Tag: مریخ

  • مریخ پر پہلا قدم کس کا ہونا چاہیئے؟

    مریخ پر پہلا قدم کس کا ہونا چاہیئے؟

    بنی نوع انسان نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے خلا کی وسعتوں کو بھی چھاننا شروع کردیا ہے اور آج کے دور میں مختلف سیاروں کو سر کیے جانے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں جن میں سے ایک مریخ بھی شامل ہے، ناسا کی ایک سینیئر انجینیئر کا کہنا ہے کہ مریخ پر پہلا قدم رکھنے والا انسان کوئی مرد نہیں بلکہ خاتون ہونا چاہیئے۔

    امریکا کے خلائی ادارے ناسا میں بطور انجینیئر اپنی خدمات سر انجام دینے والی ایلسن مک انتارے کا کہنا ہے کہ چاند پر اب تک 12 افراد کو بھیجا جا چکا ہے جن میں سے ایک بھی خاتون نہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ اب جبکہ مریخ پر جانے کے منصوبے زیر تکمیل ہیں تو اس بار مریخ پر پہلا قدم رکھنے کا اعزاز ایک خاتون کو ہونا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: مریخ پر ایک سال گزارنے کے بعد کیا ہوگا؟

    ایلسن گزشتہ 30 برس سے ناسا سے منسلک ہیں اور ان کے مطابق انہوں نے وقت کو بدلتے دیکھا ہے۔ ’پہلے ادارے میں رکھے جانے والے افراد زیادہ تر مرد ہوتے تھے اور بہت کم خواتین کو ترجیح دی جاتی تھی، تاہم اب وقت بدل گیا ہے اب خواتین بھی مردوں کی طرح اعلیٰ عہدوں پر فائز کی جارہی ہیں‘۔

    انہوں نے بتایا کہ ان کے شعبے کے ڈائریکٹر اور ڈویژن انچارج کی ذمہ داریاں بھی خواتین کے پاس ہیں، ’یقیناً خواتین مریخ پر بھی بہترین کارکردگی کا مظاہر کرسکتی ہیں‘۔

    ایلسن مک انتارے کی اس تجویز کا تمام حلقوں کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ خلا میں جانے والی سب سے پہلی خاتون کا اعزاز روسی خلا نورد ویلینٹینا ٹریشکووا کے نام ہے جنہوں نے 60 کی دہائی میں زمین کے مدار سے باہر نکل کر یہ اعزاز اپنے نام کیا۔

    مزید پڑھیں: خلا کو تسخیر کرنے والی باہمت خواتین

    ڈاکٹر ویلینٹینا نے جب خلا کی طرف اپنا پہلا سفر کیا اس وقت وہ صرف 26 برس کی تھیں۔ انہوں نے 3 دن خلا میں گزارے اور اس دوران 48 مرتبہ زمین کے گرد چکر لگایا۔

    ان کا خلائی جہاز ووسٹوک 6 ایک منظم خلائی پروگرام کا حصہ تھا جس کے تحت خلا کی مختلف تصاویر اور معلومات حاصل کی گئیں۔

    ایک اور خلا باز پیگی وٹسن کو خلا میں سب زیادہ دن گزارنے والی پہلی خاتون خلا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ پیگی 3 خلائی مشنز میں مجموعی طور پر 665 دن خلا میں گزار چکی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کریوسٹی روبوٹ نے مریخ پر 2ہزار دن مکمل کرلیے

    کریوسٹی روبوٹ نے مریخ پر 2ہزار دن مکمل کرلیے

    کریوسٹی روور ناسا کا معروف روبوٹ ہے جسے مریخ کی سائنس لیبارٹری بھی کہا جاتا ہے، ’کریوسٹی روور‘ نے سیاری مریخ پر دو ہزار دن مکمل کرلیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ادارے ناسا نے سن 2012 میں مریخ پر ’کیورسٹی روور‘ نامی روبوٹ بھیجا تھا، مریخ سائنس لیبارٹری کے نام سے مشہور روبوٹ اس وقت سرخ سیارے پر موجود ایک خشک جھیل کی تحقیقات میں مصروف ہے۔ اس دوران روبوٹ کے کیے گئے اہم مشاہدوں میں سے کچھ منتخب مشاہدے آپ کی خدمت میں پیش پیں۔

    کریوسٹی نے پہلی تصویر 5 اگست 2012 میں مریخ پر اترنے کے پندرہ منٹ بعد ہی بھیج دی تھی۔ جب یہ تصویر ملی تو سائنسدانوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ مشن کامیاب رہے گا۔

    کیوروسٹی روور کی سرخ سیّارے پر اترنے کے بعد بھیجی گئی تصویر

    خلا میں روبوٹ نے جو تصاویر لی ہیں ان میں بہت سے دلکش اور ڈرامائی عکس خود زمین کے ہیں۔ البتہ زمین کی کریوسٹی روور کی اس تصویر میں زمین رات کے وقت ایک دھندلے نکتے کی مانند دیکھی جاسکتی ہے۔ دنیا بھر کے سائنسدان روزانہ کی بنیاد پر کریوسٹی روور کے ذریعے دس کروڑ میل دور مریخ کا جائزہ لے رہے ہیں۔

    مریخ سے لی گئی زمین کی تصویر

    سائنسدانوں نے کریوسٹی روور کے ذریعے مریخ پرگول شکل کے کچھ پتھر دیکھے جو کسی قدیمی اور کم گہرے دریا کی تہہ کی مانند تقریباً چارارب سال پرانے بلند پہاڑوں سے بہتا تھا۔ سرخ سیارے کی اس متروک ہوئی جھیل سے برآمد ہونے والے ان پتھروں کی تصاویر دیکھ کرسائنسدان یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ مریخ پر چٹانیں اور پرتیں کس طرح وجود میں آئی ہیں۔

    مریخ پر پائے گئے گول شکل کے پتھر

    مریخ کے ابتدائی مشن میں سائنسدانوں کی ٹیم کو اندازہ نہیں تھا کہ کیا مریخ پر لاوا بہتا تھا یا کوئی جھیل تھی لیکن ان تصاویر کا مشاہدہ کرنے کے بعد صورتحال واضح ہوئی کہ یہ یلو نائف خلیج ہے۔ یہ حصّہ باریک ریت اور مٹی کی پرتوں سے بنا ہے اور یہ اس وقت اکٹھی ہوئی ہوگی جب دریا اس قدیمی متروک ہوئی جھیل سے ملتا ہوگا۔

    یلو نائف پر جمع ہوئے مٹی کی پرتیں

    ناسا کی ٹیم نے روبوٹ کے ذریعے اس چٹان کو کھودا تو مٹی اور نائٹروجن سے بننے والے مرکبات سے معلوم ہوا سرخ سیّارے کے ماحول کسی قسم کی زندگی کے آثار پائے جاتے تھے، لیکن ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ کیا وہاں واقعی زندگی تھی؟

    کیوروسٹی روور ربورٹ کی سیلفی

    گرزتے وقت کے ساتھ ساتھ کریوسٹی روور نے سیلفی لینے میں مہارت حاصل کر لی ہے، یہ سیلفیاں صرف دکھانے کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان سے سائنسدانوں کی ٹیم کو پورے مشن میں روور کی مجموعی حالت سے آگاہ کرتی رہتی ہیں۔

    سائنسدانوں نے کریوسٹی روور کے ذریعے گذشتہ پانچ سالوں میں مریخ کے اس 18.4 کلومیٹر کے رقبے پر ترجیحی بنیادوں پر تحقیق کی ہے تاکہ معلوم ہو کہ اس خطے میں ماضی میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • مریخ پر یہ حیران کن چہرہ کس کا دکھائی دیا؟

    مریخ پر یہ حیران کن چہرہ کس کا دکھائی دیا؟

    ہم میں سے اکثر افراد کو چاند یا بادلوں میں مختلف اشکال دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم اب مریخ پر بھی مختلف چہرے دکھائی دینے لگے ہیں جو صرف عام افراد کو ہی نہیں بلکہ سائنسدانوں کو بھی نظر آرہے ہیں۔

    سنہ 2001 میں ناسا کی جانب سے کھینچی جانے والی مریخ کی تصاویر کی مزید نئی اور بہتر تکنیک سے جانچ کی گئی اور سائنس دان مریخ کی سطح پر ایک عجیب و غریب سا چہرہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔

    ناسا نے اس بات کی وضاحت نہیں کہ وہ کیا جغرافیائی عوامل تھے جن کے باعث مریخ کی زمین پر یہ چہرہ بن گیا ہے۔

    اس موقع پر ناسا نے مریخ کی مزید تصاویر بھی جاری کیں۔

    یاد رہے کہ مریخ زمین کا پڑوسی سیارہ ہے اور اس کی وسعت زمین کی وسعت سے نصف کم ہے۔ مریخ کو سرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • مریخ پر زندگی کے واضح ثبوت مل گئے

    مریخ پر زندگی کے واضح ثبوت مل گئے

    مریخ پرانسانی زندگی کے قوی امکانات ہیں، یہ بات نئی سائنسی تحقیق سے ثابت ہوئی، اگرچہ اس سے قبل بھی مختلف تحقیق میں یہ ہی بات واضح ہوتی رہی ہے.

    نئی سائنسی تحقیق کے مطابق نظام شمسی کے سیارے مریخ پر زندگی کے آثارہونا ممکنات میں سے ہیں، سیارے کی تصویرمیں نمایاں ہوتے سرخی کو دیکھ کرسائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ سرخی مریخ پرآبادی کے گمان کو تقویت دیتی ہے.

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مریخ پرہائیڈروجن پرمشتمل معدنیات بھی ہوسکتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ مریخ پر موجود کچھ نشانات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی میں یہاں کثیرتعداد میں پانی موجود تھا۔، محققین کا کہنا ہے کہ پانی کی موجودگی سے آبادی کا قیاس کرنا غلط نہ ہوگا.

    mars

    سائنسی جریدے نیچر کمیونیکیشن میں شائع مضمون میں محققین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تاحال مذکورہ بالا تحیقیق کے قابل تسلی ثبوت نہیں ملے ہیں، مگر یہاں ایک انتہائی اہم سوال ہے کہ مریخ پر پانی کی موجودگی کیوں اور کیسے ممکن ہوئی ہے ؟

    مزید پڑھیں:مریخ پرپانی کی موجود گی کے شواہد ملے ہیں،ناسا

    ڈاکٹر ٹسچنر نے کہا کہ پانی کی موجودگی اس بات کی تصدیق ہے کہ یہاں زندگی کی ایک نسل فعال تھی،سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مریخ پر زندگی کے نمایاں آثار کے حوالے سے تجربات ایک باسکٹ بال میں ہوا کے دباؤ کے ذریعے سے تقریباً 363.000 بار کئے گئے۔

    واضح رہے کہ 2013 میں بھی اس قسم کی تحقیق کی گئی تھی جس کا نتیجہ موجودہ رزلٹ جیسا ہی تھا اور نومبر 2016 میں ناسا کے ایک سائنسدان کی ریسرچ کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ مریخ کے ایک علاقے میں برف کا ایک بڑا ٹکڑا موجود ہے،جو برفانی پہاڑ کی صورت اختیار کر چکا ہے، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں ایک بار پھر مریخ پر راکٹ بھیجنا پڑے گا تاکہ ابہام کو دور کیا جا سکے۔

  • مریخ  پر اوباما کے دستخط

    مریخ پر اوباما کے دستخط

    واشگنٹن: خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے مریخ کے مشن پر بھیجے جانے والے طیارے کے ذریعے امریکی صدر بارک اوباما کی دستخط شدہ تختی مریخ پر آویزاں کردی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے تحت کام کرنے والی مارس سائنس لیبارٹری نے مریخ پر خصوصی مشن کے لیے بھیجے جانے والے طیارے کے ذریعے مریخ پر امریکی صدر اور دیگر اعلیٰ حکام  کے دستخط کی تختی آویزاں کردی۔

    ناسا نے مریخ پر بھیجے جانے والے مصنوعی سیارے کی تصاویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر تختی کی تصویر شائع کی، جس میں امریکی صدر بارک اوباما، نائب صدر جوبائیڈن سمیت دیگر اعلیٰ حکام کے دستخط موجود ہیں۔

    obama

    یہ تختی المونیم سے تیار کی گئی ہے جس کی چوڑائی تقریباً 4 انچ اور لمبائی سواتین انچ کے قریب رکھی گئی ہے، انتظامیہ کی جانب سے یہ تصویر طیارے کے مریخ پر 44 دن مکمل ہونے کے بعد شائع کی گئی ہے۔

    امریکی صدر اور امریکی انتظامیہ نے دستخط والی تصویر شائع ہونے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے ناسا کا شکریہ ادا کیا ہے۔ناسا انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ مصنوعی طیارہ 2004 میں بھی کامیاب مشن کے بعد واپس آیا تھا۔

  • طلوع آفتاب کا منظر دوسرے سیاروں پر کیسا ہوتا ہے؟

    طلوع آفتاب کا منظر دوسرے سیاروں پر کیسا ہوتا ہے؟

    سورج کے بغیر ہماری دنیا میں زندگی ناممکن ہے۔ اگر سورج نہ ہو تو ہماری زمین پر اس قدر سردی ہوگی کہ کسی قسم کی زندگی کا امکان بھی ناممکن ہوگا۔

    ہمارے نظام شمسی کا مرکزی ستارہ سورج روشنی کا وہ جسم ہے جس کے گرد نہ صرف تمام سیارے حرکت کرتے ہیں بلکہ تمام سیاروں کے چاند بھی اس سورج سے اپنی روشنی مستعار لیتے ہیں۔

    مختلف سیاروں پر دن، رات اور کئی موسم تخلیق کرنے کا سبب سورج ہماری زمین سے تقریباً 14 کروڑ سے بھی زائد کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اس تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہے، کیونکہ آدھے راستے میں ہی سورج کا تیز درجہ حرارت ہمیں پگھلا کر رکھ دے گا۔

    زمین پر سورج کے طلوع اور غروب ہونے کا منظر نہایت دلفریب ہوتا ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ دوسرے سیاروں پر یہ نظارہ کیسا معلوم ہوگا؟

    ایک امریکی ڈیجیٹل آرٹسٹ رون ملر نے اس تصور کو تصویر کی شکل دی کہ دوسرے سیاروں پر طلوع آفتاب کا منظر کیسا ہوگا۔ دیکھیے وہ کس حد تک کامیاب رہا۔


    سیارہ عطارد ۔ مرکری

    1

    سیارہ عطارد یا مرکری سورج سے قریب ترین 6 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا یہاں کا درجہ حرارت دیگر تمام سیاروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں پر طلوع آفتاب کے وقت سورج نہایت قریب اور بڑا معلوم ہوتا ہے۔


    سیارہ زہرہ ۔ وینس

    2

    سورج سے قریب دوسرے مدار میں گھومتا سیارہ زہرہ سورج سے 108 ملین یا دس کروڑ کلومیٹر سے بھی زائد فاصلے پر ہے۔ اس کی فضا موٹے بادلوں سے گھری ہوئی ہے لہٰذا یہاں سورج زیادہ واضح نظر نہیں آتا۔ یہاں کی فضا ہر وقت دھندلائی ہوئی رہتی ہے۔


    سیارہ مریخ ۔ مارس

    3

    ہماری زمین سے اگلا سیارہ (زمین کے بعد) سیارہ مریخ سورج سے 230 ملین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن اس سے سورج کے نظارے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔


    سیارہ مشتری ۔ جوپیٹر

    4

    سورج سے 779 ملین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سیارہ مشتری کی فضا گیسوں کی ایک موٹی تہہ سے ڈھکی ہوئی ہے۔ یہاں پر سورج سرخ گول دائرے کی شکل میں نظر آتا ہے۔


    سیارہ زحل ۔ سیچورن

    5

    سورج سے 1.5 بلین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع زحل کی فضا میں برفیلے پانی کے ذرات اور گیسیں موجود ہیں۔ یہ برفیلے کرسٹل بعض دفعہ سورج کو منعکس کردیتے ہیں۔ کئی بار یہاں پر دو سورج نظر آتے ہیں جن میں سے ایک سورج اصلی اور دوسرا اس کا عکس ہوتا ہے۔


    سیارہ یورینس

    6

    سورج سے 2.8 بلین کلومیٹر کے فاصلے پر سیارہ یورینس سورج سے بے حد دور ہے جس کے باعث یہاں سورج کی گرمی نہ ہونے کے برابر ہے۔


    سیارہ نیپچون

    7

    نیپچون سورج سے 4.5 بلین کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور اس کی سطح برفانی ہے۔ اس کے فضا میں برف، مٹی اور گیسوں کی آمیزش کے باعث یہاں سورج کی معمولی سی جھلک دکھائی دیتی ہے۔


    سیارہ پلوٹو

    8

    پلوٹو سیارہ جسے بونا سیارہ بھی کہا جاتا ہے سورج سے سب سے زیادہ 6 بلین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں پر سورج کی روشنی ہمیں ملنے والی سورج کی روشنی سے 16 سو گنا کم ہے، اس کے باوجود یہ اس روشنی سے 250 گنا زیادہ ہے جتنی روشنی ہمارے چاند کی ہوتی ہے۔


     

  • مریخ کی جانب بھیجی جانے والی خلائی گاڑی لاپتہ

    مریخ کی جانب بھیجی جانے والی خلائی گاڑی لاپتہ

    مریخ پر زندگی ڈھونڈنے کی تلاش ایک عرصہ سے جاری ہے اور اس سلسلے میں یورپ نے ایک اور کوشش کے تحت روبوٹک گاڑی مریخ کی جانب روانہ کی تاہم وہ گاڑی لاپتہ ہوگئی۔

    تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ’سکیا پریلی‘ نامی یہ روبوٹک گاڑی مریخ پر اترنے سے قبل اپنا سراغ کھو بیٹھی اور زمین پر موجود ماہرین سے اس کا رابطہ ٹوٹ گیا۔

    مریخ پر ایک سال گزارنے کے بعد کیا ہوگا؟ *

    اس تحقیقاتی روبوٹک گاڑی کو زمین سے 50 کروڑ کلومیٹر کے سفر کے بعد بدھ کو مریخ پر پہنچنا تھا لیکن سیارے کی سطح پر اترنے کے مقررہ وقت سے ایک منٹ قبل اس سے ریڈیو سگنل وصول ہونا بند ہوگئے۔

    esa-2

    یورپی خلائی ایجنسی مصنوعی سیاروں کی مدد سے اس خلائی گاڑی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم اس سلسلے میں تاحال کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔

    خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ روبوٹک گاڑی مریخ کی سطح پر گر کر تباہ ہوگئی ہے لیکن اس کو بھیجنے والی خلائی ایجنسی اس بارے میں کوئی مصدقہ بات کہنے سے کترا رہی ہے۔

    خلائی ایجنسی کے ماہرین اور انجینئرز مسلسل اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خلائی گاڑی کا زمین سے رابطہ کیوں ٹوٹا اور اس کے بعد اسے وہاں کیا حادثہ پیش آیا۔ ترجمان کے مطابق ایک روز میں واضح صورتحال سامنے آجائے گی۔

    اس سے قبل یورپی خلائی ایجنسی کی جانب سے 13 سال پہلے 2003 میں بھی ایک خلائی مشن بیگل 2 مریخ کی جانب بھیجا گیا تھا تاہم یہ مشن ناکام رہا۔

    بیگل 2 کو مریخ کی سطح پر اترنے کے فوراً بعد تکنیکی خرابی کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے باعث وہ اپنا مشن انجام نہیں دے سکا۔

    خلائی مخلوق کو بلانا خطرناک اور زمین کی تباہی کا سبب *

    موجودہ مشن کے تحت بھیجی جانے والی خلائی گاڑی کا بنیادی مقصد مریخ کی زمین کی سطح میں سوراخ کر کے وہاں زندگی کے آثار کا کھوج لگانا تھا۔

  • مریخ پر ایک سال گزارنے کے بعد کیا ہوگا؟

    مریخ پر ایک سال گزارنے کے بعد کیا ہوگا؟

    واشنگٹن: اگر سیارہ مریخ پر کچھ عرصہ گزارا جائے تو کیا ہوگا؟

    اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ’مصنوعی مریخ‘ پر بھیجی گئی ٹیم صحیح سلامت لوٹ آئی ہے۔ 6 افراد پر مشتمل یہ ٹیم گذشتہ برس 28 اگست کو وہاں بھیجی گئی تھی۔

    یہ ’مصنوعی مریخ‘ دراصل مریخ کی طرز پر بنائی گئی ایک سفید گنبد کی عمارت تھی جو ہوائی میں ایک دور دراز علاقہ میں ناسا کی جانب سے بنائی گئی تھی۔ 20 فٹ بلند یہ دو منزلہ عمارت مکمل طور پر بند تھی اور اس کے اندر مریخ جیسا مصنوعی ماحول بنایا گیا تھا۔

    mars-2

    تین خواتین اور 3 مردوں پر مشتمل 6 افراد کی ٹیم نے یہاں ایک سال کا عرصہ گزارا۔

    اس تجربہ کا مقصد اس بات کا مشاہدہ کرنا تھا کہ مریخ پر رہنے سے انسانی جسم و ذہن پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

    عمارت کے اندر رہنے والی ٹیم نے ایک سال یکساں موسم میں گزارا۔ ان کا باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں تھا اور وہ تمام وقت خلائی لباس میں ملبوس رہے۔ ان کے پاس کھانے پینے کی اشیا محدود تھیں جس میں پاؤڈر کی شکل میں پنیر اور ڈبہ بند ٹونا مچھلی شامل تھی۔ ٹیم نے پانی کو بھی ری سائیکل کر کے استعمال کیا۔

    ٹیم کے ایک رکن کے مطابق ان کے لیے سب سے پریشان کن چیز یکسانیت تھی۔ تجربہ سے واپس آنے کے بعد 200 طبی و سائنسی ماہرین اب ٹیم کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ان کے اندر کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔

    واضح رہے کہ ناسا مریخ کی جانب ایک روبوٹک مشن بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ اس تجربے کی کامیابی کے بعد انسانوں کو بھی مریخ پر بھیجا جائے گا۔