Tag: مزاحیہ ادب

  • سینما کا عشق

    سینما کا عشق

    "سینما کا عشق” عنوان تو عجب ہوس خیز ہے۔ لیکن افسوس کہ اس مضمون سے آپ کی تمام توقعات مجروح ہوں گی۔ کیونکہ مجھے تو اس مضمون میں کچھ دل کے داغ دکھانے مقصود ہیں۔

    اس سے آپ یہ نہ سمجھیے کہ مجھے فلموں سے دلچسپی نہیں یا سینما کی موسیقی اور تاریکی میں جو ارمان انگیزی ہے میں اس کا قائل نہیں۔ میں تو سینما کے معاملے میں اوائلِ عمر ہی سے بزرگوں کا موردِ عتاب رہ چکا ہوں لیکن آج کل ہمارے دوست مرزا صاحب کی مہربانیوں کے طفیل سینما گویا میری دکھتی رگ بن کر رہ گیا ہے۔ جہاں اس کا نام سن پاتا ہوں بعض درد انگیز واقعات کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جس سے رفتہ رفتہ میری فطرت ہی کج بین بن گئی ہے۔ اوّل تو خدا کے فضل سے ہم کبھی سینما وقت پر نہیں پہنچ سکے۔ اس میں میری سستی کو ذرا دخل نہیں یہ سب قصور ہمارے دوست مرزا صاحب کا ہے جو کہنے کو تو ہمارے دوست ہیں لیکن خدا شاہد ہے ان کی دوستی سے جو نقصان ہمیں پہنچے ہیں کسی دشمن کے قبضہ قدرت سے بھی باہر ہوں گے۔

    جب سینما جانے کا ارادہ ہو ہفتہ بھر پہلے سے انہیں کہہ رکھتا ہوں کہ کیوں بھئی مرزا اگلی جمعرات سینما چلو گے نا؟ میری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے سے تیار رہیں اور اپنی تمام مصروفیتیں کچھ اس ڈھب سے ترتیب دے لیں کہ جمعرات کے دن ان کے کام میں کوئی ہرج واقع نہ ہو لیکن وہ جواب میں عجب قدر ناشناسی سے فرماتے ہیں: "ارے بھئی چلیں گے کیوں نہیں؟ کیا ہم انسان نہیں؟ ہمیں تفریح کی ضرورت نہیں ہوتی؟ اور پھر کبھی ہم نے تم سے آج تک ایسی بے مروتی بھی برتی ہے کہ تم نے چلنے کو کہا ہو اور ہم نے تمہارا ساتھ نہ دیا ہو؟”

    ان کی تقریر سن کر میں کھسیانا سا ہو جاتا ہوں۔ کچھ دیر چپ رہتا ہوں اور پھر دبی زبان سے کہتا ہوں: "بھئی اب کے ہو سکا تو وقت پر پہنچیں گے۔ ٹھیک ہے نا؟”

    میری یہ بات عام طور پر ٹال دی جاتی ہے کیونکہ اس سے ان کا ضمیر کچھ تھوڑا سا بیدار ہو جاتا ہے۔ خیر میں بھی بہت زور نہیں دیتا۔ صرف ان کو بات سمجھانے کے لیے اتنا کہہ دیتا ہوں: "کیوں بھئی سینما آج کل چھ بجے شروع ہوتا ہے نا؟”

    مرزا صاحب عجیب معصومیت کے انداز میں جواب دیتے ہیں۔ "بھئی ہمیں یہ معلوم نہیں۔”

    "میرا خیال ہے چھ ہی بجے شروع ہوتا ہے۔”

    "اب تمہارے خیال کی تو کوئی سند نہیں۔”

    "نہیں مجھے یقین ہے چھ بجے شروع ہوتا ہے۔”

    "تمہیں یقین ہے تو میرا دماغ کیوں مفت میں چاٹ رہے ہو؟”

    اس کے بعد آپ ہی کہیے میں کیا بولوں؟

    خیر جناب جمعرات کے دن چار بجے ہی ان کے مکان کو روانہ ہو جاتا ہوں اس خیال سے کہ جلدی جلدی انہیں تیار کرا کے وقت پر پہنچ جائیں۔ دولت خانے پر پہنچتا ہوں تو آدم نہ آدم زاد۔ مردانے کے سب کمروں میں گھوم جاتا ہوں۔ ہر کھڑکی میں سے جھانکتا ہوں ہر شگاف میں سے آوازیں دیتا ہوں لیکن کہیں سے رسید نہیں ملتی آخر تنگ آ کر ان کے کمرے میں بیٹھ جاتا ہوں۔ وہاں دس منٹ سیٹیاں بجاتا رہتا ہوں۔ دس پندرہ منٹ پنسل سے بلاٹنگ پیپر پر تصویریں بناتا رہتا ہوں، پھر سگریٹ سلگا لیتا ہوں اور باہر ڈیوڑھی میں نکل کر ادھر اُدھر جھانکتا ہوں۔ وہاں بدستور ہُو کا عالم دیکھ کر کمرے میں واپس آ جاتا ہوں اور اخبار پڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔ ہر کالم کے بعد مرزا صاحب کو ایک آواز دے لیتا ہوں۔ اس امید پر کہ شاید ساتھ کے کمرے میں یا عین اوپر کے کمرے میں تشریف لے آئے ہوں۔ سو رہے تھے تو ممکن ہے جاگ اٹھے ہوں۔ یا نہا رہے تھے تو شاید غسل خانے سے باہر نکل آئے ہوں۔ لیکن میری آواز مکان کی وسعتوں میں سے گونج ہر واپس آ جاتی ہے آخرکار ساڑھے پانچ بجے کے قریب زنانے سے تشریف لاتے ہیں۔ میں اپنے کھولتے ہوئے خون پر قابو میں لا کر متانت اور اخلاق کو بڑی مشکل سے مد نظر رکھ کر پوچھتا ہوں:

    "کیوں حضرات آپ اندر ہی تھے؟”

    "ہاں میں اندر ہی تھا۔”

    "میری آواز آپ نے نہیں سنی؟”

    "اچھا یہ تم تھے؟ میں سمجھا کوئی اور ہے؟”

    آنکھیں بند کر کے سر کو پیچھے ڈال لیتا ہوں اور دانت پیس کر غصے کو پی جاتا ہوں اور پھر کانپتے ہوئے ہونٹوں سے پوچھتا ہوں:

    "تو اچھا اب چلیں گے یا نہیں؟”

    "وہ کہاں”؟

    "ارے بندۂ خدا آج سینما نہیں جانا؟”

    "ہاں سینما۔ سینما۔ (یہ کہہ کر وہ کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں) ٹھیک ہے۔ سینما۔ میں بھی سوچ رہا تھا کہ کوئی نہ کوئی بات ضرور ایسی ہے جو مجھے یاد نہیں آتی اچھا ہوا تم نے یاد دلایا ورنہ مجھے رات بھر الجھن رہتی۔”

    "تو چلو پھر اب چلیں۔”

    "ہاں وہ تو چلیں ہی گے میں سوچ رہا تھا کہ آج ذرا کپڑے بدل لیتے۔ خدا جانے دھوبی کم بخت کپڑے بھی لایا ہے یا نہیں۔ یار ان دھوبیوں کا تو کوئی انتظام کرو۔”

    اگر قتل انسانی ایک سنگین جرم نہ ہوتا تو ایسے موقع پر مجھ سے ضرور سرزد ہو جاتا لیکن کیا کروں اپنی جوانی پر رحم کھاتا ہوں بے بس ہوتا ہوں صرف یہی کر سکتا ہوں کہ: "مرزا بھئی للہ مجھ پر رحم کرو۔ میں سینما چلنے کو آیا ہوں دھوبیوں کا انتظام کرنے نہیں آیا۔ یار بڑے بدتمیز ہو پونے چھ بج چکے ہیں اور تم جوں کے توں بیٹھے ہو۔”

    مرزا صاحب عجب مربیانہ تبسّم کے ساتھ کرسی پر سے اٹھتے ہیں گویا یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اچھا بھئی تمہاری طفلانہ خواہشات آخر ہم پوری کر ہی دیں۔ چنانچہ پھر یہ کہہ کر اندر تشریف لے جاتے ہیں کہ اچھا کپڑے پہن آؤں۔

    مرزا صاحب کے کپڑے پہنے کا عمل اس قدر طویل ہے کہ اگر میرا اختیار ہوتا قانون کی رو سے انہیں کبھی کپڑے اتارنے ہی نہ دیتا۔ آدھ گھنٹے کے بعد وہ کپڑے پہنے ہوئے تشریف لاتے ہیں۔ ایک پان منہ میں دوسرا ہاتھ میں، میں بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔ دروازے تک پہنچ کر مڑ کر جو دیکھتا ہوں تو مرزا صاحب غائب۔ پھر اندر آ جاتا ہوں مرزا صاحب کسی کونے میں کھڑے کچھ کرید رہے ہوتے ہیں۔ "ارے بھئی چلو۔”

    "چل تو رہا ہوں یار، آخر اتنی بھی کیا آفت ہے؟”

    "اور یہ تم کیا کر رہے ہو؟”

    "پان کے لیے ذرا تمباکو لے رہا تھا۔”

    تمام راستے مرزا صاحب چہل قدمی فرماتے جاتے ہیں۔ میں ہر دو تین لمحے کے بعد اپنے آپ کو ان سے چارپانچ قدم آگے پاتا ہوں۔ کچھ دیر ٹھہر جاتا ہوں وہ ساتھ آ ملتے ہیں تو پھر چلنا شروع کر دیتا ہوں پھر آگے نکل جاتا ہوں پھر ٹھہر جاتا ہوں۔ غرض یہ کہ گو چلتا دوگنی تگنی رفتار سے ہوں لیکن پہنچتا ان کے ساتھ ہی ہوں۔

    ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوتے ہیں تو اندھیرا گھپ، بہتیرا آنکھیں جھپکتا ہوں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ادھر سے کوئی آواز دیتا ہے۔ "یہ دروازہ بند کر دو جی!” یا اللہ اب جاؤں کہاں۔ رستہ، کرسی، دیوار، آدمی، کچھ بھی تو نظر نہیں آتا۔ ایک قدم بڑھاتا ہوں تو سر ان بالٹیوں سے جا ٹکراتا ہے جو آگ بجھانے کے لیے دیوار پر لٹکی رہتی ہیں، تھوڑی دیر کے بعد تاریکی میں کچھ دھندلے سے نقش دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جہاں ذرا تاریک تر سا دھبہ دکھائی دے جائے۔ وہاں سمجھتا ہوں خالی کرسی ہو گی خمیدہ پشت ہو کر اس کا رخ کرتا ہوں، اس کے پاؤں کو پھاند کر اس کے ٹخنوں کو ٹھکرا۔ خواتین کے گھنٹوں سے دامن بچا۔ آخرکار کسی گود میں جا کر بیٹھتا ہوں وہاں سے نکال دیا جاتا ہوں اور لوگوں کے دھکوں کی مدد سے کسی خالی کرسی تک جا پہنچتا ہوں مرزا صاحب سے کہتا ہوں: "میں نہ بکتا تھا کہ جلدی چلو خوامخواہ میں ہم کو رسوا کروا دیا نا! گدھا کہیں کا!” اس شگفتہ بیانی کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ساتھ کی کرسی پر جو حضرت بیٹھے ہیں اور جن کو مخاطب کر رہا ہوں وہ مرزا صاحب نہیں کوئی اور بزرگ ہیں۔ اب تماشے کی طرف متوجہ ہوں اور سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ فلم کون سا ہے اس کی کہانی کیا ہے اور کہاں تک پہنچ چکی ہے اور سمجھ میں صرف اس قدر آتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت جو پردے پر بغل گیر نظر آتے ہیں ایک دوسرے کو چاہتے ہوں گے۔ اس انتظار میں رہتا ہوں کہ کچھ لکھا ہوا سامنے آئے تو معاملہ کھلے کہ اتنے میں سامنے کی کرسی پر بیٹھے ہوئے حضرات ایک وسیع و فراخ انگڑائی لیتے ہیں جس کے دوران میں کم از کم دو تین سو فٹ فلم گزر جاتا ہے۔ جب انگڑائی کو لپیٹ لیتے ہیں تو سر کو کھجانا شروع کر دیتے ہیں اور اس عمل کے بعد ہاتھ کو سر سے نہیں ہٹاتے بلکہ بازو کو ویسے خمیدہ رکھتے ہیں۔ میں مجبوراً سر کو نیچا کر کے چائے دانی کے اس دستے کے بیچ میں سے اپنی نظر کے لیے راستہ نکال لیتا ہوں اور اپنے بیٹھنے کے انداز سے بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ٹکٹ خریدے بغیر اندر گھس آیا ہوں اور چوروں کی طرح بیٹھا ہوا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد انہیں کرسی کی نشست پر کوئی مچھر یا پسو محسوس ہوتا ہے چنانچہ وہ دائیں سے ذرا اونچے ہو کر بائیں طرف کو جھک جاتے ہیں۔ میں مصیبت کا مارا دوسری طرف جھک جاتا ہوں۔ ایک دو لمحے کے بعد وہی مچھر دوسری طرف ہجرت کر جاتا ہے چنانچہ ہم دونوں پھر سے پینترا بدل لیتے ہیں۔ غرض یہ کہ یہ دل لگی یوں ہی جاری رہتی ہے وہ دائیں تو میں بائیں اور وہ بائیں تو میں دائیں ان کو کیا معلوم کہ اندھیرے میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ دل یہی چاہتا ہے کہ اگلے درجے کا ٹکٹ لے کر ان کے آگے جا بیٹھوں۔ اور کہوں کہ لے بیٹا دیکھوں تو اب تو کیسے فلم دیکھتا ہے۔

    پیچھے سے مرزا صاحب کی آواز آتی ہے: "یار تم سے نچلا نہیں بیٹھا جاتا۔ اب ہمیں ساتھ لائے ہو تو فلم تو دیکھنے دو۔”

    اس کے بعد غصے میں آ کر آنکھیں بند کر لیتا ہوں اور قتل عمد، خودکشی، زہر خورانی وغیرہ معاملات پر غور کرنے لگتا ہے۔ دل میں، میں کہتا ہوں کہ ایسی کی تیسی اس فلم کی۔ سو سو قسمیں کھاتا ہوں کہ پھر کبھی نہ آؤں گا۔ اور اگر آیا بھی تو اس کم بخت مرزا سے ذکر تک نہ کروں گا۔ پانچ چھ گھنٹے پہلے سے آ جاؤں گا۔ اوپر کے درجے میں سب سے اگلی قطار میں بیٹھوں گا۔ تمام وقت اپنی نشست پر اچھلتا رہوں گا! بہت بڑے طرے والی پگڑی پہن کر آؤں گا اور اپنے اوور کوٹ کو دو چھڑیوں پر پھیلا کر لٹکا دوں گا! بہرحال مرزا کے پاس تک نہیں پھٹکوں گا!

    لیکن اس کم بخت دل کو کیا کروں۔ اگلے ہفتے پھر کسی اچھی فلم کا اشتہار دیکھ کر پاتا ہوں تو سب سے پہلے مرزا کے ہاں جاتا ہوں اور گفتگو پھر وہیں سے شروع ہوتی ہے کہ کیوں بھئی اگلی جمعرات سے سینما چلو گے نا؟

    (اردو کے ممتاز ادیب اور مشہور مزاح نگار پطرس بخاری کی ایک شگفتہ تحریر)

  • معروف مزاح نگار کرنل محمد خان کا تذکرہ

    معروف مزاح نگار کرنل محمد خان کا تذکرہ

    اردو مزاح نگاری کی تاریخ میں کرنل محمد خان نے اپنی تخلیق کو جس طرح ظ‌رافت کے ساتھ افادی بنایا ہے، وہ بہت مزاح نگار کرسکے ہیں۔ ان کا فن محض وقت گزاری کا وسیلہ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ عمل ہے۔ وہ ادب برائے ادب کے بجائے ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔ آج کرنل محمد خان کی برسی ہے۔

    کرنل محمد خان کے اسلوب کی خصوصیات اس کی خیال آفرینی، فکر انگیزی اور لطافت و شگفتگی ہے جو مزاح نگاری میں ان کا امتیازی وصف بھی ہے۔ کرنل محمد خان کی ادبی شہرت کا سفر ان کی ایک تصنیف بجنگ آمد سے شروع ہوا جو قارئین میں بہت مقبول ہوئی۔ اردو زبان کے اس معروف مزاح نگار نے 23 اکتوبر 1999 کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    متحدہ ہندوستان کے ضلع چکوال کے چھوٹے سے علاقے بلکسر میں پیدا ہونے والے کرنل محمد خان کا سنہ پیدائش 1910 ہے۔ 1966 میں کی پہلی تصنیف بجنگ آمد کی اشاعت ہوئی تھی۔ اس کتاب کی مقبولیت کے بعد کرنل محمد خان نے اپنے قارئین کو مزید دو کتابیں بسلامت روی اور بزم آرائیاں پڑھنے کو دیں۔ کرنل محمد خان کی ایک کتاب تراجم پر مشتمل تھی جو بدیسی مزاح کے نام سے منظرِ‌عام پر آئی۔

    کرنل محمد خان تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانوی فوج سے وابستہ ہوگئے اور بجنگ آمد اسی زمانے کی وہ کتاب ہے جس میں انھوں نے مزاح کے پیرائے میں سوانح رقم کی اور یہ کتاب فوج میں اُن کی شمولیت اور مختلف واقعات کے علاوہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران پیدا ہونے والی صورتِ حال اور مصنّف کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا پُر لطف بیان ہے۔ یہ کتاب ان کے زورِ قلم کی عمدہ مثال ہے۔ اس کتاب میں کرنل محمد خان نے چھٹیوں‌ پر اپنے گاؤں لوٹنے پر اپنے استقبال اور اپنی والدہ سے بولے گئے ایک جھوٹ کو نہایت پُراثر انداز میں کچھ یوں‌ بیان کیا ہے۔

    ”خبر مشہور ہو گئی کہ کپتان آگیا ہے، محمد خان آگیا ہے۔ کتنا دبلا پتلا تھا، اب دیکھو کیسا جوان نکلا ہے، صاحب بن گیا ہے، “سرگٹ” بھی پیتا ہے، مسکوٹ میں کھانا کھاتا ہے، نوکری پہرہ بھی معاف ہے۔

    گاؤں کے چھوٹے بڑے کام چھوڑ کر ملاقات کو آنے لگے۔ ہم نے پہلے دو دن میں کوئی ایک ہزار معانقے کیے ہوں گے اور بس اتنی ہی ہمارے گاؤں کی مردانہ آبادی تھی۔ چھاتی دکھنے لگی، لیکن دل کو ایک عجیب سکھ حاصل ہوا۔ مہینے بھر میں صرف چند روز اپنے گھر کھانا کھایا اور وہ بھی والدہ کے اصرار پر کہ مجھے اپنے بیٹے کو جی بھر کر دیکھ لینے دو اور بہت دیر دیکھ چکیں تو وہ کچھ کہا جو صرف ماں ہی کہہ سکتی ہے۔

    “بیٹا اب ساری فوج میں تم ہی بڑے افسر ہو نا؟”

    میں والدہ کو دیکھتا اور سوچتا کہ اگر اس پیکرِ محبت کا وجود نہ ہوتا تو کیا مجھے وطن واپسی کا یہی اشتیاق ہوتا؟ بغیر کسی جھجک کے جواب دیا۔

    “جی ہاں ایک آدھ کو چھوڑ کر سب میرے ماتحت ہیں۔” اور ماں کی دنیا آباد ہو گئی۔

    ویسے سچ یہ تھا کہ ایک آدھ نہیں بلکہ ایک لاکھ چھوڑ کر بھی ہمیں اپنے ماتحت ڈھونڈنے کے لیے چراغ بلکہ سرچ لائٹ کی ضرورت تھی، لیکن وہ سچ کس کام کا جس سے ماں کا دل دکھے؟“

    کرنل محمد خان قیامِ پاکستان کے بعد پاک فوج سے منسلک رہے، وہ شعبۂ تعلیم میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے اور اسی عہدے سے ریٹائر‌ ہوئے۔

    بطور مزاح نگار کرنل محمد خان نے طنز سے معاشرتی ناہمواریوں کو نشانہ بنایا ہے، مگر ان کا وصف یہ ہے کہ وہ زندگی کو بالعموم خندہ پیشانی سے دیکھتے ہیں اور ناہمواریوں کو بھی خوش مزاجی سے قبول کرتے ہیں۔ کرنل محمد خان نے سفر نامے بھی لکھے اور اس میں بھی وہ اشیا اور مظاہر کو شوخ و شنگ نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے سفر کی روداد کو انشائی لطافت سے پیش کرتے ہیں۔

  • روشن آرا اور ‘از حد شریف’

    روشن آرا اور ‘از حد شریف’

    اردو ادب میں میاں‌ بیوی کے تعلق پر مزاح نگاروں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ اردو ہی نہیں‌ عالمی ادب میں بھی شادی شدہ مردوں کے بارے میں ایسی ہی مزاحیہ تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں‌ جن میں انھیں خاتونِ خانہ کے آگے بے بس اور مجبور بتایا جاتا ہے۔

    یہ پطرس بخاری کی ایک ایسی ہی تحریر ہے جس میں انھوں نے خود کو ایک ایسے خاوند کے طور پر پیش کیا ہے جو اپنی بیوی کے غصّے اور ناراضی سے ڈرتا ہے اور اس کی ہر بات مانتا ہے۔ وہ خاص طور پر اپنے دوستوں سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے کیوں کہ بیوی کی نظر میں‌ اس کے دوست نکھٹو، احمق اور کام چور ہیں۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس کا خاوند بھی انہی کی عادات اپنا رہا ہے۔ پطرس کے اس شگفتہ مضمون سے یہ اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔

    شادی سے پہلے ہم کبھی کبھی دس بجے اٹھا کرتے تھے ورنہ گیارہ بجے۔

    اب کتنے بجے اٹھتے ہیں؟ اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کے گھر ناشتہ زبردستی صبح کے سات بجے کرا دیا جاتا ہے اور اگر ہم کبھی بشری کمزوری کے تقاضے سے مرغوں کی طرح تڑکے اُٹھنے میں کوتاہی کریں تو فوراً ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اس نکھٹو نسیم کی صحبت کا نتیجہ ہے۔

    ایک دن صبح صبح ہم نہا رہے تھے۔ سردی کا موسم، ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ صابن سر پر ملتے تھے تو ناک میں گھستا تھا کہ اتنے میں ہم نے خدا جانے کس پُراسرار جذبے کے ماتحت غسل خانے میں الاپنا شروع کیا اور پھر گانے لگے کہ ’’توری چھل بل ہے نیاری۔۔۔‘‘ اس کو ہماری انتہائی بدمذاقی سمجھا گیا اور اس بدمذاقی کا اصل منبع ہمارے دوست پنڈت جی کو ٹھہرایا گیا۔

    لیکن حال ہی میں مجھ پر ایک ایسا سانحہ گزرا ہے کہ میں نے تمام دوستوں کو ترک کر دینے کی قسم کھالی ہے۔ تین چار دن کا ذکر ہے کہ صبح کے وقت روشن آرا نے مجھ سے میکے جانے کے لیے اجازت مانگی۔ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے روشن آرا صرف دو دفعہ میکے گئی ہے، اور پھر اس نے کچھ اس سادگی اور عجز سے کہا کہ میں انکار نہ کرسکا۔

    کہنے لگی، ’’تو پھر میں ڈیڑھ بجے کی گاڑی میں چلی جاؤں؟‘‘

    ’’میں نے کہا، اور کیا؟‘‘ وہ جھٹ تیاری میں مشغول ہوگئی اور میرے دماغ میں آزادی کے خیالات نے چکر لگانے شروع کیے۔ یعنی اب بیشک دوست آئیں، بیشک اودھم مچائیں۔ میں بے شک گاؤں، بے شک جب چاہوں اٹھوں۔ بے شک تھیٹر جاؤں۔ میں نے کہا، ’’روشن آرا جلدی کرو۔ نہیں تو گاڑی چھوٹ جائے گی۔‘‘

    ساتھ اسٹیشن پر گیا۔ جب گاڑی میں سوار کرا چکا تو کہنے لگی، ’’خط روز لکھتے رہیے۔‘‘

    ’’میں نے کہا، ہر روز اور تم بھی۔‘‘

    ’’کھانا وقت پہ کھا لیا کیجیے اور ہاں دھلی ہوئی جرابیں اور رومال الماری کے نچلے خانے میں پڑے ہیں۔‘‘ اس کے بعد ہم دونوں خاموش ہوگئے اور ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ میرا دل بھی بیتاب ہونے لگا اور جب گاڑی روانہ ہوئی تو میں دیر تک مبہوت پلیٹ فارم پر کھڑا رہا۔

    آخر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا کتابوں کی دکان تک آیا اور رسالوں کے ورق پلٹ پلٹ کر تصویریں دیکھتا رہا۔ ایک اخبار خریدا۔ تہہ کرکے جیب میں ڈالا اور عادت کے مطابق گھر کا ارادہ کر لیا۔ پھر خیال آیا کہ اب گھر جانا ضروری نہیں رہا۔ اب جہاں چاہوں جاؤں، چاہوں تو گھنٹوں اسٹیشن پر ہی ٹہلتا رہوں۔ دل چاہتا تھا قلابازیاں کھاؤں۔

    کہتے ہیں جب افریقہ کے وحشیوں کو کسی تہذیب یافتہ ملک میں کچھ عرصہ کے لیے رکھا جاتا ہے تو گو وہ وہاں کی شان و شوکت سے بہت متاثر ہوتے ہیں لیکن جب واپس جنگلوں میں پہنچتے ہیں تو خوشی کے مارے چیخیں مارتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت میرے دل کی بھی ہو رہی تھی۔ بھاگتا ہوا اسٹیشن سے آزادانہ باہر نکلا۔ آزادی کے لہجہ میں تانگے والے کو بلایا اور کود کر تانگے میں سوار ہوگیا۔ سگریٹ سلگا لیا، ٹانگیں سیٹ پر پھیلا دیں اور کلب کو روانہ ہوگیا۔

    رستے میں ایک بہت ضروری کام یاد آگیا۔ تانگہ موڑ کر گھر کی طرف پلٹا۔ باہر ہی سے نوکر کو آوازد دی۔
    ’’امجد!‘‘

    ’’حضور!‘‘

    ’’دیکھو، حجام کو جاکے کہہ دو کہ کل گیارہ بجے آئے۔‘‘

    ’’بہت اچھا۔‘‘

    ’’گیارہ بجے سن لیا نا؟ کہیں روز کی طرح پھر چھے بجے وارد نہ ہو جائے۔‘‘

    ’’بہت اچھا حضور۔‘‘

    ’’اور اگر گیارہ بجے سے پہلے آئے تو دھکے دے کر باہر نکال دو۔‘‘ یہاں سے کلب پہنچے۔ آج تک کبھی دن کے دو بجے کلب نہ گیا تھا۔ اندر داخل ہوا تو سنسان، آدمی کا نام و نشان تک نہیں۔ سب کمرے دیکھ ڈالے۔ بلیرڈ کا کمرہ خالی، شطرنج کا کمرہ خالی، تاش کا کمرہ خالی۔ صرف کھانے کے کمرے میں ایک ملازم چھریاں تیز کر رہا تھا۔

    اس سے پوچھا، ’’کیوں بے آج کوئی نہیں آيا؟‘‘ کہنے لگا، ’’حضور آپ جانتے ہیں، اس وقت بھلا کون آتا ہے؟‘‘ بہت مایوس ہوا۔ باہر نکل کر سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ اور کچھ نہ سوجھا تو وہاں سے مرزا صاحب کے گھر پہنچا۔ معلوم ہوا ابھی دفتر سے واپس نہیں آئے۔ دفتر پہنچا۔ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ میں نے سب حال بیان کیا۔

    کہنے لگے،’’ تم باہر کے کمرے میں ٹھہرو، تھوڑا سا کام رہ گیا ہے۔ بس ابھی بھگتا کے تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ شام کا پروگرام کیا ہے؟‘‘

    میں نے کہا، ’’تھیٹر۔‘‘

    کہنے لگے، ’’بس بہت ٹھیک ہے، تم باہر بیٹھو۔ میں ابھی آیا۔‘‘

    باہر کے کمرے میں ایک چھوٹی سی کرسی پڑی تھی۔ اس پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا اور جیب سے اخبار نکال کر پڑھنا شروع کر دیا۔ شروع سے آخر تک سب پڑھ ڈالا اور ابھی چار بجنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔ پھر سے پڑھنا شروع کر دیا۔ سب اشتہار پڑھ ڈالے اور پھر سب اشتہاروں کو دوبارہ پڑھ ڈالا۔

    آخر کار اخبار پھینک کر بغیر کسی تکلف یا لحاظ کے جمائیاں لینے لگا، جمائی پہ جمائی۔ جمائی پہ جمائی، حتٰی کہ جبڑوں میں درد ہونے لگا۔ اس کے بعد ٹانگیں ہلانا شروع کیا لیکن اس سے بھی تھک گیا۔ پھر میز پر طبلے کی گتیں بجاتا رہا۔ بہت تنگ آگیا تو دروازہ کھول کر مرزا سے کہا،
    ’’ابے یار اب چلتا بھی ہے کہ مجھے انتظار ہی میں مار ڈالے گا۔ مردود کہیں کا، سارا دن میرا ضائع کر دیا۔‘‘

    وہاں سے اُٹھ کر مرزا کے گھر گئے۔ شام بڑے لطف میں کٹی۔ کھانا کلب میں کھایا اور وہاں سے دوستوں کو ساتھ ليے تھیٹر گئے۔ رات کے ڈھائی بجے گھر لوٹے۔ تکیے پر سر رکھا ہی تھا کہ نیند نے بے ہوش کر دیا۔

    صبح آنکھ کھلی تو کمرے میں دھوپ لہریں مار رہی تھی۔ گھڑی کو دیکھا تو پونے گیارہ بجے تھے۔ ہاتھ بڑھا کر میز پر سے ایک سگریٹ اٹھایا اور سلگا کر طشتری میں رکھ دیا اور پھر اونگھنے لگا۔

    گیارہ بجے امجد کمرے میں داخل ہوا کہنے لگا، ’’حضور حجام آیا ہے۔‘‘
    ہم نے کہا، ’’یہیں بلا لاؤ۔‘‘ یہ عیش مدت کے بعد نصیب ہوا کہ بستر پر لیٹے لیٹے حجامت بنوا لیں۔ اطمینان سے اٹھے اور نہا دھو کر باہر جانے کے ليے تیار ہوئے لیکن طبیعت میں وہ شگفتگی نہ تھی، جس کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ چلتے وقت الماری سے رومال نکالا تو خدا جانے کیا خیال آیا۔ وہیں کرسی پر بیٹھ گیا اور سودائیوں کی طرح اس رومال کو تکتا رہا۔ الماری کا ایک اور خانہ کھولا تو سرمئی رنگ کا ایک ریشمی دوپٹہ نظر آیا۔ باہر نکالا، ہلکی ہلکی عطر کی خوشبو آرہی تھی۔ بہت دیر تک اس پر ہاتھ پھیرتا رہا دل بھر آیا، گھر سُونا معلوم ہونے لگا۔ بہتیرا اپنے آپ کو سنبھالا لیکن آنسو ٹپک ہی پڑے۔ آنسوؤں کا گرنا تھا کہ بیتاب ہوگیا اور سچ مچ رونے لگا۔ سب جوڑے باری باری نکال کر دیکھے لیکن نہ معلوم کیا کیا یاد آیا کہ اور بھی بےقرار ہوتا گیا۔ آخر نہ رہا گیا، باہر نکلا اور سیدھا تار گھر پہنچا۔ وہاں سے تار دیا کہ، ’’میں بہت اداس ہوں۔ تم فوراً آجاؤ!‘‘

    تار دینے کے بعد دل کو کچھ اطمینان ہوا۔ یقین تھا کہ روشن آرا اب جس قدر جلد ہوسکے گا آجائے گی۔ اس سے کچھ ڈھارس بندھ گئی اور دل پر سے جیسے ایک بوجھ ہٹ گیا۔

    دوسرے دن دوپہر کو مرزا کے مکان پر تاش کا معرکہ گرم ہونا تھا۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مرزا کے والد سے کچھ لوگ ملنے آئے ہیں۔ اس ليے تجویز یہ ٹھہری کہ یہاں سے کسی اور جگہ سرک چلو۔ ہمارا مکان تو خالی تھا ہی۔ سب یار لوگ وہیں جمع ہوئے۔ امجد سے کہہ دیا گیا کہ حقے میں اگر ذرا بھی خلل واقع ہوا تو تمہاری خیر نہیں اور پان اس طرح سے متواتر پہنچتے رہیں کہ بس تانتا لگ جائے۔

    اب اس کے بعد کے واقعات کو کچھ مرد ہی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ شروع شروع میں تو تاش باقاعدہ اور باضابطہ ہوتا رہا۔ جو کھیل بھی کھیلا گیا بہت معقول طریقے سے، قواعد و ضوابط کے مطابق اور متانت و سنجیدگی کے ساتھ لیکن ایک دو گھنٹے کے بعد کچھ خوش طبعی شروع ہوئی۔ یار لوگوں نے ایک دوسرے کے پتے دیکھنے شروع کر دیے۔ یہ حالت تھی کہ آنکھ بچی نہیں اور ایک آدھ کام کا پتہ اُڑا نہیں اور ساتھ ہی قہقہے پر قہقہے اُڑنے لگے۔

    تین گھنٹے کے بعد یہ حالت تھی کہ کوئی گھٹنا ہلا ہلا کر گا رہا ہے، کوئی فرش پر بازو ٹیکے بجا رہا ہے۔ کوئی تھیٹر کا ایک آدھ مذاقیہ فقرہ لاکھوں دفعہ دہرا رہا ہے لیکن تاش برابر ہو رہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد دھول دھپا شروع ہوگیا۔ ان خوش فعلیوں کے دوران میں ایک مسخرے نے ایک ایسا کھیل تجویز کردیا۔ جس کے آخر میں ایک آدمی بادشاہ بن جاتا ہے۔ دوسرا وزیر، تیسرا کوتوال اور جو سب سے ہار جائے وہ چور۔ سب نے کہا ’’واہ وا کیا بات کہی ہے۔‘‘

    ایک بولا، ’’پھر آج جو چور بنا اس کی شامت آجائے گی۔‘‘

    دوسرے نے کہا، ’’اور نہیں تو کیا۔ بھلا کوئی ایسا ویسا کھیل ہے۔ سلطنتوں کے معاملے ہیں، سلطنتوں کے۔‘‘

    کھیل شروع ہوا۔ بدقسمتی سے ہم چور بن گئے۔ طرح طرح کی سزائیں تجویز ہونے لگیں۔‘‘ کوئی کہے، ’’ننگے پاؤں بھاگتا ہوا جائے اور حلوائی کی دکان سے مٹھائی خرید کر لائے۔ کوئی کہے، ’’نہیں حضور! سب کے پاؤں پڑے، اور ہر ایک سے دو دو چانٹے کھائے۔‘‘ دوسرے نے کہا، ’’نہیں صاحب ایک پاؤں پر کھڑا ہو کر ہمارے سامنے ناچے۔‘‘

    آخر میں بادشاہ سلامت بولے،’’ہم حکم دیتے ہیں کہ چور کو کاغذ کی ایک لمبوتری نوک دار ٹوپی پہنائی جائے اوراس کے چہرے پر سیاہی مل دی جائے اور یہ اسی حالت میں جاکر اندر سے حقے کی چلم بھر کر لائے۔‘‘
    سب نے کہا۔ ’’کیا دماغ پایا ہے حضور نے! کیا سزا تجویز کی ہے! واہ وا‘‘

    ہم بھی مزے میں آئے ہوئے تھے، ہم نے کہا، ’’تو ہوا کیا؟ آج ہم ہیں کل کسی اور کی باری آجائے گی۔‘‘

    نہایت خندہ پیشانی سے اپنے چہرے کو پیش کیا۔ ہنس ہنس کر وہ بیہودہ سی ٹوپی پہنی۔ ایک شانِ استغنا کے ساتھ چلم اٹھائی اور زنانے کا دروازہ کھول کر باورچی خانے کو چل دیے اور ہمارے پیچھے کمرہ قہقہوں سے گونج رہا تھا۔

    صحن میں پہنچے ہی تھے کہ باہر کا دروازہ کھلا اور ایک برقعہ پوش خاتون اندر داخل ہوئی۔ منہ سے برقعہ الٹا تو روشن آرا۔

    دم خشک ہوگیا۔ بدن پر ایک لرزہ سا طاری ہوگیا۔ زبان بند ہو گئی۔ سامنے وہ روشن آرا جس کو میں نے تار دے کر بلایا تھا کہ، ’’تم فوراً آجاؤ میں بہت اداس ہوں۔‘‘ اور اپنی یہ حالت کہ منہ پر سیاہی ملی ہے، سر پر وہ لمبوتری سی کاغذ کی ٹوپی پہن رکھی ہے اور ہاتھ میں چلم اٹھائے کھڑے ہیں اور مردانے کمرے سے قہقہوں کا شور برابر آرہا ہے۔ روح منجمد ہوگئی اور تمام حواس نے جواب دے دیا۔ روشن آرا کچھ دیر تک چپکی کھڑی دیکھتی رہی اور پھر کہنے لگی۔۔۔ بس میں کیا بتاؤں کہ کیا کہنے لگی؟ اس کی آواز تو میرے کانوں تک جیسے بیہوشی کے عالم میں پہنچ رہی تھی۔

    اب تک آپ اتنا تو جان گئے ہوں گے کہ میں بذاتِ خود از حد شریف واقع ہوا ہوں۔ جہاں تک میں میں ہوں۔ مجھ سے بہتر میاں دنیا پیدا نہیں کرسکتی۔ میری سسرال میں سب کی یہی رائے ہے اور میرا اپنا ایمان بھی یہی ہے لیکن ان دوستوں نے مجھے رسوا کر دیا ہے۔ اس ليے میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ اب یا گھر میں رہوں گا یا کام پر جایا کروں گا۔ نہ کسی سے ملوں گا اور نہ کسی کو اپنے گھر آنے دوں گا، سوائے ڈاکیے یا حجام کے اور ان سے بھی نہایت مختصر باتیں کروں گا۔

    ’’خط ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’دے جاؤ۔ چلے جاؤ۔‘‘

    ’’ناخن تراش دو۔‘‘

    ’’بھاگ جاؤ۔‘‘

    بس، اس سے زیادہ کلام نہ کروں گا۔ آپ دیکھیے تو سہی!

  • مطیع و فرماں بردار میاں

    مطیع و فرماں بردار میاں

    میں ایک میاں ہوں۔ مطیع و فرماں بردار۔

    اپنی بیوی روشن آرا کو اپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آگاہ کرنا اصولِ زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہا ہوں۔ خدا میرا انجام بخیر کرے۔

    چنانچہ میری اہلیہ میرے دوستوں کی تمام عادات و خصائل سے واقف ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دوست جتنے مجھ کو عزیز ہیں اتنے ہی روشن آرا کو برے لگتے ہیں۔ میرے احباب کی جن اداؤں نے مجھے مسحور کر رکھا ہے، انہیں میری اہلیہ ایک شریف انسان کے ليے باعث ذلت سمجھتی ہے۔ آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ خدا نحواستہ وہ کوئی ایسے آدمی ہیں، جن کا ذکر کسی معزز مجمع میں نہ کیا جاسکے۔ کچھ اپنے ہنر کے طفیل اور کچھ خاکسار کی صحبت کی بدولت سب کے سب ہی سفید پوش ہیں لیکن اس بات کو کیا کروں کہ ان کی دوستی میرے گھر کے امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔

    مثلاً مرزا صاحب ہی کو لیجیے۔ اچھے خاصے بھلے آدمی ہیں۔ گو محکمہ جنگلات میں ایک معقول عہدے پر ممتاز ہیں لیکن شکل و صورت ایسی پاکیزہ پائی ہے کہ امام مسجد معلوم ہوتے ہیں۔ جوا نہیں کھیلتے، گلی ڈنڈے کا ان کو شوق نہیں، جیب کترتے ہوئے کبھی وہ نہیں پکڑے گئے۔ البتہ کبوتر پال رکھے ہیں،انھیں سے جی بہلاتے ہیں۔

    ہماری اہلیہ کی یہ کیفیت ہے کہ محلے کا کوئی بدمعاش جوئے میں قید ہوجائے تو اس کی ماں کے پاس ماتم پرسی تک کو چلی جاتی ہیں۔ گلی ڈنڈے میں کسی کی آنکھ پھوٹ جائے تو مرہم پٹی کرتی رہتی ہیں۔ کوئی جیب کترا پکڑا جائے تو گھنٹوں آنسو بہاتی رہتی ہیں لیکن وہ بزرگ جن کو دنیا بھر کی زبان مرزا صاحب مرزا صاحب کہتے تھکتی نہیں، ہمارے گھر میں ’’موئے کبوتر باز‘‘ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ کبھی بھولے سے بھی میں آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کسی چیل، کوے، گدھ، شکرے کو دیکھنے لگ جاؤں تو روشن آرا کو فوراً خیال ہوجاتا ہے کہ بس اب یہ بھی کبوتر باز بننے لگا۔

    اس کے بعد مرزا صاحب کی شان میں ایک قصیدہ شروع ہوجاتا ہے۔ بیچ میں میری جانب گریز۔ کبھی لمبی بحر میں، کبھی چھوٹی بحر میں۔

    ایک دن جب یہ واقعہ پیش آیا، تو میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس مرزا کمبخت کو کبھی پاس نہ پھٹکنے دوں گا، آخر گھر سب سے مقدم ہے۔ میاں بیوی کے باہمی اخلاص کے مقابلے میں دوستوں کی خوشنودی کیا چیز ہے؟ چنانچہ ہم غصے میں بھرے ہوئے مرزا صاحب کے گھر گئے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ کہنے لگے، ’’اندر آجاؤ‘‘ ہم نے کہا، ’’نہیں آتے، تم باہر آؤ‘‘ خیر اندر گیا۔ بدن پر تیل مل کر ایک کبوتر کی چونچ منہ میں لئے دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے ’’بیٹھ جاؤ‘‘ ہم نے کہا ’’بیٹھیں گے نہیں‘‘ آخر بیٹھ گئے، معلوم ہوتا ہے ہمارے تیور کچھ بگڑے ہوئے تھے۔ مرزا بولے، ’’کیوں بھئی؟ خیرباشد!‘‘ میں نے کہا ’’کچھ نہیں۔‘‘ کہنے لگے ’’اس وقت کیسے آنا ہوا؟‘‘

    اب میرے دل میں فقرے کھولنے شروع ہوئے۔ پہلے ارادہ کیا کہ ایک دم ہی سب کچھ کہہ ڈالو اور چل دو۔ پھر سوچا کہ مذاق سمجھے گا، اس ليے کسی ڈھنگ سے بات شروع کرو لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ پہلے کیا کہیں۔ آخر ہم نے کہا،

    ’’مرزا! بھئی کبوتر بہت مہنگے ہوتے ہیں؟‘‘ یہ سنتے ہی مرزا صاحب نے چین سے لے کر امریکہ تک کے تمام کبوتروں کو ایک ایک کرکے گنوانا شروع کیا۔ اس کے بعد دانے کی مہنگائی کے متعلق گل افشانی کرتے رہے اور پھر محض مہنگائی پر تقریر کرنے لگے۔ اس دن تو ہم یوں ہی چلے آئے لیکن ابھی کھٹ پٹ کا ارادہ دل میں باقی تھا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ شام کو گھر میں ہماری صلح ہوگئی۔ ہم نے کہا ’’چلو اب مزرا کے ساتھ بگاڑنے سے کیا حاصل؟‘‘ چنانچہ دوسرے دن مرزا سے بھی صلح صفائی ہوگئی۔

    لیکن میری زندگی تلخ کرنے کے ليے ایک نہ ایک دوست ہمیشہ کارآمد ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فطرت نے میری طبیعت میں قبولیت اور صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کیونکہ ہماری اہلیہ کو ہم میں ہر وقت کسی نہ کسی دوست کی عادات کی جھلک نظر آتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ میری اپنی ذاتی شخصی سیرت بالکل ہی ناپید ہوچکی ہے۔

    (پطرس بخاری کے مزاحیہ مضمون سے چند پارے)

  • عورتوں کی لڑائی

    عورتوں کی لڑائی

    بوا سلام! سکینہ نے اپنے کوٹھے کی دیوار سے سر نکال کر رضیہ کو مخاطب کرکے کہا، جو مکان کے صحن میں بیٹھی چرخہ کات رہی تھی۔

    اس نے اپنی سفید سفید بھنویں سکیڑ کر بے رونق نگاہوں سے اوپر کو دیکھا، اور بے رخی سے کہا، پڑے خاک ایسے سلام پر!

    کیا ہوا بوا، آج کیوں منھ سجائے بیٹھی ہو؟

    چل پرے۔ لمبی بن، آئی وہاں سے بوا کی لاڈلی۔

    بوا کیا ہو گیا تمہیں، کیوں تمہارے سر پر سنیچر سوار ہے آج؟

    سنیچر سوار ہو تیرے سر پر، دیکھ سکینہ میرے منہ مت لگیو!

    بوا کیا باؤلے کتے نے کاٹ لیا تمہیں، جو کاٹ کھانے کو دوڑی پڑتی ہو۔

    باؤلا کتا کاٹے تجھے، تیرے پیاروں کو، اللہ نہ کرے جو مجھے کاٹے باؤلا کتا!

    بوا، دیکھ میرے پیاروں کا نام لیا تو چٹیا کی خیر نہیں، ذرا منھ سنبھال کر بات کرو۔

    منھ وہ سنبھالے جو تیری دبی بسی رہتی ہو۔ تیرا دیا کھاتی ہو۔ مجھ پر تیرا کیا دباؤ ہے جو میں سنبھالوں منھ کو۔

    دیکھ سکینہ منھ میں لوکا دیدوں گی، جو میرے بوڑھے چونڈے کا نام لیا!

    بوا تمہارا تو دماغ چل گیا ہے، زبردستی جیب چلانے کو بیٹھ گئیں تم! میں نے بھلا کہا کیا تھا۔ تمہیں سیدھے سبھاؤ سلام کرنے کو چلی آئی تھی۔ مجھے کیا خبر تھی، یوں جلی پھنکی بیٹھی ہو۔

    جلے تو، پھنکے بھی تو، میں کیوں جلتی۔ جیب چلانے کو مجھے تیرا کیا ڈر پڑا ہے؟

    ہے کیسی لُگائی، باز ہی نہیں آتی، بالکل سر پر ہی چڑھی جارہی ہے، ہم تو بڑھاپے کا خیال کر رہے ہیں، آپ ہیں کہ آپے ہی سے باہر ہوئی جارہی ہیں۔

    آئی وہاں سے بیچاری بڑھاپے کا خیال کرنے والی۔ بڑھاپے کا خیال کرتی تو مردوں میں بیٹھ کر میری صورت میں کیڑے ہی تو ڈالتی، ارے میرے منھ میں دانت نہیں رہے۔ آنکھوں سے پانی بہتا ہے تو تیرے باوا کا کیا نقصان ہے۔ یہ تو اللہ کی قدرت ہے، جس کو چاہے جیسا بنا دے، مگر بندے کو کسی بات پر گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے۔

    بوا، ذرا دوسرے کی بھی سنا کرو۔ تم تو اپنی ہی کہے جارہی ہو، کون کہتا ہے میں نے تمہاری صورت میں کیڑے ڈالے، بوا جھوٹ بولنے کی میری عادت نہیں۔ دیکھو ایسے طوفان مت اٹھاؤ تم مجھ پر، کوئی سنے گا تو کیا کہے گا۔ میرے ہی جنم میں تھوکے گا کہ ضرور اس نے بوا کو کچھ کہا ہوگا۔

    اس گھر میں رہتے رہتے میرے بال سفید ہوگئے، آج تک کوئی کہہ تو دے میں نے کس پر طوفان اٹھائے ہیں، کس پر تہمت لگائی ہے۔ اکیلی تم ہی تو رہتی ہو، محلے میں کوئی اور تو رہتا ہی نہیں، ایک تم پر ہی طوفان توڑ رہی ہوں میں!

    اوروں کی میں کیا جانوں بوا، میں تو اپنی کہتی ہوں بوا، خدا اپنا دیدار اور محمد کی شفاعت نصیب نہ کرے، جو میں نے کسی کے سامنے تمہیں کچھ کہا ہو۔

    خدا کے خوف سے ڈر سکینہ!

    اب اس کا تو کوئی علاج ہی نہیں کہ اَن ہوئی بات کو تم میرے سر تھوپ دو، کوئی بیچ میں ہو تو اس کا نام لو، میں اولاد کی قسم دے کر پوچھوں کس کے آگے کہا میں نے بوا کو بُرا بھلا!

    سکینہ یوں باتوں میں مت اڑاؤ مجھے، میں نے دھوپ میں یہ بال سفید نہیں کیے۔

    بوا تم نے دھوپ میں سفید کیے ہوں بال یا سایہ میں، مجھے اس سے واسطہ نہیں میں تو یہ کہتی ہوں تم اس بندی کا نام بتاؤ، جس کے سامنے میں نے تمہیں برا بھلا کہا۔ جب جھوٹ سچ کھلے گا، بوا اللہ کرے میں اتنی ہی بڑی مرجاؤں، جو میں نے ایک حرف بھی زبان سے نکالا ہو۔

    کس کس کا نام بتاؤں سکینہ! کوئی ڈھکی چھپی بات ہو تو میں نام بھی بتاؤں کسی کا، بھرے مجمع میں بیٹھ کر تم نے اس دن نیم والے گھر میں مجھے اندھا بنایا، منحوس کہا، آنسو ڈھال کہا، تم نے کہا صبح صبح کوئی اس کی صورت بھی نہ دیکھے، جس دن میں اس کا منھ دیکھ لیتی ہوں شام تک چین نہیں ملتا۔

    توبہ کرو بوا توبہ! دیکھو ایسا طوفان مٹ اٹھاؤ۔ اللہ، کیسے بہتان باندھ رہی ہو، خدا جانے آسمان کس کے بھاگوں کھڑا ہے۔

    اچھا قسم کھاؤ، تم نے نہیں کہا۔

    بوا تمہارے سر کی قسم، اپنے بچہ کی سوں، جو میں نے تمہارا نام بھی لیا ہو، پڑے خاک جھوٹ بولنے والے کی صورت پے، بچہ سے زیادہ دنیا میں مجھے اور کیا ہے؟ ہاں اتنی بات تو ہوئی تھی، بوا، دیکھو میں سچی سچی بتاؤں تمیں کہ بلو دھوبن کا ذکر آگیا تھا، تو میں یوں بولی کہ آپ تو اُسے سوجھتا بھی نہیں اور منھ پے تو چھبروں نور برستا ہے جس دن سویرے ہی سویرے صورت دکھائی جاتی ہے، روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی اور کچھ نہیں تو کتا ہی ہنڈیا میں منھ ڈال جاتا ہے۔ بوا لو یہ بات تو ضرور میں نے کہی تھی، تمہارا تو نام بھی نہیں لیا۔ نامعلوم بڑھاپے میں تمہاری عقل چرنے چلی گئی ہے کیا، پہلے بات کا انجام سوچ لیا کرو پھر منھ سے کچھ نکالا کرو۔ وہ تو اچھا ہوا میں چلی آئی اس وقت، نہیں تو تہارے دل میں یہ غبار بھرا ہی رہتا۔

    سکینہ اللہ تیرا کلیجہ ٹھنڈا رکھے، بچی! لے میری کیا خطا ہے، مجھ سے تو جیسا کسی نے کہہ دیا، میں نے یقین کرلیا، میں آپ تو کچھ سننے گئی نہیں تھی، مجھے کیا خبر کہ بلو دھوبن کا قصہ تھا۔ میں تو یہی سمجھی کہ تو مجھی کو کہہ رہی ہوگی، سکینہ میرا دل تو اندر سے گواہی دے رہا تھا کہ زمین آسمان ٹل جائے اپنی جگہ سے، مگر سکینہ میرے لیے ایسے بول منھ سے نہیں نکال سکتی، اور انہیں باتوں کی بدولت تو رات دن تیرے لیے دعائیں نکلتی رہتی ہیں۔ میرے بدن کے روئیں روئیں سے!

    مگر بوا اتنے کچے کان بھی کس کام کے۔ آج تو یہ ہوا کل کو اور کچھ کہہ دیا کسی نے تم سے، تو میں کیا بگاڑ لوں گی، اس کا یا تمہارا۔

    یوں کہنے سے کیا ہوتا ہے سکینہ! ایسی میں پاگل سڑی تھوڑا ہی ہوں جو ہر کسی کے کہنے سے یقین کر لوں گی، اب لے اتنی بات تو کہنے والے نے بھی جھوٹی نہیں کہی، کسی کا ذکر تو تھا، تم خود ہی کہتی ہو۔ بلو دھوبن کو کہہ رہی تھیں، ہاں اتنی بات اور بڑھ گئی کہ اس کی جگہ میرا نام لے دیا۔

    یہی تو کرتوت ہیں بوا دشمنوں کے، میں تمہاری ہی جان کی قسم کھاکر کہتی ہوں بلو دھوبن کو کہہ رہی تھی، تمہیں کیا معلوم نہیں اس کی صورت دیکھ لو صبح صبح تو روٹی نہیں ملتی سارے دن، بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ بھائی خدا کی قسم! میں نے تو جس روز اس مردار کی صورت دیکھی مجھے سورج ڈوبنے تک چین نصیب ہوا نہیں۔

    کیا کہہ رہی ہو سیدانی، بلو دھوبن کا دم نہ ہوتا تو جھینک جھینک کر مرجاتیں تم۔ یہ میں ہی تھی کہ جب ٹانگیں پھیلائے پلنگ پر پڑی تھیں تم اور کوئی پانی پلانے والا بھی پاس نہ تھا تو اپنے بچوں کو بلکتا چھوڑ کر تمہاری پٹی نیچے آبیٹھی تھی۔ پیر میں نے دبائے تمہارے، منھ ہاتھ میں نے دھلوایا۔ روٹی میں نے پکا کے کھلائی سارے کنبہ کو، اور آج تم کہتی ہو بلو منحوس ہے، اس کی صورت دیکھنے سے روٹی نہیں ملتی، وہ دن بھول گئیں کیا جب بلو کے سوا تمہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہ تھا۔ سچ کہا ہے کسی نے نیکی کر اور کنویں میں ڈال۔

    سکینہ بلو کو دیکھتے ہی چونک گئی۔ اس کے بدن میں کاٹو تو لہو کی بوند نہیں۔ اسے سان و گمان بھی نہ تھا کہ بلو دیوار کے نیچے کھڑی سب کچھ سن رہی ہے۔ وہ بہت ہی گھبرائی، بلو نے سارا قصہ اپنے کانوں سے سن لیا تھا۔ اب اس کی تردید ہی کیا ہوسکتی تھی۔ بوا کو تو اس نے سمجھا کر ٹھنڈا کر دیا تھا۔ وہ پرانے وقتوں کی نیک دل بیوی تھیں، مگر بلو باہر پھرنے والی بے باک عورت، اس کی زبان کسی کے سامنے رکنے والی ہی نہ تھی، مگر سکینہ نے ہمت کرکے کہا۔

    بلو کیوں آپے سے باہر ہوئی جارہی ہے۔ میں تو مذاق کر رہی تھی۔ بوا کو نہ معلوم کیا ہوگیا تھا، ایک دم سے مجھ پر برس ہی تو پڑیں۔ ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کو میں نے تیرا نام لے دیا تھا۔ تیرے بچہ کی قسم کوئی اور بات تھوڑا ہی تھی، پوچھ لے بوا سے میں نے کوئی گالی دی ہو تجھے تو!

    گالی تم کیا دیتیں سیدانی، میں تو اچھے اچھوں کی نہیں سنتی، تم تو بیچاری ہو کس شمار قطار میں۔ اور گالی دینے میں تم نے کیا کسر رکھی ہے، منحوس تم نے کہا، اندھا تم نے کہا، اور کیا رہ گیا بھلا کہنے کو، سیدانی مجھے تمہارے یہ گن معلوم نہ تھے، نہیں تو کبھی تھوکتی بھی نہیں تمہارے گھر آکے اور اب دیکھو آگے کو۔

    بلو معلوم ہوتا ہے تو بھی بھنگ پی کے آئی ہے، میں نے تو گھر بسی منحوس اور اندھا نہیں کہا تجھے، پوچھ لے بوا سے!

    آنکھوں میں انگلیاں مت کرو سیدانی، میں بہری تو ہوں نہیں، اللہ رکھے میرے کان ابھی سلامت ہیں۔ میں یہیں بیٹھی سب کچھ سن رہی تھی۔ کوئی اور ہوتا تو اینٹ مار کے یہیں سے سر پھوڑ دیتی۔ اللہ کی سوں! وہ تو نہ معلوم کس بات کا خیال آگیا، اور بوا سے کیا پوچھوں، یہ تو تم سب کی کہی بدی ہے۔ تم سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہو۔ پھر بوا کاہے کو کہیں گی؟

    بلو دیکھ میں اور قسم کی عورت ہوں، سکینہ ہی سے منھ ملائے جا، میرا نام لیا تو ٹھیک نہیں۔

    کس قسم کی عورت ہو بوا۔ میرا بھلا کیا کر لو گی، جیسا کہو گی، ویسا سنو گی، میں کب تمہاری دی ہوئی روٹی کھاتی ہوں جو دبوں گی۔

    دبے گی کیسے نہیں۔ کمینوں کو منھ لگانے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے۔ سکینہ دیکھو ہمارے برابر بیٹھتے بیٹھتے آج بلو کا یہ حوصلہ ہوگیا کہ وہ کہتی ہے جیسا کہو گی ویسا سنو گی، بلو اچھی طرح سن لے کان کھول کر میں تیری برابری کی نہیں ہوں۔

    زمین پے پاؤں رکھ کے چلو بوا زمین پے!

    اب کیا تیرے سر پے رکھ کے چل رہی ہوں۔

    میرے سر پے تم کیا پیر رکھو گی بیچاری، چرخہ کاتتے کاتتے تمہاری عمر گزر گئی، ایک دن چرخہ پونی لے کے نہ بیٹھو تو اگلے دن کھانے کو روٹی نہ ملے۔ تم میرے سر پے کیا پاؤں رکھو گی؟

    بلو دیکھ منھ میں لگام دے، چڑیل کہیں کی آئی وہاں سے باتیں بنانے ایران توران کی۔

    بوا عمر کا خیال کرتی ہوں، سفید بالوں سے اللہ میاں کو بھی شرم آتی ہے، نہیں تو وہ سناتی کہ سر پیٹ لیتیں تم اپنا۔

    کھڑی تو رہ مردار۔ پیڑھی سر پے دے ماروں گی۔

    میں چونڈا اکھاڑ لوں گی، پیڑھی مارنے والی کا۔

    بک بک کیے جارہی ہے۔ چپ نہیں ہوتی کمینی۔

    تم ہزار دفعہ کمینی!

    سکینہ سن رہی ہو، اس دھوبن کی باتیں تم۔

    ہاں بوا سن تو رہی ہوں مگر کیا کروں کچھ بس نہیں چلتا۔

    وہ کیا سنے گی، ابھی تو مجھے اس کے دانے دیکھنے ہیں تم تو ویسے ہی بیچ میں ٹانگ اڑا بیٹھیں، جھگڑا تو سیدانی سے ہو رہا تھا۔

    میرے کیا دانے دیکھے گی تو چڑیل؟

    سیدانی زبان سنبھالو، نہیں تو منھ نوچ لوں گی، بالوں میں آگ لگا دوں گی۔

    میں تیری چٹیا مونڈ لوں گی!

    میں تیرے لالوں کا خون پی لوں گی!

    ارے تیرے منھ میں لگے آگ، خون پی اپنے پیاروں کا۔

    سیدانی اللہ کرے تو مجھ سی ہی ہو جا!

    خدا نہ کرے مجھے تجھ سا۔

    تیرے مریں بچے سیدانی! مجھے منحوس کہنے والی۔

    بلو دیکھ زبان قابو میں رکھ، کیسا منھ بھر بھر کے کوس رہی ہے، نمک حرام۔

    تیرے مریں لال۔

    بلو خدا کے لیے۔

    تیرا لٹے سہاگ۔

    تیرا مرے خصم۔

    تیرا نکلے جنازہ۔

    بلو، تیرے پھوٹیں دیدے۔

    تیرے منھ میں نکلے کالا دانہ۔

    بوا خدا کے لیے اس کی جیب کتر لو!

    سیدانی تو اتنی ہی بڑی مر جائے، اللہ کرے تجھے شام ہونی نصیب نہ ہو۔ اور بوا رذالی کون ہوتی ہے جیب کترنے والی۔

    بلو میں پہلے کہہ چکی ہوں میرے منھ مت لگ تو۔

    تو میرا کیا بگاڑ لے گی؟

    میں تیرا کلیجہ نکال لوں گی۔

    میں تیرے منھ پے خاک ڈال دوں گی!

    نکل چڑیل میرے گھر سے!

    بوا دیکھو مجھے ہاتھ لگایا تو جان کی خیر نہیں، میں تو مرنے ہی کو پھر رہی ہوں، کل کی مرتی آج مر جاؤں۔ مجھے پروا نہیں۔ مگر تم کھینچی کھینچی پھرو گی زمانے بھر میں۔

    بوا اور بلو کو الجھا کر، سکینہ دبے پاؤں کوٹھے سے اتر آئی اور جلدی سے کواڑوں کی زنجیر لگا دی۔ تھوڑی دیر تو بلو بوا کو کوستی کاٹتی رہی، وہ بھی برابر جواب دیتی رہیں۔ اتنے میں دن چھپ گیا اور بوا نماز کو کھڑی ہوگئیں، بلو نے فرصت پا کر اوپر دیکھا تو سکینہ غائب! اس نے غصہ میں بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر داہنے ہاتھ کو کھڑا کرکے زور سے مارا اور دانت کچکچاکے بولی، تیرے کھاؤں قتلے! تو آگ لگا کر چل دی چترا کہیں کی۔ مجھے بوا سے لڑا دیا اور آپ کھسک گئی۔

    (یہ مزاحیہ تحریر کوثر چاند پوری کی ہے، جنھوں نے افسانہ اور ناول نگاری کے ساتھ مزاح بھی تخلیق کیا)

  • دفتر میں نوکری

    دفتر میں نوکری

    ہم نے دفتر میں کیوں نوکری کی اور چھوڑی، آج بھی لوگ پوچھتے ہیں مگر پوچھنے والے تو نوکری کرنے سے پہلے بھی پوچھا کرتے تھے!

    ’’بھئی، آخر تم نوکری کیوں نہیں کرتے؟‘‘

    ’’نوکری ڈھونڈتے نہیں ہو یا ملتی نہیں؟‘‘

    ’’ہاں صاحب، ان دنوں بڑ ی بے روز گاری ہے۔‘‘

    ’’بھئی، حرام خوری کی بھی حد ہوتی ہے!‘‘

    ’’آخر کب تک گھر بیٹھے ماں باپ کی روٹی توڑو گے۔‘‘

    ’’لو اور سنو، کہتے ہیں، غلامی نہیں کریں گے۔‘‘

    ’’میاں صاحبزادے! برسوں جوتیاں گھسنی پڑیں گی، تب بھی کوئی ضروری نہیں کہ۔۔۔‘‘ غرض کہ صاحب گھر والوں، عزیز رشتے داروں، پڑوسیوں اور دوستوں کے دن رات کے تقاضوں سے تنگ آکر ہم نے ایک عدد نوکری کر لی۔ نوکری تو کیا کی، گھر بیٹھے بٹھائے اپنی شامت مول لے لی۔ وہی بزرگ جو اٹھتے بیٹھتے بے روزگاری کے طعنوں سے سینہ چھلنی کیے دیتے تھے، اب ایک بالکل نئے انداز سے ہم پر حملہ آور ہوئے؟‘‘

    ’’اماں، نوکری کر لی؟ لاحول ولا قوۃ!‘‘

    ’’ارے، تم اور نوکری؟‘‘

    ’’ہائے، اچھے بھلے آدمی کو کولہو کے بیل کی طرح دفتر کی کرسی میں جوت دیا گیا۔‘‘

    ’’اگر کچھ کام وام نہیں کرنا تھا تو کوئی کاروبار کرتے اس نوکری میں کیا رکھا ہے۔‘‘

    لیکن ملازمت کا پرُسہ اور نوکری پر جانا دونوں کام جاری تھے۔ ایسے حضرات اور خواتین کی بھی کمی نہ تھی جن کی نظروں میں خیر سے ہم اب تک بالکل بے روزگار تھے۔ لہٰذا ان سب کی طرف سے نوکری کی کنویسنگ بھی جاری تھی۔ روزگار کرنے اور روزگار نہ کرنے کا بالکل مفت مشورہ دینے والوں سے نبٹ کر ہم روزانہ دفتر کا ایک چکر لگا آتے۔

    یہاں چکر لگانے، کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے کیونکہ اب تک ہم کو نوکری مل جانے کے باوجود کام نہیں ملا تھا۔ بڑے صاحب دورے پر گئے ہوئے تھے۔ ان کی واپسی پر یہ طے ہونا تھا کہ ہم کس شعبے میں رکھے جائیں گے۔ دفتر ہم صرف حاضری کے رجسٹر پر دستخط کرنے کی حد تک جاتے تھے۔ فکر اس لیے نہ تھی کہ ہماری تنخواہ جڑ رہی تھی، یعنی پیسے دودھ پی رہے تھے۔ پریشانی اس بات کی تھی کہ اس ’باکار‘ ’بے کاری‘ کے نتیجے میں ہم کہیں ’حرام خور‘ نہ ہو جائیں۔ بے روزگاری کے تقاضوں سے ہم اس قدر تنگ آچکے تھے کہ اب کسی پر یہ ظاہر کرنا نہ چاہتے تھے کہ باوجود روزگار سے لگے ہونے کے ہم بالکل بے روزگار ہیں اور بے روز گا ر بھی ایسے کہ جس سے کار تو کار، بے گار تک نہیں لیا جارہا ہے۔

    روزانہ ہم گھر سے دفتر کے لیے تیار ہو کر نکلتے اور راستے میں سائیکل آہستہ کر کے دفتر کے پھاٹک پر کھڑے چپراسی سے پوچھتے، ’’اماں آیا؟‘‘

    جواب ملتا، ’’ابھی نہیں آیا۔‘‘

    اس کے بعد ہم دفتر میں جا کر حاضری لگا الٹے قدموں باہر آتے، سائیکل اٹھاتے اور شہر کے باہر دیہات، باغوں اور کھیتوں کے چکر لگا لگا کر دل بہلاتے اور وقت کاٹتے۔

    لیکن دو چار دن میں، جب دیہات کی سیر سے دل بھر گیا، تو شہر کے نکڑ پر ایک چائے خانے میں اڈا جمایا۔ پھر ایک آدھ ہفتے میں اس سے بھی طبیعت گھبرا گئی۔ اب سوال یہ کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ ایک ترکیب سوجھ گئی۔ گھر میں کہہ دیا، چھٹی لے لی ہے۔ دو چار دن بڑے ٹھاٹھ رہے آخر جھک مار کر وہی دفتری آوارہ گردی شروع کر دی۔

    اس کے بعد دو ایک دن دفتر میں سوانگ رچایا۔ ایک دن دفتر میں چھٹی کی وجہ یہ بتائی کہ ہمارے افسر ایک مختصر علالت کے بعد آج وفات پاگئے۔ مگر یہ خوش آگیں لمحات بھی مدتِ وصل کی طرح جلد ختم ہوگئے۔ اب کیا کریں۔ اسکول کے زمانے میں ہم نے چھٹی حاصل کرنے کے لیے ایک ایک کر کے تقریباً اپنے پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    غیر حاضری کا یہ عذر پیش کرتے۔ ’’دادا جان پر اچانک ڈبل نمونیہ کا حملہ ہوا اور وہ ایک ہی دن میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔‘‘

    نوبت یہاں تک آپہنچی کہ ماسٹر صاحب نے بید کھڑکاتے ہوئے کڑک کر پوچھا، ’’کل کہاں تھے؟‘‘

    رونی صورت بنا کر عرض کیا، ’’والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔‘‘

    دروغ گو را حافظہ نہ باشد۔ ہم والد مرحوم کی وفاتِ حسرت آیات کی تفصیل میں جانے کے لیے مصائب پر آنے ہی والے تھے کہ ماسٹر صاحب گرجے، ’’تمہارے والد کا تو پچھلے مہینے انتقال ہو چکا ہے۔‘‘

    جلدی سے بات بناتے ہوئے کہا، ’’ابّا سے مراد بڑے ابّا۔ جنہیں ہم ابّا کہتے تھے۔ ہمارے بڑے ابّا!‘‘

    ماسٹر صاحب ہماری اس تازہ ترین یتیمی سے بے حد متاثر ہوئے۔ اس موقع پر تو خیر ہم بالکل بال بال بچ گئے۔ لیکن جب ہم نے اپنی بھاوج کے تیسری بار انتقال کی خبر سنائی تو ماسٹر صاحب کھٹک گئے۔ ہم سے بہ ظاہر رسمی ہمدردی کی مگر شام کو بید لے کر تعزیت کے لیے ہمارے گھر آئے، جہاں ہمارے خاندان کے ہر مرحوم سے انہوں نے ذاتی طور پر ملاقات کرنے کے بعد ہم کو ہمارے گھر نما قبرستان میں بید سے مارتے مارتے زندہ درگور کر دیا۔

    چنانچہ اب جو دفتر سے بچنے کے سلسلے میں زمانۂ طالب علمی میں چھٹی کے ہتھکنڈوں پر نظر دوڑائی اور طبیعت گدگدائی تو بجائے دفتر جانے کے گھر میں اعلان کر دیا۔

    ’’ڈائریکٹر صاحب کا آج انتقال ہو گیا۔‘‘ رفتہ رفتہ وقت گزاری سے اتنے عاجز آگئے کہ ایک دن یہ سوچ کر کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری، استعفیٰ جیب میں رکھ کر دفتر پہنچے لیکن ہماری بدقسمتی ملاحظہ فرمائیے کہ قبل اس کے کہ ہم استعفیٰ پیش کرتے ہمیں یہ خوش خبری سنادی گئی کہ فلاں شعبے سے ہم کو وابستہ کر دیا گیا ہے، جہاں ہم کو فلاں فلاں کام کرنے ہوں گے۔

    اب ہم روزانہ بڑی پابندی سے پورا وقت دفتر میں گزارنے لگے۔ دن دن بھر دفتر کی میز پر جمے ناول پڑھتے، چائے پیتے اور اونگھتے رہتے۔

    جب ہم اپنے انچارج سے کام کی فرمائش کرتے تو وہ بڑی شفقت سے کہتے ایسی جلدی کیا ہے، عزیزم زندگی بھر کام کرنا ہے۔

    ایک دن ہم جیسے ہی دفتر پہنچے تو معلوم ہوا کہ جن ڈائریکٹر صاحب کو ہم اپنے گھر میں مرحوم قرار دے چکے تھے، وہ ہم کو طلب فرما رہے ہیں۔ فوراً پہنچے۔بڑے اخلاق سے ملے۔ دیر تک اِدھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد بولے، ’’اچھا!‘‘

    ’’آپ نے شاید مجھے کسی کام سے یاد فرمایا تھا۔‘‘

    ’’اوہ! ٹھیک ہے۔ سیکریٹری صاحب سے مل لیجیے۔ وہ آپ کو سمجھا دیں گے۔‘‘

    سیکریٹری صاحب سے ایک ہفتے بعد کہیں ملاقات ہوسکی۔ انہوں نے اگلے دن بلایا اور بجائے کام بتانے کے ڈپٹی سیکریٹری کا پتہ بتا دیا۔ موصوف دورے پر تھے۔ دو ہفتے بعد ملے۔ بہت دیر تک دفتری نشیب و فراز سمجھانے کے بعد ہمیں حکم دیا کہ اس موضوع پر اس اس قسم کا ایک مختصر سا مقالہ لکھ لائیے، آدھے گھنٹے کے اندر تیار کر دیا۔

    خوشی کے مارے ہم پھولے نہ سمائے کہ ہم بھی دنیا میں کسی کام آسکتے ہیں۔ دو صفحے کا مقالہ تیار کرنا تھا جو ہم نے بڑی محنت کے بعد آدھے گھنٹے کے اندر تیار کر دیا۔ موصوف نے مقالہ بہت پسند کیا۔

    مزید کام کے لیے ہم ان کے کمرے کا رخ کرنے ہی والے تھے کہ اس دفتر کے ایک گھاگ افسر نے ہمارا راستہ روکتے ہوئے ہمیں سمجھایا، بھیّا اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا چاہتے ہو یا ہم لوگوں کی نوکریاں ختم کرانا چاہتے ہو؟ آخر تمہارا مطلب کیا ہے؟ جو کام تم کو دیا گیا تھا، اسے کرتے رہو، ہم لوگ دفتر میں کام کرنے نہیں بلکہ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے آتے ہیں۔

    اگلے دن اتوار کی چھٹی تھی۔ ناشتہ کرتے وقت اخبار کے میگزین سیکشن پر جو نظر دوڑائی تو وہی مقالہ ہمارے ایک صاحب کے صاحب کے صاحب کے صاحب کے نام نامی اور اسم گرامی کے دم چھلّے کے ساتھ بڑے نمایاں طور پر چھپا ہوا نظر آ گیا۔

    ہمارے حساب سے اب اگلا آدھ گھنٹے کا کام دو تین مہینے کی دوڑ دھوپ کے بعد دفتر میں مل سکتا تھا، جس پر لعنت بھیجتے ہوئے بجائے دفتر جانے کے ہم نے اپنا استعفیٰ بھیج دیا، جس کو منظور ہونے میں اتنے دن لگے جتنے دن ہم نے دفتر میں کام بھی نہیں کیا تھا۔

    شاید آپ پوچھیں کہ ملازمت کر کے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ تو میں عرض کروں گا کہ نوکری کھوئی اور دن میں اونگھنے، سونے اور ناول پڑھنے اور وقت گزاری کی عادت پائی۔ ہمیں اور کیا چاہیے؟

    (بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف مزاح نگار اور صحافی احمد جمال پاشا کی کتاب ستم ایجاد سے ایک شگفتہ تحریر)

  • حکومت ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر ہی دے!

    حکومت ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر ہی دے!

    گرامر کی طرح گالی کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہیں۔

    اگرچہ یہ قواعد و ضوابط بعض ممالک کے دساتیر کی طرح غیر تحریری ہیں، مگر ان کا احترام کچھ ریاستوں کے تحریری آئین کے مندرجات سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کئی ملکوں میں گالی آئین سے کہیں زیادہ معتبر حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں تک پاکستان میں رائج قواعدِ دشنام کا تعلق ہے تو ہمارے یہاں تین قسم کی گالیاں مروج ہیں۔

    1- موٹی سی گالی
    2- چھوٹی سی گالی
    3- جھوٹی سی گالی

    اور ان گالیوں کی مزید کئی قسمیں ہیں۔ ویسے ہماری سمجھ میں نہیں یہ آتا کہ گالی کو خلافِ اخلاق اور بدتہذیبی کی علامت کیوں سمجھا جاتا ہے؟ آخر گالی میں ایسی کون سی بات ہے جسے اخلاقیات کے ضابطوں سے روگردانی قرار دیا جائے؟ ہمارے سوالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذرا مروجہ گالیوں کے عناصر ترکیبی پر غور کیجیے!………. آپ کو ان گالیوں میں فقط وہ لوازمات ملیں گے جن کے بغیر ہماری زندگی نامکمل ہے۔ مثلاً بنیادی انسانی رشتے، ضروری جسمانی اعضا اور ناگزیر افعال۔ ان لوازمات کو مناسب ترتیب دینے سے گالی وجود میں آجاتی ہے۔ ان عناصر کے ”ظہورِ ترتیب“ پر ناک بھوؤں چڑھانا اور انھیں اجزائے پریشاں کی صورت میں دیکھ اور سُن کر کوئی اعتراض نہ کرنا………آپ ہی بتائیے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟

    ہم تو سمجھتے ہیں کہ تہذیب و ثقافت، رسم و رواج، علوم و فنون اور آثارِ قدیمہ کی طرح کسی قوم کی گالیاں بھی اس کی پہچان ہوا کرتی ہیں۔ کیا اچھا ہو کہ حکومتِ پاکستان ہمارا ”فلسفۂ مغلظات“ تسلیم کرتے ہوئے گالیوں کو بھی قومی ورثہ قرار دے دے۔ قومی پھول، قومی کھیل اور قومی جانور کی طرح ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر دیا جائے۔ قومی گالی کے تعین کے سلسلے میں کراچی اور پنجاب کے درمیان چشمک ہوسکتی ہے۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں کی طرح ملک بھی میں ”گالی بازی“ پر نشستیں منعقد ہوں، جن میں ”گالی باز“ یا دشنام طراز اپنی نئی نئی گالیاں پیش کرکے داد حاصل کریں۔ گالیوں پر تنقیدی نشستیں ہوں، جن میں نقاد گالیوں کے بارے میں اپنی آراء کا اظہار کریں اور تنقیدی نظریات کی روشنی میں یہ ثابت کریں کہ کون سی گالی سماج کی آئینہ دار ہو کر ترقی پسندی کے رجحان کا پتا دے رہی ہے، کس میں علامتی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ کون سی گالی فطری ہے اور کون سی غیر فطری۔ کس دشنام طراز کی تخلیق شعور کی لہر کا نتیجہ ہے اور کس گالی باز کی کاوش منفرد لب و لہجہ رکھتی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ اپنی نوعیت کی واحد تنقیدی نشستیں ہوں گی، جن میں نقّاد تنقید سے پہلے گالیاں سنیں گے!

    پاکستانی گالیوں کے عالمی سطح پر فروغ کے لیے ملک میں اور بیرون ملک پاکستانی گالیوں کی نمائشیں بھی منعقد کی جاسکتی ہیں۔ ان نمائشوں میں قدیم اردو شعرا کی ہجویات سے لے کر دورِ حاضر کے سیاست دانوں کی مغلظات تک پھیلے ہمارے عظیم ”دشنامی ورثے“ کو ”سُن“ کر غیرملکیوں کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہم کوئی ”ایویں“ قوم نہیں بلکہ گالیوں کی ایک طویل روایت سے جڑے ہوئے ہیں۔

    اگر حکومت نے ہمارا پیش کردہ ”فلسفۂ مغلظات“ اپنا لیا اور اسے عملی شکل دے دی تو یقین مانیے ہماری کرخت گالیاں راتوں رات ہمارا وہ ”سوفٹ امیج“ بنا دیں گی، جس کے لیے حکومت ایک مدت سے کوشاں ہے۔

    (معروف مزاح نگار، شاعر اور صحافی محمد عثمان جامعی کی ایک شگفتہ تحریر، یہ مزاح پارے مصنّف کی کتاب "کہے بغیر” سے مقتبس ہیں)

  • افزائشِ حسن کا طریقہ!

    افزائشِ حسن کا طریقہ!

    جو عورتیں دواؤں سے پرہیز کرتی ہیں، وہ صرف ورزش سے خود کو ’’سلم‘‘ رکھ سکتی ہیں۔

    ’’سلمنگ‘‘ کے موضوع پر عورتوں کی رہبری کے لیے بے شمار باتصویر کتابیں ملتی ہیں جن کے مضامین عورتیں پڑھتی ہیں اور تصویروں سے مرد جی بہلاتے ہیں۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ مرد کاٹھ کے پتلے کی مانند ہے، لیکن عورت موم کی طرح نرم ہے۔ چنانچہ مرد کو ہر سانچے میں ڈھال سکتی ہے۔ پھر اس کے اپنے گوشت پوست میں قدرت نے وہ لوچ رکھا ہے کہ

    سمٹے تو دلِ عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے

    چنانچہ ہرعضوِ بدن کے لیے ایک علاحدہ ورزش ہوتی ہے۔ مثلاً دہری ٹھوڑی کو اکہری کرنے کی ورزش، 51 انچ کو 15 انچ بنانے کی کسرت۔ ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر غذا ہضم کرنے کی ترکیب۔ شرعی عیوب کا ہپناٹزم سے علاج وغیرہ۔

    توند کے لیے ماہرین کا خیال ہے کہ سیاست داں کے ضمیر کی مانند ہے۔ اس کی لچک کو ذہن نشین کرانے کی غرض سے وہ اکثر اسے مولوی اسماعیل میرٹھی کے ’وقت ‘سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے متعلق وہ کہہ گئے ہیں

    وقت میں تنگی فراخی دونوں ہیں جیسے ربڑ
    کھینچنے سے کھنچتی ہے، چھوڑے سے جاتی ہے سکڑ

    حق تو یہ ہے کہ جدید سائنس نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ دماغ کے علاوہ جسم کا ہر حصہ حسبِ منشا گھٹایا اور بڑھایا جاسکتا ہے۔

    یہی حال عورتوں کے رسالوں کا ہے۔ ان کے (رسالوں کے) تین ٹکڑے کیے جاسکتے ہیں۔ اوّل: آزادیٔ اطفال اور شوہر کی تربیت و نگہداشت۔ دوّم: کھانا پکانے کی ترکیبیں۔ سوّم کھانا نہ کھانے کی ترکیبیں۔ ان مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ تشخیص سب کی ایک ہی ہے۔ بس نسخے مختلف ہیں۔ پرہیز بہر صورت یکساں!

    اس امر پر سب متفق ہیں کہ افزائشِ حسن کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ایسی غذا کھائی جائے جس سے خونِ صالح نہ پیدا ہو اور جو جزوِ بدن نہ ہو سکے۔ ہماری رائے میں کسی پڑھی لکھی عورت کے لیے اس سے سخت اور کون سی سزا ہو سکتی ہے کہ اسے چالیس دن تک اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھلایا جائے۔ دبلے ہونے کا اس سے بہتر اور زود اثر طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

    رسالوں کے اس حصّے میں تاریخی ناولوں کا چٹخارہ اور یونانی طب کی چاشنی ہوتی ہے، اس لیے نہایت شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ چند عنوانات اور ٹوٹکے بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں۔

    زلیخا حضرت یوسف کے پیچھے دوڑنے کی وجہ سے دوبارہ جوان ہوئی! قلو پطرہ کے نازک اندام ہونے کا راز یہ ہے کہ وہ نہار منہ مصری تربوز کا پانی اور رعیت کا خون پیتی تھی۔ ملکہ الزبتھ اس لیے دبلی تھی کہ میری آف اسکاٹ نے اس کا موم کا پتلا بنا رکھا تھا جس میں وہ چاندنی رات میں سوئیاں چبھویا کرتی تھی۔ کیتھرین، ملکۂ روس کے’سلم‘ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ رات کو روغنِ قاز مل کر سوتی تھی۔ ملکہ نور جہاں بیگن پر جان دیتی تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ بیگن کے سر پر بھی تاج ہوتا ہے، بلکہ اس میں کوئی پروٹین نہیں ہوتی۔ ملکہ ممتاز محل اور تاج محل کی خوب صورتی کا راز ایک ہی ہے۔ سفید رنگ! ایکٹریس آڈرے ہیپ برن اس لیے موٹی نہیں ہوتی کہ وہ ناشتے میں نشاستے سے پرہیزکرتی ہے اور پھیکی چائے پیتی ہے جس سے چربی پگھلتی ہے۔

    چائے کی پتی سے گھٹ سکتا ہے عورت کا شکم

    دبلے آدمی کینہ پرور، سازشی اور دغا باز ہوتے ہیں۔ یہ ہماری نہیں بلکہ جولیس سیزر کی رائے ہے جس نے ایک مریل سے درباری کی ہاتھوں قتل ہو کر اپنے قول کو سچا کر دکھایا۔ گو کہ ہمارے موزے کا سائز صرف گیارہ اور بنیان کا چونتیس ہے لیکن ہمیں بھی اس نظریہ سے اتفاق ہے کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ موٹی عورتیں فطرتاً ملن سار، ہنس مکھ اور صلح پسند ہوتی ہیں۔ وہ نہ خود لڑتی ہیں اور نہ مرد ان کے نام پر تلوار اٹھاتے ہیں۔ ممکن ہے کوئی صاحب اس کا یہ جواز پیش کریں کہ چوں کہ ایسی گج گامنی کی نقل و حرکت بغیر جرِ ثقیل کے ممکن نہیں لہٰذا وہ نہ ڈٹ کر لڑ سکتی ہے اور نہ میدان چھوڑ کر بھاگ سکتی ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ آج تک کسی موٹی عورت کی وجہ سے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔

    خدا نخواستہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم حسن میں ہارس پاور کے متلاشی ہیں اور اکھاڑے کی رونق کو چھپر کھٹ کی زینت بنانے کی سفارش کر رہے ہیں۔

    ایسی ہی چوڑی چکلی خاتون کا لطیفہ ہے کہ انہوں نے بس ڈرائیور سے بڑی لجاجت سے کہا، ’’بھیا! ذرا مجھے بس سے اتر وا دے۔‘‘ ڈرائیور نے مڑ کر دیکھا تو اس کا چہرہ فرشتوں کی طرح تمتما اٹھا۔ ان فرشتوں کی طرح جنہوں نے بارِ خلافت اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر خود ہی بولیں، ’’میری عادت ہے کہ دروازے سے الٹی اترتی ہوں مگر تمہارا الٹی کھوپڑی کا کنڈکٹر سمجھتا ہے کہ چڑھ رہی ہوں اور ہر دفعہ زبردستی اندر دھکیل دیتا ہے۔ تین اسٹاپ نکل گئے۔‘‘

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے مضمون صنفِ لاغر سے اقتباسات)

  • خوش نصیب ملک!

    دنیا میں کوئی ایسا خوش نصیب ملک نہیں ہے جہاں ادیب پیدا نہ ہوتے ہوں۔

    بہت سے ملک ایسے ہوتے ہیں، جہاں ادیبوں کو فرش وغیرہ پر بیٹھنے نہیں دیا جاتا۔ انہیں وہاں کے لوگ ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھائے رکھتے ہیں۔ ان ادیبوں کو بھی لوگوں کے سروں پر بیٹھے رہنے کی اتنی عادت ہوتی ہے کہ پھر یہ کہیں اور بیٹھ ہی نہیں سکتے۔ بہت سے ملک ایسے بھی ہوتے ہیں، جہاں ادیبوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور ان کا بچا کھچا حصّہ ان کے ورثا کو بڑی مشکل سے واپس ملتا ہے، بلکہ بعض صورتوں میں تو یہ حصّہ بھی میونسپلٹی کے حصّے میں آتا ہے۔ اب یہ ادیب کی قسمت پر منحصر ہے کہ وہ کہاں پیدا ہوتا ہے۔ اگر اس کے ہاتھ کی لکیریں اچھی ہیں اور اس کے والدین سعادت مند ہیں تو یقیناً ایسے ملک میں پیدا ہوا ہو گا، جہاں خرافات لکھنے پر باز پرس نہیں کی جاتی۔

    ادیبوں کے بہت سے حقوق ہوا کرتے ہیں، جن میں سے چند حقوق پیدائشی ہوتے ہیں۔ خرافات لکھنا پیدائشی حقوق کی فہرست میں آتا ہے۔ اچھا ادیب وہ ہوتا ہے، جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے۔ دودھ خود پی لے اور پانی اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کردے۔

    اچھا ادیب اسے بھی مانا گیا ہے جو قلم توڑ دے، اس ادیب کے ساتھ مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک قلم توڑ کر چپ نہیں بیٹھ جاتا، بلکہ دوسرے قلم سے لکھنا شروع کر دیتا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ وہی پہلے والا قلم غنیمت تھا، لیکن جو قلم ٹوٹ گیا، ٹوٹ گیا۔ سمجھدار لوگ اسی دوسرے قلم سے نکلی ہوئی تحریر کو صبر و شکر کے ساتھ سہہ لیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ کم سے کم یہ قلم تو نہ ٹوٹے۔ ادیب کو ہمیشہ لگن سے لکھنا چاہیے۔ لوگ چاہے کتنا ہی منع کریں، لکھنے سے کبھی باز نہ آئے۔ لوگ خود ہی عادی ہو جائیں گے۔ یوں بھی لوگوں میں مدافعت کا مادّہ کم ہی ہوتا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے، وہ ادیبوں کے مقابلے میں استعمال نہیں کیا جاتا۔ جو ادیب اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھاتے، وہ غبی ہوتے ہیں۔

    ادیبوں کی صحبت کے کئی فائدے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ مشتبہ قسم کے لوگ اگر ادیبوں کی صحبت میں بیٹھیں تو انہیں کوئی نہیں پہچان سکتا۔

    عام آدمیوں کی طرح ادیبوں کی بھی دو ٹانگیں ہوتی ہیں۔ لیکن اُن کی ایک ٹانگ ہمیشہ اونچی رہتی ہے۔ غیر ادیبوں کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے۔ مساوات ہر معاملے میں اچھی بھی نہیں معلوم ہوتی۔ ادیب کی اس اونچی ٹانگ کو گھسیٹنا مشکل ہے۔ ادیبوں کی ناک بھی خلافِ معمول اونچی ہوتی ہے اور اس ناک کو اونچا رکھنے کے سلسلے میں ادیب راستہ چلتے وقت نیچے نہیں دیکھا کرتے، البتہ بعد میں صرف یہ دیکھ لیتے ہیں کہ گرنے پر انہیں زیادہ چوٹ تو نہیں لگی۔ ادیب کی ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھ سکتی۔ خود مکھیوں کو بھی اِس قاعدے کا علم ہے اور وہ اپنے بیٹھنے کے لیے کسی اور معقول شخص کی ناک کا انتخاب کرلیتی ہیں۔ آرام دہ نشستوں کی اس وسیع دنیا میں کمی نہیں ہے۔

    پہلے زمانے میں سُنا ہے ادیب پیدائشی ہوا کرتے تھے اور جس گھر میں پیدا ہوجاتے، اس گھر پہلے ہی دن سے رونا پیٹنا شروع ہوجاتا، لیکن اب قدرت کو والدین پر رحم آنے لگا ہے۔ اب ہر گھرمیں صرف آدمی پیدا ہوتے ہیں، البتہ آگے چل کر اُن میں سے کچھ ادیب بن جاتے ہیں۔ اپنے اپنے کرتوت ہیں۔ اس کی ذمہ داری اب قدرت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

    ادیبوں کے پاؤں میں سنیچر ہوتا ہے اور سر میں اتوار، یعنی بالکل چھٹی۔ ادیبوں میں ایک بات اچھی ہوتی ہے کہ یہ جو کچھ لکھتے ہیں، خود نہیں پڑھتے۔ اگر خود پڑھ لیں تو آیندہ کبھی نہ لکھیں۔ یہ اسی سے ڈرتے ہیں اور دوسروں کا لکھا ہوا نہیں پڑھتے۔ اس کے باوجود اگر ان کے خیالات کسی اور کے پراگندہ خیالات سے ٹکرا جائیں تو اس میں ان کا قصور نہیں ہوتا، نظامِ شمسی کا ہوتا ہے۔ جو نظامِ شمسی ادیبوں کے مشورے کے بغیر بنے گا، اس میں یہی خرابی ہو گی۔ اگر ادیبوں کے خیالات کسی وجہ سے ایک دوسرے سے نہ ٹکرائیں تو ادیب خود ٹکرا جاتے ہیں۔ ادیبوں ہی کی دیکھا دیکھی کئی ملکوں میں بُل فائٹنگ اور گھونسا بازی کے مقابلے مقرر کیے جاتے ہیں۔

    ادیب دیکھنے میں بے ضرر نظر آتے ہیں، لیکن یہ اندر ہی اندر بڑے جنگ جُو ہوتے ہیں۔ تحریر و تقریر کی آزادی کے لیے انہوں نے “ پانی پت” اور “واٹر لو” کی کئی لڑائیاں لڑی ہیں۔ اِن لڑائیوں میں جب بھی اور جہاں بھی ادیب جیتے ہیں، وہاں ہر قسم کے ادب کے ڈھیر کے ڈھیر لگ گئے، اور اقوام و افراد بے بس ہو کر رہ گئے۔ بعض ملکوں میں ادیبوں کو لکھنے پر اور بعض ملکوں میں نہ لکھنے پر انعامات دیے جاتے ہیں۔ کس میں نقصان اور کس میں فائدہ ہے، ابھی تک طے نہیں ہوا ہے۔ یوں بھی ادیبوں کے سلسلے میں کوئی بات طے ہو ہی نہیں سکتی۔ ظلم اور ادب ہمیشہ غیر محدود رہے ہیں۔

    بعض ادیب بے حد بے دردی سے لکھتے ہیں اور کاغذ پر اپنا کلیجہ نکال کر رکھ دیتے ہیں۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے پڑھنے والا کچھ بھی نہیں پڑھ سکتا۔ خود اُس کا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے اور بڑی مشکل سے واپس جاتا ہے۔

    ادیبوں کو لکھنے سے جب بھی فرصت ملتی ہے، وہ اور زیادہ لکھتے ہیں۔ وہ اصل میں اُس شخص کی طرح ہوتے ہیں، جو لیٹے لیٹے تھک جاتا ہے تو اور آرام کرتا ہے۔ ادیب بھی جب ایک چیز لکھتے لکھتے تھک جاتا ہے تو دوسری چیز لکھنے لگتا ہے اور پہلے کے لکھے ہوئے علمی مضمون کے صفحے، بعد کے لکھے ہوئے سیاسی مضمون کے صفحوں میں مل جاتے ہیں اور ادیب کو فرصت نہیں ملتی کہ انہیں چھانٹ سکے۔ پڑھنے والوں کی قسمت میں یہی دو رنگی مضمون ہوتا ہے۔ ایڈیٹر اس مضمون کو صرف اس لیے چھاپ دیتا ہے کہ اس کی سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے۔ ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے ضروری ہے کہ ہر وہ مضمون جو سمجھ میں نہ آئے، ہر حال میں چھاپا جائے۔ اخباروں اور رسالوں میں صرف اشتہارات ہی اچھے نہیں معلوم ہوتے، ایک آدھ مضمون چھپنا ہی چاہیے۔

    (اردو کے معروف طنز و مزاح نگار یوسف ناظم​ کی اہلِ قلم سے متعلق شگفتہ بیانی)

  • یومِ وفات:‌ پطرس بخاری نے مزاح نگاری کو نیا انداز اور اسلوب دیا

    یومِ وفات:‌ پطرس بخاری نے مزاح نگاری کو نیا انداز اور اسلوب دیا

    پطرس بخاری نے اردو ادب کو انشائیوں کے ساتھ کئی خوب صورت تحریریں، تنقیدی مضامین اور عمدہ تراجم بھی دیے، لیکن ان کی وجہِ شہرت مزاح نگاری ہے۔

    پطرس ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ فقط انہی اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ صحافت اور صدا کاری کے ساتھ انھیں ماہر براڈ کاسٹر بھی کہا جاتا ہے۔ آج اردو زبان و ادب کی اس ممتاز شخصیت کا یومِ وفات ہے۔

    دنیا کی دیگر ترقی یافتہ زبانوں کی طرح اردو ادب کا دامن بھی طنز و مزاح سے خالی نہیں رہا اور ادیبوں نے اس میدان میں ابتذال اور پھکڑ پن کا راستہ روکتے ہوئے اپنی تحریروں سے ثابت کیا کہ شائستہ اور عمدہ شگفتہ نگاری کیا ہوتی ہے۔ پطرس انہی میں سے ایک تھے اور وہ ادیبوں کی جس کہکشاں میں شامل تھے، ان میں رشید احمد صدیقی، عظیم بیگ چغتائی، مرزا فرحت اللہ بیگ، غلام احمد فرقت کاکوروی، شفیق الرّحمٰن، شوکت تھانوی تک کئی نام لیے جاسکتے ہیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اردو ادب میں پطرس بخاری کا قد ان کے ہم عصروں میں بہت بلند نظر آتا ہے اور اس کا اعتراف اپنے وقت کے نام ور اہلِ قلم بھی کرتے تھے۔ معروف مزاح نگار رشید احمد صدیقی نے پطرس کی مزاح نگاری سے متعلق لکھا کہ، "ظرافت نگاری میں پطرس کا ہم سَر ان کے ہم عصروں میں کوئی نہیں۔ بخاری کی ظرافت نگاری کی مثال داغ کی غزلوں اور مرزا شوق کی مثنویوں سے دی جا سکتی ہے۔”

    پطرس بخاری مشہور ماہرِ تعلیم، اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور نقاد تھے جو ایک سفارت کار کی حیثیت سے بھی سرگرم رہے۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر رہے اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ انگریزی زبان پر ان عبور نے ان کے قلم سے کئی کتابوں کے تراجم کروائے جو یہاں قارئین میں مقبول ہوئے۔

    پشاور میں 1898 میں پیدا ہونے والے پطرس بخاری کا اصل نام احمد شاہ تھا جنھوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد فارسی، پشتو اور انگریزی زبان پر عبور حاصل کیا اور پھر ریڈیو سے وابستہ ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ بعد میں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے اور گراں قدر خدمات انجام دیں۔ کالج کے زمانے میں ہی پطرس نے معروف مجلّے ‘‘راوی’’ کی ادارت سنبھال لی تھی اور اسی کے ساتھ لکھنے لکھانے کا آغاز بھی کردیا تھا۔

    پطرس بخاری جب کیمبرج پہنچے تو انگریزی ادب سے بھی واقف ہوئے۔ انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں کا ادب بھی پڑھا اور اپنے اسی ذوقِ مطالعہ کے سبب جب خود قلم تھاما تو کمال لکھا۔

    بخاری صاحب کے دل میں پیدائشی خرابی تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ دیگر عوارض بھی لاحق ہو گئے۔ اکثر بے ہوشی طاری ہو جاتی۔ ڈاکٹر نے مکمل آرام کا مشورہ دیا، لیکن بخاری صاحب دفتر جاتے رہے۔ 1958 کی بات ہے جب پطرس نیویارک میں اپنی حکومتی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں مقیم تھے تو 5 دسمبر کو اچانک بے ہوش ہو گئے اور وہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ امریکا میں ہی ان کی تدفین کی گئی۔

    بخاری صاحب علمی و ادبی شخصیت اور مدبّر اور معاملہ فہم بھی تھے جنھیں‌ لیاقت علی خاں نے سفارت کار کے طور پر منتخب کیا تھا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکا میں بخاری صاحب کو پاکستانی ترجمان کے طور پر ساتھ لے گئے تھے۔ پچاس کے عشرہ میں‌ پطرس بخاری اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ بعد میں‌ وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی بنائے گئے۔

    پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ وہ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع تھے جن کی کئی پُرلطف اور دل چسپ باتیں مشہور ہیں۔ ہاسٹل میں‌ پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں ان کی مقبول تحریریں ہیں۔

    پطرس کے مختلف مضامین سے یہ پارے آپ کو ان کے فنِ ظرافت سے واقف کروائیں گے۔ لاہور پر ان کی تحریر سے ایک پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    ‘‘کہتے ہیں کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا، لیکن طلبا کی سہولت کے لیے میونسپلٹی نے اسے منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے۔ یوں سمجھیے کہ لاہور ایک جسم ہے جس کے ہر حصّے پر ورم نمودار ہو رہا ہے لیکن ہر ورم موادِ فاسد سے بھرا ہوا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے جو اس جسم کو لاحق ہے۔’’ لاہور سے متعلق ان کی تحریر 1930 کی ہے۔

    اسی طرح کتّے کے عنوان سے وہ لکھتے ہیں. ‘‘آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔

    سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔

    کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔’’

    حکومتِ پاکستان نے پطرس بخاری کے لیے بعد از مرگ ہلالِ امتیاز کا اعلان کیا۔