Tag: مزاحیہ ادب

  • میرا من پسند صفحہ

    میرا من پسند صفحہ

    کچھ لوگ صبح اُٹھتے ہی جماہی لیتے ہیں، کچھ لوگ بستر سے اُٹھتے ہی ورزش کرتے ہیں، کچھ لوگ گرم چائے پیتے ہیں۔ میں اخبار پڑھتا ہوں اور جس روز فرصت زیادہ ہو اس روز تو میں اخبار کو شروع سے آخر تک مع اشتہارات اور عدالت کے سمنوں تک پورا پڑھ ڈالتا ہوں۔

    یوں تو اخبار سارے کا سارا اچھا ہوتا ہے لیکن عام لوگوں کے لیے اخبار کا ہر صفحہ اتنی دل چسپی نہیں رکھتا۔ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو اخباروں میں صرف ریس کا نتیجہ دیکھتے ہیں یا وہ صفحہ جس پر روئی، تلی، پیتل، لوہا، تانبا، پٹ سن، سونا، چاندی، گڑ، پاپڑ اور آلوؤں کے سوکھے قتلوں کے بھاؤ درج ہوتے ہیں اور ایسے بھی لوگ ہیں جو اخبار کا پہلا صفحہ ہی پڑھتے ہیں جس پر بڑی وحشت ناک خبریں موٹے موٹے حروف میں درج ہوتی ہیں۔ روز قتل اور ڈاکہ اور بد دیانتی اور خون خرابے کے واقعات کو بڑی بڑی سرخیوں میں چھاپا جاتا ہے۔ بعض لوگ اخبار کے ہاتھ میں آتے ہی اُس کا اداریہ کھول کے پڑھتے ہیں جس پر آج ایک چیز کے حق میں لکھا گیا ہے تو کل اُسی ذمہ داری سے اُس چیز کے خلاف لکھا جائے گا اور اگر پہلے دن آپ اس چیز کے حق میں ہوں گے تو دوسرے دن اس کے خلاف ہوجائیں گے۔ یار لوگوں نے اس صورت حال کا نام رائے عامہ رکھ چھوڑا ہے۔ خیر اپنی اپنی سُوجھ بُوجھ۔

    آج کل میرا من پسند صفحہ وہ ہے جو پہلا صفحہ اُلٹنے کے فوراً بعد آتا ہے۔ دوسرا صفحہ جس پر صرف اشتہار ہوتے ہیں، میرے خیال میں یہ اخبار کا سب سے سچا، سب سے عمدہ اور سب سے دلچسپ صفحہ ہوتا ہے۔ یہ انسانوں کے لین دین اور تجارتی کاروبار کا صفحہ ہے۔ ان کی ذاتی مصروفیتوں اور کاوشوں کا آئینہ دار ہے۔ ان کی زندگی کی ٹھوس سماجی حقیقتوں کا ترجمان ہے۔ یہاں پر آپ کو کار والے اور بے کار ٹائپسٹ اور مل مالک مکان کی تلاش کرنے والے اور مکان بیچنے والے، گیراج ڈھونڈنے والے اور ذاتی لائبریری بیچنے والے، کُتے پالنے والے اور چوہے مارنے والے، سرسوں کا تیل بیچنے والے اور انسانوں کا تیل نکالنے والے، پچاس لاکھ کا مِل خریدنے والے اور پچاس روپے کی ٹیوشن کرنے والے سبھی بھاگتے دوڑتے، چیختے چلاتے، روتے ہنستے، نظر آتے ہیں۔ یہ ہماری زندگی کا سب سے جیتا جاگتا صفحہ ہے جس کا ہر اشتہار ایک مکمل افسانہ ہے اور ہر سطر ایک شعر۔ یہ ہماری دنیا کی سب سے بڑی سیر گاہ ہے جس کی رنگا رنگ کیفیتیں مجھے گھنٹوں مسحور کیے رکھتی ہیں۔ آئیے آپ بھی میرے اس من پسند صفحہ کی دلچسپیوں میں شامل ہوجائیے۔ دیکھئیے یہ ذاتی کالم ہے۔

    نائیلان جرابوں کا اسٹاک آگیا ہے، بیوپاری فوراً توجہ کریں۔ آپ کہیں گے یہ تو کوئی ذاتی دل چسپی کی چیز نہیں ہے۔ بھئی ہمیں نائیلان جرابوں سے کیا لینا، یہ صحیح ہے لیکن ذرا صنفِ نازک سے پوچھیے، جن کے دل یہ خبر سُن کر ہی زور سے دھڑک اُٹھے ہوں گے اور ٹانگیں خوشی سے ناچنے لگی ہوں گی۔ آج کل عورت کے دل میں نائیلان جراب کی وہی قدر و قیمت ہے جو کسی زمانے میں موتیوں کی مالا کی ہوتی تھی۔ آگے چلیے۔

    ڈارلنگ فوراً خط لکھو، معرفت ایس ڈی کھرونجہ نیلام پور۔ کون ڈارلنگ ہے وہ۔ کسی مصیبت میں ہے وہ۔ وہ کیوں اس کے گھر یا کسی دوست یا سہیلی کے ہاں خط نہیں بھجوا سکتا۔ اخبار میں یہ اشتہار کیوں دے رہا ہے کہ بیچارہ دیکھیے کیسی کیسی مجبوریاں ہوں گی، اس بیچاری لڑکی کے لیے بھی۔ وہ بھی میری طرح ہر روز یہ اخبار کھولتی ہوگی۔ اس میں ذاتی کالم دیکھتی ہوگی اور اپنے لیے کوئی خبر نہ پاکر کیسی اُداس اور رنجور ہوجاتی ہوگی اور آج جب وہ ذاتی کالم میں یہ خبر پڑھے گی تو کیسے چونک جائے گی، خوشی سے اس کا چہرہ چمک اٹھے گا۔ مسرّت کی سنہری ضیا اس کی روح کے ذرے ذرے کو چمکا دے گی اور وہ بے اختیار اخبار اپنے کلیجے سے لگا لے گی اور اس کی لانبی لانبی پلکیں اس کے رخساروں پر جھک جائیں گی یعنی اگر اس کی لانبی پلکیں ہوئیں تو ورنہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی پلکیں نہایت چھوٹی چھوٹی ہوں، جیسے چوہیا کے بال ہوتے ہیں اور ماتھا گھٹا ہوا ہو۔ کچھ بھی ہو وہ ایس ڈی کھرونجہ کی ڈارلنگ ہے۔ ایس ڈی کھرونجہ کون ہے؟ اب اس کے متعلق آپ اندازہ لگائیے۔ ممکن ہے وہ کوئی بھڑونجہ ہو یا معمولی کلرک ہو یا ہلاس مونی گولیاں بیچنے والا ہو یا نیلا پور میں رس گلے اور بنگالی مٹھائی کی دکان کرتا ہو یا کسی بڑے مل کا مالک ہو وہ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے اور اب سوچتے جائیے، دیکھیے زندگی کس قدر دلچسپ ہوتی جارہی ہے۔

    اس سے اگلا کالم دیکھیے، یہ مکانات کا کالم ہے۔ یہ بھی بے حد دلچسپ ہے کیونکہ آج کل مکان کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے لیکن یہاں آپ کو ہر طرح کے مکان مل جائیں گے۔

    میرے پاس سمندر کے کنارے ایک بنگلے میں ایک علیحدہ کمرہ ہے لیکن میں شہر میں رہنا چاہتا ہوں۔ اگر کوئی صاحب مجھے شہر کے اندر ایک اچھا کمرہ دے سکیں تو میں انہیں سمندر کے کنارے کا اپنا کمرہ دے دوں گا اور ساتھ ہی اس کا کل ساز و سامان بھی جس میں ایک صوفہ دو ٹیبل لیمپ اور ایک پیتل کا لوٹا شامل ہے۔

    لیجیے اگر آپ شہری زندگی سے اُکتا گئے ہوں تو سمندرکے کنارے جا کے رہیے۔ اگر آپ سمندر کے کنارے رہنے سے گھبراتے ہوں تو شہر میں جا کے رہیے۔ پیتل کا لوٹا تو کہیں بھی رہ سکتا ہے۔

    یہ دوسرا اشتہار دیکھیے۔

    کرائے کے لیے خالی ہے، نیا مکان، آٹھ کمرے، دو کچن پانچ غسل خانے، گراج بھی ہے اور مکان کے اوپر چھت ابھی نہیں ہے۔ مگر اگلے مہینے تک تیار ہوجائے گی۔ کرائے دار فوراً توجہ کریں۔

    آپ یہ پڑھ کر فوراً توجہ کرتے ہیں بلکہ کپڑے بدل کر چلنے کے لیے آمادہ بھی ہوجاتے ہیں کہ اتنے میں آپ کی نظر اگلی سطر پر پڑتی ہے لکھا ہے۔

    ’’کرایہ واجبی مگر سال بھر کا پیشگی دینا ہوگا۔ سالانہ کرایہ اٹھارہ ہزار۔‘‘

    اور آپ پھر بیٹھ جاتے ہیں اور اگلا اشتہار دیکھتے ہیں، لکھا ہے عمدہ کھانا، بہترین منظر، کھلا کمرہ، فرنیچر سے سجا ہوا بجلی پانی مفت۔ کرایہ سب ملا کے ساڑھے تین سو روپے ماہانہ۔

    آپ خوشی سے چلّا اٹھتے ہیں مِل گیا، مجھے ایک کمرہ مل گیا اور کس قدر سستا اور عمدہ اور کھانا ساتھ میں۔ واہ واہ آپ فوراً خط لکھنے کی سوچتے ہیں اور پھر کلیجہ پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ آگے لکھا ہے؛

    ’’دل کُشا ہوٹل دار جلنگ‘‘

    ظاہر ہے کہ آپ بمبئی میں نوکر ہیں۔ دلکشا ہوٹل۔ دارجلنگ میں رہ کر بمبئی کی نوکری نہیں کرسکتے۔

    اس کا اگلا کالم موٹروں کتابوں اور کتوں کا ہے۔ اس میں آپ دیکھیں گے کہ ایک ہی ماڈل کی نئی گاڑی ہے مگر وہ دو مختلف داموں میں بک رہی ہے۔ سیٹھ حُسن لال کی گاڑی سات ہزار میں بکاؤ ہے، کیونکہ وہ اسے بیچ کر کوئی دوسرا ماڈل لینا چاہتے ہیں اور وہی گاڑی مسٹر مکڈانلڈ کے پاس ہے اور وہ اسے دو ہزار میں بیچے دے رہے ہیں کیونکہ مسٹر مکڈانلڈ ولایت جا رہے ہیں۔ ایک خوب صورت کتّا ہے جو ڈیڑھ سو میں بکتا ہے۔ شکسپیئر کے ڈراموں کا باتصویر سیٹ ہے جو دس روپے میں جارہا ہے۔ یہ میں نے بارہا دیکھا ہے کہ کتوں کے دام کتابوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی کہ اس کالم میں موٹروں اور کتوں کے خریدنے اور بیچنے والے تو بہت ملتے ہیں، لیکن کتابوں کے صرف بیچنے والے تو نظر آتے ہیں خریدنے والا کوئی نہیں۔ جتنے اشتہار ہیں اس سے ہمیں اپنے ملک کے عظیم کلچر کا اندازہ ہوتا ہے۔

    اس صفحہ کا سب سے آخری کالم جسے میں سب سے پہلے پڑھتا ہوں، شادی کا کالم ہے۔ بر کی ضرورت ہے، ایک نوجوان حسین اٹھارہ سالہ گریجویٹ لڑکی کے لیے۔

    بَر کی ضرورت ہے، ایک خوش رو خوش خو اور خوش قامت تعلیم یافتہ بے حد حسین لڑکی کے لیے جو ناچنا گانا بھی جانتی ہے اور ادبی ذوق بھی رکھتی ہے۔

    بَر کی ضرورت ہے، ایک خوبصورت خاندانی لڑکی کے لیے جس کا باپ ایک مل کا مالک ہے، لڑکا اچھا ہونا چاہیے، ذات پات کی کوئی تمیز نہیں۔

    اور میں بھی ذات پات کی پروا کیے بغیر ہر جگہ عرضی بھیجنے کی سوچتا ہوں کہ اتنے میں میری بیوی میرے سر پرآن کے کھڑی ہوجاتی ہے اور مجھ سے پوچھتی ہے کیا پڑھ رہے ہو؟ اور میں ایک حزیں مسکراہٹ سے اپنا من پسند صفحہ بند کر دیتا ہوں۔

    (کرشن چندر کے ایک شگفتہ مضمون سے چند پارے)

  • پُرخلوص اور رسمی تعزیت

    پُرخلوص اور رسمی تعزیت

    ہمارا خیال ہے کہ مرنے سے زیادہ مرنے والے کی تعزیت مشکل ہے کیوں کہ موت تو بن بلائے ہنستی ہوئی خود گھر پر آجاتی ہے اور تعزیت کے لیے منھ لٹکائے ہوئے دوسرے کے گھر جانا پڑتا ہے۔

    اور جانا ہی نہیں بلکہ مرحوم کی ’’بے وقت موت‘‘ کو (چاہے وہ نوے برس کی عمر ہی میں کیوں نہ ہوئی ہو) ایک ’’ناقابل تلافی نقصان‘‘ ثابت کرتے ہوئے ان کی فرضی خوبیوں کی فہرست اس تفصیل کے ساتھ گنانا ہوتی ہے کہ اگر مرحوم سُن لیں تو خود انھیں ہنسی آجائے اور انھیں اپنی موت پر رشک آنے لگے، اس لیے کہ زندگی میں کسی کو کبھی ان کے حق میں ایک کلمۂ خیر کہنے کی توفیق نہ ہوئی اور موت کی بدولت آج انھیں تعزیت کرنے والوں کے منھ سے ایسے مدحیہ قصیدے سننے کو مل رہے ہیں کہ کیا کسی بادشاہ کو زندگی میں درباری شاعروں سے سننے کو ملے ہوں گے۔

    تعزیت پُرخلوص بھی ہوتی ہے اور رسمی بھی۔ مگر وہ چاہے رسمی ہو، چاہے مخلصانہ دونوں مشکل ہیں کیوں کہ اگر مرنے والے سے آپ کو خلوص تھا تو آپ کی حالت خود تعزیت کے لائق ہوگی اور ایسی حالت میں آپ تعزیت کرنے جائیں گے تو آپ مرحوم کے پس ماندگان کو تسلّی دینے کے بجائے خود رونے لگیں گے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے،

    تسلّی میں بھی تخم غم بو دیے
    وہ سمجھاتے سمجھاتے خود رو دیے

    اور اگر آپ رسمی طورپر اس خیال سے تعزیت کے لیے نکلے ہیں کہ؛

    کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے

    آج آپ جن کی تعزیت کے لیے جارہے ہیں کل ان کے لڑکے آپ کی تعزیت کے لیے آئیں گے یا یہ مرحوم آپ کے کسی بزرگ کی موت پر آپ کے گھر تعزیت کے لیے آئے تھے تو ایسی صورت میں تعزیت کا کام مشکل سےمشکل تر ہوجاتا ہے کیوںکہ آپ دراصل تعزیت کرنے نہیں بلکہ اس تعزیتی قرض کو ادا کرنے جاتے ہیں جو آپ پر واجب الادا تھا اور آپ جانتے ہیں کہ قرض کی ادائیگی کوئی آسان کام نہیں، خصوصیت کے ساتھ وہ قرض جو تر کے میں ملا ہو اور پھر اس قرض کا کیا کہنا جو روپیوں پیسوں کا نہیں، آنسوؤں اور غموں کا ہو۔ پیسے کا قرض تو ایک اُدھار لے کر دوسرے کو ادا کیا جاسکتا ہے لیکن آنسو نہ اُدھار لیے جاسکتے ہیں نہ دیے جاسکتے ہیں ان کے لیے تو ایکٹروں یا گویوں کی طرح ریاض کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے تعزیت ایک فن ہو گیا ہے اور ظاہر ہے کہ کسی فن کے حصول میں کتنے پا پڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ خدا نظر بد سے بچائے، اگر آپ شاعر ہیں تو ایک اور مثال پیش کر دوں۔ شاعر ہونے کی وجہ سے آپ جانتے ہی ہیں کہ سیروں خون تھوکنا پڑتا ہے تب جاکے شعر برآمد ہوتا ہے۔

    بس یہی حال تعزیت کا ہے۔ گڑے مردے اکھاڑنے پڑتے ہیں اپنے باپ دادا کی موت یاد کر کے آنسو اکٹھا کرنے پڑتے ہیں اور پھر جب یہ سارے درد و غم جمع ہوجاتے ہیں تب جاکے کہیں تعزیت کا قرض ادا ہو پاتا ہے۔

    قرض کے ذکر پر یاد آگیا کہ تعزیت کرنے کی طرح قرض مانگنا بھی بڑے فنکار کا کام ہے۔ قرض اور تعزیت دونوں کے لیے منھ لٹکانا ضروری ہوتا ہے لیکن فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ قرض کے لیے گھر سے نکلتے وقت منھ خود بخود لٹکا ہوتا ہے اور تعزیت کے لیے مرنے والے کے گھر پہنچ کر منھ لٹکانا پڑتا ہے۔ منھ کے خود لٹکے ہونے اور ارادتاً لٹکانے میں جو نازک فرق ہے اسے صرف حالات سے مجبور ہوکر قرض مانگنے والے کا ہی دل محسوس کرسکتا ہے۔ رسمی تعزیت کرنے والے کبھی محسوس نہیں کرسکتے۔

    جہاں تک ہماری ذات کا تعلق ہے قرض کی مصیبت بار بار برداشت کرنے کی وجہ سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ ہمارے لیے تعزیت کی مشکل اس حد تک ضرور آسان ہوگئی ہے کہ ہمیں مرنے والے کے گھر پہنچ کر زبردستی روہانسا منھ نہیں بنانا پڑتا بلکہ ہماری صورت ہی اب روہانسی ہوگئی ہے۔ البتہ اگر کسی جگہ خلوص کی بنا پر زیادہ رقت طاری کرنے کی ضرورت ہوئی تو ہم تعزیت کے وقت قرض کی ادائیگی کا بھی تصور کرلیتے ہیں۔ اس طرح فاقہ مستی کا رنگ لانے کے خوف سے ہمارا چہرہ خاصا سوگوار ہو جاتا ہے اور مرنے والے کے پسماندگان کے دلوں پر ہمارے خلوص کا کافی اثر پڑتا ہے۔ حالاںکہ ہم جانتے ہیں کہ اس میں خلوص و ہمدردی سے زیادہ ہمارے حالات کو دخل ہے جنھوں نے ہمیں بغیر کسی خاص کوشش کے تعزیت جیسے مشکل فن میں اُن پیشہ ور تعزیت مندوں سے کہیں زیادہ کامیاب بنا دیا ہے جو اس تاک میں ہی بیٹھے رہتے ہیں کہ کوئی اللہ کو پیارا ہو اور وہ اپنے فن کے مظاہرے کے لیے پہنچ جائیں۔

    آپ کہیے گا کہ یہ پیشہ ور تعزیت مند کیسے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں پیشہ ور تعزیت مند وہ ہیں جو ایک خاص بندھے ٹکے انداز میں تعزیتی تقریر کرتے ہیں اور اس تقریر کے دوران جگہ جگہ شعر بھی پڑھتے ہیں، مثلاً،

    حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھِلے مرجھا گئے

    ایک پیشہ ور تعزیت مند، پُرسے میں پہنچتا ہے اور پہنچتے ہی زندگی کی بے ثباتی کا ذکر کرتا ہے کہ ’’مشیّت ایزدی میں کیا چارہ ہے،

    موت سے کس کو رستگاری ہے
    آج وہ، کل ہماری باری ہے‘‘

    ’’آدمی پانی کا بُلبلہ ہے، ایک دم کا ٹھکانا نہیں۔‘‘ پھر آہ سرد بھرتے ہوئے شعر پڑھتا ہے،

    ہستی اپنی حباب کی سی ہے
    یہ نمائش سراب کی سی ہے

    ’’بھیّا صبر کرو، جس کی امانت تھی اس نے لے لی۔ اپنا یہاں کیا ہے جس پر بھروسہ کیا جائے۔ سامان سو برس کے ہیں کل کی خبر نہیں، ہم کو بھی ایک دن اسی راہ پر جانا ہے۔ ہر ایک پر یہ دن آنے والا ہے،

    بہت آگے گئے، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
    صبر کرو صبر کے سوا چارہ کیا ہے

    مگر اب تعزیت زیادہ مشکل نہیں رہی اس لیے کہ فن تعزیت کے فن کاروں نے جیسا کہ آپ نے ابھی دیکھا اچھا خاصا تعزیتی لٹریچر رسمی تعزیت کرنے والوں کی آسانی اور سوگواروں کی پریشانی کے لیے فراہم کردیا ہے جس میں مرحوم کی بے وقت موت کو ناقابل تلافی نقصان قرار دینے سے لے کر مرحوم کے جوار رحمت میں جگہ پانے کی توقع تک تمام مراحل کے لیے ڈھلے ڈھلائے جملے موجود ہیں۔ بس اب تعزیت کرنے والے کا کام صرف منھ بنا کر اور موقع بے موقع آہ سرد بھر کر انھیں جملوں کو بے دھڑک دُہرا دینا ہے۔

    ایک مرتبہ میرے ایک قریبی دوست کے بچہ کا انتقال ہوگیا۔ پلوٹھی کا لڑکا تھا۔ ماں باپ دونوں کی آنکھ کا تارا۔ اس کے مرنے کا دونوں کو قدرتاً بڑا قلق ہوا۔ میں دورے پر گیا ہوا تھا۔ چار روز بعد جب واپس آیا تو بیگم سے اس سانحہ کی اطلاع ملی۔ سامان گھر پر ڈال، سیدھا دوست کے گھر روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ان کی روانگی کا انتظام ہے۔ کچھ سامان باہر رکھا ہے اور ایک تانگہ بھی کھڑا ہے۔ بہرحال میں نے آواز دی تو انھیں جھنجھلا کر زور سے یہ کہتے سنا کہ کہہ دو گھر پر نہیں ہیں۔ میں یہ بات سُن رہا تھا۔ پہلے تو میں سوچنے لگا کہ اب کیا کروں مگر پھر زور سے پکارا کہ ’’بھائی‘‘ میں ہوں سعید! یہ سنتے ہی وہ ڈیوڑھی میں آگئے اور لپٹ کر رونے لگے۔ میرا بھی دل بھر آیا مگر زبان سے تسلّی اور تعزیت کے الفاظ نکلنے نہیں پائے تھے کہ دل نے بے ساختہ آواز دی،

    جس سے بڑھے بے تابی دل کی ایسی تسلّی رہنے دے…

    زبان نے دل کے مشورے کو فوراً مان لیا کیوںکہ اُسے بارہا تجربہ ہوچکا تھا کہ نازک جذبات کی ترجمانی اس نے ہمیشہ خاموش رہ کر زیادہ اچھے طریقہ پر کی ہے۔ ہم دونوں تھوڑی دیر تک خاموش رہے۔ اس کے بعد میں نے بچہ کی بیماری اور موت کے متعلق کچھ پوچھنے کے بجائے ان کی روانگی کا سبب دریافت کرنا زیادہ مناسب خیال کیا۔

    انھوں نے کہا کہ بچہ کی جدائی سے ہم دونوں کے دلوں پر جو گزری ہے اس کے متعلق کچھ کہنا ہی بے کار ہے لیکن ماں کی بُری حالت ہے۔ چار دن ہوگئے ہیں طرح طرح سے بہلانے کی کوشش کررہا ہوں لیکن تعزیت کرنے والوں نے میری اور خاص طورپر میری بیوی کی زندگی تلخ کردی ہے۔ میری ہزار کوششوں کے باوجود ان ظالموں نے ایک منٹ کے لیے غم بھلانے کی فرصت نہ دی اور جب میں نے محسوس کیا کہ تعزیت کرنے والی بیبیاں رُلا رُلا کر بچہ کے ساتھ میری بیوی کو بھی قبرستان پہنچائے بغیر دم نہیں لیں گی تو میں نے فیصلہ کرلیا کہ تھوڑے دنوں کے لیے یہاں سے ہٹ جاؤں۔

    چنانچہ ہم لوگ دو ہفتہ کے لیے پہاڑ پر جارہے ہیں تاکہ ہمارے دُکھے دل نادان تعزیت کرنے والوں کی بیداد سے بچ سکیں اور زخموں کو مندمل ہونے کا موقع مل سکے، ابھی وہ یہ جملہ پورا بھی نہ کر پائے تھے کہ میں نے دیکھا کہ ایک رکشا سڑک سے ان کے گھر کی طرف مڑ رہا ہے اور اس پر ایک برقعہ پوش خاتون بیٹھی ہیں۔ مجھے فوراً موقع کی نزاکت کا احساس ہوا اور میں نے دوڑ کر رکشے والے سے پوچھا، ’’کس کے یہاں جانا ہے؟‘‘ اس کے جواب میں برقعہ پوش خاتون نے بھرائی ہوئی آواز میں میرے دوست کا نام لیا۔ میرا ماتھا ٹھنکا اور میں نے خیال کیا کہ اگر اس وقت یہ خاتون تعزیت کے لیے وہاں گئیں تو انہیں گھر واپس ہونے کے بجائے اسپتال نہ جانا پڑے۔ اس لیے میں نے منھ سکھا کر کہا کہ میں انہی کے گھر سے لوٹ رہا ہوں۔ اُن کی بیوی حالت زیادہ خراب ہوگئی تھی اس لیے میرے دوست انھیں لے کر ان کے میکے چلے گئے ہیں اور غالباً ایک ماہ بعد واپس آئیں۔ اس پر انھوں نے ایک سرد آہ بھر کر کہا کہ ہاں بیٹا! مصیبت ایک طرف سے نہیں آتی۔ میں نے جلدی سے کہا، جی ہاں! دیکھیے نا چاروں طرف سے چلی آرہی ہے۔ اس کے بعد وہ دل میں تعزیت کی تمنا لیے اپنے گھر واپس گئیں۔

    (عبدالمجیب سہالوی کی ایک شگفتہ تحریر)

  • ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!‘‘

    ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!‘‘

    ادھر کئی مہینوں سے مکان کی تلاش میں شہر کے بہت سے حصوں اور گوشوں کی خاک چھاننے اور کئی محلّوں کی آب و ہوا کو نمونے کے طور پر چکھنے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ جس طرح ہر گلی کے لیے کم سےکم ایک کم تول پنساری، ایک گھر کا شیر کتا، ایک لڑا کا ساس، ایک بد زبان بہو، ایک نصیحت کرنے والے بزرگ، ایک فضیحت پی جانے والا رند، اور حوائجِ ضروری سے فارغ ہوتے ہوئے بہت سے بچوں کا ہونا لازمی ہوتا ہے، اسی طرح کسی نہ کسی بھیس میں ایک ماہرِ غالبیات کا ہونا بھی لازمی ہوتا ہے اور بغیر اس کے گرد و پیش کا جغرافیہ کچھ ادھورا رہ جاتا ہے۔

    اچھا بھلا ایک مکان مل گیا تھا لیکن ابھی اس میں منجملہ اسبابِ ویرانی میرا لپٹا ہوا بستر بھی ٹھیک سے کھل نہیں پایا تھا کہ محلّے کے ماہرِ غالبیات نے نہیں معلوم کیسے سونگھ لیا کہ میں سخن فہم نہ سہی غالب کا طرف دار ضرور ہوں اور مجھے اپنی غالبانہ گرفت میں ایک صید زبوں کی طرح جکڑ لیا۔ آتے ہی آتے انہوں نےغالب کے متعلق دوچار حیرت انگیز انکشافات کے بعد مجھے پھانسنے کے لیے ایک آدھ ہلکے پھلکے سوالات کر دیے۔ اب میری حماقت ملاحظہ ہو۔۔۔ کہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو بہت بڑاغالب فہم سمجھتا۔ میں نے ان کو نرم چارہ سمجھ کر ان پر دوچار منھ ماردیے یا یوں سمجھ لیجیے ان کی دُم پر پیر رکھ دیا یعنی ان کے سامنے غالب کو اپنے مخصوص زاویہ نگاہ سے پیش کرنے کی ’’سعی لا حاصل‘‘ کر بیٹھا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ میں کسی بارود کے خزانے کے قریب دیا سلائی جلانے کی کوشش کر رہا ہوں؟

    پھر کیا تھا، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں‘‘ چیخ کر ماہرِ غالبیات پھٹ تو پڑے مجھ پر! اور میری معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے فنِ غالبیات کی ایسی ایسی توپوں اور آتش فشانوں کے دہانے کھول دیے کہ میں سراسیمہ، مبہوت اور ششدر ہو کر ہمیشہ کے لیے عہد کر بیٹھا کہ اب آئندہ کسی اجنبی بزرگ کے سامنے حضرت غالب کا نام اپنی زبان بے لگام سے ہرگز ہرگز نکلنے نہ دوں گا۔ دوسرے ہی دن سے ماہر غالبیات نے، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ کے عنوان سے میری باقاعدہ تعلیم شروع کر دی۔ سویرے میں بستر ہی پر ہوتا کہ وہ ’’لذت خواب سحر‘‘ پر دھاوا بولتے آپہنچتے اور پہلے غالب کے کچھ انتہائی سنگلاخ اشعار پڑھ کر ان کے معنی مجھ سے پوچھتے، گویا میرا آموختہ سنتے اور پھر قبل اس کے کہ میں ایک لفظ بھی اپنی زبان سے نکال پاؤں، وہ ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ فرما کر ان کے معنی اور مطالب خود بیان کرنا شروع کر دیتے۔

    آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
    مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

    اور پھر نوبت یہاں تک پہنچتی کہ میں داڑھی بنارہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ حسن سمجھا رہے ہیں۔ میں کنگھا کر رہا ہوں اور وہ آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز، میں مسئلہ ارتقا کو پروان چڑھتے دیکھ رہے ہیں۔ میں کپڑے بدل رہا ہوں اور وہ ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا، پڑھ پڑھ کر اور گاہے گاہے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگا لگا کر غالب کو ہندوستان کا سب سے پہلا انقلابی ثابت کر رہے ہیں۔ میں جوتے کی ڈوریاں باندھ رہا ہوں اور وہ ’بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے‘ والے مصرع سے فضائے آسمانی پر اسپٹنگ چھوڑ رہے ہیں۔ میں ناشتہ کر رہا ہوں اور وہ ’’مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے‘‘ دہرا دہرا کر غالب کے علم الغذا پر کچھ اس انداز سے روشنی ڈال رہے ہیں کہ میرے منہ کا نوالہ حلق میں جانے سے انکار کر بیٹھتا ہے۔ میں دفتر جانے کے لیے سائیکل نکال رہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ عمرانیات بیان کر رہے ہیں۔ میں سائیکل پر بیٹھ چکا ہوں اور وہ شام کو دفتر سے میری واپسی پر غالب اور ضبطِ تولید کے موضوع پر اپنے تازہ ترین الہامات کو مجھ پر نازل کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

    شام کو ظہور پذیر ہوتے تو غالب اور دوسرے شعرا کا موازنہ شروع فرما دیتے اور غالب کے منہ لگنے والے دیگر تمام شعرا کو قابل گردن زدنی قرار دے کر بھی جب تسلی نہ ہوتی تو غالب کے مختلف شارحین کا پہلے سرکس پھر کشتی شروع کرا دیتے اور کافی دھر پٹخ کے بعد جب ہر شارح کافی پست ہو چکتا تو خود بھی اکھاڑے میں کود پڑتے اور فرداً فرداً ہر شارح کو پچھاڑتے اور پھر ہر شعر کے متعلق اپنی ایک انوکھی، اچھوتی اور عجوبۂ روزگار شرح کا آغاز کر دیتے جس کا انجام غالباً اس وقت تک نہ ہوتا جب تک میں اپنے ہوش و حواس کی قید و بند سے نجات پاکر وہاں نہ پہنچ جاتا جہاں سے خود مجھ کو میری خبر نہ آتی، یعنی بالکل ہی بے سدھ ہو کر اپنے بستر پر گر نہ جاتا۔

    کئی مرتبہ تکلف برطرف کرکے منت سماجت کی، ہاتھ جوڑے، داڑھی میں ہاتھ دیا، کان پکڑ کر اٹھا بیٹھا اور حرف مطلب یوں زبان پر لایا کہ اے ماہرِ غالبیات آپ کو آپ کے حضرت غالب مبارک! مجھ مغلوب کو میرے ہی حال پر چھوڑ دیجیے تو آپ کی غالبیت میں کون سا بٹا لگ جائے گا؟ میں ایک گدائے بے نوا ہوں، احمق، جاہل اور ہیچمداں ہوں۔ میرے ایسے ذرۂ ناچیز کو غالب ایسے آفتاب عالم تاب سے کیا نسبت؟ میں حضرت غالب کا صرف اس قدر گنہگار ہوں کہ عالمِ طفولیت میں ایک مولوی صاحب نے اسکول میں کورس کی کتاب سے ان کی چند غزلیں زبردستی پڑھا دی تھیں۔ اس کے علاوہ مجھ سے قسم لے لیجیے جو میں نے کبھی انہیں ہاتھ بھی لگایا ہو اور ہاتھ لگاتا بھی خاک…. ہاتھ آئیں تو لگائے نہ بنے! غالب کو میں کیا میری سات پشتیں بھی نہیں سمجھ سکتیں۔

    لیکن ماہرِ غالبیات بھلا کب ماننے والے تھے؟ میرے اظہارِ بیچارگی سے ان کی ہمہ دانی میں اور بھی چار چاند لگ جاتے اور فخر و تمکنت سے ان کے گلے کی رگیں پہلے سے بھی زیادہ پھولنے لگتیں،

    ’’ہو گا کوئی ایسا بھی جو غالب کو نہ جانے؟

    دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور!

    آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!

    اے دریغاوہ رند شاہد باز!‘‘

    اور یہ فرمانے کے بعد وہ غالب کے متعلق اپنی تحقیق اور دریافت کی گولہ باری مجھ پر کچھ اور تیز کر دیتے۔

    بس کیا عرض کیا جائے کہ کس طرح عاجز اور پریشان کر رکھا تھا ان ماہرِ غالبیات نے۔ ان سے جان چھڑانے کے لیے بیسیوں ترکیبیں کیں۔ محلّے کے با اثر لوگوں کا دباؤ ڈالوایا۔ گمنام خطوط لکھے۔ ایک انسپکٹر پولیس سے ان کے خلاف کوئی فرضی مقدمہ چلانے کی فرمائش کی، بیماری کا ڈھونگ بنایا۔ بہرے بنے (تو التفات دونا ہوگیا۔) دوستوں کے گھر جا کر پناہ لی، گھر کے دروازے بند کرائے۔ نوکر کو ہدایت کی کہ ’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے!‘‘ لیکن اجی توبہ کیجیے۔…. اہل تدبیر کی وا ماندگیاں!

    ان حالات میں اسے چاہے میری بد ذاتی کہیے، چاہے اقدامِ قتل سے گریز کہ جیسے ہی مجھے ایک دوسرا مکان ملا جو اگرچہ میرے پہلے مکان کا صرف نصف بہتر معلوم ہوتا، میں رسیاں تڑا کر بھاگا۔ ماہر غالبیات سے میں نے کہہ دیا کہ میں شہر کیا صوبہ چھوڑ رہا ہوں اور وہ مجھے آبدیدہ ہوکر رخصت کرنے آئے تو بڑے رقت انگیز لہجے میں فرمایا، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ اور اگر میں ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی۔‘‘ نہ چیختا اور غلطی سے تانگے والا اس اس کا مخاطب اپنے آپ کو سمجھ کر فوراً تانگہ ہانک نہ دیتا تو یقیناً ماہرِ غالبیات مجھے ایک فی البدیہ الوداعی جلاب دیے بغیر ہرگز نہ مانتے۔ اپنے ان جان لیوا ماہرِ غالبیات سے چھٹکارا پاکر مجھے جو مسرتِ بے پایاں حاصل ہوئی اس کا اظہار غالباً غیرضروری ہے۔

    (ادیب اور طنز و مزاح نگار وجاہت علی سندیلوی کے قلم سے)

  • مَردوں کا سچ…

    مَردوں کا سچ…

    جب یہ امر طے شدہ ہے کہ مرد عورتوں سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، تو اسے تحقیق کے ذریعے ثابت اور بے چارے مردوں کو مزید رسوا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

    برطانیہ کے محققین کو نہ جانے کیا سوجھی کہ بیٹھے بٹھائے مردوں اور عورتوں کی دروغ گوئی کی پیمائش کر ڈالی اور سروے کے ذریعے مردوں کو زیادہ جھوٹا قرار دے دیا۔

    دراصل سروے میں معصوم مردوں نے سچ سچ بتا دیا کہ وہ روزانہ کم از کم تین جھوٹ بولتے ہیں، یوں عورتوں سے بڑھ کر جھوٹے ٹھہرائے گئے۔
    محققین نے یہ تو جان لیا کہ مرد عورتوں سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، مگر یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ آخر وہ ایسا کرتے کیوں ہیں۔ ارے یہ جھوٹ ہی تو ہے جس کے سہارے مرد جی لیتے ہیں، ورنہ ہر مرد یہی دعا مانگتا نظر آئے ؎

    اب کے جنم موہے ”کاکا“ نہ کیجو

    جھوٹ مردوں کی مجبوری اور ان کی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ خاص طور پر اس برادری کی مظلوم ترین ”نوع“ شوہروں کا دروغ گوئی کے بغیر گزارہ ہی نہیں۔ اب خدا لگتی کہیے، شادی کے دس پندرہ سال بعد،”میں کیسی لگ رہی ہوں“ کے اہلیانہ سوال کا جواب پوری سچائی کے ساتھ دیا جاسکتا ہے؟ ایسے کتنے ہی سوال ہر روز شوہروں کے سامنے کھڑے کہہ رہے ہوتے ہیں،”ہمت ہے تو سچ بول کے دکھا۔“ اسی طرح،”چَن کِتھاں گزاری ائی رات وے“ کا سیدھا سچا جواب ”چن“ کے دن رات کا چین چھین لے گا، چناں چہ اسے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی کہانی گھڑنا پڑتی ہے۔

    ”کیا آپ نے شادی سے پہلی کسی سے محبت کی ہے؟“ کا شک میں گندھا بلکہ سَنا ہوا استفسار اس لیے نہیں ہوتا کہ شوہر پڑوس کی بانو، پچھلی گلی کی رانو، اَگلی گلی کی چَھپن چُھری، کالج کی حمیدہ، یونیورسٹی کی زبیدہ اور دفتر کی سعیدہ سے تعلق کے گفتنی اور ناگفتنی تذکرے چھیڑ دے اور اہلیہ برداشت کی پوری اہلیت کے ساتھ مزے لے لے کر سُنتی رہیں، بلکہ بیگم صاحبہ صرف یہ سننا چاہتی ہیں کہ تم میری پہلی اور آخری محبت ہو، لہذا ”پہلی“ سے پہلے ”شادی کے بعد“ اور ”آخری“ سے قبل ”اب تک کی“ کے ٹکڑے دل ہی دل میں جوڑ کر حسب منشا جواب دے دیا جاتا ہے۔

    نصف بہتر کے ہاتھ کا بدترین کھانا بھی ”واہ واہ“ کر کے پیٹ میں انڈیلنا پڑتا ہے، ورنہ شوہر غریب کتنی ہی دیر کھا جانے والی نظروں کا سامنا کرتا رہے گا اور اس کے کان کھائے جاتے رہیں گے۔

    اب آپ ہی فیصلہ کیجیے مرد جھوٹے ہیں یا وہ لوگ ظالم ہیں جو مردانہ مجبوریوں کو جھوٹ کا مکروہ نام دیتے ہیں۔

    (معروف مزاح نگار، کہانی نویس، شاعر اور سینئر صحافی محمد عثمان جامعی کی کتاب ‘کہے بغیر’ سے انتخاب)

  • کوّؤں کے بھی کچھ حقوق ہیں!

    کوّؤں کے بھی کچھ حقوق ہیں!

    کوّا گرائمر میں ہمیشہ مذکر استعمال ہوتا ہے۔ کوّا صبح صبح موڈ خراب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ایسا موڈ جو کوّے کے بغیر بھی کوئی خاص اچھا نہیں ہوتا۔

    علی الصبح کوّے کا شور انسان کو مذہب کے قریب لاتا ہے اور نروان کی خواہش شدت سے پیدا ہوتی ہے۔ کوّا گا نہیں سکتا اور کوشش بھی نہیں کرتا۔ وہ کائیں کائیں کرتا ہے۔ ’کائیں‘ کے کیا معنیٰ ہیں؟ میرے خیال میں تو اس کا کوئی مطلب نہیں۔

    کوّے کالے ہوتے ہیں۔ برفانی علاقے میں سفید مائل کوّا نہیں پایا جاتا۔ کوّا سیاہ کیوں ہوتا ہے…؟ اس کا جواب بہت مشکل ہے۔

    پہاڑی کوّا ڈیڑھ فٹ لمبا اور وزنی ہوتا ہے۔ میدان کے باشندے اس سے کہیں چھوٹے اور مختصر کوّے پر قانع ہیں۔ کوّے خوب صورت نہیں ہوتے، لیکن پہاڑی کوّا تو باقاعدہ بدنما ہوتا ہے، کیوں کہ وہ معمولی کوّے سے حجم میں زیادہ ہوتا ہے۔

    کوّے کا بچپن گھونسلے میں گزرتا ہے، جہاں اہم واقعات کی خبریں ذرا دیر سے پہنچتی ہیں۔ اگر وہ سیانا ہو تو بقیہ عمر وہیں گزار دے، لیکن ’سوشل‘ بننے کی تمنّا اسے آبادی میں کھینچ لاتی ہے… جو کوّا ایک مرتبہ شہر میں آجائے، وہ ہرگز پہلا سا کوّا نہیں رہتا۔

    کوّے کی نظر بڑی تیز ہوتی ہے۔ جن چیزوں کو کوّا نہیں دیکھتا، وہ اس قابل نہیں ہوتیں کہ انہیں دیکھا جائے۔ کوّا بے چین رہتا ہے اور جگہ جگہ اڑ کر جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی بے حد مختصر ہے، چناں چہ وہ سب کچھ دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ کون نہیں چاہتا؟

    کبھی کبھی کوّے ایک دوسرے میں ضرورت سے زیادہ دل چسپی لینے لگتے ہیں۔ دراصل ایک کوّا دوسرے کوّے کو اس نظر سے نہیں دیکھتا، جس سے ہم دیکھتے ہیں۔ دوسرے پرندوں کی طرح کوّوں کے جوڑے کو کبھی چہلیں کرتے نہیں دیکھا گیا۔ کوّا کبھی اپنا وقت ضائع نہیں کرتا یا کرتا ہے؟ کوّے کو لوگ ہمیشہ غلط سمجھتے ہیں۔ سیاہ رنگ کی وجہ سے اسے پسند نہیں کیا جاتا۔ لوگ تو بس ظاہری رنگ روپ پر جاتے ہیں۔ باطنی خوبیوں اور ’کردار‘ کو کوئی نہیں دیکھتا۔ کوّا کوئی جان بوجھ کر تو سیاہ نہیں ہوا۔ لوگ چڑیوں، مرغیوں اور کبوتروں کو دانہ ڈالتے وقت کوؤں کو بھگا دیتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح نہ صرف کوؤں کے لاشعور میں کئی ناخوش گوار باتیں بیٹھ جاتی ہیں، بلکہ ان کی ذہنی نشوونما پر برا اثر پڑتا ہے۔ آخر کوؤں کے بھی تو حقوق ہیں۔

    کوّے باورچی خانے کے پاس بہت مسرور رہتا ہے۔ ہر لحظے کے بعد کچھ اٹھا کر کسی اور کے لیے کہیں پھینک آتا ہے اور پھر درخت پر بیٹھ کر سوچتا ہے کہ زندگی کتنی حسین ہے۔

    کہیں بندوق چلے تو کوّے اسے اپنی ذاتی توہین سمجھتے ہیں اور دفعتاً لاکھوں کی تعداد میں کہیں سے آجاتے ہیں۔ اس قدر شور مچتا ہے کہ بندوق چلانے والا مہینوں پچھتاتا رہتا ہے۔ بارش ہوتی ہے تو کوّے نہاتے ہیں، لیکن حفظانِ صحت کے اصولوں کا ذرا خیال نہیں رکھتے۔ کوّا سوچ بچار کے قریب نہیں پھٹکتا۔ اس کا عقیدہ ہے کہ زیادہ فکر کرنا اعصابی بنا دیتا ہے۔

    (مزاح نگار شفیق الرّحمان کے قلم سے)

  • نجات کا طالب غالب

    نجات کا طالب غالب

    مرزا غالب کی غزلیں‌ ہی نہیں ان کے خطوط بھی مشہور ہیں۔ غالب نے اردو زبان میں خطوط نویسی میں پُر تکلّف زبان، القاب اور روایتی طریقۂ سلام و پیام کو اہمیت نہ دی بلکہ اس روش کو ترک کر کے اردو خطوط نویسی کو خوش مزاجی، لطف اور تازگی سے بھر دیا۔ ابنِ‌ انشاء اردو کے ممتاز مزاح نگار اور شاعر تھے جن کی کتاب خمارِ گندم میں شامل غالب کا ایک فرضی خط یہاں ہم نقل کر رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    منشی صاحب میاں داد خاں سیاح

    یہ خط نواب غلام بابا خاں کے توسط سے بھیج رہا ہوں کہ تمہارا تحقیق نہیں اس وقت کہاں ہو۔ اشرف الاخبار تمہارے نام بھجوایا تھا، وہ واپس آگیا کہ مکتوب الیہ شہر میں موجود نہیں۔ اس اخبار کے مہتمم صاحب کل آئے تو کچھ اخبار بلاد دیگر کے دے گئے کہ مرزا صاحب انہیں پڑھیے اور ہو سکے تو رنگ ان لوگوں کی تحریر کا اختیار کیجیے کہ آج کل اسی کی مانگ ہے۔

    یہ اخبار لاہور اور کرانچی بندر کے ہیں۔ کچھ سمجھ میں آئے کچھ نہیں آئے۔ آدھے آدھے صفحے تو تصویروں کے ہیں۔ دو دو رنگ کی چھپائی موٹی موٹی سرخیاں۔ افرنگ کی خبریں۔ اگر بہت جلد بھی آئیں تو مہینہ سوا مہینہ تو لگتا ہی ہے لیکن یہ لوگ ظاہر کرتے ہیں کہ آج واردات ہوئی اور آج ہی اطلاع مل گئی۔ گویا لوگوں کو پرچاتے ہیں۔ بے پر کی اڑاتے ہیں۔ پھر ایک ہی اخبار میں کشیدہ کاری کے نمونے ہیں، ہنڈیا بھوننے کے نسخے ہیں۔ کھیل تماشوں کے اشتہار ہیں۔ ایک لمبا چوڑا مضمون دیکھا، ’’اداکارہ دیبا کے چلغوزے کس نے چرائے۔‘‘ سارا پڑھ گیا۔ یہ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا بات ہوئی۔ کسی کی جیب سے کسی نے چلغوزے نکال لیے تو یہ کون سی خبر ہے۔

    خیر یہ سب سہی، لطیفے کی بات اب کہتا ہوں۔ کرانچی کے ایک اخبار میں میرے تین خط چھپے ہیں۔ ایک منشی ہرگوپال تفتہ کے نام ہے، ایک میں نواب علائی سے تخاطب اور ایک میر مہدی مجروح کے نام۔ میں حیران کہ ان لوگوں نے میرے خطوط اخبار والوں کو کیوں بھیجے۔ اب پڑھتا ہوں تو مضمون بھی اجنبی لگتا ہے۔ اب کہ جو شراب انگریزی سوداگر دے گیا ہے کچھ تیز ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ کبھی کبھی کیفیت اک گونہ بے خودی سے آگے کی ہو جاتی ہے۔ یا تو میں نے اس عالم میں لکھے اور کلیان اٹھا کر ڈاک میں ڈال آیا۔ یا پھر کسی نے میری طرف سے گھڑے ہیں اور اندازِ تحریر اڑانے کی کوشش کی ہے۔ کونے میں کسی کا نام بھی لکھا ہے، ابنِ انشا۔

    کچھ عجب نہیں یہی صاحب اس شرارت کے بانی مبانی ہوں۔ نام سے عرب معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کیا حرکت ہے۔ سراسر دخل در معقولات ہے۔ اخبار نویسی میں ٹھٹول کیا معنی؟ بھئی مجھے بات پسند نہیں آئی۔ امید ہے وہ ٹوپیاں تم نے نواب صاحب کو پہنچا دی ہوں گی۔ نواب صاحب سے میرا بہت بہت سلام اور اشتیاق کہنا۔ میں سادات کا نیاز مند اور علی کا غلام ہوں۔

    نجات کا طالب
    غالب

  • ہم لوگ کن چیزوں پر ہنستے ہیں؟

    ہم لوگ کن چیزوں پر ہنستے ہیں؟

    انسان کو حیوانِ ظریف کہا گیا ہے۔ لیکن یہ حیوانوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔

    اس لیے کہ دیکھا جائے تو انسان صرف واحد حیوان ہے جو مصیبت پڑنے سے پہلے مایوس ہوجاتا ہے۔ انسان واحد جاندار ہے، جسے خلّاقِ عالم نے اپنے حال پر رونے کے لیے غدودِ گریہ بخشے ہیں۔ کثرتِ استعمال سے یہ بڑھ جائیں تو حساس طنز نگار دنیا سے یوں خفا ہو جاتے ہیں جیسے اگلے وقتوں میں آقا نمک حرام لونڈیوں سے روٹھ جایا کرتے تھے۔ لغزشِ غیر پر انہیں ہنسی کے بجائے طیش آجاتا ہے۔ ذہین لوگوں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو احمقوں کا وجود سرے سے برداشت ہی نہیں کر سکتی۔ لیکن، جیسا کہ مارکوئس دی سید نے کہا تھا، وہ بھول جاتے ہیں کہ سبھی انسان احمق ہوتے ہیں۔ موصوف نے تو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اگر تم واقعی کسی احمق کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے تو خود کو اپنے کمرے میں مقفّل کر لو اور آئینہ توڑ کر پھینک دو۔

    لیکن مزاح نگار کے لیے نصیحت، فصیحت اور فہمائش حرام ہیں۔ وہ اپنے اور تلخ حقائق کے درمیان ایک قد آدم دیوارِ قہقہ کھڑی کر لیتا ہے۔ وہ اپنا روئے خنداں، سورج مکھی پھول کی مانند، ہمیشہ سرچشمۂ نور کی جانب رکھتا ہے اور جب اس کا سورج ڈوب جاتا ہے تو اپنا رخ اس سمت کر لیتا ہے، جدھر سے وہ پھر طلوع ہوگا؛

    ہمہ آفتاب بینم، ہمہ آفتاب گویم
    نہ شبنم، نہ شب پر ستم کہ حدیث خواب گویم

    حسّ مزاح ہی اصل انسان کی چھٹی حس ہے۔ یہ ہو تو انسان ہر مقام سے آسان گزر جاتا ہے۔ یوں تو مزاح، مذہب اور الکحل ہر چیز میں با آسانی حل ہو جاتے ہیں، بالخصوص اردو ادب میں۔ لیکن مزاح کے اپنے تقاضے، اپنے ادب آداب ہیں۔ شرطِ اوّل یہ کہ برہمی، بیزاری اور کدورت دل میں راہ پائے۔ ورنہ بومرنگ پلٹ کر خود شکاری کا کام تمام کردیتا ہے۔ مزا تو جب ہے کہ آگ بھی لگے اور کوئی انگلی نہ اٹھا سکے کہ’’یہ دھوآں سا کہاں سے اٹھتا ہے؟‘‘ مزاح نگار اس وقت تک تبسم زیرِ لب کا سزاوار نہیں، جب تک اس نے دنیا اور اہلِ دنیا سے رج کے پیار نہ کیا ہو۔ ان سے، ان کی بے مہری و کم نگاہی سے۔ ان کی سَر خوشی و ہوشیاری سے۔ ان کی تر دامنی اور تقدس سے۔ ایک پیمبر کے دامن پر پڑنے والا ہاتھ گستاخ ضرور ہے، مگر مشتاق و آرزو مند بھی ہے۔ یہ زلیخا کا ہاتھ ہے۔ خواب کو چھو کردیکھنے والا ہاتھ۔

    صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی

    ایک صاحبِ طرز ادیب نے، جو سخن فہم ہونے کے علاوہ ہمارے طرف دار بھی ہیں (تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ سود خوار ہوتا…. کی حد تک) ایک رسالے میں دبی زبان سے شکوہ کیا کہ ہماری شوخیٔ تحریر مسائل حاضرہ کے عکس اور سیاسی سوز و گداز سے عاری ہے۔ اپنی صفائی میں ہم مختصرًا اتنا ہی عرض کریں گے کہ طعن و تشنیع سے اگر دوسروں کی اصلاح ہوجاتی تو بارود ایجاد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

    لوگ کیوں، کب اور کیسے ہنستے ہیں، جس دن ان سوالوں کا صحیح صحیح جواب معلوم ہوجائے گا، انسان ہنسنا چھوڑ دے گا۔ رہا یہ سوال کہ کس پر ہنستے ہیں؟ تو اس کا انحصار حکومت کی تاب و رواداری پر ہے۔ انگریز صرف ان چیزوں پر ہنستے ہیں، جو ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔۔۔ پنچ کے لطیفے، موسم، عورت، تجریدی آرٹ۔ اس کے برعکس، ہم لوگ ان چیزوں پر ہنستے ہیں، جو اب ہماری سمجھ میں آگئی ہیں۔ مثلاً انگریز، عشقیہ شاعری، روپیہ کمانے کی ترکیبیں، بنیادی جمہوریت۔

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار مشتاق یوسفی کے قلم سے)

  • ایک شعر یاد آیا!

    ایک شعر یاد آیا!

    بات اس دن یہ ہوئی کہ ہمارا بٹوا گم ہو گیا۔

    پریشانی کے عالم میں گھر لوٹ رہے تھے کہ راستے میں آغا صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا، ’’کچھ کھوئے کھوئے سے نظر آتے ہو۔‘‘

    ’’بٹوا کھو گیا ہے۔‘‘

    ’’بس اتنی سی بات سے گھبرا گئے، لو ایک شعر سنو۔‘‘

    ’’شعر سننے اور سنانے کا یہ کون سا موقع ہے۔‘‘

    ’’غم غلط ہو جائے گا۔ ذوق کا شعر ہے‘‘، فرماتے ہیں،

    تو ہی جب پہلو سے اپنے دل ربا جاتا رہا
    دل کا پھر کہنا تھا کیا ،کیا جاتا رہا،جاتا رہا

    ’’کہئے پسند آیا؟‘‘

    ’’دل ربا نہیں پہلو سے بٹوا جاتا رہا ہے‘‘، ہم نے نیا پہلو نکالا۔

    پہلو کے مضمون پر امیر مینائی کا شعر بے نظیر ہے،

    کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں سو بدلتے ہیں
    جو جل اٹھتا ہے یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں

    ہم نے جھلا کر کہا، ’’توبہ توبہ! آغا صاحب آپ تو بات بات پر شعر سناتے ہیں۔‘‘ کہنے لگے، ’’چلتے چلتے ایک شعر ’توبہ‘ پر بھی سن لیجئے‘‘،

    توبہ کرکے آج پھر پی لی ریاض
    کیا کیا کم بخت تونے کیا کیا

    ’’اچھا صاحب اجازت دیجئے۔ پھر کبھی ملاقات ہوگی۔‘‘

    ’’ملاقات! ملاقات پر وہ شعر آپ نے سنا ہوگا‘‘،

    نگاہوں میں ہر بات ہوتی رہی
    ادھوری ملاقات ہوتی رہی

    ’’اچھا شعر ہے لیکن داغ نے جس انداز سے’’ملاقاتوں‘‘ کو باندھا ہے اس کی داد نہیں دی جا سکتی‘‘،

    راہ پر ان کو لگا لگائے تو ہیں باتوں میں
    اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

    ’’بہت خوب۔ اچھا آداب عرض۔‘‘

    ’’آداب عرض۔‘‘

    بڑی مشکل سے آغا صاحب سے جان چھڑائی۔ آغا صاحب انسان نہیں اشعار کی چلتی پھرتی بیاض ہیں۔ آج سے چند برس پہلے مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے اور ہر مشاعرے میں ان کا استقبال اس قسم کے نعروں سے کیا جاتا تھا’’بیٹھ جائیے‘‘، ’’تشریف رکھئے‘‘، ’’اجی قبلہ مقطع پڑھئے‘‘، ’’اسٹیج سے نیچے اتر جائیے‘‘، اب وہ مشاعروں میں نہیں جاتے۔ کلب میں تشریف لاتے ہیں اور مشاعروں میں اٹھائی گئی ندامت کا انتقام کلب کے ممبروں سے لیتے ہیں۔ ادھر آپ نے کسی بات کا ذکر کیا۔ ادھر آغا صاحب کو چابی لگ گئی۔ کسی ممبر نے یونہی کہا، ’’ہمارے سکریٹری صاحب نہایت شریف آدمی ہیں‘‘۔ آغا صاحب نے چونک کر فرمایا۔ جگر مرادآبادی نے کیا خوب کہا ہے،

    آدمی آدمی سے ملتا ہے
    دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

    لیکن صاحب کیا بات ہے نظیر اکبر آبادی کی۔ آدمی کے موضوع پر ان کی نظم حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے۔ ایک بند ملاحظہ فرمائیے،

    دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    زردار بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

    کسی نے تنگ آکر گفتگو کا رخ بدلنے کے لئے کہا، ’’آج ورما صاحب کا خط آیا ہے ،لکھتے ہیں کہ۔۔۔‘‘

    آغا صاحب ان کی بات کاٹتے ہوئے بولے، ’’قطع کلام معاف! کبھی آپ نے غور فر مایا کہ خط کے موضوع پر شعرا نے کتنے مختلف زاویوں سے طبع آزمائی کی ہے وہ عامیانہ شعر تو آپ نے سنا ہوگا‘‘،

    خط کبوتر کس طرح لے جائے بام یار پر
    پر کترنے کولگی ہیں قینچیاں دیوار پر

    اور پھر وہ شعر جس میں خود فریبی کو نقطہ عروج تک پہنچایا گیا ہے،

    کیا کیا فریب دل کو دیئے اضطراب میں
    ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں

    واللہ جواب نہیں اس شعر کا۔ اب ذرا اس شعر کا بانکپن ملاحظہ فرمائیے،

    ہمیں بھی نامہ بر کے ساتھ جانا تھا، بہت چوکے

    نہ سمجھے ہم کہ ایسا کام تنہا ہو نہیں سکتا

    اور پھر جناب یہ شعر تو موتیوں میں تولنے کے قابل ہے۔۔۔ وہ شعر ہے، شعر ہے کم بخت پھر حافظے سے اتر گیا۔ ہاں، یاد آ گیا، لفافے میں ٹکڑے میرے خط کے ہیں۔۔۔

    اتنے میں یک لخت بجلی غائب ہو گئی۔ سب لوگ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کلب سے کھسک گئے۔

    ایک دن ہماری آنکھیں آگئیں۔ کالج سے دو دن کی چھٹی لی۔ آغا صاحب کو پتہ چلا، حال پوچھنے آئے۔ فرمانے لگے، ’’بادام کا استعمال کیا کیجئے۔ نہ صرف آپ آنکھوں کی بیماریوں سے محفوظ رہیں گے بلکہ آنکھوں کی خوبصورت میں بھی اضافہ ہوگا۔‘‘ دوایک منٹ چپ رہنے کے بعد ہم سے پوچھا، ’’آپ نے آنکھوں سے متعلق وہ شعر سنا جسے سن کر سامعین وجد میں آگئے تھے۔ میرا خیال ہے نہیں سنا۔‘‘ وہ شعر تھا،

    جس طرف اٹھ گئی ہیں آہیں ہیں
    چشم بد دور کیا نگاہیں ہیں

    نہایت عمدہ شعر ہے لیکن پھر بھی سودا کے شعر سے ٹکر نہیں لے سکتا۔

    کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
    ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

    اسی موضوع پر عدم کا شعر بھی خاصا اچھا ہے۔

    اک حسیں آنکھ کے اشارے پر
    قافلے راہ بھول جاتے ہیں

    عدم کے بعد انہوں نے جگرؔ، فراقؔ، جوشؔ، اقبالؔ، حسرتؔ،فانیؔ کے درجنوں اشعار سنائے۔ انہیں سن کر کئی بار اپنی آنکھوں کو کوسنے کو جی چاہا کہ نہ کم بخت آتیں اور نہ یہ مصیبت نازل ہوتی۔ رات کے بارہ بج گئے لیکن آغا صاحب کا ذخیرہ ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔ آخر تنگ آ کر ہم نے کہا، ’’آغا صاحب! آپ نے اتنے اشعار سنائے۔ دو شعر ہم سے بھی سن لیجئے‘‘،

    ’’ارشاد،‘‘ آغا صاحب نے بے دلی سے کہا۔

    ’’ایسے لوگوں سے تو اللہ بچائے سب کو
    جن سے بھاگے نہ بنے جن کو بھگائے نہ بنے
    جس سے اک بار چمٹ جائیں تو مر کے چھوٹیں
    وہ پلستر ہیں کہ دامن سے چھڑائے نہ بنے‘‘

    آغا صاحب نے مسکرا کر فرمایا، ’’حالانکہ آپ کا روئے سخن ہماری طرف نہیں ہے، پھر بھی آداب عرض۔‘‘

    (معروف ادیب اور طنز و مزاح نگار کنہیا لال کپور کی شگفتہ تحریر)

  • شور نہ کیجیے!

    شور نہ کیجیے!

    شہروں اور خاص طور پر بڑے شہروں میں سکون اور اطمینانِ قلب کی کوئی جگہ ڈھونڈنا ایسا ہی ہے جیسے کسی ادبی رسالے کے خاص نمبر میں کسی خاص بات کی تلاش۔ شہروں میں بہرحال ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں سناٹا ہوا کرتا ہے۔ یہ جگہ لائبریری کہلاتی ہے۔

    اکثر لائبریریوں میں تو ہُو کا عالم رہتا ہے۔ لائبریری وہ مقام ہے جہاں لائبریرین کے سوا کوئی نہیں جاتا۔ لائبریرین بے چارہ بھی وہاں جانے پر اس لئے مجبور ہے کہ اسے اس کام کی تنخواہ ملتی ہے (مشہور تو یہی ہے کہ اسے تنخواہ بھی دی جاتی ہے)۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ شخص بھی بس کبھی کبھی ہی وہاں جاتا ہے (اتنی عقل تو اس میں ہونی ہی چاہیے) لائبریری میں آپ بیٹھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ایلورا کے کسی غار میں بیٹھے ہوئے ہیں (یہ مثال ان دنوں کے لئے ہے جب سیاحوں کا موسم نہ ہو) ذات کی تنہائی کے لئے کسی تنہا یا ویران مقام کی ضرورت تو نہیں ہوا کرتی لیکن ضرورت پڑنے پر لائبریری ہی کا رخ کرنا چاہئے۔

    کہتے ہیں ایک کیبرے ڈانسر سے کسی دانشور نے پوچھا کہ تم اتنی پڑھی لکھی ہو اور ایسے گھٹیا ہوٹل میں ڈانس کرنے آتی ہو، اس کی کیا وجہ ہے؟
    ڈانسر نے جواب دیا کہ اسے پڑھے لکھے لوگوں سے ملنے کا بڑا شوق تھا اور اس نے اسی شوق کی خاطر ایک لائبریری میں ملازمت بھی کی تھی لیکن وہاں کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص سے اس کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور جب سے اس نے اس گھٹیا ہوٹل میں آنا شروع کیا ہے، وہ شہر کے ہر دانشور سے مل چکی ہے۔

    کیا تعجب، یہ بات صحیح ہو کیونکہ کیبرے ڈانسر کو کوئی چیز پوشیدہ رکھنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ کسی مصنف کی کتاب کا فٹ پاتھ پر پہنچ جانا پہلے بہت برا سمجھا جاتا تھا (فٹ پاتھ کو لوگ نہایت ناقص قسم کی چیز سمجھتے ہیں اور اس پر چلنا بھی گوارا نہیں کرتے، وہ ہمیشہ سڑک کے بیچ میں چلا کرتے ہیں) لیکن اب اگر کسی مصنف کی کتاب، کسی لائبریری مین پہنچ جائے تو اسے اس کی سب سے بڑی بد قسمتی سمجھا جاتا ہے۔ فٹ پاتھ پر کتاب رکھی رہے تو کیا تعجب بھولے بھٹکے کسی کی نظر اس پر پڑ جائے بلکہ یہ فٹ پاتھ پر پہنچتی ہی اس وقت ہے جب یہ پڑھی جا چکتی ہے (کتاب کا سکنڈ ہینڈ ہونا بڑی عزت کی بات ہے)۔ لائبریری کی الماری میں بڑے اہتمام اور قرینے سے سجی ہوئی کتاب تو آج 25 ، 30 سال پہلے کی اس پردہ نشین خاتون کی طرح ہوتی ہے جس کے آنچل کی ہلکی سی جھلک بھی نظر آجاتی تو طوفان کھڑا ہو جاتا تھا ( اس زمانے میں چونکہ الیکشن کے امیدوار وغیرہ نہیں ہوا کرتے تھے اس لئے ایسی ہی چیزیں کھڑی ہوا کرتی تھیں) ان کتابوں کا آنچل بھی کبھی نہیں میلا ہوا کرتا۔ حالانکہ کتابوں کے گرد پوش آج کل اتنے نفیس اور خوبصورت ہوتے ہیں کہ کم سے کم انہیں تو دیکھا ہی جاسکتا ہے لیکن صرف گرد پوش دیکھنے کے لئے لائبریری کون جائے۔ آرٹ گیلری اس کام کے لئے بہتر جگہ ہے۔

    اگر مصنف خود ہی لائبریری جاکر اپنے ہی نام اپنی کتاب نہ نکلوائے تو کتاب میں رکھا ہوا کارڈ، اس کی قسمت ہی کی طرح معرّی رہے۔ ( اس میں ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اگر ناحسنِ اتفاق سے یہ کتاب کسی اور پڑھ لی ہے تو مصنف کو اپنے بارے میں اس معزز شخص کی رائے بھی معلوم ہوجائے گی۔ یہ رائے کتاب میں جگہ جگہ درج ہوگی کیونکہ لائبریری کی ہر کتاب، کتاب الرّائے ہوا کرتی ہے۔

    پڑھے لکھے لوگوں نے ان دنوں اپنی اپنی ذاتی لائبریریاں بنالی ہیں۔ ان لائبریریوں میں گم شدہ اور مسروقہ کتابوں کا نایاب ذخیرہ ہوتا ہے، لیکن الماریاں بہر حال ان کی اپنی ہوتی ہیں۔ اس میں ان کی مجبوری کو دخل ہے کیونکہ کتابیں تو مستعار مل جاتی لیکن الماریوں کے معاملے میں یہ طریقہ ابھی شروع نہیں ہوا ہے۔ (ہمارے پسماندہ ہونے کا یہ بھی ایک ثبوت ہے ) گھریلو لائبریری قائم کرنے والوں کو اتنی قربانی تو دینی ہی چاہئے۔ ذاتی لائبریری میں مختلف ترکیبوں سے جمع کی ہوئی کتابوں کا پڑھا جانا ضروری نہیں۔ کبھی کبھی انہیں جھٹک کر ٹھیک سے رکھ دینا کافی ہے (بعض لوگ ان کی طرف سال میں ایک آدھ مرتبہ نظر اٹھا کر دیکھ لینا بھی کافی سمجھتے ہیں) ان لوگوں کی بات البتہ الگ ہے جو خود کے لئے نہیں دوسروں کے لئے مطالعہ فرمایا کرتے ہیں۔ یہ لوگ ایک کتاب پڑھ کر جب تک دوسروں سے اپنے مطالعے کا انتقام نہیں لے لیتے، انہیں بلڈ پریشر رہتا ہے۔ یہ سمجھتے ہیں اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو ان کی ازدواجی زندگی میں فتور آجائے گا۔ پڑھتے تو خیر یہ دوسروں کے لئے ہیں لیکن لکھتے خود کے لئے ہیں۔ احتیاط یہ ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا سمجھ نہ لے۔ ان کی تصنیف میں ان کا اپنا حصہ ہی ہوتا ہے جتنا سمندر میں خشکی کا (اتنا کثیر حصہ معمولی بات نہیں) یہ لوگ بہر حال ان مصنفوں سے بہتر ہوتے ہیں جو صرف لکھنا جانتے ہیں پڑھنا نہیں۔

    لائبریریوں میں پہلے جگہ جگہ یہ ہدایت لکھی ہوتی تھی کہ شور نہ کیجئے۔ شور نہ کیجئے۔ اب ان ہدایتوں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ضرورت تو ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ابابیلیں نوٹسیں نہیں پڑھا کرتیں۔

    (یوسف ناظم کے مزاحیہ مضامین پر مشتمل کتاب ‘البتہ’ سے انتخاب)

  • اُن کو دے دو نکال کر آنکھیں!

    اُن کو دے دو نکال کر آنکھیں!

    پچھلے دنوں میری ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہوئی جنہیں ”رنگ برنگی آنکھوں“ کا شوق ہے۔ اگر آپ رنگی برنگی آنکھوں کی اصطلاح پر حیران ہورہے ہیں تو آپ کو اس کی پوری اجازت ہے کیوں کہ میں بھی پہلے اسی طرح حیران ہوئی تھی۔

    غالبؔ کی پیش گوئی تو قصّۂ پارینہ ہوئی کہ:

    لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور

    سائنس نے تو وہ ترقی کی ہے کہ دل و جاں پر کیا منحصر ہے گردہ، پھیپھڑا، آنکھیں، زبان، ہاتھ، پاؤں غرض انسانی جسم کے تمام اعضاء یعنی ”اسپیئر پارٹس“ باآسانی ”بازارِ شفا“ میں دستیاب ہو جاتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں، بازار میں خریداروں کے شوق کی تسکین کے لئے ”اسپیئر پارٹس“ کی مختلف ”ورائٹیز“ بھی تیار کی جارہی ہیں۔ تجربے کے طور پر ”بازارِشفا“میں سب سے پہلے آنکھوں کی مختلف ورائٹیز لائی گئی ہیں۔ آنکھوں کو فوقیت دینے کی وجہ شاید یہ ہو کہ ”بازارِ شفا“کے کاری گر یعنی ڈاکٹر صاحبان بھی اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ ”انکھیاں بڑی نعمت ہیں بابا۔“

    پہلے اگر کسی کی آنکھوں کے دیے بجھنے لگتے تھے تو ڈاکٹر صاحبان اس کی زندگی کا چراغ گل ہونے سے قبل اس کے دیے کی لو دوسرے دیے سے جوڑ کر اسے پھر سے منّور کردیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر اسے قرنیہ کی تبدیلی کہتے ہیں۔ یہ قرنیہ کسی مرنے والے کی وصیت کے مطابق اس کی وفات کے فوراً بعد آنکھوں سے نکال لیا جاتا ہے۔

    اب ایک چیز اور ایجاد ہوئی ہے۔ نام اس کا ”کنٹیکٹ لینس“ ہے۔ رنگ بھی اس کے کئی ہیں اور خوبی یہ کہ اسے آپ اپنے قرنیے پر لگا دیں، دیکھنے والے کو آپ کی ”ہوشیاری“ کا پتا بھی نہیں چلے گا اور آپ کی آنکھوں کی رنگت بھی بدل جائے گی۔

    کنٹیکٹ لینس بغیر رنگ کے بھی ہوتے ہیں۔ چناں چہ ڈاکٹر صاحبان اب صرف قرنیہ کا آپریشن نہیں کرتے بلکہ آپ کی آنکھوں کو آپ کا پسندیدہ رنگ بھی دیتے ہیں۔ آپ کنٹیکٹ لینس لینے کی خواہش کا اظہار کریں تو فوراً دریافت کیا جائے گا۔ ”کس رنگ میں چاہئے؟ نیلا، لال، ہرا، کتھئی ہر رنگ موجود ہے۔“ بالکل اسی طرح جیسے کپڑے کی دکان پر بزاز تھان پھیلا کر کہتا ہے۔”بہن جی، ڈیزائن پسند کر لیں، رنگ اور بھی مل جائیں گے۔ نیلا، پیلا، لال، ہرا، اودا، پانچ ورائٹیز ہیں اس میں۔“

    اس لینس کی ایک خوبی اور بھی ہے، یعنی اسے لگانے کے لئے خدانخواستہ کسی کا نابینا ہونا یا اس کی بینائی کا کمزور ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ کی بینائی کمزور ہے تو آپ اپنی آنکھیں ٹیسٹ کرا کے چشمے کی طرح لینس کا نمبر لے لیں ورنہ آپ کے سامنے بغیر نمبر کے تمام رنگ کے لینس رکھے ہیں۔ ”نظرِ انتخاب“ ڈالئے اور کوئی بھی رنگ پسند کرلیجئے۔

    میری ملاقات جس خاتون سے ہوئی تھی وہ رنگوں کی میچنگ کے معاملے میں اتنی ”حسّاس“ ہیں کہ لباس، نیل پاش اور لِپ اِسٹک سے لے کر آنکھوں تک سب میچنگ کلر میں چاہتی ہیں۔ اس روز وہ ”بازارِ شفا“ میں رنگ برنگی آنکھوں (لینس) کی خریداری کے سلسلے میں ہی آئی تھیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ انہوں نے کس کس رنگ کی آنکھیں خریدیں لیکن اتنا اطمینان ضرور ہے کہ وہ بے ضرر سی خاتونِ خانہ تھیں۔ لہٰذا، ان کے ”آنکھیں بدلنے“ سے کسی کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے۔ گھر والے بھی چند دنوں میں ان کی اس عادت سے بخوبی واقف ہوجائیں گے اور ان کی رنگ بدلتی آنکھوں کی پروا نہیں کریں گے۔

    ہم اس بات سے بھی خوف زدہ نہیں ہیں کہ معاشرے کے جرائم پیشہ افراد کنٹیکٹ لینس سے ناجائز فائدہ اٹھائیں گے یعنی کوئی چور کالی آنکھوں کے ساتھ چوری کرنے کے بعد نیلی آنکھیں لگا کر مجمع میں شامل ہو کر ”چور چور، لینا، پکڑنا، جانے نہ پائے“ کی صدائیں لگانے لگے گا۔ ظاہر ہے ہم اس سے کیوں خوف زدہ ہوں۔ یہ دردِ سر تو محکمۂ پولیس کا ہے۔ ہم تو صرف ایسے ”عاشقِ صادق“ کے لئے پریشان ہیں جو اپنی محبوبہ کی نیلی آنکھیں دیکھ کر بڑے پیار سے کہے گا۔ ”جان! تمہاری آنکھوں میں جھیل جیسی گہرائی ہے۔ تمہاری نیلگوں آنکھوں میں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے۔“ اور اس بات پر محبوبہ بجائے شرمانے کے جھٹ لینس نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دے گی۔ ”لو ڈوب سکتے ہو تو ڈوب جاؤ، مرو گے تھوڑی۔“

    عاشق بے چارہ چکرا کر محبوبہ کی طرف دیکھے گا تو نیلگوں آنکھوں میں ”شبِ دیجور“ کی سیاہی نظر آئے گی۔ یا کبھی کسی محبوبہ کو غصہ آیا اور اس کی اصلی آنکھیں لال پیلی ہونے لگیں تو عاشق اسے منانے کی بجائے
    شانِ بے نیازی سے کہے گا۔ ”دیکھو جی! میرے پاس بھی نیلے اور پیلے رنگ کے کنٹیکٹ لینس ہیں۔ اگر تمہاری آنکھیں لال پیلی ہوسکتی ہیں تو میری آنکھیں بھی نیلی پیلی ہوسکتی ہیں۔“ تصّور کیجئے اس وقت بیچاری محبوبہ کی آنکھوں سے برستی برسات کا کیا منظر ہو گا۔

    برستی برسات پر خیال آیا کہ ان آنکھوں کے ساتھ رونا منع ہے کیوں کہ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ آنسوؤں کے ساتھ آنکھیں بھی بہہ جائیں۔ کنٹیکٹ لینس کے استعمال کا ایک نقصان یہ بھی ہوگا کہ کبھی کسی نے غصّے میں آنکھیں دکھانی شروع کیں تو دوسرا نہایت پیار سے داغؔ کا شعر پڑھتے ہوئے اپنے کنٹیکٹ لینس نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دے گا۔

    داغؔ آنکھیں نکالتے ہیں وہ
    اُن کو دے دو نکال کر آنکھیں

    (سینئر صحافی، فکاہیہ نگار حمیرا اطہر کے کالموں کے مجموعہ” بات سے بات” سے انتخاب، ان کی یہ تحریر 1979ء میں پاکستان کے ایک مؤقر جریدے میں شایع ہوئی تھی)