Tag: مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریریں

  • ایک نگینہ جو چَٹ سے ٹوٹ گیا!

    ایک نگینہ جو چَٹ سے ٹوٹ گیا!

    مولوی وحید الدّین سلیم اسی سرزمینِ پانی پت کے فرزند تھے جس نے جدید رجحانات کے پہلے علم بردار مولانا الطاف حسین حالی کو جنم دیا تھا۔ پروفیسر وحید الدّین سلیم پانی پتی ایک بلند پایہ عالم، محقق، نثار، شاعر، ماہرِ لسانیات اور واضع اصطلاحات تھے۔

    مرفہ الحال ریاست دکن میں‌ جامعہ عثمانیہ قائم ہوئی تو وہ اردو کے پہلے اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے اور بعد ازاں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے دارالترجمہ میں انہوں نے اپنی مشہور کتاب "وضعِ اصطلاحات” تصنیف کی جو اصطلاح سازی کے فن پر اردو میں پہلی کتاب مانی جاتی ہے۔ "افاداتِ سلیم” ان کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اردو کے مشہور ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ ان پر لکھا گیا ایک خاکہ نہایت مقبول ہے جس سے ہم یہ اقتباسات آپ کے لیے پیش کررہے ہیں۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:

    "خدا بخشے، مولوی وحید الدّین سلیم بھی ایک عجیب چیز تھے۔ ایک نگینہ سمجھیے کہ برسوں نا تراشیدہ رہا۔ جب تراشا گیا، پھل نکلے، چمک بڑھی، اہلِ نظر میں قدر ہوئی۔ اس وقت چٹ سے ٹوٹ گیا۔”

    "مولوی صاحب کو اصطلاحات وضع کرنے کا خاص ملکہ تھا۔ ایسے ایسے الفاظ دماغ سے اتارتے کہ باید و شاید۔ جہاں ثبوت طلب کیا اور انہوں نے شعر پڑھا، اور کسی نہ کسی بڑے شاعر سے منسوب کر دیا۔ اب خدا بہتر جانتا ہے کہ یہ خود ان کا شعر ہوتا تھا یا واقعی اس شاعر کا۔ بھلا ایک ایک لفظ کے لیے کون دیوان ڈھونڈتا بیٹھے۔ اگر کوئی تلاش بھی کرتا اور وہ شعر دیوان میں نہ ملتا تو یہ کہہ دینا کیا مشکل تھا کہ یہ غیر مطبوعہ کلام ہے۔”

    "انگریزی بالکل نہیں جانتے تھے مگر انگریزی اصطلاحات پر پورے حاوی تھے۔ یہ ہی نہیں بلکہ یہاں تک جانتے تھے کہ اس لفظ کے کیا ٹکڑے ہیں، ان ٹکڑوں کی اصل کیا ہے، اور اس اصل کے کیا معنے ہیں۔ اس بلا کا حافظہ لے کر آئے تھے کہ ایک دفعہ کوئی لفظ سنا اور یاد ہو گیا۔”

    "الفاظ کے ساتھ انہوں نے اس پر بھی بہت غور کیا تھا کہ انگریزی میں اصطلاحات بنانے میں کن اصولوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے، انہیں اصولوں کو اردو کی اصطلاحات وضع کرنے میں کام میں لاتے اور ہمیشہ کام یاب ہوتے۔ میری کیا اس وقت سب کی یہی رائے ہے کہ اصطلاحات بنانے کے کام میں مولوی وحید الدّین سلیم اپنا جواب نہیں رکھتے تھے، اور اب ان کے بعد ان کا بدل ملنا دشوار تو کیا ناممکن ہے۔ عربی اور فارسی میں اچھی دسترس تھی، مگر وہ اردو کے لیے بنے تھے۔ اور اردو ان کے لیے۔

    خوب سمجھتے تھے اور خوب سمجھاتے تھے۔ زبان کے جو نکات وہ اپنے شاگردوں کو بتا گئے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ کالج کے لونڈے وہ مضمون لکھ جاتے ہیں، جو بڑے بڑے اہلِ قلم کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آتے۔”

    "مولوی صاحب کیا مرے، زبانِ اردو کا ایک ستون گر گیا اور ایک ایسا ستون گرا کہ اس جیسا بننا تو کجا، اس حصّے میں اڑواڑ بھی لگانی مشکل ہے۔ اس کی جگہ بھرنے کے لیے دوسرے پروفیسر کی تلاش ہو رہی ہے مگر عثمانیہ یونیورسٹی کے اربابِ حلّ و عقد لکھ رکھیں کہ چاہے اِس سرے سے اُس سرے تک ہندوستان چھان مارو، مولوی وحید الدّین سلیم جیسا پروفیسر ملنا تو بڑی بات ہے، ان کا پاسنگ بھی مل جائے تو غنیمت اور بہت غنیمت سمجھو۔”

    (ماخوذ از مضمون ‘ایک وصیّت کی تعمیل میں’)

  • ایک وصیت کی تعمیل!

    ایک وصیت کی تعمیل!

    خدا بخشے مولوی وحید الدّین ‘سلیم’ بھی ایک عجیب چیز تھے۔ ایک نگینہ سمجھیے کہ برسوں ناتراشیدہ رہا۔ جب تراشا گیا۔ پھل نکلے، چمک بڑھی، اہلِ نظر میں قدر ہوئی۔ اس وقت چٹ سے ٹوٹ گیا۔

    شہرت بھی ‘غالب’ کے قصیدے کی طرح آج کل کسی کو راس نہیں آتی۔ ادھر نام بڑھا اور ادھر مرا۔ صف سے آگے نکلا اور تیر قضا کا نشانہ ہوا، چلچلاؤ کا زور ہے۔ آج یہ گیا، کل وہ گیا، مولوی نذیر احمد گئے۔ شبلی گئے، حالی گئے، وحید الدّین گئے۔ اب بڑوں میں مولوی عبدالحق رہ گئے۔ ان کو بھی شہرت کی ریا لگ گئی ہے۔ سوکھے چلے جا رہے ہیں۔ کسی دن یہ بھی خشک ہو کر رہ جائیں گے۔

    یہ تو جو کچھ تھا، سو تھا، ایک نئی بات یہ ہے کہ آج کل کا مرنا بھی کچھ عجب مرنا ہو گیا ہے۔ پہلے زندگی کو چراغ سے تشبیہ دیتے تھے، بتی جلتی، تیل خرچ ہوتا، تیل ختم ہونے کے بعد چراغ جھلملاتا، تمٹماٹا، لو بیٹھنی شروع ہوتی اور آخر رفتہ رفتہ ٹھنڈا ہو جاتا۔ اب چراغ کی جگہ زندگی، بجلی کا لیمپ ہو گئی ہے۔ ادھر بٹن دبایا، ادھر اندھیرا گھپ۔ عظمت اللہ خان، اسی طرح مرے، مولوی وحید الدّین اسی طرح رخصت ہوئے، اب دیکھیں کس کی باری ہے۔ اردو کی مجلس میں دو چار لیمپ جل رہے ہیں۔ وہ بھی کسی وقت کھٹ سے گُل ہوجائیں گے۔ اس کے بعد بس اللہ ہی اللہ ہے۔

    میں مدت سے حیدرآباد میں ہوں۔ مولوی وحید الدّین بھی برسوں سے یہاں تھے، لیکن کبھی ملنا نہیں ہوا۔ انہیں ملنے سے فرصت نہ تھی۔ مجھے ملنے کی فرصت نہ تھی۔ آخر ملے تو کب ملے کہ مولوی صاحب مرنے کو تیار بیٹھے تھے۔

    گزشتہ سال کالج کے جلسہ میں مولوی عبدالحق صاحب نے مجھے اورنگ آباد کھینچ بلایا۔ روانہ ہونے کے لیے جو حیدرآباد کے اسٹیشن پر پہنچا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ اسٹیشن کا اسٹیشن اورنگ آباد جانے والوں سے بھرا پڑا ہے۔ طالبِ علم بھی ہیں، ماسٹر بھی ہیں۔ کچھ ضرورت سے جا رہے ہیں، کچھ بےضرورت چلے جا رہے ہیں۔ کچھ واقعی مہمان ہیں، کچھ بن بلائے مہمان ہیں۔ غرض یہ کہ آدھی ریل انہی اورنگ آباد کے مسافروں نے گھیر رکھی ہے۔ ریل کی روانگی میں دیر تھی۔ سب کے سب پلیٹ فارم پرکھڑے گپیں مار رہے تھے۔ میں بھی ایک صاحب سے کھڑا باتیں کر رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑے میاں بھیڑ کو چیرتے پھاڑتے، بڑے بڑے ڈگ بھرتے، میری طرف چلے آ رہے ہیں۔ متوسط قد، بھاری گٹھیلا بدن، بڑی سی توند، کالی سیاہ فام رنگت، اس پر سفید چھوٹی سی گول ڈاڑھی، چھوٹی چھوٹی کرنجی آنکھیں، شرعی سفید پائجامہ، کتھئی رنگ کے کشمیرے کی شیروانی، سر پر عنابی ترکی ٹوپی، پاؤں میں جرابیں اور انگریزی جوتا۔ آئے اور آتے ہی مجھے گلے لگا لیا۔

    حیران تھا کہ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔ کیا امیر حبیب اللہ خان اور مولوی نذیر احمد مرحوم کی ملاقات کا دوسرا سین ہونے والا ہے۔ جب ان کی اور میری ہڈیاں پسلیاں گلے ملتے ملتے تھک کر چور ہو گئیں۔ اس وقت انہوں نے فرمایا:

    "میاں فرحت! مجھے تم سے ملنے کا بڑا شوق تھا۔ جب سے تمہارا نذیر احمد والا مضمون دیکھا ہے ۔ کئی دفعہ ارادہ کیا کہ گھر پر آکر ملوں۔ مگر موقع نہ ملا۔ قسمت میں ملنا تو آج لکھا تھا۔ بھئی! مجھے نذیر احمد کی قسمت پر رشک آتا ہے کہ تجھ جیسا شاگرد اس کو ملا، مرنے کے بعد بھی ان کا نام زندہ کر دیا۔ افسوس ہے ہم کو کوئی ایسا شاگرد نہیں ملتا جو مرنے کے بعد اسی رنگ میں ہمارا حال بھی لکھتا۔”

    میں پریشان تھا کہ یااللہ یہ ہیں کون اور کیا کہہ رہے ہیں؟ مگر میری زبان کب رکتی ہے، میں نے کہا:

    "مولوی صاحب! آپ گھبراتے کیوں ہیں۔ بسم اللہ کیجیے، مر جائیے، مضمون میں لکھ دوں گا۔”

    کیا خبر تھی کہ سال بھر کے اندر ہی اندر مولوی صاحب مر جائیں گے۔ اور مجھے ان کی وصیت کو پورا کرنا پڑے گا۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ مولوی وحید الدّین سلیم ہیں تو واقعی مجھے بہت پشیمانی ہوئی۔ میں نے معذرت کی، وہ خود شگفتہ طبیعت لے کر آئے تھے، رنج تو کجا بڑی دیر تک ہنستے اور اس جملے کے مزے لیتے رہے۔ سر ہو گئے کہ جس گاڑی میں تُو ہے میں بھی اسی میں بیٹھوں گا۔

    شاگردوں کی طرف دیکھا، انہوں نے ان کا سامان لا، میرے درجے میں رکھ دیا۔ ادھر ریل چلی، اور ادھر ان کی زبان چلی۔ رات کے بارہ بجے، ایک بجا، دو بج گئے، مولوی صاحب نہ خود سوتے ہیں اور نہ سونے دیتے ہیں۔ درجۂ اوّل میں ہم تین آدمی تھے۔ مولوی صاحب اور رفیق بیگ۔ رفیق بیگ تو سو گئے، ہم دونوں نے باتوں میں صبح کر دی۔ اپنی زندگی کے حالات بیان کیے اپنے علمی کارناموں کا ذکر چھیڑا، اصطلاحاتِ زبانِ اردو پر بحث ہوتی رہی، شعر و شاعری ہوئی، دوسروں کی خوب خوب برائیاں ہوئیں، اپنی تعریفیں ہوئیں۔ مولوی عبدالحق کو برا بھلا کہا کہ اس بیماری میں مجھے زبردستی کھینچ بلایا۔ غرض چند گھنٹے بڑے مزے سے گزر گئے۔

    صبح ہوتے ہوتے کہیں جاکر آنکھ لگی۔ شاید ہی گھنٹہ بھر سوئے ہوں گے کہ ان کے شاگردوں اور ساتھیوں نے گاڑی پر یورش کر دی۔ پھر اٹھ بیٹھے اور پھر وہی علمی مباحث شروع ہوئے، پھبتیاں اڑیں، اس کو بے وقوف بنایا، اس کی تعریف کی، ہنسی اور قہقہوں کا وہ زور تھا کہ درجہ کی چھت اڑی جاتی تھی۔

    (ایک وصیت کی تعمیل از مرزا فرحت اللہ بیگ)