Tag: مرزا غالب

  • مرزا غالب اور دل آزاری

    مرزا غالب اور دل آزاری

    غالب کا عام طریقہ یہ تھا کہ جب تک واقعی اچھا شعر نہ ہوتا، تعریف نہ کرتے اور خاموش بیٹھے رہتے۔

    خواجہ حالی فرماتے ہیں کہ اس بنا پر بعض معاصرین ان سے آزردہ رہتے تھے اور ضد میں آکر ان کی شاعری پر طرح طرح کی نکتہ چینیاں کرتے تھے۔ ویسے غالب طبعاً صلح جو تھے اور ہر شخص کی دلداری کا انتہائی خیال رکھتے تھے۔

    "تذکرہ غوثیہ” میں ایک واقعہ حضرت غوث علی شاہ پانی پتی کی زبانی مرقوم ہے کہ ایک روز مرزا، رجب علی بیگ سرور، مصنف فسانہ عجائب سے ملے۔ اثنائے گفتگو پوچھا کہ اُردو زبان کس کتاب کی عمدہ ہے۔ جواب ملا کہ "چہار درویش” کی۔

    سرور نے "فسانہ عجائب” کا نام لیا۔ غالب کو معلوم نہ تھا کہ خود مصنفِ "فسانہ عجائب” استفسار کررہا ہے۔ بے تکلف جواب دیا۔ "اجی لاحول ولا قوۃ” اس میں لطفِ زبان کہاں۔ ایک تک بندی اور بھٹیار خانہ جمع ہے۔

    جب سرور چلے گئے اور غالب کو معلوم ہوا کہ یہ "فسانہ عجائب” کے مصنف تھے تو بہت افسوس کیا اور کہا، "ظالمو پہلے سے کیوں نہ کہا۔”

    دوسرے دن غوث علی شاہ صاحب ملے، انھیں سارا قصہ سنایا اور کہا کہ حضرت! یہ امر مجھ سے بے خبری میں سرزد ہوگیا۔ آئیے آج سرور کے مکان پر چلیں اور کل کی مکافات کر آئیں۔

    چناں چہ وہاں گئے۔ مزاج پرسی کے بعد غالب نے عبارت آرائی کا ذکر چھیڑا اور بولے، جناب مولوی صاحب رات میں نے "فسانہ عجائب” کو بہ غور دیکھا تو اس کی خوبی عبارت اور رنگینی کا کیا بیان کروں، نہایت ہی فصیح و بلیغ ہے۔ غرض اس قسم کی باتوں سے سرور کو مسرور کیا۔

    دوسرے دن ان کی دعوت کی اور غوث علی شاہ صاحب کو بھی بلایا۔

    شاہ صاحب یہ واقعہ بیان فرمانے کے بعد کہتے ہیں:

    "مرزا صاحب کا مذہب یہ تھا کہ دل آزاری بڑا گناہ ہے۔” لیکن اشعار کی داد میں راہِ حق سے بال برابر بھی انحراف گوارا نہ تھا۔

    (مولانا غلام رسول مہر کی کتاب سے انتخاب)

  • وہ لمحہ مرزا غالبؔ کا دل بھر آیا!

    وہ لمحہ مرزا غالبؔ کا دل بھر آیا!

    غالبؔ کے ایک امیر دوست جن کی حالت غدر میں بہت سقیم ہوگئی تھی، چھینٹ کا فرغل پہنے ہوئے ملنے آئے۔

    غالبؔ نے انھیں کبھی مالیدے یا جامہ دار کے چغوں کے سوا نہیں دیکھا تھا۔

    چھینٹ کا فرغل دیکھ کر غالبؔ کا دل بھر آیا، امداد کا خیال پیدا ہوا، لیکن دوست کی دل داری کا تقاضا یہ تھا کہ اس کے ساتھ ایسے طریق پر سلوک کیا جائے کہ اسے اپنی بے چارگی اور بے بسی کا احساس نہ ہو اور پیش کردہ ہدیہ قبول کرتے ہوئے عار نہ آئے۔

    غالبؔ نے یہ عرض مدِنظر رکھ کر چھینٹ کے فرغل کی بے حد تعریف کی۔

    پوچھا کہ یہ چھینٹ کہاں سے لی ہے اور (دوست سے) درخواست کی کہ مجھے بھی اس کا فرغل بنوا دیا جائے۔

    دوست نے بلا تکلف کہا کہ ”اگر آپ کو یہ بہت پسند ہے تو یہی لے لیجیے۔“

    غالب نے کہا، ”جی تو یہی چاہتا ہے کہ آپ سے ابھی چھین لوں، لیکن جاڑا شدت سے پڑ رہا ہے، آپ یہاں سے مکان(اپنے گھر تک) کیا پہن کر جائیں گے۔“

    اسی کے ساتھ اپنا مالیدے کا نیا چغہ (اپنے دوست کو) پہنا دیا۔


    (حالی کی مشہور تصنیف "یادگارِ غالبؔ” سے انتخاب)

  • "کیا شہرِ محبت میں حجام نہیں ہوتا؟”

    "کیا شہرِ محبت میں حجام نہیں ہوتا؟”

    غلام علی ہمدانی نے شاعری شروع کی تو تخلص مصحفیؔ کیا اور غزل گو شعرا میں اپنے جداگانہ انداز سے نام و مقام بنایا۔

    کہتے ہیں امروہہ کے تھے، لیکن چند تذکرہ نویسوں نے انھیں دہلی کے نواحی علاقے کا رہائشی لکھا ہے۔ ان کا سن پیدائش 1751 ہے جب کہ 1824 کو دنیا سے رخصت ہوئے۔ تذکروں میں آیا ہے کہ ہندوستان میں سلطنت کا زوال اور ابتری پھیلی تو ان کا خاندان بھی خوش حال نہ رہا اور مصحفیؔ کو بھی مالی مشکلات کے ساتھ روزگار کی تلاش میں بھٹکنا پڑا۔ اس سلسلے میں دہلی آئے اور یہاں تلاشِ معاش کے ساتھ ساتھ اہلِ علم کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا تو شعری ذوق بھی نکھرا۔ مصحفی کے کلام سے یہ غزل آپ کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔

    جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا
    اس دل کے تئیں ہرگز آرام نہیں ہوتا

    کب وعدہ نہیں کرتیں ملنے کا تری آنکھیں
    کس روز نگاہوں میں پیغام نہیں ہوتا

    بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے
    کیا شہرِ محبت میں حجام نہیں ہوتا

    ساقی کے تلطف نے عالم کو چھکایا ہے
    لبریز ہمارا ہی اک جام نہیں ہوتا

    کیوں تیرگئ طالع کچھ تُو بھی نہیں کرتی
    یہ روز مصیبت کا کیوں شام نہیں ہوتا

    پھر میری کمند اس نے ڈالے ہی تڑائی ہے
    وہ آہوئے رَم خوردہ پھر رام نہیں ہوتا

    نے عشق کے قابل ہیں، نے زہد کے درخور ہیں
    اے مصحفیؔ اب ہم سے کچھ کام نہیں ہوتا

  • مرزا غالب، مغربی دانش وروں کی نظر میں

    مرزا غالب، مغربی دانش وروں کی نظر میں

    نام وَر نکتہ شناس اور معنی آفریں شاعر غالب کی شخصیت اور شاعری کو بعض مغربی دانش وروں نے بھی قابلِ اعتنا سمجھا ہے، مگر ان قابلِ ذکر ناموں کے لیے ایک ہاتھ کی انگلیاں بھی زیادہ ہیں۔

    لے دے کے الساندرو باﺅزانی، رالف رسل، نتالیہ پریگارنیا اور این میری شمل کے نام لیے جاسکتے ہیں جن کا غالب کے فکر و فن پر تحریری سرمایہ قابلِ قدر ہونے کے باوجود اس امر کا متقاضی ہے کہ کوئی وسیع لسانی پس منظر رکھنے والا شعر شناس عالم اور ماہر غالبیات اس کا گہرا لسانی اور تجزیاتی مطالعہ کرکے بے لاگ انداز میں اپنے نتائجِ تحقیق پیش کرے۔

    این میری شمل کا شمار ممتاز جرمن مستشرقین میں ہوتا ہے، مگر غالب پر ان کی تحریریں بعض جہتوں سے فکر افروز ہونے کے باوجود بحیثیت مجموعی اطمینان بخش نہیں۔ خصوصاً بعض اردو اور فارسی اشعار کے ترجمے میں انھوں نے متعدد جگہ ٹھوکریں کھائی ہیں۔ کہیں کہیں یہ ترجمے مضحکہ خیز حد تک غلط ہیں۔ علاوہ ازیں ان تحریروں میں بعض واقعاتی غلطیاں بھی جا بجا ملتی ہیں۔

    قاری کو یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ شمل کا فارسی زبان و ادب کا مطالعہ ناقص ہے اور یہ احساس صرف غالب پر ان کی تحریروں تک محدود نہیں بلکہ بعض دیگر کتب کے مطالعے سے بھی ہوتا ہے۔

    این میری شمل جرمن استشراق کی روایت میں اِس اعتبار سے تو قابلِ توجہ قرار پاتی ہیں کہ ان کے علمی کاموں میں غیرمعمولی تنوع ہے، مگر متعدد ادبیات کے حوالے سے یہ کارنامے بہت سی خامیوں اور بعض صورتوں میں فاش غلطیوں کا شکار بھی نظر آتے ہیں۔ کثرت نویسی کی یہ قیمت تو دینا ہی پڑتی ہے۔

    غالب سے این میری شمل کا لگاﺅ گمان ہے کہ اقبال سے گہرے معنوی تقرب کے نتیجے میں پیدا ہوا ہوگا۔ حقیقت جو بھی ہو، یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ شمل کے غالب پر مطالعات کا زمانہ نہ صرف یہ کہ زیادہ طویل نہیں بلکہ خود یہ مطالعات ایک حد تک ہی اطمینان بخش کہے جاسکتے ہیں تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان مطالعات کے بعض مباحث بڑے عمدہ اور فکر کو مہمیز کرتے ہیں۔

    ( ممتاز نقاد، محقق اور شاعر ڈاکٹر تحسین فراقی کے ایک مضمون سے چند سطور)

  • جب غالب نے "استادی” دکھائی!

    جب غالب نے "استادی” دکھائی!

    مرزا غالب کے ایک چہیتے شاگر میر مہدی مجروح تھے۔

    غالب انھیں بے حد عزیز رکھتے تھے اور اپنا فرزند کہتے تھے۔

    ایک روز میر مہدی مجروحؔ اپنے استاد اور محسن مرزا غالب کے کمرے میں‌ داخل ہوئے تو دیکھا کہ استاد صاحب پلنگ پر پڑے کراہ رہے ہیں۔ مجروح‌ ان کے پاؤں دابنے بیٹھ گئے۔

    مرزا صاحب نے کہا، بھئی تُو سید زادہ ہے، اس طرح‌ مجھے کیوں گناہ گار کرتا ہے؟

    میر مہدی مجروح کے دل میں‌ جانے کیا آئی کہ بولے، آپ کو ایسا ہی خیال ہے تو پیر دابنے کی اجرت دے دیجیے گا۔

    اس پر استاد نے کہا، ہاں اس میں مضائقہ نہیں۔

    مجروح‌ پیر داب کر اٹھے تو ازراہِ تفنن مرزا صاحب سے اجرت طلب کی۔

    سچ ہے استاد تو استاد ہی ہوتا ہے۔ مرزا صاحب نے اپنے شاگرد کی بات سنی اور ان کی طرف دیکھ کر بولے۔

    بھیا کیسی اجرت؟ تم نے میرے پاؤں دابے، میں نے تمہارے پیسے دابے۔ یوں‌ حساب برابر ہوا۔

  • آزارِ عشق میں‌ مبتلا وکیل کو مسیحا کی تلاش

    آزارِ عشق میں‌ مبتلا وکیل کو مسیحا کی تلاش

    غالب کے رفقا میں سے ایک حاتم علی بیگ بھی تھے۔

    پیشہ ان کا وکالت تھا۔ برطانوی دور میں‌ ہائی کورٹ سے وابستہ رہے۔ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ علمی اور ادبی سرگرمیاں‌ بھی جاری رکھیں‌۔ نہایت باذوق اور شاعر بھی تھے، مگر ان کا بہت کم کلام سامنے آیا ہے۔

    حاتم علی بیگ کا تخلص مہر تھا۔ ان کی ایک غزل آپ کے حسنِ ذوق کی نذر ہے۔

    ذکرِ جاناں کر جو تجھ سے ہو سکے
    واعظ، احساں کر جو تجھ سے ہو سکے

    رازِ دل ظاہر نہ ہو اے دودِ آہ
    داغ پنہاں کر جو تجھ سے ہو سکے

    اے مسیحا مجھ کو ہے آزارِ عشق
    میرا درماں کر جو تجھ سے ہو سکے

    چپ ہے کیوں او بُت خدا کے واسطے
    کچھ تو ہوں ہاں کر جو تجھ سے ہو سکے

    دل تو اس پر آج صدقے ہو گیا
    تُو بھی اے جاں کر جو تجھ سے ہو سکے

    وہ پری میری مسخر، ہو یہ کام
    اے سلیماں کر جو تجھ سے ہو سکے!

  • غالب کون ہے؟

    غالب کون ہے؟

    لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
    مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے

    مرزا غالب کا کلام، ان کے اشعار آج بھی پڑھے جاتے ہیں۔ غالب ہر عمر اور طبقے میں یکساں مقبول ہیں اور غالب کو پڑھنے کے ساتھ ان کے کلام اور ان کی نثر کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے، نوجوان اور نئے پڑھنے والے غالب پر مباحث میں‌ دل چسپی لیتے ہیں۔

    آئیے مرزا غالب کے یومِ پیدائش پر ان کی زندگی کی کتاب کے چند اوراق الٹتے ہیں۔

    خاندان اور غالب کی نجی زندگی
    والد کا نام عبداللہ بیگ تھا۔ یہ خاندان آگرہ کے ایک محلے میں رہتا تھا۔ 27 دسمبر1797 کو عبداللہ بیگ کے گھر بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اسد اللہ بیگ رکھا گیا۔

    زندگی کے چند برس ہی والد کی شفقت اور پیار نصیب ہوا۔ وہ ایک جنگ میں زندگی کی بازی ہار گئے تھے اور یوں غالب کم عمری میں یتیم ہو گئے۔

    پرورش کی ذمہ داری ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے اٹھا لی، لیکن غالب آٹھ سال کے تھے کہ چچا بھی فوت ہو گئے۔ یوں بچپن محرومیوں اور مشکلات میں کٹ گیا۔

    شادی اور پریشانیاں

    13 سال کی عمر میں اسد اللہ کی شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد آبائی وطن چھوڑ کر دہلی میں سکونت اختیار کرلی۔

    اب زندگی اور ضروریات کا تقاضا اور تھا۔ شادی کے بعد اخراجات اور مالی مسائل بڑھ گئے۔ مے نوشی نے بھی مشکلات سے دوچار کیا اور غالب مقروض ہو گئے۔

    مالی پریشانیوں نے مجبور کیا تو شاہی دربار میں ملازمت کی کوشش کی۔ تذکروں میں لکھا ہے کہ انھیں تاریخ لکھنے پر مامور کیا گیا۔

    بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب دیا۔ اسی کے ساتھ وظیفہ مقرر ہوا۔

    غدر اور مرزا کی پنشن
    غدر کے بعد مرزا غالب کو ایک مرتبہ پھر مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کو جو پنشن ملتی تھی وہ بند ہو گئی۔ گزر بسر مشکل اور قرض خواہوں کے تقاضے بڑھ گئے۔

    1857 کے بعد نواب یوسف علی خاں والیِ رام پور تک کسی طرح احوال پہنچایا تو انھوں نے سو روپے ماہ وار باندھ دیے۔ کہتے ہیں مرزا غالب یہ وظیفہ تادمِ مرگ پاتے رہے۔

    مرزا غالب اور شاعری
    ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

    یہ بات کسی قدر عجیب تو ہے کہ اسد اللہ خاں غالب جو خود فارسی کو اردو کلام پر ترجیح دیتے تھے، ان کی وجہِ شہرت اردو شاعری ہے۔ آج وہ دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں اور اردو زبان کے عظیم شاعر کہلاتے ہیں۔

    مرزا غالب کو اردو اور فارسی شاعری میں یدِطولیٰ حاصل تھا جب کہ ان کی نثر بھی کمال کی ہے۔ مرزا غالب کے خطوط اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

    غالب کی شاعری کو موضوعات کے اعتبار سے دیکھا جائے گویا ایک جہان آباد ہے۔ وہ دنیا دار بھی ہیں، عاشق مزاج اور رندِ بلا نوش بھی۔ خدا پرست اور شاکی بھی۔ درویش اور فلسفی ہی نہیں مرزا غالب شوخی اور ظرافت میں بھی آگے ہیں۔

    غالب کی ژرف نگاہی کے ساتھ ان کی سادہ بیانی ہی ان کے کلام کی سب سے بڑی خوبی ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ یہی ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بھی ہے۔

    وفات
    15 فروری 1869 کو یہ سخن وَر ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ گیا تھا، مگر اس کے اعجازِ سخن کا چرچا آج بھی ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ دہلی میں‌ غالب کا مقبرہ اب ان کی ایک یادگار ہی نہیں بلکہ زندگی کے درد و غم، مصائب و آلام جھیلتے ہوئے مہربان نیند کو خوش آمدید کہنے پر مجبور انسان کی حقیقت بھی ہم پر عیاں‌ کرتا ہے.

  • مرزا اسد اللہ غالب کی آج 150ویں برسی منائی جا رہی ہے

    مرزا اسد اللہ غالب کی آج 150ویں برسی منائی جا رہی ہے

    اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کی 150ویں برسی آج منائی جا رہی ہے، گیارہ سال کی عمر میں پہلا شعر کہنے والے اسد اللہ کو شاید خود بھی علم نہ تھا کہ ان کی شاعری اردو زبان کو رہتی دنیا تک روشن کرتی رہے گی۔

    مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ اور والد کا نام عبداللہ بیگ تھا۔ آپ 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہوگئے تھے، ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہوگئے۔

    آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک
    کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک

    نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ء میں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

    رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
    ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

    شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اورقرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے شاہی قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ء میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50 روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔

    آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
    صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

    مرزا غالب اردو زبان کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں۔ شروع میں وہ فارسی اور مشکل اردو زبان میں شاعری کرتے تھے اور اس زمانے میں اسد ان کا تخلص تھا تاہم معاصرین کے طعنوں کے بعد انہوں نے اپنی شاعری کا رخ بدلا اور اسے ایسی آسان زبان، تخیل اور فلسفیانہ انداز میں ڈھالا کہ کوئی اور شاعر ان کے مدمقابل نظر نہیں آتا۔

    آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
    صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

    ان کی عظمت کا راز صرف ان کی شاعری کے حسن اور بیان کی خوبی ہی میں نہیں ہے۔ ان کاا صل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اوراشعار میں زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کی گہرائی نے غالب کو عظیم بنایا۔

    شاعری میں روز مرہ محاوروں سے دل میں اتر جانے والی سادگی کے کمال نے غالب کو زمانے میں یکتا کر دیا، وہ بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے بیان کردیتے تھے۔

    غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور باہر سے آئی ہوئی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر چھاتے ہوئے دیکھا۔ غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی۔

    کثرت شراب نوشی کے باعث ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی انتقال سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔

    غم ہستی کو اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
    شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

  • اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کا 221واں یوم پیدائش

    اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کا 221واں یوم پیدائش

    اردو زبان کےعظیم شاعراسداللہ خان المعروف مرزا غالب کی 220 ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔

    مرزا اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ پانچ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب کی پرورش چچا نے کی تاہم چارسال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔

    مرزا غالب کی13 سال کی عمرمیں امراء بیگم سے شادی ہو گئی، جس کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔

    اردو کے 100 مشہور اشعار

    دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا۔ غالب کی شاعری میں شروع کامنفرد انداز تھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنیقد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔

    نقش فریادی ہےکس کی شوخی تحریر کا
    کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

    دوسری طرف مرزا غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئےکچھ بھی کر سکتے ہیں۔

    بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
    موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

    غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اورانسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔

    غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا،جنون اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

    اردو کےعظیم شاعر15 فروری 1869 کو دہلی میں جہاں فانی سے کوچ کرگئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاویداں رہے گا۔

  • اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کی219ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    اردو کےعظیم شاعرمرزاغالب کی219ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے

    اردو زبان کےعظیم شاعراسداللہ خان المعروف مرزا غالب کی 219ویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔

    مرزا اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔پانچ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب کی پرورش چچا نے کی تاہم چارسال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔

    مرزا غالب کی13 سال کی عمرمیں امراء بیگم سے شادی ہو گئی،جس کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔

    دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کیا۔غالب کی شاعری میں شروع کامنفرد انداز تھا،جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنیقد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔

    نقش فریادی ہےکس کی شوخی تحریر کا
    کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

    دوسری طرف غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئےکچھ بھی کر سکتے ہیں۔

    بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
    موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

    غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اورانسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔

    غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا،جنون اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔

    ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
    کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

    اردو کےعظیم شاعر15 فروری 1869 کو دہلی میں جہاں فانی سے کوچ کرگئے لیکن جب تک اردو زندہ ہے ان کا نام بھی جاویداں رہے گا۔