Tag: مرض

  • بولنے میں ہکلاہٹ یا لکنت کیوں ہوتی ہے؟

    بولنے میں ہکلاہٹ یا لکنت کیوں ہوتی ہے؟

    کیا آپ کے آس پاس کوئی ایسا شخص موجود ہے جسے آپ نے بولتے ہوئے لکنت کا شکار دیکھا ہو؟ اور کیا آپ کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جو ان کی اس کمزوری کا مذاق اڑاتے ہیں؟

    زبان میں لکنت یا ہکلاہٹ ایسا مرض ہے جس کی عموماً کوئی وجہ نہیں ہوتی، ہمارے آس پاس موجود افراد میں سے ایک نہ ایک شخص ضرور ہکلاتا ہوگا۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر کی 1 فیصد آبادی اس وقت ہکلاہٹ یا زبان میں لکنت کا شکار ہے۔ زبان میں لکنت کا شکار افراد گفتگو کے دوران کسی ایک حرف کی آواز کو بار بار دہراتے ہیں، کسی لفظ میں موجود کسی ایک حرف (عموماً شروع کے حرف) کو ادا نہیں کر پاتے اور بڑی مشکل سے اپنا جملہ مکمل کرتے ہیں۔

    ایسا وہ جان بوجھ کر نہیں کرتے بلکہ یہ عمل ان سے غیر اختیاری طور پر سرزد ہوتا ہے۔

    زبان کی اسی لکنت کا شکار افراد کی پریشانی کا احساس دلانے کے لیے آج اس بیماری سے آگاہی کا عالمی دن منایا جارہا ہے جس کا مقصد اس مرض کے بارے میں شعور پیدا کرنا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 1998 میں کیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق اس مرض کی 3 اقسام ہیں، ڈویلپمنٹل، نیوروجینک اور سائیکو جینک۔ پہلی قسم ہکلاہٹ کی سب سے عام قسم ہے جو زیادہ تر بچوں میں اس وقت ہوتی ہے جب وہ بولنا سیکھتے ہیں۔

    نیوروجینک کا تعلق بولنے میں مدد دینے والے خلیات کی خرابی سے جبکہ سائیکو جینک مختلف دماغی یا نفسیاتی امراض اور پیچیدگیوں کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔

    لکنت کی وجوہات

    ماہرین اس مرض کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں۔ ان مطابق یہ مرض پیدائشی بھی ہوسکتا ہے، اور نفسیاتی مسائل کے باعث مخصوص حالات میں بھی سامنے آسکتا ہے۔ بعض افراد کسی پریشان کن صورتحال میں بھی ہکلانے لگتے ہیں جو جزوی ہوتی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق ہکلاہٹ کا تعلق بول چال سے منسلک خلیوں کی کمزوری سے ہوسکتا ہے۔

    ہکلاہٹ کی ایک اور وجہ بچوں کی نشونما میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔ یہ مسئلہ لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں چار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ نوجوانوں یا بڑی عمر کے افراد میں عموماً اس مسئلے کی وجہ فالج کا دورہ یا دماغ کی چوٹ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق 2 سے 5 سال کی عمر کے دوران جب بچے بولنا سیکھتے ہیں تو وہ ہکلاتے ہیں۔ 98 فیصد بچے نارمل طریقے سے بولنے لگتے ہیں لیکن 2 فیصد بچوں کی ہکلاہٹ مستقل ہوجاتی ہے اور باقاعدہ مرض کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

    ایک اور تحقیق سے پتہ چلا کہ زبان کی لکنت کی وجہ جسم میں موجود 3 مختلف جینز میں پایا جانے والا نقص ہے۔

    علاج

    لکنت کا شکار اکثر افراد خود اعتمادی کی کمی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں جو ان کے لیے زندگی میں کئی مسائل کا باعث بنتا ہے۔

    لکنت کا سب سے پہلا علاج تو آپ کو خود کرنے کی ضرورت ہے کہ جب بھی آپ اپنے آس پاس کسی شخص کو ہکلاہٹ کا شکار دیکھیں تو اس کا مذاق نہ اڑائیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تربیت دیں۔

    ہکلاہٹ پر قابو پانے کے لیے مختلف نوعیت کی اسپیچ تھیراپیز کی جاتی ہیں جن میں سانسوں کی آمد و رفت اور گفتگو کو مختلف انداز میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ تھیراپی کسی مستند معالج کے مشورے اور نگرانی میں کی جاسکتی ہے۔

  • آرمی چیف نے کینسر کے مرض میں مبتلا بچے کی خواہش پوری کر دی

    آرمی چیف نے کینسر کے مرض میں مبتلا بچے کی خواہش پوری کر دی

    راولپنڈی: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کینسر کے مرض میں مبتلا بچے کی خواہش پوری کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کینسرمیں مبتلا 15 سال کے علی رضا سے ویڈیو لنک کے ذریعے ملاقات کی۔آرمی چیف نے علی رضا کی خیریت دریافت کی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

    ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ویڈیو لنک کا انتظام کور ہیڈکوارٹر کراچی سے کیاگیا۔علی رضا کو آرمی چیف کی جانب سے الضرار ٹینک کا ماڈل پیش کیاگیا۔

    علی رضا کا کہنا تھا کہ وہ پاک فوج کی وردی پہن کر بہت خوش ہے اور فوج میں شامل ہو کر پاکستان کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔علی رضا نے چیف آف آرمی اسٹاف کا شکریہ بھی ادا کیا۔

    ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق 15 سالہ علی رضا گزشتہ ایک سال سے کینسر جیسے موذی مرض کا مقابلہ کر رہا ہے اور اس نے آرمی چیف سے ملاقات اور فوج میں شمولیت کی خواہش ظاہر کی تھی۔

    علی رضا اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے، اس کے والد کراچی کی ایک مقامی فیکٹری میں مزدور ہیں۔

  • سگریٹ نوش کینسر سے بچ سکتے ہیں

    سگریٹ نوش کینسر سے بچ سکتے ہیں

    کیلیفورنیا: تمباکو نوشی کی علت میں مبتلا افراد کے لیے ایک خوشی کی خبرسامنے آگئی، اب سگریٹ نوش کینسر جیسے مہلک مرض سے بچ سکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سگریٹ نوشی کرنے والے افراد اگر باقاعدگی سے ورزش کریں تو کینسرے جیسے ناسور سے بچا جاسکتا ہے۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی ریاست کیلیفورنیا میں واقع ’اسٹینڈ فورڈ‘ نامی یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ تمباکو نوشی کرنے والے کی فٹنس ہوگی تو اُسے کینسر کا مرض لاحق ہونے کے خطرات کم ہیں۔

    تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے 2979 ایسے افراد کا استعمال کیا گیا جو سگریٹ پیتے ہیں جبکہ 1602 افراد ایسے تھے جنہوں نے تمباکو نوشی ترک کر رکھی ہے۔

    سگریٹ نوشی جسم کو کیسے تباہ کرتی ہے؟ جانیں روبوٹ اسموکر سے

    تمام افراد کو طب کے تحقیقی مراحل سے گزارنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ باقاعدگی سے روزانہ کی بنیاد پر ورزش کی جائے تو پھیپڑوں کے کینسر سے بچا جاسکتا ہے، تمباکو نوشی کرنے والے پھیپڑوں کے کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق وہ افراد جنہوں نے تمباکو نوشی ترک کردی ہے ان کے پھیپڑوں کے کینسر میں مبتلا ہونا کا خطرہ 13 فیصد کم ہے، جبکہ فٹنس کے بعد 51 سے 77 فیصد خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

    اسی طرح وہ افراد جو سگریٹ نوشی کررہے ہیں ان کے کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ 18 فیصد ہے جبکہ فٹنس کے بعد 84 سے 85 فیصد خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔

    خیال رہے کہ ایسوسی ایشن آف آپٹومیٹرسٹس کے ایک سروے کے مطابق ہر پانچ تمباکو نوش افراد میں سے صرف فرد اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ تمباکو نوشی اندھے پن کا بھی باعث بن سکتی ہے۔

  • لوگ ہکلاتے کیوں ہیں؟

    لوگ ہکلاتے کیوں ہیں؟

    زبان میں لکنت یا ہکلاہٹ ایک ایسا مرض ہے جس سے ہم عام طور پر واقف ہیں۔ ہمارے آس پاس موجود افراد میں سے ایک نہ ایک شخص ضرور ہکلاتا ہوگا۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 7 کروڑ افراد ایسے ہیں جو ہکلاہٹ کا شکار ہیں یا جن کی زبان میں لکنت ہے۔

    وہ گفتگو کے دوران کسی ایک حرف کی آواز کو بار بار دہراتے ہیں، کسی لفظ میں موجود کسی ایک حرف (عموماً شروع کے حرف) کو ادا نہیں کر پاتے اور بڑی مشکل سے اپنا جملہ مکمل کرتے ہیں۔

    ایسا وہ جان بوجھ کر نہیں کرتے بلکہ یہ عمل ان سے غیر اختیاری طور پر سرزد ہوتا ہے۔

    زبان کی اسی لکنت کا شکار افراد کی پریشانی کا احساس دلانے کے لیے آج آگاہی برائے ہکلاہٹ کا عالمی دن منایا جارہا ہے جس کا مقصد اس مرض کے بارے میں شعور پیدا کرنا ہے۔

    ہکلاہٹ کی وجوہات کیا ہیں؟

    ماہرین اس مرض کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں۔ ان مطابق یہ مرض پیدائشی بھی ہوسکتا ہے، اور نفسیاتی مسائل کے باعث مخصوص حالات میں بھی سامنے آسکتا ہے۔ بعض افراد کسی پریشان کن صورتحال میں بھی ہکلانے لگتے ہیں جو جزوی ہوتی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق ہکلاہٹ کا تعلق بول چال سے منسلک خلیوں کی کمزوری سے ہوسکتا ہے۔

    ہکلاہٹ کی ایک اور وجہ بچوں کی نشونما میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔ یہ مسئلہ لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں چار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ نوجوانوں یا بڑی عمر کے افراد میں عموماً اس مسئلہ کی وجہ فالج کا دورہ یا دماغ کی چوٹ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق 2 سے 5 سال کی عمر کے دوران جب بچے بولنا سیکھتے ہیں تو وہ ہکلاتے ہیں۔ 98 فیصد بچے نارمل طریقے سے بولنے لگتے ہیں لیکن 2 فیصد بچوں کی ہکلاہٹ مستقل ہوجاتی ہے اور باقاعدہ مرض کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

    ایک اور تحقیق سے پتہ چلا کہ زبان کی لکنت کی وجہ جسم میں موجود 3 مختلف جینز میں پایا جانے والا نقص ہے۔

    علاج کیا ہے؟

    لکنت کا شکار اکثر افراد خود اعتمادی کی کمی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں جو ان کے لیے زندگی میں کئی مسائل کا باعث بنتا ہے۔

    لکنت کا سب سے پہلا علاج تو آپ کو خود کرنے کی ضرورت ہے کہ جب بھی آپ اپنے آس پاس کسی شخص کو ہکلاہٹ کا شکار دیکھیں تو اس کا مذاق نہ اڑائیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تربیت دیں۔

    ہکلاہٹ پر قابو پانے کے لیے مختلف اسپیچ تھراپی کی جاتی ہیں جن میں سانسوں کی آمد و رفت اور گفتگو کو مختلف انداز میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ تھراپی کسی مستند معالج کے مشورے اور نگرانی میں کی جاسکتی ہے۔

    سنہ 2010 میں اس موضوع پر ہالی ووڈ میں ایک فلم ’دا کنگز اسپیچ‘ بنائی گئی۔ فلم میں انگلینڈ کے شہزادہ البرٹ کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے جو ہکلاہٹ کا شکار تھا۔

    اس کے باپ کی موت کے بعد تخت کو ایک بادشاہ کی ضرورت تھی لیکن البرٹ اپنی ہکلاہٹ کے مرض کے باعث ہچکچاہٹ کا شکار تھا۔ وہ عوامی اجتماعات میں خطاب کے دوران اپنی ہکلاہٹ کے باعث بے حد شرمندگی کا شکار تھا۔

    فلم میں اس کی اہلیہ ایک معالج کو اس کا مرض دور کرنے پر مامور کرتی ہے جو مختلف نفسیاتی اور طبی طریقوں سے بالآخر اس کا علاج کردیتا ہے۔

  • جوڑوں کے اذیت ناک درد سے بچیں

    جوڑوں کے اذیت ناک درد سے بچیں

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج گٹھیا یا جوڑوں کے درد کی بیماری سے بچاؤ اور آگاہی کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ آرتھرائٹس نامی اس بیماری کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں کسی حادثے کے نتیجے میں چوٹ لگنا، میٹا بولک نظام کی خرابی، بیکٹریل اور وائرل انفیکشن کے بالواسطہ یا بلا واسطہ اثرات اور کیلشیئم کی کمی شامل ہیں۔

    آرتھرائٹس یا جوڑوں کا درد ایک عام مرض ہے جس کی کئی اقسام ہیں۔ گٹھیا میں بدن کے مختلف جوڑوں پر سوزش ہو جاتی ہے اور اس کا درد شدید ہوسکتا ہے۔ یہ مرض طویل عرصے تک مریض کو شدید تکلیف میں مبتلا رکھتا ہے۔

    cure

    طبی ماہرین کے مطابق گٹھیا کا مرض مرد و خواتین اور بچوں کو کسی بھی عمر میں اپنا شکار بنا سکتا ہے۔

    مرض کی علامات

    گٹھیا کے درد کی عام علامات میں شدید درد، سوجن، جوڑوں میں حرکت کی طاقت کم ہوجانا اور ان کے حرکت کرنے میں فرق آجانا شامل ہیں۔

    ان علامات کے ساتھ بعض مریض کو بخار، وزن میں تیزی سے کمی اور تھکاوٹ کا سامنا بھی ہوتا ہے۔

    علاج

    اگر ابتدائی مراحل میں اس مرض کی تشخیص کر لی جائے تو نہ صرف آسانی سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ دیگر اعضا کو بھی مزید نقصان سے بچایا جاسکتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق اس سے نجات کے لیے سب سے آسان ترکیب جوڑوں کو متحرک رکھنا ہے۔ آسان ورزشیں (معالج کے مشورے کے مطابق) اس بیماری میں مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔

    آرتھرائٹس کا شکار جوڑوں کو آرام دینے کے لیے ماہرین یوگا بھی تجویز کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں یوگا کے ایسے پوز جن میں کمر اور گردن کو آسانی سے حرکت دی جاسکے مفید ہیں۔

    جوڑوں کے درد میں سبز چائے کا استعمال بھی مفید ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق روزانہ 4 کپ سبز چائے کے استعمال سے جسم میں ایسے کیمیائی عناصر کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو جوڑوں کے درد میں مبتلا ہونے کا امکان کم کردیتے ہیں۔

    سبز چائے میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس سوجن میں کمی لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس سے پٹھوں میں آنے والی توڑ پھوڑ اور درد میں نمایاں کمی آتی ہے۔

    green-tea

    ماہرین کے مطابق ہلدی کا استعمال بھی جوڑوں کے مریضوں کی تکلیف اور سوجن میں کمی لاتا ہے۔ ہلدی کا آدھا چائے کا چمچ کھانے پر چھڑک کر روزانہ استعمال کریں۔

    کیلشیئم سے بنی چیزوں کا استعمال بڑھا دیں۔ کم مقدار میں کیلشیئم کا استعمال ہڈیوں کا بھربھرا پن یا کمزوری کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ دودھ یا اس سے بنی مصنوعات، گوبھی اور سبز پتوں والی سبزیاں کیلشیئم کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔

    ہڈیوں اور جوڑوں کی تکالیف کی ایک بڑی وجہ جسم میں وٹامن ڈی کی کمی بھی ہے۔ اس کے حصول کا سب سے آسان طریقہ روزانہ 10 سے 15 منٹ دھوپ میں بیٹھنا ہے۔

    مزید پڑھیں: وٹامن ڈی کی کمی کے باعث ہونے والی بیماریاں

    کیا نہ کریں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہڈیوں یا جوڑوں کی تکلیف کے لیے مختلف کریموں سے مالش سے گریز کیا جائے۔ یہ مرض کو کم کرنے کے بجائے بعض اوقات بڑھا دیتی ہیں۔

    arthritis-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف معالج کی جانب سے تجویز کی جانے والی کم پوٹینسی والی کریموں کی مہینے میں ایک بار مالش ہی مناسب ہے، اور اس کے لیے بھی زیادہ تکلیف کا شکار اعضا پر زور آزمائی نہ کی جائے۔


    انتباہ: یہ مضمون قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے شائع کیا گیا ہے۔ مضمون میں دی گئی کسی بھی تجویز پر عمل کرنے سے قبل اپنے معالج سے مشورہ اور ہدایت ضرور حاصل کریں۔

  • معذور بکری کے بچے کے لیے وہیل چیئر

    معذور بکری کے بچے کے لیے وہیل چیئر

    میلبرن: آسٹریلیا میں ایک معذور بکری کے بچے کے لیے وہیل چیئر بنا لی گئی جس کے بعد اب وہ کچھ دقت سے ہی، مگر چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا ہے۔

    آسٹریلیا کے ایک جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے نجی ادارے کی جانب سے بنائی جانے والی یہ وہیل چیئر اس معصوم بچے کے لیے نئی زندگی ثابت ہوئی۔

    goat-7

    فروسٹی دی سنو گوٹ نامی یہ بکری کا بچہ جانوروں کی ایک ’جوائنٹ ال‘ نامی بیماری کا شکار تھا۔

    یہ بیماری بچھڑوں اور بکری کے چھوٹے بچوں میں ہوجاتی ہے۔ اس بیماری میں جوڑوں میں ایک انفیکشن پھیل جاتا ہے جس کے باعث جوڑ سوج جاتے ہیں اور حرکت کے قابل نہیں رہتے۔

    goat-6

    فروسٹی کے پچھلے دونوں پاؤں اس بیماری کا شکار تھے جس کے باعث وہ چلنے پھرنے سے قاصر تھا۔

    goat-5

    ادارے کے مطابق جب یہ بچہ انہیں ملا اس وقت یہ کیڑوں سے بھرا ہوا اور پیاسا تھا کیونکہ یہ حرکت نہیں کرسکتا تھا۔ انہوں نے اس کی دیکھ بھال شروع کی لیکن وہ چاہتے تھے کہ وہ خود سے حرکت کر سکے تاکہ وہ اپنے اوپر آنے والی مشکلات کا سامنا کرسکے۔

    goat-4

    اس کے بعد مختلف ماہرین کی مدد سے فروسٹی کے سائز کی خصوصی وہیل چیئر تیار کی گئی۔

    goat-2

    ادارے کی سربراہ کے مطابق جیسے ہی انہوں نے یہ وہیل چیئر فروسٹی کو لگائی وہ فوراً ہی اپنی اگلی ٹانگوں کو حرکت دیتے ہوئے اس کے ساتھ چلنے پھرنے لگا۔

    goat-3

    ان کے مطابق فروسٹی دنیا دیکھنے کا بہت شوقین نکلا اور اب وہ اپنے وزن سے بھاری وہیل چیئر کے ساتھ گو کہ دقت سے حرکت کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود پورے ادارے میں گھوم پھر کر لوگوں اور جانوروں سے مل رہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • !جو سو گیا وہ مر گیا

    !جو سو گیا وہ مر گیا

    رات کی نیند انسانی جسم اور دماغ کو تازہ دم کرنے اور تھکن دور کرنے کے لیے ایک لازمی شے ہے۔ تاہم ایک 17 سالہ نوجوان ایسا بھی ہے، جو اگر سو گیا تو اس کی موت واقع ہوسکتی ہے۔

    برطانیہ کا رہائشی یہ نوجوان لیام ایک نہایت کمیاب بیماری سینٹرل ہائیپو وینٹی لیشن سنڈروم کا شکار ہے۔ اس بیماری کا شکار افراد کے لیے نیند ایک جان لیوا خطرے کی صورت میں سامنے آتی ہے۔

    یہ انوکھا مرض دنیا بھر میں صرف 15 سو افراد کو لاحق ہے۔ اس مرض میں جب مریض سوجاتا ہے تو اس کے پھیپھڑے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یوں سانس رکنے سے وہ ہلاک ہوجاتا ہے۔

    اگر موت واقع نہ بھی ہو تب بھی سانس میں خلل دل، بلڈ پریشر اور دماغ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

    ایسے مریضوں کو نیند کی لازمی سہولت فراہم کرنے کے لیے انہیں لائف سپورٹنگ سسٹم سے منسلک کرنا پڑتا ہے۔

    لیام بھی اسی مرض کا شکار ہے اور یہ واحد مسئلہ نہیں جو اسے لاحق ہے۔ جب وہ پیدا ہوا تو ڈاکٹرز پر انکشاف ہوا کہ اس کے جسم میں بڑی آنت کا ایک حصہ موجود ہی نہیں جس کے بعد لیام سے کھانا ہضم کرنے اور رفع حاجت کے لیے ایک مصنوعی بیگ منسلک کیا گیا ہے۔

    کم کے والد پیٹر کہتے ہیں کہ ایک ایسی اولاد کا ہونا کسی آزمائش سے کم نہیں جسے موت جکڑنے کے لیے ہر وقت اپنا پنجہ بڑھائے ہوئے ہے۔

    وہ کہتے ہیں، ’میں لیام کی پیدائش سے آج تک ایک بھی رات سکون سے نہیں سو پایا۔ میں راتوں کو اٹھ کر اس کی لائف سپورٹنگ مشین چیک کرتا ہوں کہ آیا وہ سانس لے رہا ہے یا نہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ جب ہم رات میں اسے شب بخیر کہتے ہیں، تو شاید وہ اس کی آخری شب ہو‘۔

    ان تمام مشکلات کے باجود لیام اسکول جاتا ہے اور تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ اسے ڈرائنگ کرنا پسند ہے اور وہ بہت سے کھیل بھی کھیلتا ہے۔

    ڈاکٹرز کی توقعات کے برعکس وہ اپنی زندگی کے 17 سال مکمل کرچکا ہے جو یہ سمجھتے تھے کہ وہ 6 ماہ سے زیادہ نہیں جی سکے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ذہین افراد خوش کیوں نہیں رہ سکتے؟

    ذہین افراد خوش کیوں نہیں رہ سکتے؟

    معروف امریکی مصنف ارنسٹ ہیمنگ وے کہتا ہے، ’ذہین افراد کا خوش ہونا، ایک ایسا عمل ہے جو میں نے اپنی زندگی میں بہت کم دیکھا ہے‘۔

    آپ نے ذہین افراد کو عام افراد کے مقابلے میں کچھ مختلف دیکھا ہوگا۔ ان کی عادتیں، چیزوں کو محسوس کرنے کے طریقے، گفتگو وغیرہ سب کچھ عام افراد سے مختلف ہوتے ہیں۔

    ایسے لوگ تنہائی پسند، کم میل جول رکھنے والے، اور بے ترتیب عادات کے مالک بھی ہوتے ہیں۔

    کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ذہین افراد کو خوش ہونے کا موقع بھی بہت کم ملتا ہے؟ اگر یہ ایک نہایت کامیاب زندگی گزار رہے ہوں، ان کی زندگی میں کوئی کمی نہ ہو، اور انہیں دنیا کی ہر نعمت حاصل ہو، تب بھی آپ انہیں خوش نہیں دیکھیں گے۔

    ماہرین نفسیات اس کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں، آئیے آپ بھی وہ وجوہات جانیں۔

    بہت زیادہ سوچنا

    intelligent-3

    ذہین افراد ہر شے کے بارے میں بہت زیادہ سوچتے ہیں۔ وہ مختلف خوشگوار اور تلخ واقعات کا بار بار تجزیہ کرتے ہیں اور ہر بار اس تجزیے کے مختلف نتائج حاصل کرتے ہیں، جس میں کہیں نہ کہیں دکھ یا تلخی کا عنصر چھپا ہوتا ہے۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ اگر آپ زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں اور خوش رہنا چاہتے ہیں تو ناگوار واقعات کو درگزر اور نظر انداز کرنا سیکھیں۔

    بلند ذہنی سطح

    intelligent-4

    ذہین افراد کی ذہنی سطح عام افراد سے کچھ بلند ہوتی ہے۔ وہ عام افراد کے بے مقصد خیالات اور گفت و شنید میں حصہ نہیں لے سکتے۔

    وہ چاہتے ہیں کہ ان سے ان کے ذہنی معیار کے مطابق گفتگو کی جائے، اور جب انہیں اس میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ تنہا اور اداس محسوس کرنے لگتے ہیں۔

    ایسے افراد اپنے جیسے ذہنی معیار کے حامل افراد کے ساتھ نہایت خوش رہتے ہیں۔

    اپنا محاسبہ کرنا

    intelligent-2

    ذہین افراد اپنی ذات کے لیے کڑا معیار رکھتے ہیں اور وہ نہایت سخت اصولوں پر اپنا محاسبہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بطور سزا زندگی کی کئی نعمتوں اور رشتوں سے محروم بھی کر لیتے ہیں جو انہیں اداسی کا شکار بنا دیتی ہے۔

    مختلف انداز فکر

    intelligent-5

    ذہین افراد کی قوت تخیل بلند اور انداز فکر مختلف ہوتا ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی کامیابیوں یا چیزوں پر خوش نہیں ہو پاتے کیونکہ ان کے مدنظر بڑی کامیابی اور بڑا مقصد ہوتا ہے۔

    دماغی امراض کا شکار؟

    bipolar

    ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ حد سے زیادہ ذہین اور حساس افراد اکثر اوقات دماغی امراض اور الجھنوں کا شکار بھی ہوجاتے ہیں جس میں سب سے عام مرض بائی پولر ڈس آرڈر ہے۔

    مزید پڑھیں: بائی پولر ڈس آرڈر ۔ علامات اور علاج

    اس مرض میں موڈ میں بہت تیزی سے اور شدید تبدیلی واقع ہوتی ہے جس کا دورانیہ بعض اوقات کئی ہفتوں یا مہینوں پر محیط ہوسکتا ہے۔

    ایک اور عام مرض اینگزائٹی یا بے چینی ہے جس میں خوف، عدم تحفظ، گھبراہٹ اور بے دلی کی کیفیت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔