Tag: مرزا فرحت اللہ بیگ

  • مرزا فرحت اللہ بیگ:‌ حسنِ بیان اور شگفتگی ان کی تحریروں کا خاصّہ ہیں

    مرزا فرحت اللہ بیگ:‌ حسنِ بیان اور شگفتگی ان کی تحریروں کا خاصّہ ہیں

    مرزا فرحت اللہ بیگ کی وجہِ شہرت ان کی مزاح نگاری ہے، لیکن وہ ایک ایسے ادیب بھی تھے جن کے قلم نے شان دار شخصی خاکے، ادبی تذکرے اور بہت واقعات سے بھی جمع کیے جو ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ آج مرزا صاحب کی برسی ہے۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریروں میں طنز کا عنصر کم ہے، بلکہ انھوں نے جہاں بھی طنزیہ انداز اپنایا ہے، وہاں حسبِ ضرورت مزاح کا سہارا بھی لیا ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریروں کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ ان کے طنز میں شدت نہیں ہے۔ تقسیمِ ہند سے چند ماہ قبل 27 اپریل 1947ء کو مرزا صاحب دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    انشا پرداز اور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ نے خالص ادبی تحریروں کے علاوہ مختلف موضوعات مثلاً تاریخ و سوانح میں بھی طبع آزمائی کی اور ان میں بھی وہ اکثر جگہ مزاح سے کام لیتے ہیں۔ مرزا صاحب کے تین مضامین ان کی خاص پہچان ہیں جو اس دور میں بعنوان نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری کچھ ان کی زبانی، دہلی کی آخری شمع (ایک مشاعرہ) اور پھول والوں کی سیر شایع ہوئے تھے۔ تاریخِ اردو ادب میں‌ مرزا فرحت اللہ بیگ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ خاکہ نگار کی حیثیت سے بہت مشہور ہیں اور ان خاکوں کو ہر دل عزیز بنانے میں مرزا کی فطری ظرافت کو بہت دخل ہے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا۔ تنقید، افسانہ، سوانح، سیرت، معاشرت و اخلاق کی طرف انھوں نے توجہ کی لیکن ان کی اصل شہرت ظرافت نگاری ہے۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ کا عہد ہندوستان کی تاریخ کا عبوری دور تھا۔ تہذیبی تصادم کا یہ دور جس میں 1857ء نقطۂ عروج کی حیثیت رکھتا ہے، زوال، انحطاط، مایوسی، محرومی اور احساسِ شکست کا آئینہ دار بھی تھا اور غیرملکی اقتدار کا مرقع بھی۔ اسی عہد میں سیاسی، سماجی، ملی اور ادبی تحریکات کی نشو و نما بھی ہوئی اور اسی دور میں دماغوں سے قدامت کا رنگ بھی چھوٹنا شروع ہوا۔ اسی عہد میں قدیم و جدید کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچی اور آخرکار قدیم تہذیب، قدیم علوم اور قدیم اندازِ فکر کو شکست تسلیم کرنا پڑی۔ معاشرے نے کروٹ بدلی اور تمدن کے ایک شاندار دور کا خاتمہ ہو گیا۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ نے ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے اور جنگِ آزادی کی ناکامی کے بعد ستمبر 1883ء میں دہلی میں آنکھ کھولی تھی۔ تاریخِ اردو ادب میں‌ لکھا ہے کہ ان کے اجداد شاہ عالم ثانی کے عہد میں ترکستان سے آئے اور دہلی کو اپنا وطن بنایا تھا۔ یہاں کالج کی تعلیم کے دوران مولوی نذیر احمد سے ملاقات ہوئی۔ ان سے نہ صرف عربی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی بلکہ ان کی شخصیت کا گہرا اثر بھی قبول کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد حیدرآباد دکن گئے تھے اور وہاں سے معاش کا خوب انتظام ہوا۔ وہیں‌ وفات پائی اور دفن بھی دکن کی مٹی میں‌ ہوئے۔

    1905 میں بی اے کا امتحان پاس کرکے 1907 تک دہلی میں مقیم رہے۔ 1908 میں وہ حیدرآباد (دکن) چلے گئے جہاں گورنمنٹ اسکول چادر گھاٹ کی مددگاری پر پہلا تقرر ہوا۔ پھر ہائیکورٹ کے مترجم ہوگئے اور اس کے بعد اسپیشل مجسٹریٹ، سیشن جج اور آخر میں ہائیکورٹ کے انسپکٹنگ آفیسر بنے جو ہائیکورٹ کے جج کے مساوی عہدہ تھا۔

    ان کی تصنیف ’’دلی کا آخری یادگار مشاعرہ‘‘ مرقع نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ مولوی نذیر احمد کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا اور بہت برسوں دیکھا۔ اسی قرابت اور نذیر احمد کی دل چسپ شخصیت نے "نذیر احمد کی کہانی” ان سے لکھوائی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کہانی نے نہ صرف موصوف کے فن کو اجاگر کیا، بلکہ انھوں نے حقِ شاگردی ادا کیا اور انوکھی طرز کی کردار نگاری کا سنگ بنیاد رکھ کر اپنے فن و تخلیق کی داد بھی پائی۔ ’’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ میں مرزا صاحب نے ان کی ہوبہو تصویر اتاری ہے۔ یہ خاکہ ہندوستان کے ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ مولوی وحید الدین سلیم جیسے اہل قلم کو یہ خاکہ ایسا پسند آیا کہ انھوں نے بھی مرزا صاحب سے اپنا خاکہ لکھنے کی فرمائش کردی۔ ان کی وفات کے بعد مرزا نے اس فرمائش کو پورا کیا اور اس خاکے کو ’’ایک وصیت کی تعمیل میں‘‘ کا نام دیا۔ فرحت اللہ بیگ نے بڑی تعداد میں مضامین لکھے جو مضامینِ فرحت کے نام سے سات جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ شاعری بھی کی لیکن یہ ان کا اصل میدان نہیں۔

    دہلی کی ٹکسالی زبان پر انہیں بڑی قدرت حاصل تھی اور شوخی ان کی تحریر کا خاصّہ تھا۔ ادبی ناقدین کے مطابق وہ کسی موضوع یا کسی شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز نہیں کرتے اور اس جزئیات نگاری سے قاری لطف اندوز ہوتا ہے۔

    مرزا صاحب کے مضامین کا مجموعہ اردو کے قارئین میں بہت مقبول رہا ہے اور ان کی ایک خودنوشت بھی بہت پسند کی گئی جس پر ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں، اُردو کے نامور نثر نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی یہ خودنوشت ’’میری داستان‘‘ دراصل ایک ’’دفتر بیتی‘‘ ہے جو آپ بیتی کے تمام پہلوؤں کی بجائے صرف ایک پہلو یعنی ان کی دفتری زندگی اور کارناموں پر محیط ہے۔ مرزا صاحب نے انسانی زندگی کو ایک قید سے تعبیر کیا ہے اور اس قید کے پانچ حصے کیے ہیں۔ حصہ اوّل ماں کا پیٹ۔ دوسرا حصہ بڑے بوڑھوں کی قید۔ سوم حصہ مدرسے کی قید۔ چوتھا حصہ نوکری کی قید اور آخری حصہ قبر کی قید۔ یہ تقسیم ان کی بڑی خوش طبعی پر مبنی ہے۔

    ’’میری داستان‘‘ اپنے تمام کرداروں کے صحیح تشخص کے باوجود ایک زبردست عوامی میلہ ہے جس میں قہقہے ہیں، چہچہے ہیں، بھیڑ بھاڑ ہے، آدمی پر آدمی گر رہا ہے، ہنڈولے جھول رہے ہیں، چرخ جھوم رہے ہیں، حلوائیوں کی دکانوں پر مٹھائی کے تھال سجے ہیں، کڑھاؤ چڑھے ہیں، پوریاں تلی جا رہی ہیں، کہیں ناچ گانا ہو رہا ہے، کہیں بھنڈی کی دھوم دھام ہے۔ یہ حسنِ بیان، ذہانت، انشاء پردازی اور ادبِ عالیہ کا شاہ کار ہیں۔

  • مرزا فرحت اللہ بیگ: انشاء پرداز اور مزاح نگار

    مرزا فرحت اللہ بیگ: انشاء پرداز اور مزاح نگار

    اردو ادب میں مرزا فرحت اللہ بیگ کا نام ایک مزاح نگار کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ ایک انشاء پرداز اور ایسے ادیب تھے جنھوں نے ادبی تذکرے، واقعات نگاری اور شخصی خاکے بھی لکھے۔

    مرزا صاحب کی تحریروں میں طنز کم ہے اور جہاں بھی انھوں نے طنزیہ انداز اپنایا ہے، وہاں بھی حسبِ ضرورت مزاح کا سہارا لیا ہے۔ ان کے طنز میں شدّت نہیں ہے اور اسی لیے مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریریں مقبول ہوئیں۔ ان کا انتقال 27 اپریل 1947ء میں ہوا۔

    بیسویں صدی کے انشا پرداز اور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ نے خالص ادبی تحریروں کے علاوہ مختلف موضوعات مثلاً تاریخ و سوانح پر بھی قلم اٹھایا مگر ان میں بھی وہ اکثر جگہ مزاح سے کام لیتے ہیں۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کے ان تین مضامین کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی جو بعنوان نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری کچھ ان کی زبانی، دہلی کی آخری شمع (ایک مشاعرہ) اور پھول والوں کی سیر شایع ہوئے۔

    مرزا صاحب کے بارے میں تاریخِ اردو ادب میں‌ لکھا ہے کہ وہ خاکہ نگار کی حیثیت سے بہت مشہور ہیں اور ان خاکوں کو ہر دل عزیز بنانے میں مرزا کی فطری ظرافت کو بہت دخل ہے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا۔ تنقید، افسانہ، سوانح، سیرت، معاشرت و اخلاق کی طرف انھوں نے توجہ کی لیکن ان کی اصل شہرت ظرافت نگاری ہے۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ کا عہد ہندوستان کی تاریخ کا عبوری دور ہے۔ تہذیبی تصادم کا یہ دور جس میں 1857ء نقطۂ عروج کی حیثیت رکھتا ہے، زوال، انحطاط، مایوسی، محرومی اور احساسِ شکست کا آئینہ دار بھی ہے اور غیرملکی اقتدار کا مرقع بھی۔ اسی عہد میں سیاسی، سماجی، ملی اور ادبی تحریکات کی نشو و نما بھی ہوئی اور اسی دور میں دماغوں سے قدامت کا رنگ بھی چھوٹنا شروع ہوا۔ اسی عہد میں قدیم و جدید کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچی اور آخرکار قدیم تہذیب، قدیم علوم اور قدیم اندازِ فکر کو شکست تسلیم کرنا پڑی۔ معاشرے نے کروٹ بدلی اور تمدن کے ایک شاندار دور کا خاتمہ ہو گیا۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ انقلابِ 1857ء کے 26 سال بعد ستمبر 1883ء میں دہلی میں پیدا ہوئے اور 1905 میں بی۔ اے کا امتحان پاس کر کے 1907 تک دہلی میں رہے۔ 1908 میں حیدرآباد (دکن) میں وارد ہوئے جہاں گورنمنٹ اسکول چادر گھاٹ کی مددگاری پر پہلا تقرر ہوا، پھر ہائیکورٹ کے مترجم کی خدمات پر مامور ہوئے، اس کے بعد اسپیشل مجسٹریٹ، سیشن جج اور آخر میں ہائیکورٹ کے انسپکٹنگ آفیسر بنے جو ہائیکورٹ کے جج کے مساوی عہدہ تھا۔

    دورانِ تعلیم مرزا فرحت اللہ بیگ کے روابط ڈپٹی نذیر احمد سے قائم ہوئے۔ اسی قرابت اور نذیر احمد کی دل چسپ شخصیت نے "نذیر احمد کی کہانی” لکھوائی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کہانی نے نہ صرف موصوف کے فن کو اجاگر کیا، حقِ شاگردی ادا کیا بلکہ انوکھی طرز کی کردار نگاری کا سنگ بنیاد رکھ کر اپنے فن کو بے نظیر اور نذیر احمد کو زندہ جاوید بنا دیا ہے۔

    تاریخِ اردو ادب میں‌ لکھا ہے کہ وہ دہلی کے رہنے والے تھے۔ ان کے اجداد شاہ عالم ثانی کے عہد میں ترکستان سے آئے اور دہلی کو اپنا وطن بنایا۔ یہاں کالج کی تعلیم کے دوران مولوی نذیر احمد سے ملاقات ہوئی۔ ان سے نہ صرف عربی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی بلکہ ان کی شخصیت کا گہرا اثر بھی قبول کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد حیدرآباد دکن گئے تھے اور وہاں سے معاش کا خوب انتظام ہوا۔ وہیں‌ وفات پائی اور دفن بھی دکن کی مٹی میں‌ ہوئے۔

    ان کی تصنیف ’’دلی کا آخری یادگار مشاعرہ‘‘ مرقع نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ مولوی نذیر احمد کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا اور بہت برسوں دیکھا تھا۔ ’’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ میں ان کی ہوبہو تصویر اتاری ہے۔ اس خاکے نے ان کو لازوال شہرت عطا کی۔ یہ خاکہ مولوی وحید الدین سلیم کو ایسا پسند آیا کہ انہوں نے اپنا خاکہ لکھنے کی فرمائش کی۔ ان کی وفات کے بعد مرزا نے اس فرمائش کو پورا کر دیا اور اس خاکے کو ’’ایک وصیت کی تعمیل میں‘‘ نام دیا۔ انہوں نے بڑی تعداد میں مضامین لکھے جو مضامینِ فرحت کے نام سے سات جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ شاعری بھی کی لیکن یہ ان کا اصل میدان نہیں۔

    دہلی کی ٹکسالی زبان پر انہیں بڑی قدرت حاصل ہے اور شوخی ان کی تحریر کا خاصہ ہے۔ ان کے مضامین پڑھ کر ہم ہنستے نہیں، قہقہہ نہیں لگاتے بس ایک ذہنی فرحت حاصل کرتے ہیں۔ جب وہ کسی موضوع یا کسی شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز نہیں کرتے اس جزئیات نگاری سے قاری کو بہت لطف و لذّت حاصل ہوتی ہے۔

    ان کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ فلسفیانہ گہرائی اور سنجیدگی سے حتی الامکان اپنا دامن بچاتے ہیں۔ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ قاری زیادہ سے زیادہ محظوظ ہو۔

    مرزا صاحب کے مضامین کا مجموعہ اردو کے قارئین میں بہت مقبول رہا ہے اور ان کی ایک خودنوشت بھی بہت پسند کی گئی جس پر ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں، اُردو کے نامور نثر نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی یہ خودنوشت ’’میری داستان‘‘ دراصل ایک ’’دفتر بیتی‘‘ ہے جو آپ بیتی کے تمام پہلوؤں کی بجائے صرف ایک پہلو یعنی ان کی دفتری زندگی اور کارناموں پر محیط ہے۔ مرزا صاحب نے انسانی زندگی کو ایک قید سے تعبیر کیا ہے اور اس قید کے پانچ حصے کیے ہیں۔ حصہ اوّل ماں کا پیٹ۔ دوسرا حصہ بڑے بوڑھوں کی قید۔ سوم حصہ مدرسے کی قید۔ چوتھا حصہ نوکری کی قید اور آخری حصہ قبر کی قید۔ یہ تقسیم ان کی بڑی خوش طبعی پر مبنی ہے۔

    ’’میری داستان‘‘ اپنے تمام کرداروں کے صحیح تشخص کے باوجود ایک زبردست عوامی میلہ ہے جس میں قہقہے ہیں، چہچہے ہیں، بھیڑ بھاڑ ہے، آدمی پر آدمی گر رہا ہے، ہنڈولے جھول رہے ہیں، چرخ جھوم رہے ہیں، حلوائیوں کی دکانوں پر مٹھائی کے تھال سجے ہیں، کڑھاؤ چڑھے ہیں، پوریاں تلی جا رہی ہیں، کہیں ناچ گانا ہو رہا ہے، کہیں بھنڈی کی دھوم دھام ہے۔ یہ حسنِ بیان، ذہانت، انشاء پردازی اور ادبِ عالیہ کا شاہ کار ہیں۔

  • مرزا فرحت اللہ بیگ: ممتاز انشاء پرداز اور مقبول مزاح نگار

    مرزا فرحت اللہ بیگ: ممتاز انشاء پرداز اور مقبول مزاح نگار

    مرزا فرحت اللہ بیگ کو اصلاً مزاح نگار کہا جا سکتا ہے، کیوں کہ ان کی تحریروں میں طنز کم ہے اور جہاں بھی طنزیہ انداز اپنایا ہے، وہاں موقع کی مناسبت سے اور حسبِ ضرورت چوٹ کر کے بڑھ گئے ہیں اور شدّت نہیں کی۔ مرزا فرحت اللہ بیگ اردو کے مقبول نگاروں میں سے ایک ہیں جن کی وفات 1947ء میں آج ہی کے روز ہوئی تھی۔ وہ ایک انشاء پرداز اور ایسے ادیب تھے جس نے مضامینِ شگفتہ کے ساتھ شخصی خاکے بھی لکھے اور واقعات نگاری بھی کی۔ ان کا تخلیقی سفر متعدد اصنافِ ادب پر محیط ہے۔

    بیسویں صدی کے اس ممتاز انشا پرداز کو اردو داں طبقے میں خاصی مقبولیت حاصل رہی ہے۔ اگرچہ انہوں نے ادب کے علاوہ مختلف موضوعات مثلاً تاریخ، تحقیق، سوانح وغیرہ میں بھی خامہ فرسائی کی مگر سب میں مزاح کا رنگ غالب رہا۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کے ان تین مضامین کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی جو بعنوان نذیر احمد کی کہانی، کچھ میری کچھ ان کی زبانی، دہلی کی آخری شمع (ایک مشاعرہ) اور پھول والوں کی سیر شایع ہوئے۔

    مرزا صاحب کے بارے میں تاریخِ اردو ادب میں‌ لکھا ہے کہ وہ خاکہ نگار کی حیثیت سے بہت مشہور ہیں اور ان خاکوں کو ہر دل عزیز بنانے میں مرزا کی فطری ظرافت کو بہت دخل ہے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا۔ تنقید، افسانہ، سوانح، سیرت، معاشرت و اخلاق کی طرف انہوں نے توجہ کی لیکن ان کی اصل شہرت کا مدار ظرافت نگاری پر ہے۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ کا عہد ہندوستان کی تاریخ کا عبوری دور ہے۔ تہذیبی تصادم کا یہ دور جس میں 1857ء نقطۂ عروج کی حیثیت رکھتا ہے، زوال، انحطاط، مایوسی، محرومی اور احساسِ شکست کا آئینہ دار بھی ہے اور غیرملکی اقتدار کا مرقع بھی۔ اسی عہد میں سیاسی، سماجی، ملی اور ادبی تحریکات کی نشو و نما بھی ہوئی اور اسی دور میں دماغوں سے قدامت کا رنگ بھی چھوٹنا شروع ہوا۔ اسی عہد میں قدیم و جدید کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچی اور آخرکار قدیم تہذیب، قدیم علوم اور قدیم اندازِ فکر کو شکست تسلیم کرنا پڑی۔ معاشرے نے کروٹ بدلی اور تمدن کے ایک شاندار دور کا خاتمہ ہو گیا۔

    مرزا فرحت اللہ بیگ انقلابِ 1857ء کے 26 سال بعد ستمبر 1883ء میں دہلی میں پیدا ہوئے اور 1905 میں بی۔ اے کا امتحان پاس کر کے 1907 تک دہلی میں رہے۔ 1908 میں حیدرآباد (دکن) میں وارد ہوئے جہاں گورنمنٹ اسکول چادر گھاٹ کی مددگاری پر پہلا تقرر ہوا، پھر ہائیکورٹ کے مترجم کی خدمات پر مامور ہوئے، اس کے بعد اسپیشل مجسٹریٹ، سیشن جج اور آخر میں ہائیکورٹ کے انسپکٹنگ آفیسر بنے جو ہائیکورٹ کے جج کے مساوی عہدہ تھا۔

    دورانِ تعلیم مرزا فرحت اللہ بیگ کے روابط ڈپٹی نذیر احمد سے قائم ہوئے۔ اسی قرابت اور نذیر احمد کی دل چسپ شخصیت نے "نذیر احمد کی کہانی” لکھوائی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کہانی نے نہ صرف موصوف کے فن کو اجاگر کیا، حقِ شاگردی ادا کیا بلکہ انوکھی طرز کی کردار نگاری کا سنگ بنیاد رکھ کر اپنے فن کو بے نظیر اور نذیر احمد کو زندہ جاوید بنا دیا ہے۔

    تاریخِ اردو ادب میں‌ لکھا ہے کہ وہ دہلی کے رہنے والے تھے۔ ان کے اجداد شاہ عالم ثانی کے عہد میں ترکستان سے آئے اور دہلی کو اپنا وطن بنایا۔ یہاں کالج کی تعلیم کے دوران مولوی نذیر احمد سے ملاقات ہوئی۔ ان سے نہ صرف عربی زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی بلکہ ان کی شخصیت کا گہرا اثر بھی قبول کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد حیدرآباد دکن گئے تھے اور وہاں سے معاش کا خوب انتظام ہوا۔ وہیں‌ وفات پائی اور دفن بھی دکن کی مٹی میں‌ ہوئے۔

    ان کی تصنیف ’’دلی کا آخری یادگار مشاعرہ‘‘ مرقع نگاری کا عمدہ نمونہ ہے۔ مولوی نذیر احمد کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا اور بہت برسوں دیکھا تھا۔ ’’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ میں ان کی ہوبہو تصویر اتاری ہے۔ اس خاکے نے ان کو لازوال شہرت عطا کی۔ یہ خاکہ مولوی وحید الدین سلیم کو ایسا پسند آیا کہ انہوں نے اپنا خاکہ لکھنے کی فرمائش کی۔ ان کی وفات کے بعد مرزا نے اس فرمائش کو پورا کر دیا اور اس خاکے کو ’’ایک وصیت کی تعمیل میں‘‘ نام دیا۔ انہوں نے بڑی تعداد میں مضامین لکھے جو مضامینِ فرحت کے نام سے سات جلدوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ شاعری بھی کی لیکن یہ ان کا اصل میدان نہیں۔

    دہلی کی ٹکسالی زبان پر انہیں بڑی قدرت حاصل ہے اور شوخی ان کی تحریر کا خاصہ ہے۔ ان کے مضامین پڑھ کر ہم ہنستے نہیں، قہقہہ نہیں لگاتے بس ایک ذہنی فرحت حاصل کرتے ہیں۔ جب وہ کسی موضوع یا کسی شخصیت پر قلم اٹھاتے ہیں تو چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز نہیں کرتے اس جزئیات نگاری سے قاری کو بہت لطف و لذّت حاصل ہوتی ہے۔

    ان کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ فلسفیانہ گہرائی اور سنجیدگی سے حتی الامکان اپنا دامن بچاتے ہیں۔ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ قاری زیادہ سے زیادہ محظوظ ہو۔

    مرزا صاحب کے مضامین کا مجموعہ اردو کے قارئین میں بہت مقبول رہا ہے اور ان کی ایک خودنوشت بھی بہت پسند کی گئی جس پر ڈاکٹر اسلم فرخی لکھتے ہیں، اُردو کے نامور نثر نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی یہ خودنوشت ’’میری داستان‘‘ دراصل ایک ’’دفتر بیتی‘‘ ہے جو آپ بیتی کے تمام پہلوؤں کی بجائے صرف ایک پہلو یعنی ان کی دفتری زندگی اور کارناموں پر محیط ہے۔ مرزا صاحب نے انسانی زندگی کو ایک قید سے تعبیر کیا ہے اور اس قید کے پانچ حصے کیے ہیں۔ حصہ اوّل ماں کا پیٹ۔ دوسرا حصہ بڑے بوڑھوں کی قید۔ سوم حصہ مدرسے کی قید۔ چوتھا حصہ نوکری کی قید اور آخری حصہ قبر کی قید۔ یہ تقسیم ان کی بڑی خوش طبعی پر مبنی ہے۔

    ’’میری داستان‘‘ اپنے تمام کرداروں کے صحیح تشخص کے باوجود ایک زبردست عوامی میلہ ہے جس میں قہقہے ہیں، چہچہے ہیں، بھیڑ بھاڑ ہے، آدمی پر آدمی گر رہا ہے، ہنڈولے جھول رہے ہیں، چرخ جھوم رہے ہیں، حلوائیوں کی دکانوں پر مٹھائی کے تھال سجے ہیں، کڑھاؤ چڑھے ہیں، پوریاں تلی جا رہی ہیں، کہیں ناچ گانا ہو رہا ہے، کہیں بھنڈی کی دھوم دھام ہے۔ یہ حسنِ بیان، ذہانت، انشاء پردازی اور ادبِ عالیہ کا شاہ کار ہیں۔

  • ایک نگینہ جو چَٹ سے ٹوٹ گیا!

    ایک نگینہ جو چَٹ سے ٹوٹ گیا!

    مولوی وحید الدّین سلیم اسی سرزمینِ پانی پت کے فرزند تھے جس نے جدید رجحانات کے پہلے علم بردار مولانا الطاف حسین حالی کو جنم دیا تھا۔ پروفیسر وحید الدّین سلیم پانی پتی ایک بلند پایہ عالم، محقق، نثار، شاعر، ماہرِ لسانیات اور واضع اصطلاحات تھے۔

    مرفہ الحال ریاست دکن میں‌ جامعہ عثمانیہ قائم ہوئی تو وہ اردو کے پہلے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے اور بعد ازاں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے دارالترجمہ میں انہوں نے اپنی مشہور کتاب "وضعِ اصطلاحات” تصنیف کی جو اصطلاح سازی کے فن پر اردو میں پہلی کتاب مانی جاتی ہے۔ "افاداتِ سلیم” ان کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اردو کے مشہور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ ان پر لکھا گیا ایک خاکہ نہایت مقبول ہے جس سے ہم یہ اقتباسات آپ کے لیے پیش کررہے ہیں۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:

    "خدا بخشے، مولوی وحید الدّین سلیم بھی ایک عجیب چیز تھے۔ ایک نگینہ سمجھیے کہ برسوں نا تراشیدہ رہا۔ جب تراشا گیا، پھل نکلے، چمک بڑھی، اہلِ نظر میں قدر ہوئی۔ اس وقت چٹ سے ٹوٹ گیا۔”

    "مولوی صاحب کو اصطلاحات وضع کرنے کا خاص ملکہ تھا۔ ایسے ایسے الفاظ دماغ سے اتارتے کہ باید و شاید۔ جہاں ثبوت طلب کیا اور انہوں نے شعر پڑھا، اور کسی نہ کسی بڑے شاعر سے منسوب کر دیا۔ اب خدا بہتر جانتا ہے کہ یہ خود ان کا شعر ہوتا تھا یا واقعی اس شاعر کا۔ بھلا ایک ایک لفظ کے لیے کون دیوان ڈھونڈتا بیٹھے۔ اگر کوئی تلاش بھی کرتا اور وہ شعر دیوان میں نہ ملتا تو یہ کہہ دینا کیا مشکل تھا کہ یہ غیر مطبوعہ کلام ہے۔”

    "انگریزی بالکل نہیں جانتے تھے مگر انگریزی اصطلاحات پر پورے حاوی تھے۔ یہ ہی نہیں بلکہ یہاں تک جانتے تھے کہ اس لفظ کے کیا ٹکڑے ہیں، ان ٹکڑوں کی اصل کیا ہے، اور اس اصل کے کیا معنے ہیں۔ اس بلا کا حافظہ لے کر آئے تھے کہ ایک دفعہ کوئی لفظ سنا اور یاد ہو گیا۔”

    "الفاظ کے ساتھ انہوں نے اس پر بھی بہت غور کیا تھا کہ انگریزی میں اصطلاحات بنانے میں کن اصولوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے، انہیں اصولوں کو اردو کی اصطلاحات وضع کرنے میں کام میں لاتے اور ہمیشہ کام یاب ہوتے۔ میری کیا اس وقت سب کی یہی رائے ہے کہ اصطلاحات بنانے کے کام میں مولوی وحید الدّین سلیم اپنا جواب نہیں رکھتے تھے، اور اب ان کے بعد ان کا بدل ملنا دشوار تو کیا ناممکن ہے۔ عربی اور فارسی میں اچھی دسترس تھی، مگر وہ اردو کے لیے بنے تھے۔ اور اردو ان کے لیے۔

    خوب سمجھتے تھے اور خوب سمجھاتے تھے۔ زبان کے جو نکات وہ اپنے شاگردوں کو بتا گئے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ کالج کے لونڈے وہ مضمون لکھ جاتے ہیں، جو بڑے بڑے اہلِ قلم کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آتے۔”

    "مولوی صاحب کیا مرے، زبانِ اردو کا ایک ستون گر گیا اور ایک ایسا ستون گرا کہ اس جیسا بننا تو کجا، اس حصّے میں اڑواڑ بھی لگانی مشکل ہے۔ اس کی جگہ بھرنے کے لیے دوسرے پروفیسر کی تلاش ہو رہی ہے مگر عثمانیہ یونیورسٹی کے اربابِ حلّ و عقد لکھ رکھیں کہ چاہے اِس سرے سے اُس سرے تک ہندوستان چھان مارو، مولوی وحید الدّین سلیم جیسا پروفیسر ملنا تو بڑی بات ہے، ان کا پاسنگ بھی مل جائے تو غنیمت اور بہت غنیمت سمجھو۔”

    (ماخوذ از مضمون ‘ایک وصیّت کی تعمیل میں’)

  • ہم اور ہمارا امتحان

    ہم اور ہمارا امتحان

    نہ ہوئی گر میرے پرچوں سے تسلی نہ سہی
    امتحاں اور بھی باقی ہے تو یہ بھی نہ سہی

    لوگ امتحان کے نام سے گھبراتے ہیں لیکن مجھے ان کے گھبرانے پر ہنسی آتی ہے۔ آخر امتحان ایسا کیا ہوّا ہے۔ دو ہی صورتیں ہیں ’فیل یا پاس‘ اس سال کام یاب نہ ہوئے آئندہ سال سہی۔

    میں اپنے دوستوں اور ہم جماعتوں کو دیکھتا تھا کہ جوں جوں امتحان کے دن قریب آتے جاتے ان کے حواس پر، ان کا دماغ مختل اور ان کی صورت اتنی سی نکلتی آتی تھی۔ بندۂ درگاہ پر امتحان کا رتّی برابر اثر پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ گو امتحان سے فارغ ہو چکا ہوں لیکن اب بھی اس کے ختم ہو جانے کا افسوس ہے۔ امیدواروں کا مجمع، نئی نئی صورتیں، عجیب عجیب خیالات، یہ ایسی چیزیں ہیں جن سے کبھی دل سیر نہیں ہو سکتا۔ جی چاہتا ہے کہ تمام عمر امتحان ہوئے جائے لیکن پڑھنے اور یاد کرنے کی شرط اٹھا دی جائے۔

    میری سنیے کہ دو سال میں لاء کلاس کا کورس پورا کیا۔ مگر کس طرح؟ شام کو یاروں کے ساتھ ٹہلنے نکلتا، واپسی کے وقت لاء کلاس میں بھی جھانک آتا۔ منشی صاحب دوست تھے اور لکچرار صاحب پڑھانے میں مستغرق۔ حاضری کی تکمیل میں کچھ دشواری نہ تھی۔ اب آپ ہی بتائیے کہ لاء کلاس میں شریک ہونے سے میرے کس مشغلے میں فرق آ سکتا تھا؟ والد صاحب قبلہ خوش تھے کہ بیٹے کو قانون کا شوق ہو چلا ہے۔ کسی زمانے میں بڑے بڑے وکیلوں کے کان کترے گا۔ ہم بھی بے فکر تھے کہ چلو دو برس تک تو کوئی محنت کے لیے کہہ نہیں سکتا۔ بعد میں دیکھیے کون جیتا ہے اور کون مرتا ہے۔ لیکن زمانہ آنکھ بند کیے گزرتا ہے۔ دو سال ایسے گزر گئے جیسے ہوا۔ لاء کلاس کا صداقت نامہ بھی مل گیا۔

    اب کیا تھا والدین امتحانِ وکالت کی تیاری کے لیے سَر ہو گئے مگر میں بھی ایک ذات شریف ہوں۔ ایک بڑھیا اور ایک بڈھے کو دھوکا دینا کیا بڑی بات ہے۔ میں نے تقاضا کیا کہ علاحدہ کمرہ مل جائے تو محنت کروں۔ بال بچّوں کی گڑبڑ میں مجھ سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ چند روز اسی حیلے سے ٹال دیے۔ لیکن تابکے!

    بڑی بی نے اپنے سونے کا کمرہ خالی کر دیا۔ اب میں دوسری چال چلا۔ دروازوں میں جو شیشے تھے ان پر کاغذ چپکا دیا۔ لیمپ روشن کر کے آرام سے سات بجے سو جاتا اور صبح نو بجے اٹھتا۔ اگر کسی نے آواز دی اور آنکھ کھل گئی تو ڈانٹ دیا کہ خواہ مخواہ میری پڑھائی میں خلل ڈالا جاتا ہے۔ اگر آنکھ نہ کھلی اور صبح کو سونے کا الزام لگایا گیا تو کہہ دیا کہ میں پڑھتے وقت کبھی جواب نہ دوں گا، آئندہ کوئی مجھے دق نہ کرے۔ بعض وقت ایسا ہوا کہ لیمپ بھڑک کر چمنی سیاہ ہو گئی اور میری زیادہ محویت اور محنت کا نتیجہ سمجھی گئی۔ بعض وقت والد، والدہ کہتے بھی تھے کہ اتنی محنت نہ کیا کرو لیکن میں زمانے کی ترقی کا نقشہ کھینچ کر ان کا دل خوش کر دیا کرتا تھا۔

    خدا خدا کر کے یہ مشکل بھی آسان ہوگئی اور امتحان کا زمانہ قریب آیا۔ میں نے گھر میں بہت کہا کہ ابھی میں امتحان کے لیے جیسا چاہیے ویسا تیار نہیں ہوں لیکن میری مسلسل حاضری، لاء کلاس اور شبانہ روز کی محنت نے ان کے دلوں پر سکّہ بٹھا رکھا تھا۔ وہ کب ماننے والے تھے۔ پھر بھی احتیاطاً اپنے بچاؤ کے لیے ان سے کہہ دیا اگر میں فیل ہو جاؤں تو اس کی ذمے داری مجھ پر نہ ہوگی۔ کیونکہ میں ابھی اپنے آپ کو امتحان کے قابل نہیں پاتا۔ لیکن والد صاحب مسکرا کے بولے کہ امتحان سے کیوں ڈرے جاتے ہو، جب محنت کی ہے تو شریک بھی ہو جاؤ، کام یابی و ناکام یابی خدا کے ہاتھ ہے۔

    مرد باید کہ ہراساں نشود

    میں نے بھی تقدیر اور تدبیر پر ایک چھوٹا سا لیکچر دے کر ثابت کر دیا کہ تدبیر کوئی چیز نہیں۔ تقدیر سے تمام دنیا کے کام چلتے ہیں۔

    قصہ مختصر درخواستِ شرکت دی گئی اور منظور ہوگئی اور ایک دن وہ آیا کہ ہم ہال ٹکٹ لیے ہوئے مقام امتحان پر پہنچ ہی گئے، گو یاد نہیں کیا تھا لیکن دو وجہ سے کام یابی کی امید تھی۔ اوّل تو امدادِ غیبی، دوسرے پرچوں کی الٹ پھیر۔ شاید وہ حضرات جو امتحان میں کبھی شریک نہیں ہوئے، اس مضمون کو نہ سمجھیں اس لیے ذرا وضاحت سے عرض کرتا ہوں۔

    ’’امدادِ غیبی‘‘ سے مراد امیدوارانِ امتحان کی اصطلاح میں وہ مدد ہے جو ایک کو دوسرے سے یا کسی نیک ذات نگراں کار سے یا عندالموقع کتاب سے پہنچ جاتی ہے۔ پرچوں کی الٹ پھیر گو بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہے لیکن تقدیر سب کچھ آسان کر دیتی ہے۔ بعض شریف کم حیثیت ملازم ایسے بھی نکل آتے ہیں جو بہ امیدِ انعام پرچے بدل دیتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اس سے ایک محنت کرنے والے کو نقصان پہنچ جاتا ہے لیکن تدبیر و تقدیر کا مسئلہ جیسا اس کارروائی میں حل ہوتا ہے، دوسری کسی صورت میں حل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اور بھی صورتیں ہیں لیکن وہ بہت کم پیش آتی ہیں۔ اس لیے ان پر بھروسہ کرنا نادانی ہے۔

    خیر آمدم برسرِ مطلب! پونے دس بجے گھنٹی بجی اور ہم بسم اللہ کہہ کر کمرۂ امتحان میں داخل ہوئے۔ یہاں ایک بہت خلیق اور ہنس مکھ نگراں کار تھے۔ مجھے جگہ نہیں ملتی تھی۔ میں نے ان سے کہا۔ وہ میرے ساتھ ہو لیے، جگہ بتائی اور بڑی دیر تک ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے۔ میں سمجھا چلو بیڑا پار ہے اللہ دے اور بندہ لے۔

    ٹھیک دس بجے پرچہ تقسیم ہوا۔ میں نے پرچہ لیا۔ سرسری نظر ڈالی اور میز پر رکھ دیا۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ پرچہ پڑھنے کے بعد جیسا میرے چہرے پر اطمینان تھا شاید ہی کسی کے چہرے پر ہوگا۔ خود تو اس پرچے کے متعلق اندازہ نہ کر سکا لیکن نگراں کار صاحب کو یہ کہتے ضرور سنا کہ پرچہ مشکل ہے۔ میں کئی مرتبہ اوّل سے آخر تک اس کو پڑھ گیا لیکن نہ معلوم ہوا کس مضمون کا ہے۔ جوابات کی کاپی دیکھی۔ اس کے آخر کی ہدایتیں پڑھیں۔ صفحۂ اوّل کی خانہ پری کی اور کھڑا ہو گیا۔ گارڈ صاحب فوراً ہی آئے۔ میں نے ان سے کہا جناب! یہ پرچہ کس مضمون کا ہے۔ وہ مسکرائے، زبان سے تو کچھ نہ بولے مگر پرچے کے عنوان پر انگلی رکھ دی۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ’’اصولِ قانون‘‘ کا پرچہ ہے۔ دل کھل گیا۔

    اب کیا تھا میں نے بھی قلم اٹھا کر لکھنا شروع کر دیا۔ کیونکہ اصول کے لیے کسی کتاب کے پڑھنے کی ضرورت تو ہے ہی نہیں۔ اس مضمون پر ہر شخص کو رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ ایک مقنن ایک اصول قائم کرتا ہے۔ دوسرا اس کو توڑ دیتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی رائے کو کسی دوسرے کی تجویز کا پابند کریں۔ میں نے اپنے برابر والے سے پوچھنے کی کوشش بھی کی۔ کچھ ادھر ادھر نگاہ بھی دوڑائی مگر وہ گارڈ صاحب میری حالت کو کچھ ایسا تاڑ گئے تھے کہ ہر وقت بلائے ناگہانی کی طرح سر پر ہی کھڑے رہتے تھے۔ ذرا میں نے ادھر ادھر گردن پھیری اور انہوں نے آواز دی کہ، ’’جناب اپنے پرچے پر نظر رکھیے۔‘‘

    جب دوسروں سے مدد ملنے کی توقع منقطع ہو گئی تو میں نے دل میں سوچا کہ چلو ان گارڈ صاحب ہی سے پوچھیں۔ میں کھڑا ہو گیا۔ وہ آئے، میں نے دریافت کیا کہ، ’’جناب والا اس دوسرے سوال کا کیا جواب ہے۔‘‘ وہ مسکرائے اور کہا کہ ’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘ میں نے کہا کہ یہ برابر والے بڑے زور سے لکھ رہے ہیں ان سے پوچھ دیجیے اور اگر آپ کو دریافت کرتے ہوئے لحاظ آتا ہے تو ذرا ادھر ٹہلتے ہوئے تشریف لے جائیے میں خود پوچھ لوں گا۔‘‘ مگر وہ کب ہلنے والے تھے۔ قطب ہو گئے۔ ان کا مسکرانا پہلے تو بہت اچھا معلوم ہوتا تھا لیکن پھر آخر میں تو زہر ہو گیا۔ میں واللہ سچ کہتا ہوں کہ اگر تمام عمر میں قلبی نفرت مجھے کسی سے ہوئی ہے تو انہیں صاحب سے ہوئی ہے۔ ان کا وہ مسکراتے ہوئے ٹہلنا مجھے ایسا برا معلوم ہوتا تھا کہ کئی دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ اگر میرے برابر کھڑے ہو کر یہ مسکرائے تو ضرور گلخپ ہو جاؤں لیکن پھر سوچا کہ سرکاری معاملہ ہے۔ کہیں اینچن چھوڑ کر گھسیٹن میں نہ پڑ جاؤں۔ اس لیے چپکا ہو رہا۔

    غرض اس طرح یہ تمام دن امتحان کے گزر گئے۔ لیکن آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے ظالم کے ساتھ ایسی حالت میں کہ ایک حرف بھی یاد نہ ہو، پورے چھ گھنٹے گزارنے کیسے مشکل ہوں گے۔ میں تو ہر روز آدھ گھنٹے کے بعد ہی کمرے سے نکل آتا لیکن مصیبت یہ آن پڑی کہ والد صاحب روز گیارہ بجے سے آ جاتے اور نیچے صحن میں بیٹھے رہتے۔ اب میں جلدی باہر آ جاتا تو جو رعب میں نے دو سال کے عرصے میں قائم کیا تھا وہ سب ہوا ہو جاتا۔ اس لیے قہرِ درویش بر جانِ درویش آخری وقت تک کمرہ امتحان میں بیٹھا رہتا اور جب نیچے اترتا تو والد صاحب سے پرچے کی سختی کی ضرور شکایت کرتا۔ وہ بھی میری تشفی کے لیے ممتحن کو بہت برا بھلا کہتے لیکن ان کو یہ خیال ہو گیا تھا کہ کچھ ہی کیوں نہ ہو میرا بیٹا کام یاب ضرور ہوگا۔

    امتحان ختم ہوا اور امید نمبر ایک اور دو کا خون ہو گیا۔ اب ممتحنوں کے پاس کوشش کی سوجھی۔ والد صاحب ایک زبردست چٹھی سفارش کی لے کر ایک صاحب کے ہاں پہنچے۔ وہ چٹھی دیکھ کر بہت اخلاق سے ملے۔ آنے کی وجہ دریافت کی۔ والد نے عرض کیا کہ خادم زادہ اس سال امتحان میں شریک ہوا ہے۔ اگر آپ کچھ کوشش فرمائیں تو یہ خانہ زاد ہمیشہ ممنونِ احسان رہے گا۔

    وہ بہت ہنسے اور دوسرے لوگوں سے جو سلام کو حاضر ہوئے تھے فرمانے لگے۔ یہ عجیب درخواست ہے۔ ان کا بیٹا تو امتحان دے اور کوشش میں کروں۔ بندۂ خدا اپنے لڑکے سے کہو وہ خود کوشش کرے۔ بے چارے بڑے میاں ایسے نادم ہوئے کہ پھر کسی کے پاس نہ گئے۔

    کچھ عرصے بعد نتیجہ بھی شائع ہو گیا اور کم ترین جملہ مضامین میں بدرجۂ اعلیٰ فیل ہوا۔ خبر نہیں کہ وہ کون سے بھلے مانس ممتحن تھے کہ انہوں نے دو نمبر بھی دیے۔ باقی نے تو صفر ہی پر ٹالا۔

    (مرزا فرحت اللہ بیگ کی ایک شگفتہ تحریر)

  • ایک وصیت کی تعمیل!

    ایک وصیت کی تعمیل!

    خدا بخشے مولوی وحید الدّین ‘سلیم’ بھی ایک عجیب چیز تھے۔ ایک نگینہ سمجھیے کہ برسوں ناتراشیدہ رہا۔ جب تراشا گیا۔ پھل نکلے، چمک بڑھی، اہلِ نظر میں قدر ہوئی۔ اس وقت چٹ سے ٹوٹ گیا۔

    شہرت بھی ‘غالب’ کے قصیدے کی طرح آج کل کسی کو راس نہیں آتی۔ ادھر نام بڑھا اور ادھر مرا۔ صف سے آگے نکلا اور تیر قضا کا نشانہ ہوا، چلچلاؤ کا زور ہے۔ آج یہ گیا، کل وہ گیا، مولوی نذیر احمد گئے۔ شبلی گئے، حالی گئے، وحید الدّین گئے۔ اب بڑوں میں مولوی عبدالحق رہ گئے۔ ان کو بھی شہرت کی ریا لگ گئی ہے۔ سوکھے چلے جا رہے ہیں۔ کسی دن یہ بھی خشک ہو کر رہ جائیں گے۔

    یہ تو جو کچھ تھا، سو تھا، ایک نئی بات یہ ہے کہ آج کل کا مرنا بھی کچھ عجب مرنا ہو گیا ہے۔ پہلے زندگی کو چراغ سے تشبیہ دیتے تھے، بتی جلتی، تیل خرچ ہوتا، تیل ختم ہونے کے بعد چراغ جھلملاتا، تمٹماٹا، لو بیٹھنی شروع ہوتی اور آخر رفتہ رفتہ ٹھنڈا ہو جاتا۔ اب چراغ کی جگہ زندگی، بجلی کا لیمپ ہو گئی ہے۔ ادھر بٹن دبایا، ادھر اندھیرا گھپ۔ عظمت اللہ خان، اسی طرح مرے، مولوی وحید الدّین اسی طرح رخصت ہوئے، اب دیکھیں کس کی باری ہے۔ اردو کی مجلس میں دو چار لیمپ جل رہے ہیں۔ وہ بھی کسی وقت کھٹ سے گُل ہوجائیں گے۔ اس کے بعد بس اللہ ہی اللہ ہے۔

    میں مدت سے حیدرآباد میں ہوں۔ مولوی وحید الدّین بھی برسوں سے یہاں تھے، لیکن کبھی ملنا نہیں ہوا۔ انہیں ملنے سے فرصت نہ تھی۔ مجھے ملنے کی فرصت نہ تھی۔ آخر ملے تو کب ملے کہ مولوی صاحب مرنے کو تیار بیٹھے تھے۔

    گزشتہ سال کالج کے جلسہ میں مولوی عبدالحق صاحب نے مجھے اورنگ آباد کھینچ بلایا۔ روانہ ہونے کے لیے جو حیدرآباد کے اسٹیشن پر پہنچا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ اسٹیشن کا اسٹیشن اورنگ آباد جانے والوں سے بھرا پڑا ہے۔ طالبِ علم بھی ہیں، ماسٹر بھی ہیں۔ کچھ ضرورت سے جا رہے ہیں، کچھ بےضرورت چلے جا رہے ہیں۔ کچھ واقعی مہمان ہیں، کچھ بن بلائے مہمان ہیں۔ غرض یہ کہ آدھی ریل انہی اورنگ آباد کے مسافروں نے گھیر رکھی ہے۔ ریل کی روانگی میں دیر تھی۔ سب کے سب پلیٹ فارم پرکھڑے گپیں مار رہے تھے۔ میں بھی ایک صاحب سے کھڑا باتیں کر رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑے میاں بھیڑ کو چیرتے پھاڑتے، بڑے بڑے ڈگ بھرتے، میری طرف چلے آ رہے ہیں۔ متوسط قد، بھاری گٹھیلا بدن، بڑی سی توند، کالی سیاہ فام رنگت، اس پر سفید چھوٹی سی گول ڈاڑھی، چھوٹی چھوٹی کرنجی آنکھیں، شرعی سفید پائجامہ، کتھئی رنگ کے کشمیرے کی شیروانی، سر پر عنابی ترکی ٹوپی، پاؤں میں جرابیں اور انگریزی جوتا۔ آئے اور آتے ہی مجھے گلے لگا لیا۔

    حیران تھا کہ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔ کیا امیر حبیب اللہ خان اور مولوی نذیر احمد مرحوم کی ملاقات کا دوسرا سین ہونے والا ہے۔ جب ان کی اور میری ہڈیاں پسلیاں گلے ملتے ملتے تھک کر چور ہو گئیں۔ اس وقت انہوں نے فرمایا:

    "میاں فرحت! مجھے تم سے ملنے کا بڑا شوق تھا۔ جب سے تمہارا نذیر احمد والا مضمون دیکھا ہے ۔ کئی دفعہ ارادہ کیا کہ گھر پر آکر ملوں۔ مگر موقع نہ ملا۔ قسمت میں ملنا تو آج لکھا تھا۔ بھئی! مجھے نذیر احمد کی قسمت پر رشک آتا ہے کہ تجھ جیسا شاگرد اس کو ملا، مرنے کے بعد بھی ان کا نام زندہ کر دیا۔ افسوس ہے ہم کو کوئی ایسا شاگرد نہیں ملتا جو مرنے کے بعد اسی رنگ میں ہمارا حال بھی لکھتا۔”

    میں پریشان تھا کہ یااللہ یہ ہیں کون اور کیا کہہ رہے ہیں؟ مگر میری زبان کب رکتی ہے، میں نے کہا:

    "مولوی صاحب! آپ گھبراتے کیوں ہیں۔ بسم اللہ کیجیے، مر جائیے، مضمون میں لکھ دوں گا۔”

    کیا خبر تھی کہ سال بھر کے اندر ہی اندر مولوی صاحب مر جائیں گے۔ اور مجھے ان کی وصیت کو پورا کرنا پڑے گا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ مولوی وحید الدّین سلیم ہیں تو واقعی مجھے بہت پشیمانی ہوئی۔ میں نے معذرت کی، وہ خود شگفتہ طبیعت لے کر آئے تھے، رنج تو کجا بڑی دیر تک ہنستے اور اس جملے کے مزے لیتے رہے۔ سر ہو گئے کہ جس گاڑی میں تُو ہے میں بھی اسی میں بیٹھوں گا۔

    شاگردوں کی طرف دیکھا، انہوں نے ان کا سامان لا، میرے درجے میں رکھ دیا۔ ادھر ریل چلی، اور ادھر ان کی زبان چلی۔ رات کے بارہ بجے، ایک بجا، دو بج گئے، مولوی صاحب نہ خود سوتے ہیں اور نہ سونے دیتے ہیں۔ درجۂ اوّل میں ہم تین آدمی تھے۔ مولوی صاحب اور رفیق بیگ۔ رفیق بیگ تو سو گئے، ہم دونوں نے باتوں میں صبح کر دی۔ اپنی زندگی کے حالات بیان کیے اپنے علمی کارناموں کا ذکر چھیڑا، اصطلاحاتِ زبانِ اردو پر بحث ہوتی رہی، شعر و شاعری ہوئی، دوسروں کی خوب خوب برائیاں ہوئیں، اپنی تعریفیں ہوئیں۔ مولوی عبدالحق کو برا بھلا کہا کہ اس بیماری میں مجھے زبردستی کھینچ بلایا۔ غرض چند گھنٹے بڑے مزے سے گزر گئے۔

    صبح ہوتے ہوتے کہیں جاکر آنکھ لگی۔ شاید ہی گھنٹہ بھر سوئے ہوں گے کہ ان کے شاگردوں اور ساتھیوں نے گاڑی پر یورش کر دی۔ پھر اٹھ بیٹھے اور پھر وہی علمی مباحث شروع ہوئے، پھبتیاں اڑیں، اس کو بے وقوف بنایا، اس کی تعریف کی، ہنسی اور قہقہوں کا وہ زور تھا کہ درجہ کی چھت اڑی جاتی تھی۔

    (ایک وصیت کی تعمیل از مرزا فرحت اللہ بیگ)

  • "اونھ” کی تباہ کاریاں!

    "اونھ” کی تباہ کاریاں!

    خدا اس "اُونھ” سے بچائے جس کی زبان پر آیا اُس کو تباہ کیا، جس گھر میں گھسا اس کا ستیا ناس کیا اور جس ملک میں پھیلا اس میں گدھے کے ہل چلوا دیے۔ ثبوت درکار ہو تو دنیا کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لو کہ اس اونھ نے زمانے کے کیا کیا رنگ بدلے ہیں۔

    طالبِ علموں میں دیکھو، اونھ کا زور سب سے زیادہ انہی میں پائو گے۔ سال بھر گزار دیا۔ امتحان کا خیال آیا تو اونھ کر دی یعنی کل سے پڑھیں گے… آخر یہ اونھ یہاں تک کھینچی کہ امتحان آگیا۔ فیل ہوئے۔ اس فیل ہونے پر بھی اونھ کر دی۔

    بہت ہی بامعنٰی ہوتی ہے۔ اس کے ایک معنٰی تو یہ ہیں کہ باپ زندہ ہیں، کھانے پینے اور اڑانے کو مفت ملتا ہے۔ اگر وہ بھی مر گئے تو جائیداد موجود ہے۔ قرضہ دینے کو ساہوکار تیار ہیں۔

    پھر پڑھ لکھ کر کیوں اپنا وقت ضایع کریں۔ دوسرے معنٰی یہ ہیں کہ ابھی ہماری عمر ہی کیا ہے۔ صرف اٹھارہ برس ہی کی تو ہے۔ اگر مڈل کے امتحان میں دو چار بار فیل ہوچکے ہیں تو کیا حرج ہے۔ تیس سال کی عمر تک بھی انٹرنس پاس کر لیا تو سفارش کے بل پر کہیں نہ کہیں چپک ہی جائیں گے۔ یا کم از کم ولایت جانے کا قرضہ تو ضرور مل جائے گا اور ذرا کوشش کی تو بعد میں معاف ہوسکے گا۔

    اس فیل ہونے پر ادھر انھوں نے اونھ کی اُدھر ماں باپ نے اونھ کی۔ اس صورت میں ابّا اور امّاں کی اونھ کا دوسرا مطلب ہے یعنی یہ کہ بچہ ابھی فیل ہوا ہے، دل ٹوٹا ہوا ہے۔ ذرا کچھ کہا تو ایسا نہ ہو کہ رو رو کر اپنی جان ہلکان کرے یا کہیں جا کر ڈوب مرے۔ غرض اس اونھ نے صاحبزادہ صاحب کی تعلیم کا خاتمہ بالخیر کیا۔

    (فرحت اللہ بیگ کے شگفتہ قلم سے)

  • دلّی کے تاجدار اور رعایا کی عقیدت کا عالم

    دلّی کے تاجدار اور رعایا کی عقیدت کا عالم

    یہ جڑوں ہی کی مضبوطی تھی کہ دلّی کا سرسبز و شاداب چمن اگرچہ حوادثِ زمانہ کے ہاتھوں پامال ہو چکا تھا اور فلاکت کی بجلیوں اور بادِ مخالف کے جھونکوں سے سلطنتِ مغلیہ کی شوکت و اقتدار کے بڑے بڑے ٹہنے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے، پھر بھی کسی بڑی سے بڑی طاقت کی ہمت نہ ہوتی تھی کہ اس برائے نام بادشاہ کو تخت سے اتار کر دلّی کو اپنی سلطنت میں شریک کر لے۔

    مرہٹوں کا زور ہوا، پٹھانوں کا زور ہوا، جاٹوں کا زور ہوا، انگریزوں کا زور ہوا، مگر دلّی کا بادشاہ دلّی کا بادشاہ ہی رہا اور جب تک دلّی بالکل تباہ نہ ہوئی، اس وقت تک کوئی نہ کوئی تخت پر بیٹھنے والا نکلتا ہی رہا۔

    دلّی کے ریذیڈنٹ نے بہت کچھ چاہا کہ بادشاہ کے اعزاز و احترام میں کمی کر دے، گورنر جنرل نے بڑی کوشش کی کہ شاہی خاندان کو قطب میں منتقل کر کے قلعے پر قبضہ کر لے، کورٹ آف ڈائریکٹرز نے بہت زور مارا کہ دلّی کی باشاہت کا خاتمہ کر دیا جائے، مگر بورڈ والے اس پر کسی طرح تیار نہ ہوئے۔ وہ جانتے تھے کہ دلّی کا بادشاہ کیا ہے اور اس کے اثرات کہاں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے مباحثے ہوئے، نوجوانوں نے بہت کچھ جوش و خروش دکھایا، مگر انگلستان کے جہاندیدہ بڈھوں کے سامنے کچھ نہ چلی۔

    جب بورڈ میں مسٹر ملکر نے کھڑے ہو کر کہا، عزیزو! میں پچاس سال ہندوستان میں رہا ہوں۔ میں وہاں کے رنگ سے اچھی طرح واقف ہوں۔ میں جانتا ہوں دلّی کا قلعہ کیا ہے۔ اس کی بنیاد اگر ایک طرف کابل تک گئی ہے تو دوسری طرف راس کماری تک۔ ایک جانب آسام تک ہے تو دوسری جانب کاٹھیا واڑ تک۔ ذرا قلعے کو ہاتھ لگایا تو وہ زلزلہ آئے گا کہ سارا ہندوستان ہل جائے گا۔ یہ برائے نام بادشاہت جس طرح چل رہی ہے اسی طرح چلنے دو۔‘‘

    آخر بورڈ میں بڈھے جیتے اور جوان ہارے۔ دلّی کے بادشاہ کا اقتدار ضرور کم ہو گیا مگر جو عقیدت رعایا کو بادشاہ سے تھی، اس میں ذرّہ برابر فرق نہ آیا اور جو محبت بادشاہ کو رعایا سے تھی وہ جیسی کی ویسی رہی۔ رعایا کی وہ کون سی خوشی تھی جس میں بادشاہ حصہ نہ لیتے ہوں اور بادشاہ کا وہ کون سا رنج تھا جس میں رعایا شریک نہ ہوتی ہو۔ بات یہ تھی کہ دونوں جانتے اور سمجھتے تھے کہ جو ہم ہیں، وہ یہ ہیں اور جو یہ ہیں، وہ ہم ہیں۔

    شاہ عالمگیر ثانی کے قتل کے واقعے ہی پر نظر ڈال لو۔ دیکھو کہ ہندو مرد تو مرد عورتوں کو بھی بادشاہ سے کیسی محبت تھی اور خود بادشاہ اس محبت کی کیسی قدر کرتے تھے۔ عالمگیر ثانی کو فقیروں سے بڑی عقیدت تھی۔ جہاں سن پاتے کہ کوئی فقیر آیا ہوا ہے، اس کو بلاتے۔ نہ آتا تو خود جاتے۔ اس سے ملتے، بہت کچھ دیتے دلاتے اور فقیر نوازی کو توشہ آخرت سمجھتے۔

    غازی الدین خاں اس زمانے میں دلّی کا وزیر تھا۔ خدا جانے اس کو بادشاہ سے کیوں دلی نفرت تھی۔ قلعے میں تو ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہ پڑی، دھوکے سے بادشاہ کو مارنے کا جال پھیلایا۔ قلعے میں مشہور کر دیا کہ پرانے کوٹلے میں ایک بزرگ آئے ہوئے ہیں۔ بڑے صاحبِ کرامات ہیں بڑے خدا رسیدہ ہیں، مگر نہ کہیں خود جاتے ہیں، نہ کسی کو آنے دیتے ہیں۔

    ادھر بادشاہ کو ملنے کا شوق ہوا، ادھر لوگوں نے شاہ صاحب کی کرامتوں کے اور پُل باندھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن بادشاہ تن تنہا قلعے سے نکل کر کوٹلے پہنچے۔ ادھر ادھر کھنڈروں میں تلاش کی۔ یہاں تو پہلے ہی سے دشمن لگے ہوئے تھے۔ چار نمک حراموں نے ایک برج میں سے نکل کر بادشاہ کو شہید کر دیا اور لاش جمنا کی ریتی میں پھینک دی۔ خدا کی قدت دیکھو ادھر سے برہمنی رام کنور آ رہی تھی۔ اس نے جو لاش پڑی دیکھی تو ذرا ٹھنکی، بھاگنے کا ارادہ کیا، پھر ذرا غور کیا تو کیا دیکھتی ہے کہ ہیں، یہ تو بادشاہ سلامت کی لاش ہے۔ رات بھر اس بے کس شہید کا سَر زانو پر لیے بیٹھی روتی رہی۔

    صبح جمنا جی کے اشنان کو لوگ آئے۔ انہوں نے بھی لاش کو دیکھ کر پہچانا۔ تمام شہر میں کھلبلی پڑ گئی۔ اس بے کس شہید کی لاش دفن ہوئی۔

    شاہ عالم ثانی بادشاہ ہوئے۔ انہوں نے رام کنور کو بلایا۔ بہت کچھ انعام و اکرام دیا اور اس برہمنی کو اپنی منہ بولی بہن بنا لیا۔ تھوڑے دنوں میں سلونوں کا تہوار آیا۔ بھائی کے لیے بہن موتیوں کی راکھی لے کر پہنچی۔ بادشاہ نے خوشی خوشی راکھی بندھوائی، بہن کو جوڑا دیا، اس کے رشتہ داروں کو خلعت دیے۔ لیجیے راکھی بندھن کی رسم، قلعے کی رسموں میں شریک ہو گئی۔ جب تک قلعہ آباد رہا، اس برہمنی کے خاندان اور قلعے والوں میں بھائی چارہ رہا۔

    (مرزا فرحت اللہ بیگ کی وجہِ شہرت ان کی ظرافت نگاری ہے، پیشِ‌ نظر پارہ اسی انشا پرداز اور صاحبِ اسلوب ادیب کے مضمون "بہادر شاہ اور پھول والوں کی سیر” سے لیا گیا ہے)

  • "مولوی صاحب! آپ گھبراتے کیوں ہیں!”

    "مولوی صاحب! آپ گھبراتے کیوں ہیں!”

    میں مدت سے حیدر آباد (دکن) میں ہوں۔ مولوی وحید الدین بھی برسوں سے یہاں تھے، لیکن کبھی ملنا نہیں ہوا۔ انھیں ملنے سے فرصت نہ تھی۔ مجھے ملنے کی فرصت نہ تھی۔ آخر ملے تو کب ملے کہ مولوی صاحب مرنے کو تیار بیٹھے تھے۔

    گزشتہ سال کالج کے جلسہ میں مولوی عبدالحق صاحب نے مجھے اورنگ آباد کھینچ بلایا۔ روانہ ہونے کے لیے جو حیدرآباد کے اسٹیشن پر پہنچا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ اسٹیشن کا اسٹیشن اورنگ آباد جانے والوں سے بھرا پڑا ہے۔

    طالب علم بھی ہیں، ماسٹر بھی ہیں۔ کچھ ضرورت سے جا رہے ہیں، کچھ بےضرورت چلے جا رہے ہیں۔ کچھ واقعی مہمان ہیں، کچھ بن بلائے مہمان ہیں۔ غرض یہ کہ آدھی ریل انہی اورنگ آباد کے مسافروں نے گھیر رکھی ہے۔

    ریل کی روانگی میں دیر تھی۔ سب کے سب پلیٹ فارم پرکھڑے گپیں مار رہے تھے۔ میں بھی ایک صاحب سے کھڑا باتیں کر رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑے میاں بھیڑ کو چیرتے پھاڑتے، بڑے بڑے ڈگ بھرتے ، میری طرف چلے آ رہے ہیں۔ متوسط قد، بھاری گٹھیلا بدن، بڑی سی توند، کالی سیاہ فام رنگت، اس پر سفید چھوٹی سی گول ڈاڑھی، چھوٹی چھوٹی کرنجی آنکھیں، شرعی سفید پائجامہ، کتھئی رنگ کے کشمیرے کی شیروانی، سر پر عنابی ترکی ٹوپی، پاؤں میں جرابیں اور انگریزی جوتا۔ آئے اور آتے ہی مجھے گلے لگا لیا۔

    حیران تھا کہ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے ۔ کیا امیر حبیب اللہ خان اور مولوی نذیر احمد مرحوم کی ملاقات کا دوسرا سین ہونے والا ہے۔ جب ان کی اور میری ہڈیاں پسلیاں گلے ملتے ملتے تھک کر چور ہو گئیں۔ اس وقت انہوں نے فرمایا:

    "میاں فرحت! مجھے تم سے ملنے کا بڑا شوق تھا۔ جب سے تمہارا نذیر احمد والا مضمون دیکھا ہے، کئی دفعہ ارادہ کیا کہ گھر پر آکر ملوں۔ مگر موقع نہ ملا۔ قسمت میں ملنا تو آج لکھا تھا۔ بھئی! مجھے نذیر احمد کی قسمت پر رشک آتا ہے کہ تجھ جیسا شاگرد اس کو ملا، مرنے کے بعد بھی ان کا نام زندہ کر دیا۔ افسوس ہے ہم کو کوئی ایسا شاگرد نہیں ملتا جو مرنے کے بعد اسی رنگ میں ہمارا حال بھی لکھتا۔”

    میں پریشان تھا کہ یا اللہ یہ ہیں کون اور کیا کہہ رہے ہیں؟ مگر میری زبان کب رکتی ہے، میں نے کہا:

    "مولوی صاحب! آپ گھبراتے کیوں ہیں۔ بسم اللہ کیجیے، مر جائیے، مضمون میں لکھ دوں گا۔”

    (معروف ادیب اور مزاح نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی شگفتہ بیانی)