Tag: مرزا ہادی رسوا

  • آٹھ سالہ بچّی کی درد بھری کہانی جو فلمی پردے پر ‘سپر ہٹ’ ثابت ہوئی

    آٹھ سالہ بچّی کی درد بھری کہانی جو فلمی پردے پر ‘سپر ہٹ’ ثابت ہوئی

    پاکستان میں کلاسیک کا درجہ رکھنے والی فلم ‘امراؤ جان ادا’ 1972ء میں‌ آج ہی کے دن شائقینِ سنیما کے لیے بڑے پردے پر پیش کی گئی تھی۔

    یہ مرزا ہادی رسواؔ کے ناول پر مبنی ایسی فلم تھی جو سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس فلم کی جذباتی اور رومانوی کہانی کے ساتھ درد بھرے گیتوں نے سنیما بینوں کو بہت متاثر کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کسی مظلوم خاندان، ایک ستم رسیدہ ماں کی کہانی، یا کم عمری میں حادثاتی طور پر بہن بھائیوں کے بچھڑ جانے اور برسوں بعد ان کا ملاپ سنیما بینوں کو جذباتی کر دیتا تھا۔ یہ بھی ایسی ہی فلم تھی جس میں ایک مجبور اور بے بس لڑکی مقدر کے لکھے کو قبول کرلیتی ہے۔

    مرزا ہادی رسوا نابغۂ روزگار تھے۔ ان کے چند ناولوں میں سب سے زیادہ امراؤ جان ادا مقبول ہوا جس پر اردو ادب میں کئی مضامین سپردِ قلم کیے گئے اور مصنّف کے ادبی مذاق اور ان کے فنِ تخلیق کو موضوع بنایا گیا۔ وہ شاعر بھی تھے۔ رُسوا ان کا تخلّص تھا۔ مرزا صاحب فلسفہ، منطق، ریاضی، طب، مذہبیات، کیمیا، موسیقی اور نجوم میں بھی دل چسپی رکھتے تھے۔

    مرزا ہادی رسوا کا یہ ناول 1905ء میں منظرِ عام پر آیا تھا جس کی فنی عظمت اور مقبولیت نے اسے ان گنت قارئین دیے اور تعلیمی نصاب کا حصّہ بننے کے بعد اسے طالبِ علم بھی پڑھتے رہے۔ اس ادبی تخلیق کی عمر ایک سو پندرہ سال ہے، اور ان برسوں میں اس کے مختلف ابواب کی نصابی ضرورت کے تحت قسم قسم کی تشریحات بھی کی گئی ہیں۔

    یہاں ہم فلم کا تذکرہ کرنے سے پہلے اپنے قارئین، بالخصوص نئی نسل کی دل چسپی کے لیے اس ناول کی کہانی بیان کرتے ہیں:

    یہ امیرن نام کی ایک آٹھ سالہ بچّی کی کہانی ہے جسے اس کے آبائی علاقے (گاؤں) سے اغوا کرکے فروخت کرنے کے لیے لکھنؤ پہنچا دیا جاتا ہے۔ یوں وہ خانم نامی عورت کے ڈیرے پر پہنچ جاتی ہے اور اسی کے زیرِ سایہ تربیت پاتی ہے، وہ شعر و ادب سے شغف رکھنے والی باذوق لڑکی کے طور پر عمر کے مدارج طے کرتی ہے اور اسے رقص بھی سکھایا جاتا ہے۔ لڑکی اپنے کوٹھے پر آنے والوں کے ذوقِ موسیقی اور رقص دیکھنے کے شوق کی تسکین کے لیے ہمیشہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائے تیّار رہتی ہے۔ وہ باذوق افراد کو موسیقی اور رقص سے بہلانے کے ساتھ شعر بھی سناتی ہے۔

    اسی کوٹھے پر ایک نوجوان نواب سلطان کا آنا جانا بھی ہوتا ہے جس کے آگے امراؤ دِل ہار بیٹھی ہے اور ایک جذباتی موڑ اس وقت کہانی میں آتا ہے جب نواب صاحب زندگی بھر ساتھ نبھانے کے سوال پر اسے گھر والوں کی رضامندی سے مشروط کردیتے ہیں اور پھر معلوم ہوتا ہے کہ وہ ‘خاندانی بہو’ لانے والے ہیں۔

    اب کہانی وہ ڈرامائی موڑ لیتی ہے جو ہندوستان پر برطانوی راج قائم کرنے کے لیے کی جانے والی سازشوں، مفاد پرستی اور لڑائی کے ساتھ آزادی کے لیے شروع کی جانے والی تحریکوں اور جان و مال کی قربانیوں تک تاریخ کا حصّہ ہے۔ جس وقت لکھنؤ پر انگریز فوج کا حملہ ہوتا ہے تو کہانی کے مطابق خانم کے ڈیرے سے بھی سب راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ امراؤ اپنے ساتھیوں سمیت لکھنؤ سے باہر نکل پڑتی ہے اور یہ لوگ ایک قصبے میں قیام کرتے ہیں۔ وہاں امراؤ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہی اس کا آبائی علاقہ ہے جہاں سے وہ اغوا ہوئی تھی۔ وہ فیض آباد واپس پہنچ گئی تھی

    ناول کی کہانی آگے بڑھتی ہے تو ایک موقع پر اس کی اہلِ خانہ سے ملاقات کا انتہائی جذباتی منظر پیش کیا گیا ہے، لیکن یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ خاندان ایک طوائف کو قبول کرلے۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اسے اپنے ساتھ رکھنے سے معذوری ظاہر کردیتے ہیں۔ امراؤ آنسوؤں خود کو ایک طوائف کے طور پر دوبارہ خانم کے ڈیرے پر کھینچ کر لے آتی ہے اور رقص و موسیقی میں ڈوب جاتی ہے۔ یوں ایک مظلوم اور مجبور عورت پہلے طوائف کے روپ میں اپنی محبّت کو پانے میں ناکام ہوتی ہے اور بعد میں ایک بیٹی اور بہن کے طور پر اپنے ہی اسے قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں تو وہ گہرے دکھ اور کرب سے گزرتی ہے۔

    برصغیر میں اس ناول پر متعدد فلمیں بنائی گئیں اور اس میں فلم کی ضرورت کے مطابق کئی تبدیلیاں بھی کی گئیں۔ اب بات کرتے ہیں فلم کی جسے پاکستان میں حسن طارق نے کمرشل ضروریات کے تحت تبدیلیوں کے ساتھ پردے پر پیش کیا تھا۔

    اس فلم نے ریکارڈ بزنس کیا جس میں اسکرپٹ رائٹر اور مشہور شاعر سیف الدّین سیف بڑا ہاتھ تھا۔ اسی طرح موسیقار نثار بزمی کا بھی فلم کی کام یابی میں‌ بڑا کردار رہا۔ اداکاروں میں رانی اور شاہد نے مرکزی کردار نبھائے جب کہ خانم کا مشہور کردار نیّر سلطانہ نے ادا کیا تھا۔

    اس فلم کا مشہور ترین نغمہ ” آخری گیت سنانے کے لیے آئے ہیں” رانی پر فلمایا گیا تھا جس نے فلم بینوں کو بہت متاثر کیا۔ پاکستان میں فلم کی کام یابی کو دیکھ کر بھارتی ہدایت کار مظفر علی اور جے پی دتہ نے بھی اس ناول پر فلمیں بنائی تھیں۔

    پاکستان میں بننے والی امراؤ جان ادا کے گیتوں میں ‘جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں’ اور ‘کاٹے نہ کٹے رے رتیاں’ نے بھی مقبولیت حاصل کی اور آج بھی سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔

  • مرزا رسوا کے قصے کچھ اِدھر سے کچھ اُدھرسے

    مرزا رسوا کے قصے کچھ اِدھر سے کچھ اُدھرسے

    مرنے کے دن قریب ہیں شاید کہ اے حیات
    تجھ سے طبیعت اپنی بہت سیر ہو گئی

    جس نے موت کو دعوت ان الفاظ میں 31، 32 سال قبل دی تھی، اس کی شمعِ حیات واقعتاً اکتوبر 1931ء میں گُل ہوکر رہی۔ موت کو جب آنا ہوتا ہے جب ہی آکر رہتی ہے۔

    شاعر کی طبیعت ممکن ہے حیات سے اسی وقت سیر ہو چکی ہو، لیکن خود حیات اس وقت شاعر سے سیر نہیں ہوئی تھی۔ موت تو جبھی آئی جب اسے آنا تھا اور جب آئی تو بہتوں نے یہ بھی نہ جانا کہ کس نام کے رسواؔ اور شعروادب کے رسیا کو اپنے ہم راہ لیتی گئی۔ سدا رہے نام اللہ کا۔

    بقا نہ کسی شاعر کو نہ شاعری کو، نہ ادب کو، نہ ادیب کو، کیسے کیسے افسانہ گو اور افسانہ نویس آئے اور کیسی کیسی مزے دار کہانیاں سنانے بیٹھے مگر، دیکھتے ہی دیکھتے خود انہیں کی زندگی افسانہ بن گئی۔ باقی رہنے والا بس جو ہے، وہی ہے۔

    ذاتِ معبود جاودانی ہے
    باقی جو کچھ کہ ہے وہ فانی ہے

    جو رونقِ محفل ہوتے ہیں وہ ایک ایک کرکے اٹھتے جاتے ہیں لیکن محفلِ کی رونق جوں کی توں! لسانُ العصر اکبر کے الفاظ میں،

    دنیا یونہی ناشاد یوں ہی شاد رہے گی
    برباد کیے جائے گی، آباد رہے گی

    ناول نویسی کی عمر اردو میں مرزا سوداؔ کی عمر سے بڑی ہے۔ سرشارؔ اور شررؔ اور دوسرے حضرات اپنے اپنے رنگ میں اس چمنِ کاغذی کی آب یاری شروع کر چکے تھے۔ کہنا چاہیے کہ انیسویں صدی عیسوی کے ساتویں اور آٹھویں دہے میں انگریزی ناول بھی اردو میں خاصی تعداد میں منتقل ہو چکے تھے جب کہیں جاکر مرزا محمد ہادیؔ، مرزاؔ لکھنوی بی اے نے انیسوی صدی کے نویں دہے میں اس کوچہ میں قدم رکھا۔

    آدمی پڑھے لکھے صاحبِ علم شریف خاندان سے تھے۔ شمار شہر کے متین و ثقہ طبقہ اور اہلِ علم میں تھا۔ ناول نویسی کا مشغلہ اس وقت تک کچھ ایسا معزز نہ تھا، غرض کچھ وضعِ قدیم کا پاس، کچھ اپنے علمی وقار کا لحاظ، داستان سرائی کرنے بیٹھے تو چہرہ پر ’’مرزا رسوا‘‘ کا نقاب ڈال لیا، حالاں کہ یہ نقاب تھا اتنا باریک کہ جو چاہے وہ ایک ایک خط و خال، ایک ایک بال باہر سے گن لے۔

    اردو میں ناول بہتوں نے لکھے، اچھے اچھوں نے لکھے، پَر ان کا رنگ سب سے الگ، ان کا انداز سب سے جدا، نہ ان کے پلاٹ میں ’’سنسنی خیزیاں‘‘ نہ ان کی زبان میں ’’غرابت زائیاں‘‘ نہ ان کے اوراق میں ’’برق پیمائیاں‘‘ اور نہ ’’کوہ تراشیاں‘‘ نہ ان کے الفاظ ’’ترنم ریز‘‘ نہ ان کی ترکیبیں ’’ارتعاش انگیز‘‘ نہ ان کی تصویرِ رزم میں ’’برق پاشیاں‘‘ نہ ان کی داستانِ بزم میں ’’ابتسام آرائیاں۔‘‘

    پلاٹ وہی روز مرّہ صبح و شام کے پیش آنے والے واقعات جو آپ ہم سب دیکھتے ہیں۔ زبان وہی گھر اور باہر کی ستھری اور نکھری بول چال جو ہم آپ سب بولتے ہیں۔ قصہ کے مقامات نہ لندن، نہ ماسکو، نہ برلن، نہ ٹوکیو۔ بس یہی لکھنؤ و فیض آباد، دہلیؔ و الٰہ آباد۔ افسانے کے اشخاص نہ لندھورؔ، نہ سند باد، نہ تاجُ الملوک نہ ملکہ زر نگارؔ، بس یہی حکیم صاحب اور شاہ صاحب، راجہ صاحب اور نواب صاحب، میر صاحب اور مرزا صاحب، عسکری بیگم اور عمدہ خانم، امراؤ جان اور بوا نیک قدم۔

    کہتے ہیں کہ صاحب کمال لاولد رہ جاتا ہے، اس کی نسل آگے نہیں چلتی۔ اپنے طرز کا موجد بھی یہی ہوتا ہے اور خاتم بھی وہی۔ مرزا سوداؔ کا بھی کوئی خلفِ معنوی آج تک پیدا نہ ہوا۔

    پیش رو اکثر اور معاصرین بیشتر تکلفات میں الجھ کر رہ گئے۔ رسواؔ تصنع سے پاک اور آورد سے بے نیاز۔ ابھی ہنسا رہے تھے، ابھی رلانے لگے۔ مزاح و گداز، سوز و ساز، شوخی و متانت سبھی اپنے اپنے موقع سے موجود، لیکن آمد و بے ساختگی ہر حال میں رفیق۔ شستگی و روانی ہر گوشۂ بساط میں قلم کی شریک۔ جو منظر جہاں کہیں دکھایا ہے، یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرصع ساز نے انگوٹھی پر نَگ جڑ دیا ہے، ہر نقل پر اصل کا گمان، ہر عرض میں جوہر کا نشان، تصویر پر صورت کا دھوکا، الفاظ کے پردہ میں حقیقت کا جلوہ۔

    (یہ پارے جیّد عالمِ دین، بے مثل ادیب اور صحافی عبدالماجد دریا بادی کی تحریر سے لیے گئے ہیں جس میں انھوں نے اپنے وقت کے مشہور مصنّف اور ناول نگار مرزا ہادی رسوا کے فن و شخصیت کو سراہا اور تعریف کی ہے)

  • سپرہٹ اور شاہ کار پاکستانی فلم امراؤ جان ادا کی نمائش

    سپرہٹ اور شاہ کار پاکستانی فلم امراؤ جان ادا کی نمائش

    پاکستان کی کلاسک فلم ‘امراؤ جان ادا’ 1972ء میں‌ آج ہی کے دن نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ یہ اردو کے نام ور ناول نگار مرزا ہادی رسوا کے ناول کی کہانی پر مبنی تھی۔ فلم کے ہدایت کار حسن طارق تھے۔ اس فلم کی ایک خوبی ہدایت کار کا ناول کی اصل کہانی کو خاصی حد تک برقرار رکھنا تھا۔

    اس فلم کی کام یابی کو دیکھ کر بعد میں اسی ناول پر بھارت میں ہدایت کار مظفر علی اور ہدایت کار جے پی دتہ نے بھی فلمیں بنائی تھیں۔ پاکستانی فلم کے مصنف اور نغمہ نگار سیف الدین سیف تھے جب کہ اس کی موسیقی نثار بزمی کی تھی۔

    فلم کی کاسٹ میں اداکارہ رانی، شاہد، طالش، رنگیلا، طلعت صدیقی، ناہید صدیقی، نیّر سلطانہ شامل تھیں۔ امراؤ جان ادا کے گیت اس زمانے میں‌ بہت مقبول ہوئے جن میں ‘جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں’ اور ‘کاٹے نہ کٹے رے رتیاں’ شامل ہیں۔

    اسے پاکستانی فلمی صنعت کی سپرہٹ اور شاہ کار فلم شمار کیا جاتا ہے۔