Tag: مریم جمیلہ

  • قبولِ اسلام کے بعد پاکستان کو اپنا وطن بنانے والی مریم جمیلہ کا تذکرہ

    قبولِ اسلام کے بعد پاکستان کو اپنا وطن بنانے والی مریم جمیلہ کا تذکرہ

    مریم جمیلہ کا نام والدین نے مارگریٹ مارکیوس رکھا تھا۔ لیکن قبولِ اسلام کے بعد نوجوان مارگریٹ مارکیوس نے اپنا نام تبدیل کرلیا۔ مریم جمیلہ کا تعلق اس یہودی خاندان سے تھا جو جرمنی سے امریکہ ہجرت کرگیا تھا، لیکن 24 مئی 1961ء کو اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانے اور پیغمبرِ اسلام کے آخری نبی ہونے کی گواہی دینے کے بعد مریم جمیلہ امریکہ سے پاکستان چلی آئیں اور یہیں 31 اکتوبر 2012ء کو وفات پائی۔ آج مریم جمیلہ کی برسی ہے۔

    22 مئی 1934ء کو امریکہ میں پیدا ہونے والی مارگریٹ مارکیوس کے آبا و اجداد کا وطن جرمنی تھا۔ ان کے بزرگ امریکہ منتقل ہوگئے اور نیوروشیل میں سکونت اختیار کی۔ یہاں ان کے والد کی شادی ہوئی اور بیٹی مارگریٹ نے جنم لیا۔ وہ اسکول میں ذہین طالبہ مشہور تھیں۔ ہائی اسکول سے فارغ ہونے کے بعد جب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو پہلے سمسٹر کے آغاز پر مارگریٹ ایک بیماری کا شکار ہوگئیں اور مجبوراً تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ اسی عرصہ میں‌ انھوں نے مذاہب میں دل چسپی لینا شروع کی۔ 1953ء میں مارگریٹ نے نیویارک یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں اسلام اور یہودیت کے موضوع میں‌ ان کی دل چسپی بڑھتی چلی گئی۔ مارگریٹ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگیں۔ انھوں نے دونوں‌ مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے علاوہ اسکالرز سے رجوع کیا اور کی مدد سے مذاہب کا تقابلی جائزہ لینا شروع کیا۔ 1956ء میں ایک مرتبہ پھر ان پر بیماری غالب آگئی اور مارگریٹ کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ اس بار طویل علالت کے سبب رسمی تعلیم کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وہ ڈگری حاصل نہ کرسکیں لیکن ان کا مذاہب کا مطالعہ جاری رہا۔ والدین سے سوالات کرنے کے علاوہ وہ اپنے مذہب کے علما سے بھی ملتی رہیں، لیکن یہودیت اور اسلام کا موازنہ اور تقابلی مطالعہ کرنے کے دوران ان کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی کہ انھیں ایک اور نومسلم مستشرق علّامہ محمد اسد کی کتاب’’ روڈ ٹو مکّہ‘‘ پڑھنے کا موقع ملا۔ مارگریٹ قرآن کے تراجم تو پہلے بھی پڑھ رہی تھیں۔ ایک موقع پر انھوں نے فیصلہ کیا کہ اسپتال سے نکل کر وہ اپنا مذہب ترک کر دیں‌ گی۔ انھوں نے یہی کیا اور بعد میں‌ نیویارک کے مسلمانوں سے میل جول بڑھاتے ہوئے اسلامک سینٹر جانے لگیں۔ اپنے والدین سے یہودی تعلیمات پر الجھنے اور اسلام کی جانب جھکاؤ دکھانے پر ان کا اپنے خاندان سے اختلاف ہوگیا تھا اور 1959ء والدین نے انھیں علیحدہ کر دیا۔ نوجوان مارگریٹ کو ملازمت کرنا پڑی تاکہ وہ اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔ اسی زمانے میں انھیں مولانا مودودی کا ایک مقالہ ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ پڑھنے کا موقع ملا اور مارگریٹ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ 1960ء کے آخر میں انھوں نے مولانا سے خط کتابت کے بعد قبولِ اسلام کا فیصلہ کیا۔ مارگریٹ بروکلین میں نیویارک کے اسلامک مشن کے ڈائریکٹر شیخ داؤد احمد فیصل کے پاس گئیں اور کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ ان کا اسلامی نام مریم جمیلہ رکھا گیا۔

    قبولِ اسلام کے بعد مریم جمیلہ کو مغرب میں ایک مبلغ کے طور پر پہچانا گیا۔ بعد میں مریم جمیلہ نے پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور یہاں‌ آنے کے بعد وہ مکمل طور پر مسلم تہذیب اور پاکستانی معاشرت میں ڈھل گئیں۔ مریم جمیلہ نے اردو زبان بھی سیکھی۔ 1963ء میں ان کا نکاح محمد یوسف خاں صاحب سے پڑھایا گیا۔ شادی کے بعد وہ لاہور میں رہیں اور لاہور ہی میں‌ انتقال ہوا۔

    مریم جمیلہ نے یہاں تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا تھا اور ان کا موضوع اسلام اور اس کی تعلیمات تھیں، اسلام کے مختلف پہلوؤں کو انھوں نے انگریزی زبان اجاگر کیا اور دوسروں کی راہ نمائی اور ہدایت کے لیے چھوٹی بڑی 34 کتابیں لکھیں۔ مریم جمیلہ کی تصنیف کردہ کتابوں میں اِز ویسٹرن سویلائزیشن یونیورسل، اسلام ان تھیوری اینڈ پریکٹس، اسلام اینڈ اورینٹل ازم، اسلام اینڈ موڈرن ازم اور اسلام ورسز دی ویسٹ سرفہرست ہیں۔

  • یومِ وفات:‌ قبولِ‌ اسلام کے بعد مارگریٹ امریکہ سے پاکستان آگئی تھیں

    یومِ وفات:‌ قبولِ‌ اسلام کے بعد مارگریٹ امریکہ سے پاکستان آگئی تھیں

    مریم جمیلہ کو ان کے والدین نے مارگریٹ مارکیوس کا نام دیا تھا۔ یہ یہودی خاندان جرمنی سے امریکہ منتقل ہوا تھا، لیکن 24 مئی 1961ء کو اسلام قبول کرنے کے بعد مریم جمیلہ امریکہ سے پاکستان چلی آئیں اور یہیں وفات پائی۔ آج مریم جمیلہ کی برسی ہے۔

    مارگریٹ نے 22 مئی 1934ء کو امریکہ میں آنکھ کھولی۔ ان کے آباء و اجداد کا وطن جرمنی تھا۔ 1848ء میں ان کا کنبہ امریکہ آگیا اور نیوروشیل میں سکونت اختیار کی۔ مارگریٹ نے اسکول میں داخلہ لیا اور ذہین طالبہ کے طور پر اساتذہ میں مقبول ہوئیں۔ ہائی اسکول سے فارغ ہونے کے بعد جب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو پہلے سمسٹر کے آغاز پر مارگریٹ ایک بیماری کا شکار ہوگئیں اور مجبوراً تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ اسی عرصہ میں‌ انھوں نے مذہب میں دل چسپی لینا شروع کیا۔

    1953ء میں انھوں نے نیویارک یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں اسلام اور یہودیت کے موضوع میں‌ ان کی دل چسپی بڑھتی چلی گئی۔ مارگریٹ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرنے لگیں۔ انھوں نے دونوں‌ مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کے علاوہ اسکالرز سے رجوع کیا اور کی مدد سے مذاہب کا تقابلی جائزہ لینا شروع کیا۔ 1956ء میں ایک مرتبہ پھر ان پر بیماری غالب آگئی اور مارگریٹ کو اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ اس بار طویل علالت کے سبب رسمی تعلیم کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وہ ڈگری حاصل نہ کرسکیں لیکن ان کا مذاہب کا مطالعہ جاری رہا۔ والدین سے سوالات کرنے کے علاوہ وہ اپنے مذہب کے علما سے بھی ملتی رہیں، لیکن یہودیت اور اسلام کا موازنہ اور تقابلی مطالعہ کرنے کے دوران ان کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی کہ انھیں ایک اور نومسلم مستشرق علّامہ محمد اسد کی کتاب’’ روڈ ٹو مکّہ‘‘ پڑھنے کا موقع ملا۔ مارگریٹ قرآن کے تراجم تو پہلے بھی پڑھ رہی تھیں۔ ایک موقع پر انھوں نے فیصلہ کیا کہ اسپتال سے نکل کر وہ اپنا مذہب ترک کر دیں‌ گی۔ انھوں نے یہی کیا اور بعد میں‌ نیویارک کے مسلمانوں سے میل جول بڑھاتے ہوئے اسلامک سینٹر جانے لگیں۔ اپنے والدین سے یہودی تعلیمات پر الجھنے اور اسلام کی جانب جھکاؤ دکھانے پر ان کا اپنے خاندان سے اختلاف ہوگیا تھا اور 1959ء والدین نے انھیں علیحدہ کر دیا۔ نوجوان مارگریٹ کو ملازمت کرنا پڑی تاکہ وہ اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔ اسی زمانے میں انھیں مولانا مودودی کا ایک مقالہ ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ پڑھنے کا موقع ملا اور مارگریٹ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ 1960ء کے آخر میں انھوں نے مولانا سے خط کتابت کے بعد قبولِ اسلام کا فیصلہ کیا۔ مارگریٹ بروکلین میں نیویارک کے اسلامک مشن کے ڈائریکٹر شیخ داؤد احمد فیصل کے پاس گئیں اور کلمہ پڑھ کر مشرف بہ ایمان ہوئیں۔ ان کا اسلامی نام مریم جمیلہ رکھا گیا۔

    اسلام لانے کے بعد مریم جمیلہ کو مغرب میں ایک مبلغ کے طور پر پہچانا گیا۔ بعد میں مریم جمیلہ نے پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور یہاں‌ آنے کے بعد وہ مکمل طور پر مسلم تہذیب اور پاکستانی معاشرت میں ڈھل گئیں۔ مریم جمیلہ نے اردو زبان بھی سیکھی۔ 1963ء میں ان کا نکاح محمد یوسف خاں صاحب سے پڑھایا گیا۔

    مریم جمیلہ نے اسلام کے مختلف پہلوؤں پر انگریزی میں چھوٹی بڑی 34 کتابیں لکھیں۔ ان کی تصنیف کردہ کتابوں میں اِز ویسٹرن سویلائزیشن یونیورسل، اسلام ان تھیوری اینڈ پریکٹس، اسلام اینڈ اورینٹل ازم، اسلام اینڈ موڈرن ازم اور اسلام ورسز دی ویسٹ سرفہرست ہیں۔

    31 اکتوبر 2012ء کو مریم جمیلہ انتقال کرگئی تھیں۔

  • ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ وہ تصنیف جس نے مارگریٹ مارکیوس کی زندگی بدل دی

    ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ وہ تصنیف جس نے مارگریٹ مارکیوس کی زندگی بدل دی

    مارگریٹ مارکیوس وہ نام تھا جو مریم جمیلہ کو ان کے والدین نے دیا تھا۔ 24 مئی 1961ء کو جب وہ اپنے آبا و اجداد اور والدین کا مذہب ترک کر کے دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئیں تو یہ نام اپنا لیا۔

    22 مئی 1934ء کو امریکا میں آنکھ کھولنے والی مارگریٹ مارکیوس کا اصل وطن جرمنی تھا۔ ان کا خاندان 1848ء میں امریکا آگیا تھا اور یہ لوگ نیوروشیل میں سکونت پذیر تھے۔ وہ اسکول کے ذہین بچّوں میں شمار ہوتی تھیں‌۔ ہائی اسکول سے فارغ ہوکر یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو پہلے سمسٹر کے آغاز پر انھیں ایک بیماری کی وجہ سے مجبوراً تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔ اسی زمانے میں‌ مارگریٹ کا رجحان مذہب کی طرف ہوگیا۔

    1953ء میں وہ نیویارک یونیورسٹی میں داخل ہوئیں جہاں اسلام اور یہودیت کے موضوع میں‌ ان کی دل چسپی بڑھتی چلی گئی اور وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگیں۔ انھوں نے دونوں‌ مذاہب کو کتابوں اور مختلف اسکالرز کی مدد سے سمجھنا شروع کیا تو 1956ء میں ایک مرتبہ پھر بیماری نے حملہ کر دیا اور انھیں اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ اس بار علالت اور بیماری کے سبب رسمی تعلیم کا سلسلہ ختم ہو گیا اور وہ ڈگری حاصل نہ کرسکیں لیکن ان کا مذاہب کا مطالعہ جاری رہا۔ والدین سے سوالات کے ساتھ وہ اپنے مذہب کے علما سے بھی ملتی رہیں، لیکن متعدد مذاہب اور اسلام کا موازنہ اور تقابلی مطالعہ کرنے پر ان کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی کہ ایک اور نومسلم مستشرق علّامہ محمد اسد کی کتاب’’ روڈ ٹو مکّہ‘‘ پڑھنے کو ملی۔ اس کے علاوہ وہ قرآن کے تراجم بھی پڑھ رہی تھیں اور انھوں نے فیصلہ کرلیا کہ اسپتال سے فراغت کے بعد اپنا مذہب ترک کردیں‌ گی وہ نیویارک کے مسلمانوں سے میل جول بڑھاتے ہوئے وہاں کے اسلامک سینٹر میں جانے لگیں اور کچھ عرصے سے والدین سے جو اختلاف پیدا ہوگیا تھا، 1959ء میں کافی بڑھ گیا۔ اس کا سبب مذاہب کا مسلسل مطالعہ اور یہودیت سے متعلق سوالات تھے، والدین نے ان کو علیحدہ کردیا اور مریم جمیلہ کو ملازمت کرنا پڑی۔

    اسی دوران انھیں مولانا مودودی کا ایک مقالہ ’’لائف آفٹر ڈیتھ‘‘ کے عنوان سے پڑھنے کا موقع ملا اور وہ اس سے بہت متاثر ہوئیں۔ 1960ء کے آخر میں وہ مولانا سے خط و کتابت کے بعد قبولِ اسلام کا فیصلہ کرنے کے قابل ہوگئیں۔ وہ بروکلین میں نیویارک کے اسلامک مشن کے ڈائریکٹر شیخ داؤد احمد فیصل کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ ان کا نام مریم جمیلہ رکھا گیا۔

    بعد کے عرصہ میں‌ وہ مغرب میں ایک نامور مبلغۂ اسلام کے طور پر مشہور ہوئیں۔ قبولِ اسلام کے بعد مریم جمیلہ نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا اور یہاں‌ آکر تہذیب و معاشرت کو قبول کر لیا۔ انھوں نے اردو زبان بھی سیکھ لی تھی۔ 1963ء کو ان کا نکاح محمد یوسف خاں صاحب سے پڑھایا گیا۔

    مریم جمیلہ نے اسلام کے مختلف پہلوؤں پر انگریزی میں چھوٹی بڑی 34 کتابیں لکھیں۔ ان کی تصنیف کردہ کتابوں میں از ویسٹرن سویلائزیشن یونیورسل، اسلام ان تھیوری اینڈ پریکٹس، اسلام اینڈ اورینٹل ازم، اسلام اینڈ موڈرن ازم اور اسلام ورسز دی ویسٹ سرفہرست ہیں۔

    عرب معاشرت اور اسلام میں نوعمری ہی میں کشش محسوس کرنے والی مریم جمیلہ نے پاکستان میں 31 اکتوبر 2012ء کو سفرِ‌ آخرت اختیار کیا۔

  • نوجوانی میں اسلام قبول کرنے والی مریم جمیلہ کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    نوجوانی میں اسلام قبول کرنے والی مریم جمیلہ کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    عرب معاشرت اور اسلام میں نوعمری ہی میں کشش محسوس کرنے والی مرگریٹ پیگی مارکوس کو اسرائیل کے فلسطین پر قبضے اور وہاں کے مسلمانوں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کرنے سے شدید تکلیف پہنچی تھی جب کہ وہ خود ایک یہودی جوڑے کی اولاد تھیں۔

    ان کی ہم دردیاں فلسطینیوں کے ساتھ تھیں۔ معصوم و نہتے مسلمانوں کی اپنے آبائی علاقوں اور گھروں سے بے دخلی اور یہودی بستیوں کی تعمیر نے انھیں از حد رنجیدہ و ملول کیا۔

    اسی زمانے میں انھیں اسلام سے لگاؤ پیدا ہوا اور ایک روز انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان کا نام مریم جمیلہ رکھا گیا۔

    انھوں نے 23 مئی 1934ء کو امریکا میں آنکھ کھولی۔ یہودی گھرانے کی اس لڑکی نے جب نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو مشہور نو مسلم مستشرق محمد اسد کی روڈ ٹو مکہ اور اسلام ایٹ کراس روڈز اور محمد مارما ڈیوک پکتھال کا کیا ہوا قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ پڑھنے کو مل گیا اور تب جیسے انھوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔

    1961ء میں انھوں نے لاہور میں مولانا مودودی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ وہ اسلام کے حوالے سے دو درجن سے زائد کتب کی مصنفہ بھی تھیں۔

    انھوں نے 2012ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔

    قبولَ اسلام کے بعد مریم جمیلہ کو اپنے گھر اور امریکا میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ امریکی شہریت ترک کرکے پاکستان منتقل ہوگئیں اور یہیں‌ زندگی کا سفر تمام کیا۔

    ان کی کتابوں میں از ویسٹرن سویلائزیشن یونیورسل، اسلام ان تھیوری اینڈ پریکٹس، اسلام اینڈ اورینٹل ازم، اسلام اینڈ موڈرن ازم اور اسلام ورسز دی ویسٹ سرفہرست ہیں۔