Tag: مرگی

  • کھوپڑی میں جدید ترین آلہ نصب ہونے کے بعد مرگی کے شدید دورے رک گئے

    کھوپڑی میں جدید ترین آلہ نصب ہونے کے بعد مرگی کے شدید دورے رک گئے

    لندن: برطانیہ میں طبی ماہرین نے شدید مرگی کے شکار ایک لڑکے کے دماغ میں نیوروسٹیمولیٹر آلہ نصب کر دیا ہے، جس سے اس کے دورے قابو میں آ گئے ہیں، اور وہ دنیا کا پہلا مریض بن گیا ہے جسے یہ آلہ لگایا گیا ہے۔

    بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کھوپڑی میں نصب کیا جانے والا نیوروسٹیمولیٹر لڑکے کے دماغ کی گہرائی میں برقی سگنل بھیجتا ہے، جس نے اورن نولسن کے دن کے وقت ہونے والے دوروں کو 80 فی صد تک کم کر دیا ہے۔

    یہ 8 گھنٹے جاری رہنے والی ایک تجرباتی سرجری تھی جو گزشتہ اکتوبر میں لندن کے گریٹ اورمنڈ اسٹریٹ اسپتال میں کی گئی تھی، اس وقت اوران 12 سال کا تھا، اور اب اس کی عمر 13 سال ہے، سمرسیٹ سے تعلق رکھنے والے اوران کو ’’لینوکس گسٹاٹ سنڈروم‘‘ لاحق ہے، جو مرگی کی وہ قسم ہے جس کا علاج اس لیے ممکن نہیں ہے کیوں کہ یہ علاج کے خلاف مزاحمت کرتی ہے، اور یہ بیماری اسے تین سال کی عمر سے ہے، تب سے اسے روزنہ 2 درجن سے لے کر سیکڑوں تک دورے پڑتے ہیں۔

    یہ سرجری یونیورسٹی کالج لندن، کنگز کالج اسپتال اور یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے ساتھ شراکت میں ایک تجربہ کا حصہ تھی، ماہرین کے مطابق مرگی کے دورے دماغ میں برقی سرگرمی کے غیر معمولی پھٹاؤ کا نتیجہ ہوتے ہیں، اور یہ آلہ کرنٹ کا ایک مستقل ارتعاش خارج کرتا ہے، جس کا مقصد غیر معمولی سگنلز کو روکنا یا ان میں خلل ڈالنا ہے۔

    کنسلٹنٹ پیڈیاٹرک نیورو سرجن مارٹن ٹسڈال کی سربراہی میں ٹیم نے اوران کے دماغ میں 2 الیکٹروڈ گہرائی میں داخل کیے یہاں تک کہ وہ تھیلامس تک پہنچے، جو کہ نیورونل معلومات کے لیے ایک اہم ریلے اسٹیشن ہے۔ اس لیڈ کو درست مقام تک پہنچانے کے لیے غلطی کا مارجن ایک ملی میٹر سے بھی کم تھا۔ مارٹن ٹسڈال نے کہا اس علاج سے اوران کے دوروں اور معیار زندگی میں ڈرامائی طور پر بہتری آئی ہے۔

    برطانیہ کی کمپنی ’امبر تھیرا پیوٹکس‘ کے مطابق یہ آلہ کھوپڑی کے نچلے نصب کیا جاتا ہے، یہ دماغ کی گہرائی میں برقی سگنل بھیجتا ہے، یہ دن کے وقت پڑنے والے دوروں کو کم کر دیتا ہے۔

    اوران کی والدہ جسٹن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’’وہ زیادہ خوش ہے اور بہتر زندگی گزار رہا ہے، ہم نے ایک بڑی بہتری دیکھی ہے، اس کے دورے کم ہوئے ہیں، اوران کی شدت میں بھی کمی آئی ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا ’’وہ بہت زیادہ باتونی ہے، اور ہر وقت مصروف رہتا ہے، وہ تیرہ سال کا ہو گیا ہے اور میں اسے اب یقینی طور پر ایک نوعمر کہہ سکتی ہوں۔‘‘

    والدہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اوران کے دورے اتنے شدید تھے کہ وہ بے ہوش ہو جاتا تھا، اور بعض اوقات سانس لینا بھی بند کر دیتا تھا، ایسے میں ایمرجنسی ادویات دینی پڑتی تھیں۔ اوران کو آٹزم کا مرض بھی لاحق ہے تاہم یہ مرگی ہے بہت بڑی مصیبت بنی ہوئی ہے۔

  • مرگی کے مریضوں کے لیے ملک بھر میں ادویات کی قلت، بلیک میں فروخت ہونے لگیں

    مرگی کے مریضوں کے لیے ملک بھر میں ادویات کی قلت، بلیک میں فروخت ہونے لگیں

    کراچی: مرگی کے مرض میں مبتلا مریضوں کو دواؤں کی فراہمی میں سنگین مشکلات کا سامنا ہے، قومی مرگی مرکز کی سی ای او ڈاکٹر زرین موگل نے حالات کی سنگینی واضح کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق جناح اسپتال کے قومی مرگی مرکز کی سی ای او ڈاکٹر زرین موگل نے کہا ہے کہ مرگی کے مریضوں کے لیے پہلی اور دوسری لائن ڈوز دستیاب نہیں ہے، اور دستیاب ادویات بلیک میں فروخت کی جا رہی ہیں۔

    انھوں نے بتایا کہ جناح اسپتال کے قومی مرگی مرکز سے مریضوں کو ایک ماہ کی دوا مفت دی جاتی ہے، لیکن دواؤں کی عدم فراہمی سے اب ملک بھر میں مریضوں کا علاج شدید متاثر ہو چکا ہے۔

    واضح رہے کہ جناح اسپتال کا قومی مرگی مرکز 2007 سے فعال ہے، اور اس کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 11 ہزار سے زائد ہے، جب کہ اس مرکز میں ملک بھر کے مریض علاج کے لیے آتے ہیں، ڈاکٹر زرین موگل نے کہا کہ دواؤں کی عدم فراہمی ان مریضوں کے لیے صحت کے سنگین مسائل کا سبب بن رہی ہے۔

    حکومت نے 4 بیڈ دیے، پانچواں مریض کہاں رکھیں، بینظیر بھٹو اسپتال کے چلڈرن وارڈ کا المیہ سامنے آ گیا

    انھوں نے کہا ’’جناح اسپتال کا قومی مرگی مرکز واحد ادارہ ہے جہاں مریضوں کا مکمل ریکارڈ ہے، مریضوں کا ریکارڈ ڈیجیٹلائز کیا جائے گا، یہاں علاج مریضوں کی ہسٹری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، مریض کی پہلی بار او پی ڈی 40 سے 60 منٹ پر محیط ہوتی ہے۔‘‘

    ڈاکٹر زرین موگل نے مزید بتایا ’’جناح اسپتال میں مرگی کے مریض ای ای جی ٹیسٹ مفت کیے جاتے ہیں، نجی لیب میں ٹیسٹ کی قیمت 2 ہزار سے 15 ہزار کے درمیان ہے۔‘‘

  • ٹی بی، مرگی، کینسر کی ادویات اصل قیمت سے بہت زیادہ میں فروخت کا انکشاف

    ٹی بی، مرگی، کینسر کی ادویات اصل قیمت سے بہت زیادہ میں فروخت کا انکشاف

    اسلام آباد: ترجمان وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ٹی بی، مرگی، کینسر وغیرہ کی ادویات اصل قیمت سے بہت زیادہ میں فروخت کیے جانے پر لاہور میں منافع خوروں کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

    ترجمان وزارت صحت کے مطابق وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان کی ہدایت پر ملک بھر میں منافع خوروں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے، لاہور میں کارروائی کے دوران منظور شدہ قیمت سے زائد پر ادویہ فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت اقدام اٹھایا گیا۔

    معلوم ہوا کہ ہیپارن انجیکشن، ٹی بی، مرگی، کینسر اور جان بچانے والی ادویات بلیک میں منظور شدہ قیمت سے زائد پر فروخت کی جا رہی تھیں۔

    مرگی کی دوا ٹیگرال 260 روپے کی بجائے 1300 سے 1400 میں فروخت کی جا رہی تھی، ہیپارین انجکشن 975 کی بجائے 1500 سے 3000 میں فروخت ہو رہا تھا، الٹراوسٹ 3418 روپے کی بجائے 6500 روپے کی فروخت ہو رہی تھی۔

    ریووٹرل (Rivotril) 267 روپے کی بجائے 700 سے 800 روپے میں، ریووٹرل 2mg کی 400 کی بجائے 800 سے 1000 روپے میں، زینکس 0.5mg ٹیبلٹ 278 کی بجائے 1400 روپے میں، اور زینکس 1mg ٹیبلٹ 502 روپے کی بجائے 4000 روپے میں فروخت ہو رہی تھی۔

    ڈاکٹر ندیم جان کا کہنا ہے کہ منافع خوری میں ملوث عناصر کے خلاف ڈریپ ایکٹ کے تحت کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے، منافع خوروں کے خلاف ڈریپ ایکٹ کے مطابق بھاری جرمانے اور سزائیں دی جائیں گی۔

  • مرگی کے دوروں کو روکنا ممکن ہے؟

    مرگی کے دوروں کو روکنا ممکن ہے؟

    لاعلاج مرض مرگی اپنے مریضوں کی زندگی بے حد مشکل بنا دیتا ہے، تاہم اب اس کے حوالے سے ماہرین کو امید کی نئی کرن دکھائی دی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے مرگی کے دورے روکنے اور اس کے ممکنہ نقصان سے بچنے کا ایک نیا طبی طریقہ دریافت کیا ہے۔

    ڈبلن میں واقع ٹرینٹی کالج میں جینیات کے پروفیسر ڈاکٹر میتھیو کیمبیل اور ان کے ساتھیوں نے کہا ہے کہ نئی تحقیق سے ایسی ادویات بنانے میں مدد ملے گی جنہیں لاعلاج مرگی اور اس کے دوروں کے افاقے میں استعمال کیا جاسکے گا۔

    اس تحقیق میں مرگی کے پورے عمل کو سالماتی سطح پر سمجھا گیا ہے جو اس سے قبل ممکن نہ تھا۔

    دماغ کی فالتو برقی سرگرمیوں کی وجہ سے مرگی کے دورے پڑتے ہیں اوردماغ سمجھ نہیں پاتا کہ آخر وہ ان سگنلز کی کیا تشریح کرے، اس سے جسم پر دورے پڑتے ہیں اور مریض بے ہوش بھی ہوجاتا ہے۔

    اس میں بطورِ خاص ان باریک رگوں کو دیکھا گیا ہے جو بلڈ برین بیریئر (بی بی بی) کی تشکیل کرتی ہیں۔

    نئی طبی تحقیق بتاتی ہے کہ بی بی بی کا مرگی میں خاص کردار ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بی بی بی نظام میں خون کی باریک ترین رگوں یعنی کیپلریز کو سرگرم رکھ کر ہی مرگی کو روکا جاسکتا ہے۔

    اہم بات یہ ہے کہ اس تحقیق میں ماہرینِ جینیات، نیورولوجسٹ، نفسیاتی معالجین، نیوروسرجن اور دیگر شعبوں کے ماہرین بھی شامل تھے جو دیگر اداروں سے وابستہ ہیں۔

  • پارکنسنز اور مرگی کے سلسلے میں طبی تحقیق کے لیے مقامی سطح پر بڑا قدم

    پارکنسنز اور مرگی کے سلسلے میں طبی تحقیق کے لیے مقامی سطح پر بڑا قدم

    کراچی: پارکنسنز اور مرگی کے سلسلے میں طبی تحقیق کے لیے مقامی سطح پر بڑا قدم اٹھایا گیا ہے، کراچی میں ڈاؤ یونیورسٹی، پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی اور مقامی دواساز ادارے گیٹس فارما کے مابین سہ فریقی معاہدے پر دستخط ہو گئے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں اعصابی بیماریوں پر تحقیق کے سلسلے میں منعقدہ ایک دستخطی تقریب میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں نیورو سائنسز کا شعبہ نظر انداز ہوا ہے، اور اب اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

    پروفیسر سعید قریشی کے مطابق پاکستان میں مرگی کے مریضوں کی شرح کا تخمینہ ایک ہزار افراد میں سے9 اعشاریہ 99 لگایا گیا ہے، اور ایک مطالعے میں معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں پارکنسنز سے متاثر افراد کی تعداد لگ بھگ ایک ملین (دس لاکھ) ہے، خدشہ ہے کہ یہ تعداد اگلے دس برس یعنی 2030 تک بڑھ کر 12 لاکھ سے زائد ہو سکتی ہے۔

    انھوں نے کہا ان دو امراض کی روک تھام کے لیے ریسرچ اہم ہے، دنیا بھر میں تعلیمی و تحقیقی اداروں کی معاونت سے عالمگیر نظامِ صحت میں حیرت انگیز طور پر بہتری لائی جا چکی ہے، پاکستان میں بھی اس جانب توجہ دی جا رہی ہے، جس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

    پاکستان نیورولوجی سوسائٹی کے صدر پروفیسر سلیم بڑیچ نے کہا پاکستان میں نیورولوجی کے شعبے میں مصدقہ اعداد و شمار اور مستند ریسرچ کا بہت بڑا خلا ہے، یہ شعبہ ہماری پہلی ترجیح ہے، نیورو سائنسز میں ریسرچ کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

    گیٹس فارما کے چیف ایگزیکٹو اور ایم ڈی خالد محمود نے کہا تحقیق اور منصوبہ بندی کے ذریعے پاکستان میں بیماریوں کے علاج کے جس سطح کی تحقیق کی ضرورت ہے، ہم اس عروج کو پیش نظر رکھ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، تاکہ ایک دن ہم عالمگیر سطح پر پاکستان کی پہچان بنا سکیں۔

    قبل ازیں گیٹس فارما کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر جہانزیب کمال نے پروجیکٹ کی تفصیلی بریفنگ میں بتایا کہ نیورولوجی (صرف پارکنسنز اور مرگی ) میں نوجوان محققین کے لیے سالانہ 25 لاکھ روپے کی گرانٹ مختص کی گئی ہے، جس سے میڈیکل سائنس کے اس نظر انداز شدہ شعبے یعنی نیورو سائنسز میں ایک نمایاں تبدیلی دیکھی جا سکے گی۔

    انھوں نے کہا یہ رقم مجوزہ ریسرچ کے لیے کوالٹی کی بنیاد پر تقسیم کی جائے گی، اس طریقہ کار کو شفاف بنانے کے لیے نیورو سائنسز کے ماہرین کی اسٹیئرنگ کمیٹی قائم کی جا رہی ہے، جو تمام تجاویز کا آن لائن جائزہ لے کر فیصلہ کرے گی۔

  • صحت کے شعبے میں انقلاب، ڈاکٹرز نے انتہائی پیچیدہ اور نازک دماغی مرض چند گھنٹوں میں ٹھیک کر دیا

    صحت کے شعبے میں انقلاب، ڈاکٹرز نے انتہائی پیچیدہ اور نازک دماغی مرض چند گھنٹوں میں ٹھیک کر دیا

    کیلیفورنیا: امریکا میں ڈاکٹرز نے ایک انتہائی پیچیدہ اور نازک دماغی مرض محض چند گھنٹوں میں ٹھیک کر کے مخصوص بیماریوں کی فوری تشخیص ممکن بنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق محققین نے انسانی جینوم کے نقشے سے 1500 ملتی جلتی بیماریوں کی فوری تشخیص ممکن بنا دی، دماغ کی 1500 ملتی جلتی بیماریوں میں سے بچے کو کون سی بیماری ہے؟ انسانی جینوم کے نقشے سے اب یہ ممکن ہو گیا ہے۔

    میساچوسٹس میڈیکل سوسائٹی کے طبی جریدے میں شائع تحقیقی مضمون میں کہا گیا ہے کہ انسانی جینوم پروجیکٹ پر تقریباً 30 سالہ تحقیق کے بعد اب محققین نے انسفلوپیتھی (Encephalopathy) میں مبتلا ایک بچے کے جینوم کی ابتدائی ساخت کا محض 11 گھنٹوں میں تعین کر دیا، جس سے حفظان صحت میں نیا انقلاب آ گیا ہے۔

    ریسرچ اسٹڈی کے ایڈیٹر نے بتایا کہ 5 ہفتوں کا ایک نوزائیدہ بچہ اسپتال لایا گیا، یہ بچہ بالکل ٹھیک تھا لیکن صرف 2 گھنٹے قبل اسے زار زار اور بے قاعدہ رونے اور چڑچڑاپن کی بیماری لاحق ہوئی، ڈاکٹرز نے دیکھا کہ جب بچہ روتا ہے تو اس کی آنکھیں نیچے کی طرف اتر جاتی ہیں۔

    جب بچے کے سر کا سی ٹی اسکین کیا گیا تو اس میں متعدد بڑے دو طرفہ ہائپو ڈینسٹیز (زیادہ کثیف مقامات) دکھائی دیں، بتایا گیا کہ دس سال قبل انھی والدین، جو کہ فرسٹ کزن تھے، کے ہاں اسی طرح کی اعصابی صورت حال والا ایک پیدا ہوا تھا، جس سے تیزی کے ساتھ مرگی کا دماغی مرض بنا، اور یہ بچہ 11 ماہ کی عمر ہی میں بغیر مرض کی تشخیص کے مر گیا۔

    محققین کے مطابق جب پانچ ہفتوں کا بچہ اسپتال لایا گیا، تو اس کے خون کا نمونہ لیا گیا، اس کے محض 16.5 گھنٹوں کے بعد ہم نے بچے میں تھایامن میٹابولزم ڈسفنکشن سنڈروم 2 (THMD2) کی تشخیص کر لی، اور اس سے محض 13 گھنٹے قبل ہم نے جینوم کی سیکوئنسنگ (یعنی ابتدائی ساخت کا تعین) کر لی، جس نے شیر خوار کے علاج سے متعلق راستہ سجھایا، اور یوں انسانی جینوم پروجیکٹ کی تکمیل سے ہیلتھ کیئر میں ایک انقلاب آ گیا۔

    واضح رہے کہ شیر خوار بچوں میں انسفلوپیتھی (دماغ کی کارکردگی خراب ہوجانا) کا مرض تقریباً ایک ہزار پانچ سو جینیاتی امراض سے جڑا ہوا ہے، جن میں سے اکثر کو کلینکلی پہچانا بھی نہیں جا سکتا، تاہم ان کا منفرد اور مؤثر علاج موجود ہے، اور ان امراض میں فوری علاج کے بغیر مستقل اعصابی چوٹ یا موت واقع ہو سکتی ہے۔ ان امراض کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ عام بیماریوں سے مشابہ ہوتے ہیں اس لیے غلط تاخیر سے علاج ہونے کا خطرہ لاحق رہتا ہے، اب اس تحقیق نے جینوم سیکوئنسنگ کے ذریعے تشخیص کی تلاش کا راستہ دکھا دیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق بچے کے سر کی ویڈیو الیکٹرو انسفلوگرافی (ای ای جی) کی گئی تو اس میں درمیان میں بے شمار سیزرز (دماغی خلیات میں بے قابو برقی سرگرمی کے جھماکے) دکھائی دیے، جس پر بچے کو اسپتال داخلے کے 37.5 گھنٹوں بعد تھایامن (Thiamine وٹامن بی وَن) اور بائیوٹن (biotin وٹامن بی کی ایک قسم) دوائیں دی گئیں، اس کے 2 گھنٹے بعد بچے کو فینوباربٹال (Phenobarbital مرگی کی مخصوص اقسام کی دوا) دی گئی۔

    دوا کے بعد بچے کو صرف 15 سیکنڈ کا جھٹکا آیا، 6 گھنٹے بعد مریض بچہ ہوشیار اور پرسکون تھا، اور بوتل سے دودھ پینے کے قابل تھا، تینوں جینوم کے تعین نے تشخیص کی تصدیق کی، اور 24 گھنٹے بغیر کسی جھٹکے کے گزرنے کے بعد مریض کو گھر بھیج دیا گیا، جس کی عمر اب 7 ماہ ہے۔

  • مرگی: وجوہات، علامات اور احتیاطی تدابیر

    مرگی: وجوہات، علامات اور احتیاطی تدابیر

    دنیا بھر میں آج یعنی 26 مارچ کو مرگی سے آگاہی کا عالمی دن منایا جارہا ہے، مرگی ایک دماغی یا اعصابی خرابی ہے اور اس کیفیت میں دورے پڑتے ہیں۔

    مرگی سے آگاہی کے عالمی دن کو پرپل ڈے بھی کہا جاتا ہے، اس دن لوگ جامنی رنگ کا لباس پہنتے ہیں یا لوینڈر ربن کا استعمال کرتے ہیں۔

    لوینڈر پودے کو مرگی کے بارے میں شعور کا رنگ قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ مرگی میں مبتلا افراد کے الگ تھلگ رہنے اور ان کی تنہائی کے غالب احساس کی نمائندگی کرتا ہے۔

    یہ دن سب سے پہلے سنہ 2008 میں منایا گیا جب کینیڈا کے صوبے نوا اسکوشیا سے تعلق رکھنے والی ایک 8 سالہ طالبہ کیسی ڈی میگن نے مرگی ایسوسی ایشن کی طرف سے منعقدہ پریزینٹیشن میں اپنی مرگی کی کیفیت کے بارے میں اپنے ساتھیوں کو بتایا۔

    اس بچی نے مرگی میں مبتلا مریضوں کو سپورٹ کرنے کے لیے پرپل ڈے منانے کا خیال پیش کیا، اب یہ دن مرگی کے بارے میں شعور پھیلانے کا ایک بین الاقوامی دن بن گیا ہے۔

    مرگی دراصل ایک دماغی یا اعصابی خرابی ہے، اس کیفیت میں دورے پڑتے ہیں جو دماغ کے فعل میں ایک عارضی برقی خلل یا کیمیائی تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں، جس سے سارا جسم متاثر ہوتا ہے۔

    ایپی لپسی فاؤنڈیشن پاکستان کی صدر اور نیورولوجسٹ فوزیہ صدیقی اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ہمارا جسم ایک مشین کی طرح ہے اور دماغ اس کا مدر بورڈ ہے جس میں مختلف کنیکشنز موجود ہیں۔

    ان کے مطابق یہ بالکل کسی بجلی کے سوئچ بورڈ جیسا ہے، جس میں کبھی کوئی ایک کرنٹ ادھر سے ادھر ہوجائے تو مذکورہ کنیکشن جل بجھ ہونے لگتا ہے، اسی طرح دماغ کا کنیکشن بھی ادھر ادھر ہوجائے تو اس سے متصل جسم کا عضو جھٹکے لینے لگتا ہے، اس کے بعد جسم کا خود کار دفاعی نظام اسے شٹ ڈاؤن کردیتا ہے جس کے بعد مریض بے ہوش ہوجاتا ہے۔

    علامات

    مرگی کے دورے کے دوران مریض کا بے ہوش ہونا، زبان کا دانتوں کے بیچ میں آجانا، ہاتھ پاؤں کا مڑ جانا یا اکڑ جانا، آنکھوں کی پتلیوں کا اوپر چڑھ جانا، منہ کا سختی سے بند ہوجانا عام ہے۔

    اس دورے کا دورانیہ 1 سے 2 منٹ کا ہوتا ہے اور اگر کسی مریض میں پانچ منٹ سے زیادہ یہ علامات برقرار رہیں تو اسے فوراً اسپتال لے جانا چاہیئے۔

    بچوں میں پائی جانے والی مرگی میں بچے کوئی بھی کام کرتے کرتے اچانک 10 سے 15 سیکنڈ کے لیے گم صم یا خاموش ہوجاتے ہیں۔

    مرگی کے کچھ مریض اچانک کھڑے کھڑے نیچے گر جاتے ہیں، اس میں سر پر چوٹ لگنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

    دورے کے دوران دیگر افراد کو کیا کرنا چاہیئے؟

    یاد رکھیں، اگر آپ کسی کو مرگی کا دورہ پڑتے دیکھیں تو مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کریں۔

    دورے کے دوران مریض کے منہ میں کپڑا نہیں ٹھونسنا چاہیئے، ایسے موقع پر اس کے گلے کے گرد اسکارف یا ٹائی کو ڈھیلا کردیں، اس کے ارد گرد سے نوکیلی اشیا دور ہٹا دیں تاکہ وہ زخمی نہ ہو، اور کروٹ کے بل لٹا دیں تاکہ زبان حلق میں نہ جائے۔

    مریض کے منہ میں کپڑا ٹھونسنے سے سانس رک سکتی ہے اور مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ مرگی کا دورہ 2 سے 3 منٹ پر مشتمل ہوتا ہے اس وقت کو گزر جانے دیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں، روکنے کی صورت میں یہ دورہ طویل ہوسکتا ہے۔ 2 سے 3 منٹ تک دورہ پڑنے کے بعد مریض بے ہوش ہوجاتا ہے اگر نہ ہو تو اسے فوری طور پر اسپتال کی ایمرجنسی میں لے کر جایا جائے۔

    مرگی کے مریضوں کو ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیں اپنے ساتھ رکھنی چاہئیں اور ہاتھ پر بینڈ باندھنا چاہیئے جس پر ان کی بیماری کے بارے میں تحریر ہو اور بتایا گیا ہو کہ دورہ پڑنے کی صورت میں ان کے پاس موجود دوا انہیں کھلا دی جائے۔

    مرگی کے مریضوں کو اپنا طرز زندگی قدرتی رکھنا چاہیئے، رات کو دیر سے سونا، ذہنی دباؤ، گرم موسم، الکوحل کا استعمال، ٹیلی وژن اور کمپیوٹر کا زیادہ استعمال ان کی بیماری کو بڑھا سکتا ہے۔

    یاد رکھیں مرگی قابل علاج مرض ہے اور اس کا مریض معاشرے کے دیگر افراد کی طرح بھرپور زندگی گزارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

  • مرگی کیا ہے اور دورہ پڑنے پر مریض کی کس طرح مدد کی جائے؟

    مرگی کیا ہے اور دورہ پڑنے پر مریض کی کس طرح مدد کی جائے؟

    مرگی ایک دماغی مرض ہے جس میں دماغ اپنے معمول کی سرگرمی سے اچانک ہٹ جاتا ہے جس کے نتیجے میں مریض کو جھٹکے لگتے ہیں اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑتا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں ایپی لپسی فاؤنڈیشن پاکستان کی صدر اور نیورولوجسٹ فوزیہ صدیقی شریک ہوئیں جنہوں نے اس مرض کے بارے میں بتایا۔ فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ مرگی ایک قابل علاج مرض ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ہمارا جسم ایک مشین کی طرح ہے اور دماغ اس کا مدر بورڈ ہے جس میں مختلف کنیکشنز موجود ہیں۔

    فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ یہ بالکل کسی بجلی کے سوئچ بورڈ جیسا ہے، جس میں کبھی کوئی ایک کرنٹ ادھر سے ادھر ہوجائے تو مذکورہ کنیکشن جل بجھ ہونے لگتا ہے، اسی طرح دماغ کا کنیکشن بھی ادھر ادھر ہوجائے تو اس سے متصل جسم کا عضو جھٹکے لینے لگتا ہے، اس کے بعد جسم کا خود کار دفاعی نظام اسے شٹ ڈاؤن کردیتا ہے جس کے بعد مریض بے ہوش ہوجاتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت میں مرگی کا شکار افراد کی شرح کل آبادی کے 1 یا 2 فیصد ہے جبکہ مغربی ممالک میں 0.5 ہے، پاکستان میں خصوصاً بچے مرگی کا زیادہ شکار ہورہے ہیں۔

    اس کی وجہ بتاتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا تھا کہ ماؤں کا دوران حمل خیال نہیں رکھا جاتا، ان کی خوراک کا اور صحت کا بہت زیادہ خیال رکھا جانا چاہیئے۔ دوران حمل معمولی سی بھی طبیعت خراب ہو تو ڈاکٹر سے پوچھے بغیر کوئی دوا نہ لی جائے کیونکہ اس کا اثر شکم میں زیر نشونما بچے کے دماغ پر پڑتا ہے اور دماغ کی بناوٹ میں تبدیلی آتی ہے۔

    علاوہ ازیں پیدائش کے فوری بعد بچے کو آکسیجن نہ ملے تب بھی دماغ مرگی کا شکار ہوسکتا ہے۔

    ڈاکٹر فوزیہ نے مرگی سے متعلق بہت سے توہمات کے بارے میں بھی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ اسے بھوت، پریت یا آسیب کا شاخسانہ سمجھا جاتا ہے، یہ بالکل ایسا ہی قابل علاج مرض ہے جیسا بخار یا بلڈ پریشر۔

    علاوہ ازیں مرگی کا دورہ پڑے تو مریض کے منہ میں کپڑا نہیں ٹھونسنا چاہیئے، ایسے موقع پر اس کے گلے کے گرد اسکارف یا ٹائی کو ڈھیلا کردیں، اس کے ارد گرد سے نوکیلی اشیا دور ہٹا دیں تاکہ وہ زخمی نہ ہو، اور کروٹ کے بل لٹا دیں تاکہ زبان حلق میں نہ جائے۔

    انہوں نے بتایا کہ منہ میں کپڑا ٹھونسنے سے سانس رک سکتی ہے اور مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ مرگی کا دورہ 2 سے 3 منٹ پر مشتمل ہوتا ہے اس وقت کو گزر جانے دیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں، روکنے کی صورت میں یہ دورہ طویل ہوسکتا ہے۔ 2 سے 3 منٹ تک دورہ پڑنے کے بعد مریض بے ہوش ہوجاتا ہے اگر نہ ہو تو اسے فوری طور پر اسپتال کی ایمرجنسی میں لے کر جایا جائے۔

    ڈاکٹر فوزیہ نے مزید کہا کہ مرگی کے مریضوں کو ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیں اپنے ساتھ رکھنی چاہئیں اور ہاتھ پر بینڈ باندھنا چاہیئے جس پر ان کی بیماری کے بارے میں تحریر ہو اور بتایا گیا ہو کہ دورہ پڑنے کی صورت میں ان کے پاس موجود دوا انہیں کھلا دی جائے۔

  • مرگی کے مریضوں کی مددگار کمپیوٹر "چِپ”

    مرگی کے مریضوں کی مددگار کمپیوٹر "چِپ”

    مِرگی ایک دماغی مرض ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً پانچ کروڑ افراد اس میں مبتلا ہیں۔

    مرگی کی مختلف اقسام ہیں جن سے کوئی فرد عارضی اور مستقل طور پر متاثر ہوسکتا ہے۔ یہ بیماری کسی بھی عمر میں ظاہر ہوسکتی ہے۔ اس مرض سے متعلق تفصیل میں جانے سے پہلے ایک سائنسی تجربے سے متعلق جان لیجیے۔

    حال ہی میں کینیڈا کی کیلگرے یونیورسٹی سے ایک امید افزا رپورٹ سامنے آئی ہے۔ یہ ایک سائنسی تجربے سے متعلق ہے جس کے مطابق سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ایسی کمپیوٹر چِپ تیار کی ہے جسے دماغ کے ساتھ نصب کرنے سے مرگی اور دیگر دماغی امراض کو بڑی حد تک "سنبھالا” جاسکتا ہے۔

    پاکستانیوں کے لیے یہ بات باعثِ مسرت ہوگی کہ اس ٹیم کی سربراہی پاکستانی نژاد ڈاکٹر نوید سید کررہے ہیں۔

    سائنس دانوں کی جانب سے تجربہ گاہ میں چِپ کی آزمائش کے بعد انسانوں پر بھی اس کا تجربہ کیا جائے گا۔

    مرگی کے اسباب سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دماغ میں برقی انتشار کے ردعمل میں پیدا ہونے والا مسئلہ ہے۔ سائنس دانوں‌ کے مطابق ہر انسان کا دماغ برقی رو کے ذریعے ایک حصے سے دوسرے تک جڑا رہ کر اپنا فعل انجام دیتا رہتا ہے اور جب اس دماغی کرنٹ کا نظام متاثر ہوتا ہے اور اس میں وقفے وقفے سے بگاڑ آتا ہے تو ایسے فرد کو مرگی کے دورے پڑتے ہیں۔ یہ جھٹکے یا دورے مختلف صورتوں یا اقسام کے ہوتے ہیں۔

    ایسا مریض ہوش و حواس کھو دیتا ہے، اکثر ان کا جسم اکڑ جاتا ہے، وہ چلتے ہوئے اور بیٹھے بیٹھے گر پڑتے ہیں اور ان کا جسم جھٹکے لینے لگتا ہے۔