدین میں بھیا احسان الحق کے دولت کدے "علی منزل” میں تھا جو حضرت نظام الدین اولیا، امیر خسرو اور غالب کی ابدی آرام گاہوں سے متصل تھا۔

    روزانہ صبح میں بھیا احسان الحق کے صاحب زادے شبلی کے ساتھ تانگے پر بستی نظام الدین سے قرول باغ جاتا اور دن بھر جامعہ میں گزارنے کے بعد شام کو واپس آتا۔

    درگاہ حضرت نظام الدین تو علی منزل سے دو قدم پر ہی تھی۔ بستی سے نکل کر بڑی سڑک پر آئیے تو سڑک کی دوسری جانب ہمایوں کا مقبرہ ہے۔ اسی سڑک پر آگے چل کر پرانا قلعہ آتا ہے۔

    پرانے قلعے سے اور آگے چلیے تو پرانی دہلی کے حدود میں داخل ہونے سے قبل فیروز شاہ کا کوٹلا ملے گا۔

    پرانی دہلی میں فیض بازار سے اردو بازار پہنچنے پر سامنے پریڈ کے لق و دق میدان کے پرے دائیں جانب لال قلعہ نظر آئے گا اور بائیں جانب قریب ہی جامعہ مسجد کی پُرشکوہ عمارت۔

    پریڈ کے میدان میں 1857 کی جنگِ آزادی سے قبل مغل دربار کے منصب داروں، امرا اور رؤسا کے محلات تھے، 1857 کی جنگِ آزادی کے ناکام ہونے پر انگریزوں نے لوٹ مار کے بعد ان محلات کو اس بری طرح مسمار کیا کہ آج اس میدان کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اب سے ڈیڑھ سو برس قبل یہ دلی کا اعلیٰ ترین رہائشی علاقہ تھا۔

    (دہلی کی بستی نظام الدین سے قرول باغ تک ماضی کی نشانیوں اور یادگاروں کا تذکرہ خلیق ابراہیم خلیق کے قلم سے)