Tag: مزاحیہ ادب

  • ‘ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ…’

    ‘ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ…’

    پاکستان ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ ہونہار مصنفین اور یکہ تاز ناشرین کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کا مسرت سے اعلان کرتی ہے۔ کارخانۂ ہٰذا میں ناول جدید ترین آٹومیٹک مشینوں پر تیار کیے جاتے ہیں اور تیاری کے دوران انہیں ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا۔

    ناول اسلامی ہو یا جاسوسی، تاریخی یا رومانی۔ مال عمدہ اور خالص لگایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ ناول مضبوط اور پائیدار ہوتے ہیں۔

    پڑھنے کے علاوہ بھی یہ کئی کام آتے ہیں۔ بچہ رو رہا ہو۔ ضد کر رہا ہو۔ دو ضربوں میں راہ راست پر آجائے گا۔ بلّی نے دودھ یا کتے نے نعمت خانہ میں منہ ڈال دیا ہو۔ دور ہی سے تاک کر ماریے۔ پھر ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔ بیٹھنے کی چوکی اور گھڑے کی گھڑونچی کے طور پر استعمال ہونے کے علاوہ یہ چوروں ڈاکوؤں کے مقابلے میں ڈھال کا کام بھی دیتا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ اس کے مطالعے سے دل میں شجاعت کے جذبات خواہ مخواہ موجزن ہوجاتے ہیں۔ دوسرے اپنی ضخامت اورپٹھے کی نوکیلی جلد کے باعث۔ خواتین کے لیے ہمارے ہاں واش اینڈ ویئر (Wash and Wear) ناول بھی موجود ہیں تاکہ ہیروئن کا نام بدل کر پلاٹ کو بار بار استعمال کیا جا سکے۔ ایک ہی پلاٹ برسوں چلتا ہے۔ پندرہ بیس ناولوں کے لیے کافی رہتا ہے۔ واش اینڈ ویئر کوالٹی ہمارے اسلامی تاریخی ناولوں میں بھی دستیاب ہے۔ آرڈر کے ساتھ اس امر سے مطلع کرنا ضروری ہے کہ کون سی قسم مطلوب ہے۔ ۶۵% رومان اور ۳۵% تاریخ والی یا ۶۵% تاریخ اور ۳۵% رومان والی۔ اجزائے ترکیبی عام طور پر حسب ذیل ہوں گے۔

    ۱۔ ہیروئن۔ کافر دوشیزہ۔ تیر تفنگ، بنوٹ پٹے اور بھیس بدلنے کی ماہر۔ دل ایمان کی روشنی سے منور۔ چھپ چھپ کر نماز پڑھنے والی۔

    ۲۔ کافر بادشاہ۔ ہماری ہیروئن کا باپ لیکن نہایت شقی القلب۔ انجام اس کا برا ہوگا۔

    ۳۔ لشکر کفار۔ جس کے سارے جرنیل لحیم شحیم اور بزدل۔

    ۴۔ اہل اسلام کا لشکر۔ جس کا ہرسپاہی سوا لاکھ پر بھاری۔ نیکی اور خدا پرستی کا پتلا۔ پابندِ صوم و صلٰوۃ۔ قبول صورت بلکہ چندے آفتاب چندے ماہتاب۔ بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے والا۔

    ۵۔ ہیرو۔ لشکر متذکرہ صدر کا سردار۔ اس حسن کی کیا تعریف کریں، کچھ کہتے ہوئے جی ڈرتا ہے۔

    ۶۔ سبز پوش خواجہ خضر۔ جہاں پلاٹ رک جائے اور کچھ سمجھ میں نہ آئے، وہاں مشکل کشائی کرنے والا۔

    ۷۔ ہیرو کا جاں نثار ساتھی۔ نوجوان اور کنوارا تاکہ اس کی شادی بعد ازاں ہیروئن کی وفادار اور محرم راز خادمہ یا سہیلی سے ہوسکے۔

    ۸۔ کافر بادشاہ کا ایک چشم وزیر جو شہزادی سے اپنے بیٹے کی، بلکہ ممکن ہو تو اپنی شادی رچانے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ چونکہ ادھار محبت کی قینچی ہے۔ لہٰذا ہیروئن کے التفات سے محروم رہتا ہے۔

    پلاٹ تو ہمارے ہاں کئی طرح کے ہیں لیکن ایک اسٹینڈرڈ ماڈل جو عام طور پر مقبول ہے، یہ ہے کہ ایک قبیلے کا نوجوان دوسرے قبیلے کی دوشیزہ پر فدا ہوتا ہے اور ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ دوشیزہ لامحالہ طور پر دوسرے قبیلے کے سردارکی چہیتی بیٹی ہوتی ہے۔ پانچ انگلیاں پانچوں چراغ۔ خوبصورت، سلیقہ مند، عالم بے بدل۔ لاکھوں اشعار زبانی یاد۔ کرنا خدا کا کیا ہوتا ہے، اس بیچ میں دونوں قبیلوں میں لڑائی ٹھن جاتی ہے۔ ہمارا ہیرو محبت کو فرض پر قربان کر کے شمشیر اٹھا لیتا ہے اور بہادری کے جوہر دکھاتا، کشتوں کے پشتے لگاتا دشمن کی قید میں چلا جاتا ہے۔ محافظوں کی آنکھ میں دھول جھونک کر طالب و مطلوب ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اشعار اور مکالموں کا تبادلہ ہوتا ہے اور ہیروئن بی پہلے ایک جان سے پھرہزار جان سے اس پر عاشق ہو جاتی ہے۔ راستے میں ظالم سماج کئی بار آتا ہے لیکن ہردفعہ منہ کی کھاتا ہے۔ دانت پیستا رہ جاتا ہے۔ آخر میں ناول حق کی فتح، محبت کی جیت، نعرہ تکبیر، شرعی نکاح، دونوں قبیلوں کے ملاپ اور مصنف کی طرف سے دعائے خیر کے ساتھ آئندہ ناول کی خوشخبری پر ختم ہوتا ہے۔

    آرڈر دیتے وقت مصنف یا ناشر کو بتانا ہوگا کہ ناول پانچ سو صفحے کا چاہیے، ہزار صفحے کا یا پندرہ سو کا؟ وزن کا حساب بھی ہے۔ دو سیری ناول۔ پانچ سیری ناول۔ سات سیری ناول۔ پندرہ بیس سیری بھی خاص آرڈر پرمل سکتے ہیں۔ گاہک کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ اسی پلاٹ کو برقرار رکھتے ہوئے ماحول کس ملک کا رکھا جائے۔ عراق کا… عرب کا…. ایران کا… افغانستان کا؟ ہیرو اور ہیروئن کے نام بھی گاہک کی مرضی کے مطابق رکھے جاتے ہیں۔ ایک پلاٹ پر تین یا اس سے زیادہ ناول لینے پر ۳۳% رعایت۔

    خواتین کے لیے بھی جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، گھریلو اور غیر گھریلو ہر طرح کے ناول بکفایت ہمارے ہاں سے مل سکتے ہیں۔ ان میں بھی محبت اور خانہ داری کا تناسب بالعموم ۶۵% اور ۳۵% کا ہوتا ہے۔ فرمائش پر گھٹایا یا بڑھایا جا سکتا ہے۔ خانہ داری سے مطلب ہے ناول کے کرداروں کے کپڑوں کا ذکر۔ خاندانی حویلی کا نقشہ۔ بیاہ شادی کی رسموں کا احوال۔ زیورات کی تفصیل وغیرہ۔ ہیرو اور ہیروئن کے چچازاد بھائی اور بہنیں۔ سہیلیاں اور رقیب وغیرہ بھی مطلوبہ تعداد میں ناول میں ڈلوائے جا سکتے ہیں۔ ہمارے کارخانے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ خواتین کے ناول مروجہ پاکستانی فلموں کو دیکھ کر لکھے جاتے ہیں تاکہ بعد ازاں فلم ساز حضرات ان پر مزید فلمیں بنا سکیں۔ معمولی سی اجرت پر ان ناولوں میں گانے اور دو گانے وغیرہ بھی ڈالے جا سکتے ہیں۔ اس سے مصنف اور فلم ساز کا کام اور آسان ہو جاتا ہے۔ گاہک کو فقط ہیروئن کا نام تجویز کر دینا چاہیے۔ باقی سارا کام ہمارے ذمے۔ مال کی گھر پر ڈلیوری کا انتظام ہے۔

    بازار کے ناول بالعموم ایسے گنجان لکھے اور چھپے ہوتے ہیں کہ پڑھنے والوں کی آنکھ پر برا اثر پڑتا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ صفحے میں کم سے کم لفظ رہیں۔ مکالمے اور مکالمہ بولنے والے، دونوں کے لیے الگ الگ سطر استعمال کی جاتی ہے۔ نمونہ ملاحظہ فرمائیے،

    شہزادی سبز پری نے کہا،
    ’’پیارے گلفام!‘‘

    پیارے گلفام نے کہا،
    ’’ہاں شہزادی گلفام۔ ارشاد!‘‘

    شہزادی سبز پری،
    ’’ایک بات کہوں؟‘‘

    گلفام،
    ’’ہاں ہاں کہو۔‘‘

    شہزادی،
    ’’مجھے تم سے پیار ہے۔‘‘

    گلفام،
    ’’سچ!‘‘

    شہزادی صاحبہ،
    ’’ہاں سچ!‘‘

    گلفام،
    ’’تو پھر شکریہ!‘‘

    شہزادی نے کہا،
    ’’پیارے گلفام۔ اس میں شکریہ کی کیا بات ہے۔ یہ میرا انسانی فرض تھا۔‘‘

    ایک ضروری اعلان۔ ہمارے کارخانے نے ایک عمدہ آئی لوشن تیار کیا ہے جو رقت پیدا کرنے والے ناولوں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاں ایسا سین آئے، رونے کے بعد دو دو قطرے ڈراپر سے آنکھوں میں ڈال لیجیے۔ آنکھیں دھل جائیں گی۔ نظر تیز ہو جائے گی۔ مسلسل استعمال سے عینک کی عادت بھی چھوٹ جاتی ہے۔ فی شیشی دو روپے۔ تین شیشیوں پر محصول ڈاک معاف۔ آنکھیں پونچھنے کے لیے عمدہ رومال اور دوپٹے بھی ہمارے ہاں دستیاب ہیں۔

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار، ادیب اور شاعر ابنِ انشا کی کتاب خمارِ گندم سے ایک مزاحیہ تحریر)

  • دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے…

    دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے…

    دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے کہ انڈا پہلے آیا یا مرغی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں انڈا۔ کچھ کا کہنا ہے مرغی۔

    ایک کو ہم مرغی اسکول یا فرقۂ مرغیہ کہہ سکتے ہیں۔ دوسرے کو انڈا اسکول۔ ہمیں انڈا اسکول سے منسلک سمجھنا چاہیے۔ ملت بیضا کا ایک فرد جاننا چاہیے۔ ہمارا عقیدہ اس بات میں ہے کہ اگر آدمی تھانے دار یا مولوی یعنی فقیہ شہر ہو تو اس کے لیے مرغی پہلے اور ایسا غریب شہر ہو تو اس کے لیے انڈا پہلے اور غریب شہر سے بھی گیا گزرا ہو تو نہ اس کی دسترس مرغی تک ہوسکتی ہے نہ انڈا اس کی گرفت میں آ سکتا ہے۔ اسے اپنی ذات اور اس کی بقا کو ان چیزوں سے پہلے جاننا چاہیے، مقدم رکھنا چاہیے۔

    ایک زمانے میں ہمارا دھیان کبھی کبھی مرغی کی طرف بھی جایا کرتا تھا۔ لیکن جب سے بکری کے دام گائے کی قیمت کے برابر ہوئے ہیں اور مرغی بکری کے دام پانے لگی ہے اور انڈا مرغی کے بھاؤ دستیاب ہونے لگا ہے، ہمارے لیے انڈا ہی مرغی ہے۔ ہم وحدت الوجود کی منزل میں آگئے ہیں۔ انڈا یوں بھی بڑی خوبیوں کی چیز ہے۔ اس میں سفیدی ہوتی ہے۔ اس میں زردی ہوتی ہے۔ اس میں چونا ہوتا ہے۔ اس میں پروٹین ہوتی ہے۔ اسے دانہ نہیں ڈالنا پڑتا۔ یہ بیٹ نہیں کرتا۔ بلیاں اس کی جان کی خواہاں نہیں ہوتیں۔ اس کے لیے ڈربا نہیں بنوانا پڑتا۔ اس کے خول پر رنگ کرکے اسے گھر میں سجا سکتے ہیں۔ ہاں کبھی کبھی یہ گندا ضرور نکل جاتا ہے۔ سو اسے آسانی سے اٹھا کر باہر گلی میں پھینکا جا سکتا ہے۔ علامہ اقبال بھی جب نئی تہذیب کے کسی گندے انڈے کو دیکھتے تھے، یہی کہا کرتے تھے۔ افسوس کہ پرانی تہذیب کے گندے انڈوں کے متعلق انہوں نے اپنے کلام میں کوئی واضح ہدایات نہیں چھوڑیں۔ اس لیے ان کے عقیدت مند ان کو سنبھال سنبھال کر رکھے جا رہے ہیں۔

    اقبال کے ایک شارح نے تو اس شعر کی مدد سے علامہ اقبال کی گھریلو زندگی پر بھی پورا مقالہ لکھ دیا ہے۔ آج کل دستور یہی ہے کہ غالب کی زندگی معلوم کرنی ہے تو اس کے دیوان سے اخذ کرو کہ وہ شہر میں بے آبرو پھرا کرتے تھے۔ دھول دھپا اور پیش دستی کیا کرتے تھے۔ درِ کعبہ سے الٹے پھر آیا کرتے تھے۔ سیدھے نہیں۔ اور مرنے کے بعد بھی بولا کرتے تھے۔ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان صاحب نے لکھا ہے کہ علامہ اقبال ایک روز بازار سے نئی تہذیب کے کچھ انڈے لے کر آئے۔ ان کی بیوی آملیٹ بنانے بیٹھیں تو انہیں دوسرا مصرع پڑھنا پڑا۔

    نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

    اس پر علامہ موصوف نے ترکی بہ ترکی یعنی مصرع بہ مصرع ہدایت کی کہ ان کو، اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں۔

    یہ تحقیق یہاں ختم نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ اتنی سی بات کو ہر عامی بھی سمجھ سکتا ہے۔ شارح موصوف کا کہنا ہے کہ شاعر کا گھر کسی گلی میں تھا۔ یہ شعر لازماً ان دنوں کا ہے جب علامہ مرحوم نے میوروڈ پر ابھی اپنی کوٹھی نہیں بنائی تھی۔ ورنہ وہ یہ فرماتے کہ اٹھا کر پھینک دو باہر سڑک پر۔ جناب محقق نے علامہ اقبال کی زبان میں نقص بھی دریافت کیا ہے کہ باہر کا لفظ زاید ہے کیونکہ گلی گھر کے اندر نہیں ہوتی۔ مزید لکھا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو ہر معاملے میں خوامخواہ اپنی رائے دینے کی عادت تھی ورنہ گندے انڈے کو گلی میں پھینکنے کا فیصلہ ان کی بی بی خود بھی کر سکتی تھیں۔

    شارح موصوف نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ شعر علامہ اقبال مرحوم کے ابتدائے جوانی کا ہے۔ جب انہیں پہلوانی اور کسرت اور کرتب بازی سے دلچسپی تھی۔ وہ بھاری بھاری وزن کو اٹھا کر دوچار بار گردش دیتے تھے، پھر پھینکتے تھے۔ یہ ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی۔ اس لیے کہا ہے کہ اٹھا کر پھینک دو۔ صرف ’’پھینک دو‘‘ کہنا کافی نہیں سمجھا۔ معاملہ انڈوں ہی کا کیوں نہ تھا۔ ہمارے خیال میں اس شعر سے ابھی اور معنی نچوڑنے کی بھی گنجائش ہے۔ علامہ مرحوم کو اپنے باطن کی صفائی کی طرف زیادہ دھیان رہتا تھا۔ باہر کی صفائی کا کچھ خیال نہ کرتے تھے۔ ورنہ وہ یہ کبھی نہ فرماتے کہ انڈے اٹھا کر باہر گلی میں پھینک دو۔ انہیں کوڑے کے ڈرم میں پھینکنا چاہیے تھا۔ باہر کسی بھلے آدمی کی اچکن پر گر جاتے تو بڑا فضیحتا ہوتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری قوم کو علامہ مرحوم کی ہر ہدایت پر آنکھ بند کر کے عمل کرنا چاہیے۔ ہماری رائے میں اپنی عقل کا واجبی استعمال بھی کر لینا چاہیے۔ تھوڑی احتیاط بھی لازم ہے۔ ہرخوشہ گندم کو جلانے، مَرمَر کی سلوں سے ناخوش و بیزار ہونے، اس رزق سے موت اچھی ہونے اور گندے انڈے گلی میں اٹھا کر پھینک دینے کے متعلق اشعار اس کی محض چند مثالیں ہیں۔

    آج انڈوں کی طرف رہ رہ کر ہمارا دھیان جانے کی کئی وجہیں ہیں۔ ایک تو سردی دوسرے حکومت کا یہ اعلان کہ گوشت اور دودھ کی طرح انڈوں کی بھی قیمتیں مقرر کی جارہی ہیں تاکہ مقررہ قیمتوں پر نہ ملیں۔ تیسرے شاد عارفی مرحوم کا ایک نادرہ کار شعر ہماری نظر سے گزرا ہے۔ صیاد اور قفس اور نشیمن کے مضمون بہت شاعروں نے باندھے ہیں۔ نئے رنگ اور نئے ڈھنگ سے بھی باندھے ہیں۔ خود علامہ اقبال مرحوم نے بھی ایک بلبل کی فریاد لکھی ہے۔ لیکن اس مضمون کے جملہ تعلقات پرکسی کی نظر نہیں گئی تھی۔ فرماتے ہیں شاد عارفی رام پوری،

    انہیں بھی ساتھ لیتا جا، کہیں ٹکیاں بنالینا
    ارے صیاد دو انڈے بھی رکھے ہیں نشیمن میں

    (اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب ابنِ انشا کی ایک شگفتہ تحریر)

  • سیاست کا لفظی تجزیہ

    سیاست کا لفظی تجزیہ

    جانے وہ کون سے ممالک ہیں جہاں سیاست کو عبادت اور عوام کی خدمت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ وہاں‌ کے قابل و باصلاحیت شہری کوچۂ سیاست میں اس لیے قدم رکھتے ہیں کہ اپنے وطن کے لیے کچھ کرسکیں اور قوم کا وقار بلند کریں۔ ان کے حقوق کی پاس داری کرتے ہوئے ان کو بہت سی سہولیات فراہم کرسکیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں سیاست کا تصور اس کے عین برعکس ہے۔

    اردو ادب میں طنز و مزاح پر مبنی نثر یا شاعری میں بھی ہمیں پاکستان کی بے ڈھنگی سیاست اور بگڑے ہوئے سیاست دانوں کی کہانیاں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ لطائف یا مزاحیہ ادب ہمیں غور و فکر کا موقع دیتے ہوئے مسکرانے پر بھی مجبور کر دیتا ہے۔ یہاں‌ ہم ایک ایسا ہی شگفتہ پارہ نقل کررہے ہیں جو معروف طنز و مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے قلم سے نکلا ہے اور ان کی کتاب ’کتنے آدمی تھے؟‘ میں‌ شامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    انگریزی کا لفظ Politics (سیاست) دو الفاظ کا مرکب ہے، یعنی Poly بمعنی ”بہت سے“ اور tics بمعنی ”خون چوسنے والے ننھے ننھے کیڑے!“ سیاست کے اس لفظی تجزیے سے سیاست داں کی جبلّت پر بخوبی قیاس کیا جا سکتا ہے، خواہ اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطّے سے ہو۔ اس جبلّت کا ایک رخ یہ ہے کہ بھوٹان سے لے کر یونان تک سیاست داں کو اپنے ارد گرد منڈلانے والے اہل غرض یا گھیر گھار کر لائے گئے مٹھی بھر من موجی زیادہ اور اپنے دھرنوں، جلسوں میں خوار ہونے والے کچھ زیادہ لوگ بہت زیادہ نظر آتے ہیں۔ وہ ایک ایک کرسی پر 20 سے 25 آدمیوں کو بیٹھے دیکھتا ہے اور ہزار 1500 آدمیوں کے ”ٹھاٹھیں مارتے سمندر“ سے جھوم جھوم کر خطاب کرتا ہے۔ یہی 1500 لوگ جب اس کے پیچھے ”مارچ“ کی صورت میں جمع ہوتے ہیں، تو وہ ملین سے ہرگز کم نہیں ہوتے۔ یہ اس کی نظر کا قصور نہیں، بلکہ ذہن کا فتور ہے جو اسے صحیح بات کے شعور سے محروم کر دیتا ہے۔

    لطف کی بات یہ ہے کہ جب جلسے، دھرنے اور مارچ مخالف پارٹی کے ہوں تو سیاست داں کی آنکھوں میں کالا موتیا اتر آتا ہے۔ اب اسے 20 کی جگہ ایک آدمی نظر آتا ہے، کرسیاں خالی خالی دکھائی دیتی ہیں اور ریلیاں جعلی۔ اخبارات دونوں پارٹیوں کے مؤقف شائع کر کے عوام کے لئے مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں کہ

    کس کا یقین کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے
    لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ

  • کیا سیاست دانوں‌ کے جھوٹ بولنے پر پابندی لگائی جاسکتی ہے؟

    کیا سیاست دانوں‌ کے جھوٹ بولنے پر پابندی لگائی جاسکتی ہے؟

    برطانیہ کی ریاست ویلز کی حکومت نے گزشتہ سال کے اواخر میں سیاست دانوں کے جھوٹ بولنے پر پابندی لگانے کا عزم کیا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا قانون ہوگا اگر اسے منظور کر کے رائج کیا گیا۔ ویلز کی حکومت اگلے سال کے انتخابات سے قبل یہ قانون متعارف کروا سکتی ہے جس کے تحت جان بوجھ کر گمراہ کن بیانات دینے پر اراکینِ پارلیمان کو معطل کیا جاسکے گا۔

    اگر یہ قانون نافذ ہوجائے گا تو رکن پارلیمان کو جھوٹے یا گمراہ کن بیانات واپس لینے کے لیے 14 دنوں کی مہلت دی جائے گی اور مہلت ختم ہونے پر بذریعہ عدالت اسے اگلے چار سال تک کے لیے الیکشن سے دور رکھا جاسکے گا۔ لیکن ہمارے ملک میں شاید جھوٹ، گمراہ کن بیانات، یو ٹرنز اور کردار کشی کے بغیر سیاست کو سیاست نہیں‌ سمجھا جاتا۔ بلکہ مشہور تو یہ ہے کہ سیاست اور جنگ میں‌ سب کچھ جائز و روا ہے۔ یہ مزاح پارہ پاکستانی سیاست اور ایوانوں‌ میں بیٹھ کر قوم کے مستقبل کے فیصلے کرنے والے سیاست دانوں‌ کی تصویر کشی کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    سیاست داں سے بڑا سیاح کوئی نہیں۔ اندرون ملک وہ ایک پارٹی سے دوسری اور دوسری سے تیسری کی سیاحت کرتا ہے اور اگر کسی جوڑ توڑ کے نتیجے میں برسراقتدار آجاتا ہے، تو سرکاری خرچے پر اپنے اہل و عیال، دوست احباب اور خوشامدیوں کے ساتھ ملکوں ملکوں گھومنے پھرنے کا لائسنس حاصل کر لیتا ہے۔ سیاست داں کو وفاداری بدلنے کے لیے اسمبلی کا ایک ٹکٹ یا کابینہ کی ایک نشست کی ترغیب کافی ہے۔

    اب تو سیاسی وفاداری کا معیار یہ رہ گیا ہے کہ جس پارٹی نے کسی سیاست داں کو خریدا ہے، وہ اسی کا ہو رہے، لیکن وہ تو دھڑلے سے کہتا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حتمی، آخری یا مستقل نہیں ہوتی۔ چناں چہ جب بھی انتخابات کا موسم قریب آتا ہے سیاست کا میدان ”اسٹاک ایکسچینج“ میں تبدیل ہو جاتا ہے اور سودوں میں تیزی آجاتی ہے۔ انگریزی میں اس طرح بک جانے والے سیاست داں کو Turncoat کہا جاتا ہے، جب کہ اردو میں وہ اپنی لڑھکتی خصلت کے باعث ”لوٹا“ کہلاتا ہے۔ جس پارٹی سے وہ قطع تعلق کرتا ہے، وہ اسے ”گندا انڈہ“ قرار دیتی ہے اور جہاں جاتا ہے وہاں اس کی ایسی آؤ بھگت ہوتی ہے کہ وہ خود کو بھگت کبیر سمجھنے لگتا ہے۔ آپ ایسے کسی سیاست داں کے جس کو سابقہ ریکارڈ کی بنا پر شرمندہ کرنے کی کوشش کریں، تو وہ علامہ اقبال کی سند لے آتا ہے:

    جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
    اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

    سیاست داں کا ہر قدم ہر قول، ہر کام قوم کے بہترین مفاد میں ہوتا ہے۔ اس کے ”یو ٹرنز“ قلابازیوں، کہہ مکرنیوں اور وعدہ خلافیوں، سب پر قوم کے بہترین مفاد کی چھاپ لگی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ قومی خزانے کی لوٹ کھسوٹ بھی قوم کے بہترین مفاد میں کرتا ہے۔ وہ قوم کے بہترین مفاد میں کوئی ادارہ بناتا ہے اور پھر قوم کے بہترین مفاد میں اسے بند کر دیتا ہے۔ یہی حال قانون سازی کا ہے۔ بے چارہ قانون خود پکار اٹھتا ہے کہ ’میں ترا چراغ ہوں، جلائے جا بجھائے جا۔‘ عوام کی بے لوث خدمت اس کا اولین و آخرین نصب العین ہوتا ہے۔ سیاست داں اس وقت تک خدمت کرتا رہتا ہے، جب تک دَھر نہیں لیا جاتا اور جب دَھر لیا جاتا ہے، تو پولیس وین میں بیٹھ کر پوری ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگلیوں سے ”وی“ (V) کا نشان بنانا نہیں بھولتا، جس سے اپنے حواریوں کو یہ پیغام دینا مقصود ہوتا ہے کہ ڈٹے رہو جیت بالآخر بدعنوانی کی ہوگی۔ جیل جاتے ہی وہ بیمار پڑ جاتا ہے اور سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسپتال کے اسپیشل واڈ میں داخل کر لیا جاتا ہے۔ اس دوران اس کی ضمانت ہو گئی، تو ٹھیک ورنہ میڈیکل بورڈ فوراً اس کی مرضی کے ملک میں علاج کی سفارش کر دیتا ہے اور وہ یہ کہتا ہوا نو دو گیارہ ہو جاتا ہے کہ؎

    اب تو جاتے ہیں بُت کدے سے میر
    پھر ملیں گے اگر خدا لایا

    (مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تصنیف کتنے آدمی تھے؟ سے اقتباس)

  • نفسیات کی زبان میں اِس طرزِ عمل کو Impulsivity کہتے ہیں!

    نفسیات کی زبان میں اِس طرزِ عمل کو Impulsivity کہتے ہیں!

    چونکہ محاورے کی رُو سے حرکت میں برکت ہے اس لیے بہت سے وہ لوگ جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا (مثلاً سرکاری ملازمین اور باس ٹائپ کے لوگ) اپنے ایک یا دونوں ہاتھوں کو مسلسل کسی نہ کسی فضول حرکت میں مصروف رکھ کر مفت میں برکتیں لوٹتے رہتے ہیں۔

    کچھ لوگ برکت کے حصول کی غرض سے بیٹھے اپنی ٹانگیں ہلاتے رہتے ہیں، کچھ جسم کو کھجاتے ہیں، کچھ میز پر طبلہ بجاتے ہیں، ناخن چباتے ہیں وغیرہ۔ نفسیات کی زبان میں اس طرز عمل کو Impulsivity کہتے ہیں۔

    اردو لغت میں ایسی بابرکت حرکات کے لیے ایک لفظ ملتا ہے: چُل۔ اسی سے لفظ بنا ”چُلبل“ یعنی بے کل، بے چین، نچلا نہ بیٹھنے والا۔

    حضرتِ سودا نے ”شیخ“ کی چُل پر یہ چوٹ کی تھی:
    شیخ کو ذوق اچھلنے سے نہیں مجلس میں
    اس بہانے سے مٹاتا ہے وہ اپنی چُل کو

    کل جب ایک دیرینہ دوست سے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران اچانک لائن کٹ گئی، تو ہمیں نہ جانے کیوں بعض احباب کی چُلیں یاد آگئیں۔ آپ نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہوگا کہ جب ان پر ہنسی کا دورہ پڑتا ہے تو وہ اپنا دایاں ہاتھ ہوا میں بلند کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے ہوا میں اٹھنے والی چیز کو نیچے بھی آنا ہوتا ہے، لہٰذا آپ ان کے قریب بیٹھے ہیں، تو ضرور برداشت کر کے تالی کی آواز پیدا کر دیں۔ اگر آپ نے ایسا نہیں کیا، تو جان لیجیے کہ ان کا ہاتھ آپ کے جسم کے کسی بھی حصے پر گر کر اسے عارضی طور پر سہی، ناکارہ یا غیر فعال بنا سکتا ہے۔ اس لیے کہ زور دار قہقہے کے دوران فریق ثانی کی آنکھیں عموماً بند ہوتی ہیں۔ ہاتھ کہاں گرنے والا ہے اسے کچھ علم نہیں ہوتا۔

    ہمارے ایک دوست اپنے اٹھنے والے ہاتھ کی نچلی منزل کا تعین پہلے سے خود کر لیتے ہیں یعنی سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی ران، لہٰذا ہم جب بھی ان کے پاس جاتے ہیں اپنے دونوں ہاتھوں، رانوں پر رکھ کر ”ارد گرد کے رقبے کا دفاع کر لیتے ہیں۔

    بعض لوگ دورانِ گفتگو اپنے جسم کے کسی نہ کسی عضو (عموماً پیشانی، کھوا، ٹھوڑی، گُدی وغیرہ) کو ہلکے ہلکے سہلاتے رہتے ہیں۔ ٹی وی کے ایک سینئر اداکار کی چُل یہ ہے کہ وہ ڈائیلاگ کی ڈلیوری کے دوران اپنے دائیں نتھنے کو دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے چھیڑتے رہتے ہیں۔ ٹی وی ہی کے ایک اینکر اور سینئر صحافی کی چُل ہے کہ وہ بات کر کے خاموش ہوتے ہیں، تو اپنے چشمے کی ایک کمانی کا سرا چوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ دانش وَر ٹائپ کے لوگ کسی کی بات سن رہے ہوتے ہیں تو بار بار اپنے دونوں ہاتھ تیمم کے انداز میں پورے چہرے پر پھیر کر اور آنکھیں باہر نکال کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ آپ کو بولا ہوا ایک ایک لفظ ان کے ذہن میں پوری طرح سرایت کرتا جا رہا ہے۔ کسی کی بات سنتے وقت بعض لوگوں کی گردن کو قرار نہیں رہتا۔ وہ مسلسل اپنے نیچے یا دائیں بائیں حرکت میں رہتی ہے۔ اوپر نیچے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ آپ کے مؤقف سے متعلق ہے، جب کہ گردن کو دائیں بائیں ہلا کر وہ گویا آپ کے مؤقف کو مسترد کرتے ہیں۔ تاہم یہ اشاراتی زبان کا کوئی پیٹنٹ اصول نہیں ہے۔ حیدرآباد (دکن) کے احباب انکار میں گردن ہلاتے ہیں، تو آپ مایوس نہ ہوں ان کے انکار کا مطلب اقرار ہوتا ہے۔

    (مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی کتاب ’کتنے آدمی تھے؟‘ سے انتخاب)

  • کچھ زخمی کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں…

    کچھ زخمی کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں…

    وطنِ عزیز کی سیاست کا دار و مدار اب اس پر رہ گیا ہے کہ کس جماعت نے کتنا بڑا جلسہ کر کے کتنے زیادہ لوگوں کا وقت ضایع کیا، کتنا بڑا جلوس نکال کر کتنی سڑکوں کو بند کرا کے عوام کو اذیت میں مبتلا کیا، کتنا بڑا اور طویل دھرنا دے کر میڈیا پر رنگ اور معیشت پر زنگ جمایا وغیرہ۔

    بعض برخود غلط قسم کے سیاست داں فخریہ دھمکی دیتے ہیں کہ وہ ایک کال پر پورا شہر و صوبہ یا ملک بند کروا سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام کے جال و مال اور روزگار کو جو نقصان پہنچتا ہے، اس کی ذمے داری وہ حکومت وقت اور برسر اقتدار پارٹی پر ڈال کر اپنے لیے راحت قلب اور روحت روح کا اہتمام کر لیتے ہیں۔ وہ خود ”شرم پروف“ ہوتے ہیں، لیکن مخالفین کو بے شرمی کے طعنوں سے نوازنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ سیاست غریب سے ووٹ اور امیر سے نوٹ لے کر دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کا فن ہے۔ سابق صدر رونالڈ ریگن نے غلط تھوڑی کہا تھا ”سیاست دنیا کا دوسرا قدیم ترین پیشہ ہے۔ مجھے اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ یہ اوّل نمبر پر قدیم ترین پیشے سے قریبی مماثلت رکھتا ہے۔“ اگر غور کیا جائے، تو یہ دونوں پیشے آپس میں ”کزن“ ہیں۔ شاید اس قرابت داری کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمارے ایک انقلابی شاعر آغا شورش کاشمیری نے سیاست کے باب میں کہا تھا:

    مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
    گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

    سیاست داں اور دانش ور کبھی بلاوجہ سچ نہیں بولتے۔ جب کبھی وہ (حادثاتی طور پر) سچ بول جاتے ہیں، تو لوگ ان کا یقین نہیں کرتے۔ امریکا میں سیاست دانوں سے بھری ہوئی ایک بس کسی قومی تقریب میں شرکت کے لیے ایک نواحی گاؤں میں جا رہی تھی۔ جب بس ہائی وے سے گاؤں کے راستے میں آگئی، تو ڈرائیور کی بد احتیاطی کے باعث ایک سنسان مقام پر درخت سے ٹکرا کر الٹ گئی۔ ہر طرف خون اور شیشے کے ٹکڑے بکھر گئے۔ وہاں موجود ایک بوڑھے شخص نے فرض شناسی سے مغلوب ہو کر تن تنہا دو گھنٹے میں ایک بڑا سا گڑھا کھود کر اس میں دفنا دیا۔ شام تک جب حادثے کی خبر عام ہوئی، تو میڈیا والوں نے دیہاتی کو تلاش کر کے حادثے کی تفصیلات لیں اور اس کے جذبۂ انسانیت کو سراہا۔ ایک اخباری نمائندے نے اس سے سوال کیا ”کیا سب لوگ جاں بحق ہوگئے تھے؟“

    ”نہیں جی“ بوڑھے نے سادگی سے جواب دیا ”کچھ زخمی تو کہہ رہے تھے کہ ہم زندہ ہیں، مگر آپ جانتے ہیں، وہ سیاست داں تھے۔

    انگلستان کے ایک وزیراعظم (Benjamin Disraeli) نے اپنے ہی ملک کے ایک سیاست داں کے بارے میں کہا تھا کہ اگر وہ ٹیمز دریا میں گر جائے، تو یہ ایک حادثہ ہوگا، لیکن اگر اسے بچا لیا جائے، تو یہ سانحہ ہوگا۔

    حادثے اور سانحہ کا فرق جاننا ہو تو پروفیسر عنایت علی خان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر

    (ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی تصنیف ”کتنے آدمی تھے؟“ سے انتخاب)

  • ”پِکاسو کے کیا کہنے!“

    ”پِکاسو کے کیا کہنے!“

    اردو ادب میں ہمارا جو مقام ہے (ہماری اپنی نظر میں) اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ہم کچھ کہیں گے، تو کسی کی زبان تھوڑا پکڑی جا سکتی ہے۔ لوگ اسے خود ستائی پر محمول کریں گے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے مضامین میں ہم کورے ہیں۔

    فنونِ لطیفہ سے ہمارے نابلد ہونے کی بات جو اتنی مشہور ہے اس کی کچھ اصل نہیں۔ ڈراما ہو یا موسیقی یا مصوری، کسی میں ہم کسی اور سے ہیٹے نہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے معیار بہت اونچے ہیں۔ لندن میں ہم نے سرلارنس الیور کا ایک کھیل دیکھا اور بہت خوش ہو کر اخباری نمائندوں سے ان کی ہونہاری کی تعریف اور ان کے روشن مستقبل کی پیش گوئی کی اور یہ واقعی سچ ہے کہ وہ برابر اسٹیج پر آتے رہے، تو ایک دن نام پیدا کریں گے۔ شیکسپیئر کو بھی ہم بہت پسند کرتے ہیں اور اردو کے نقادوں سے متفق ہیں کہ اپنے زمانے کا آغا حشر تھا۔

    موسیقی میں لوگوں نے ہمیں اُس روز روشن آرا کی گائیکی پر سَر ہلاتے پکڑا۔ ایک روشن آرا ہیں اور ایک اور ہیں جن کا بھلا سا نام ہے اور نور جہاں ہے۔ ان سب کے فن سے ہم محظوظ ہونے پر قادر ہیں بشرطے کہ ہمیں پہلے سے کوئی بتا دے کہ یہ روشن آرا گا رہی ہیں یا نور جہاں ہی ہیں۔

    مصوری میں ہم اپنی ژرف نگاہی کے قائل ہیں اس روز کسی نے ہمیں اپنی تصویر دکھائی، ہم نے پوچھا کس کی ہے۔ معلوم ہوا پکاسو کی ہے، ہم نے کہا یہ بات ہے تو بہت اچھی ہے۔ پِکاسو کے کیا کہنے ہیں۔ دیکھتے نہیں کہ ان کا ایک ایک نقش فریادی ہے۔ اور رنگ کتنے اعلیٰ کوالٹی کے لگے ہوئے ہیں۔ ہم نے کراچی آرٹس کونسل میں کئی مقامی مصوروں کی نمائشیں دیکھی ہیں لیکن انصاف یہ ہے کہ پکاسو کا کوئی جواب نہیں۔

    (ممتاز ادیب، شاعر اور مشہور مزاح نگار ابنِ انشا کی کتاب ”خمارِ گندم“ سے ایک پارہ)

  • گفتگو کا آرٹ!

    گفتگو کا آرٹ!

    جو کچھ کہنے کا اردہ ہو ضرور کہیے۔ دورانِ گفتگو خاموش رہنے کی صرف ایک وجہ ہونی چاہیے۔ وہ یہ کہ آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ورنہ جتنی دیر چاہے، باتیں کیجیے۔

    اگر کسی اور نے بولنا شروع کر دیا تو موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور کوئی دوسرا آپ کو بور کرنے لگے گا۔ چنانچہ جب بولتے بولتے سانس لینے کے لیے رُکیں تو ہاتھ کے اشارے سے واضح کر دیں کہ ابھی بات ختم نہیں ہوئی یا قطع کلامی معاف کہہ کر پھر سے شروع کردیجئے۔ اگر کوئی دوسرا اپنی طویل گفتگو ختم نہیں کر رہا تو بے شک جمائیاں لیجیے، کھانسیے، بار بار گھڑی دیکھیے۔۔۔ابھی آیا۔۔۔ کہہ کر باہر چلے جائیں یا پھر وہیں سو جائیے۔

    یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگاتار بول کر بحث نہیں جیت سکتے۔ اگر آپ ہار گئے تو مخالف کو آپ کی ذہانت پر شبہ ہو جائے گا۔ البتہ لڑیئے مت، کیونکہ اس سے بحث میں خلل آ سکتا ہے۔ کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو اسے بھی مت مانیے۔ لوگ ٹوکیں، تو الٹے سیدھے دلائل بلند آواز میں پیش کر کے اُنہیں خاموش کرا دیجیے، ورنہ خوامخواہ سر پر چڑھ جائیں گے۔ دورانِ گفتگو لفظ آپ کا استعمال دو یا تین مرتبہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اصل چیزمیں ہے۔ اگر آپ نے اپنے متعلق کچھ نہ کہا تو دوسرے اپنے متعلق کہنے لگیں گے۔ تعریفی جملوں کے استعمال سے پرہیز کریں۔ کبھی کسی کی تعریف مت کریں۔ ورنہ سننے والے کو شبہ ہو جائے گا کہ آپ کو اُس سے کوئی کام ہے۔ اگر کسی شخص سے کچھ پوچھنا ہو تو، جسے وہ چھپا رہا ہو تو بار بار اُس کی بات کاٹ کر اُسے چڑائیے۔وکیل بھی اسی طرح مقدّمے جیتتے ہیں۔

    ( مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی کتاب مزید حماقتیں سے اقتباس)

  • ایک عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہو گئی؟

    ایک عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہو گئی؟

    پوچھا کسی نے، ”بھئی! یہ مغلِ اعظم جیسی عمدہ فلم پاکستان میں ناکام کیوں ہوگئی؟“

    ہمارا جواب تھا، ”بادشاہوں کی فلموں سے انھیں دل چسپی ہوگی جن کے لیے بادشاہت تاریخ کا حصہ ہوگئی ہے، ہم پاکستانیوں کو ”اکبرِاعظم اور نورتن“ کے نظارے کے لیے سنیما جانے کی کیا ضرورت؟“

    بہرحال ”مغلِ اعظم“ کی ناکامی سے قطع نظر اس فلم کی پاکستان میں نمائش سے پاک بھارت ”فلمی تعلقات“ کا ایک نیا دور شروع ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ یہاں فلمی تعلقات کی اصطلاح ہم نے بہت ہی محدود معنوں میں استعمال کی ہے ورنہ دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ سے فلمی انداز ہی کے رہے ہیں اور وہ بھی ایکشن فلموں والے۔ کبھی کبھی ان تعلقات میں رومانوی فلموں کا رنگ آجاتا ہے اور کبھی تو لگتا ہے جیسے سفارتی اسکرین پر روایتی پنجابی فلم کا گانا چل رہا ہو جس میں ناچتی، اچھلتی کودتی اور چھلانگیں لگاتی ہیروئن ”کُل وقتی ناراض“ اور مغل بچوں کی طرح محبوب کو مار رکھنے کی خُو بُو والے ”جٹ“ ہیرو کو دراصل اتنی سی بات باور کروا رہی ہوتی ہے کہ اسے ”بڑے زور کی محبت لگی ہے“، ادھر ہیرو ”اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی“ کی تصویر بنا اکڑا کھڑا ہوتا ہے، جیسے کہہ رہا ہو ”دل میرا اٹوٹ انگ ہے، یہ تو میں کسی حال میں نہیں دوں گا۔“

    بعض حضرات کا خیال ہے کہ ہیرو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ اچھل کود کے نتیجے میں بھاری بھرکم ہیروئن کا وزن ذرا کم ہو تو محبت کا آغاز کیا جائے۔

    جن دنوں ہمارا ملک ”مسلم سوشل فلم“ بنا ہوا تھا، اس زمانے میں بھی یہاں بھارتی فلمیں دیکھنے کی مکمل آزادی تھی اور اب تو وطن عزیز کا منظر نامہ خاصا رنگین، بلکہ ”گلیمرائز“ ہوچکا ہے، لہٰذا قوی امید ہے کہ ہم پاکستانی بہت جلد بڑی اسکرین پر ”چھوٹے کپڑے“ دیکھ کر کمپیوٹر اور ٹی وی کی اسکرین سے زیادہ محظوظ ہوں گے۔ بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے امکان کے ساتھ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے اداکار اور اداکارائیں ایک دوسرے کے ملک میں آ…جا اور باہم گھل مِل رہے ہیں۔ دوستی بڑھانے کا یہ بہت اچھا موقع ہے، بشرطے کہ اداکار موقع سے فائدہ اٹھانا جانتے ہوں۔

    بہت سے حضرات کو پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر سخت اعتراض ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلموں کی نمائش دوطرفہ بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ہم نہ صرف اس مطالبے کی پرزور تائید کرتے ہیں، بلکہ ہمارا تو کہنا ہے کہ حکومت پاکستان، بھارت سرکار سے مطالبہ کرے کہ وہ اپنے ملک میں ”فلم بینی بالجبر“ کا قانون منظور کرواکے ہر بھارتی کو پاکستانی فلمیں دیکھنے کا پابند بنا دے۔

    ویسے ہمیں ذاتی طور پر بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش سے زیادہ پاکستانی فلموں کی بھارت میں نمایش سے دل چسپی ہے۔ ہمارے خیال میں اگر ہماری پنجابی فلمیں دہلی، ممبئی اور کولکتہ وغیرہ کے سنیما گھروں میں چلنے لگیں تو بھارتیوں کے دل میں ”گنڈاسے“ کی ایسی دہشت بیٹھے گی کہ وہ کہہ اٹھیں گے ”بھگوان کے لیے کشمیر لے لو، مگر ہمیں اپنی فلمیں نہ دکھاؤ۔“

    ہم اس رائے کے تہِ دل سے حامی ہیں کہ دونوں ملک مشترکہ فلم سازی کریں، مگر ہمارا کہنا ہے کہ یہ مشترکہ فلمیں یک طرفہ کے بہ جائے ”مشترکہ ”ہی نظر آنی چاہییں۔ یعنی ان فلموں میں نہ صرف دونوں ملکوں کے اداکار ایک ساتھ کام کریں، بلکہ فلموں کے نام، کہانیاں اور مناظر بھی مشترکہ نوعیت کے ہوں، چوں کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے، اس لیے ہم یہاں ایک مشترکہ فلم کا خاکہ تجویز کررہے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس مجوزہ خاکے پر اور اس فارمولے کے تحت بننے والی فلم ہی مشترکہ کہلانے کی مستحق ہوگی۔

    ہماری تجویز کردہ فلم کا نام ہے ”جٹ تے مغل اعظم“ ہم یقینِ کامل کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر اس نام سے ”مغل اعظم“ کا ری میک بنایا جائے تو نہ صرف یہ فلم کام یاب ہوگی، بلکہ کئی ”کھڑکی توڑ ہفتے“ بھی مکمل کرے گی۔ اب جہاں تک کہانی کا تعلق ہے تو ہماری رائے میں کہانی کا آغاز لکھ کر اختتام کرداروں پر چھوڑ دیا جائے، ”جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا۔“ رہے مکالمے، تو اصل مغل اعظم کے ہر مکالمے کے شروع اور آخر میں ”اوئے“ لگا کر انھیں مشترکہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ بات ہم بہ صد اصرار کہیں گے کہ برصغیر میں نہ سہی، فلم میں مرکزی کردار پاکستان ہی کو ملنا چاہیے۔ اگر سلطان راہی حیات ہوتے تو ہم ”شہزادہ سلیم“ کے کردار کے لیے انھی کا نام تجویز کرتے۔ ایسی صورت میں فلم کا اختتام یقینا کسی ایسے منظر پر ہوتا کہ ”اکبر اعظم“ دیوار میں ”چُنے“ ہوئے ”شیخو شیخو“ پکار رہے ہیں اور ”شیخو“ انارکلی کو گھوڑی پر بٹھائے گنڈاسا لہراتا ”ٹپاٹپ ٹپا ٹپ“ دوڑا چلا جارہا ہے۔

    ”شیخو“ کے کردار کے لیے ہمارے ذہن میں دوسرا نام محمد علی کا تھا۔ ایک زمانے میں ہمارے ہاں تاریخی فلمیں بناتے وقت صرف فلم ریلیز کرنے کی تاریخ کے بارے میں سوچ بچار کی جاتی تھی، باقی سارے امور طے شدہ ہوتے تھے۔ مثلاً یہی کہ مرکزی کردار محمد علی کو ادا کرنا ہے۔ وہ تو خیریت گزری کہ قائد اعظم پر فلم لولی وڈ کے کسی فلم ساز اور ہدایت کار نے نہیں بنائی، ورنہ یہ کردار بھی محمد علی کو ملتا اور ان کے جذباتی طرز بیان سے متاثر ہوکر ”انگریز“ دو تین مناظر کے بعد ہی پاکستان بنانے پر مجبور ہوجاتے اور پوری فلم صرف دس پندرہ منٹ میں نمٹ جاتی۔ اسی طرح ”جٹ تے مغل اعظم“ کی کہانی میں انارکلی کا انجام اس بات پر منحصر ہوتا کہ محمد علی اکبر بادشاہ کا کردار کرتے ہیں یا شہزادہ سلیم کا۔ خیر، نہ سلطان راہی رہے نہ محمد علی، لہٰذا اب تو جو ہیں انھی سے کام چلانا پڑے گا۔ ایسے میں بہتر ہوگا کہ انارکلی کا کردار صائمہ کو دے دیا جائے۔ ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری یہ اداکارہ تمام بھارتی اداکاراؤں پر بھاری ہے، تاہم، ہمارے دعوے کی صداقت معلوم کرنے کے لیے آپ کو سنیما اسکرین کے بجائے ویٹ مشین سے رجوع کرنا ہوگا۔ اگر صائمہ نے انار کلی کا روپ دھارا تو اکبر اعظم کی کیا مجال کہ انارکلی کو دیوار میں چنوا سکیں۔ اوّل تو بادشاہ سلامت کی ہمت ہی نہیں ہوگی کہ مغلیہ سلطنت کی طرح ”وسیع و عریض“ اس انارکلی پر ”لشکر کشی“ کرسکیں۔ دوسرے ”ٹھیکے دار“ کا بھی یہی مشورہ ہوگا ”مہا بلی! دیوار اتنا بوجھ نہیں سہار سکے گی۔“ یوں فلم کا اختتام غم ناک ہونے کے بہ جائے خوش گوار ہوگا۔

    (معروف ادیب اور شاعر محمد عثمان جامعی کی ایک شگفتہ تحریر، وہ متعدد کتابوں کے مصنّف ہیں اور بطور طنز و مزاح نگار ادبی حلقوں میں‌ شہرت رکھتے ہیں)

  • "ناغے کے مزے لوٹے ہر دور میں ناغہ خوروں نے!”

    "ناغے کے مزے لوٹے ہر دور میں ناغہ خوروں نے!”

    مصنّف: شائستہ زرّیں

    بچپن کی یادوں نے جب بھی ہمیں ستایا تو جہاں بچپن کے سنگی ساتھی یاد آئے وہاں اسکول کا زمانہ بھی بہت یاد آیا۔

    اسکول کا ذکر آئے اور ناغے کی بات نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں اور ہمارا مشاہدہ بھی یہی ہے کہ دورِ ضعیفی میں بھی جب ماضی اپنی گرفت میں لیتا ہے تو بچپن کی یادوں اور باتوں میں ناغے کے دن بہت ستاتے ہیں۔ ممکن ہے اوروں کامشاہدہ اور تجربہ ہمارے مشاہدے کے برعکس ہو۔ بات ہو رہی تھی ناغے کی۔ زمانۂ طالبعلمی میں نیا کیلینڈر اسی لیے تو اچھا لگتا تھاکہ اس میں سال بھر کی تعطیلات کی فہرست بھی ہوتی تھی اور اگر کوئی چھٹّی اتوار کو پڑ جاتی تو ناغہ کا سارامزہ کرکرا ہو جاتا۔ یہ چھٹیاں بہت پُرلطف ہوتیں۔ پھر یوں ہوا کہ اسکول کا زمانہ بھی رخصت ہوا۔ اسکول کو خیرباد کہہ کر ہم نے کالج کی راہ پکڑی تو آئے دن کے ”ہڑتالی ناغوں“ نے ناغے کی ساری خوشی خاک میں ملا دی اور ناغہ ہماری آنکھوں میں خار بن کر کھٹکنے لگا۔ ہر بات کی آخر ایک حد اور خصوصی ناغوں کی لذت ہی الگ ہوتی ہے۔

    آج یادوں نے ذہن پر دستک دی تو جہاں زمانۂ طالبعلمی کے ناغوں نے اپنے حصار میں لیا وہاں انواع و اقسام کے ناغہ خوروں کا خیال بھی ہمیں ستانے لگا۔ ان میں سے بعض تفریحاً، چند مجبوراً، اکثر عادتاً اور کچھ تقلیداً ناغہ کرتے ہیں۔ آخری قسم کے ناغہ خور وہ ہیں جو اچھے بھلے جی رہے ہوتے ہیں، عادی ناغہ خوروں کو دیکھ کر اُنھیں بھی ناغہ کی ہڑک اُٹھتی ہے اور وہ ناغہ کا ذائقہ چکھنے کو بے چین ہوجاتے ہیں، لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو دانائی کے تقاضوں کے پیشِ نظر ناغہ کرتے ہیں اوراپنے تو اپنے غیر بھی اُن کے ہنر کی داد دیتے نظر آتے ہیں۔ ان روایتی و مثالی ناغہ خوروں کے درمیان کئی ایک ایسے بھی ہوتے ہیں جو ناغہ کے تصور ہی سے خائف ہو جاتے ہیں۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے ناغہ جن کے لیے پیغامِ حیات لاتا ہے۔ ناغہ خوروں کی وجہ سے اُن کی چاندی جو ہو جاتی ہے۔ ظہیر کو جمعہ کو بخار چڑھا، ہفتہ ناغہ ہوا، اتوار کو دوبارہ اُسے بخار نے آ لیا، پیر کو ایک مرتبہ پھر ناغہ۔ ظہیر تو بوکھلا گیا۔ ڈاکٹر کے پاس گیا اور اُنھیں اپنا فسانۂ درد سنا کر پوچھا ؎ اے مسیحا یہ ماجرا کیا ہے؟

    ڈاکٹر نے حسبِ پیشہ دو بول تسلی کے دیے، دو سو فیس کے لِیے اور دو ہزار کے ٹیسٹ ظہیر کی نذر کیے تو وہ تلملا گیا۔ اوائلِ بچپن ہی سے اُسے ٹیسٹ سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ اِدھر ڈاکٹر نے اُس کے ہاتھ میں ٹیسٹ کا پرچہ تھمایا، اُدھر یک بیک وہ اپنے بچپن میں پہنچ گیا جب عین ٹیسٹ والے روز بالکل اچانک اُس کے کسی بھی حصہ جسم میں درد کا ایسا شدید حملہ ہوتا کہ وہ بے حال ہو جاتا۔ درد چونکہ نظر بھی نہیں آتا، اسے وہی محسوس کرسکتا ہے جو اس میں مبتلا ہو۔ سو، ظہیر مزے سے ناغہ کر لیتا اور ایسا ہر اُس دن ہوتا جب ماہانہ ٹیسٹ ہوتا۔ باقی دن وہ چین کی بانسری بجاتا اور ماہانہ ٹیسٹ ختم ہوتے ہی پہلے کی طرح ہشاش بشاش ہو جاتا۔ گھر والے اِس صورت حال سے حیران و پریشان تھے، لیکن اللہ جانے ظہیر نے ڈاکٹر سے کیا ساز باز کر رکھی تھی کہ وہ بھی ظہیر کے ساتھ شریک ہوجاتے اور اب جو برسوں بعد ظہیرکو درحقیقت ناغہ کا بخارچڑھا تو وہ خود ڈاکٹر کی سازش کا شکار ہو گیا کہ ٹیسٹ کی نوعیت بے شک بدل گئی تھی لیکن اس کی یہ ہیَت خاصی ہیبت ناک تھی۔ یکایک ظہیر کو احساس ہوا کہ اسکول کے ٹیسٹ تو بہت بے ضرر اور تعلیمی سفر کا زادِ راہ ہوا کرتے تھے اور یہ ٹیسٹ جیب کٹنے کی علامت ہیں۔ اُس کی مہینہ بھر کی خون پسینے کی کمائی کا بڑا حصہ ناغہ کی اذیت کی نذرہو گیا تو زندگی میں پہلی بار ناغہ سخت برا لگا اور اُسے اپنا مصلحتاً کیا جانے والا ناغہ بلکہ بے دریغ ناغے یاد آگئے۔

    شوکت کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنھیں تفریحاً ناغہ کی بہت سوجھتی ہے۔ مثلاً اگر کل میں دفتر سے ناغہ کر لوں تو مزہ ہی آجائے، کئی روز ہوئے گرلز کالج کا چکر نہیں لگایا، ایک دن کے ناغہ کے عوض دل لگی میں کیا برائی ہے؟ بہت ممکن ہے، ایک دن کی دل لگی شوکت کی شان و شوکت میں اضافے کا سبب بن کر دائمی خوشیوں کی نوید دے دے۔ شوکت نے اپنا سراپا آئینے میں دیکھ کرسوچا اور دفترسے ناغہ کر کے گرلز کالج کی راہ پکڑی۔ اب یہ شوکت کے نصیب کہ اُن کی شان تو کیا بڑھتی ہاں رہی سہی شوکت بھی خاک میں مل گئی۔اُس روز ناغہ کے طفیل شوکت کی وہ بھد اڑی کہ دفترسے مستقل ناغہ کی نوبت آگئی کہ جس لڑکی کو وہ شیشے میں اُتارنے کی ناکام کوشش کررہے تھے وہ کوئی اور نہیں اُن کے باس کی بیٹی تھی۔

    ناغہ ہر ایک کو راس نہیں آتا۔ ہفتہ وار سرکاری تعطیل کے علاوہ بھی ہفتہ وار ناغہ کیا جا سکتا ہے۔ اس خیال کے ساتھ ہی ہمیں وہ ناغہ یاد آگیا جس کی اطلاع نے ایک پل میں ہمیں کئی کیفیتوں سے گزار دیا تھا۔ آج آپ بھی اس ناغہ کی روداد سے لطف اندوز ہوں۔

    استاد کی زبان سے ادا ہونے والا ایک تاکیدی جملہ بھی شاگردوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے، سو پروفیسر صاحب کا ہدایت نامہ ہم نے بھی بصد عجز و نیاز سُنا کہ ”منگل کے علاوہ کسی روز بھی آجانا کہ منگل کو میرا اور گوشت کا ناغہ ہوتا ہے۔“ منگل کے گوشت کا ناغہ تو بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں لیکن پروفیسر صاحب کے منگل کے ناغہ کا ذکر سُن کر ہم چونکے بغیر نہ رہ سکے۔ ہمیں زمانۂ طالبعلمی یاد آگیا جب بغیر اطلاع ناغہ کرنے پر طالبعلموں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاتی تھی اور اطلاعی ناغہ کرنے والوں سے بھی باز پُرس ضرور کی جاتی تھی۔ دستاویزی ثبوت کافی نہ سمجھا جاتا تھا۔ اب جو پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کا ذکر کیا تو خیال آیا کہ پروفیسر صاحب بلاجواز اتنے دھڑلّے سے ہفتہ وار ناغہ کی تہمت نہیں اٹھا سکتے۔ یقیناً منگل کو تنقید، تحقیق و تخلیق کے نت نئے در وا ہوتے ہوں گے کہ تینوں امور پروفیسر صاحب کی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ منگل شادمانی کو کہتے ہیں یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ منگل کو ناغہ کر کے پروفیسر صاحب فال نکالتے ہوں کہ امتحان کے لیے کون سی شبھ گھڑی ہو گی جب طالبعلم خلافِ توقع پرچہ دیکھ کر بھی اپنی تمام تر توجہ پرچے پر ہی مرکوز رکھیں گے اور کسی بھی اشتعال یا انتقام کی کیفیت میں مبتلا نہ ہوں گے۔

    پروفیسر صاحب کے ناغہ کی گتھی تھی کہ سلجھ کر ہی نہیں دے رہی تھی، یکایک ہمیں اُن ناغہ خوروں کا خیال آگیا جو دانائی کے تقاضوں کے پیشِ نظر ناغہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک دانا کا تجربہ بھی یاد آگیا کہ ”قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا“ تب ہمیں ایک اور پروفیسر صاحب یاد آگئے جو پڑھاتے بیشک بہت اچھا تھے لیکن قدر کھو دینے کے خدشے کے تحت تین دن ہونے والی کلاس میں سے بھی ایک دن ناغہ ضرورکرتے اور شاگرد ایسے ناخلف اور ناقدرے کہ اُستاد کی دانائی کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے اُن سے ایسے بدظن ہوئے کہ اُن کی قدر و منزلت تک دل سے نکال بیٹھے، لیکن جن پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کا ذکر کیا تھا وہ تو تدریسی ذمہ داریاں نباہنے میں بے مثال ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کے ساتھ گوشت کے ناغہ کا ذکر کیوں کیا؟ ہماری سُوئی تو یہیں آکر اٹک گئی تھی۔ ”بذلہ سنج ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں“ ہمارے دماغ نے ہمیں راہ دکھائی۔

    پروفیسر صاحب کی حکمت کا راز جانتے جانتے ہم نے خود حکمت کے موتی چننے شروع کردیے مگر عقدہ تھا کہ حل ہو کے ہی نہیں دے رہا تھا کہ آخر منگل کو ہی ناغہ کیوں؟ جب کچھ لوگ اگر گوشت کے ناغہ کا غم منا رہے ہوتے ہیں تو بعض لوگ ناغہ کی مدت جلد ختم ہونے کی مسرت سے دوچار ہوتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کا ناغہ گورکھ دھندا بن گیا، ایسا پیچیدہ معاملہ جس میں الجھ کر خیال کے نت نئے پھول تو کھل گئے مگر ناغہ کا سراغ پھر بھی نہ مل سکا۔ اگر آپ میں ہمت ہے تو سراغ لگا لیجیے! شاید یہ کام یابی آپ کے حصے میں آجائے اور ہم پر بھی پروفیسر صاحب کا منگل کا ناغہ اور وہ بھی گوشت کے ناغہ کے ساتھ مذکور ناغہ کا راز منکشف ہوجائے۔

    ہاں ایک عہدے دارایسا بھی ہے جس کے ذمے ناغہ کرنے اور نہ کرنے والوں کی فہرست درج کرنا لکھا ہوتا ہے جسے اپنے ناغے سے زیادہ اوروں کے ناغے کا خیال ہی نہیں رہتا بلکہ وہ اُن کے ناغوں کا حساب اور ریکارڈ تک اپنے پاس رکھتا ہے۔ تمام ناغہ خوروں کے مزاج اور مسائل بھی سمجھتا ہے تو کیوں نہ ناغہ نویس سے ملا جائے جو عمرکے ہر حصے میں ناغہ کے مزے لوٹنے والوں کے تمام حربوں، حیلوں اور جواز سے واقف ہوگا۔ شاید ناغہ نویس کے توسط سے ہم مزید ناغہ خوروں سے ملاقات کر لیں۔ اُن ناغہ خوروں سے جو سرِدست ہماری دسترس سے دُور ہیں اور شاید اس طرح ہمارے علمِ ناغہ خوری میں قابلِ قدر اضافہ ہو جائے۔ لیکن یہ اضافہ طالبعلم بھی تو کر سکتے ہیں کہ ناغہ کی اصل عادت تو اسکول کے زمانے ہی سے پڑتی ہے نا؟ کیا خیال ہے؟