Tag: مزاحیہ اداکار

  • یومِ وفات: نور محمد چارلی ہندوستانی فلم انڈسٹری کے پہلے مزاحیہ اداکار تھے جنھیں ‘ہیرو’ بنایا گیا

    یومِ وفات: نور محمد چارلی ہندوستانی فلم انڈسٹری کے پہلے مزاحیہ اداکار تھے جنھیں ‘ہیرو’ بنایا گیا

    نور محمد چارلی برصغیر پاک و ہند کی فلمی صنعت کے معروف مزاحیہ فن کار تھے جنھیں گزشتہ صدی میں 30 اور 40 کی دہائی میں‌ خاصی مقبولیت ملی۔ وہ 30 جون 1983ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    نور محمد چارلی کو ہندوستانی فلم نگری کا اوّلین مزاحیہ اداکار بھی کہا جاتا ہے جسے ‘ہیرو’ بننے اور فلموں میں مرکزی کردار نبھانے کا موقع ملا۔ کہا جاتا ہے کہ چارلی پہلے مزاحیہ اداکار تھے جن پر ایک گیت بھی فلمایا گیا اور خود ان کی آواز میں چند فلموں کے لیے گانے بھی ریکارڈ کیے گئے۔

    نور محمد چارلی 7 جنوری 1911ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گجرات کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ وہ خاموش فلموں کا دور تھا جب نور محمد نے ایک فلم ساز ادارے سے وابستہ ہوکر اداکاری کا آغاز کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہاں چلے آئے اور فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے۔ تقسیمِ ہند سے قبل ان کی مشہور فلموں میں پاک دامن، رقاصہ، زرینہ، پریمی پاگل، فرزندِ ہند، ستم گر، پاگل، رنگیلا راجہ اور ڈھنڈورا شامل تھیں۔

    اس دور میں شائقین پردے پر رنگوں اور آواز کے بغیر کہانی کے مطابق فن کاروں کو اپنا کردار نبھاتا دیکھتے اور یہی ان کی سب سے بڑی تفریح تھی اور ‌آرٹسٹ اور فن کار اپنے چہرے کے تاثرات اور حرکات و سکنات سے شائقین کو محظوظ کرتے جو نہایت مشکل کام تھا۔ اس دور میں کسی فن کار کا ستائش اور مقبولیت حاصل کرنا اس کے کمالِ فن سے مشروط تھا۔ نور محمد چارلی نے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں اور محنت سے یہ مرحلہ طے کیا۔ انھیں تقسیم سے قبل اپنے ہم عصر مزاحیہ فن کاروں کی نسبت زیادہ شہرت اور مقبولیت ملی۔ وہ مشہورِ زمانہ کامیڈین چارلی چپلن کے بڑے مداح تھے اور اس کے بہروپ میں اکثر کردارو‌ں میں رنگ بھرتے نظر آئے۔

    چارلی کے فلمی سفر کا آغاز 1928ء میں ہوا تھا۔ اس زمانے کی ایک غیر ناطق فلم اپ ٹو ڈیٹ میں نور محمد نے کام کیا۔ ‘دی انڈین چارلی’ 1933ء کی وہ ناطق فلم تھی جس نے انھیں‌ ٹائٹل رول کی نسبت نور محمد سے نور محمد چارلی مشہور کردیا اور ‘چارلی’ کا لاحقہ ہمیشہ کے لیے ان کے نام کا حصّہ بن گیا۔

    پاکستان میں ان کی پہلی فلم مندری تھی۔ ان کی مشہور فلموں میں پلپلی صاحب، عمر ماروی، پرائی زمین، مس 56، استادوں کے استاد، اکیلی اور ستاروں کی دنیا شامل ہیں۔

    نور محمد چارلی نے اردو کے ساتھ پنجابی اور تین سندھی زبان میں‌ بننے والی فلموں میں بھی کام کیا، لیکن چند ابتدائی کام یابیوں کے بعد وہ شائقین کی توجہ حاصل نہ کرسکے۔ فلم نگری میں ناکامیوں سے گھبرا کر انھوں نے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا، مگر وہاں بھی مطمئن نہ ہوئے اور پاکستان لوٹ آئے جہاں بعد میں چند ہی فلموں میں کام حاصل کرسکے۔

    نور محمد چارلی کے صاحبزادے لطیف چارلی اور بہو معصومہ لطیف بھی پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں۔

  • پاکستانی فلمی صنعت کے پہلے "کامیڈین ہیرو” نذر کی برسی

    پاکستانی فلمی صنعت کے پہلے "کامیڈین ہیرو” نذر کی برسی

    اداکار نذر کو پاکستانی فلموں کا پہلا ‘کامیڈین ہیرو’ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں بننے والی فلموں میں کام کیا اور سنیما بینوں کی توجہ کا مرکز بنے۔ 20 جنوری 1992ء کو اس مزاحیہ اداکار کا انتقال ہو گیا۔

    نذر کا پورا نام سید محمد نذر حسین شاہ تھا۔ وہ 1920ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے فلمی کیریئر کا آغاز قیامِ پاکستان سے قبل بننے والی ایک فلم نیک دل سے ہوا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد نذر نے یہاں فلم ‘تیری یاد’ میں ایک مزاحیہ کردار ادا کرکے پہلے فلمی کامیڈین کا اعزاز اپنے نام کیا۔ ان کی اداکاری کا یہ سلسلہ غلط فہمی، پھیرے، لارے، انوکھی داستان، ہماری بستی، جہاد، امانت، اکیلی، بھیگی پلکیں، کنواری بیوہ اور دوسری کئی فلموں تک کام یابی سے جاری رہا۔

    نذر نے مجموعی طور پر 171 فلموں میں کام کیا جن میں 117 فلمیں اردو، 51 پنجابی زبان میں تھیں۔ کوئل وہ فلم تھی جس میں نذر نے ولن کا کردار ادا کرکے خود کو کام یاب ‘کامیڈین ولن’ بھی ثابت کیا۔

  • ماضی کے مشہور مزاحیہ اداکار’ننھا‘ کو ہم سے بچھڑے 33 برس بیت گئے

    ماضی کے مشہور مزاحیہ اداکار’ننھا‘ کو ہم سے بچھڑے 33 برس بیت گئے

    الف نون نامی ڈرامے سے شہرت کے بامِ عروج پر پہنچنے والے اداکار رفیع خاور عرف ننھا کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 33 برس بیت گئے۔

    دو جون 1986ء کو پاکستان کے مشہور مزاحیہ اداکار ننھا نے خودکشی کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا، اداکار ننھا کا اصل نام رفیع خاور تھا اور وہ 1942ء میں ساہیوال میں پیدا ہوئے تھے۔

    پاکستان ٹیلی وژن کے آغاز کے بعد انہوں نے کمال احمد رضوی کے پہلے ڈرامہ سیریل ’’آؤ نوکری کریں‘‘ سے اپنی فنی زندگی کا آغازکیا، اس کے بعد کمال احمد رضوی کی لازوال ڈرامہ سیریل ’’الف نون‘‘ سے ان کی شہرت کا آغاز ہوا۔ اس سیریز میں ان کا کام دیکھ کر شباب کیرانوی نے انہیں اپنی فلم وطن کا سپاہی میں مزاحیہ اداکار کا کردار دے دیا۔

    اس کے بعد ننھا نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور دو دہائی تک فلمی دنیا میں بطور مزاحیہ اداکار چھائے رہے۔ انہوں نے مجموعی طور پر391 فلموں میں کام کیا جس میں سے 166 فلمیں اردو، 221 فلمیں، پنجابی 3 فلمیں پشتو اور ایک فلم سندھی زبان میں بنائی گئی تھی۔

    بطور اداکار ان کی آخری فلم ’’ہم سے نہ ٹکرانا تھی‘‘ جبکہ ان کی آخری ریلیز ہونے والی فلم کا نام ’’پسوڑی بادشاہ‘‘ تھا۔

    زندگی کے آخری ایام میں اداکار ننھا، فلمی اداکارہ نازلی کی زلف کے اسیر ہوگئے اور اسی عشق میں ناکامی کے بعد 2 جون 1986ء کو انہوں نے خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ وہ علامہ اقبال ٹاؤن، لاہورمیں کریم بلاک کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • معروف مزاحیہ اداکار ببو برال کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 8 برس بیت گئے

    معروف مزاحیہ اداکار ببو برال کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 8 برس بیت گئے

    لاہور: معروف مزاحیہ اداکار ببو برال کی آج 8 ویں برسی ہے، اسٹیج کے ور اسٹائل کامیڈین ایوب اختر المعروف ببو برال نے اپنا فنی سفر 1982 میں گوجرانوالہ سے شروع کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق تیس سال تک سینکڑوں اسٹیج ڈراموں اور متعدد فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے لیجنڈ ببو برال کو بچھڑے آج آٹھ سال بیت گئے ہیں۔

    1982 میں گوجرانوالہ سے فنی سفر شروع کرنے والے ببو برال نے بہت جلد شائقین کے دلوں میں جگہ بنا لی اورجلد ہی لاہور منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے اسٹیج کی دنیا کا 30 سالہ ہنستا مسکراتا سفرشروع کیا۔

    انھیں مداحوں میں بے پناہ مقبولیت لاہور لے آئی تھی، ببو برال نے بہ طور گلو کار البم بھی ریکارڈ کرایا، ان کے اسٹیج شو شرطیہ مٹھے نے بہت شہرت حاصل کی۔

    اپنی فنی زندگی میں ببو برال نے اداکاری کے علاوہ اسٹیج ڈرامے بھی لکھے اور ہدایات کاری بھی کی، ان کی آخری فلم 2010 میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم چناں سچی مچی تھی۔

    گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے اسٹیج کے یہ عظیم فن کار اپنے منفرد اسٹائل کے باعث شہرت کی بلندیوں تک پہنچے، ببو برال اسکرپٹ رائٹر اور ہدایت کار بھی تھے۔

    ببو برال نے ٹوپی ڈراما، شرطیہ مٹھے اور عاشقوں غم نہ کرنا جیسے بے شمار ہٹ ڈراموں میں فن کے جوہر دکھائے، ببو برال نے پچاس کے قریب فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔

    انھوں نے انڈسٹری کو مجھے چاند چاہیے، نو پیسا نو پرابلم، کڑیوں کو ڈالے دانا، نکی جئی ہاں سمیت کئی ہٹ فلمیں دیں۔

  • مزاحیہ اداکار سکندر صنم کو دنیا سے رخصت ہوئے تین برس بیت گئے

    مزاحیہ اداکار سکندر صنم کو دنیا سے رخصت ہوئے تین برس بیت گئے

    کراچی: چہرے پر مسکراہٹیں بکھیرنے والے مزاحیہ اداکار سکندر صنم کو دنیا سے رخصت ہوئے تین برس بیت گئے ،لیکن وہ اپنے مداحوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں۔

    آنکھوں میں شرارت اور چہرے پر مسکراہٹ مزاحیہ اداکار سکندر صنم کی زندگی کا سفر بھی بھرپور تھا،وہ گلوکار تو نہ بن سکے مگر کامیڈی کنگ بن گئے۔

    سکندر نے اسٹیج سے اپنی فنکا ری کا آغاز کیا اور پاکستان کے نامور کامیڈین معین اختر اور عمر شریف کے ساتھ بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ سکند ر نے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بھارت میں بھی اپنی اداکاری کا لوہا منوایا اور کامیڈی چیمیئن کہلائے۔

    سکندر صنم نے بالی ووڈ فلموں کی پیروڈی کی اور اپنے چاہنے والوں کو خوب ہنسایا،دوسروں کے لبوں پر مسکراہٹ لانے والا سکندر پانچ نومبر دو ہزار بارہ کو مداحوں کو ادس چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگیا۔

  • ٹی وی اداکارجمشید انصاری کی نویں برسی آج منائی جا رہی ہے

    ٹی وی اداکارجمشید انصاری کی نویں برسی آج منائی جا رہی ہے

    کراچی: پاکستان کے نامور مزاحیہ اداکار جمشید انصاری کو مداحوں سے بچھڑے نو برس بیت گئے،لیکن ان کی مزاحیہ اداکاری آج بھی لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے، معروف اداکارجمشید انصاری پاکستان انڈسٹری کا وہ ستارہ تھے جن کی اداکاری آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہے۔

    کامیڈی میں اپنے آپ کو منوانے والے جمشید انصاری انیس سو بیالس میں بھارت کے شہر سہارن پور میں پیدا ہوئے، جمشید انصاری نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو سے کیا۔ جمشید انصاری نے اسٹیج پر بھی اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔انہوں نے کامیڈین کے طور بھی اپنے فن کا لوہا منوایا اور انکل عرفی، شوشا، تنہایاں، ان کہی، زبر زبر پیش،ہاف پلیٹ جیسے ڈارموں میں لازوال پرفارمنس کی بدودلت اپنے مداحوں کے دلوں میں گھر کرلیا۔

    برین ٹیومر جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہوکر جمشید انصاری چوبیس اگست دو ہزار پانچ کو اپنے مداحوں کو اداس چھوڑ گئے۔ لیکن ان کی یاد دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔