Tag: مزاحیہ ادب

  • اردو زبان کے صفِ اوّل کے طنز نگار چراغ حسن حسرت کی برسی

    اردو زبان کے صفِ اوّل کے طنز نگار چراغ حسن حسرت کی برسی

    چراغ حسن حسرتؔ کی نثر کے بارے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں، ’’وہ نثر کی ہر صنف پر قادر تھے، سیرت بھی لکھی، افسانے بھی تحریر کیے، تاریخ پر بھی قلم اٹھایا۔ بچّوں کا نصاب بھی لکھا۔‘‘

    26 جون 1955 کو مولانا چراغ حسن حسرت لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔ آج اس ممتاز ادیب و شاعر اور جیّد صحافی کی برسی منائی جارہی ہے۔ مزاحیہ مضامین اور فکاہیہ کالم ان کی خاص وجہِ شہرت ہیں۔

    چراغ حسن حسرت 1904 میں کشمیر میں پیدا ہوئے تھے۔ اسکول کے زمانے میں شاعری کی طرف راغب ہوئے، فارسی پر عبور اور عربی جاننے کے ساتھ اردو زبان و بیان پر قدرت رکھتے تھے اور پاکستان ہجرت کرنے کے بعد یہاں اردو اور فارسی کی تدریس سے منسلک ہوگئے۔ اسی زمانے میں عملی صحافت کا سلسلہ شروع ہوگیا اور متعدد اخبارات میں کام کرنے کے ساتھ ادبی جرائد کے لیے لکھنے لگے اور ادارت بھی کی جن میں ’’انسان، زمیندار، شیراز اور شہباز‘‘ شامل ہیں۔ انھیں شملہ اور کلکتہ میں بھی تدریس اور صحافت کے شعبے میں اپنے تجربے اور علم و قابلیت کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا۔

    حسرت نے مختلف قلمی ناموں سے لکھا جن میں ’’کولمبس، کوچہ گرد، اور سند باد جہازی‘‘ مشہور ہیں۔ ان ناموں سے حسرت کی تحریریں ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوئیں اور ان کا طرزِ نگارش اور دل چسپ و شگفتہ انداز ان کی شہرت میں اضافہ کرتا چلا گیا۔

    مولانا چراغ حسن حسرت کی تصانیف اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔ ان کی کتابوں میں کیلے کا چھلکا، پربت کی بیٹی، مردم دیدہ، دو ڈاکٹر اور پنجاب کا جغرافیہ و دیگر شامل ہیں۔

    چراغ حسن حسرتؔ کی نثر مختلف النّوع موضوعات پر مشتمل ہے۔ وہ سنجیدہ، خالص ادبی اور رومانوی مضامین کے ساتھ طنز و مزاح لکھتے تھے۔ اس کے علاوہ خاکہ نویسی، تراجم، تبصرے اور تحقیقی مضامین بھی ان کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ حسرت کو ان کے فکاہیہ مضامین اور ظرافت آمیز کالموں سے خوب شہرت ملی۔ چراغ حسن حسرتؔ نے لاہور کے روزناموں سے مزاحیہ کالموں کا سلسلہ کم و بیش چودہ پندرہ برس جاری رکھا۔

    انھوں نے زیادہ تر اپنے ماحول اور اردگرد بکھرے ہوئے موضوعات کو اپنے کالموں میں پیش کیا ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں زور اور اثر پیدا کرنے کے لیے محاورہ، تشبیہ، استعارہ اور ضربُ الامثال سے خوب کام لیتے تھے۔

    ایک ادیب، ایک صحافی، انشا پرداز اور ایک تاریخ نگار کی حیثیت سے جہاں انھوں نے قارئین کی بڑی تعداد کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا، وہیں‌ وہ علم و ادب کی دنیا اور اپنے قریبی احباب میں اپنی بادہ نوشی اور بعض عادات کی وجہ سے مطعون بھی کیے جاتے تھے۔

    اردو کے نام وَر افسانہ نگار سعادت حسن منٹو بھی چراغ حسن حسرت کے بے تکلّف دوستوں‌ میں‌ شامل تھے، اور ان کا ایک خاکہ لکھا تھا جس سے چند پارے ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

    "مولانا چراغ حسن حسرت جنہیں اپنی اختصار پسندی کی وجہ سے حسرت صاحب کہتا ہوں۔ عجیب و غریب شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ پنجابی محاورے کے مطابق دودھ دیتے ہیں مگر مینگنیاں ڈال کر۔ ویسے یہ دودھ پلانے والے جانوروں کی قبیل سے نہیں ہیں حالانکہ کافی بڑے کان رکھتے ہیں۔

    آپ سے میری پہلی ملاقات عرب ہوٹل میں ہوئی۔ جسے اگر فرانس کا ’’لیٹن کوارٹر‘‘ کہا جائے تو بالکل درست ہوگا۔ ان دنوں میں نے نیا نیا لکھنا شروع کیا تھا اور خود کو بزعمِ خویش بہت بڑا ادیب سمجھنے لگا تھا۔ عرب ہوٹل میں تعارف مظفر حسین شمیم نے اُن سے کرایا۔ یہ بھی حسرت صاحب کے مقابلے میں کم عجیب و غریب شخصیت نہیں رکھتے۔ میں بیمار تھا۔ شمیم صاحب کی وساطت سے مجھے ہفتہ وار’’پارس‘‘ میں جس کے مالک کرم چند تھے، ملازمت مل گئی۔ تنخواہ چالیس روپے ماہوار مقرر ہوئی مگر ایک مہینے میں بمشکل دس پندرہ روپے ملتے تھے۔ شمیم صاحب اور میں ان دنوں دوپہر کا کھانا عرب ہوٹل میں کھاتے تھے۔

    ایک دن میں نے اس ہوٹل کے باہر تھڑے پر وہ ٹوکرا دیکھا جس میں بچا کھچا کھانا ڈال دیا جاتا تھا۔ اس کے پاس ایک کتا کھڑا تھا۔ ہڈیوں اور تڑی مڑی روٹیوں کو سونگھتا، مگر کھاتا نہیں تھا۔ مجھے تعجب ہوا کہ یہ سلسلہ کیا ہے۔

    شمیم صاحب نے جب حسرت صاحب سے میرا تعارف کرایا اور ادھر ادھر کی چند باتیں ہوئیں، تو میرے استفسار پر بتایا کہ اس کتّے کی محبت ایک سانڈ سے ہے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی لیکن میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان دو حیوانوں میں دوستی تھی۔ سانڈ ساڑھے بارہ بجے دوپہر کو خراماں خراماں آتا، کتّا دُم ہِلا ہلا کر اس کا استقبال کرتا اور وہ ٹوکرا جس کا میں ذکر کر چکا ہوں، اس کے حوالے کردیتا۔ جب وہ اپنا پیٹ بھر لیتا جو کچھ باقی بچ جاتا اس پر قناعت کرتا۔

    اس دن سے اب تک میری اور حسرت صاحب کی دوستی، اس سانڈ اور کتّے کی دوستی ہے۔ معلوم نہیں حسرت صاحب سانڈ ہیں یا میں کتّا۔ مگر ایک بات ہے کہ ہم میں سے کوئی نہ کوئی سانڈ اور کتا ضرور ہے لیکن ہم میں اکثر لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں جو ان دو حیوانوں میں شاید نہ ہوتی ہوں۔

    حسرت صاحب بڑی پیاری شخصیت کے مالک ہیں۔ میں ان سے عمر میں کافی چھوٹا ہوں لیکن میں انہیں بڑی بڑی مونچھوں والا بچّہ سمجھتا ہوں۔ یہ مونچھیں صلاح الدین احمد صاحب کی مونچھوں سے بہت ملتی جلتی ہیں۔

    حسرت صاحب کہنے کو تو کشمیری ہیں مگر اپنے رنگ اور خدوخال کے اعتبار سے معلوم نہیں کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ فربہ اندام اور خاصے کالے ہیں۔ معلوم نہیں کس اعتبار سے کشمیری ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں؟

    ویسے مجھے اتنا معلوم ہے کہ آپ آغا حشر کاشمیری کے ہم جلیس تھے۔ علامہ اقبال سے بھی شرفِ ملاقات حاصل تھا جو کشمیری تھے۔ خاکسار بھی ہیں جس سے ان کی’’سانڈ اور کتے‘‘ کی دوستی ہے لیکن اس کے باوجود اگر یہ ثابت کرنا چاہیں کہ خالص کشمیری ہیں تو کوئی کشمیری نہیں مانے گا۔ حالانکہ انہوں نے کشمیر پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

    یہ کتاب میں نے پڑھی ہے۔ میں عام طور پر بڑا برخود غلط انسان متصور کیا جاتا ہوں لیکن مجھے ماننا پڑتا ہے اور آپ سب کے سامنے حسرت صاحب بڑی دلفریب اندازِ تحریر کے مختار اور مالک ہیں۔ بڑی سہلِ ممتنع قسم کے فقرے اور جملے لکھتے ہیں۔ پر ان کی ان پیاری تحریروں میں مجھے ایک بات کھٹکتی ہے کہ وہ ہمیشہ استادوں کا طریقۂ تعلیم استعمال کرتے ہیں۔ ان کے بے شمار شاگرد موجود ہیں جو شاید ان کے علم میں نہ ہوں مگر ان کی خواہش ہے کہ وہ ہر بچّے، نوجوان اور بوڑھے پر رعب جمائیں اور اس کا کاندھا تھپکا کر اسے یہ محسوس کرنے پر مجبور کریں کہ وہ ان کا برخوردار ہے۔ مجھے ان کی طبیعت کا یہ رخ سخت ناپسند ہے، اسی وجہ سے میری اور ان کی لڑائی ہوتی رہی ہے۔

    اردو کے صفِ اوّل کے طنز نگار چراغ حسن حسرت لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

  • رشوت دینے دلانے کا بڑا فائدہ

    رشوت دینے دلانے کا بڑا فائدہ

    جہلم کے قریب ایک قلعہ دار نے ہم پر دھاوا بول دیا، لیکن فوراً ہی پھرتی سے قلعے میں محصور ہو گیا۔

    ارادہ ہوا کہ اس کو اسی طرح محصور چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں، لیکن اُلّو شناس، ملتمس ہوا کہ نیا ملک ہے، یہاں پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے۔ ہم نے فرمایا، کہ اس طرح قدم رکھے تو دلّی پہنچنے میں دیر لگے گی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں یہ لوگ عقب سے آکر تنگ نہ کریں۔ اس روز ہمیں نزلہ سا تھا اور قصد لڑائی بھڑائی کا ہرگز نہ تھا۔ اُلّو شناس کے اصرار پر دو دن تک قیام کیا لیکن کچھ نہ ہوا۔ تنگ آکر ہم نے پوچھا کہ کوئی ایسی تجویز نہیں ہوسکتی کہ یہ معاملہ یونہی رفع دفع ہو جائے۔ اُلّو شناس گیا اور جب شام کو لوٹا تو اس کے ساتھ ایک ہندی سپاہی تھا۔ اُلّو شناس کے کہنے پر ہم نے سپاہی کو پانچ سو طلائی مہریں دیں۔ ابھی گھنٹہ نہ گزرا ہوگا کہ قلعے کے دروازے کھل گئے۔ ہم بڑے حیران ہوئے۔

    ہند میں یہ ایک نہایت مفید رسم ہے۔ جب کٹھن وقت آن پڑے، یا مشکل آسان نہ ہو تو متعلقہ لوگوں کو ایک رقم یا نعم البدل پیش کیا جاتا ہے۔ تحفے کی مقدار اور پیش کرنے کے طریقے مختلف ہوتے ہیں، لیکن مقصد ایک ہے۔ اسے یہاں "رشوت” کہتے ہیں۔ کس قدر زود اثر اور کار آمد نسخہ ہے۔ اگر لاکھوں کے اٹکے ہوئے کام، ہزار پانچ سو سے سنور جائیں، تو اس میں حرج ہی کیا ہے۔ رشوت دینے دلانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس عمل سے کرنسی حرکت میں رہتی ہے۔ ہم واپس ایران پہنچ کر اس رسم کو ضرور رائج کریں گے۔

    ہمیں بتایا گیا کہ کچھ مہریں سپاہی نے اپنے استعمال کے لیے خود رکھ لی تھیں ۔ باقی کوتوال کو دیں، جس نے اپنا حصہ لے کر بقیہ قلعہ دار کے حوالے کی۔ قلعہ دار نے سنتریوں کو خوش کر کے دروازے کھلوا دیے۔ واقعی عجوبۂ روزگار ہے۔

    (معروف مزاح نگار شفیق الرحمٰن کے قلم سے)

  • غریب ملکوں کا "دارُ اللفافہ”

    غریب ملکوں کا "دارُ اللفافہ”

    واشنگٹن ڈی سی امریکا کا دارالخلافہ ہے، جسے انکل سرگم غریب ملکوں کا "دارُاللفافہ” بھی کہتا ہے۔ سرگم کا کہنا ہے کہ امریکا کا دارالخلافہ غریب ملکوں کا "داراللفافہ” یوں بن جاتا ہے کہ یہاں سے غریب ملکوں کو وہ لفافے روانہ کیے جاتے ہیں جن میں "شاہ جہان” (امریکی صدر) کے احکامات یا انعامات ہوتے ہیں۔

    واشنگٹن ڈی سی کی مشہور عمارت ” کیپٹل بلڈنگ ” کے سامنے کھڑے ہو کر ہمیں اپنے علاقے کے مغل بادشاہ شاہ جہان کا تاج محل یاد آ گیا جس کے بارے میں شکیل بدایونی نے کہا کہ:

    اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
    ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے​

    اور اس شعر کی مخالفت میں ساحر لدھیانوی نے یوں کہا تھا کہ :

    اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
    ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق​

    انکل سرگم نے بھی کیپٹل بلڈنگ کو دیکھتے ہی اسے تاج محل کی مناسبت سے "راج محل” کا نام دیتے ہوئے یہ شعر کہہ ڈالا کہ:

    اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں راج محل
    ساری دنیا پہ حکومت کی نشانی دی ہے​

    "امریکی شاہ جہان” کے اس "راج محل” کا سنگ بنیاد 1793 عیسوی میں جارج واشنگٹن نے رکھا اور اس کے بعد اس کی تعمیر و زیبائش میں ترامیم ہوتی رہیں۔ کیپٹل بلڈنگ کے گنبد پر ایک خاتون کا مجسمہ نصب ہے جو امریکا میں خواتین کی آزادی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا میں خواتین کو اتنا زیادہ لباس حاصل نہیں جتنی آزادی حاصل ہے۔ ماسی مصیبتے کا مشاہدہ ہے کہ امریکا عورتوں، بچوں اور پالتو جانوروں کے لیے جنت ہے۔ یہاں عورت کو سوائے صدر بننے کے باقی ہر چیز میں مردوں جتنے حقوق حاصل ہیں۔ بچے گھروں میں 18 سال ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور 18 سال کے بعد ماں باپ سے یوں آنکھیں پھیر لیتے ہیں کہ کبھی کبھی تو یہ ہمارے ہاں کے سیاستدان لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔

    امریکیوں کی اپنے جانوروں سے محبت کا یہ عالم ہے کہ یہ اپنے والدین کی وفات پر رنجیدہ نہیں ہوتے، ہاں، اپنے کتّے بلّی کے بیمار ہونے پر دھاڑیں مار مار کے روتے ہیں۔ پالتو جانوروں کی خوراک لیبارٹری ٹیسٹ ہونے کے بعد جانوروں کے لیے مخصوص سپر اسٹوروں میں رکھی جاتی ہے۔ خوراک کی پیکنگ اتنی خوبصورت اور دیدہ زیب ہوتی ہے کہ اگر تھرڈ ورلڈ کا کوئی غریب انسان دیکھے تو کتوں کی غذائیت سے بھرپور عمدہ خوراک دیکھ کر اس کا جی بھونکنے کو کر اٹھے۔ جانوروں کے علاج معالجے کے لیے ہم نے یہاں جو کلینک اور اسپتال دیکھے تو ہمارا دل اپنے ملک کے اسپتال یاد کر کے وہاں کے مریضوں کی طرح تڑپ اٹھا۔

    جانوروں کے بعد یہاں بچوں کو جو سہولتیں میسر ہیں وہ ہمارے کسی بڑے سرکاری افسر کو ہی میسر ہو سکتی ہیں۔ امریکن والدین بچوں پر انگلی اٹھانا تو کجا، انہیں گھور کر بھی دیکھیں تو بچے نائن ون ون پر کال کر کے پولیس بلوا لینے کا قانونی حق رکھتے ہیں۔ چنانچہ ماں باپ کا دل اگر کبھی بچّے کو گھورنے کو کرے بھی تو وہ سیاہ چشمہ پہن کر گھور لیتے ہیں، تاکہ ان کی تیکھی نظروں کو بچہ دیکھ نہ پائے۔ اسی طرح اگر والدین کا اپنے بچوں کو ڈانٹنے کو جی کرے تو انہیں اپنے دل میں ہی برا بھلا کہہ کر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔

    ہم اگر دنیا کے نقشے پر امریکا کو دیکھیں تو امریکا ہمیں باقی دنیا سے الگ اور الٹی جانب دکھائی دے گا۔ شاید اسی خاصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکا نے اپنا ہر کام وکھری ٹائپ کا ہی اپنایا ہوا ہے۔ یہاں ٹریفک کے سوا ہر حرکت الٹ کی جاتی ہے۔ بجلی کے سوئچ الٹی جانب یعنی اوپر کی طرف آن ہوتے ہیں، ٹوپیاں الٹی پہنی جاتی ہیں، انگلش وکھری ٹائپ کی بولی جاتی ہے، عورتوں کی نسبت مردوں کو زیادہ ڈھانپا جاتا ہے۔ امریکا میں آپ کو سڑک پر چلتا ہوا کوئی بندہ شاذ و نادر ہی نظر آئے گا۔ سڑک پر پتھر مارنے تک کو نہیں ملے گا۔ رہائشی علاقے میں اتنی خاموشی ملے گی کہ قبرستان کا گمان ہو گا۔ عرب ملکوں کی طرح امریکا میں سڑکوں پر کوئی گورا آنکھ میں ڈالنے تک کو نہیں ملے گا۔ اس الٹی دنیا میں بسنے کے لیے تیسری دنیا کے سیدھے سادے لوگ اپنے تن، من، دھن اور بال بچوں کی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ گرین کارڈ پانے کے لیے اپنی جوانی دن رات گیس اسٹیشن، اسٹور اور ٹیکسی چلانے میں کھو دیتے ہیں۔ اسی الٹی دنیا میں بسنے والی ایک پاکستانی شاعرہ نے کیا خوب کہا ہے کہ:

    قسمت کی ریکھائیں سیدھی کرنے کو
    الٹی جانب دنیا کے ہم آن بسے​

    (فاروق قیصر کے قلم سے)

  • ہم اور ہمارا امتحان

    ہم اور ہمارا امتحان

    نہ ہوئی گر میرے پرچوں سے تسلی نہ سہی
    امتحاں اور بھی باقی ہے تو یہ بھی نہ سہی

    لوگ امتحان کے نام سے گھبراتے ہیں لیکن مجھے ان کے گھبرانے پر ہنسی آتی ہے۔ آخر امتحان ایسا کیا ہوّا ہے۔ دو ہی صورتیں ہیں ’فیل یا پاس‘ اس سال کام یاب نہ ہوئے آئندہ سال سہی۔

    میں اپنے دوستوں اور ہم جماعتوں کو دیکھتا تھا کہ جوں جوں امتحان کے دن قریب آتے جاتے ان کے حواس پر، ان کا دماغ مختل اور ان کی صورت اتنی سی نکلتی آتی تھی۔ بندۂ درگاہ پر امتحان کا رتّی برابر اثر پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ گو امتحان سے فارغ ہو چکا ہوں لیکن اب بھی اس کے ختم ہو جانے کا افسوس ہے۔ امیدواروں کا مجمع، نئی نئی صورتیں، عجیب عجیب خیالات، یہ ایسی چیزیں ہیں جن سے کبھی دل سیر نہیں ہو سکتا۔ جی چاہتا ہے کہ تمام عمر امتحان ہوئے جائے لیکن پڑھنے اور یاد کرنے کی شرط اٹھا دی جائے۔

    میری سنیے کہ دو سال میں لاء کلاس کا کورس پورا کیا۔ مگر کس طرح؟ شام کو یاروں کے ساتھ ٹہلنے نکلتا، واپسی کے وقت لاء کلاس میں بھی جھانک آتا۔ منشی صاحب دوست تھے اور لکچرار صاحب پڑھانے میں مستغرق۔ حاضری کی تکمیل میں کچھ دشواری نہ تھی۔ اب آپ ہی بتائیے کہ لاء کلاس میں شریک ہونے سے میرے کس مشغلے میں فرق آ سکتا تھا؟ والد صاحب قبلہ خوش تھے کہ بیٹے کو قانون کا شوق ہو چلا ہے۔ کسی زمانے میں بڑے بڑے وکیلوں کے کان کترے گا۔ ہم بھی بے فکر تھے کہ چلو دو برس تک تو کوئی محنت کے لیے کہہ نہیں سکتا۔ بعد میں دیکھیے کون جیتا ہے اور کون مرتا ہے۔ لیکن زمانہ آنکھ بند کیے گزرتا ہے۔ دو سال ایسے گزر گئے جیسے ہوا۔ لاء کلاس کا صداقت نامہ بھی مل گیا۔

    اب کیا تھا والدین امتحانِ وکالت کی تیاری کے لیے سَر ہو گئے مگر میں بھی ایک ذات شریف ہوں۔ ایک بڑھیا اور ایک بڈھے کو دھوکا دینا کیا بڑی بات ہے۔ میں نے تقاضا کیا کہ علاحدہ کمرہ مل جائے تو محنت کروں۔ بال بچّوں کی گڑبڑ میں مجھ سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ چند روز اسی حیلے سے ٹال دیے۔ لیکن تابکے!

    بڑی بی نے اپنے سونے کا کمرہ خالی کر دیا۔ اب میں دوسری چال چلا۔ دروازوں میں جو شیشے تھے ان پر کاغذ چپکا دیا۔ لیمپ روشن کر کے آرام سے سات بجے سو جاتا اور صبح نو بجے اٹھتا۔ اگر کسی نے آواز دی اور آنکھ کھل گئی تو ڈانٹ دیا کہ خواہ مخواہ میری پڑھائی میں خلل ڈالا جاتا ہے۔ اگر آنکھ نہ کھلی اور صبح کو سونے کا الزام لگایا گیا تو کہہ دیا کہ میں پڑھتے وقت کبھی جواب نہ دوں گا، آئندہ کوئی مجھے دق نہ کرے۔ بعض وقت ایسا ہوا کہ لیمپ بھڑک کر چمنی سیاہ ہو گئی اور میری زیادہ محویت اور محنت کا نتیجہ سمجھی گئی۔ بعض وقت والد، والدہ کہتے بھی تھے کہ اتنی محنت نہ کیا کرو لیکن میں زمانے کی ترقی کا نقشہ کھینچ کر ان کا دل خوش کر دیا کرتا تھا۔

    خدا خدا کر کے یہ مشکل بھی آسان ہوگئی اور امتحان کا زمانہ قریب آیا۔ میں نے گھر میں بہت کہا کہ ابھی میں امتحان کے لیے جیسا چاہیے ویسا تیار نہیں ہوں لیکن میری مسلسل حاضری، لاء کلاس اور شبانہ روز کی محنت نے ان کے دلوں پر سکّہ بٹھا رکھا تھا۔ وہ کب ماننے والے تھے۔ پھر بھی احتیاطاً اپنے بچاؤ کے لیے ان سے کہہ دیا اگر میں فیل ہو جاؤں تو اس کی ذمے داری مجھ پر نہ ہوگی۔ کیونکہ میں ابھی اپنے آپ کو امتحان کے قابل نہیں پاتا۔ لیکن والد صاحب مسکرا کے بولے کہ امتحان سے کیوں ڈرے جاتے ہو، جب محنت کی ہے تو شریک بھی ہو جاؤ، کام یابی و ناکام یابی خدا کے ہاتھ ہے۔

    مرد باید کہ ہراساں نشود

    میں نے بھی تقدیر اور تدبیر پر ایک چھوٹا سا لیکچر دے کر ثابت کر دیا کہ تدبیر کوئی چیز نہیں۔ تقدیر سے تمام دنیا کے کام چلتے ہیں۔

    قصہ مختصر درخواستِ شرکت دی گئی اور منظور ہوگئی اور ایک دن وہ آیا کہ ہم ہال ٹکٹ لیے ہوئے مقام امتحان پر پہنچ ہی گئے، گو یاد نہیں کیا تھا لیکن دو وجہ سے کام یابی کی امید تھی۔ اوّل تو امدادِ غیبی، دوسرے پرچوں کی الٹ پھیر۔ شاید وہ حضرات جو امتحان میں کبھی شریک نہیں ہوئے، اس مضمون کو نہ سمجھیں اس لیے ذرا وضاحت سے عرض کرتا ہوں۔

    ’’امدادِ غیبی‘‘ سے مراد امیدوارانِ امتحان کی اصطلاح میں وہ مدد ہے جو ایک کو دوسرے سے یا کسی نیک ذات نگراں کار سے یا عندالموقع کتاب سے پہنچ جاتی ہے۔ پرچوں کی الٹ پھیر گو بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہے لیکن تقدیر سب کچھ آسان کر دیتی ہے۔ بعض شریف کم حیثیت ملازم ایسے بھی نکل آتے ہیں جو بہ امیدِ انعام پرچے بدل دیتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اس سے ایک محنت کرنے والے کو نقصان پہنچ جاتا ہے لیکن تدبیر و تقدیر کا مسئلہ جیسا اس کارروائی میں حل ہوتا ہے، دوسری کسی صورت میں حل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اور بھی صورتیں ہیں لیکن وہ بہت کم پیش آتی ہیں۔ اس لیے ان پر بھروسہ کرنا نادانی ہے۔

    خیر آمدم برسرِ مطلب! پونے دس بجے گھنٹی بجی اور ہم بسم اللہ کہہ کر کمرۂ امتحان میں داخل ہوئے۔ یہاں ایک بہت خلیق اور ہنس مکھ نگراں کار تھے۔ مجھے جگہ نہیں ملتی تھی۔ میں نے ان سے کہا۔ وہ میرے ساتھ ہو لیے، جگہ بتائی اور بڑی دیر تک ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے۔ میں سمجھا چلو بیڑا پار ہے اللہ دے اور بندہ لے۔

    ٹھیک دس بجے پرچہ تقسیم ہوا۔ میں نے پرچہ لیا۔ سرسری نظر ڈالی اور میز پر رکھ دیا۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ پرچہ پڑھنے کے بعد جیسا میرے چہرے پر اطمینان تھا شاید ہی کسی کے چہرے پر ہوگا۔ خود تو اس پرچے کے متعلق اندازہ نہ کر سکا لیکن نگراں کار صاحب کو یہ کہتے ضرور سنا کہ پرچہ مشکل ہے۔ میں کئی مرتبہ اوّل سے آخر تک اس کو پڑھ گیا لیکن نہ معلوم ہوا کس مضمون کا ہے۔ جوابات کی کاپی دیکھی۔ اس کے آخر کی ہدایتیں پڑھیں۔ صفحۂ اوّل کی خانہ پری کی اور کھڑا ہو گیا۔ گارڈ صاحب فوراً ہی آئے۔ میں نے ان سے کہا جناب! یہ پرچہ کس مضمون کا ہے۔ وہ مسکرائے، زبان سے تو کچھ نہ بولے مگر پرچے کے عنوان پر انگلی رکھ دی۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ’’اصولِ قانون‘‘ کا پرچہ ہے۔ دل کھل گیا۔

    اب کیا تھا میں نے بھی قلم اٹھا کر لکھنا شروع کر دیا۔ کیونکہ اصول کے لیے کسی کتاب کے پڑھنے کی ضرورت تو ہے ہی نہیں۔ اس مضمون پر ہر شخص کو رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ ایک مقنن ایک اصول قائم کرتا ہے۔ دوسرا اس کو توڑ دیتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی رائے کو کسی دوسرے کی تجویز کا پابند کریں۔ میں نے اپنے برابر والے سے پوچھنے کی کوشش بھی کی۔ کچھ ادھر ادھر نگاہ بھی دوڑائی مگر وہ گارڈ صاحب میری حالت کو کچھ ایسا تاڑ گئے تھے کہ ہر وقت بلائے ناگہانی کی طرح سر پر ہی کھڑے رہتے تھے۔ ذرا میں نے ادھر ادھر گردن پھیری اور انہوں نے آواز دی کہ، ’’جناب اپنے پرچے پر نظر رکھیے۔‘‘

    جب دوسروں سے مدد ملنے کی توقع منقطع ہو گئی تو میں نے دل میں سوچا کہ چلو ان گارڈ صاحب ہی سے پوچھیں۔ میں کھڑا ہو گیا۔ وہ آئے، میں نے دریافت کیا کہ، ’’جناب والا اس دوسرے سوال کا کیا جواب ہے۔‘‘ وہ مسکرائے اور کہا کہ ’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘ میں نے کہا کہ یہ برابر والے بڑے زور سے لکھ رہے ہیں ان سے پوچھ دیجیے اور اگر آپ کو دریافت کرتے ہوئے لحاظ آتا ہے تو ذرا ادھر ٹہلتے ہوئے تشریف لے جائیے میں خود پوچھ لوں گا۔‘‘ مگر وہ کب ہلنے والے تھے۔ قطب ہو گئے۔ ان کا مسکرانا پہلے تو بہت اچھا معلوم ہوتا تھا لیکن پھر آخر میں تو زہر ہو گیا۔ میں واللہ سچ کہتا ہوں کہ اگر تمام عمر میں قلبی نفرت مجھے کسی سے ہوئی ہے تو انہیں صاحب سے ہوئی ہے۔ ان کا وہ مسکراتے ہوئے ٹہلنا مجھے ایسا برا معلوم ہوتا تھا کہ کئی دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ اگر میرے برابر کھڑے ہو کر یہ مسکرائے تو ضرور گلخپ ہو جاؤں لیکن پھر سوچا کہ سرکاری معاملہ ہے۔ کہیں اینچن چھوڑ کر گھسیٹن میں نہ پڑ جاؤں۔ اس لیے چپکا ہو رہا۔

    غرض اس طرح یہ تمام دن امتحان کے گزر گئے۔ لیکن آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے ظالم کے ساتھ ایسی حالت میں کہ ایک حرف بھی یاد نہ ہو، پورے چھ گھنٹے گزارنے کیسے مشکل ہوں گے۔ میں تو ہر روز آدھ گھنٹے کے بعد ہی کمرے سے نکل آتا لیکن مصیبت یہ آن پڑی کہ والد صاحب روز گیارہ بجے سے آ جاتے اور نیچے صحن میں بیٹھے رہتے۔ اب میں جلدی باہر آ جاتا تو جو رعب میں نے دو سال کے عرصے میں قائم کیا تھا وہ سب ہوا ہو جاتا۔ اس لیے قہرِ درویش بر جانِ درویش آخری وقت تک کمرہ امتحان میں بیٹھا رہتا اور جب نیچے اترتا تو والد صاحب سے پرچے کی سختی کی ضرور شکایت کرتا۔ وہ بھی میری تشفی کے لیے ممتحن کو بہت برا بھلا کہتے لیکن ان کو یہ خیال ہو گیا تھا کہ کچھ ہی کیوں نہ ہو میرا بیٹا کام یاب ضرور ہوگا۔

    امتحان ختم ہوا اور امید نمبر ایک اور دو کا خون ہو گیا۔ اب ممتحنوں کے پاس کوشش کی سوجھی۔ والد صاحب ایک زبردست چٹھی سفارش کی لے کر ایک صاحب کے ہاں پہنچے۔ وہ چٹھی دیکھ کر بہت اخلاق سے ملے۔ آنے کی وجہ دریافت کی۔ والد نے عرض کیا کہ خادم زادہ اس سال امتحان میں شریک ہوا ہے۔ اگر آپ کچھ کوشش فرمائیں تو یہ خانہ زاد ہمیشہ ممنونِ احسان رہے گا۔

    وہ بہت ہنسے اور دوسرے لوگوں سے جو سلام کو حاضر ہوئے تھے فرمانے لگے۔ یہ عجیب درخواست ہے۔ ان کا بیٹا تو امتحان دے اور کوشش میں کروں۔ بندۂ خدا اپنے لڑکے سے کہو وہ خود کوشش کرے۔ بے چارے بڑے میاں ایسے نادم ہوئے کہ پھر کسی کے پاس نہ گئے۔

    کچھ عرصے بعد نتیجہ بھی شائع ہو گیا اور کم ترین جملہ مضامین میں بدرجۂ اعلیٰ فیل ہوا۔ خبر نہیں کہ وہ کون سے بھلے مانس ممتحن تھے کہ انہوں نے دو نمبر بھی دیے۔ باقی نے تو صفر ہی پر ٹالا۔

    (مرزا فرحت اللہ بیگ کی ایک شگفتہ تحریر)

  • اردو کے ممتاز ادیب اور مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا تذکرہ

    اردو کے ممتاز ادیب اور مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا تذکرہ

    مجتبیٰ حسین اردو کے ممتاز ادیب اور مزاح نگار تھے جن کا ادبی سفر چار دہائیوں‌ پر محیط ہے۔ ان کی تحریریں شگفتگی اور شائستگی کے ساتھ رمزیت اور برجستگی کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ان کے انشائیے بھی طنز و مزاح کی ہلکی آمیزش کے ساتھ زبان کے رچاؤ اور دل کش اسلوب کے سبب پسند کیے جاتے ہیں۔ 27 مئی 2020ء میں بھارت کے اس نام ور ادیب کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے تمام ہو گیا تھا۔

    مجتبیٰ حسین 15 جولائی 1936ء کو گلبرگہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور 1956ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ نوجوانی سے ہی طنز و مزاح کی جانب مائل ہوگئے تھے اور حیدرآباد دکن کے روزنامہ سیاست سے وابستگی کے دوران انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ بعد ازاں محکمۂ اطلاعات میں ملازمت اختیار کرلی اور پھر دلّی میں مختلف محکموں میں ملازمت کے بعد 1992ء میں ریٹائر ہوگئے۔ ان کا قیام حیدرآباد دکن میں رہا۔

    مجتبیٰ حسین کے یہاں طنز کا پہلو کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کا موضوع نوعِ انسانی ہے۔ واقعہ نگاری اور مرقع کشی میں ان کا کمالِ فن عروج پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنے مشاہدے کی مدد سے مختلف واقعات کے مضحک پہلوؤں کو اپنی تحریروں میں نہایت خوب صورتی سے اجاگر کیا اور قارئین میں‌ ان کے مضامین اور انشائیے مقبول ہوئے۔ سماج کے مختلف طبقات اور شعبہ ہائے حیات سے متعلق افراد کے طرزِ زندگی، ان کے مسائل اور ان کے مخصوص رویوں، عادات پر ان کی تحریروں کو کتابی شکل میں بہت پذیرائی ملی۔

    سماج ہی نہیں‌ سیاست اور اس کے بطن سے پھوٹنے والے ہنگامے بھی ان کی نظر میں‌ رہے۔ مجتبیٰ حسین کی ایک تحریر سے یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    ’’اگر آپ خالص فسادات دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہندوستان ہی جائیے۔ یہاں کے فسادات اتنے خالص ہوتے ہیں کہ ان میں کہیں بھی انسانیت کی ملاوٹ نہیں ہوتی۔ اس صفائی سے انسانوں کے سر کاٹے جاتے ہیں اور ان کے جسموں میں چھرے بھونک دیے جاتے ہیں کہ عقل حیران اور نظر دنگ رہ جاتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ فرقہ وارانہ فساد ہندوستان کا بڑا قدیم کھیل ہے۔‘‘

    بہرحال، بالآخر اور الغرض ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور انشائیوں کے مشہور مجموعے ہیں۔ انھوں نے سفر نامے بھی تحریر کیے اور کالم بھی لکھے جو بہت مقبول ہوئے، قصہ مختصر، آدمی نامہ، جاپان چلو جاپان چلو اور کئی کتابوں کے مصنّف مجتبیٰ حسین کو ان کی تخلیقی کاوشوں اور ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

  • فلم ایکٹریس کی ڈاک

    فلم ایکٹریس کی ڈاک

    دراصل سب سے زیادہ ڈاک تو اس سرکاری افسر کی ہوتی ہے، جس نے کلرکی کی اسامی کے لیے اشتہار دے رکھا ہو۔ اور اس سے دوسرے درجے پر اس شخص کی ڈاک ہوتی ہے جس نے امساک کی گولیاں بطور نمونہ مفت کا اعلان کر رکھا ہو۔ لیکن دل چسپ ترین ڈاک صرف دو شخصیتوں ہی کی ہوتی ہے۔ ایڈیٹر کی ڈاک اور فلم ایکٹرس کی ڈاک۔

    جس قسم کے خطوط ایکٹرس کو روزانہ موصول ہوتے رہتے ہیں اس کے چند نمونے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔ پڑھیے اور لطف اٹھائیے۔

    فلمی ایڈیٹر کا ایک خط

    محترمہ، تسلیم!
    ’’فلم کی بات‘‘ تازہ پرچہ ارسال خدمت ہے، سرورق پر اپنی سہ رنگی تصویر ملاحظہ فرمائیے اور یاد رہے کہ اس ہفتہ غازی مصطفیٰ کمال پاشا کی تصویر شائع کرنا ضروری تھا کیونکہ رسالہ کے اندر اس کی وہ تقریر درج ہے جو اس نے فلموں کی حمایت میں کی۔ لیکن میری قربانی دیکھیے کہ میں نے اس حقیقت کو جانتے ہوئے آپ کی تصویر شائع کی کہ اگر میں غازی موصوف کی تصویر شائع کرتا تو ان کی فلمی تقریر کے علاوہ انٹریو کانفرنس کی مناسبت سے یہ پرچہ سیکڑوں کی تعداد میں فروخت ہوجاتا۔ لیکن میں نے اس کی پروا نہیں کی اور آپ کی تصویر کی مناسبت سے اس تازہ فلم ’’تیر کی نوک‘‘ پر بھی بسیط تبصرہ کر دیا ہے جس میں آپ نے ہیروئن کا پارٹ ادا کیا ہے۔

    آپ اس تبصرے کو غور سے پڑھیے اور دیکھیے کہ پارٹ کے اندر جہاں جہاں آپ نے لغزشیں کی ہیں۔ میں نے ان لغزشوں کو آپ کی بہترین خوبیاں ثابت کیا ہے۔ دوست مجھے طعنہ دیتے ہیں کہ تم نے مس……. کو دنیا بھر کی ایکٹرسوں سے بڑھا دیا ہے۔ لیکن میں ان سے کہتا ہوں کہ محترمہ فی الحقیقت دنیا بھر کی ایکٹرسوں کی سرتاج ہیں اور عنقریب بالی وڈ والے آپ کو بلانے والے ہیں۔

    پچھلی دفعہ جب میں نے آپ کی ایکٹری پر ایک ہنگامہ خیز مضمون لکھا تھا۔ اس وقت سے آپ کے دشمن میرے رسالے کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں اور مجھے بہت نقصان ہو رہا ہے، آپ نے جو دس روپے کا منی آرڈر بھیجا تھا اس سے کاتب کا بل بھی نہ چکایا جا سکا۔ پانچ اور ہوتے تو کم ازکم یہ بلا تو سَر سے ٹل جاتی۔

    بہرحال آپ میرا خیال رکھیں نہ رکھیں، مجھے تو آپ کی ترقی کا ہر وقت خیال رہتا ہے اور خواہ میرے رسالے کی اشاعت کتنی ہی کیوں نہ گھٹ جائے، میں حق گوئی سے باز نہیں رہ سکتا تھا۔

    اور سچ پوچھو تو یہ آپ پر کوئی احسان بھی نہیں کیونکہ آپ کے فنی اوصاف پر مضامین لکھنا فن کی خدمت کرنا ہے۔ اور حاضریٔ حسن کی تعریف پر خامہ خرسائی کرنا مصورِ فطرت کے شاہکار کا اعتراف۔ ساٹھویں سالگرہ مبارک!
    نیاز مند ایڈیٹر

    ایک بیرسٹر کا خط

    مس صاحبہ!
    آداب عرض
    اگر آپ اخبارات میں عدالتی کالموں کا مطالعہ کرتی ہیں تو ضروری بات ہے کہ آپ میرے نام سے واقف ہوں، کیونکہ میں نوجوان ہونے کے باوجود نہ صرف اپنے شہر کا ایک کامیاب ترین قانون داں ہوں بلکہ ملک کے ہر حصے میں بلایا جاتا ہوں۔

    باعثِ تحریر آنکہ میں نے ایک مقامی رسالہ ’’داستان فلم‘‘ میں آپ کے خلاف ایک مضمون پڑھا ہے، جو تعزیرات فلم کی دفعہ 99 کی زد میں آتا ہے۔ اور ایڈیٹر پر ’’ازالہ کی حیثیت فلمی‘‘ کا دعوی دائر کیا جاسکتا ہے، رسالہ ایک بڑے سرمایہ دار کی ملکیت ہے اور اس سے بہت بڑی رقم حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لیے اگر آپ میری مؤکل بننا چاہیں تو میری قانونی خدمات حاضر ہیں اور پانچ ہزار روپے کی ڈگری مع حرجہ خرچہ کے دلانے کا یقین دلاتا ہوں۔

    باقی رہا میرے محنتانہ کا سوال، اس کے متعلق عرض ہے کہ مجھے اپنے نیاز مندوں ہی میں شمار کیجیے اور اس وہم میں نہ پڑجائیے کہ میں نقد معاوضہ کے لالچ میں آکر یہ تجویز پیش کر رہا ہوں۔ خدا نے مجھے بہت کچھ دے رکھا ہے۔ البتہ میرا مطلب یہ ہے کہ زرِ نقد کی بجائے محنتانہ کی اور صورتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ اور اصولاً مجھے اور آپ کو کسی نہ کسی صورت پر متفق ہوجانا چاہیے۔ تشریح کی ضرورت نہیں، آپ ماشاء اللہ عقل مند ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ قانون کی رُو سے کوئی مؤکل اپنے وکیل سے محنتانہ ادھار نہیں کرسکتا۔

    یعنی محنتانہ نقد ہو یا بصورتِ ’’جنس‘‘ ہر حالت میں پیشگی لینا لازمی ہے۔ ورنہ وکیل پر حکومت مقدمہ چلا دیتی ہے۔ میں کنگال بنک کے مشہور مقدمۂ غبن کے سلسلے میں کلکتہ آرہا ہوں۔ ارشاد ہو تو قدم بوسی کا فخر حاصل کروں۔
    بندہ
    بیرسٹر ایٹ لا، عمر 25 سال

    شاعر کا خط

    جانِ جہاں!
    خدا جانے وہ کیسا زمانہ تھا، جب کہ شعراء کی قدر تھی، قدر دان اُمراء کسی شاعر کے ایک شعر پر خوش ہوکر اسے زر و جواہر سے مالا مال کر دیتے تھے۔ اب تو زبانی داد بھی بمشکل ملتی ہے۔ بقول حضرت اکبرؔ مرحوم؛

    بوسہ کیا ان سے گلوری بھی نہیں پاتا ہوں
    میں روز انہیں جاکے سنا آتا ہوں
    وہ یہ کہتے ہیں، کہ واہ خوب کہا ہے واللہ
    میں یہ کہتا ہوں کہ آداب بجا لاتا ہوں

    میں نے آپ کی شان میں نصف درجے قصیدے لکھ کر فلمی رسالوں میں شائع کرائے ہیں اور ان کی کاپیاں بھی آپ کی خدمت میں بھجواتا رہا۔ لیکن آپ سے اتنا نہیں ہوسکا کہ شکریے کی چٹھی ہی ارسال کر دیتیں۔ میں نے پچھلے دنوں لکھا تھا کہ اپنے دستخطوں سے اپنی ایک تصویر مرحمت فرمائیے۔ لیکن جواب نہ ملا۔ کیا قدر دانیِ فن اسی کا نام ہے؟
    سنا ہے آپ کی سال گرہ قریب آرہی ہے۔ ارادہ ہے کہ ایک قصیدہ لکھ کر خود حاضر ہوں گا۔
    والسلام
    خادم

    (اردو کے معروف مزاح نگار، کالم نویس اور صحافی حاجی لق لق کی شگفتہ بیانی)

  • بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر ﷲ خان عالمِ بالا میں

    بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر ﷲ خان عالمِ بالا میں

    زمینداروں کے شرعی حقوق کے تحفظ کے لیے تنظیم سازی سے لے کر راہ نماﺅں کے اتحاد کی تشکیل تک طویل سیاسی سفر طے کر کے نواب زادہ نصر ﷲ خان اس دُنیا سے چلے گئے تھے، لیکن گذشتہ رات اچانک ہمارے خواب میں آگئے۔

    کیا دیکھتے ہیں کہ نواب زادہ نصر اﷲ خان اپنی مخصوص وضع قطع کے ساتھ حقّہ پیتے عالمِ بالا میں پہنچے اور ڈھونڈتے ڈھانڈتے پاکستانی زعماء کی محفل میں وارد ہوگئے۔ یہاں دیگر کے ساتھ ساتھ آپ کی ملاقات بانیٔ پاکستان اور مصوّرِ پاکستان سے بھی ہوئی، جنھوں نے اپنے تصور و تخلیق کردہ ملک کے بارے میں سوالات کرکے نواب زادہ کو اس مشکل میں ڈال دیا کہ حقائق بتا کر اپنے ان محسنوں کو خون کے آنسو رلائیں یا جھوٹ بولنے کی گستاخی کریں۔ بہرحال زیرک سیاست داں نے بیچ کا راستہ نکال لیا، یوں کہ کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے، یہ خواب منظر کی صورت نذرِ قارئین ہے۔

    ہم نے دیکھا کہ نواب زادہ نصر اﷲ خان جیسے ہی زعماء کی محفل کے قریب پہنچے، کئی حضرات استقبال کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے اور آوازیں بلند ہوئیں:

    حسین شہید سہروردی، مولانا مودودی، مفتی محمود: آئیے آئیے خوش آمدید بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے؟

    جنرل ضیاءُ الحق! آگئے…

    قائدِ اعظمؒ: (علّامہ اقبال سے مخاطب ہو کر) ”کون صاحب ہیں؟“

    علامہ اقبالؒ: ترکی ٹوپی تو بتا رہی ہے کہ ہمارے زمانے کے ہیں اور یہ کہ ترک قطعاً نہیں ہیں… سہروردی کو بلا کر پوچھ لیجیے، وہ جانتے ہوں گے۔

    قائد: کیا سہروردی اب ویزے کے بغیر مجھ سے مل سکتے ہیں؟

    علّامہ اقبال: خوش قسمتی سے آپ دونوں عالمِ ارواح میں ہیں ورنہ یہ ممکن نہ تھا۔

    قائد: مسٹر سہروردی! ذرا یہاں تشریف لائیے (ان کے نزدیک آتے ہی قائد پوچھتے ہیں) کون ہیں یہ نووارد؟ تعارف تو کرائیے؟

    سہروردی: (نواب زادہ کو قائد سے متعارف کراتے ہیں) سر! یہ ہیں نواب زادہ نصر ﷲ خان، جو ووٹ کی طاقت سے بنائے گئے آپ کے پاکستان میں جمہوریت کے قیام کے لیے پچاس سال سے…(کہتے کہتے رک گئے پھر گویا ہوئے) بڑی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔

    قائد: تو جمہوریت آئی؟

    نواب زادہ نصر ﷲ: جی… کئی مرتبہ۔

    قائد: کیا مطلب۔

    نواب زادہ: دراصل ہمارے یہاں خوب سے خوب تر کی تلاش میں جمہوریت بار بار نئے سرے سے لائی جاتی ہے، پھر کبھی سوئے دار اور کبھی کوئے یار روانہ کر دی جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد سنوار کر پھر لے آیا جاتا ہے۔

    قائد: ان کوششوں کے نتیجے میں جمہوریت مستحکم ہوئی؟

    نواب زادہ: صرف مضبوط ہی نہیں بلکہ موٹی تازی، لحیم شحیم اور دیوہیکل ہوچکی ہے۔

    قائد: (تشویش ناک لہجے میں) اب تو نہیں جائے گی۔

    نواب زادہ: کیسے جائے گی، اس بھاری بھر کم جمہوریت کے لیے چلنا تو کجا اُٹھنا بیٹھنا محال ہے۔

    قائد: تو گویا جمہوریت کے لیے آپ کی جدوجہد کام یاب ہوگئی، یقیناً آپ اور قوم نے میرے دیے ہوئے اصولوں، ایمان، اتحاد اور تنظیم پر عمل کیا ہوگا۔

    نواب زادہ: جی ہاں، بالخصوص اتحاد پر، میری تو ساری عمر گزری ہی اتحاد کی سیاست میں۔

    قائد: اس سیاست کے مثبت نتائج نکلے؟

    نواب زادہ: بالکل! یہاں تک کہ جس حکم راں کے خلاف اتحاد بنایا کچھ عرصے بعد وہ خود میرے ساتھ نئے اتحاد میں شریک تھا۔

    قائد: اور ڈسپلن؟

    نواب زادہ: حضرت! ہماری قوم نے تو ڈسپلن کے زیرِ سایہ ہی زندگی گزاری ہے، ہم بڑے منظم انداز میں لیفٹ رائٹ اور نہایت سرعت کے ساتھ اباﺅٹ ٹرن کر لیتے ہیں۔

    قائد: اور ایمان کا کیا کیا؟

    نواب زادہ: بُرے وقتوں کے لیے بچا رکھا ہے، اس کے سہارے خراب حالات کا مقابلہ کرتے ہیں، پھر سنبھال کر رکھ دیتے ہیں۔

    علّامہ اقبال: یہ تو بتائیے کہ پاکستان کی سلطانیٔ جمہور میں بندے گنے جاتے ہیں یا انھیں تولا جاتا ہے۔

    نواب زادہ: چُنے جاتے ہیں… پھر گنتی پوری کر دی جاتی ہے۔ ویسے اس مرتبہ چُننے کے ساتھ ساتھ تولا بھی گیا ہے۔

    اقبال: نقشِ کُہن مٹے؟

    نواب زادہ: منٹو پارک اب اقبال پارک اور گاندھی گارڈن جناح گارڈن ہوگیا ہے۔

    اقبال: بھئی میں جمہوریت کے حوالے سے پوچھ رہا ہوں؟

    نواب زادہ: کیوں نہیں ہر حکم راں نے مٹائے۔ بعض نے تو اپنے پیش رو کو بھی نقشِ کہن سمجھ کر مٹا دیا۔

    قائد: فوج کا کیا حال ہے۔

    نواب زادہ: جو ماضی میں تھا۔

    قائد: ”ماضی میں جنرل گریسی نے میرا حکم نہیں مانا تھا، اب تو جنرلوں میں تبدیلی آگئی ہوگی۔

    نواب زادہ: الحمدُ للہ اب سارے مسلمان ہیں۔

    اقبال: کیا یہ جنرل شاہین صفت ہیں۔

    نواب زادہ: کسی حد تک، یعنی جھپٹتے تو ضرور ہیں مگر پھر پلٹتے نہیں۔

    قائد: جمہوریت کو کوئی خطرہ تو نہیں؟

    نواب زادہ: (چند لمحے توقف کے بعد رندھی ہوئی آواز میں) نہیں جناب جمہوریت بڑے مضبوط ہاتھوں میں ہے۔

    یہ سُن کر قائد اور اقبال کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے، نواب زادہ پُر نم آنکھیں جھکائے اُٹھ کر کسی طرف چل دیے اور ہمارا خواب ٹوٹ گیا۔

    (معروف ادیب اور شاعر محمد عثمان جامعی کے فکاہیہ مضامین کے مجموعے "کہے بغیر”‌ سے انتخاب)

  • نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں؟

    نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں؟

    لکھنؤ اور کانپور اردو کے گڑھ تھے۔ بے شمار اردو اخبار نکلتے تھے۔

    خیر، آپ تو مان کے نہیں دیتے۔ مگر صاحب ہماری زبان سند تھی۔ اب یہ حال ہے کہ مجھے تو سارے شہر میں ایک بھی اردو سائن بورڈ نظر نہیں آیا۔ لکھنؤ میں بھی نہیں۔ میں نے یہ بات جس سے کہی وہ آہ بھر کے یا منھ پھیر کے خاموش ہو گیا۔ شامتِ اعمال، یہی بات ایک محفل میں دہرا دی تو ایک صاحب بپھر گئے۔ غالباً ظہیر نام ہے۔ میونسپلٹی کے ممبر ہیں۔ وکالت کرتے ہیں۔ نجانے کب سے بھرے بیٹھے تھے۔

    کہنے لگے، "للہ، ہندوستانی مسلمانوں پر رحم کیجیے۔ ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیجیے۔ پاکستان سے جو بھی آتا ہے، ہوائی جہاز سے اترتے ہی اپنا فارن ایکسچینج اچھالتا، یہی رونا روتا آتا ہے۔ جسے دیکھو، آنکھوں میں آنسو بھرے شہر آشوب پڑھتا چلا آ رہا ہے۔ ارے صاحب، ہم نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں؟ بس جو کوئی بھی آتا ہے، پہلے تو ہر چیز کا موازنہ پچاس برس پہلے کے ہندوستان سے کرتا ہے۔ جب یہ کر چکتا ہے تو آج کے ہندوستان کا موازنہ آج کے پاکستان سے کرتا ہے۔ دونوں مقابلوں میں چابک دوسرے گھوڑے کے مارتا ہے، جتواتا ہے اپنے ہی گھوڑے کو۔” وہ بولتے رہے، میں مہمان تھا، کیا کہتا، وگرنہ وہی (سندھی) مثل ہوتی کہ گئی تھی سینگوں کے لیے، کان بھی کٹوا آئی۔

    لیکن ایک حقیقت کا اعتراف نہ کرنا بد دیانتی ہو گی۔ ہندوستانی مسلمان کتنا ہی نادار اور پریشان روزگار کیوں نہ ہو، وہ مخلص، با وقار، غیور اور پُر اعتماد ہے۔ نشور واحدی سے لمبی لمبی ملاقاتیں رہیں۔ سراپا محبت، سراپا خلوص، سراپا نقاہت۔ ان کے ہاں شاعروں اور ادیبوں کا جماؤ رہتا ہے۔ دانشور بھی آتے ہیں۔ مگر دانشور ہیں، دانا نہیں۔ سب یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ اردو بہت سخت جان ہے۔ دانشوروں کو اردو کا مستقبل غیر تاریک دکھلائی پڑتا ہے۔ بڑے بڑے مشاعرے ہوتے ہیں۔ سنا ہے ایک مشاعرے میں تو تیس ہزار سے زیادہ سامعیں تھے۔ صاحب مجھے آپ کی رائے سے اتفاق نہیں کہ جو شعر بیک وقت پانچ ہزار آدمیوں کی سمجھ میں آ جائے وہ شعر نہیں ہو سکتا۔ کچھ اور شے ہے۔ بے شمار سالانہ سمپوزیم اور کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ سنا ہے کئی اردو ادیبوں کو پدم شری اور پدم بھوشن کے خطاب مل چکے ہیں۔ میں نے کئیوں سے پدم اور بھوشن کے معنی پوچھے تو جواب میں انہوں نے وہ رقم بتائی جو خطاب کے ساتھ ملتی ہے۔ آج بھی فلمی گیتوں، ذو معنی ڈائیلاگ، قوالی اور آپس کی مار پیٹ کی زبان اردو ہے۔ سنسکرت الفاظ پر بہت زور ہے۔ مگر آپ عام آدمی کو سنسکرت میں گالی نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے مخاطب کا پنڈت اور ودوان ہونا ضروری ہے۔ صاحب، بقول شخصے، گالی، گنتی، سرگوشی اور گندا لطیفہ تو اپنی مادری زبان میں ہی مزہ دیتا ہے۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اردو والے کافی پُر امید ہیں۔ ثقیل ہندی الفاظ بولتے وقت اندرا گاندھی کی زبان لڑکھڑاتی ہے تو اردو والوں کی کچھ آس بندھتی ہے۔

    (مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے)

  • عنایتُ اللہ حجّام کیوں‌ مشہور ہے؟ (دل چسپ تذکرہ)

    عنایتُ اللہ حجّام کیوں‌ مشہور ہے؟ (دل چسپ تذکرہ)

    عنایت اللہ، حجّام عرف کلّو قوم (پیشے) کے حجّام تھے۔ اسی مناسبت سے تخلّص بھی حجّام رکھا تھا۔ انہیں سودا کی شاگردی پر بہت ناز تھا۔ ان کے سوا کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔

    مصحفی نے ان کے کلام کی تعریف میں لکھا ہے کہ وہ باوجود کم علم ہونے کے شعر خوب کہتے تھے۔ ان کے اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ باریک بیں تھے۔ اور ندرتِ مضمون سے کلام کو جِلا دیتے تھے۔ مزاج میں ظرافت تھی۔ غزلوں کے مقطع میں اکثر اپنے پیشے کے رعایت سے مضمون باندھتے تھے۔ جو خوب بامزہ ہوتے تھے۔ میر حسن نے لکھا ہے کہ مدرسہ غازی الدّین خاں کے قریب ان کی شعر و سخن کی محفل جما کرتی تھی۔

    مختلف تذکرہ نگاروں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ عنایت اللہ حجّام کے مزاج میں شوخی اس قدر تھی کہ وہ اپنے آپ کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ چنانچہ ان کی غزلوں کے مقطعے اسی وجہ سے محفلوں میں مزہ دے جاتے تھے اور ان پر خوب واہ وا ہوتی تھی۔ اوّل تو وہ خود قوم کے حجّام اس پر مستزاد یہ کہ تخلّص بھی حجّام۔ پھر اس تخلّص کی رعایت سے اپنے پیشے کی کار گزاریاں۔ یہ کیفیت پوری محفل کو لوٹ پوٹ کرنے کے لیے کافی تھی۔ یہ اشعار دیکھیے۔

    اس شوخ کے کوچے میں نہ جایا کرو حجّام
    چھن جائیں گے اک دن کہیں ہتھیار تمہارے

    روز رخسار کے لیتا ہے مزے خوباں کے
    بہتر اس سے کوئی حجّام ہنر کیا ہوگا

    حجّام کو ایک طرف تو مشاعروں میں کافی مقبولیت حاصل تھی۔ خواہ اس کی وجہ ان کا ظریفانہ انداز بیان ہو یا اپنے پیشے کے مضامین کا مضحک اظہار۔ دوسرے اس زمانے کے ایک بڑے استادِ فن سے انہیں تلمذ حاصل تھا۔ جو ان جیسے کم علم اور بے رتبہ لوگوں کے لیے فخر کی بات تھی۔ اس کے علاوہ اس زمانے کے بہت بڑے متقی اور پرہیز گار صوفی محمد فخر الدّین سے انہیں بیعت حاصل تھی۔ جس سے ان کی سماجی حیثیت بھی بڑھ گئی تھی۔ چنانچہ وہ اپنے محلّے میں اپنی عرفیت کلو سے نہیں بلکہ شاہ جی کے لقب سے مشہور تھے۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ پھر اپنے سامنے کسی کی کوئی حقیقت نہ سمجھی۔

    میر نے نکاتُ الشّعرا میں عنایتُ اللہ حجّام کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ہوسکتا ہے کہ اپنی مقبولیت کے پیشِ نظر انہیں یہ بات بری لگی ہو اور میر کے مقابلے پر آئے ہوں۔ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اپنے استاد کی حمایت میں انہوں نے بلاوجہ عداوت مول لی ہو۔ جیسا کہ قائم اور مجذوب نے حقِ شاگردی ادا کیا تھا۔

    (ماخوذ از’’اردو کے ابتدائی ادبی معرکے‘‘)

  • الف سے الہ آباد اور امرود

    الف سے الہ آباد اور امرود

    ہم جس شہر میں بھی جاتے ہیں اگر وہاں ذرا سی بھی فرصت میسر آ جائے تو اس شہر میں بیٹھ کر خود اسی شہر کے بارے میں ضرور کچھ نہ کچھ لکھتے ہیں۔ پچیس برس پہلے جب ہمیں پہلی بار الہ آباد جانے کا موقع ملا تو ایک صبح گنگا، جمنا اور سرسوتی کے سنگم پر جانے سے پہلے ہم نے حسبِ عادت الہ آباد کے بارے میں کچھ لکھا تھا۔

    پچھلے دنوں ہم پرانے کاغذات کو الٹ پلٹ رہے تھے تو ان میں سے یہ بھولی بسری تحریر بھی نکل آئی جسے تبدیلیٔ ذائقہ کے طور پر ہم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

    الف سے الہ آباد، الف سے اکبر، الف سے امرود، الف سے آنند بھون… اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جو الف سے شروع ہو کر الہ آباد پر ختم ہو جاتی ہیں۔ جیسے اعجاز حسین، امرناتھ جھا، احتشام حسین، امیتابھ بچن اور اوپندر ناتھ اشک۔

    اب تو خیر سے الہ آباد میں الف سے شروع ہونے والی چیزوں کی بہتات ہو گئی ہے لیکن ایک زمانہ تھا جب اکبر الہ آبادی کو بھی یہ شکایت لاحق ہو گئی تھی…

    اب الہ آباد میں ساماں نہیں بہبود کے
    واں دھرا کیا ہے بجز اکبر کے اور امرود کے

    ذرا ان دنوں کے بارے میں سوچیے جب الہ آباد میں خود اکبر الہ آبادی بھی نہیں ہوا کرتے تھے اور الہ آباد کو سارے ملک میں شہرت دلانے کی ذمہ داری بیچارے امرودوں کے کندھوں پر تھی (اگر امرود کے کندھے ہوتے ہوں تو)۔ ان دنوں الہ آباد بھی امرود جتنا ہی ہو گا، بلکہ بعضے امرود تو الہ آباد سے بھی بڑے ہوں گے۔

    شہروں کے بسنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے اور الہ آباد کے بسنے کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ لوگ یہاں پہلے امرود کھانے کے ارادہ سے ہی آئے اور اتنے دنوں تک امرود کھاتے رہے کہ ان کے بال بچّے پیدا ہو گئے۔ یہاں بچّے اس لئے پیدا ہو گئے کہ آدمی چوبیسوں گھنٹے تھوڑا ہی امرود کھا سکتا ہے۔ اسے دوسرے ضروری کام بھی تو کرنے پڑتے ہیں اور بال بچّے پیدا کرنا تو ہم ہندوستانیوں کا سب سے زیادہ ضروری کام ہے۔

    یہ بات ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اکبر الہ آبادی کا کلام ضرور پڑھا ہے لیکن یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ زندگی میں ہم نے کبھی الہ آباد کے امرود کھائے بھی ہیں یا نہیں۔ پٹنہ جاتے ہوئے اس شہر سے ہم کئی بار گزرے ہیں اور ہر بار الہ آباد کے ریلوے اسٹیشن سے امرود خریدے ہیں لیکن بعد میں لوگوں نے بتایا کہ یہ امرود الہ آباد کے نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی شہر کا ریلوے اسٹیشن اس شہر کا حصہ نہیں ہوتا۔ وہ تو خود ایک بھاگتا ہوا شہر ہوتا ہے۔

    یوں بھی ریلوے اسٹیشن اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں شہر کے گھٹیا مال کو بیچنے کا نہایت اعلی انتظام ہوتا ہے۔ الہ آباد کے امرود کھانے ہوں تو ریلوے اسٹیشن سے اتر کر سیدھے امرود کے کسی باغ میں چلے جاؤ۔ پھر کسی اچھے سے پیڑ پر لگے ہوئے کسی اچھے امرود کو تاک کر پتھر کی مدد سے گراؤ اور اس سے پہلے کے باغ کا مالی تمہیں پکڑنے کے لئے آئے، امرود سمیت وہاں سے فرار ہو جاؤ۔ الہ آباد کے اصلی امرودوں کو کھانے کا یہی طریقہ ہے۔ کسی بھی پھل کے ذائقہ میں جب تک مالی کا ڈر شامل نہ ہو تب تک مزہ نہیں آتا۔ ہمارے بچپن کا مشاہدہ تو یہی کہتا ہے۔

    ایک بار ہم نے الہ آباد کے ریلوے اسٹیشن پر امرود بیچنے والے سے پوچھا، ’’میاں! کیا یہ امرود الہ آباد کے ہی ہیں؟‘‘

    بولا ’’جی نہیں، فیض آباد کے ہیں۔‘‘

    ’’پھر الہ آباد کے امرود کہاں ملیں گے؟‘‘ ہم نے پوچھا۔

    بولا ’’الہ آباد کے سوائے ہر جگہ مل جائیں گے۔ ویسے آپ کہاں سے آ رہے ہیں؟‘‘

    ہم نے کہا ’’دہلی سے آ رہے ہیں۔‘‘

    بولا ’’الہ آباد سے روزانہ ڈھیروں امرود دہلی جاتے ہیں۔ آپ کو وہیں مل جائیں گے۔ یوں بھی الہ آباد کی ہر اچھی چیز دہلی جا کر ہی پنپتی ہے۔ چاہے وہ امرود ہوں یا آنند بھون کے باسی۔‘‘

    ہم مایوس ہو کر ٹرین کے کمپارٹمنٹ میں واپس آ گئے تو ساتھی مسافر نے کہا، ’’یہ کیا آپ الہ آباد کے امرودوں کے چکر میں پڑ گئے۔‘‘ ہم نے کہا، ’’بس ذرا چکھ کے دیکھنا چاہتے تھے کہ ان کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے۔‘‘

    مسافر بولا ’’بالکل ملیح آباد کے آموں جیسا ہوتا ہے۔‘‘ اس پر دوسرے مسافر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا، ’’جی نہیں! ان کا ذائقہ تو ناگپور کے سنگتروں جیسا ہوتا ہے۔‘‘ تب تیسرا مسافر بیچ میں کچھ بولنا ہی چاہتا تھا کہ ہم نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا، ’’آپ ان کے ذائقہ کے بارے میں کچھ نہ بولیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کیا کہنے والے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ الہ آباد کے امرودوں میں آگرہ کے پیٹھے کا ذائقہ ہوتا ہے۔ غنیمت ہے کہ کسی نے یہ نہیں کہا کہ الہ آباد کے امرود کھاؤ تو یوں لگتا ہے جیسے آپ دلّی کی نہاری کھا رہے ہوں۔‘‘

    ایک بزرگ بیچ میں بول پڑے ’’میاں سچ تو یہ ہے کہ تم میں سے کسی نے بھی آج تک الہ آباد کے امرود نہیں کھائے ہیں۔ اگر کھائے ہوتے تو یوں بہکی بہکی باتیں نہ کرتے۔ تم لوگ تو صرف اپنے سفر کو آسان بنانے کے لئے اپنے پسندیدہ ذائقوں کو امرودوں کے ذائقہ میں ملاتے چلے جا رہے ہو۔ یوں بھی الہ آباد وہ شہر ہے جہاں تین دریاؤں کا ملاپ ہوتا ہے۔ اب اگر تم بھی الہ آباد کے امرودوں کی مدد سے کئی ذائقوں کا سنگم بنا رہے ہو تو کوئی غلط بات بھی نہیں ہے۔‘‘

    ہم نے کہا، ’’اب میل ملاپ اور سنگم وغیرہ تو صرف دریاؤں میں ہی پایا جاتا ہے ورنہ انسانوں میں تو یہ چیز ختم ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

    بزرگ بولے ’اور الہ آباد اس بھولی بسری گنگا جمنی تہذیب کا مرکز رہ چکا ہے۔ فراقؔ زندگی بھر اپنے نام کے ساتھ گورکھپور کا دم چھلہ لگاتے رہے لیکن رہے الہ آباد ہی میں۔ حیدرآباد میں ایک سڑک ہے جس کا نام ’’جگر مراد آبادی روڈ‘‘ ہے (شاید اب بھی ہو) جو لوگ اردو شاعری سے واقف نہیں ہیں وہ حیرت کرتے ہیں کہ حیدرآباد میں مراد آباد کی روڈ کہاں سے آ گئی۔ مراد آباد والے اسے یہاں سے اٹھا کر کیوں نہیں لے جاتے۔ کیا مراد آباد میں سڑکوں کی اتنی فراوانی ہے کہ وہاں کی سڑکیں دوسرے شہروں کو دی جانے لگی ہیں۔

    شہر صرف سڑکوں اور عمارتوں سے نہیں بنتا۔ اس شہر میں بسنے والوں کے رہن سہن کے انداز اور رنگ ڈھنگ سے بنتا ہے اور اچھا شہر وہی ہوتا ہے جو باہر سے جتنا آباد نظر آتا ہے اس سے کہیں زیادہ وہاں کے بسنے والوں کے دلوں کے اندر بھی آباد نظر آئے اور حقیقت تو یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں بسنے والا شہر باہر بسے ہوئے شہر سے کہیں زیادہ بڑا اور با رونق ہوتا ہے۔ پھر الہ آباد ایک ایسا شہر ہے جو کسی زمانہ میں آزادی کی تحریک کا مرکز رہا ہے۔ ایک زمانہ میں تو یہ سارے دیش کے باسیوں کے دلوں میں آباد رہا کرتا تھا، الہ آباد پہلے سوچتا تھا اور سارا دیش بعد میں اس پر عمل کرتا تھا۔ آپ اسے صرف امرودوں کے حوالے سے ہی کیوں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘

    ہم جیسوں کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ ہم دماغ سے نہیں بلکہ پیٹ سے سوچتے ہیں۔ چنانچہ اس بات چیت کے بعد ہم نے امرود (صرف الہ آباد کے) کھانے سے توبہ کر لی۔ اب اکبر الہ آبادی اور فراق گورکھپوری کی شاعری کو پڑھ کر اور امیتابھ بچن کی فلموں کو دیکھ کر امرودوں کا مزہ لوٹتے ہیں لیکن جی چاہتا ہے کہ اے کاش الہ آباد کا گنگا جمنی سنگم کبھی ہمارے معاشرہ کو پھر سے سیراب کر دے۔

    (بھارت سے تعلق رکھنے والے اردو کے معروف مزاح نگار مجتبیٰ حسین کے قلم سے)