Tag: مزاحیہ ادب

  • کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے!

    کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے!

    کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔ اس سے ساکنان کوہِ مری کی دل آزاری نہیں، بلکہ عروسُ البلاد کراچی کی دلداری مقصود ہے۔

    کبھی کبھار شہرِ خوباں کا درجۂ حرارت جسم کے نارمل درجۂ حرارت سے دو تین ڈگری نیچے پھسل جائے تو خوبانِ شہر لحاف اوڑھ کر ایئر کنڈیشنر تیز کر دیتے ہیں۔ یہ خوبی صرف کراچی کے متلون موسم میں دیکھی کہ گھر سے جو لباس بھی پہن کر نکلو، دو گھنٹے بعد غلط معلوم ہوتا ہے۔

    لوگ جب اخبار میں لاہور اور پنڈی کی شدید سردی کی خبریں پڑھتے ہیں تو ان سے بچاؤ کے لیے بالو کی بھنی مونگ پھلی اور گزک کے پھنکے مارتے ہیں۔ ان کے بچّے بھی انہی پر پڑے ہیں۔ بادِ شمال اور گوشمالی سے بچنے کے لیے اونی کنٹوپ پہن کر آئس کریم کھاتے اور بڑوں کے سامنے بتیسی بجاتے ہیں۔

    کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے۔ نووارد حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ جاڑا ہے تو اللہ جانے گرمی کیسی ہوتی ہو گی۔ بیس سال سرد و گرم جھیلنے کے بعد ہمیں اب معلوم ہوا کہ کراچی کے جاڑے اور گرمی میں تو اتنا واضح فرق ہے کہ بچّہ بھی بتا سکتا ہے۔ 90 ڈگری ٹمپریچر اگر مئی میں ہو تو یہ موسمِ گرما کی علامت ہے۔ اگر دسمبر میں ہو تو ظاہر ہے کہ جاڑا پڑ رہا ہے۔ البتہ جولائی میں 90 ڈگری ٹمپریچر ہو اور شام کو گرج چمک کے ساتھ بیوی برس پڑے تو برسات کا موسم کہلاتا ہے۔ غالباً کیا یقیناً ایسے ہی کم نیم گرم، کنکنے کراچوی جاڑے سے اکتا کر نظیر اکبرآبادی نے تمنا کی تھی،

    ہر چار طرف سے سردی ہو اور صحن کھلا ہو کوٹھے کا
    اور تن میں نیمہ شبنم کا، ہو جس میں خس کا عطر لگا
    چھڑکاؤ ہوا ہو پانی کا، اور خوب پلنگ بھی ہو بھیگا
    ہاتھوں میں پیالہ شربت کا، ہو آگے اک فراش کھڑا
    فراش بھی پنکھا جلتا ہوا، تب دیکھ بہاریں جاڑے کی

    تین چار سال بعد دو تین دن کے لیے سردی کا موسم آجائے تو اہلِ کراچی اس کا الزام ’’کوئٹہ ونڈ‘‘ پر دھرتے ہیں اور کوئٹہ کی سردی کی شدت کو کسی سیم تن کے ستر نما سوئٹر سے ناپتے ہیں۔ کراچی کی سردی بیوہ کی جوانی کی طرح ہوتی ہے۔ ہرایک کی نظر پڑتی ہے اور وہیں ٹھہر بلکہ ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔

    ادھر کوئٹہ میں جب دستانے، کمبل، مفلر اور سمور کے انبار میں سے صرف چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا ناممکن ہوجائے کہ ان کے جنوب میں مونچھ ہے یا پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے، تو کوئٹہ والے اس گھپلے کا ذمہ دار قندھاری ہوا کو ٹھیراتے ہیں اور جب قندھار میں سائبیریا کی زمہریری ہواؤں سے درختوں پر اناروں کی بجائے برف کے لڈو لٹکتے ہیں، گوالے گائے کے تھنوں سے آئس کریم دوہتے ہیں، اور سردی سے تھر تھر کانپتے ہوئے انسان کے دل میں خود کو واصل جہنم کرنے کی شدید خواہش ہوتی ہے، تو اہالیانِ قندھار کمبل سے چمٹ کر ہمسایہ ملک کی طرف غضب ناک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔

    چھوٹے ملکوں کے موسم بھی تو اپنے نہیں ہوتے۔ ہوائیں اور طوفان بھی دوسرے ملکوں سے آتے ہیں۔ زلزلوں کا مرکز بھی سرحد پار ہوتا ہے۔

    (اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے مضمون "سبق یہ تھا پہلا کتاب ربا کا” سے اقتباسات)

  • کام یاب یتیم خانہ

    کام یاب یتیم خانہ

    یتیم خانے کے انچارج نے مجھے بتایا، ’’ان سب بچّوں کے ماں باپ مَر چکے ہیں۔‘‘

    ’’افسوس!‘‘

    ’’افسوس کی کوئی بات نہیں۔ ہم انہیں پالیں پوسیں گے۔ انہیں کام سکھائیں گے، انہیں با روزگار بنائیں گے، ان کی شادیاں کریں گے۔ ان کے بچّے پیدا ہوں گے۔‘‘

    ’’اور پھر ان میں سے کئیوں کے بچّے یتیم ہوجائیں گے۔ افسوس!‘‘

    ’’افسوس کی کوئی بات نہیں، کیوں کہ ہم انہیں پھر یتیم خانے میں داخل کر دیں گے۔ آپ شاید نہیں جانتے کہ ہمارا یتیم خانہ گزشتہ ایک سو سال سے قائم ہے اور بڑی کام یابی سے چل رہا ہے۔‘‘

    (اردو کے معروف ادیب اور مزاح نگار فکر تونسوی کے قلم سے)

  • یہ ایک خط کا جواب ہے!

    یہ ایک خط کا جواب ہے!

    یہ ایک خط کا جواب ہے جو بلیماران دلّی کے کسی نسیم صاحب نے لکھا ہے۔ اپنے خط میں نسیم صاحب مجھ پر بہت برسے ہیں، خوب گالیاں دی ہیں، ایسی گالیاں جنہیں کھا کر میں بہت بدمزہ ہوا اور باتوں کے علاوہ مجھے انہوں نے گرہ کٹ کا بھائی چور کہا ہے۔

    صرف گالیوں پر اکتفا ہوتا تو شاید میں برداشت کر جاتا، لیکن انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر میں کبھی ان کے ہتھے چڑھ گیا تو میری ہڈی پسلی ایک کر دیں گے۔

    نسیم صاحب نے اپنے خط میں بڑے بھاری بھرکم الفاظ استعمال کئے ہیں۔ کچھ اس وزن کے الفاظ جو عبادت بریلوی صاحب اپنے تنقیدی مضامین میں کیا کرتے ہیں۔ ان کے وزن دار الفاظ سے مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ پہلوان قسم کے آدمی ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ ایسے آدمی کے دل میں میرے لئے پرخاش کا خیال رہے، اس لئے میں اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے یہ خط لکھ رہا ہوں۔

    میرا خط پڑھنے سے پہلے نسیم صاحب کی ناراضگی کا پس منظر دیکھ لیجئے۔

    کچھ مہینے پہلے مرزا عبدالودود کے مزاحیہ مضامین کا پہلا مجموعہ "گٹھلیوں کے دام” شائع ہوا تھا۔ مرزا اپنی کتاب میرے پاس لائے تھے کہ میں اس پر تبصرہ کردوں۔ وہ تبصرہ دلّی کے رسالہ”گھامڑ” میں شائع ہوگیا، نسیم صاحب نے وہ تبصرہ پڑھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ "گٹھلیوں کے دام” مزاحیہ ادب میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے، چنانچہ بیس روپے میں انہوں نے یہ کتاب خریدی اور جب کتاب پڑھی تو انہیں احساس ہوا کہ وہ ٹھگ لئے گئے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ کتاب پڑھ کر انہیں یوں لگا جیسے کسی نے ان کی جیب کاٹ لی ہو، جس میں بیس روپے تھے۔ اور چونکہ انہوں نے یہ کتاب میرے تبصرہ کی بناء پر خریدی تھی اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ میں اس جیب کترے کا رشتہ دار ہوں۔

    نسیم صاحب! آپ کے خط کو پڑھنے سے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ آپ کو کتاب پڑھنے کی تمیز تو شاید ہے۔ تبصرہ پڑھنے کی ہرگز نہیں ہے۔ میں نے ہرگز یہ نہیں لکھا کہ یہ کتاب مزاحیہ ادب میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے۔ میں جانتا ہوں میں نے یہ بھی نہیں لکھا کہ مرزا عبدالودود کی کتاب بالکل واہیات چیز ہے۔ لیکن اگر میں اس طرح لکھتا تو مرزا اسی طرح میرے خون کے پیاسے ہوتے جیسے آج آپ ہیں، اور ماشاء اللہ ان کی صحت آپ کی صحت سے کسی لحاظ سے کم نہیں۔

    آئیے میں آپ کو تبصرہ پڑھنا سکھاؤں۔ میں نے لکھا تھا کہ "مرزا عبدالودود نے بہت ہی قلیل مدت میں مزاح نگاروں کی صف میں اپنی جگہ بنالی ہے۔”

    آپ سمجھے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ مرزا جب مزاح کے میدان میں داخل ہوئے تو وہاں پہلے سے موجود مزاح نگاروں نے اپنی اپنی نشست چھوڑ کر ان کی خدمت میں گزارش کی کہ حضور یہ کرسیاں دراصل آپ ہی کے لائق ہیں۔ تشریف رکھئے۔ نسیم صاحب میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ میں نے تو تبصرے کی زبان میں یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ مرزا نے مزاح نگاروں کی صف میں بالکل ایسے جگہ بنائی ہے جیسے ریل کے ایک بہت ہی بھرے ہوئے تھرڈ کلاس کے ڈبے میں ایک نیا مسافر اپنی جگہ بناتا ہے یعنی دروازہ بند پاکر پہلے انہوں نے کھڑکی سے بستر اور صندوق پھینکا پھر اسی رستے خود کود پڑے، بستر کسی کے سر پر پڑا، صندوق نے کسی اور کو زخمی کیا۔ ایک دو مسافر ان کے بوجھ کے نیچے دب گئے۔ ایسا بھونچال آنے پر لوگ خود ہی ادھر ادھر سرک گئے اور اس طرح مرزا نے اپنی جگہ بنالی۔

    میں نے لکھا تھا کہ "مرزا نے ابھی ابھی اس دشت میں قدم رکھا ہے، اس دشت کی سیاحی کے لئے تو عمر پڑی ہے۔”

    آپ سمجھے میں کہہ رہا ہوں کہ ان کا قدم پڑتے ہی اس دشت میں پھول اگ آئے ہیں۔ جب وہ پوری عمر اس دشت میں قدم رکھے رہیں گے تو یہ دشت نشاط باغ بن جائے گا۔ حضور میرا مطلب یہ نہیں تھا، میں تو مرزا صاحب کو بڑے پیار سے مشورہ دے رہا تھا کہ بھیا اس دشت کی سیاحی کے لئے عمر پڑی ہے ابھی سے اس میں کیوں کود رہے ہو ۔ بیس پچیس سال اور صبر کرو ، جب کوئی اردو پڑھنے والا نہیں رہے گا تو آپ شوق سے اس دشت کی سیاحی پر اترنا تاکہ کوئی آپ کی اس بے راہ روی پر اعتراض نہ کرسکے۔

    میں نے لکھا ہے کہ "مرزا کا لکھنے کا انداز ریسی (RACY) ہے۔”

    آپ نے سمجھ لیا کہ ان کے انداز بیان میں وہی روانی ہے جو ریس کے گھوڑوں میں ہوتی ہے۔ یعنی ایک خوبصورت ایک ادائے بے نیازی کے ساتھ تیزی سے منزل تک پہنچنے کی آرزو۔ نہیں صاحب! میرا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا۔ ریسی (RACY) سے میرا مطلب گھڑ دوڑ سے ضرور تھا لیکن ان گھوڑوں کی دوڑ سے نہیں جو بمبئی کے مہا لکشمی میدان میں دوڑتے ہیں، بلکہ ان گھوڑوں سے تھا جو تانگوں کے آگے جتے ہیں اور جو سڑکوں پر پیدل اور سائیکل سوار لوگوں کو روندتے ہوئے چلے جاتے ہیں، اور اگر اڑ جائیں تو ایسے اڑتے ہیں کہ کوچوان کا چابک بھی انہیں اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا۔

    میں نے لکھا تھا کہ ’’کتاب کے تمام جملے مصنّف کی محنت کے آئینہ دار ہیں۔”

    آپ سمجھے میرا مطلب یہ ہے کہ مصنف نے ایک ایک جملے پر وہ محنت کی ہے جو ایک ذہین لڑکا اپنے امتحان کی تیاری میں کرتا ہے تاکہ وہ کلاس میں اوّل آسکے۔ نہیں صاحب! میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ میرا اشارہ اس محنت کی طرف تھا جو ایک دھوبی ایک گندے کھیس میں سے میل نکالنے کی کوشش میں کرتا ہے ۔ یعنی پتھر پر مار مار کر اتنے زور سے مارنے کے باوجود کھیس پھٹ جاتا ہے، پر میل نہیں نکلتا۔

    میں نے لکھا تھا کہ "مجھے یقین ہے کہ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی۔”

    آپ نے سمجھا کہ یہ کتاب یوں بکے گی جیسے متھرا کے پیڑے یا ناگپور کے سنگترے یا بمبئی کی بھیل پوری۔ نسیم صاحب! میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ پہلی بات تو آپ یہ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ اردو کی کوئی کتاب ان معنوں میں ہاتھوں ہاتھ نہیں لی جاتی۔ یہ ہمیشہ ہاتھوں ہاتھ دی جاتی ہے ۔ یعنی کتاب کو آپ خود شائع کرتے ہیں اور پھر اسے آپ دوسرے ادیبوں کو ہاتھوں ہاتھ بانٹتے ہیں۔ وہ بھی کچھ اس طرح کہ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔ یعنی وہ بھی آپ کو اپنی کتابیں اسی طرح پیش کریں۔

    جہاں تک مرزا کی کتاب "گٹھلیوں کے دام” کا تعلق ہے، میرا مطلب یہ بھی نہیں تھا!

    جب میں نے لکھا کہ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی تو میرا مطلب تھا کہ پبلشر سے یہ کتاب سیدھے ردی والے لے جائیں گے، وہاں سے یہ کتاب حلوائی کے ہاتھ پہنچنے گی اور پھر گاہکوں کے پاس جائے گی۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ اتنی سی بات کو سمجھ نہیں پائے۔ خیر بیس روپے خر چ کرنے کے بعد تو سمجھ ہی گئے ہوں گے۔

    آپ نے لکھا ہے کہ میں نے تبصرے میں مرزا کے مضامین میں سے کچھ ایسے فقرے نقل کئے ہیں جو بہت خوب صورت اور معنی خیز ہیں۔ ان سے آپ کو دھوکہ ہوا کہ شاید ساری کتاب ہی خوب صورت ہوگی۔

    ایسے کتنے فقرے میں نے نقل کئے تھے؟ کُل چار۔ اور یہ میں ہی جانتا ہوں کہ ان کو کتاب میں سے ڈھونڈنے میں مجھے کتنی ریاضت کرنی پڑی۔ تقریباً پوری رات میں کتاب کو کھنگالتا رہا تب کہیں جاکر یہ فقرے ہاتھ لگے۔ ویسے ایک گزارش کر دوں کہ دو صفحے کی کتاب میں دو چار جملے اچھے نکل آتے ہیں۔ بھائی جان وہ گھڑی جو کئی سال سے بند پڑی ہو وہ بھی دن میں دو بار صحیح وقت بتا سکتی ہے۔

    آپ کی شکایت ہے کہ میں نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ "میں تمام اردو داں حضرات کو اس کتاب کے مطالعے کی پُر زور سفارش کروں گا۔”

    جی میں نے ضرور لکھا ہے لیکن آپ کو یہ تو دیکھنا چاہیے تھا کہ سفارش کرنے والے کی اپنی حیثیت کیا ہے۔ میں تو دن میں سیکڑوں لوگوں کو سفارشی خط دیتا رہتا ہوں، کبھی وزیر نشر و اشاعت کے نام، کبھی وزیرِ تعلیم کے نام، کبھی شہر کے میئر کے نام کہ اس کو ریڈیو اسٹیشن کا ڈائریکٹر بنا دو۔ اس کو کالج کا پرنسپل بنا دو، اس محلے میں پانی کا نل لگوا دو۔ لیکن آج تک میرے سفارشی خط والے لوگوں کو کسی نے سرکاری دفتر کے قریب نہیں گھسنے دیا۔ میری سفارش پر لگے ہوئے نل سے کسی نے پانی نہیں پیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ نے میری سفارش کیوں مان لی۔

    تبصرہ کو جلدی ختم کرتے ہوئے میں نے لکھا کہ "میں مصنّف اور قاری کے درمیان کھڑا نہیں رہنا چاہتا۔”

    نسیم صاحب! آپ اس کا مطلب یہ سمجھے کہ کتاب اتنی دل چسپ ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ قاری جلد سے جلد اس کا مطالعہ شروع کر دے اور اس سے لطف اندوز ہو۔ نہیں جناب میرا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا۔ میں جانتا تھا کہ جو قاری بھی اس کتاب کو پڑھے گا مصنّف کی گردن پر ہاتھ ڈالنا چاہے گا، اس لئے میں جلد از جلد راستے سے ہٹ جانا چاہتا تھا۔

    اب صرف اتنی سی بات رہ گئی کہ تبصرے اس طرح کیوں لکھے جاتے ہیں کہ آپ جیسا سیدھا سادا قاری ان کا مطلب نہ سمجھ سکے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ تبصرے کا یہی اصول ہے اور یہ اصول میں نے نہیں بنایا۔ ایک عرض اور کر دوں کہ جب مرزا صاحب اپنی کتاب میرے پاس تبصرے کے لئے لائے تھے تو ساتھ ہی برفی کا ایک ڈبہ بھی لائے تھے۔ برفی بڑی عمدہ قسم کی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی خوشبو نے کتاب کے بارے میں میری رائے میں مداخلت کی ہو۔ آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ اچھے جہیز کے ساتھ ایک معمولی لڑکی ایک اچھی دلہن بن جاتی ہے اور ساس سسر کے علاوہ دولھے میاں کو بھی خوب صورت لگنے لگتی ہے۔ تبصرہ نگاری میں اگر مجھ سے کچھ غلطی ہوئی ہے تو محض برفی کی وجہ سے۔

    امید ہے اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ تبصرہ کس طرح پڑھاجاتا ہے۔ یقین مانیے بیس روپے میں یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔ پھر بھی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی تو بندہ معافی کا خواستگار ہے۔

    آپ کا خیر اندیش

    (یہ معروف ہندوستانی مزاح نگار دلیپ سنگھ کا مشہور انشائیہ ہے جس پر انھیں‌ کئی نام ور ادیبوں‌ اور اہلِ‌ قلم نے خاص طور پر سراہا تھا۔ دلیپ سنگھ 1994 میں انتقال کرگئے تھے۔ انھوں نے اپنے اس انشائیہ کو "معذرت نامہ” کا عنوان دیا تھا)

  • دیمک کا اردو شاعروں پر طنز

    دیمک کا اردو شاعروں پر طنز

    دیمک پودوں اور لکڑی میں پایا جانے والا ایک کیڑا ہے جس کی کئی اقسام ہیں۔ یہ جس لکڑی کو لگ جائے اسے ختم کر کے چھوڑتی ہے۔

    یہاں ہم اردو کے مشہور مزاح نگار مجتبی حسین کے مضمون سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ یہ ان کے مضمون دیمکوں کی ملکہ سے ایک ملاقات سے ماخوذ ہے۔ مصنّف ایک لائبریری میں جاتے ہیں جہاں اردو کے شاعر کے دیوان میں انھیں دیمک نظر آتی ہے۔ اس سے ہونے والی بات چیت کچھ یوں‌ ہے۔

    "میں(مصنّف) نے کہا، ’’اب جب کہ تم نے خاصے اردو ادب کو چاٹ لیا ہے تو یہ بتاؤ یہ تمہیں کیسے لگتا ہے؟‘‘

    بولی، ’’شروع شروع میں یہ میرے پلے نہیں پڑا تھا۔ بڑا ریاض کیا۔ متقدمین کے دیوان چاٹے۔ مشکل یہ ہوئی کہ میں نے سب سے پہلے ’دیوانِ غالب‘ پر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی۔ خاک سمجھ میں نہ آیا۔ لہٰذا مولوی اسماعیل میرٹھی کی آسان اور زود ہضم نظمیں پہلے نوشِ جان لیں۔ پھر وہ کیا کہتے ہیں آپ کے مفلر والے شاعر، وہی جو پانی پت میں رہتے تھے مگر وہاں کی جنگوں میں شریک نہیں تھے۔ ارے اپنے وہی مولانا حالی۔ ان کی نصیحت آمیز شاعری پڑھی۔ شاعری کم کرتے تھے نصیحت زیادہ کرتے تھے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ تم لوگوں نے ان کی نصیحتوں پرعمل نہیں کیا۔ اگر کیا ہوتا تو آج تمہارے گلے میں بھی روایات کا ایک بوسیدہ سا مفلر ہوتا۔ اب تو خیر سے سارا ہی اردو ادب میری مٹھی میں ہے۔ سب کو چاٹ چکی ہوں۔

    ایک بارغلطی سے جوش ملیح آبادی کی ایک رباعی چاٹ لی طبیعت میں ایسا بھونچال آیا کہ سارا وجود آپے سے باہر ہونے لگا۔ اس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے چار و ناچار، جاں نثار اختر کی گھر آنگن والی شاعری چاٹنی پڑی۔

    ویسے تو میں نے دنیا کی کم و بیش ساری زبانوں کی کتابیں چاٹ لی ہیں لیکن اردو شاعروں میں ہی یہ وصف دیکھا ہے کہ اپنے معشوق کو کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ کوئی معشوق کے گیسو سنوارنا چاہتا ہے تو کوئی انہیں بکھیر دینا چاہتا ہے۔ کوئی وصل کا طالب ہے تو کوئی ہجر کی لذتوں میں سرشار رہنا چاہتا ہے۔ کوئی معشوق کو کوٹھے پر بلانے کا قائل ہے تو کوئی اس کا دیدار بھی یوں کرنا چاہتا ہے جیسے چوری کر رہا ہو۔ تم لوگ آخر معشوق سے چاہتے کیا ہو۔ اسے ہزار طرح پریشان کیوں کرتے ہو۔ اردو شاعری میں معشوق خود شاعر سے کہیں زیادہ مصروف نظر آتا ہے۔ یہ بات کسی اور زبان کے معشوق میں نظر نہیں آئی۔ اردو شاعروں کا عشق بھی عجیب و غریب ہے۔ عشق کرنا ہو تو سیدھے سیدھے عشق کرو بھائی۔

    کس نے کہا ہے تم سے کہ معشوق کی یاد آئے تو آسمان کی طرف دیکھ کر تارے گنتے رہو۔ اس کی یاد نے زور مارا تو اپنا گریبان پھاڑنے کے لئے بیٹھ جاؤ۔ معلوم ہے کپڑا کتنا مہنگا ہوگیا ہے۔ سیدھے سیدھے معشوق کے پاس جاتے کیوں نہیں۔ اپنے دل کا مدعا بیان کیوں نہیں کرتے۔ عاشق، بزدل اور ڈرپوک تو ایسے ہی چونچلے کر کے اپنے دل کو بہلاتا رہتا ہے۔‘‘

  • نظر نہیں آتا؟

    نظر نہیں آتا؟

    خدا نے ہر قوم میں نیک افراد بھی پیدا کیے ہیں۔ کتّے اس کے کلیے سے مستثنیٰ نہیں۔

    آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔ سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے ليے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔

    کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔ کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کردیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے ليے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔

    رات کے وقت یہی کتّا اپنی خشک، پتلی سی دُم کو تابہ حدِ امکان سڑک پر پھیلا کر رکھتا ہے۔ اس سے محض خدا کے برگزیدہ بندوں کی آزمائش مقصود ہوتی ہے۔ جہاں آپ نے غلطی سے اس پر پاؤں رکھ دیا، انہوں نے غیظ وغیب کے لہجہ میں آپ سے پرسش شروع کر دی، "بچہ فقیروں کو چھیڑتا ہے، نظر نہیں آتا، ہم سادھو لوگ یہاں بیٹھے ہیں۔” بس اس فقیر کی بددعا سے سے اسی وقت رعشہ شروع ہوجاتا ہے۔ بعد میں کئی راتوں تک یہی خواب نظر آتے رہتے ہیں کہ بے شمار کتّے ٹانگوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور جانے نہیں دیتے۔ آنکھ کھلتی ہے تو پاؤں چارپائی کی ادوان میں پھنسے ہوتے ہیں۔

    اگر خدا مجھے کچھ عرصے کے ليے اعلیٰ قسم کے بھونکنے اور کاٹنے کی طاقت عطا فرمائے، تو جنون انتقام میرے پاس کافی مقدار میں ہے۔ رفتہ رفتہ سب کتّے علاج کے ليے کسولی پہنچ جائیں۔

    (نام ور مزاح نگار پطرس بخاری کے قلم سے)

  • اشیاء بدل بہن!

    اشیاء بدل بہن!

    بعض لوگ کوئی نہ کوئی علّت پال لیتے ہیں۔ روشن بھی انہی میں سے ایک ہے جو بہنیں بنانے کی علّت کا شکار ہے۔ وہ اپنے اخلاص اور محبت کی تمام روشنی اپنی ایسی بہنوں میں منتقل کر کے بہت خوش نظر آتی ہے۔

    سچ تو یہ ہے کہ نئے اور ایسے انوکھے رشتے بنانا آسان مگر بنا کر نباہنا سہل نہیں ہوتا بلکہ یہ ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں ہوتی لیکن روشن، روشن ہی ہے جو اپنے کسی خیال پر تاریکی کا سایہ تک نہیں پڑنے دیتی بلکہ نام کی طرح اُس کی سوچ کی کرنیں بھی اپنے عمل سے روشنی بکھرتی رہتی ہیں۔

    روشن کا کمال یہی ہے۔ وہ نبھانا خوب جانتی ہے۔ ہر نئی بہن سے غضب کا بہناپا ہوتا ہے اور اس سے بڑا ہنر ہے مساوی تقسیم کہ دیکھ کر تعجب ہی نہیں ہوتا بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ کسی سے سلوک میں رتی برابر بھی فرق نہیں کرتی۔ یہ فن تو ہماری روشن پر تمام ہے تمام۔

    کسی محفل میں چلے جائیے اور وہاں روشن بھی ہوں تو ان کی کوئی نہ کوئی بہن ضرور نظر آجائے گی اور یوں بھی ہوتا ہے جب تک روشن گھر واپسی کی راہ پکڑتی ہیں ان کے دل میں ایک اور بہن کی آمد اور محبت کے چراغ روشن ہو چکے ہوتے ہیں۔ صرف دوپٹہ بدل بہنوں کی تعداد سات ہے اور بھی کئی اشیاء بدل بہنیں ہیں۔ بہت ہی حرافہ ہے میری یہ نند، روشن جس کا نام ہے۔ بَڑھیا دوپٹوں کے عوض اپنا معمولی دوپٹہ دے کر دوپٹہ بدل بہن بن کر سُرخرو ہو جاتی ہے۔

    روشن کے گھر کبھی کسی تقریب میں چلی جاؤ، ان کی ایسی بہنوں کا میلہ ضرور لگتا ہے۔ ان کی اکثریت سے میری بھی شناسائی ہے۔ گزشتہ ماہ روشن کی ایسی ہی کئی بہنوں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں ایک نیا چہرہ بھی نظر آیا جس پر روشن جی جان سے نثار ہو رہی تھیں۔ تعارف پر میں چونکی جب روشن نے کہا ’’بھابھی بیگم ان سے ملیے یہ میری ڈبہ بدل ہیں۔“

    ”اَیں کون سی بہن؟ مجھے اپنی سماعت پر کچھ شک سا گزرا۔ میری کیفیت دیکھتے ہوئے روشن نے بے ہنگم قہقہے لگاتے ہوئے داستانِ ملن یوں سنائی کہ ”بھابھی بیگم! ہُوا یوں کہ کل میں بازار گئی تھی، لان کے سوٹ لینے۔ عجلت میں ہمارے ڈبے بدل گئے۔ گھر آکر جو دیکھا تو میرا لیا ہوا ایک بھی سوٹ اس میں نہیں، بھاگم بھاگ بوتیک پہنچی۔ وہاں یہ بھی لشتم پشتم آ موجود۔ ہم نے ڈبوں کا تبادلہ کیا اور آن کی آن میں ہم ڈبہ بدل بہنیں بن گئیں۔“

    اپنی نوعیت کے اس انوکھے ملن نے مجھے دنوں حیرت میں مبتلا رکھا۔ ابھی میں اس حیرانی سے سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ روشن نے اپنے نئے بنگلے کی خوشی میں ایک تقریب کا انعقاد کیا، جہاں دو خواتین روشن کی خصوصی توجہ کا مرکز تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی روشن لپک کر میرے پاس آئیں اور ان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ”بھابھی بیگم! وہ جو سبز ساڑھی میں ہیں نا وہ میری بنگلہ بدل بہن ہیں جنھوں نے میرا وہ والا بنگلہ خریدا ہے اور وہ جو سرخ اور سفید پشواز میں بالکل انارکلی لگ رہی ہیں، اُن سے میں نے یہ والا بنگلہ خریدا ہے، آئیے آپ کو اپنی بنگلہ بدل بہنوں سے ملواؤں۔“

    ابھی روشن نے قدم آگے بڑھائے ہی تھے کہ کسی کے فوری بلاوے پر اس کی جانب بڑھ گئی۔ میری بڑی بیٹی صفیہ اس معاملے میں پھوپھی پر گئی ہے۔ کمبخت کی صورت ہی نہیں حرکات بھی ددھیالی ہیں، دوسری روشن ہے۔ ابھی صرف سولہ برس کی ہے اور تین اشیاء بدل بہنیں بنا چکی ہے۔ جانے آگے جا کر کیا گل کھلائے گی۔ میری تو ابھی سے طبیعت گھبرانے لگی ہے۔

    اور پھر اس وقت رفیعہ بیگم جو روشن کی بھابھی ہیں، ان کی روانی سے چلتی ہوئی زبان رک گئی۔ ان کی چھوٹی بھابھی نے بھری محفل میں انہیں آئینہ دکھا دیا تھا۔

    ”آپا جان آپ کی زبان کو تو لگام ہی نہیں، میرٹھ کی قینچی بھی کیا تیز چلتی ہوگی جیسی آپ کی زبان چلتی ہے۔ بیچاری روشن باجی کو بہنیں بنانے کا شوق ہی تو ہے اور تو کوئی برائی نہیں۔“

    ”ہاں بیٹا ایک ہی شوق ہے اور وہ بھی ایسا کہ جو ”لاعلاج مرض“ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔“ رفیعہ نے کہا۔

    ”آپا جان اس میں بُرائی ہی کیا ہے؟ روشن باجی دل کی بہت اچھی ہیں، انہوں نے کبھی کسی کی برائی نہیں کی اور سنا تو میں نے یہی ہے کہ روشن باجی کے اس شوق نے ہی توآپ کو اُن کی بھابھی بنایا ہے۔ نہ روشن باجی آپ کو کتاب بدل بہن بناتیں اور نہ ہی آج آپ اُن کی بھابھی کہلاتیں۔ نہ آپ پہلی مرتبہ بہن بنانے پر اُن کی حوصلہ افزائی کرتیں نہ روشن باجی اس شوق کو پروان چڑھاتیں، اب بھگتیے۔“

    ”ہاں بیٹا بھگت ہی تو رہی ہوں اور جانے کب تک بھگتوں گی، وہ کتاب تو آج تک نہ پڑھی جس کے بدلے پہلے ان کی بہن اور پھر بھاوج بنی، لیکن روشن کے بھیا کی کتاب زیست پڑ ھ پڑھ کر عاجز آگئی، اتنا اُلجھاؤ کہ اللہ میری توبہ۔ ہائے کیا بھلی کتاب تھی جو روشن نے مجھ سے بدلی تھی، اس کا سرورق بھی تو ڈھنگ سے نہیں دیکھ پائی تھی۔ اور وہ کتاب جو روشن نے مجھے دی تھی، بھابھی بناتے ہی مجھ سے ہتھیا لی۔ ہائے میری چالاک نند میں کتنی بھولی تھی۔“

    رفیعہ خاموش ہوئیں تو اُن کی بھابھی نے اُنہیں ماضی بعید سے ماضی قریب میں لاتے ہوئے کہا، ”آپا جان آپ نے بھی تو مجھے بیٹی بنا کر بھابھی بنا ڈالا مگر میں تو بُرا نہیں منایا۔ ہائے میں کتنی معصوم تھی۔“

    چھوٹی بھاوج کی شرارت پر جو اُنھیں، مثل بیٹی کے عزیز تھی رفیعہ بیگم مسکرا دیں تو روشن جو جانے کب سے وہاں کھڑی ان مکالموں سے لطف اندوز ہو رہی تھیں مسکراتے ہوئے آگے بڑھیں اور ”بھابھی بیگم! بہن نہیں ہیں“ کہہ کر اُن سے لپٹ گئیں۔ رفیعہ بھی ہنس دیں۔

    ”وہ تو میں ہوں بلکہ حرفِ اوّل تو میں ہی ہوں، مجھے پہلی مرتبہ دیکھتے ہی تمہارے دل میں بہن بنانے کی ہڑک اُٹھی تھی۔ اللہ تمہارے اس شوق میں دن دگنی رات چوگنی ترقی دے، مگر اللہ کے واسطے اپنی بھتیجی کو اس علت سے نجات دلا دو۔ تمہاری احسان مند رہوں گی۔“

    ”بھابھی بیگم! یہ ممکن نہیں کیونکہ ہفتہ بھر پہلے جو لڑکی ہماری صفیہ کی دوپٹہ بدل بہن بنی تھی، کل اس کی امی آئی تھیں صفیہ کے لیے۔ گھرانا بہت اچھا ہے اور لڑکا بھی۔“ روشن کے انکشاف پر رفیعہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ یعنی؟ ’جی ہاں بھابھی بیگم تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، بس جغرافیہ بدل گیا ہے۔“

    ”اللہ کی رضا یہی ہے تو میں کیا کرسکتی ہوں، پَر صفیہ کو سمجھا دو کہ شادی کے بعد جو جی چاہے کرے، جتنی چاہے اشیاء بدل بہنیں بنائے ابھی تو مجھے بخش دے۔“

    رفیعہ بیگم نے ہاتھ جوڑدیے تو روشن کھلکھلا کر ہنس دیں۔ ”امی بھی تو مجھ سے یہی کہتی تھیں، میں نے بھی جی بھر کر بھراس نکالی۔“

    ”اور تمہاری طبیعت ابھی تک نہیں بھری۔“ بھابھی بیگم نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو وہ ہنس دی، ”ارے بھابھی اشیاء بدل بہن بنا کر تو دیکھیں، کتنا لطف آتا ہے ایسے رشتے ناتے جوڑنے میں۔ ابھی ابھی میری ایک کیبل بدل بہن بنی ہیں آپ تو جانتی ہیں… مجھے ”مصالحہ“ کی چاٹ پڑی ہے اور انھیں ”ذائقہ“ کا لپکا ہے۔ وہ پڑوسی ملک کے ڈراموں کی دیوانی ہیں اور مجھے پاکستانی ڈرامے بھاتے ہیں، اس لیے آج سے ہم کیبل بدل بہنیں بن گئی ہیں۔“

    روشن اطلاع دے کر آگے بڑھی تو میں سرد آہ بھر کر رہ گئی۔ اس کے علاوہ میں کر بھی کیا سکتی ہوں، اپنی کرنی تو مجھے بھرنی ہی ہے۔ نند کے ساتھ ساتھ اب بیٹی بھی تو اس راہ کی مسافت طے کر رہی ہے۔

    (مضون نگار اور فیچر رائٹر شائستہ زرّیں کے قلم کی شوخی)

  • "خالہ گرم مسالہ کا ہر انداز نرالا”

    "خالہ گرم مسالہ کا ہر انداز نرالا”

    خالہ گرم مسالہ کا اصل نام تو حسینہ خاتون ہے۔ وہ محلہ بھر میں گھوم پھر کر اِدھر کی خبریں اُدھر اور اُدھر کی اِدھر اس برق رفتاری سے پہنچاتی ہیں کہ بسا اوقات لوگوں کو بھی اپنے گھر کی باتیں محلّے والوں کی زبانی معلوم ہوتیں۔ اور وہ حیران رہ جاتے کہ جن باتوں کا علم گھر کے تمام افراد کو نہیں خالہ گرم مسالہ تک اُن کی رسائی کیسے ہوئی اور اُس کی محلّے میں دھوم کیسے مچ گئی؟

    سادہ سی خبروں میں نمک مرچ لگا کر گرم مسالہ کا تڑکا لگانا بھی خوب جانتی ہیں۔حسینہ خاتون کے اسی ہنر کو دیکھتے ہوئے محلے کے ایک بچّے نے آپ کو ”خالہ گرم مسالہ“ کا نام دیا جس نے اصل نام سے زیادہ شہرت پائی۔

    یہی نہیں اور بھی کئی ہنر ایسے ہیں جن میں خالہ گرم مسالہ طاق ہیں۔ مثلاً خالہ گرم مسالہ کو سُنانے کا بہت ہوکا ہے۔ خواہ وہ گیت ہو یا ریت، حکایتیں ہوں یا شکایتیں، باتیں ہو یا داستانیں۔ کھری کھری ہوں یا بے بھاؤ کی جب بھی سناتی ہیں جی بھر کر سناتی ہیں۔ جبریہ سننے والوں کی تو کیا کہیے کبھی کبھی تو شوقیہ سننے والے بھی سُن کر جی بھر کر بدمزہ ہو جاتے ہیں۔

    اپنے ان تمام ”ہوکوں“ کے توسط سے خالہ گرم مسالہ اپنی ہر سنانے والی بات حسبِ ضرورت اپنے مخاطبین کو سناتی ہیں۔ بالخصوص شکوؤں شکایتوں کا ہوکا تو وہ کسی ہُڑکے کی طرح کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بڑے سلیقے سے اپنی اہمیت بھی منوانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس ضمن میں اُن کا سب سے بڑا شکوہ ”مجھے بھول گئیں ناں“ ہوتا ہے۔ معلوم نہیں کیوں ایک دن بیٹھے بٹھائے خالہ گرم مسالہ کو خیال آیا کہ لوگ مجھے بھولتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ محض اُن کا وہم تھا۔

    لو بھلا بتاؤ؟ کیا وہ ایسی شے ہیں جنہیں بھلا دیا جائے؟ ہر گز نہیں۔ جس کو دیکھو اُس کی زبان پر خالہ گرم مسالہ کا نام ہے۔ وہ دن اور آج کا دن خالہ گرم مسالہ کا ”مجھے بھول گئیں ناں“ کا ”ہوکا“ عروج پر ہے۔ جہاں خالہ گرم مسالہ اپنے طور اپنی موجودگی لازمی سمجھتی ہیں وہاں وہاں اپنی عدم موجودگی کا گلہ ضرور کرتی ہیں اور یہ گلہ محض ”مجھے بھول گئیں ناں“ تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ اپنے مخاطبین کو اس حشر برپا موقع پر ماضی کے حوالے دے کر کچھ اس طور سناتی ہیں کہ سننے والے سننے کی ہر خواہش سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ کتنا ہی خالہ گرم مسالہ کو یقین دلائیں کہ آپ کو بھولا کوئی نہیں، بات صرف اتنی سی ہے کہ ہر جگہ اور ہر مقام پر آپ کی شمولیت ضروری نہیں لیکن خالہ گرم مسالہ مان کر ہی نہیں دیتیں۔ ہر دلیل رد کر دیتی ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ اُن کا حق بلکہ پیدائشی حق ہے کہ جس ہنر میں اُنہیں معمولی سی بھی دسترس ہے، اس حساب سے نہ صرف اُنہیں یاد رکھا جائے بلکہ پیش پیش بھی رکھا جائے۔ اور جاننے والے بھی جانتے ہیں کہ اُن کی شمولیت اور عدم شمولیت کہاں ضروری ہے سو وہ اسی حساب سے اُنہیں مدعو اور نظر انداز کرتے ہیں۔

    بعض تجسس کی ماری خواتین تو اوروں کے گھروں کی سُن گن لینے کے لیے خالہ گرم مسالہ کی خدمات حاصل کرتی ہیں اور خالہ گرم مسالہ یہ ”فلاحی کام“ بلا معاوضہ بڑی لگن اور محنت سے کسی مشن کی طرح یوں کرتی ہیں گویا پیشہ ور سماجی کارکن ہیں۔

    ایک روز تو حد کر دی۔ ہُوا یوں کہ فیروزہ خالہ کی منجھلی بیٹی درخشاں کے رشتے کی بات اپنوں میں چل رہی ہے یا غیروں میں اور یہ بھی کہ لڑکا کیا کرتا ہے؟ جاننے کی خواہش میں بمشکل گھنٹہ بھر سوئیں اور شب بھر جاگ کر اپنے اس مشن میں کامیابی کے لیے دعائیں کرتی رہیں۔ ساتھ ہی اپنے منصوبہ بند ذہن کو بھی متحرک رکھا کہ جانے کب کہاں سے کون سا سرا ہاتھ لگ جائے۔ لیکن عقدہ تھا کہ حل ہو کے ہی نہیں دے رہا تھا، پھر یہ بھی ہے کہ خالہ گرم مسالہ اس امر سے بھی تو بخوبی واقف تھیں کہ یہاں دال گلنی بہت مشکل ہے کہ خالہ فیروزہ کے گھر کے ہر فرد کا پیٹ کسی گہرے کنوئیں کی مانند ہے جہاں سے بات نکلوانا کارِ محال ہے۔لیکن خالہ گرم مسالہ بھی خالہ گرم مسالہ ہیں۔ شب بھر دماغ لڑاتی رہیں۔ بالآخر کامیاب ہو ہی گئیں۔ اُنہوں نے فیصلہ کر لیا کہ کنواں جتنا گہرا ہے ڈول بھی اتنا ہی بڑا ڈالا جائے لیکن احتیاط سے۔

    صبح سویرے ہی وہ اپنے مشن پر نکل کھڑی ہوئیں اور حیرت انگیز طور پر دس فیصد معلومات حاصل کر لیں جس پر وہ بہت نازاں تھیں کہ جہاں سے ایک فیصد بات اُگلوانا بھی ناممکن ہے، وہاں سے اُن کی ناممکن کی جستجو نے ممکنہ فتح حاصل کر لی۔ وہ جان گئی تھیں کہ درخشاں کے رشتے کی بات چیت اُس کی امی کی خالہ زاد بہن کے نواسے سے چل رہی ہے جو ایک سرکاری ادارے میں آفیسر ہے۔ اتنا بھید بھی خالہ گرم مسالہ کی سیماب صفت اور تجسس پسند فطرت کے لیے کافی تھا۔ جہاں وہ اپنی اس غیر متوقع کامیابی پر بہت مسرور تھیں وہاں ”لڑکے“ کی سرکاری آفیسر والی اطلاع اُنہیں تشویش میں مبتلا کر گئی کہ سرکار کی تو خود حالت بہت پتلی اور غیر ہے۔ جس کی اپنی ترقی خطرے میں ہو، جو خود اپنی خیر خواہ نہ ہو، ایسی سرکار سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟

    اور پھر خالہ گرم مسالہ نے اس خبر کو بارہ مسالوں سے آراستہ کیا اور جہاں تک ممکن ہو سکا یہ خبر سماعتوں کی نذر کر دی۔ چونکہ خالہ گرم مسالہ خود سیراب نہ ہو سکیں تھیں۔ اس لیے اوروں کو مطمئن کرنا اُن کے لیے خاصی بڑی آزمائش تھی۔ کہ لوگ اس نامکمل معلومات میں دل چسپی نہیں لے رہے تھے۔ لیکن خالہ گرم مسالہ کی سنانے کی ہوس تھی کہ ختم ہو کر ہی نہیں دے رہی تھی۔

    اور پھر یوں ہُوا کہ خالہ گرم مسالہ کے برس ہا برس کے تجربات سے مستفیض ہونے کے لیے ایک ادارے نے اُن سے رابطہ کر لیا۔ بے شک سیاسی بصیرت اُن میں نام کو نہیں لیکن خالہ گرم مسالہ اپنی زباں دانی کے جوہر اور لفظوں کے ہیر پھیر سے سیاسی مبصرین کو باہمی جھگڑوں میں الجھا کر مات دینے کا ہنر خوب جانتی ہیں۔ ابھی خالہ گرم مسالہ کو پیشکش ملے گھنٹہ بھر بھی نہ ہوا تھا کہ آپ نے محلے بھر میں الم نشرح کر دیا۔ محلّے والوں نے خوشی کا بھر پور اظہار کیا اور خالہ گرم مسالہ کو جلد از جلد یہ پیشکش قبول کرنے کی تاکید بھی کی۔ خالہ گرم مسالہ خوشی سے پھولے نہ سمارہی تھیں کہ خالو ببلو بیچارے (خالہ گرم مسالہ کے میاں) نے یکایک بے چارگی کا لبادہ اُتار پھینکا اور اپنی ازدواجی زندگی کے پچاس سالہ عرصے میں پہلی مرتبہ جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خالہ گرم مسالہ پر قدغن لگا کر اُنہیں اس فعل سے باز رکھا جو وہ اگر اختیار کر لیتیں تو جہنم کے دروازے اُن کے لیے کھل جاتے۔ ابھی بھی وہ محلّے بھر میں کون سا کارِ خیر کر رہی تھیں لیکن شر کی جو تاریخ وہ رقم کرنے جا رہی تھیں اس کا کفارہ بہت مشکل تھا اور جب یہ خبر عمران تک پہنچی جس نے خالہ گرم مسالہ کے میاں کو خالو ببلو بیچارے کے خطاب سے نوازا تھا، ببانگِ دہل اعلان کرتا پھر رہا تھا کہ ”خالو ببلو بیچارے بنے انگارے۔“ لیکن نہ جانے خالو ببلو نے خالہ گرم مسالہ کے کانوں میں کیا صور پھونکا تھا کہ وہ اس خواہش سے تائب ہو گئیں تھیں اور چینل والوں کے بے حد اصرار پر بھی راضی ہو کر ہی نہیں دے رہی تھیں۔

    خالہ گرم مسالہ کے قطعی انکار سے عمران سخت آزردہ تھا۔ اُس نے سب سے زیادہ کوشش کی کہ خالہ گرم مسالہ کو بھڑکا کر راضی کر سکے تاکہ خالہ گرم مسالہ کے توسط سے وہ بھی سوشل ورکر بننے کا اپنا برسوں پرانا خواب پورا کر سکے۔ اور اب خالو ببلو بیچارے خالو خسارے بنے اُس کی راہ کی دیوار بن رہے تھے۔ جب خالہ گرم مسالہ عمران کے پے در پے سوالوں سے زچ آگئیں تو اُنہوں نے بڑے سبھاؤ اور تدبر سے کہا کہ ”سر اور دستارکی سلامتی اسی میں ہے کہ اس جھنجھٹ سے دور رہا جائے۔“ عمران ہونق بنا اُن کی شکل دیکھے گیا اور جب کچھ دیر بعد اُس کاسکتہ ٹوٹا تو اُس نے صرف اتنا ہی کہا ”کاش خالو ببلو بیچارے، بیچارے ہی بنے رہتے۔ کر دیا نا اُنہوں نے آپ کا کباڑا، بن گئے نا خالو مرچ مسالہ۔آج تک کسی نے آپ کو کچھ کہا؟ کس شان سے سر اُٹھا کر جی رہی ہیں۔“

    ” عمران بیٹا! بے شک شان سے ہی نہیں آن سے بھی جی رہی ہوں۔ لیکن اس لیے کہ اپنوں کے درمیان ہوں۔ اپنا مارے گا تو پھر چھاؤں میں بٹھائے گا۔ وہ کون سے میرے اپنے ہیں جو میرا مان رکھیں گے۔“

    اور عمران! خالہ گرم مسالہ کے اپنے پرائے کے فلسفے میں الجھا سوچ رہا تھا۔خالہ گرم مسالہ کا اپنوں پہ یہ کیسا مان ہے جس نے اُن کو شہرت کی خواہش سے ہاتھ کھینچنے پر مجبور کر دیا۔ کیا واقعی اپنائیت کا احساس ایسا طاقتور ہوتا ہے جو خالہ گرم مسالہ کو خالہ نرم دو شالہ بننے پر آمادہ کر دے؟

    (شائستہ زریں کے قلم سے)

  • مرزا غالب: خدا نے انھیں دونوں جہان دے دیے تھے

    مرزا غالب: خدا نے انھیں دونوں جہان دے دیے تھے

    آپ مرزا کے مختصر سوانح حیات سنیے، بخوفِ طوالت صرف چند واقعات کے بیان پر ہی اکتفا کروں گا جو عام محققوں اور تذکرہ نویسوں کی نظر سے اوجھل رہے۔

    مرزا کی زندگی اگرچہ عسرت میں گزری تھی لیکن اس کے لیے اللہ میاں ذمہ دار نہ تھے، خود مرزا کو اقرار ہے کہ خدا نے انھیں دونوں جہان دے دیے تھے۔ سنیے،
    دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
    یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں

    سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ دونوں جہاں گئے کہاں؟ جواب مرزا کے اس شعر میں موجود ہے:
    لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے
    یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں

    پس دونوں جہان بھی گھر کے ساتھ ہی لٹا دیے ہوں گے۔

    غالب کا گھر نہ صرف ویران تھا بلکہ اس میں ویرانی سی ویرانی تھی۔ چنانچہ:
    کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
    دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

    لیکن یہ گھر وسیع نہ تھا اور مرزا کو ورزش کے لیے یا شاید گیند بلاّ کھیلنے کے لیے بہت کھلی جگہ کی ضرورت تھی، اس لیے جنگل میں جارہے تھے، فرماتے ہیں:
    کم نہیں وہ بھی خرابی میں پہ وسعت معلوم
    دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں

    جنگلوں کی زندگی مرزا کو بہت عزیز تھی اور انھوں نے اپنے گھر کو طاقِ نسیاں پر رکھ کر قفل لگا دیا تھا۔ مرزا کے پاؤں میں چکر تھا، وہ کسی جگہ بیٹھ نہیں سکتے تھے۔ جب چلتے چلتے پاؤں میں چھالے پڑ جاتے تو اس وقت انھیں جھاڑ جھنکاڑ کی تلاش ہوتی تھی۔ کانٹوں کو دیکھ کر آپ کا دل مسرت و شادمانی کے جھولے میں جھولنے لگتا تھا۔ کہتے ہیں:
    ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
    جی خوش ہوا ہے راہ کو پُرخار دیکھ کر

    مرزا بڑے سادہ لوح اور صاف دل انسان تھے۔ اکثر ایسی حرکتیں کر بیٹھتے جن کا نتیجہ ان کے حق میں بہت برا ہوتا تھا۔ چنانچہ ایک دن محبوب کی گلی میں بیٹھے بیٹھے کسی ذرا سی غلطی پر پاسبان سے اپنی چندیا گنجی کرا لی، اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے:
    گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئی
    اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے

    ایک مرتبہ خود محبوب کے ہاتھوں سے بھی پٹے مگر چوں کہ قصور اپنا تھا اس لیے نہایت ایمان داری سے اعتراف بھی کرلیا کہ
    دھول دھپّا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
    ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن

    اس سادہ لوحی کی بدولت ایک دن محبوب کی حد سے زیادہ تعریف کر کے ایک راز دار کو رقیب بنا لیا، ثبوت ملاحظہ ہو:
    ذکر اس پری وش کا اور پھر بیان اپنا
    بن گیا رقیب آخر تھا جو راز داں اپنا

    لیکن دیوانہ بکار خویش ہشیار کبھی کبھی رقیب کو جل بھی دے جاتے:
    تا کرے نہ غمازی کر لیا ہے دشمن کو
    دوست کی شکایت میں ہم نے ہمزباں اپنا

    مرزا نجوم اور جوتش کے نہ صرف قائل تھے بلکہ محبت کے معاملوں میں بھی جوتشیوں سے پوچھ گچھ کرتے رہتے تھے، اسی لیے کہا ہے:
    دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
    اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

    غالب کا دل عام لوگوں کی طرح خون کا قطرہ یا گوشت کا لوتھڑا نہ تھا بلکہ آفت کا ایک بڑا سا ٹکڑا تھا۔ اس میں کئی جگہ ٹیڑھ میڑھ تھے اور وہ ہروقت شوروغل مچائے رکھتا تھا۔ مرزا بھی اس کی آوارگی کے ہمیشہ شاکی رہتے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے:
    میں اور اک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی کہ ہے
    عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا

    مرزا کبھی کبھی اپنے اس دل سے کام بھی لے لیا کرتے تھے۔ مثلاً ایک دفعہ محبوب کی تمنا کہیں آپ کے ہتھے چڑھ گئی۔ آپ نے جی بھر کے انتقام لیے اور دل کے شور و غل کے ذریعے اس بے چاری کے کانوں کے پردے پھٹے جاتے تھے۔ رات دن دل میں چکر کاٹتی مگر باہر نکلنے کا راستہ نہیں ملتا۔ آخر ایک دن خود اس پر ترس کھا کر محبوب سے درخواست کی ہے:
    ہے دلِ شوریدۂ غالب طلسمِ پیچ و تاب
    رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے

    لیکن خدا کے فضل و کرم سے مرزا کو جلد ہی اس سے رہائی مل گئی۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے سوزِ نہاں کا دورہ ہوا اور سارے کا سارا دل بے محابا جل گیا۔ اس حادثۂ فاجعہ کا ذکر مرزا نے یوں کیا ہے:
    دل مرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا
    آتشِ خاموش کی مانند گویا جل گیا

    بد قسمتی سے مرزا کے ناخن بہت جلد بڑھتے تھے۔ چنانچہ دل کا زخم ابھی بھرنے بھی نہ پاتا تھاکہ ناخنوں کے کھرپے پھر تیز ہوجایا کرتے تھے، فرماتے ہیں:
    دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
    زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا

    (ہری اختر چند کی شگفتہ بیانی، مضمون غالب اپنے کلام کے آئینے میں سے مقتبس)

  • "مسکرائیے!”

    "مسکرائیے!”

    مشتاق احمد یوسفی نے واقعات یا سانحات کو اپنے مزاح کی بنیاد نہیں بنایا بلکہ عام حالات، رویّوں اور معمول کی گفتگو پر شیریں اور شگفتہ تبصرے کیے ہیں۔

    شستگی، ان کے مزاح کا خاص جوہر ہے۔ مزاحیہ ادب کے ایک دور کو ہم اگر کسی نام سے منسوب کرسکتے ہیں تو وہ یوسفی صاحب ہی کا نام ہے۔

    مزاح لکھنے والے کو عام طور پر دو مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ ایک تو تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرنا آسان نہیں‌ ہوتا اور دوسرا کسی کو اُس کی خامیوں کی طرف اس طرح متوجہ کرنا کہ دل شکنی نہ ہو۔ مشتاق یوسفی نے ان دونوں مشکلات کا حل یہ نکالا کہ اپنے طنز میں محبّت اور خیر خواہی کا رنگ شامل کرلیا اور کسی کی تحقیر نہیں کی۔

    بقول ضمیر جعفری ”یوسفی کی جس ادا پر میں خاص فریفتہ ہوں، وہ اُس کی اتھاہ محبت ہے۔ یوسفی اپنے کھیت میں نفرت، کدورت یا دشمنی کا بیج بوتا ہی نہیں۔“

    یہاں ہم اردو کے اس ممتاز مزاح نگار کی تحریروں سے یہ ‘شکر پارے’ آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "محبت اندھی ہوتی ہے، چنانچہ عورت کے لیے خوب صورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہوتا ہے۔”

    "آدمی ایک بار پروفیسر ہوجائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں سمجھداری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے۔”

    "مرض کا نام معلوم ہوجائے تو تکلیف تو دور نہیں ہوتی، الجھن دور ہوجاتی ہے۔”

    "انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے۔”

    "خون، مشک، عشق اور ناجائز دولت کی طرح عمر بھی چھپائے نہیں چھپتی۔”

  • گدھا اور تمغۂ خدمت

    گدھا اور تمغۂ خدمت

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ یہ ملک بڑا خوش حال تھا۔ لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے آزادی کے پودے کی داغ بیل دنیا میں سب سے پہلے اسی ملک میں پڑی ہو اور جمہوریت کا سورج یہیں طلوع ہوا ہو۔

    وقت گزرتا گیا…. پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ نامعلوم کیوں، پورے ملک میں سخت قحط پڑ گیا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ جن لوگوں کے آگے پیچھے ہر وقت کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی تھی اور جن کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوا کرتی تھیں وہ بھی خشک روٹی کے ٹکڑوں تک کو ترسنے لگے۔

    جب بادشاہ نے دیکھا کہ قحط سے لوگوں کی کمر ٹوٹی جارہی ہے تو اسے ملک میں بغاوت کا خطرہ ہوا۔ سوچ سوچ کر اسے اس خطرے سے بچنے کی ایک انوکھی راہ سمجھائی دی۔ اس نے ملک بھر میں شہر شہر، گلی گلی ڈھونڈورچی روانہ کروائے اور منادی سے شاہی فرمان رعایا تک پہنچا دیا۔

    ‘‘میرے عزیز ہم وطنو! پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ مابدولت نے اپنی رعایا کی عظیم خدمات کے عوض تمام مستحق افراد کو تمغۂ خدمت عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لہٰذا جس کسی نے آج تک ملک اور عوام کی کوئی خدمت کی ہو، اسے چاہیے کہ فوراً شاہی محل میں حاضر ہو جائے۔ مابدولت اسے تمغۂ خدمت سے نوازیں گے۔’’

    منادی سنتے ہی ملک کے طول و عرض میں ہر شخص کے سر میں تمغہ حاصل کرنے کی ایسی دھن سمائی کہ کسی کو بھوک، پیاس، قحط بیماری یا کمر توڑ گرانی کا احساس تک باقی نہ رہا۔ ادھر بادشاہ نے قومی خدمات کی نوعیت کے مطابق چھوٹے بڑے، قسم قسم کے تمغے تیار کروائے۔ تمغۂ خدمت درجۂ اوّل خالص سونے کا بنوایا گیا۔ درجۂ دوم چاندی کا، تیسرے درجے پر رولڈ گولڈ، پھر پیتل، تانبا، لوہا، ٹین وغیرہ وغیرہ۔ شاہی دربار میں تمغہ حاصل کرنے والے امیدواروں کا تانتا بندھ گیا۔

    ہر شخص کو اس کی خدمات کے مطابق کوئی نہ کوئی تمغہ عطا کر دیا جاتا۔ تمغے اتنی فراخ دلی سے عطا کیے گئے کہ تھوڑے ہی عرصے بعد ملک میں مزید تمغے بنانے کے لیے نہ سونا بچا، نہ چاندی اور نہ کوئی دھات۔ مجبوراً لکڑی، چمڑے اور اسی قسم کی دوسری اشیاء تمغہ بنانے میں استعمال کرنا پڑیں۔

    ایک سے زیادہ تمغے حاصل کرنے والوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہوگئی۔ جدھر دیکھو مشکیزوں کی طرح پھولے ہوئے سینوں پر لٹکتے تمغے دکھائی دینے لگے۔
    ایک گائے نے جب ہر انسان کی چھاتی پر چمکتے تمغے دیکھے اور اسے پتہ چلا کہ بادشاہ سلامت ہر آئے گئے کو تمغوں سے نوازتے رہتے ہیں تو اسے بھی قسمت آزمائی کا شوق چرایا۔ بھوک سے بیچاری کی پسلیاں ابھری ہوئی تھیں، جسم کا گوشت لٹک چکا تھا، جس کی وجہ سے ایک ایک ہڈی گنی جاسکتی تھی۔ اس کے باوجود گائے بھاگی اور سیدھی شاہی محل جا پہنچی۔ دربانوں نے راستہ روکا، تو بولی….

    ‘‘بادشاہ سلامت کو اطلاع دی جائے کہ ان کی رعایا میں سے ایک گائے شرفِ ملاقات کے لیے حاضر ہوئی ہے۔’’

    دربان نے گائے کو ٹرخانے کی لاکھ کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی مجبوراً بادشاہ کو اطلاع دی گئی۔ بادشاہ کے حکم پر گائے کو دربار میں پیش کیا گیا۔ بادشاہ بولا….

    گائے نے عرض کی ‘‘بادشاہ سلامت میں نے سنا ہے آپ رعایا کو تمغے عنایت فرمارہے ہیں چنانچہ میں بھی اپنا حق لینے کی خاطر آپ کے دربار میں حاضر ہوئی ہوں۔’’

    ‘‘تم جیسے حیوان کو شاہی تمغوں کی توہین کی جرات کیونکر ہوئی….؟ آخر حیوان اس ملک کی کون سی خدمات سر انجام دیتے ہیں جن کے عوض انہیں تمغے دیے جائیں….؟’’ بادشاہ نے غصے سے چلا کر کہا۔

    گائے نے جواب دیا ‘‘بادشاہ سلامت، اگر آپ کی یہ ناچیز خادمہ تمغے کی حق دار نہیں تو پھر بھلا اور کون ہوسکتا ہے! میں آپ کی اور آپ کے عوام کی ہرممکن خدمت کرتی ہوں۔ انسان میرا دودھ پیتا ہے، میرا گوشت کھاتا ہے، میری کھال استعمال میں لاتا ہے، یہاں تک کہ میرا گوبر بھی نہیں چھوڑتا۔ آپ خود ہی انصاف کیجیے ایک تمغہ حاصل کرنے کے لیے اس سے زیادہ اور کیسی خدمات کی ضرورت ہوتی ہے….؟’’

    گائے کی دلیل سن کر بادشاہ خوش ہوگیا اور اس نے حکم دیا کہ گائے کو فوراً تمغہ خدمت درجہ دوم عطا کر دیا جائے۔

    گائے گلے میں تمغہ لٹکائے بڑے فخر سے مٹکتی مٹکتی واپس لوٹ رہی تھی کہ راستے میں اسے ایک خچر ملا۔

    ‘‘گائے جی سلام!’’

    ‘‘سلام خچر بھیا۔’’

    ‘‘باجی آج بڑی خوش نظر آرہی ہو، کیا وجہ ہے….؟ کہاں سے آرہی ہو….؟ اور ہاں، یہ گردن میں کیا لٹکا رکھا ہے….؟’’

    گائے نے خچر کو سارا ماجرا سنایا۔ خچر کو بھی جوش آیا، فوراً سرپٹ بھاگا اور جاکر شاہی محل کے گیٹ پر دم لیا۔

    دربانوں سے بادشاہ سلامت کی خدمت میں حاضری دینے کی خواہش ظاہر کی، مگر کسی نے ایک نہ سنی۔ خچر اپنی ضد پر اڑا رہا۔ پھر ایک دو دربانوں پر دولتیاں جھاڑیں، ایک دولتی شاہی محل کے گیٹ پر ماری۔ آخر بادشاہ سلامت کو اطلاع دی گئی کہ ایک گستاخ مہماں اندر آنا چاہتا ہے۔

    بادشاہ نے حکم دیا ‘‘خچر کو پیش کیا جائے، آخر وہ بھی تو ہماری رعایا ہی میں شمار ہوتا ہے۔’’

    خچر نے اندر آکر بادشاہ کو فرشی سلام کیا اور تمغے کے حصول کے لیے عرض داشت پیش کی۔

    بادشاہ نے پوچھا ‘‘اے خچر، تمہاری کون سی ایسی خدمات ہیں جن کے بدلے تم اپنے آپ کو تمغےکا حق دار سمجھ کر مابدولت کے دربار میں آئے ہو….؟’’

    خچر نے عرض کی ‘‘مجھے یہ جان کر بڑا دکھ ہوا ہے کہ آپ کو اس ناچیز کی خدمات کا علم ہی نہیں۔ بھلا یہ تو بتائیے کہ جنگ کے دوران آپ کی توپیں، گولہ بارود اور دوسری جنگی ضروریات اپنی کمر پر اُٹھا کر کون دشوار گزار راستوں سے ہوتا ہوا پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچاتا ہے۔ آپ کے سپاہیوں کا راشن کون ڈھوتا ہے….؟ امن کے زمانے میں بھی آپ کے بال بچوں کو اور آپ کی رعایا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں میرا کچھ کم حصہ نہیں ہے۔ اگر اس ملک میں میری برادری کے خچر نہ ہوتے تو سلطنت کے بے شمار کام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رکے رہتے۔’’

    بادشاہ نے محسوس کیا کہ واقعی خچر حق بجانب ہے۔ چنانچہ خچر کو درجہ اوّل کا تمغہ عطا کرنے کا حکم صادر ہوگیا۔

    خچر تمغہ لے کر خوشی خوشی محل سے واپس لوٹ رہا تھا کہ اسے راستے میں گدھا ملا۔

    گدھے نے خچر سے کہا ‘‘سلام پیارے بھتیجے۔’’

    ‘‘سلام چچا جان’’ خچر نے جواب دیا۔ ‘‘کہو! اتنے خوش خوش کہاں سے آرہے ہو….؟’’ خچر نے سارا واقعہ سنایا، تو گدھا رینکا۔

    ‘‘ذرا ٹھہرو، میں بھی جاکر بادشاہ سلامت سے اپنا حق طلب کرتا ہوں۔’’ یہ کہا اور سیدھا شاہی محل کے گیٹ پر جا پہنچا۔ محافظوں نے ڈرایا دھمکایا، دربانوں نے منت سماجت کرکے گدھے کو واپس لوٹ جانے کی ترغیب دی۔ لیکن گدھا کہاں سنتا تھا۔ وہ بادشاہ سلامت سے ملاقات کی رٹ لگاتا رہا۔ آخر کار بادشاہ کو اطلاع دی گئی۔ گدھے کو حاضری کی اجازت مل گئی۔ انسانوں اور حیوانوں کی درخواستیں سن سن کر بادشاہ تنگ آچکا تھا۔ گدھے کو دیکھتے ہی جھلا کر بولا۔

    ‘‘گدھے کہیں کے تمہیں کیسے جرات ہوئی کہ اپنا گدھا پن بھول کر شاہی محل میں آپہنچے ہو اور پھر طرّہ یہ کہ مابدولت سے ملاقات کرنے پر مصر ہو۔ میری رعایا کے حیوانوں میں گائے اپنے دودھ، گوشت اور کھال سے قوم اور وطن کی خدمت کرتی ہے۔ خچر امن اور جنگ کے دوران بوجھ اٹھا کر قومی خدمات سرانجام دیتا ہے لیکن تم گدھوں کا سوائے ڈھینچوں، ڈھینچوں کرکےرعایا کے آرام میں خلل اندازی کے اور کیا کام کیا ہے….؟

    تمہیں کس خوشی میں تمغہ دے دوں….؟’’ گدھے کی امیدیں خاک میں مل گئیں، مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور بولا۔

    ‘‘بادشاہ سلامت! آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی سب سے زیادہ خدمت تو گدھے ہی کرتے ہیں۔ ذرا خیال کیجیے اگر مجھ جیسے ہزاروں لاکھوں گدھے آپ کی سلطنت میں موجود نہ ہوتے تو آپ اتنی مدت شاہی تخت پر کیوں کر براجمان رہ سکتے تھے۔ اپنی اس ناچیز مخلوق کو دعا دیجیے جنہیں لوگ گدھا سمجھتے ہیں اور جن کی بدولت آپ کی کرسی محفوظ چلی آرہی ہے۔’’

    گدھے کی بات سن کر بادشاہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر اس نے اپنے تمام درباریوں اور مشیروں پر باری باری نظر ڈالی اور دل ہی دل میں کہا۔ ‘‘واقعی گدھا حق بجانب ہے۔’’

    بادشاہ کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ گدھے سے یوں مخاطب ہوا۔ ‘‘اے میرے وفادار گدھے! تو بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ تیری اس اعلیٰ خدمت کا صلہ ادا کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی مناسب تمغہ نہیں ہے، البتہ ہم حکم دیتے ہیں کہ تمہارے لیے تاحیات سرکاری توشہ خانے سے ہر روز ایک بوری گھاس کا وظیفہ لگا دیا جائے۔ جب تک زندہ ہو سرکاری گھاس کھاتے جاؤ اور رات دن ہماری سلطنت کی سلامتی کی دعائیں مانگا کرو۔’’

    (ترکی کے مشہور ادیب، شاعر اور ممتاز مزاح نگار عزیز نیسن کی کہانی کا یہ ترجمہ کرنل (ریٹائرڈ) مسعود اختر شیخ کی کتاب ‘‘تماشائے اہلِ کرم ’’میں شامل ہے)