Tag: مرزا قلیچ بیگ

  • مرزا قلیچ بیگ: ان کی تصنیف ’’زینت‘‘ کو سندھی زبان کا پہلا ناول کہا جاتا ہے

    مرزا قلیچ بیگ: ان کی تصنیف ’’زینت‘‘ کو سندھی زبان کا پہلا ناول کہا جاتا ہے

    سندھی زبان و ادب کو اپنی تحریروں سے مالا مال کرنے والوں میں ایک نام مرزا قلیچ بیگ کا بھی ہے۔ انھوں نے سندھی میں ان کی تصنیف و تالیف کردہ کتب کے علاوہ متعدد غیر ملکی ادیبوں کی تخلیقات کے تراجم اور مختلف موضوعات پر تحریریں یادگار چھوڑی ہیں۔ مرزا قلیچ بیگ ڈرامہ نویس کے طور پر بھی پہچانے جاتے ہیں۔

    1929ء میں‌ مرزا قلیچ بیگ آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ صوبۂ سندھ کی اس معروف علمی شخصیت کی 400 سے زائد کتابیں شایع ہوئی ہیں۔ ان کی اکثر تحریریں ڈرامے سے متعلق اور ڈرامہ پر مشتمل ہیں جب کہ تراجم الگ ہیں۔ شہرۂ آفاق ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر کے مشہور آٹھ ڈراموں کو سندھی زبان میں ترجمہ کرنے والے قلیچ بیگ نے خود بھی 32 ڈرامے تحریر کیے جن کا پلاٹ اس زمانے کے رومانوی، تاریخی اور سماجی موضوعات پر بُنا گیا۔ کہتے ہیں‌ 1880 میں انھوں نے پہلا ڈرامہ’’ لیلی مجنوں‘‘ ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا جب کہ ان کا آخری ڈرامہ’’ موہنی‘‘ تھا جس کا 1924 میں ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ پی ٹی وی پر مرزا قلیچ بیگ کے دو ناول زینت اور گلن واری چوکری (پھولوں والی لڑکی) ڈرامائی تشکیل کے ساتھ پیش کیے گئے۔ مرزا قلیج بیگ کا ڈرامے منشی اور کوڑو نوٹ ان کی تخلیق کہلاتے ہیں جو مزاحیہ انداز میں تحریر کیے گئے تھے۔

    مرزا قلیچ بیگ کے آبا و اجداد کا تعلق جارجیا سے بتایا جاتا ہے، جو کسی زمانے میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ ان کے والد نو مسلم تھے اور ایک غلام کی حیثیت سے اس زمانے میں سندھ لائے گئے تھے۔ یہاں شادی کے بعد ان کے گھر 1853ء میں‌ مرزا قلیچ بیگ پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم خانگی تھی اور بعد میں‌ مرزا قلیچ بیگ نے مکتب اور پھر ایک اسکول میں داخلہ لیا۔ قلیچ بیگ نے سندھی زبان سمیت فارسی اور عربی بھی سیکھی۔ ان کے بزرگوں کی زبان فارسی اور عربی رہی تھی۔ انھوں نے اپنے روزنامچوں میں اپنے بزرگوں اور اپنی زندگی کے ابتدائی ادوار کا تذکرہ کیا ہے۔ قلیچ بیگ نے 1872ء میں میٹرک کا امتحان پاس کر کے الفنسٹن کالج بمبئی میں داخلہ لے لیا۔ تعلیم مکمل کرکے وہ سندھ اپنے گھر واپس آگئے۔ اس عرصہ میں‌ وہ ترکی، انگریزی اور روسی سمیت دنیا کی متعدد زبانیں‌ سیکھ چکے تھے۔

    مرزا قلیچ بیگ نے بالخصوص تراجم پر توجہ دی اور قارئین کو تاریخ، لطیفیات، شاعری، تنقید اور سائنس کے علاوہ کئی موضوعات پر عمدہ کتابیں پڑھنے کو دیں۔ ’’زینت‘‘ کے عنوان سے ان کے ناول کو پہلا سندھی ناول کہا جاتا ہے۔

    مرزا قلیچ بیگ ایک بیدار مغز انسان اور باشعور فرد تھے جس نے تعلیم کی اہمیت کے ساتھ ادبی کاموں اور سندھی زبان کی خدمت کو ضروری سمجھا۔ انھوں نے اپنے علمی اور ادبی کاموں‌ کے ساتھ سرکاری نوکری بھی کی اور مختلف عہدوں‌ پر فائز ہوئے۔ 1879 میں مرزا قلیچ بیگ ریونیو محکمے میں ہونے والے امتحان میں شریک ہوئے تھے اور اس کی بنیاد پر ہیڈ منشی بھرتی ہوگئے تھے۔ 1891 میں ایک اور امتحان پاس کر کے سٹی مجسٹریٹ کے عہدے پر تقرری حاصل کی اور بعد میں انھوں نے سندھ کے کئی اضلاع میں ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے کام کیا۔

  • شمسُ العلماء مرزا قلیچ بیگ

    شمسُ العلماء مرزا قلیچ بیگ

    شمسُ العلماء مرزا قلیچ بیگ کو سندھی زبان و ادب کا محسن اور خدمت گار بھی کہا جاتا ہے انھوں نے تصنیف و تالیف اور تراجم کے ساتھ ڈرامہ نویس کے طور پر نام بنایا۔ مرزا قلیچ بیگ نے شیکسپیر سمیت متعدد غیر ملکی ادیبوں‌ کی تخلیقات کو سندھی زبان میں ڈھالا۔ 1929ء میں‌ آج ہی کے دن مرزا قلیچ بیگ وفات پاگئے تھے۔

    صوبۂ سندھ کی اس معروف علمی شخصیت کی مختلف موضوعات پر کتابوں کی تعداد 400 سے زائد ہے۔ ان کی اکثر تحریریں ڈرامے سے متعلق اور ڈرامہ پر مشتمل ہیں جب کہ تراجم الگ ہیں۔ شہرۂ آفاق ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر کے مشہور آٹھ ڈراموں کو سندھی زبان میں ترجمہ کرنے والے قلیچ بیگ نے خود بھی 32 ڈرامے تحریر کیے جو اس دور کے عشقیہ، تاریخی اور سماجی موضوعات پر ہیں۔ کہتے ہیں‌ 1880 میں انھوں نے پہلا ڈرامہ’’ لیلی مجنوں‘‘ ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا جب کہ ان کا آخری ڈرامہ’’ موہنی‘‘ تھا جس کا 1924 میں ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ پی ٹی وی پر مرزا قلیچ بیگ کے دو ناول زینت اور گلن واری چوکری (پھولوں والی لڑکی) ڈرامائی تشکیل کے ساتھ پیش کیے گئے۔ مرزا قلیج بیگ کا ڈرامے منشی اور کوڑو نوٹ ان کی تخلیق کہلاتے ہیں جو مزاحیہ انداز میں تحریر کیے گئے تھے۔

    مرزا قلیچ بیگ کے آبا و اجداد کا تعلق جارجیا سے تھا، جو کسی زمانے میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ ان کے والد نو مسلم تھے اور ایک غلام کی حیثیت سے اس زمانے میں سندھ لائے گئے تھے۔ ان کے گھر 1853ء میں‌ مرزا قلیچ بیگ کی پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم خانگی تھی اور بعد میں‌ انھوں نے مکتب اور پھر ایک اسکول میں داخلہ لیا۔ قلیچ بیگ نے سندھی زبان سمیت فارسی اور عربی بھی سیکھی۔ ان کے بزرگوں کی زبان فارسی اور عربی رہی تھی۔ انھوں نے اپنے روزنامچوں میں اپنے بزرگوں اور اپنی زندگی کے ابتدائی ادوار کا تذکرہ کیا ہے۔ قلیچ بیگ نے 1872ء میں میٹرک کا امتحان پاس کر کے الفنسٹن کالج بمبئی میں داخلہ لے لیا۔ تعلیم مکمل کرکے وہ سندھ اپنے گھر واپس آگئے۔ اس عرصہ میں‌ وہ ترکی، انگریزی اور روسی سمیت دنیا کی متعدد زبانیں‌ سیکھ چکے تھے۔

    مرزا قلیچ بیگ نے سندھ میں علمی و ادبی کاموں‌ کے ساتھ سرکاری نوکری کے لیے امتحان دیا اور کام یاب ہونے کے بعد مختلف عہدوں‌ پر ترقی کی۔ وہ 1879 میں ریونیو محکمے میں ہونے والے امتحان میں شریک ہوئے تھے اور اس کی بنیاد پر ہیڈ منشی بھرتی ہوگئے تھے۔ 1891 میں ایک اور امتحان پاس کر کے سٹی مجسٹریٹ کے عہدے پر تقرری حاصل کی اور بعد میں انھوں نے سندھ کے کئی اضلاع میں ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے کام کیا۔

    مرزا قلیچ بیگ نے ادبی مشاغل میں تصنیف و تالیف کے ساتھ بالخصوص تراجم کا سلسلہ جاری رکھا اور یہاں قارئین کو تاریخ، لطیفیات، شاعری، تنقید اور سائنس کے علاوہ کئی موضوعات پر عمدہ کتابیں پڑھنے کو دیں۔ ’’ زینت‘ ‘کے عنوان سے ان کے ناول کو پہلا سندھی ناول کہا جاتا ہے۔

  • سندھی زبان و ادب اور مرزا قلیچ بیگ

    سندھی زبان و ادب اور مرزا قلیچ بیگ

    سندھی ادب اور زبان کے ایک محسن اور بڑے خدمت گار مرزا قلیچ بیگ آج بہی کے دن 1929 کو وفات پاگئے تھے۔ مرزا قلیچ بیگ نے مختلف موضوعات پر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ انھوں‌ نے ڈرامہ نویسی کے علاوہ ولیم شیکسپیئر سمیت مختلف غیر ملکی ادیبوں‌ کی کہانیوں‌ کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا اور علم و ادب کی دنیا میں نام و مقام بنایا۔

    مرزا قلیچ بیگ کے تحریر کردہ ڈراموں کی تعداد 32 ہے جن میں‌ رومانوی، تاریخی، سماجی مسائل سمیت دیگر موضوعات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مرزا قلیچ بیگ نے 1880 میں پہلا ڈرامہ’’ لیلیٰ مجنوں‘‘ ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا تھا جب کہ ان کا آخری ڈرامہ’’موہنی‘‘ تھا جو 1924 میں ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا۔

    پی ٹی وی پر مرزا قلیچ بیگ کے دو ناول جن میں زینت اور گلن واری چوکری (پھولوں والی لڑکی) شامل ہیں، کو ڈرامائی تشکیل کے بعد ناظرین کے لیے پیش کیا جا چکا ہے۔ انھوں نے مزاحیہ انداز میں بھی ڈرامے لکھے۔

    مرزا قلچ بیگ کے آبا و اجداد کا تعلق جارجیا سے تھا، جو کسی زمانے میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ ان کے والد نومسلم تھے اور ایک غلام کی حیثیت سے سندھ لائے گئے تھے جہاں 4 اکتوبر 1853ء کو ان کے گھر مرزا قلیچ بیگ کی پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم خانگی تھی اور بعد میں‌ مکتب اور پھر ایک اسکول میں داخلہ لیا۔ انھوں نے سندھی زبان سمیت فارسی اور عربی بھی سیکھی۔ 1872ء میں میٹرک کا امتحان پاس کر کے الفنسٹن کالج بمبئی میں داخلہ لے لیا۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سندھ واپس لوٹے۔ اس عرصہ میں‌ وہ ترکی، انگریزی اور روسی سمیت دنیا کی متعدد زبانیں‌ سیکھ چکے تھے۔

    1879 میں ریونیو محکمے میں ہونے والے امتحان میں شریک ہوئے اور کام یابی کے بعد ہیڈ منشی بھرتی ہوئے۔ 1891 میں ایک امتحان پاس کرکے سٹی مجسٹریٹ کے عہدے پر تقرری حاصل کی اور بعد میں سندھ کے کئی اضلاع میں ڈپٹی کلکٹر کے طور پر کام کیا۔ اس دوران وہ اپنے علمی اور ادبی مشاغل اور تصنیف و ترجمہ کا شوق بھی پورا کرتے رہے۔

    مرزا قلیچ بیگ نے آٹھ مختلف زبانوں میں 457 کتابیں تصنیف و تالیف اور تراجم کیے۔ ان کی کتب تاریخ، لطیفیات، شاعری، بچوں کا ادب، تنقید، سائنس کے علاوہ دیگر موضوعات پر تھیں۔ انھوں نے’’ زینت‘ ‘کے عنوان سے ناول لکھا جو پہلا سندھی ناول کہلاتا ہے۔ انھوں نے سندھی ادب سے متعلق 385 کتابیں لکھیں اور خطاب و القاب سے نوازے گئے۔