یہ تذکرہ ہے مرزا فخرو کا جو شہنشاہِ ہند بہادر شاہ ظفر کے بیٹے تھے۔ کہتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے آخری ولی عہد بھی تھے، لیکن اپنے باپ کے چہیتے ہرگز نہیں تھے۔ آج مرزا فخرو کا یومِ وفات ہے۔ 1859ء میں آج ہی کے دن موت کا پروانہ لیے فرشتۂ اجل مرزا فخرو کے پاس آیا تھا۔ بے شک ہر ذی نفس کو ایک روز موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اس میں شاہ و گدا کی تخصیص نہیں۔ بجا کہ موت سے کسی کو خلاصی نہیں ملی۔
مرزا فخرو شاہ زادے تھے سو، ان کی تعلیم و تربیت کا خوب اہتمام ہوا، اپنے زمانے میں رائج کئی طرح کے خط وہ نہایت عمدہ لکھتے تھے اور رقص و موسیقی کے علاوہ شہسواری اور تیر اندازی میں بھی طاق تھے۔ انگریزی وہ اچھی خاصی سیکھ چکے تھے۔ ریختہ میں وہ استاد ذوق کے شاگرد تھے اور رمز ان کا تخلص تھا۔ فارسی میں انہوں نے مولانا صہبائی کے آگے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا، اگرچہ خود فارسی نہ کہتے تھے۔ بعض ممتاز ہندیوں اور انگریزوں سے سلسلۂ ملاقات بھی رکھتے تھے۔ ان سب باتوں کے باوجود مرزا فخرو اپنے باپ کے بہت چہیتے نہ تھے۔ لیکن مرزا نے فخرو نے اپنی راہ متعین کرلی تھی۔
مرزا فخر الدّین فتح الملک بہادر معروف بہ مرزا فخرو 1818ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ذوق کے شاگرد تھے۔ ان کے انتقال کے بعد غالب کو کلام دکھانے لگے۔ دہلی ہی میں انتقال کیا۔
بہادر شاہ ظفر کی کوشش تھی کہ وہ اپنے بعد اپنی مرضی کا جانشین مقرر کر سکیں۔ ان کے بڑے بیٹے کی وفات ہو گئی تو مرزا فخرو کا نمبر تھا۔ لیکن زینت محل کی خواہش اپنے بیٹے مرزا جوان بخت کو ولی عہد بنوانے کی تھی۔ تاہم انگریزوں نے ہندوستان میں حکمرانی کے وراثتی جھگڑوں سے نمٹنے کے لئے قانون بنایا تھا جس کی وجہ سے یہ دیکھا جارہا تھا کہ ولی عہد مرزا فخرو ہی ہوں گے۔ تب بہادر شاہ ظفر نے انگریز حاکم کو خط لکھا کہ ایسا نہ ہوسکے، لیکن مرزا فخرو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے انگریز سے وفا نبھانے کے کچھ وعدے کرلیے تھے اور رہی سہی مغل حکومت اپنے ہاتھ میں لینے کا پکا انتظام کرچکے تھے۔ پھر مرزا فخرو کی موت کے بعد بادشاہ کوئی ولی عہد نامزد نہ کرسکے۔