Tag: مریخ

  • ’2029 میں انسان مریخ پر قدم، 2031 میں انسانی بستیاں آباد ہوں گی‘

    ’2029 میں انسان مریخ پر قدم، 2031 میں انسانی بستیاں آباد ہوں گی‘

    اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک انسان کے مریخ مسخر کرنے اور 2031 تک انسانی بستیاں اس سیارے پر بسانے کے لیے پر امید ہیں۔

    انسان جیسے جیسے ترقی کر رہا ہے اس کا خلا کو مسخر کرنے کی خواہش بڑھتی جا رہی ہے۔ دنیا کے امیر ترین شخص اور اسپیس ایکس کے بانی ایلون مسک نے آئندہ برس 2026 میں مریخ مشن بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے۔

    اپنے ایکس اکاؤنٹ پر جاری ایک بیان میں ایلون مسک 2026 میں مریخ پر مشن بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا تو 2029 میں پہلا انسان مریخ پر قدم رکھ سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اسپیس ایکس کا اسٹار شپ راکٹ 2026 کے آخر میں مریخ کے لیے روانہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ٹیسلا کا ہیومنائیڈ روبوٹ ‘آپٹیمس’ بھی ہوگا۔

    ایلون مسک نے کہا کہ کامیاب لینڈنگ کی صورت میں 2031 تک انسانی بستیاں مریخ پر آباد ہونے کا خواب حقیقت بن سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ اسپیس ایکس جس کی بنیاد 14 مارچ 2002 کو رکھی گئی ہے۔ اپنی 23 ویں سالگرہ تک 8 تجربات لانچ کر چکا ہے، لیکن تمام ہی ناکام ہوئے۔

    اسٹار شپ کرافٹ کا سب سے حالیہ دھماکا 7 مارچ کو ہوا تھا۔ خلائی جہاز خلا میں روانہ ہونے کے چند منٹ بعد پھٹ گیا، جس کے نتیجے میں خلائی ملبہ گرنے لگا تھا اور خطرات سے بچنے کے لیے سینکڑوں پروازیں منسوخ کر دی گئی تھیں۔

     

  • امریکی سی آئی اے کا ’’مریخ‘‘ پر خفیہ منصوبہ؟ جان کر حیران رہ جائیں

    امریکی سی آئی اے کا ’’مریخ‘‘ پر خفیہ منصوبہ؟ جان کر حیران رہ جائیں

    دنیا ابھی مریخ پر زندگی کی کھوج میں مصروف ہیں لیکن سی آئی اے اس سیارے پر خفیہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچا چکی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے دستاویزات میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مریخ پر 40 برس قبل ہی زندگی کی دریافت ہو چکی ہے۔

    اس سے متعلق 22 مئی 1984 مارس ایکپلوریشن نامی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سی آئی اے نے کس طرح ایسٹرل پروجیکشن (مابعد الطبعیاتی وجود) کو استعمال کرتے ہوئے ایک شخص کو 10 لاکھ قبل مسیح کے دور میں مریخ پر بھیجا۔
    یہاں یہ بتاتے چلیں کہ ایسٹرل پروجیکشن کے مطابق انسان کی روح آسٹرل پلین کے ذریعے سفر کر سکتی ہیں۔

    یہ تحقیق 1977 میں بنائے گئے امریکی فوج کے ایک خفیہ یونٹ پروجیکٹ اسٹار گیٹ کا حصہ تھی جس کا مقصد انوملس فینومنا (آسمان، سمندر یا خلاء میں پیش آنے والے پُراسرار واقعات جس میں حدِ نگاہ سے آگے دیکھنا، ٹیلی پیتھی اور سائیکو کینیسِس یعنی ذہنی طاقت سے چیزوں کو حرکت دینا شامل ہے) کا مطالعہ کرنا تھا۔

    یہ خفیہ پروجیکٹ میری لینڈ میں انجام دیا گیا اور اس میں ان مردوں اور عورتوں کا انتخاب کیا گیا جن کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس ماورائے حواس خصوصیات موجود ہیں۔

    اس تجربے کے دوران جو معلومات ہوئی ہیں اس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہاں اہرام نما شے کا ترچھا منظر اور واشگٹن کی یادگار کے ساتھ بڑی سڑک جیسی سڑک دیکھی گئی۔ جب کہ اس کے بعد بڑی آبادی کا منظر نامہ ظاہر ہوا جو رہنے کے لیے نئی جگہ ڈھونڈ رہے تھے۔

    واضح رہے کہ پروجیکٹ اسٹار گیٹ سویت یونین کے خلاف امریکی حکومت کا ایک نیا ہتھیار تھا جس کا مقصد ایسے جاسوس تیار کرنا تھا جو اپنے دشمنوں کے دماغ پڑھ سکیں۔

  • کچھ بیکٹیریا مریخ پر بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، بڑی تحقیق

    کچھ بیکٹیریا مریخ پر بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، بڑی تحقیق

    جرمن ماہرین نے ایک تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ کچھ بیکٹیریا ایسے بھی ہیں جو مریخ پر بھی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، اگر انسان مریخ پر جائے گا تو وہاں بھی وہ بیکٹیریا زندہ رہیں گے اور بیماری کا سبب بنتے رہیں گے۔

    جرمن ایرو اسپیس سینٹر کی ایک نئی تحقیق کے مطابق انسانی جسم میں رہنے والے چند ایسے بیکٹیریا ہیں، جو جسم پر زیادہ دباؤ پڑنے سے بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، چناں چہ مریخ پر یہ بیکٹیریا نہ صرف زندہ رہ سکتے ہیں بلکہ وہاں ان کی نشوونما بھی ممکن ہے۔

    ایسٹرو بائیولوجی نامی سائنسی جریدے میں جنوری 2024 میں ایک ریسرچ شائع ہوئی تھی، اس میں کہا گیا تھا کہ انسانوں میں متعدد امراض کا سبب بننے والے 4 ایسے مائکروبز (جرثومے) ہیں جو مریخ کے شدید ماحول میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں اور نشوونما بھی پا سکتے ہیں۔

    جرثوموں کی یہ صلاحیت جانچنے کے لیے جرمن ایروسپیس سینٹر کے سائنس دانوں نے لیبارٹری میں مصنوعی طور پر مریخ کا ماحول تیار کر کے تجربات کیے، جس سے مذکورہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ سائنس دان ایک عرصے سے مریخ پر انسانوں کی آبادکاری کے حوالے سے تحقیق میں مصروف ہیں، اور دنیا بھر کی اسپیس ایجنسیاں مریخ کی جانب مشن روانہ کر رہی ہیں تاکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے مکمل ڈیٹا حاصل کیا جا سکے۔ اس ڈیٹا سے لیباٹریز میں تجربات کر کے یہ معلوم کرنے کی کو شش کی جا رہی ہے کہ انسان مریخ کے شدید ماحول اور انتہائی کم درجہ حرارت میں کس طرح زندہ رہ سکیں گے۔

    محققین کے مطابق مریخ زمین سے نسبتاً قریب ہے اور مریخ کا ایک دن زمین کے ایک دن کی طرح چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے، اس لیے سائنس دان نظام شمسی کے دیگر سیاروں کی نسبت مریخ پر ممکنہ طور پر انسانی آبادیوں کے قیام میں زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں حالاں کہ مریخ کی سطح پر درجہ حرارت انتہائی کم ہے اور وہاں ایسے دیگر عوامل کی صورت حال بھی نامناسب ہے، جنھیں کسی سیارے پر انسانی زندگی کے لیے لازمی سمجھا جاتا ہے۔

    سائنس دانوں کی ٹیم کے سربراہ توماسو زکاریا کے مطابق لیبارٹری میں مریخ کا مصنوعی ماحول تیار کرنا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ اس کے لیے پانی کی عدم موجودگی، ہوا کا انتہائی کم دباؤ، سورج کی جھلسا دینے والی الٹرا وائلٹ تابکار شعاؤں اور مہلک زہریلی نمکیات کو مصنوعی طریقے سے اکھٹا کرنا ہوتا ہے۔

    انسانی جسم میں چار عام بیکٹیریا رہتے ہیں، جو یوں تو بے ضرر ہیں لیکن بیرونی عوامل یا دباؤ کے زیر اثر ہمارے لیے مہلک ثابت ہوتے اور مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، مریخ کے تیار کردہ مصنوعی ماحول میں ان بیکٹیریا پر بار بار تجربات کیے گئے، حیرت انگیز طور پر یہ مائیکروبز نہ صرف اس شدید ماحول میں زندہ رہے بلکہ مصنوعی طور پر تیار کردہ مریخ کی مٹی یا ریگولتھ میں نشوونما بھی کی۔

    محققین کے مطابق بیکٹیریا انتہائی سخت جان اور لچکدار ہوتے ہیں، جو زمین پر اربوں سالوں سے موجود ہیں، اس لیے مریخ یا کسی دوسرے سیارے یا سیارچے پر تحقیق کے لیے بیکٹیریا موزوں ترین سمجھے جاتے ہیں۔ جب بیکٹیریا کی کالونیوں کو مصنوعی مریخ کی مٹی میں رکھا گیا تو بیکٹیریا زہریلے اثرات سے مرے نہیں چار میں سے تین قسم کے بیکٹیریا زندہ رہے اور 21 دن تک ان کی نشوونما بھی نوٹ کی گئی۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کم زور مدافعتی نظام والے خلا باز مریخ پر بیماریوں کا شکار جلد ہوں گے، اس لیے انھیں اپنے ساتھ بہت سی ادویات ساتھ لے جانا ہوں گی، اور ان جرثوموں کا مریخ میں زیادہ خطرناک بن جانا بھی قرین قیاس ہے۔

  • خلائی پرواز کا عالمی دن اور عظیم موجد گوڈارڈ کا تذکرہ

    خلائی پرواز کا عالمی دن اور عظیم موجد گوڈارڈ کا تذکرہ

    اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 7 اپریل 2011ء کو ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کے تحت ہر سال 12 اپریل کو دنیا ’’انسانی خلائی پرواز کا دن‘‘ مناتی ہے۔ اس کا مقصد روئے زمین سے انسان کی اوّلین خلائی پرواز اور دنیا کے لیے اس کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

    اسی دن کی مناسبت سے آج ہم آپ کو اس سائنس داں کے بارے میں بتارہے ہیں جس نے آسمان کی وسعتوں میں‌ انسان کی آمد و رفت کو آسان بنایا اور اسے تسخیر کرنے کا راستہ بتایا یہی نہیں بلکہ سائنس داں نے اپنی ایک ایجاد کے ذریعے خلا میں گویا پہلا قدم بھی رکھا۔ یہ سائنس داں رابرٹ ایچ گوڈارڈ تھا جسے اس روز خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے اور دنیا اس کے کارنامے کی یاد تازہ کرتی ہے۔

    پہلے خلائی سفر کے بعد، امریکہ اور روس میں خلائی دوڑ شروع ہوئی اور اسی دوڑ نے خلائی سائنس کی ترقّی کی رفتار بھی بڑھا دی۔ 1969 کو امریکی خلا نورد نیل آرمسٹرانگ چاند پر پہنچنے والا پہلا انسان بنا۔ آج دنیا کے مال دار اور طاقت ور خلائی راکٹ اور خلائی جہاز بنانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور سیّاروں‌ کو آباد کرنے کی دوڑ جاری ہے۔ اب تک کم و بیش 44 ممالک اپنے خلائی مشن بھیج چکے ہیں۔ امریکہ کا مشہور خلائی ادارہ ناسا ہے جب کہ روس نے روسکوسموس، چین نے سی این ایس اے کے ذریعے خلا میں قدم رکھنے کی کوششیں‌ شروع کررکھی ہیں جب کہ 22 یورپی ملکوں کا مشترکہ ادارہ یورپین سپیس ایجنسی کہلاتا ہے۔

    انسان بردار خلائی پرواز آج بھی نہ صرف بے حد مشکل بلکہ ایک خطیر رقم کی متقاضی ہے۔ انسان کو خلا تک بہ حفاظت پہنچانے اور طویل مدّت تک وہاں زندہ رہنے کے قابل بنانے کے لیے کئی خصوصی اقدامات کرنا پڑیں گے جس میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ غذائی ضروریات اور کسی حادثے یا بیماری سے نمٹنے کے قابل بنانا بھی شامل ہے۔

    اس تاریخ کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
    12 اپریل کو پہلی مرتبہ انسان نے چاند کی جانب اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس سے قبل خلا میں جانے کا تصوّر سائنس داں گوڈارڈ نے 1899 میں پیش کیا تھا اور یہ بھی بتایا تھاکہ خلا میں جانے کے لیے راکٹ کی ضرورت ہوگی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ مشین کس طرح کی ہوگی اور اسے کیسے بنایا جائے گا۔ ان کے اسی خواب کی اوّلین کام یاب شکل 60 سال بعد دیکھی گئی اور اسی کی مناسبت سے انسانی خلائی پرواز کا عالمی دن 12 اپریل کو منایا جاتا ہے۔

    رابرٹ ایچ گوڈارڈ کے سفرِ زیست اور سائنسی کارناموں پر ایک نظر
    20 ویں صدی عیسوی کے اس باصلاحیت انسان اور عظیم موجد کو آج دنیا میں "فادر آف ماڈرن راکٹری” کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ آج جب دنیا مریخ کے بعد نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں پر کمند ڈالنے کا سوچ رہی ہے تو اس کا سہرا بھی اسی سائنس داں کے سَر جاتا ہے۔ یہ گوڈارڈ ہی تھے جنھوں نے ایک ایسے راکٹ کا تصور پیش کیا تھا جو چاند تک پہنچ سکے۔ انھوں نے اس تصور اور اپنی ایجاد کے ساتھ کئی کام یاب تجربات بھی کیے مگر اس زمانے میں اکثریت کے نزدیک یہ ایک کارِ‌ محض اور بے سود کوشش تھی جب کہ اس طرح‌ کے کسی بھی کام کو کسی شخص کا جنون اور دیوانگی تو کہا جاسکتا تھا، لیکن اسے اہمیت دینے کو لوگ تیار نہ تھے۔ یہی کچھ گوڈراڈ کے ساتھ بھی ہوا اور انھیں تضحیک کا نشانہ بننا پڑا، لیکن اس سائنس داں نے اپنی کوششیں‌ ترک نہ کیں‌ اور جدید راکٹ کے ڈیزائن پر کام کرتے رہے۔

    ان کے والد نے فلکیات میں ان کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے انھیں دوربین خرید کر دی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کو اکثر ایسے دور دراز مقامات پر لے کر جاتے تھے جہاں وہ رات گئے اپنی دوربین کی مدد سے چاند ستاروں کا مشاہدہ کرتے اور نتائج اخذ کرنے کے ساتھ اپنے ذہن میں‌ آنے والے سوالات اور مشاہدے کے نتائج کو نوٹ کرتے جاتے۔ انھوں نے ایک روز اپنی ڈائری میں لکھا کہ "آج پہلی دفعہ مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ میں دوسرے لوگوں سے کچھ مختلف ہوں، مجھے کچھ غیر معمولی کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔” وہ تاعمر ایسا راکٹ بنانے میں جٹے رہے جس کی مدد سے انسان خلا میں آسان اور محفوظ سفر کرسکے۔

    گوڈارڈ نے میسا چوسٹس سے گریجویشن کے بعد کلارک یونیورسٹی سے فزکس میں پی ایچ ڈی کیا تھا اور وہیں‌ درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ یہ 1914ء کی بات ہے جب اس موجد نے کئی حصوں پر مشتمل ملٹی اسٹیج راکٹ کا تصور پیش کیا اور پھر 1916 میں اسے لانچ کیا گیا۔

    گواڈرڈ 1882 میں‌ پیدا ہوئے اور دس اگست 1945 کو امریکہ، میری لینڈ میں‌ وفات پائی۔ بعد از مرگ ان کے کام کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کیا گیا اور امریکہ نے متعدد اعزازات اس موجد کے نام کیے۔

  • مریخ پر 3 ارب سال قدیم سمندر کے آثار دریافت

    مریخ پر 3 ارب سال قدیم سمندر کے آثار دریافت

    سیارہ مریخ کے بارے میں روزانہ نئی نئی تحقیقات سامنے آتی رہتی ہیں، حال ہی میں ماہرین کو ایک تحقیق میں مریخ پر 3 ارب سال قدیم بہت بڑے سمندر کے آثار ملے ہیں۔

    امریکا کی پینسلوانیا یونیورسٹی کے محققین نے چند تصاویر شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ کسی زمانے میں مریخ پر گہرا سمندر، گرم اور نم موسم بھی رہا ہوگا۔ یہ عرصہ ممکنہ طور پر ساڑھے 3 ارب سال قبل کا ہے۔

    پروفیسر بینجمن کارڈینس کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے سمندر کا مطلب ہے کہ یہاں زندگی کے امکانات بھی تھے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی زمانے میں مریخ گرم سیارہ تھا۔

    تحقیق کاروں کو ساڑھے 6 ہزار کلو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی بہاؤ والی چوٹیاں ملیں جو ممکنہ طور پر دریا اور سمندر کی وجہ سے وجود میں آئیں۔

  • سعودی عرب: آسمان پر اچانک کیا نظر آیا؟

    سعودی عرب: آسمان پر اچانک کیا نظر آیا؟

    ریاض: سعودی عرب کے آسمان پر چاند اور مریخ کے قریب آنے کا منظر دیکھا گیا، ایسا مریخ کی گردش کی وجہ سے ہوا۔

    العربیہ نیوز کے مطابق سعودی عرب اور عرب دنیا کے آسمان میں جمعہ کی نصف شب کے بعد گھٹتا ہوا چاند سیارہ مریخ کے سامنے سے گذرا، اس منظر کو دیکھ کر ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ گویا چاند اور مریخ قریب ہوگئے ہیں۔

    جدہ میں فلکیاتی سوسائٹی کے سربراہ انجینیئر ماجد ابو زاہرہ نے وضاحت کی کہ چاند اور مریخ کو شمال مشرقی افق کی طرف دیکھا جائے گا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ٹیلی اسکوپ کے میدان میں ایک ساتھ نظر نہیں آئیں گے کیونکہ ان کے درمیان بظاہر فاصلہ وسیع ہے۔ لیکن یہ دوربین کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہفتہ وار بنیادوں پر مریخ کی چمک کا مشاہدہ کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ کیسے ڈرامائی طور پر تبدیل ہوگا۔

    ابو زاہرہ نے مزید کہا کہ مریخ کی چمک زمین کے آسمان میں بہت زیادہ مختلف ہوتی ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مریخ بہت بڑا نہیں ہے، جس کا قطر صرف 6 ہزار 790 کلو میٹر ہے اور مشتری کے برعکس ہے جو ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مشتری کا قطر 1 لاکھ 40 ہزار کلو میٹر ہے، مریخ کے سائز کے 20 سے زیادہ سیارے مشتری کے سامنے ایک ساتھ کھڑے ہو سکتے ہیں، اس لیے مشتری ہمیشہ روشن دکھائی دیتا ہے، کیونکہ یہ بہت بڑا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔

    چھوٹے مریخ کے لیے، جس کی چمک اس کی قربت یا زمین سے فاصلے سے متعلق ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ مریخ زمین کے مدار سے باہر سورج کے گرد گھومتا ہے اور زمین اور مریخ کے درمیان فاصلہ بدل جاتا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات زمین اور مریخ نظام شمسی کے ایک ہی طرف ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں۔

    زیادہ تر 2021 میں مریخ اور زمین ایک دوسرے سے سورج کے تقریباً مخالف سمتوں پر تھے۔

    سرخ سیارے کی چمک کو بعض اوقات زمین کے سورج کے گرد ایک بار گردش کرنے سے منسوب کیا جاتا ہے جس میں ایک سال لگتا ہے جبکہ مریخ کو ایک بار گردش کرنے میں تقریباً 2 سال لگتے ہیں۔

    جب زمین مریخ اور سورج کے درمیان سے گزرتی ہے تو دونوں کے گرد اس کے گذرنے کا دورانیہ مختلف ہوتا ہے، سورج کے گرد یہ ایک سال میں چکر کاٹتی ہے جبکہ مریخ کے گرد 2 سال اور 50 دن میں اس کی گردش مکمل ہوتی ہے۔

  • دل سست ہوجائے گا: مریخ پر جانے والے انسانوں کے جسم میں حیرت انگیز تبدیلیاں

    دل سست ہوجائے گا: مریخ پر جانے والے انسانوں کے جسم میں حیرت انگیز تبدیلیاں

    امریکی خلائی ادارہ ناسا اور چین مریخ پر انسانوں کو بھیجنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، تاہم اس کے لیے انہیں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جس میں سب سے اہم وہاں بھیجے جانے والے خلا بازوں کی زندگی اور صحت ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق مریخ پر انسانوں کو بھیجے جانے کے منصوبے میں سب سے اہم پہلو خلا بازوں کی صحت اور ان کی سلامتی ہے جن کو مریخ تک پہنچنے کے لیے کئی ماہ خلا میں گزارنے ہوں گے، جس کے بعد پڑوسی سیارے پر بھی کئی ماہ قیام کرنا ہوگا۔

    ایسے خدشات بھی موجود ہیں کہ بہت کم کشش ثقل کے باعث انسانوں کے لیے مریخ پر رہنا مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔

    ان خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی نے ایک ریاضیاتی ماڈل تیار کیا ہے تاکہ یہ جاننے میں مدد مل سکے کہ خلا باز مریخ تک سفر کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں اپنا کام درست طریقے سے کرسکیں گے یا نہیں۔

    اس ماڈل اور اس کی پیشگوئیوں کے بارے میں تحقیقاتی مقالہ حال ہی میں جریدے نیچر میں شائع ہوا، تحقیقی ٹیم نے مریخ کے مشنز کے ممکنہ خطرات کے ساتھ ساتھ مریخ پر وقت گزارنے کے اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ سورج اور خلائی ذرائع کی ریڈی ایشن کے باعث مریخ پر قیام سے انسانی جسم میں بنیادی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔

    انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں بہت کم کشش ثقل کے اثرات کے حوالے سے ہونے والی تحقیق میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اس کے نتیجے میں مسلز اور ہڈیوں کا حجم گھٹ سکتا ہے جبکہ اعضا اور بینائی کے افعال پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیںِ۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ہم جانتے ہیں کہ مریخ تک پہنچنے کا سفر 6 سے 8 ماہ کا ہوگا جس سے خون کی شریانوں کی ساخت یا دل کی مضبوطی پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جو کہ خلائی سفر کے دوران بے وزنی کا نتیجہ ہوگا۔

    تحقیق کے مطابق بہت زیادہ وقت کشش ثقل کے بغیر رہنے سے دل کی رفتار سست ہوسکتی ہے کیونکہ اسے زیادہ کام نہیں کرنا ہوگا جبکہ زمین پر کشش ثقل کے باعث اسے مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔

    محققین نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن سے واپسی کے بعد خلا باز بے ہوش ہوجاتے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ جب خلا باز مریخ جائیں گے تو زیادہ مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ اگر مریخ پر قدم رکھتے ہی کوئی بے ہوش ہوگیا یا کوئی طبی ایمرجنسی ہوئی تو کوئی بھی مدد کے لیے موجود نہیں ہوگا، چنانچہ ضروری ہے کہ وہاں بھیجے جانے والے افراد مکمل طور پر فٹ اور مریخ کی کشش ثقل کو اپنانے کے قابل ہوں۔

    اس ماڈل کے لیے مشین لرننگ پر مبنی الگورتھم استعمال کیے گئے تھے جس میں آئی ایس ایس اور اپولو مشنز کا ڈیٹا فیڈ کیا گیا تھا۔

    نتائج سے ثابت ہوا کہ مریخ کے سفر کے لیے طویل خلائی پرواز سے دل کی شریانوں کے نظام میں تبدیلیاں آسکتی ہیں تاکہ وہ ماحول اپنا سکیں۔

    تحقیق کے مطابق اس سے عندیہ ملتا ہے کہ خلا بازوں کا جسم کئی ماہ کی خلائی پرواز کے مطابق خود کو بدل سکتا ہے مگر مکمل طور پر صحت مند اور فٹ ہونا شرط ہے۔

    اب یہ ماہرین بیمار یا کم صحت مند افراد پر طویل خلائی سفر کے اثرات جاننے کی کوشش کریں گے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کیا عام افراد بھی خلا کا سفر کرسکتے ہیں یا نہیں۔

  • 24 سال قبل بھیجا جانے والا خلائی مشن ونڈوز اپ ڈیٹ کا منتظر

    24 سال قبل بھیجا جانے والا خلائی مشن ونڈوز اپ ڈیٹ کا منتظر

    مریخ پر بھیجا جانے والا مشن ونڈوز 98 کے اپ ڈیٹ نہ ہونے کی وجہ سے خطرے کا شکار ہوگیا، مشن میں فوری طور پر ونڈوز کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق یورپین خلائی ایجنسی کی جانب سے 19 سال قبل مریخ پر بھیجا گیا مشن مائیکرو سافٹ ونڈوز کی وجہ سے خطرے سے دو چار ہوگیا ہے۔

    آج سے 27 سال قبل 14 جولائی 1995 میں جب امریکا کی ایک ٹیکنالوجی کمپنی مائیکرو سافٹ نے کمپوٹرکے لیے ونڈوز 95 کے نام سے ایک جدید آپریٹنگ سٹم متعارف کروایا تو اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہی ونڈوز آگے چل کر ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک طوفان برپا کردے گی۔

    آج ٹیکنالوجی میں ہونے والی زیادہ تر پیش رفت اسی ونڈوز کے مرہون منت ہے جس نے کمپیوٹر کو دنیا کے کونے کونے میں فروغ دیا۔

    گزشتہ سال اکتوبر میں مائیکرو سافٹ کی جانب سے ونڈوز آپریٹنگ سسٹم کا جدید ترین ورژن ونڈوز 11 کے نام سے متعارف کروایا گیا جو کہ اب دنیا کے بیشتر ممالک میں استعمال کیا جا رہا ہے۔

    لیکن اگر ٹیکنالوجی کی اس دوڑ میں اگر ونڈوز 98 کو اپ ڈیٹ کرنے کا کہا جائے تو یقیناً آپ اسے مذاق سمجھیں گے۔

    لیکن یورپین خلائی ایجنسی (ای ایس اے) کے لیے یہ زندگی اورموت کا معاملہ بن چکا ہے کیوں کہ انہیں زمین سے 200 ملین کلو میٹر کے فاصلے پر مریخ کے مدار میں چکر لگانے والے خلائی جہاز میں ونڈوز 98 کو ہر حال میں اپ ڈیٹ کرنا ہے۔

    ای ایس اے کے مارس ایکسپریس مشن کی جانب سے مارسس نامی خلائی جہاز کو تقریباً 19 سال قبل مارس کے گرد بھیجا گیا تھا اوراب اس کے لیے چند اہم اپ ڈیٹس ناگزیر ہوگئی ہیں۔

    اس حوالے سے ای ایس اے کا کہنا ہے کہ مارسس کو بھیجنے کا مقصد سرخ سیارے پر پانی کی تلاش کرنا ہے اور رواں سال ونڈوز 98 میں ہونے والی اپڈیٹ کے بعد اس کی تلاش میں تیزی آجائے گی۔

    اس اپ ڈیٹ کے بعد مارسسِ کے پروبس مریخ کی سطح کے نیچے اوراس کے چاند فوبوس کو زیادہ بہتر طریقے سے کھنگال سکیں گے۔

    اس مشن کو 2003 میں شروع کیا گیا تھا تاکہ زمین کے پڑوسی سیارے کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا جاسکے۔

    جس وقت اس خلائی جہاز کو ڈیزائن کیا گیا اس وقت تک آپریٹنگ سسٹمز کی دنیا میں ونڈوز 98 کا راج تھا اور مارسز کو مائیکرو سافٹ ونڈوز 98 کی بنیاد پر بننے والا ڈیولپمنٹ انوائرمنٹ استعمال کرتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

    مارس ایکسپریس مشن کی ٹیم کا کہنا ہے کہ مارسس کی کارکردگی میں اضافے کے لیے ہمیں متعدد چیلنجزکا سامنا ہے، اور ان سے نمٹے کا ایک ہی حل ہے کہ انسٹرومنٹس کو ونڈوز 98 سے یورپین اسپیس ایجنسی کے ڈیزائن کردہ مارس 2022 سافٹ ویئر پر اپ گریڈ کردیا جائے۔

    اس نئے سافٹ ویئر میں اپ گریڈز کی ایک مکمل سیریز ہے جن کی بدولت سگنل وصول کرنے، آن بورڈ ڈیٹا پراسیسنگ اور زمین پر بھیجے جانے والے سائنسی ڈیٹا کے معیار اور مقدار کو بہتر بنانا ہے۔

  • مریخ سے مزید حیران کن معلومات موصول

    مریخ سے مزید حیران کن معلومات موصول

    مریخ پر مختلف خلائی مشنز بھیجے جانے کے بعد سے اس سیارے کے بارے میں نئی نئی معلومات افشا ہورہی ہیں، اور حال ہی میں اس سرخ سیارے کے حوالے سے مزید معلومات موصول ہوئی ہیں۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے علم ہوا کہ مریخ کی جس جگہ پر چین کا روور ژورونگ اترا ہے وہاں ہوا اور ممکنہ طور پر پانی کے کٹاؤ کے واقعات رونما ہوئے ہوں گے، جو سرخ سیارے کی سطح کی خصوصیات کے بارے میں مزید ثبوت فراہم کرتے ہیں۔

    رواں ہفتے نیچر جیو سائنس نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں ژورونگ کی جانب سے مریخ کے پہلے 60 دنوں میں جمع کیے گئے ڈیٹا کا تجزیہ کیا جس کے دوران اس نے تقریباً 450 میٹر کا سفر کیا۔

    چین کے ہاربن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین کی ٹیم نے ڈنگ لیانگ کی سربراہی میں روور کے کیمروں کے ذریعے لی گئی چٹانوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کا مشاہدہ کیا کہ مریخ کی مٹی میں ہوا کے کٹاؤ کے اثرات اور نشانات کے ثبوت موجود ہیں۔

    انہوں نے سرخ سیارے کی سطح پر پہاڑوں، لہروں اور کٹے ہوئے گڑھوں کی بناوٹ کا بھی مشاہدہ کیا جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ جگہ طویل عرصے سے ہوا کی موجودگی کی وجہ سے موسمی اثرات کی زد میں رہی ہے۔

    تحقیق کے مطابق، ہوا کے کٹاؤ کے علاوہ، ماہرین نے کچھ چٹانوں کی ساخت کا بھی مشاہدہ کیا جن کے نمکین پانی کے ساتھ تعامل کا ثبوت ملتا ہے۔

    چین کا مریخ پر موجود روور شمسی توانائی سے چلنے والا 6 پہیوں والا روبوٹ ہے جس کا وزن 240 کلو گرام ہے۔ اس کی متوقع عمر کم از کم 90 مریخی دن ہے، جو زمین پر تقریباً 3 ماہ کے برابر ہے۔

  • مریخ پر رہنے کے لیے گوشت خوری چھوڑنی ہوگی

    مریخ پر رہنے کے لیے گوشت خوری چھوڑنی ہوگی

    معروف کاروباری شخصیت ایلون مسک مریخ پر رہائشی کالونی بنانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں، حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ وہاں رہنے والے افراد کو گوشت خوری ترک کرنی پڑے گی۔

    اسٹار لنک اور برین چپ جیسے اچھوتے منصوبوں کے خالق ایلون مسک مستقبل میں انسانوں کے لیے سرخ سیارے پر رہائشی کالونی بنانے کے تصور پر کام کر رہے ہیں۔

    اس کالونی میں لوگ شیشے کے بنے گنبدوں میں رہنے کے ساتھ اپنے لیے غذا بھی شمسی توانائی پر چلنے والے ہائیڈرو پونک فارمز میں اگائیں گے۔

    انسانوں کو مختلف سیاروں پر بسانے کے خواہش مند ایلون مسک کا پہلا ہدف سرخ سیارے پر ایک مستحکم رہائشی آبادی کا قیام ہے۔

    ایلون مسک نے 2002 میں اسپیس ایکس کا قیام بھی اسی مقصد کے تحت کیا تھا اور اس ہدف کو ہزاروں اسٹار شپ فلائٹس کے ذریعے حاصل کرنے کی توقع ہے۔

    ایلون مسک کے اس منصوبے کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہےکہ مریخ پر رہائش اختیار کرنے والے پہلے 100 افراد کو محدود وسائل کی وجہ سے صرف سبزیوں پر ہی گزارا کرنا پڑے گا کیونکہ فی الحال وہاں گلہ بانی کرنا ممکن نہیں ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ایلون مسک کی سرخ سیارے پر 5 ہزار افراد کے لیے قائم کی گئی کالونی میں صرف سبزیوں اور پھلو ں کو ہی اگایا جاسکے گا۔

    ان ہائیڈرو پونک 4 منزلہ اور 0.3 اسکوائر میل پر محیط فارمز کو اسٹار شپ کے ذریعے سرخ سیارے تک پہنچایا جائے گا۔