Tag: مزاحیہ ادب

  • "آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟”

    "آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟”

    ایک دن مرزا غالب نے مومن خاں مومن سے پوچھا، ’’حکیم صاحب! آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟‘‘

    مومن نے جواب میں کہا، ’’مرزا صاحب! اگر درد سے آپ کا مطلب داڑھ کا درد ہے، تو اس کی کوئی دوانہیں۔ بہتر ہوگا آپ داڑھ نکلوا دیجیے کیوں کہ ولیم شیکسپیر نے کہا ہے‘‘، ’’وہ فلسفی ابھی پیدا نہیں ہوا جو داڑھ کا درد برداشت کر سکے۔‘‘

    مرزا غالب نے حکیم صاحب کی سادہ لوحی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے فرمایا، ’’میری مراد داڑھ کے درد سے نہیں، آپ کی دعا سے ابھی میری تمام داڑھیں کافی مضبوط ہیں۔‘‘

    ’’تو پھر شاید آپ کا اشارہ دردِ سر کی طرف ہے، دیکھیے مرزا صاحب! حکما نے دردِ سر کی درجنوں قسمیں گنوائی ہیں۔ مثلاً آدھے سر کا درد، سر کے پچھلے حصے کا درد، سر کے اگلے حصے کا درد، سر کے درمیانی حصے کا درد، ان میں ہر درد کے لیے ایک خاص بیماری ذمہ دار ہوتی ہے۔ مثلاً اگر آپ کے سر کے درمیانی حصہ میں درد ہوتا ہے تو ممکن ہے آپ کے دماغ میں رسولی ہو۔ اگر کنپٹیوں پر ہوتا ہے تو ہو سکتا ہے آپ کی بینائی کمزور ہو گئی ہو۔ دراصل درد سر کو مرض نہیں مرض کی علامت سمجھا جاتا ہے۔‘‘

    ’’بہرحال چاہے یہ مرض ہے یا مرض کی علامت، مجھے درد کی شکایت نہیں ہے۔‘‘

    ’’پھر آپ ضرور دردِ جگر میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آپ نے اپنے کچھ اشعار میں اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔

    مثلاً؛ یہ خلش کہاں ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

    یا…..حیراں ہوں روؤں دل کو یا پیٹوں جگر کو میں‘‘

    مرزا صاحب، حکما نے اس مرض کے لیے ’’پپیتا‘‘ کو اکسیر قرار دیا ہے۔ کسی تک بند نے کیا خوب کہا ہے۔

    جگر کے فعل سے انساں ہے جیتا
    اگر ضعفِ جگر ہے کھا پپیتا

    ’’آپ کا یہ قیاس بھی غلط ہے۔ میرا آ ج تک اس مرض سے واسطے نہیں پڑا۔‘‘

    ’’تو پھر آپ اس شاعرانہ مرض کے شکار ہو گئے ہیں جسے دردِ دل کہا جاتا ہے اور جس میں ہونے کے بعد میر کو کہنا پڑا تھا،

    الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا
    دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا

    ’’معلوم ہوتا ہے اس ڈومنی نے جس پر مرنے کا آپ نے اپنے ایک خط میں ذکر کیا ہے آپ کو کہیں کا نہیں رکھا۔‘‘

    ’’واہ حکیم صاحب! آپ بھی دوسروں کی طرح میری باتوں میں آ گئے۔ اجی قبلہ کیسی ڈومنی اور کہاں کی ڈومنی وہ تو میں نے یونہی مذاق کیا تھا۔ کیا آپ واقعی مجھے اتنا سادہ لوح سمجھتے ہیں کہ مغل زادہ ہو کر میں ایک ڈومنی کی محبت کا دم بھروں گا۔ دلّی میں مغل زادیوں کی کمی نہیں۔ ایک سے ایک حسین و جمیل ہے۔ انہیں چھوڑ کر ڈومنی کی طرف رجوع کرنا بالکل ایسا ہے جیسا کہ آپ نے اپنے شعر میں بیان کیا ہے؛

    اللہ رے گمرہی! بت و بت خانہ چھوڑ کر
    مومن چلا ہے کعبہ کو اک پارسا کے ساتھ

    ’’خدا نخواستہ کہیں آپ کو جوڑوں کا درد تو نہیں۔ دائمی زکام کی طرح یہ مرض بھی اتنا ڈھیٹ ہے کہ مریض کی ساری عمر جان نہیں چھوڑتا، بلکہ کچھ مریض تو مرنے کے بعد بھی قبر میں اس کی شکایت کرتے سنے گئے ہیں۔ عموماً یہ مرض جسم میں تیزابی مادّہ کے زیادہ ہو جانے سے ہوتا ہے۔‘‘

    ’’تیزابی مادہ کو ختم کرنے کے لیے ہی تو میں ہر روز تیزاب یعنی شراب پیتا ہوں۔ ہومیو پیتھی کا اصول ہے کہ زہر کا علاج زہر سے کیا جانا چاہیے۔ خدا جانے یہ سچ ہے یا جھوٹ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ شراب نے مجھے اب تک جوڑوں کے درد سے محفوظ رکھا ہے۔‘‘

    ’’پھر آپ یقینا دردِ گردہ میں مبتلا ہیں۔ یہ درد اتنا ظالم ہوتا ہے کہ مریض تڑپ تڑ کر بے حال ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’میرے گردے ابھی تک سلامت ہیں شاید اس لیے کہ میں بڑے دل گردے کا انسان ہوں۔‘‘

    ’’اگر یہ بات ہے تو پھر آپ کو محض وہم ہو گیا ہے کہ آپ کو درد کی شکایت ہے اور وہم کی دوا نہ لقمان حکیم کے پاس تھی نہ حکیم مومن خاں مومنؔ کے پاس ہے۔‘‘

    ’’قبلہ میں اس درد کا ذکر کر رہاہوں جسے عرفِ عام میں ’’زندگی‘‘ کہتے ہیں۔‘‘

    ’’اچھا، زندگی! اس کا علاج تو بڑا آسان ہے ، ابھی عرض کیے دیتا ہوں۔‘‘

    ’’ارشاد۔ ‘‘

    ’’کسی شخص کو بچھو نے کاٹ کھایا۔ درد سے بلبلاتے ہوئے اس نے ایک بزرگ سے پوچھا، اس درد کا بھی کوئی علاج ہے، بزرگ نے فرمایا، ’’ہاں ہے اور یہ کہ تین دن چیختے اور چلاتے رہو۔ چوتھے دن درد خود بخود کافور ہو جائے گا۔‘‘

    ’’سبحان اللہ! حکیم صاحب، آپ نے تو گویا میرے شعر کی تفسیر کر دی۔‘‘

    ’’کون سے شعر کی قبلہ؟‘‘

    ’’اس شعر کی قبلہ…

    غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
    شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

    نیند کیوں رات بھر…..

    ایک مرتبہ مرزا غالب نے شیخ ابراہیم ذوقؔ سے کہا، ’’شیخ صاحب! نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟‘‘ ذوق نے مسکراکر فرمایا۔ ظاہر ہے جس کمرے میں آپ سوتے ہیں ، وہاں اتنے مچھر ہیں کہ وہ رات بھر آپ کو کاٹتے رہتے ہیں۔ اس حالت میں نیند آئے بھی تو کیسے؟

    معلوم ہوتا ہے یا توٓپ کے پاس مسہری نہیں اور اگر ہے تو اتنی بوسیدہ کہ اس میں مچھر اندر گھس آتے ہیں۔ میری مانیے تو آج ایک نئی مسہری خرید لیجیے۔‘‘

    غالب نے ذوقؔ کی ذہانت میں حسبِ معمول اعتماد نہ رکھتے ہوئے جواب دیا، ’’دیکھیے صاحب! آخر ہم مغل زادے ہیں، اب اتنے گئے گزرے بھی نہیں کہ ہمارے پاس ایک ثابت و سالم مسہری بھی نہ ہو اور جہاں تک کمرے میں مچھروں کے ہونے کا سوال ہے۔ ہم دعویٰ سے کہ سکتے ہیں، جب سے ڈی ڈی ٹی چھڑکوائی ہے ایک مچھر بھی نظر نہیں آتا۔ بلکہ اب تو مچھروں کی گنگناہٹ سننے کے لیے ہمسائے کے ہاں جانا پڑتا ہے۔‘‘

    ’’تو پھر آپ کے پلنگ میں کھٹمل ہوں گے۔‘‘

    ’’کھٹملوں کے مارنے کے لیے ہم پلنگ پر گرم پانی انڈیلتے ہیں، بستر پر کھٹمل پاؤڈر چھڑکتے ہیں۔ اگر پھر بھی کوئی کھٹمل بچ جائے تو وہ ہمیں اس لیے نہیں کاٹتا ہے کہ ہمارے جسم میں اب لہو کتنا رہ گیا ہے۔ خدا جانے پھر نیند کیوں نہیں آتی۔‘‘

    ’’معلوم ہوتا ہے آپ کے دماغ میں کوئی الجھن ہے۔‘‘

    ’’بظاہر کوئی الجھن نظر نہیں آتی۔ آپ ہی کہیے بھلا مجھے کون سی الجھن ہو سکتی ہے۔‘‘ گستاخی معاف! سنا ہے آپ ایک ڈومنی پر مرتے ہیں، اور آپ کو ہماری بھابی اس لیے پسند نہیں کیوں کہ اسے آپ کے طور طریقے نا پسند ہیں۔ ممکن ہے آپ کے تحت الشعور میں یہ مسئلہ چٹکیاں لیتا رہتا ہو۔ ’’آیا امراؤ بیگم کو طلاق دی جائے یا ڈومنی سے قطع تعلق کر لیا جائے۔‘‘

    ’’واللہ! شیخ صاحب آپ کو بڑی دور کی سوجھی! ڈومنی سے ہمیں ایک شاعرانہ قسم کا لگاؤ ضرور ہے لیکن جہاں تک حسن کا تعلق ہے وہ امراؤ بیگم کی گرد کو نہیں پہنچتی۔‘‘

    ’’تو پھر یہ بات ہو سکتی ہے آپ محکمہ انکم ٹیکس سے اپنی اصلی آمدنی چھپا رہے ہیں اور آپ کو یہ فکر کھائے جاتا ہے۔ کسی دن آپ کے گھر چھاپہ پڑ گیا تو ان اشرفیوں کا کیا ہوگا جو آپ نے زمین میں دفن کر رکھی ہیں اور جن کا پتہ ایک خاص قسم کے آلہ سے لگایا جا سکتا ہے۔‘‘

    ’’اجی شیخ صاحب! کیسی اشرفیاں! یہاں زہر کھانے کو پیسہ نہیں شراب تو قرض کی پیتے ہیں اور اسی خود فریبی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہماری فاقہ کشی رنگ لائے گی۔ اگر ہمارے گھر چھاپہ پڑا تو شراب کی خالی بوتلوں اور آم کی گٹھلیوں کے علاوہ کوئی چیز نہیں ملےگی۔‘‘

    ’’اچھا وہ جو آپ کبھی کبھی اپنے گھر کو ایک اچھے خاصے قمار خانہ میں تبدیل کر دیتے ہیں، اس کے متعلق کیا خیال ہے۔‘‘

    ’’واہ شیخ صاحب! آپ عجیب باتیں کرتے ہیں، تھوڑا بہت جوا تو ہر مہذب شخص کھیلتا ہی ہے اور پھر ہر کلب میں بڑے بڑے لوگ ہر شام کو ’’برج‘‘ وغیرہ کھیلتے ہیں۔ جوا آخر جوا ہے چاہے وہ گھر پر کھیلا جائے یا کلب میں۔‘‘

    ’’اگر یہ بات نہیں تو پھر آپ کو کسی سے حسد ہے۔ آپ ساری رات حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں اور میر کے اس شعر کو گنگناتے ہیں؛

    اندوہ سے ہوئی نہ رہائی تمام شب
    مجھ دل زدہ کو نیند نہ آئی تمام شب‘‘

    ’’بخدا شیخ صاحب! ہم کسی شاعر کو اپنا مد مقابل ہی نہیں سمجھتے کہ اس سے حسد کریں۔ معاف کیجیے، آپ حالانکہ استادِ شاہ ہیں۔ لیکن ہم نے آپ کے متعلق بھی کہا تھا۔ ذوق کی شاعری بانگ دہل ہے اور ہماری نغمۂ چنگ۔‘‘

    ’’مرزا صاحب! یہ تو صریحاً زیادتی ہے۔ میں نے ایسے شعر بھی کہے ہیں جن پر آپ کو بھی سر دھننا پڑا ہے۔‘‘

    ’’لیکن ایسے اشعار کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔‘‘

    ’’یہ ہے آپ کی سخن فہمی کا عالم اور کہا تھا آپ نے،

    ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں‘‘

    ’’اگر ہم سخن فہم نہ ہوتے تو آپ کے کلام پر صحیح تبصرہ نہ کر سکتے۔ خیر چھوڑیے بات تو نیند نہ آنے کی ہو رہی تھی۔‘‘

    ’’کسی ڈاکٹر سے اپنا بلڈ پریشر چیک کرائیے۔ ہو سکتا ہے وہ بڑھ گیا ہو۔‘‘

    ’’قبلہ! جب بدن میں بلڈ ہی نہیں رہا تو پریشر کے ہونے یا بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

    ’’پھر ہر رات سونے سے پہلے کسی ایسی گولی کا سہارا لیجیے جس کے کھانے سے نیند آجائے۔ آج کل بازار میں ایسی گولیاں عام بک رہی ہیں۔‘‘

    ’’انہیں بھی استعمال کر چکے ہیں۔ نیند تو انہیں کھا کر کیا آتی البتہ بے چینی اور بھی بڑھ گئی۔ اس لیے انہیں ترک کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔‘‘

    ’’کسی ماہرِ نفسیات سے مشورہ کیجیے شاید وہ کچھ۔‘‘

    ’’وہ بھی کر چکے ہیں۔‘‘

    ’’تو کیا تشخیص کی اس نے؟‘‘

    ’’کہنے لگا، آپ کے تحت الشعور میں کسی ڈرنے مستقبل طور پر ڈیرا ڈال رکھا ہے۔ اس سے نجات حاصل کیجیے۔ آپ کو نیند آنے لگے گی۔‘‘

    ’’یہ تو بڑا آسان ہے، آپ اس ڈر سے نجات حاصل کیوں نہیں کر لیتے۔‘‘

    ’’لیکن ہمیں پتہ بھی تو چلے وہ کون سا ڈر ہے۔‘‘

    ’’اسی سے پوچھ لیا ہوتا۔‘‘

    ’’پوچھا تھا۔ اس نے جواب دیا، اس ڈر کا پتہ مریض کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا۔‘‘

    ’’کسی لائق ایلو پیتھک ڈاکٹر سے ملیے، شاید وہ۔۔۔‘‘

    ’’اس سے بھی مل چکے ہیں۔ خون، پیشاب، تھوک، پھیپھڑے، دل اور آنکھیں ٹیسٹ کرنے کے بعد کہنے لگا، ان میں تو کوئی نقص نہیں معلوم ہوتا ہے۔ آپ کو نیند سے الرجی ہو گئی ہے۔‘‘

    ’’علاج کیا بتایا؟‘‘

    ’’کوئی علاج نہیں بتایا۔ دلیل یہ دی کہ الرجی ایک لاعلاج مرض ہے۔‘‘

    ’’آپ اگر اجازت دیں تو خاکسار جو کہ نہ حکیم ہے نہ ڈاکٹر بلکہ محض ایک شاعر آپ کے مرض کا علاج کر سکتا ہے۔‘‘

    ’’ضرور کیجیے۔‘‘

    ’’دیکھیے! اگر آپ کو نیند رات بھر نہیں آتی تو آپ رات کے بجائے دن میں سویا کیجیے۔ یعنی رات کو دن اور دن کو رات سمجھا کیجیے۔‘‘

    ’’سبحان اللہ! کیا نکتہ پیدا کیا ہے۔ تعجب ہے ہمیں یہ آج تک کیوں نہیں سوجھا۔‘‘

    ’’سوجھتا کیسے‘‘، آپ تو اس وہم میں مبتلا ہیں؛

    آج مجھ سا نہیں زمانے میں
    شاعرِ نغر گوئے خوش گفتار

    ’’شیخ صاحب آپ نے خوب یاد دلایا۔ بخدا ہمارا یہ دعویٰ تعلی نہیں حقیقت پر مبنی ہے۔‘‘

    ’’چلیے یوں ہی سہی۔ جب تک آپ استاد شاہ نہیں ہیں مجھے آپ سے کوئی خطرہ نہیں۔‘‘

    ’’یہ اعزاز آپ کو ہی مبارک ہو۔ ہمیں تو پینے کو ’’اولڈ ٹام‘‘ اور کھانے کو ’’آم‘‘ ملتے رہیں۔ ہم خدا کا شکر بجا لائیں گے۔‘‘

    دراصل شراب پی پی کر آپ نے اپنا اعصابی نظام اتنا کمزور کر لیا ہے کہ آپ کو بے خوابی کی شکایت لاحق ہو گئی۔ اس پر ستم یہ کہ توبہ کرنے کی بجائے آپ فخر سے کہا کرتے ہیں۔ ’’ہر شب پیا ہی کرتے ہیں، مے جس قدر ملے۔‘‘

    ’’بس بس شیخ صاحب رہنے دیجیے، ورنہ مجھے آپ کو چپ کرانے کے لیے آپ کا ہی شعر پڑھنا پڑے گا۔‘‘

    ’’کون سا شعر قبلہ؟‘‘

    ’’رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو
    تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘‘

    (اردو ادب کے معروف طنز و مزاح نگار کنہیا لال کپور کے قلم کی شوخیاں)

  • "غیبت سوسائٹی” کی ضرورت کیوں‌ پیش آئی؟ دل چسپ تفصیل جانیے

    "غیبت سوسائٹی” کی ضرورت کیوں‌ پیش آئی؟ دل چسپ تفصیل جانیے

    آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ہماری ایک غیبت سوسائٹی ہے جس میں ہم لوگ اپنے رشتے داروں، دوستوں اور ملنے والوں کی حرکات و سکنات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں۔

    ظاہر ہے کہ تعریف یا اچھائیاں تو مقابل بیٹھ کر کرنے سے ہی سننے والے کو خوش کر دیتی ہیں۔ لیکن اگر ہم کسی کے طرزِ تکلّم پر یا ان کے عادات و اطوار پر اعتراض کریں تو صاحب موصوف کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے اور بفرضِ محال وہ آپ کی باتوں کا منہ توڑ جواب نہ دیں جو ان کی انسانیت کو ظاہر کرے گا، لیکن اس میں شک نہیں کہ مستقبل میں وہ آپ سے ملنے سے کترانے لگیں گے اور اگر رشتے ناتے کی ایسی ڈور آپ کے بیچ ہے کہ میل ملاقات قطع نہیں کی جاسکتی تو بادلِ نخواستہ آداب سلام کی رواداری کا سلسلہ بنا رہے گا۔

    آپسی محبت و خلوص آپ کی کڑوی سچائی کے زہر میں گھل جائے گا۔ یہی وہ بنیاد ہے جس نے ہم کو غیبت سوسائٹی بنانے کی ترغیب دی۔

    یہ تو انسانی فطرت ہے کہ دنیا میں، چاہے دینوی معاملہ ہو یا دنیاوی سب کا ہم خیال ہونا ضروری نہیں۔ ہر فرد کسی بھی مسئلے پر جداگانہ طریقے سے غور کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہوں لیکن ظاہر ہے کہ ہر ایک اپنی بات کو صحیح تصور کرتا ہے اور دوسروں سے منوانا چاہتا ہے۔ یہ بھی لازمی ہے کہ جس دلیل پر اختلافِ رائے ہو یا ہم اوروں کو اپنی رائے سے متفق کرنا چاہیں تو ناخوش گوار حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔

    مجھے یاد آیا کہ ایک بار ہماری غیبت سوسائٹی سے انحراف کرتے ہوئے ایک صاحب کہنے لگے کہ غیبت اور جھوٹ گناہ ہے۔ لوگوں کی خوشی کے لیے دونوں کا سہارا غلط ہے۔ ہم نے سمجھایا کہ ان دونوں کو مصلحت کے تحت اپنایا جائے تو حالات خوش گوار رہتے ہیں۔ اگر ہماری بات صحیح نہیں سمجھتے ہیں تو آزما کر دیکھ لیجیے۔ جناب انہوں نے دل میں ٹھان لی کہ ایک دن صبح سے شام تک میں سچ اور صاف گوئی سے کام لے کر دیکھوں گا۔

    صبح ہوئی بیوی مسکراتی چائے لے کر آئی، انہوں نے ایک گھونٹ لیا ہوگا کہ اس نے اٹھلا کر پوچھا: "اچھی ہے نا؟” اور انہوں نے منہ بنا کر کہا: بالکل بیکار، گرم پانی کی طرح۔

    بیوی کا چہرہ اتر گیا۔ اس کی خدمت گزاری پر اوس پڑ گئی اور وہ وہاں سے چلی گئی۔ پھر یہ صاحب دفتر پہنچے۔ اپنے سینئر افسر سے مڈبھیڑ ہوئی، صاحب سلامت کے بعد انہوں نے اپنی ٹائی کے متعلق پوچھا کیسی ہے؟ انہوں نے کہا کوئی خاص نہیں، آپ کی شرٹ پر تو مناسب نہیں لگتی۔ وہ اپنی ڈریسنگ کی دھجیاں اڑتے دیکھ کر ٹھنڈے پڑ گئے، مگر تمام دن ان صاحب کے ساتھ گرما گرمی کا برتاؤ جاری رکھا۔

    ابھی دن گزرنے میں بہت وقت باقی تھا مگر ان کے ارادے اٹل کہ جو کہوں گا سچ کہوں گا اور منہ پر کہوں گا۔ کھانے کا وقت آ گیا۔ روز کی طرح سب اکھٹے ہوئے اور ایک ساتھی نے جو خود توشہ نہیں لایا تھا ان کی خاطر شروع کی تو یہ بول اٹھے: خوب جناب، حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ؟ اور وہ جو محبت سے ان کا خیال کر رہا تھا یک دم خاموش ہو گیا۔ اسی طرح گھر واپس آنے تک مختلف ملنے والوں سے ان کے کام کے بارے میں گل فشانی رہی۔ شام کو اسے احساس ہوا کہ اس کے اطراف اترے چہرے یا خفگی بھرا ماحول چھایا ہے، تب ہی اس کو احساس ہوا کہ کسی کے سامنے اس پر اعتراض سے کشیدگی یا بدمزگی ہی پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر ہم غیبت کے بنیادی نکتوں پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ ہم خیال لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔ گفتگو میں لطف پیدا کرتی ہے۔ اور اس کا سلسلہ طویل ہوتا ہے۔

    غیبت سے یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کے کردار پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں۔ ایک اور بات غیبت کرنے میں یہ ہے کہ انسان میں شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنا جائزہ لینے اور اپنے آپ کو اچھا ثابت کرنے کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ جب آپ دوسروں کی بری باتوں کا ذکر کرتے ہیں یا باالفاظ دیگر ان کی خصلت، ان کے طور طریقہ اور ان کے برتاؤ پر تنقید کرتے ہیں تو ڈھکے چھپے طریقے سے یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ برائیاں آپ کی شخصیت میں نہیں۔ اتفاقاً اگر دوسروں کی کچھ قابلِ اعتراض باتیں جنہیں غیبت سوسائٹی میں زیرِ بحث رکھا گیا ہو، اپنے حالات سے ملتی جلتی دکھائی دیتی ہیں، تو اس سوسائٹی کے ممبران سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ شیشے کے گھروں میں رہنے والے دوسروں پر پتھر نہیں پھینک سکتے۔ کیوں کیا خیال ہے آپ کا؟

    (یہ دل چسپ اور مزاحیہ تحریر، نسیمہ ترابُ الحسن (بھارت) کی ہے جو نثر اور مزاح نگاری کے میدان میں "باتیں کہنے سننے کی” اور خاکوں کے مجموعے "نقوشِ دل” کے لیے پہچانی جاتی ہیں)

  • صدر کے ایک نامی ریستوراں میں بٹیر کی نہاری

    صدر کے ایک نامی ریستوراں میں بٹیر کی نہاری

    گزشتہ بدھ کی شام ہمارا صدر کے ایک نامی ریستوراں میں جانا ہوا۔

    بیرا لپک کر آیا۔ ہم نے پوچھا، ’’کیا ہے؟‘‘

    بولا، ’’جی اللہ کا دیا سب کچھ ہے!‘‘

    ہم نے کہا، ’’کھانے کو پوچھ رہے ہیں۔ خیریت دریافت نہیں کر رہے۔ کیونکہ وہ تو تمہارے روغنی تن و توش سے ویسے بھی ظاہر ہے۔‘‘

    کہنے لگا، ’’حلیم کھائیے۔ بڑی عمدہ پکی ہے۔ ابھی ابھی میں نے باورچی خانے سے لاتے میں ایک صاحب کی پلیٹ میں سے ایک لقمہ لیا تھا۔‘‘

    ’’لیکن آج تو گوشت کا ناغہ ہے۔‘‘

    بولا، ’’ہوا کرے۔ یہ مرغ کی حلیم ہے۔ آپ کھا کے تو دیکھیے۔ فوراً بانگ دینے کو جی چاہے گا۔‘‘

    ’’نہاری ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں ہے، مرغ کی نہاری بھی ہے، بٹیر کی نہاری بھی ہے۔‘‘

    ’’بٹیر کی نہاری؟‘‘ بولا، ’’جی ہاں اور اس کے علاوہ پدی کا شوربا بھی ہے۔ تیتر کے سری پائے ہیں۔ مسور کی دال کے تکے کباب ہیں۔ آپ کل آئیں تو بھینسے کے گوشت کا مرغ پلاؤ بھی مل سکتا ہے۔‘‘

    ہم نے کہا، ’’بٹیر کی نہاری لاؤ فی الحال۔‘‘ ہمارے ساتھ ہمارے ایک دوست تھے۔ دلّی کے جیوڑے، نہاری آئی تو بولے، ’’میاں نلیاں تو اس نہاری میں ہیں نہیں۔ ہم لوگ جب تک نلیوں کو پیالی کے سرے پر بجا بجا کر نہ چوسیں مزا نہیں آتا۔‘‘ بیرا جانے کیا سمجھا۔

    ایک طشتری میں خلال اٹھا لایا۔ ہم نے کہا، ’’میاں خلال تو کھانے کے بعد درکار ہوتے ہیں۔ کچھ تمیز ہے کہ نہیں۔‘‘

    بولا، ’’حضور یہ خلال نہیں۔ نلیاں ہیں۔ بٹیر کی نلیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ویسے ہم آئندہ نلیوں کے شوقینوں کے لیے پلاسٹک کی نلیاں بنوارہے ہیں۔ ناغے کے دن نہاری اور شوربے کے ساتھ پیش کی جایا کریں گی۔ گودا ان کے اندر آلوؤں کا ہوا کرے گا۔‘‘

    ہمیں معلوم نہیں کہ ہر چیز کا نعم البدل نکالنے والوں نے پلاسٹک کے بکرے بھی ایجاد کیے ہیں یا نہیں۔ ان کی ضرورت کا احساس ہمیں عید سے دو روز پہلے ہوا۔ وہ یوں کہ ہم دفتر جاتے برنس روڈ سے گزر رہے تھے۔ ایک جگہ دیکھا کہ ہجوم ہے۔ راستہ بند ہے۔ آدمی ہی آدمی۔ دنبے ہی دنبے۔ بکرے ہی بکرے!

    ایک بزرگ سے ہم نے پوچھا، ’’یہ کیا میلہ مویشیاں ہو رہا ہے۔ ہم نے اشتہار نہیں پڑھا اس کا۔ میلہ مویشیاں ہے تو ساتھ مشاعرہ بھی ضرور ہوگا۔ ایک غزل ہمارے پاس بھی ہے۔‘‘

    بولا، ’’جی نہیں۔ یہ بزنس روڈ کی بکرا پیڑی ہے۔ لیجیے یہ دنبہ لے جائیے۔ آپ کے خاندان بھر کو پل صراط سے پار لے جائے گا۔‘‘

    ہم نے پوچھا، ’’ہدیہ کیا ہے اس بزرگ کا؟‘‘ بولے، ’’پانچ سو لے لوں گا۔ وہ بھی آپ کی مسکین صورت پر ترس کھا کر۔ ورنہ چھ سو روپے سے کم نہ لیتا۔‘‘ ادھر سے نظر ہٹا کر ہم نے ایک اللہ لوگ قسم کے بکرے کی طرف دیکھا جو مارے ضعف اور ناتوانی کے زمین پر بیٹھا تھا۔

    ہم نے کہا، ’’اس ذات شریف کے کیا دام ہوں گے؟‘‘ اس کا مالک دوسرا تھا۔ وہ بھاگا آیا۔ بولا، ’’جناب آپ کی نظر کی داد دیتا ہوں۔ بڑی خوبیوں کا بکرا ہے۔ اس کی داڑھی پر نہ جائیے۔ ایک میمن گھرانے میں پلا ہے ورنہ عمر اس کی زیادہ نہیں۔ آپ سے دو چار سال چھوٹا ہی ہوگا۔‘‘

    ہم نے کہا، ’’یہ چپ چاپ کیوں بیٹھا ہے۔ جگالی تک نہیں کرتا۔‘‘ بولے، ’’دانتوں میں کچھ تکلیف تھی۔ پوری بتیسی نکلوادی ہے۔ خیال تھا مصنوعی جبڑا لگوانے کا۔ لیکن اتنے میں عید آ گئی۔‘‘

    ’’کتنے کا ہو گا؟‘‘

    ’’دو سو دے دیجیے۔ اتنے میں مفت ہے۔‘‘

    ہم نے اپنی جیب کو ٹٹولا اور کہا، ’’سو روپے سے کم کی چیز چاہیے۔‘‘ بولے، ’’پھر آپ مرغ کی قربانی دیجیے۔ چوپایا نہ ڈھونڈیے۔‘‘

    (شاعر و ادیب اور معروف مزاح‌ نگار ابنِ انشا کی کتاب خمارِ گندم سے اقتباس)

  • مشرقی تہذیب میں میزبانی کی روایت!

    مشرقی تہذیب میں میزبانی کی روایت!

    میزبان اُس حواس باختہ انسان کو کہتے ہیں جو عموماً اپنے سے بڑے یا اہم آدمی کو کسی خاص موقع پر شرفِ میزبانی بخشنے کے بہانے گھر بھر کو مختلف قسم کی مصیبتوں میں مبتلا کرانے کا وسیع تجربہ رکھتا ہے۔

    اس کے ساتھ گھر والوں کی وہی حالت ہوتی ہے جو گیہوں کے ساتھ گھن کی ہوا کرتی ہے۔ گھر بھر میزبانی کی چکّی میں پس کر اچھا خاصا گھن چکر بن جاتا ہے۔

    علمُ الانسان کے ماہرین نے میزبان کی تشریح یوں کی ہے، ’’دورِ جدید کا ایسا انسان جس کے ایک ہاتھ میں جھاڑن، دوسرے میں جھاڑو ہوتی ہے۔ اسے دوسروں کی صفائی پر بھروسہ نہیں ہوتا۔ اس لیے صفائی کے بعد وہ خود بھی جھاڑ پونچھ کرتا ہے کہ دروازے، کھڑکیاں ٹھیک سے صاف ہیں؟ کہیں جالا تو باقی نہیں۔ کسی صوفے یا کرسی پر گرد تو نہیں۔ اس سلسلے میں وہ مہتر سے باورچی تک کے فرائض ادا کرتا ہے۔ عموماً اس قسم کا انسان شہروں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔

    میزبان کا آغاز مہمانی سے ہوتا ہے۔ میزبان پر مہمان اسی طرح نازل ہوتے ہیں جیسے گنہ گاروں پر عذاب۔ کسی مہمان نے میزبان کے لیے کیا پھڑکتا ہوا مصرعہ کہا ہے، ہمارے بھی ہیں میزباں کیسے کیسے

    مشرقی تہذیب میں میزبانی اب سے پچاس سال پہلے تک خوش قسمتی سمجھی جاتی تھی، جس کا فن یہ تھا کہ پیٹ بھروں کو کھلایا جائے اور مربھکوں کو مار مار کر ہنکا دیا جائے۔ یہ روایت اب بھی برقرار ہے۔

    میں بنیادی طور پر میزبان ہونے کے مقابلے میں مہمان ہونا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ نہ تو میں مہمان ہوتے ہی اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ ’’گرم پانی سے غسل میری کمزوری ہے۔‘‘ نہ یہ کہتا ہوں کہ’’میں چائے سے پہلے ایک گلاس گرم دودھ پیتا ہوں جس میں کم از کم پاؤ بھر بالائی ہو جس کو معتدل بنانے کے لیے اس میں آدھ پاؤ پستہ اور بادام پیس کر ملا دیا جائے اور محض دو انڈے توڑ کر ان کی زردی ڈال دی جائے۔‘‘ نہ میں میزبان پر انکشاف کرتا ہوں کہ اصلی گھی میری کمزوری ہے۔ ڈالڈا گلا پکڑ لیتا ہے۔ گوشت میں کہاں کھاتا ہوں، اس لیے جانور بٹیر سے چھوٹا نہ ہو اور مرغ سے بڑا نہ ہو۔ یوں میں بھی مرغ پر تیتر کو ترجیح دیتا ہوں۔ نہ میں جاتے ہی میزبان کو پان کا ڈبہ تھماتے ہوئے فرمائش کرتا ہوں، ’’بھئی اس میں پان، چھالیہ، زردہ، قوام، الائچی وغیرہ بھروا دو۔

    میں تو بس جاتے ہی کہہ دیتا ہوں کہ بھئی تکلف کی ضرورت نہیں۔ گھر میں جو سبزی، دال، بھات، روٹی ہو وہی کھلا دو۔ اہتمام سے تکلف اور غیریت کی بُو آتی ہے۔‘‘

    مجھے جہاں بھی جانا ہوتا ہے بس ذرا بن سنور کر تیار ہو کر جاتا ہوں۔ میزبان نے جو وقت دیا ہے اس سے دو یا ڈھائی گھنٹہ بعد ٹھاٹھ سے پہنچتا ہوں۔ نہ مہمان دار کو شرمندگی کہ ابھی تو اس نے نہ کوئی تیاری کی تھی، نہ کوئی صاحب تشریف لائے۔

    پہنچتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔ میزبان جو بے صبری سے منتظرتھا کہ موصوف تشریف لائیں تو چرندم خورندم کا خوش گوار سلسلہ شروع کیا جائے وہ بھی خوش ہوگیا جس کا مفید نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خاطر مدارات کا سلسلہ واپسی تک جاری رہتا ہے۔

    (ہندوستان کے معروف مزاح نگار احمد جمال پاشا کی شگفتہ تحریر سے انتخاب)

  • "ہماری تنخواہ سے ملکی معیشت کی تباہی”

    "ہماری تنخواہ سے ملکی معیشت کی تباہی”

    بیگم نے ہمیں ایک دن یہ اطلاع دی کہ ہماری تنخواہ 13 تاریخ تک کے لیے بالکل کافی ہوتی ہے تو ہمیں پوپ گریگری پر بڑا غصہ آیا جس نے عیسوی کیلنڈر کی ترتیب و اصلاح کرتے وقت یہ تباہ کن فیصلہ کیا تھا کہ کوئی مہینہ 28 دن سے کم کا نہ ہوگا۔

    ظالم کو اصلاح ہی کرنی تھی تو ٹھیک سے کرتا۔ خیر، گرم گرم گرہستی چوٹ تھی۔ ہم نے دوسرے ہی دن اینڈرسن کی اسٹینو گرافر کو ایک درخواست ڈکٹیٹ کروائی جس میں احتجاج کیا کہ جس تنخواہ کا بینک کے چیئرمین مسٹر ایم۔ اے۔ اصفہانی نے وعدہ کر کے ہم سے سول سروس سے استعفیٰ دلوایا تھا، اس کے نصف پر ہمیں ٹرخا دیا گیا۔ لہٰذا چارسو روپے کا فوری اضافہ کیا جائے اور بقایا جات ادا کیے جائیں۔

    اس لُتری نے غالباً اس کی پیشگی اطلاع اسے دے دی۔ جبھی تو درخواست ٹائپ ہونے سے پہلے ہی اس نے ہمیں طلب کرلیا۔ کہنے لگا بینک کا حال تو اورینٹ ایئرویز سے بھی بدتر ہے۔ شیئر کی قیمت کا کریش ہو چکا ہے۔ خسارہ ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک فراڈ بھی ہو گیا ہے۔

    بینک فراڈ دراصل اعداد و شمار کی شاعری ہے۔ صبح کیش پوزیشن دیکھ کر گلے میں پھندا سا پڑ جاتا ہے۔ میں خود آج کل ضرورت مند صنعت کاروں اور تاجروں کو اوور ڈرافٹ کے بجائے قیمتی مشورے دے رہا ہوں۔ بینک موجودہ اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ میں تمہاری تنخواہ کی طرف سے بہت فکر مند رہتا ہوں۔ مگر تم عیال دار آدمی ہو۔ گھٹاتے ہوئے ڈرتا ہوں۔

    تنخواہ میں مزید تخفیف کی بشارت کے علاوہ اس نے معاشیات پر لمبا سا لیکچر بھی دیا جس کے دوران رف پیڈ پر ڈائگرام بنا کر ہمیں ذہن نشین کرایا کہ اگر قومی پیداوار میں اضافہ ہو اور تنخواہیں اور اجرتیں بڑھتی ہی چلی جائیں تو ملک کی معیشت تباہ ہوجاتی ہے۔ انگلینڈ اسی طرح برباد ہو رہا ہے۔

    ہم اس کے کمرے سے نکلے تو ہر چند ہماری تنخواہ وہی تھی جو کمرے میں داخل ہونے سے پیشتر تھی، لیکن اس خیال ہی سے ایک عجیب طرح کی سرخوشی اور طمانیت محسوس ہوئی کہ ہماری ترقی سے ساری معیشت تباہ ہوسکتی ہے۔

    (ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریر موصوف سے انتخاب)

  • اللہ کے ‘‘بندوں’’ کو آتی نہیں رُوباہی!

    اللہ کے ‘‘بندوں’’ کو آتی نہیں رُوباہی!

    52ء کی کُل ہند امن کانفرنس ایک تاریخی کانفرنس تھی، اور ہر چند کلکتہ جلسوں اور جلوسوں کا شہر ہے، لیکن اس کانفرنس کی نوعیت اپنی ایک منفرد اور جداگانہ شان رکھتی تھی۔

    کئی نام وَر شخصیتوں نے اس کانفرنس کو کام یاب بنانے میں براہِ راست حصہ لیا۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو، ملک راج آنند، ہیرن مکر جی، گوپال ہلدار، کرشن چندر، مجازؔ، سردارؔ جعفری، پرویزؔ شاہدی، مخدومؔ محی الدّین، مجروحؔ سلطان پوری، کیفیؔ اعظمی، نیازؔ حیدر، وامقؔ جونپوری، اشک امرتسری، خواجہ احمد عباس، انور عظیم، پرکاش پنڈت، رضیہ سجاد ظہیر، سید عبدالمالک، پرتھوی راج کپور، سلیل چودھری، سریندر کور، اچلا سچدیو، امر شیخ، رام کمار اور بہت سے ادیب، شاعر، دانش ور، فن کار۔

    اس کانفرنس کی بہت سی باتیں ذہن سے محو نہیں ہوتیں۔ کسی سب کمیٹی کے اجلاس میں اسرارُالحق مجازؔ نے بھی انگریزی میں ایک تقریر کی۔ ان دنوں ان پر جنون کا حملہ تھا۔ نہ جانے انھوں نے کیا کچھ کہا۔ وہ اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد باہر آئے تو میں نے ان سے کہا:

    ‘‘مجازؔ صاحب! سنا ہے آپ نے بڑی ولولہ انگیز تقریر کی۔’’

    مجازؔ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا: ‘‘آپ نے نہیں سُنی؟’’

    ‘‘معاف کیجیے میں ذرا دیر سے پہنچا۔’’

    “Then I must commit suicide!” (تب تو مجھے خود کُشی کرلینی چاہیے)

    مجازؔ کی طبعی حسِ ظرافت جاگی ہوئی تھی۔ انھیں پتہ نہیں تھا کہ انھوں نے قسطوں میں کب سے ‘‘خودکشی’’ کر رکھی ہے۔

    اسی وقت سردار جعفری بھی آگئے اور چٹخارے لے لے کر مجازؔ کی تعریف کرنے لگے: ‘‘تم نے بڑی کھری کھری باتیں کہیں، سچ ہے۔ اللہ کے بندوں کو آتی نہیں رُوباہی!’’

    مجازؔ کی رگِ ظرافت پھر پھڑکی: ‘‘روباہیؔ تخلّص ہے کیا؟’’

    سردارؔ جعفری نے اس وار کی چوٹ محسوس کی اور مسکراتے ہوئے وہاں سے چل دیے مجازؔ نے پیچھے سے داغا:

    ‘‘آداب عرض ہے!’’

    اس کانفرنس کے ساتھ ہی ایک آل انڈیا مشاعرہ بھی منعقد ہوا تھا۔ کلکتہ کی تاریخ میں شاید اتنا شان دار مشاعرہ کبھی نہیں ہوا۔ لگ بھگ بیس پچیس ہزار سامعین تھے۔ کرشن چندر نے صدارت کی تھی۔ فیضؔ اور سجّادؔ ظہیر پاکستان کی جیلوں میں بند تھے۔ اس مشاعرے میں فیضؔ کی غزل مجروحؔ نے اور سجّادؔ ظہیر کی وامقؔ نے اپنے اپنے مخصوص ترنم میں سنائی تھی۔

    اس مشاعرے کے کام یاب ترین شعرا کیفیؔ اعظمی، پرویزؔ شاہدی اور نیاز حیدر تھے۔ اسی مشاعرہ کا واقعہ ہے کہ جب مجازؔ مائک پر آئے تو انھوں نے اپنا کلام سنانے سے پہلے کہا:

    ‘‘میرے دوست کرشن چندر نے فرمائش کی ہے کہ میں PEACE پر کوئی نظم پڑھوں، تو میں اپنا کلام CUT-PIECE (کٹ پیس) میں سنا رہا ہوں۔’’ اور اس کے بعد انھوں نے کچھ متفرق اشعار اور قطعات سنائے جن میں سے ایک یہ تھا:

    نطق رُسوا، دہن دریدہ ہے
    یہ شنیدہ نہیں ہے، دیدہ ہے
    رندرِ برباد کو نصیحت ہے
    شیخ کی شان میں قصیدہ ہے

    (ہندوستان کے ممتاز شاعر اور نقّاد مظہر امام کے "کرشن چندر” کے عنوان سے لکھے گئے مضمون سے اقتباس)

  • ‘میجر حسرت’ جنھیں سنگا پور میں احمد علی کی تلاش تھی!

    ‘میجر حسرت’ جنھیں سنگا پور میں احمد علی کی تلاش تھی!

    دوسری عالم گیر جنگ کے خاتمے پر جب اتحادی قابض فوجیں ملایا کے ساحل پر اتریں تو مولانا چراغ حسن حسرتؔ اس کے ہراول دستوں میں شامل تھے۔ آپ دو سال سے کچھ اوپر سنگاپور میں مقیم رہے۔

    حسرت اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور صحافی تھے جن کی وجہِ شہرت ان کے طنز و مزاح پر مبنی مضامین ہیں۔ ادھر دوسری جنگ عظیم میں ضمیر جعفری بھی برطانوی فوج میں بھرتی ہوکر بیرونِ ہندوستان فرائض کی انجام دہی کے لیے روانہ ہوئے اور وہاں سنگا پور میں‌ حسرت سے ملاقات ہوئی۔ ضمیر جعفری بھی طنز و مزاح کی دنیا میں ممتاز ہوئے اور انھیں مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے بے حد پذیرائی ملی۔

    پیشِ نظر تحریر ضمیر جعفری کی یادوں سے مقتبس ہے جس میں انھوں نے چراغ حسن حسرت کو اپنا مرشد کہہ کر ان سے متعلق ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "مرشد کے دوست مشہور ادیب پروفیسر احمد علی ہندوستان سے چین جا رہے تھے۔ ان کا جہاز شب کے چند گھنٹوں کے لیے سنگا پور میں رک رہا تھا۔ مرشد ایک مدت سے ان کی راہ تک رہے تھے اور ان کے چند گھنٹوں کے قیام کو پُرلطف بنانے کے لیے کوئی پورے تین شب و روز کی مصروفیت طے کر چھوڑی تھی۔

    لیکن اتفاق دیکھیے کہ جس شام احمد علی وہاں پہنچے ہیں، مرشد کو سوکر جاگنے، جاگ کر اٹھنے، اٹھ کر تیار ہونے اور پھر دو تین ساغر برائے ملاقات پینے میں اتنی دیر ہوگئی کہ جب ہم لوگ جہاز پر پہنچے تو پروفیسر صاحب شہر کی گشت پر نکل چکے تھے۔ اب انھیں ڈھونڈھنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ جاوید نے کہا کہ اتنے بڑے اجنبی، پُراسرار شہر میں اندھا دھند تلاش سے کون مل سکتا ہے۔ لیکن مرشد بہت پُرامید تھے۔

    فرمایا۔ ‘‘کیوں نہیں ملے گا۔ مجھے معلوم ہے احمد علی کو کہاں ہونا چاہیے۔ میرے بھائی میں احمد علی کو جانتا ہوں۔’’ تلاش شروع ہوئی تو احمد علی کو جہاں جہاں ہونا چاہیے تھا، ایک ایک مقام پر چھان مارا مگر وہ خدا معلوم کہاں غائب ہوگئے تھے۔

    کوئی بارہ بجے کے قریب مرشد یہ کہہ کر کہ ذرا تازہ دم ہوکر ابھی پھر نکلتے ہیں، ایک چینی ریسٹورنٹ میں گھس گئے اور وہاں جام و مینا سے نہ معلوم کیا سرگوشیاں ہوئی کہ خیالات کا دھارا احمد علی کو پا سکنے کی رجائیت کی طرف سے یک بارگی احمد علی کو نہ پا سکنے کی قنوطیت کی طرف مڑ گیا۔ بولے:

    ‘‘مولانا یہ احمد علی تو ملتا دکھائی نہیں دیتا۔’’

    ‘‘کیوں؟’’ہم نے پوچھا۔

    ‘‘مولانا چینیوں کے اس شہر میں احمد علی کا ملنا ناممکن ہے۔ بات یہ ہے کہ سامنے کے رخ سے احمد علی بھی ساٹھ فی صدی چینی معلوم ہوتا ہے اور چینیوں کے انبوہ میں کسی چینی سے آپ خط کتابت تو کرسکتے ہیں، اسے شناخت نہیں کرسکتے۔ اب اس کو جہاز پر ہی پکڑیں گے۔’’

    پھر وہیں بیٹھے بیٹھے مرشد نے جو احمد علی کی باتیں شرع کی ہیں کہ وہ کتنا پیارا آدمی ہے، کتنا نڈر ادیب ہے، کتنا قیمتی دوست ہے تو درمیان میں ہماری وقفہ بہ وقفہ یاد دہانیوں کے بعد جب ریستواراں سے اٹھ کر آخر جہاز پر پہنچے تو جہاز ہانگ کانگ کو روانہ ہوچکا تھا۔

    بعد میں خط کتابت سے معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب نے بھی اس شب اپنے آپ کو سنگاپور پر چھوڑ رکھا تھا۔

  • شوکت تھانوی اور شامتِ اعمال

    شوکت تھانوی اور شامتِ اعمال

    شوکت تھانوی ایک ہمہ جہت تخلیق کار تھے جنھوں نے صحافت اور اردو ادب میں بڑا نام و مقام بنایا۔ انھوں‌ نے ناول، افسانے اور ڈرامے لکھے۔ شاعری اور کالم نگاری بھی کی۔ مختلف موضوعات پر سنجیدہ اور ادبی مضامین بھی تحریر کیے۔ یوں‌ انھوں نے ہر صنفِ ادب کو اپنی فکر اور تخلیقی وفور کے اظہار کا وسیلہ بنایا، مگر زیادہ شہرت ایک مزاح نگار کے طور پر حاصل کی۔

    اردو ادب کی اس ممتاز ہستی نے آپ بیتی بھی رقم کی تھی جس سے ایک دل چسپ اور شگفتہ پارہ ہم اپنے باذوق قارئین کے لیے یہاں نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "تمنا تھی تو صرف یہ کہ میرا کلام کسی رسالے میں چھپ جائے۔ آخر یہ حسرت بھی پوری ہو گئی اور لکھنؤ کے ایک رسالے میں جس کے نام ہی سے اس کا معیار ظاہر ہے یعنی ’’ترچھی نظر‘‘ میری ایک غزل چھپ گئی۔”

    "کچھ نہ پوچھیے میری خوشی کا عالم، میں نے وہ رسالہ کھول کر ایک میز پر رکھ دیا تھا کہ ہر آنے جانے والی کی نظر اس غزل پر پڑ سکے۔ مگر شامتِ اعمال کہ سب سے پہلے نظر والد صاحب کی پڑی اور انہوں نے یہ غزل پڑھتے ہی ایسا شور مچایا کہ گویا چور پکڑ لیا ہو۔ والدہ محترمہ کو بلا کر کہا، ’’آپ کے صاحب زادے فرماتے ہیں:

    ہمیشہ غیر کی عزت تری محفل میں ہوتی ہے
    ترے کوچہ میں ہم جا کر ذلیل و خوار ہوتے ہیں

    میں پوچھتا ہوں کہ یہ جاتے ہی کیوں ہیں۔ کس سے پوچھ کر جاتے ہیں؟

    والدہ بے چاری سہم کر رہ گئیں اور خوف زدہ آواز میں بولیں،’’غلطی سے چلا گیا ہو گا۔‘‘

    (کتاب کچا چٹّھا، کچھ یادیں کچھ باتیں، آپ بیتی سے انتخاب)

  • "میرا قیمہ بنا دیجیے…!”

    "میرا قیمہ بنا دیجیے…!”

    میں ٹولنٹن مارکیٹ کی چھوٹے گوشت کی دکان پرکھڑا اپنی باری کا انتظارکررہا تھا اور کچھ اس قسم کے ’’جذباتی‘‘ سوال جواب سن رہا تھا۔

    ’’نسیم بھائی! پہلے میرا قیمہ بنا دیجیے‘‘ایک خاتون کہہ رہی تھیں۔ ’’بہن جی آپ فکر ہی نہ کریں، میں آپ کا ایسا قیمہ بناؤں گا کہ آپ یاد کریں گی۔۔۔!‘‘

    ’’ذرا جلدی کریں نسیم بھائی!‘‘

    ’’بس آپ کھڑی رہیں۔ آپ کے کھڑے کھڑے میں آپ کا قیمہ بنا دوں گا۔‘‘

    ’’قیمہ روکھا بناؤں یا موٹا۔۔۔‘‘

    ’’روکھا ٹھیک رہے گا لیکن میں ذرا جلدی میں ہوں‘‘

    ’’بہن جی یہ قریشی صاحب کا قیمہ ہے، یہ والا جو میں کُوٹ رہا ہوں، اس کے بعد انشاء اللہ آپ کا قیمہ بنے گا۔‘‘

    ’’نسیم صاحب۔ مغز چاہیے مل جائے گا۔‘‘ ایک صاحب دریافت کرتے ہیں۔

    ’’کیوں نہیں جناب۔ یہ ہمارے لیڈرانِ کرام تھوڑی ہیں، بکرے ہیں ان میں بہت مغز ہے، ابھی دیتا ہوں۔‘‘

    ’’اور میرے گردوں کا کیا ہوا؟‘‘ ایک آواز آتی ہے۔

    ’’یہ والے۔۔۔۔‘‘نسیم کا بھائی جو شکل سے ہیرو لگتا ہے چند گردے فضا میں بلند کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’آپ کے گردے ہیں۔ ابھی نکالے ہیں، بنا کر دیتا ہوں۔‘‘

    ’’اورمیری ران۔۔۔‘‘

    ’’یہ رہی آپ کی ران، بالکل نرم اور تازہ تازہ۔‘‘

    ’’اور میری سری۔۔۔‘‘

    ’’ابھی توڑتا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’ایک صاحب جو آرڈر دے کر جا چکے تھے واپس آکر پوچھتے ہیں۔‘‘، ’’یار ابھی تک میرا گوشت نہیں بنایا۔۔۔‘‘

    ’’اوہو آپ یہ بتائیں کہ آپ کی بوٹیاں کیسے کاٹوں۔۔۔! چھوٹی یا بڑی۔۔۔ میں پانچ منٹ میں آپ کا گوشت بناتا ہوں جناب۔ ہم آپ کا گوشت نہیں کاٹیں گے تو اور کس کا کاٹیں گے۔‘‘

    بالآخر میری باری آتی ہے اور میں ایک مختصر سا آرڈر دیتا ہوں۔ ’’تارڑ صاحب۔‘‘ نسیم مسکراتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’اتنا گوشت تو پورے محلے کے لیے کافی ہوگا، کیا کریں گے اتنے گوشت کو دیگ پکائیں گے؟‘‘

    ’’بھائی آپ براہِ کرم جگتیں نہ کریں اور گوشت بنا دیں۔ اور یہ والی بوٹی تو اچھی نہیں ہے! یہ نہ ڈالنا۔‘‘

    ’’یہ والی۔۔۔؟‘‘ وہ بوٹی کو اٹھا کر اس کی نمائش کرتا ہے۔ ’’یہ والی تو بڑی جذباتی بوٹی ہے تارڑ صاحب۔‘‘

    نسیم اپنے گوشت کے بارے میں ’’جذباتی‘‘ کا لفظ بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ مثلاً جناب یہ گردہ ملاحظہ کیجیے بالکل جذباتی ہے۔ یہ چانپ جو آپ دیکھ رہے ہیں، جذباتی ہورہی ہے آہستہ آہستہ، یہ ران تو خیر ہے ہی جذباتی۔ ویسے میرے پاس غیر جذباتی گوشت بھی ہے لیکن آپ کو مزہ نہیں آئے گا۔ وہ سامنے والا بکرا جو لٹک رہا ہے وہ شہنشاہِ جذبات ہے اور بکری جو ہے یہ ملکۂ جذبات ہے۔ اس کی ٹانگ پیش کروں؟‘‘

    گوشت کے بارے میں کالم لکھنا غیر ادبی سا فعل ہے، لیکن کیا کیا جائے یہ مہنگا ہوتا جارہا ہے اور اس کے ساتھ ہی لوگوں کی ’’مسلمانی‘‘ کم ہوتی جارہی ہے۔ گوشت اور مسلمان لازم و ملزوم ہیں۔ ہمارے گاؤں میں تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زیادہ گوشت کھانے سے ایمان مضبوط ہوجاتا ہے۔ لوہے کی طرح۔ ظاہر ہے کہ اگر گوشت مہنگا ہوگا تو کم کھایا جائے گا اور اسی تناسب سے ’’مسلمانی‘‘ کم ہوتی جائے گی۔ میں بھی اسی لیے فکر مند ہوں۔

    گوشت کی قیمتوں میں یک دم اضافہ ہوگیا ہے اور کہیں سے احتجاج کا ایک لفظ سنائی نہیں دیا۔ سگریٹ مہنگے ہوجائیں تو چھوڑ دو، چائے مہنگی ہو جائے تو کم پیو۔ آٹا مہنگا ہو جائے تو کیک کھا لو، لیکن گوشت تو کم نہیں کھایا جاسکتا۔ مجھے چونکہ گوشت کی قیمتوں میں اضافے کی خبر نہ تھی، اس لیے میں نے جیب میں پڑی رقم کے مطابق آرڈر دیا اور پھر بعد میں بِل زیادہ بننے پر خوب خوب شرمندہ ہوا۔

    (اردو ادب میں طنز و مزاح پر مبنی تحریروں، ناول اور سفرنامہ نگاری کے لیے معروف مستنصر حسین تارڑ کے کالم سے منتخب پارے)

  • "دس بار مسکرائیے!”

    "دس بار مسکرائیے!”

    مشتاق احمد یوسفی کو اردو کا صاحبِ طرز مزاح نگار اور تخلیقی نثر نگار کہا جاتا ہے۔

    عام طور پر مزاح‌ نگار کوئی انوکھی بات اور نرالی منطق پیش کرتے ہوئے، دل چسپ اور عجیب صورتِ حال کی منظر کشی کے ساتھ مضحکہ خیز کرداروں کی مدد سے اپنے قاری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن مشتاق احمد یوسفی نے الگ ہی راہ نکالی اور عہد ساز ٹھہرے۔ ان کا مزاح فلسفیانہ رنگ لیے ہوئے ہے اور وہ گہری اور چبھتی ہوئی بات اس طرح کرتے ہیں‌ کہ پڑھنے والا قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

    یہاں‌ ہم مشتاق احمد یوسفی کے دس تیکھے جملے آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ٭ لفظوں کی جنگ میں فتح کسی بھی فریق کی ہو، شہید ہمیشہ سچّائی ہوتی ہے۔

    ٭ دشمنوں کے حسبِ عداوت تین در جے ہیں: دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار۔

    ٭ محبّت اندھی ہوتی ہے، چناں چہ عورت کے لیے خوب صورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہوتا ہے۔

    ٭ بڑھاپے کی شادی اور بینک کی چوکی داری میں ذرا فرق نہیں، سوتے میں بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑتی ہے۔

    ٭ آدمی ایک بار پروفیسر ہو جائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں سمجھ داری کی باتیں ہی کیوں نہ کر نے لگے۔

    ٭ مصائب تو مرد بھی جیسے تیسے برداشت کرلیتے ہیں، مگر عورتیں اس لحاظ سے قابلِ ستائش ہیں کہ انہیں مصا ئب کے علاوہ مردوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

    ٭ مرض کا نام معلوم ہو جائے تو تکلیف تو دور نہیں ہوتی، الجھن دور ہوجاتی ہے۔

    ٭ انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے۔

    ٭ مرد عشق و عاشقی صرف ایک ہی مرتبہ کرتا ہے، دوسری مرتبہ عیاشی اور اس کے بعد نری بدمعاشی۔

    ٭ عورتیں ہمیشہ سچ بولتی ہیں، وہ ا یک دوسرے کی عمر ہمیشہ صحیح بتاتی ہیں۔