Tag: مزاح

  • کیا آپ لوگوں نے میرا پورا دماغ نکال دیا؟ نوجوان کا آپریشن کے دوران ڈاکٹروں سے سوال

    کیا آپ لوگوں نے میرا پورا دماغ نکال دیا؟ نوجوان کا آپریشن کے دوران ڈاکٹروں سے سوال

    لندن : سوشل میڈیا پر لوگوں کی بڑی تعداد نے برطانوی نوجوان کیمرون رے کے لیے ہمدردی کا اظہار کیا ہے جو ڈاکٹروں کے مطابق دماغ میں رسولی کے مسئلے سے دوچار ہے۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں کیمرون نامی نوجوان دوران آپریشن ڈاکٹروں سے مزاح کرتا رہا، برطانوی نشریاتی ادارے نے کیمرون کے دماغ کے آپریشن کے مناظر نشر کیے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ آپریشن کے دوران برطانوی نوجوان ہوش میں نظر آیا اور ایسی حالت میں جب ڈاکٹرز دورانِ آپریشن کیمرون کے سر میں بائیں جانب موجود رسولی کو نکالنے میں مصروف تھے، نوجوان نے ازراہ مذاق یہ سوال پوچھ کر ڈاکٹروں کو حیران کر دیا کہ کیا آپ لوگوں نے میرا پورا دماغ نکال دیا؟

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ نوجوان نے کچھ لمحے بعد پھر کہا کہ میں بھول گیا تھا کہ میرا آپریشن ہو رہا ہے، یاد رہے کہ یہ اپنی نوعیت کا حساس اور نازک ترین آپریشن ہوتا ہے۔

    کیمرون کے دماغ کا آپریشن کرنے والے نیورو سرجن ڈاکٹر اسماعیل اوگریٹڈیر کے مطابق آپریشن کے دوران سرجن اگر ایک ملی میٹر بھی دائیں یا بائیں ہل جائے تو اس کا نتیجہ دماغ کے دائمی نقصان کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔

    ڈاکٹر اسماعیل نے بتایا کہ آپریشن کے درمیان ایک موقع پر ہم نے کیمرون کو آنسوﺅں میں ڈوبا ہوا پایا کیوں کہ اس وقت وہ ایک لفظ فٹبال کو یاد کرنے پر بھی قادر نہیں رہا تھا۔

    یاد رہے کہ آپریشن کامیاب ہونے اور دماغ سے 95% رسولی نکال پھینکنے کے باوجود کیمرون کے دماغ کا سرطان ناقابل علاج شمار کیا جاتا ہے۔

  • مزاح کے بے تاج بادشاہ معین اختر کی 68 ویں سالگرہ آج منائی جا رہی ہے

    مزاح کے بے تاج بادشاہ معین اختر کی 68 ویں سالگرہ آج منائی جا رہی ہے

    کراچی : فن مزاح کے بے تاج بادشاہ معین اختر کی 68 ویں سالگرہ آج منائی جا رہی ہے، فن کی دنیا میں مزاح سے لے کر پیروڈی تک اسٹیج سے ٹیلی ویژن تک معین اختر وہ نام ہے، جس کے بغیر پاکستان ٹیلی ویژن اور اردو مزاح کی تاریخ نامکمل ہے۔

    معین اختر 24 دسمبر 1950 کو کراچی میں پیدا ہوئے، انھوں نے اُنیس سو چھیاسٹھ میں سولہ سال کی عمر میں پاکستان ٹیلی ویژن سے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کیا، معین اختر کی وجہ شہرت کسی ایک شعبے کی مرہون منت نہیں تھی، وہ فن کی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے۔ٕ

    وہ بحیثیت اداکار، گلوکار، صداکار، مصنف، میزبان اور ہدایت کار معین اختر نے اپنی صلاحتیوں کا لوہا منوایا، ان کے مشہورٹی وی ڈراموں میں روزی، آنگن ٹیڑھا، انتظار فرمائیے، بندر روڈ سے کیماڑی ،ہاف پلیٹ اور عید ٹرین نمایاں ہیں۔

    ان کے مشہور اسٹیج ڈراموں میں، بچاؤ معین اخترسے، ٹارزن معین اختر، بے بیا معین اختر، بکرا قسطوں پر، بایونک سرونٹ، بس جانے دو معین اختر،قابل ذکر ہیں۔

    مادری زبان اَردو ہونے کے باوجود آپ کو انگریزی، سندھی، پنجابی، پشتو، ہندی، بنگالی، گجراتی سمیت دیگر زبانوں پر مہارت حاصل تھی جو آپ کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

    انہوں نے انیس سو چوہتر میں فلم تم سا نہیں دیکھا کے علاوہ مسٹر کے ٹو اور مسٹر تابعدار میں کام کیا۔

    اے آر وائی کے پروگرام لوز ٹاک میں انور مقصود کے ساتھ ان کی جوڑی بہت جمی اور پروگرام بھارت میں بھی بے حد مقبول ہوا، جو پانچ سال تک جاری رہا،جس میں انہوں نے چار سو کے قریب مختلف روپ دھارے۔

    بالی ووڈ کے شہنشاہ دلیب کمار اور امیتابھ بچن بھی آ پ کے فنکاری کے مداح تھے۔

    یہ وہ پہلے پاکستانی فنکار ہیں جن کے مجسمے کو لندن مشہور مومی عجائب گھر مادام تساؤ میں نصب کرنے کی منظوری دی گئی ہے، اس کے علاوہ معین اختر کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سمیت کئی قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔

    پاکستان کی پہچان بننے والے معین اختر کا انتقال 22 اپریل2011 کو کراچی میں ہوا ، مگر اپنے مداحوں کے دل میں آج بھی زندہ ہے۔

    زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
    ہم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے

  • ہماری زندگیوں سے مزاح ختم ہوتا جارہا ہے: عطاالحق قاسمی

    ہماری زندگیوں سے مزاح ختم ہوتا جارہا ہے: عطاالحق قاسمی

      صحت مندانہ زندگی کیلئے مسکرانے ،ہنسنے ، خوش رہنے کی اہمیت سے کسے انکار ہے۔مگرکیاکریں؟یہاں دوسروں پر ہنسنا تو آسان ہے لیکن ہنسانامشقت طلب عمل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ادب میں مزاح نگاری ایک سنجیدہ اور مشکل بلکہ مشکل ترین صنف تصور کیا جاتاہے ۔ ذہانت اور فطانت لکھاری سنجیدہ تحریر کیلئے صرف کرنے کو تو تیار ہے مگر بڑی سنجیدگی کیساتھ طنزومزاح کیلئے نہیں ۔تو ایسے میں وہ شخصیات یقینا قابل قدر بھی ہیں اور خراج ِ تحسین کی مستحق بھی جنہوں نے اِس صنف میں اپنی تمام ترقلمی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے نام کا لوہا منوایا ۔

     دنیا ادب کی قدآور شخصیت عطا ءالحق قاسمی نے بھی جس انداز میں طنزومزاح یا شوخی ظرافت میں اپنے قلمی جوہر دیکھائے، قبولیت بھی ملی اور مقبولیت بھی ۔ ۔جس محفل میں بھی شریک ہوئے مرکز نگاہ بن گئے،خوش مزاجی، لطائف، طنزومزاح سے حاضرین کے دل جیت لئے ۔ اپنی اسی روایت کو عطاءالحق قاسمی نے ادبی و ثقافتی روایات کی امین تنظیم پاکستان رائٹر کونسل کے زیراہتمام اپنی صحت یابی کے اعزاز میں سجائی محفل میں بھی بڑی خوش اسلوبی سے قائم رکھا ۔

    یہ تقریب اِس بات کا عملی اظہار بھی تھاکہ ہماراتعلق اُس زندہ قوم سے ہے جو اپنے لیجنڈز اور ہیروز کی عزت و تکریم کرنا خوب جانتے ہیں ۔ ہال وقت سے پہلے ہی قاسمی صاحب کے چاہنے والوں اور اِن کے خاص لگاؤرکھنے والی معروف قلمی شخصیات کی کثیر تعداد سے کھچا کھچ بھر چکا تھا۔تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی پہلا حصہ ”محفل مزاح“ جس میں یاسر پیرزادہ ،گل نوخیز اختر،ضیہ رحمان،ناصر محمود ملک،قمر بخاری اورعلی رضا اپنے گدگدانے والے، ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ کردینے والے مضامین پیش کئے جبکہ دوسرے حصے میں پاکستان رائیٹرکونسل کی حلف برداری عمل میں لائی گئی ۔ حسین احمدشیرازی کی زیرصدارت اِس تقریب میں نوید چوہدری ،صدیق الفاروق نے بھی خصوصی طورپر شرکت کی۔

    تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا توفرحان علی کوکب نے تلاوت قرآن پاک اور شفاعت علی مرزا نے نعت رسول مقبولﷺ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی اور فضا کومعطر اور حاضرین محفل کے قلب و روح کو خوب منور کیا۔نظامت کے فرائض پاکستان رائیٹر کونسل کے صدر الطاف احمد نے بڑی ہی خوش ااسلوبی سے ادا کئے ،نہایت ہی دلکش انداز میں وہ منتخب الفاظ اور جملوں کی کڑیوں کو ایک دوسرے سے ملاتے رہے اور مقررین کو ڈائس پر مدوح کرتے رہے،اِس منفر د انداز کے سبھی حاضرین معترف ہوئے۔

    مہمان خصوصی کے حوالے سے تعارفی مضمون پیش کرتے ہوئے کہا کہ عطاءالحق قاسمی تعارف محتاج نہیں مگر تقریب و ترتیب کا تقاضے کا خیال رکھنا مجبوری ہے ۔ پاکستان رائٹر کونسل کے چیئرمین اِس تقریب کے منتظم اعلیٰ مرزا یسین بیگ نے اپنے ابتدائیہ کلمات پیش کرتے ہوئے مہمانان اور تمام شرکاءسے اظہار تشکر کیا کہ اُن کی شرکت نے محفل کو کامیاب بنا دیا ۔دلچسپ انداز میں محترمہ رضیہ رحمان نے اپنی مزاحیہ تحریر نذرِ سماعت کی اور انہوں نے عطاءالحق قاسمی کی ادب میں گراں قدر خدمات کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔

    علی رضا احمد نے بھی اپنا مضمون پیش کر تے ہوئے حاضرین محفل کو لطف اندوز کیا ۔ اَس دوران تقریب کا یہ منظرقابل دید تھا جب قاسمی صاحب اپنے سیل فون سے علی رضا کی ویڈیو بنانے میں مشغول رہے ، ناصر محمود ملک بھی کسی سے پیچھے نہ رہے ۔انہوں نے اپنے مضمون میں شامل ایک اہم کردار” وہمی انکل“ کو لفظوں میں کیا خوب رگڑا کہ سماں ہی باندھ دیا ۔قمر بخاری نے عہد حاضر کا عہد قدیم کے ساتھ ایک طنزو مزاح پر مبنی موازنہ پیش کیا اب باری آئی یاسر پیرزادہ کی ، جنہوں نے تو کمال ہی کردیا ”لڑکیاں اور خلائی مخلوق“ کے عنوان سے مضمون کی لطافت اپنی جگہ۔آغاز ایک لطیفے سے کیا جس نے سامعین کے قہقوں کی صورت میں خوب پسندیدگی کی سند حاصل کی۔

    مزاح نگاری کا معتبر نام ،گل نوخیز اختر نے اپنے خیالات کے اظہار میں پاکستان رائیڑ کونسل کی کاوش کوسرہاتے ہوئے کہا کہ آج کہ اِس دور میں جب ہر طرف افراتفری ہے، غم و رنج ہے اور عوام ہنسنا بھول چُکے ہیں ایسے میں اِس محفل کا انعقاد قابل تحسین ہے ۔ گُل نوخیز اختر نے دلچسپ حکیم اور عجیب حکمت کے حوالے سے ایک جی بھر کر ہنسنے والا مضمون سُنا کر حاضرین کی دن بھر کی تھکاوٹ اور غموں کو خوب رفوچکر کیا ۔۔نوید چوہدری نے عطاءالحق قاسمی سے وابستہ کچھ حسین یادوں کو سماعتوں کی نذر کرکے حاضرین کی بھرپور توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی منظرنامے پر اپنے سنجیدہ تاثرات کا اظہار بھی کیا ۔

     صدر محفل حسین احمد شیرازی نے بھی اپنے صدارتی کلمات میں عطاءالحق قاسمی کی صحت یابی کی خوشی میں والہانہ تقریب کے انعقاد پر منتظمین کو سراہا ۔مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما ،سابق چیئرمین متروکہ وقف بورڈ صدیق الفاروق نے اِس موقع پر دبے الفاظ میں موجودہ سیاسی بحران کے ذمہ داران کو کڑے ہاتھوں بھی لیا ۔

    صاحب محفل، مہمان خصوصی عطا ءالحق قاسمی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ میں بہت سی محافل میں شرکت کرچکا ہوں اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کبھی مقررین اچھے نہیں ہوتے اور کبھی سامعین مگر یہاں دونوں ہی اچھے تھے۔اُن کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں مشاعرے بھی ہوتے ہیں، ادبی محافل میں ہوتیں ہیں ، تنقیدی نشستیں بھی ہوتی مگر مزاح جو ہماری زندگی کا اہم جز ہے مگر افسوس یہ کم لکھا جا رہا ہے، اور میری خواہش ہے کہ اِسے ایک تحریک کی صورت میں آگے لے کر چلنا چاہیے ،اور ایسی محافل کا زیادہ سے زیادہ انعقاد کرنا چاہیے ، میں پاکستان رائٹرکونسل، مرزا یسین بیگ، الطاف احمد، گل نوخیزاختر، اخترشمار، علی اصغر عباس ،شاہد نذیر چوہدری اور حسیب اعجاز اور تنظیم کے دیگر عہدیداران کا شکرگزار ہوں جنہوں نے اِس شاندار محفل کا انعقاد کیا،حاضرین محفل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا اِن احباب کی اِس کاوش پر حوصلہ افزائی کے لیے تالیاں ضروری ہیں ۔ اِس موقع پر اِن کے مزاحیہ مضمون بعنوان ” استاد خارش لوھیانوی “ نے ہر سامع کو قہقے لگانے اور دل کھول کر داد دینے پر خوب اُکسایا۔مسلسل شرکاءکے رخسار کھلکھلاتے، آنکھیں مسکراتی رہیں اور لبوں پر تبسم محو رقص رہا اور کبھی قہقوں اور تالیوں کے حسین امتزاج سے ہال گونجتا رہا۔

    تقریب کے دوسرے سیشن میں حلف برداری پاکستان رائیٹر کونسل عمل میں لائی گئی ۔عطاالحق قاسمی نے ممبران جن میںمرزا یسین بیگ، الطاف احمد، راقم الحروف، سعید بھٹہ، احسان مغل ،شوکت علی، اکبر علی، شفاعت علی مرزا، کاشف نیئر، سعدیہ شامل تھے ،سے تنظیم کے قواعد و ضوابط کے مطابق حلف لیا۔ اِس موقع پر پاکستان رائٹر کونسل کی جانب سے تنظیم کے چیئرمین مرزا یسین بیگ نے عطاءالحق قاسمی کو یادگاری شیلڈ بھی پیش کی ۔ جبکہ تاریخ انٹرنیشنل فرانس کی جانب سے منتخب شخصیات میں ایوارڈ ز کی تقسیم بھی کی گئی ۔

     شرکاءکے چہروں پر یہ تشنگی عیاں تھی کہ وہ عطاءالحق قاسمی کی شگفتہ تحریروں سے مزید محظوظ ہونے کے دلی خواہاں تھے ۔ مگر کیا کریں وقت کا دامن ہاتھ سے نکل چکا تھا ۔ ایک یادگار تقریب اختتام پذیر ہوچکی تھی اور شرکاء اپنے اپنے غم سے بے پروا چہروںپر تبسم سجائے حسین یادیں دامن میں سمیٹے شام گئے گھروں کو ہو لئے ۔

    ہنستے مسکراتے چہرے دیکھ کر تقریب میں موجود لکھاریوں میں اِس بات کا احساس ضرور جاگا ہوگا کہ کشاد دلی اور کشادہ نظری کا مظاہر کرتے ہوئے آج کے اِس دور میں مزاح نگاری کو ہنسی مذاق میں اُڑانے کے بجائے ہنسنے ،ہنسانے، ہنسی پھیلانے اور اِس کی اہمیت پر سنجیدگی سے کام کرنا بہت اہم ہوچکاہے ۔ تاکہ افراتفری، کشمکش،بے راہ روی، اضطراب،بے سکونی کے عالم میں سماجی رویوں میں مسرت اور انبساط عام ہوسکے اور دائمی سکھ چین کیلئے انسان کو اُس کی کھوئی ہوئی ہنسی لٹائی جاسکے۔


    رپورٹ: حسیب اعجازعاشر

  • مزاح کے عالمی دن پر مزاحیہ اردو ادب سے چند شہ پارے

    مزاح کے عالمی دن پر مزاحیہ اردو ادب سے چند شہ پارے

    آج دنیا بھر میں مزاح کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ آج کا دن زندگی کی پریشان کن مصروفیات میں سے کچھ لمحے نکال کر ایک دوسرے سے خوشگوار باتیں کرنے اور ہنسنے سے منسوب ہے۔

    ہمارا اردو ادب نہایت زرخیز ہے جس میں ہر موضوع کے مصنف و شاعر موجود ہیں۔ اسی طرح اردو ادب میں مزاح کی بھی کوئی کمی نہیں۔

    اردو زبان کے وجود میں آںے سے لے کر اب تک بے شمار مصنفوں و شاعروں نے مزاح لکھا جنہیں پڑھنے کے لیے آج کے دن سے بہتر موقع اور کوئی نہیں۔

    تو پھر آئیں مزاح کے عالمی دن پر اردو میں لکھے گئے مزاح سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

    مشتاق احمد یوسفی

    مشتاق احمد یوسفی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں۔ معروف مصنف ابن انشا نے، جو بذات خود ایک بڑے مزاح نگار ہیں، ان کے بارے میں کہا تھا، ’ہم مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں‘۔

    یوں تو یوسفی صاحب کا لکھا گیا ہر جملہ ہی باغ و بہار ہے، ان میں سے کچھ ہم نے آپ کے لیے منتخب کیے ہیں۔

    انسان کتنا ہی ہفت زبان کیوں نہ ہو جائے، گالی، گنتی، گانا اور گندا لطیفہ اپنی زبان میں ہی لطف دیتا ہے۔

    بڑھیا سگرٹ پیتے ہی ہرشخص کو معاف کردینے کو جی چاہتا ہے۔ خواہ وہ رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔

    دنیا میں جتنی لذیذ چیزیں ہیں ان میں سے آدھی تو مولوی حضرات نے حرام کردی ہیں، اور بقیہ آدھی ڈاکٹر صاحبان نے۔

    مونگ پھلی اور آوارگی میں یہ خرابی ہے کہ آدمی ایک دفعہ شرع کرے تو سمجھ نہیں آتا کہ ختم کیسے کرے۔

    مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔

    پطرس بخاری

    پطرس بخاری کا مضمون ’ہاسٹل میں پڑنا‘، اور ’سائیکل کی سواری‘ ہم سب ہی نے اپنی نصابی کتب میں پڑھ رکھا ہے۔

    اپنی کتاب مضامین پطرس کے دیباچہ میں وہ لکھتے ہیں۔

    اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے، اب بہتر یہ ہے کہ آپ اسے اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔

    اپنے مضمون سویرے جو کل آنکھ میری کھلی میں اپنے پڑوسی کے لیے، جنہیں خود پطرس نے اپنے آپ کو جگانے کے کام پر معمور کر رکھا ہے، لکھتے ہیں۔

    یہ سوتوں کو جگا رہے ہیں یا مردوں کو اٹھا رہے ہیں اور حضرت عیسیٰ بھی تو واجبی طور پر ہلکی سی قم کہہ دیا کرتے ہوں گے۔ زندہ ہوگیا تو ہوگیا نہیں تو چھوڑ دیا، کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کر تھوڑی پڑجایا کرتے تھے، توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے۔

    اپنے پہلی بار سینما جانے کا احوال وہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔

    تھوڑی دیر بعد تاریکی میں کچھ دھندلے سے نقش دکھائی دینے لگے، جہاں ذرا تاریک سا دھبہ دکھائی دے جائے وہاں سمجھتا ہوں خالی کرسی ہوگی۔ خمیدہ پشت ہو کر اس کا رخ کرتا ہوں اس کے پاؤں کو پھاند، اس کے ٹخنوں کو ٹکرا، خواتین کے گھٹنوں سے دامن بچا آخر کار کسی کی گود میں جا بیٹھتا ہوں۔ وہاں سے نکال دیا جاتا ہوں اور لوگوں کے دھکوں کی وجہ سے کسی خالی کرسی تک جا پہنچتا ہوں۔

    شوکت تھانوی

    شوکت تھانوی کی شہرہ آفاق تخلیق چاچا چھکن ہے جس کی بیوقوفیوں اور بد حواسیوں نے ایک دنیا کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا۔

    اپنے ایک مضمون میں شوکت تھانوی لکھتے ہیں۔

    جس بیکاری (بے روزگاری) سے ایک دنیا چیخ اٹھتی ہے اس سے ہندوستان کیوں گھبراتا ہے، ہندوستان تو بقول ہمارے خداوندان نعمت کے ایک جاہل، وحشی، غیر مہذب اور کالے آدمیوں کا ملک ہے، یہاں اگر بیکاری ہے تو کیا تعجب۔ جب یورپ ایسے متمدن، تعلیم یافتہ، مہذب اور گورے آدمیوں کے ملک میں یہ حال ہے کہ بے چارے صاحب لوگ ہر طرح ناکام ثابت ہو کر وہاں کے ہر شعبہ ملازمت سے علیحدہ کر دیے گئے ہیں اور ان کی جگہ میم صاحبات براج رہی ہیں۔

    اگر خدانخواستہ ہندوستان میں بھی یہی صورت ہوجاتی کہ اندرون خانہ ایک دم سے بیرون خانہ اور بیرون خانہ ایک دم سے اندرون خانہ ہو کر رہ جاتے تو شاید یہاں کے لوگ ہندوستان کو حوا کی بیٹیوں کے لیے چھوڑ کر یا تو کسی اور دنیا میں چلے جاتے جہاں ابن آدم کی حکومت ہو یا خود کشی کر لیتے۔

    اس لیے کہ یہ انقلاب ہندوستان کے مردوں کے لیے ناقابل برداشت ہے کہ ان کی بیویاں تو کچہری عدالت کریں اور وہ خود گھر داری کریں، بچوں کو کھلائیں، یعنی مرد پیدا ہو کر عورت کے فرائض انجام دیں۔

    اپنے ایک مضمون نے شوکت تھانوی نے قلم سے ازار بند ڈالنے کی اصطلاح بھی تخلیق کی۔

    ابن انشا

    اردو مزاح نگاری میں ایک اہم نام ابن انشا کا ہے۔ انہوں نے دنیا بھر کا سفر کیا اور ان سفر ناموں کو نہایت پر مزاح انداز سے تحریر کیا۔

    ان کی مشہور زمانہ کتاب اردو کی آخری کتاب ہے جس میں ملک میں بڑھتے ہوئے صوبائی تعصب پر چوٹ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

    کوئی پوچھتا ہے، الگ ملک کیوں بنایا تھا؟ ہم کہتے ہیں، غلطی ہوئی معاف کیجیئے گا، آئندہ نہیں بنائیں گے۔

    ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔

    بھینس دودھ دیتی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہوتا۔ لہٰذا باقی دودھ گوالا دیتا ہے اور ان دونوں کے باہمی تعاون سے ہم شہریوں کا کام چلتا ہے۔

    کرنل شفیق الرحمٰن

    اردو مزاح میں ایک اور اہم نام کرنل شفیق الرحمٰن کا ہے جن کے افسانوں کی کتاب حماقتیں نہایت مشہور ہے۔

    اپنے ایک افسانے میں شفیق الرحمٰن لکھتے ہیں۔

    بچوں کا غبارہ اڑ گیا تو وہ یہ دریافت فرما رہے تھے کہ کشش ثقل نے غبارے کو روکا کیوں نہیں؟ کشش ثقل سے ان کا اعتبار اٹھ چلا تھا۔

    ایک اور جگہ لکھتے ہیں۔

    ایک بار ایک بزرگ نے فرمایا، ’جب میں چھوٹا سا تھا تو اس قدر نحیف تھا، اتنا کمزور تھا کہ میرا وزن چار پونڈ تھا۔ مجھے دنیا کی بیماریوں نے گھیرے رکھا‘۔


    مزاحیہ اردو شاعری

    میر تقی میر اور غالب سے لے کر جدید شاعروں نے متفرق معاشرتی موضوعات پر لطیف پیرائے میں چوٹ کرتے ہوئے اپنی شاعری کو مزاح کا رنگ دیا تاہم اردو مزاحیہ شاعری میں سب سے بڑا نام اکبر الہٰ آبادی کا ہے۔

    اکبر الہٰ آبادی

    سرسید کی ترقی پسند تحریک اور ہندوستان میں تبدیلی کی ہواؤں سے بیزار اکبر الہٰ آبادی جا بجا اپنی شاعری کے ذریعے نئے رجحانات پر چوٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

    بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
    اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
    پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
    کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

    ان کا ایک اور شعر ہے۔

    بوڑھوں کے ساتھ لوگ کہاں تک وفا کریں
    لیکن نہ آئے موت تو بوڑھے بھی کیا کریں

    سید ضمیر جعفری

    سید ضمیر جعفری کو اردو مزاحیہ شاعری کا سالار کہا جاتا ہے۔ ان کا یہ شعر دیکھیں۔

    اس نے کی پہلے پہل پیمائش صحرائے نجد
    قیس ہے دراصل اک مشہور پٹواری کا نام

    ان کا ایک اور شعر ہے۔

    حضرت اقبال کا شاہیں تو ہم سے اڑ چکا
    اب کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو

    دلاور فگار

    دلاور فگار جدید اردو کے مزاحیہ شاعر ہیں۔ فگار خاصے خود پسند شاعر تھے اور اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں گردانتے تھے۔

    وہ کون ہیں کہ شاعر اعظم کہیں جسے
    میں نے کہا ’جگر‘ تو کہا ڈیڈ ہو چکے
    میں نے کہا کہ ’جوش‘ کہا، قدر کھو چکے

    انور مسعود

    موجودہ دور میں انور مسعود کا نام مزاحیہ شاعری میں سرفہرست ہے جن کے قطعات مختلف اخبارات میں چھپتے رہتے ہیں۔

    ان کا کئی برس قبل لکھا گیا ایک قطعہ پڑھیں جو بالکل تازہ معلوم ہوتا ہے۔

    چاند کو ہاتھ لگا آئے ہیں اہل ہمت
    اب ارادہ ہے کہ وہ جانب مریخ بڑھیں
    ایک ہم ہیں کہ دکھائی نہ دیا چاند ہمیں
    ہم اسی سوچ میں ہیں، عید پڑھیں یا نہ پڑھیں