Tag: مزاحیہ ادب

  • قلی قطب شاہ کے "چار مینار” کی انوکھی کہانی!

    قلی قطب شاہ کے "چار مینار” کی انوکھی کہانی!

    محمد قلی قطب شاہ کو عمارتیں بنوانے کا بہت شوق تھا، ایک بار جب وہ دلّی گیا تو شوق شوق میں اس نے ایک بہت اونچا مینار بنا دیا، جسے آج کل قطب مینار کہتے ہیں۔ جب یہاں کی رعایا کو یہ بات معلوم ہوئی تو ان میں غیض و غضب کی ایک لہر دوڑ گئی کہ اپنے شہر کو چھوڑ کر دلّی میں مینار بنوانے کا کیا مطلب؟

    بادشاہ نے دلّی والے آرکٹیکٹ کو بلا کر اسے یہاں بھی ویسا ہی مینار بنانے کو کہا۔ لیکن قطب مینار بناتے بناتے وہ آرکیٹکٹ بے چارہ بوڑھا ہو گیا تھا اور اب اس میں اس بلندی پر پہنچے کی سکت نہیں رہ گئی تھی۔ جب اس نے اپنی معذوری ظاہر کی تو بادشاہ نے کہا کوئی مضائقہ نہیں تم چار چھوٹے چھوٹے مینار بنا دو، ہم کسی اور نوجوان آرکٹیکٹ کو کہہ دیں گے کہ وہ ان کو ایک دوسرے کے اوپر کھڑا کر کے ایک اونچا مینار تیار کر دے۔

    جب چاروں مینار علیحدہ علیحدہ تیار ہو گئے تو ایک مدبّر نے صلاح دی کہ عالم پناہ آپ کیوں نہ چار مینار علیحدہ علیحدہ ہی رہنے دیں۔ اس طرح آپ رعایا کو کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ نے دلّی میں ایک مینار بنوایا تو یہاں کے لوگوں کے لیے چار مینار بنوائے۔ اس کے علاوہ آپ کے نام کے چار حصّوں یعنی محمد، قلی، قطب اور شاہ کے لیے ایک ایک مینار یادگار رہے گا۔

    بادشاہ کو یہ صلاح پسند آئی اور نہ صرف فوری طور پر اس کی شخصیت کو چار چاند بلکہ چار مینار لگ گئے اور ہمیشہ کے لیے اس کا نام امر ہو جانے کا امکان پیدا ہوگیا۔ اس مدبّر کو ایسی صلاح دینے کی پاداش میں پدم بھوشن کے خطاب سے نوازا گیا اور اس طرح حیدرآباد کا امتیازی نشان وجود میں آیا۔

    چار مینار کی دھوم جب دلّی تک پہنچی تو مغل بادشاہ اورنگ زیب کے دل میں اسے دیکھنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی۔ اس نے جب دکن کے دورہ کا پروگرام بنایا تو اس کا سپہ سالار اور فوج کے ہزاروں سپاہی سیاحت کے شوق میں اس کے ساتھ ہوئے، یہاں ٹورسٹ لوگوں کا رش اتنا تھا کہ اورنگ زیب کو چھے مہینے انتظار کرنا پڑا۔ بے تاب ہوکر اس نے شہر پر دھاوا بول دیا۔

    یہ عمارت دیکھی تو اتنی پسند آئی کہ سات سال تک یہیں ٹکا رہا۔ آخر چار مینار کی تصویر دل میں لیے ہوئے وہ دکن میں ہی اللہ کو پیارا ہو گیا۔

    (معروف ادیب، مزاح نگار اور مؤرخ نریندر لوتھر کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا، یہ شگفتہ پارہ اسی شہر سے متعلق ان کے ایک مضمون سے لیا گیا ہے، اس مضمون میں انھوں نے دکن کی ایک مشہور اور تاریخی اہمیت کی حامل یادگار "چار مینار” کے بارے میں شگفتہ بیانی کی ہے)

  • چائے اور چارپائی!

    چائے اور چارپائی!

    لوگ گھنٹوں چارپائی پر کسمساتے رہتے ہیں، مگر کوئی اٹھنے کا نام نہیں لیتا۔ اس لیے کہ ہر شخص اپنی جگہ بخوبی جانتا ہے کہ اگر وہ چلا گیا تو فوراً اس کی غیبت شروع ہو جائے گی۔

    چناں چہ پچھلے پہر تک مرد ایک دوسرے کی گردن میں ہاتھ ڈالے بحث کرتے ہیں اور عورتیں گال سے گال بھڑائے کچر کچر لڑتی رہتی ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ مرد پہلے بحث کرتے ہیں، پھر لڑتے ہیں۔ عورتیں پہلے لڑتی ہیں اور بعد میں بحث کرتی ہیں۔ مجھے ثانی الذّکر طریقہ زیادہ معقول نظر آتا ہے، اس لیے کہ اس میں آئندہ سمجھوتے اور میل ملاپ کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ ایک چارپائی پر بیک وقت کتنے آدمی بیٹھ سکتے ہیں تو گزارش ہے کہ چارپائی کی موجودگی میں ہم نے کسی کو کھڑا نہیں دیکھا۔

    لیکن اس نوع کے نظریاتی مسائل میں اعداد و شمار پر بے جا زور دینے سے بعض اوقات عجیب و غریب نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ آپ نے ضرور سنا ہو گا کہ جس وقت مسلمانوں نے اندلس فتح کیا تو وہاں کے بڑے گرجا میں چوٹی کے مسیحی علما و فقہا اس مسئلہ پر کمال سنجیدگی سے بحث کر رہے تھے کہ سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں۔

    ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ تنگ سے تنگ چارپائی پر بھی لوگ ایک دوسرے کی طرف پاؤں کیے "اً اٍ” کی شکل میں سوتے رہتے ہیں۔ چنچل ناری کا چیتے جیسا اجیت بدن ہو یا کسی عمر رسیدہ کی کمان جیسی خمیدہ کمر۔ یہ اپنے آپ کو ہر قالب کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔ اور نہ صرف یہ کہ اس میں بڑی وسعت ہے بلکہ اتنی لچک بھی ہے کہ آپ جس آسن چاہیں بیٹھ اور لیٹ جائیں۔

    بڑی بات یہ ہے کہ بیٹھنے اور لیٹنے کی درمیانی صورتیں ہمارے ہاں صدیوں سے رائج ہیں ان کے لیے یہ خاص طور پر موزوں ہے۔ یورپین فرنیچر سے مجھے کوئی چڑ نہیں، لیکن اس کو کیا کیجے کہ ایشیائی مزاج نیم درازی کے جن زاویوں اور آسائشوں کا عادی ہو چکا ہے، وہ اس میں میسر نہیں آتیں۔

    مثال کے طور پر صوفے پر ہم اکڑوں نہیں بیٹھ سکتے۔ کوچ پر دسترخوان نہیں بچھا سکتے۔ اسٹول پر قیلولہ نہیں کر سکتے۔ اور کرسی پر، بقول اخلاق احمد، اردو میں نہیں بیٹھ سکتے۔ ایشیا نے دنیا کو دو نعمتوں سے روشناس کیا۔ چائے اور چارپائی! اور ان میں یہ خاصیت مشترک ہے کہ دونوں سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں۔

    (مشتاق احمد یوسفی کے قلم کی شوخی)

  • ہمیں جیل ہوجائے!

    ہمیں جیل ہوجائے!

    کہتے ہیں ڈھونڈے سے خدا بھی مل جاتا ہے۔ ضرور مل جاتا ہے، لیکن لاکھ لاکھ تلاش کے باوجود مکان نہیں ملتا۔

    اسی چکّر میں یہ طے کر کے نکلے کہ یا مکان تلاش کر لیں گے ورنہ خود ہی لاپتا ہوجائیں گے! لیکن ہوا یہ کہ نہ مکان مل سکا اور نہ خود جیتے جی لامکاں ہوسکے! لیکن ہر مکان کو خالی سمجھ کر اس پر لپکنے کے چکّر میں کئی بار پولیس کے ہتھے چڑھتے چڑھتے ضرور بچے!

    جب سارے شہر میں ایک بھی’’ٹولٹ‘‘ کا بورڈ نہ ملا اور نہ کسی نے بتایا کہ کسی کا کوئی مکان کہیں خالی ہے تو ہم نے اخباروں اور رسالوں میں ’’مکان چاہیے، مکان!‘‘ کے اشتہار نکلوائے۔ احباب کو دھمکی دی کہ اگر مکان نہ ملا تو مع سامان کے تمہارے یہاں دھرنا دیں گے، لیکن اس طرح مکان یا اس کا اتا پتا تو نہ ملا البتہ دوستوں کی بھیڑ ضرور چھٹ گئی۔

    جب ہم کسی خالی مکان میں تالا لگا دیکھتے تو اس خیال کے تحت اس کے چکّر لگانے لگتے کہ یہ ضرور خالی ہوگا۔ جس سے پاس پڑوس والوں کو شک ہونے لگتا کہ کہیں ان کا ارادہ قفل شکنی کا تو نہیں؟ لیکن یہاں قفل شکنی تو کُجا کسی کی دل شکنی بھی نہیں کرسکتے اور اسی مروّت کے مارے آج مکان کی تلاش میں زمین کا گز بنے ہوئے ہیں۔

    ہوا یہ کہ جس مکان میں ہم رہتے تھے اس کے مالک نے ہمیں بڑے سبز باغ دکھائے کہ ’’اگر ہم کچھ دن کے لیے کہیں اور چلے جائیں تو وہ اس ٹوٹے ہوئے مکان کو توڑ کر نئی بلڈنگ کھڑی کردیں گے، جس میں ہمیں بجلی اور پانی کے پائپ وغیرہ کی خاص سہولتیں بالکل مفت حاصل ہوں گی۔‘‘ ہم نے ان کی باتوں میں آکر اپنے دوست خاں صاحب کے یہاں ڈیرا جمایا۔

    مالک مکان نے مکان بنوانے کی بجائے اسی کھنڈر کا پیشگی کرایہ اور پگڑی لے کر ایک نیا کرایہ دار بسالیا جبھی سے ہم مکان ڈھونڈتے اور خاں صاحب سے آنکھیں چراتے پھرتے ہیں۔

    ہمارے ایک دوست جو مکان تلاش کرنے میں ہماری کافی مدد کررہے تھے، سخت بیمار پڑگئے۔ ہم نے بہت جی لگا کر ان کی تیمار داری کی تاکہ وہ جلد از جلد اچّھے ہوکر ہمارے لیے مکان ڈھونڈ سکیں، لیکن جوں جوں ان کا علاج کیا، حالت بگڑتی گئی۔ یہاں تک کہ آخر ان کا انتقال ہوگیا۔ ہم نے اپنے دوست کا کفن دفن اور تیجا، چالیسواں اس خیال سے کر دیا کہ پگڑی اور پیشگی کرایہ نہیں دیا، مرحوم کی آخری رسوم ادا کر دیں اور ہم مرحوم کے مکان منتقل ہوگئے، لیکن ابھی ہم نے اچھی طرح سامان بھی نہ جمایا تھا کہ پولیس نے ہمیں نکال باہر کیا، کیوں کہ مرحوم کے پس ماندگان نے مکان اپنے نام الاٹ کرا لیا تھا۔

    اس بار خاں صاحب نے بھی ہمیں پناہ نہ دی۔ مجبوراً ہم نے سامان اسٹیشن کے لگج روم میں جمع کروایا اور پلیٹ فارم پر رات کو سونے کے ساتھ ساتھ دن کو مکان کی تلاش کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس تلاش کے باوجود کچھ دنوں میں گھر تو نہ ملا، لیکن ایک عدد گھر والی ضرور مل گئی۔ جس کی وجہ سے رات بسر کرنے کے لیے کرایہ پر رات میں ’’رین بسیرے‘‘ میں جگہ مل جاتی، لیکن مکان کے بارے میں ہماری مایوسی یہاں تک بڑھ گئی کہ ہم سوچنے لگے، کیوں نہ ہم دونوں کوئی ایسا جرم کر ڈالیں کہ ہمیں جیل ہوجائے اور اس طرح رہنے کا سہارا ہوجائے۔

    (معروف مزاح نگار احمد جمال پاشا کی تحریر سے چند شگفتہ پارے)

  • مشاعروں میں ہوٹنگ کے ‘فوائد’

    مشاعروں میں ہوٹنگ کے ‘فوائد’

    مشاعرے تو بہت ہوتے ہیں، لیکن ہر مشاعرہ کام یاب نہیں ہوتا اور صرف کام یابی بھی کافی نہیں ہوتی۔ مشاعرہ اچّھے نمبروں سے کام یاب ہونا چاہیے۔ ایسی ہی کام یابی سے مشاعروں کا مستقبل روشن ہوتا ہے۔ مشاعروں کی کام یابی کا انحصار اب ہوٹنگ پر ہے۔ ہوٹنگ معرکے کی ہوگی تو مشاعرہ بھی معرکۃ الآرا ہوگا۔

    دیکھا گیا ہے کہ بڑے شہروں میں جہاں تعلیم یافتہ لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں ہوٹنگ کا معیار اچھا خاصا ہے، لیکن اضلاع کے سامعین ہوٹنگ کے معاملے میں ابھی پسماندہ ہیں۔ بعض اضلاع میں اس کا معیار ٹھیک رہا ہے، لیکن اس سلسلے میں ابھی انہیں بہت کام کرنا ہے۔ مشاعروں کے سیزن میں اضلاع کے کچھ مندوبین کو بڑے شہروں کے مشاعروں میں حاضر رہنا چاہیے۔

    مشاعرہ ورک شاپ میں حصہ لیے بغیر اچھی ہوٹنگ نہیں آتی۔ بڑے شہروں میں تو بعض مشاعرے ایسے بھی ہوئے ہیں کہ مشاعرے کے دوسرے دن مشاعرہ گاہ کی چھت کی مرمت کروانی پڑی ہے، اس لیے اب زیرِ سما مشاعروں کا رواج بڑھتا جارہا ہے۔ زیرِ سما مشاعروں میں، شاعر تو نہیں لیکن سامعین سماں باندھ دیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب مشاعروں میں شاعروں کے کلام کا مقابلہ ہوتا ہے، اب سامعین کے کمال کا مقابلہ ہوتا ہے۔ مشاعرے بھی ٹکٹ سے ہونے لگے ہیں جو ایک لحاظ سے اچھی بات ہے۔

    صحیح معنوں میں مشاعرہ وہ ہوتا ہے جب مشاعرہ گاہ میں زندگی رواں دواں ہو، مشاعرہ گاہ میں کیفیت کچھ ایسی ہونی چاہیے، جس سے یہ معلوم ہو کہ شاعروں کو سننے سامعین نہیں آئے، سامعین کا مورچہ آیا ہوا ہے۔ خوب صورت پنڈال جگمگاتا شہ نشین اور جگہ جگہ ایک ہزار کینڈل پاور کے قمقمے یہ سب بیکار ہیں۔ اصل چیز ہے ہوٹنگ۔ مشاعروں میں یہ نہ ہو تو منتظمینِ مشاعرہ مایوس ہوجاتے ہیں۔ ان کے سارے کیے کرائے پر پانی پِھر جاتا ہے۔

    مشاعروں میں ہوٹنگ کی ابتدا کب اور کہاں ہوئی اس کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں، لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مشاعرہ خود اور مشاعرے کے دیگر لوازمات (جن میں ہوٹنگ شامل ہے) شمالی ہند کی دین ہیں۔ البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کی رسمِ اجرا کہاں انجام دی گئی۔ تحقیق اس بات کی کرنی چاہیے کہ ٹکٹ سے پہلا مشاعرہ کس جگہ منعقد ہوا؟ اسی مشاعرے میں سامعین نے شور مچایا ہوگا۔ اسی احتجاج نے بعد میں ہوٹنگ کی شکل اختیار کی۔

    ہوٹنگ اب شوق یا شغل نہیں ہے، ایک فن ہے اور اس میں بھی وہی صنائع بدائع ہونے چاہییں جو شاعری میں مستعمل ہیں۔ ہوٹنگ میں اسقام کا پایا جانا معیوب ہے۔ کچھ لوگوں نے عملی تنقید کی طرح عملی ہوٹنگ کی بھی کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر شاعروں کی سرکوبی کے لیے عملی ہوٹنگ سے کام لیا گیا ہے، لیکن ان وارداتوں میں ‘ایلڈرس’ نے کبھی حصّہ نہیں لیا۔ ان وارداتوں کو ‘یوتھ فیسٹول’ سمجھ کر شاعروں کی تاریخ سے حذف کردینا چاہیے۔

    ہوٹنگ دل چسپی کی چیز ہے، دل شکنی کاحربہ نہیں۔ اسی لیے عملی ہوٹنگ مقبول نہیں ہوسکی۔ مشاعروں میں آلات و ظروف استعمال نہیں کیے جاسکتے۔ میونسپل کارپوریشن کے اجلاس کی بات اور ہوتی ہے۔

    (یوسف ناظم کا تعلق بھارت سے تھا، ان کا شمار اردو کے معروف طنز و مزاح نگاروں میں ہوتا ہے، پیشِ نظر مقتَباسات یوسف ناظم کے شگفتہ مضمون کے ہیں)

  • مرزا ظاہر دار بیگ جو ریا کار اور چرب زبان مشہور تھے!

    مرزا ظاہر دار بیگ جو ریا کار اور چرب زبان مشہور تھے!

    مرزا ظاہر دار بیگ کا مضحک کردار اپنے احساسِ کمتری کو احساسِ برتری میں بدلنے کے لیے چرب زبانی کا حربہ استعمال کرتا ہے۔ اس طرح کے مضحک کردار ہمارے اردگرد آج بھی پائے جاتے ہیں جو ظاہری تصنّع اور شان و شوکت کا بھرم رکھنے کے لیے اس طرح کی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ خود کو معاشرے کا باعزّت فرد ظاہر کرنے کے لیے اپنی امارت اور حسب و نسب کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں تاکہ اس کے بدلے ان کو عزت ملے، لوگ انہیں احترام دیں۔

    اس طرح کے ہزاروں ظاہر دار بیگ ہر سماج میں خود کو بڑا بنا کر پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد کا تخلیق کردہ یہ کردار اپنے عہد کی اس تہذیب اور معاشرت پر کڑی تنقید کرتا ہے جہاں عزّت صرف دولت مندوں اور اعلیٰ خاندان کے لوگوں کو ملتی تھی۔

    ظاہر دار بیگ کا کردار ایک نوعیت کی معاشرتی پیروڈی ہے۔ وہ اپنے عہد کی زندہ علامت ہے اور اس ظاہر داری کی نمائندگی کرتا ہے جو کسی ترقی پذیر تہذیب کی تباہی کے لیے معاشرے میں رونما ہوتی ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب دستِ افلاس نے قوم کو اپنے حصار میں لے لیا تھا اور سماج میں بے چینی کا عالم تھا۔ معاشرتی زندگی میں بڑے چھوٹے کا امتیاز تھا اور شہری حقوق سب کو یکساں طور پر میّسر نہ تھے۔

    عوامی زندگی ایسے دوراہے پر کھڑی تھی جو نہ تو کوئی مقصد رکھتی تھی نہ منزل۔ 1857ء کے نتیجے میں پھیلی ہوئی تباہی عام تھی، لوگ اپنی اقدار کو بھول چکے تھے، اعصابی طور پر کم زور ہو چکے تھے، معاشرتی بیماریاں پھیل رہی تھیں، اس کا انجام یہ ہوا کہ ہر فرد حقیقت سے فرار حاصل کرنا چاہتا تھا۔

    مشرقی تہذیب کی جگہ مغربی تہذیب، ہندوستانی کھانوں کی جگہ مغربی کھانے، مکتب اور پاٹھ شالہ کی جگہ کالج اور یونیورسٹیوں نے لے لی اور یہ وقت انسان کو اکسا رہا تھا کہ یا تو خود کو بدل لے یا ماضی کے نہاں خانوں میں گھٹ گھٹ کر ختم ہو جائے۔

    مرزا ظاہر دار بیگ کا کردار اپنے عہد کی ظاہر داریوں کا نمائندہ ہے۔ احساسِ کمتری اسے اپنی بڑائی کا بھرم رکھنے پر مجبور کر رہی تھی۔ چوں کہ یہ کردار غیرلچک دار ہے اس لیے اس کی ناہمواریاں سمٹنے کے بجائے پھیل کر سامنے آتی ہیں جو ناظرین کو ہنسانے کا موجب بنتی ہیں۔

    توبتُہ النّصوح کا یہ کردار نذیر احمد کے دیگر کرداروں کی طرح اسمِ بامسمّیٰ ہے جس میں مرزا سفید پوش طبقے کا نمائندہ ہے جو نہ تو خود کو غریب کہلوانا پسند کرتا ہے اور نہ ہی امراء کی برابری کی استطاعت رکھتا ہے۔ مرزا اہلِ لکھنؤ کی پرتصنع زندگی کا نقشہ ہمارے سامنے لے آتا ہے، مگر ساتھ انفرادیت بھی رکھتا ہے۔

    اپنا یہ بھرم مرزا ہر صورت میں قائم رکھنا چاہتا تھا۔ اپنی امارات کے قصّے اپنے قریبی دوست کلیم سے بھی بیان کرتا رہا۔ اپنے نانا کی جائیداد کو اپنی بیان کرتا رہا۔ جمعدار کے بیٹوں کی دیکھا دیکھی بھی مرزا کی عادتیں بگڑیں تھیں۔ مرزا ان کو اپنا رشتہ دار بتانا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا تھا۔

    مرزا کا دوست کلیم جب گھروالوں سے ناراض ہو کر مرزا کی طرف آ گیا تو مرزا نے گھر کی بجائے اسے مسجد میں ٹھہرایا۔ مسجد میں اندھیرا تھا، جس کے حوالے سے کلیم کے اعتراض کو مرزا نے اس خوب صورتی سے ٹالا، مرزا کی چرب زبانی ملاحظہ کریں:

    چراغ کیا میں نے تو لیمپ روشن کروانے کا ارادہ کیا تھا، لیکن گرمی کے دن ہیں، پروانے بہت جمع ہو جائیں گے اور آپ زیادہ پریشان ہوں گے اور اس مکان میں ابابیلوں کی کثرت ہے، روشنی دیکھ کر گرنے شروع ہوں گے اور آپ کا بیٹھنا دشوار کر دیں گے۔ تھوڑی دیر صبر کیجیے کہ ماہتاب نکال آتا ہے۔

    کلیم کو بھوک نے ستایا تو اس نے ذکر کیا، مرزا نے پہلے تو دیر ہو جانے کا عذر پیش کیا اور پھر بالآخر بُھنے ہوئے چنے لے آیا اور کرنے لگا تعریفیں چنوں کی۔

    مرزا کا لازوال کردار دراصل دہلی کے شکست خوردہ اور زوال پذیر معاشرے کے کھوکھلے پن، ظاہری نام و نمود اور ریا کاری کا عکس ہے۔ یہ کردار ہر معاشرے میں آج بھی تلاش کیا جا سکتا ہے جو غربت کے باعث احساسِ کمتری کا شکار ہو گیا، امیروں میں شامل ہونے کے شوق میں مذہبی و اخلاقی اقدار سے بھی بے بہرہ ہو جاتا ہے۔ محض اپنی چرب زبانی سے سب کو مرعوب کرنے میں مصروف رہتا ہے۔

    (ارشاد علی کے مقالے، ‘اردو نثر کے مضحک کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ’ سے اقتباس)

  • اکبر الہ آبادی اور ان کے ‘استاد’

    اکبر الہ آبادی اور ان کے ‘استاد’

    اکبر الٰہ ابادی اردو کے بڑے شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ان کی شاعری ان کے عہد کی اخلاقی، سیاسی، تہذیبی شعور اور زندگی کا آئینہ سمجھی جاتی ہے۔ وہ واعظ بھی تھے، مصلح بھی، نقّاد بھی، نکتہ چیں بھی اور روایت و جدّت پسندانہ سوچ کے ساتھ ایک انقلابی اور باغی شاعر تھے۔

    انھیں خواص اور عوام دونوں نے سندِ قبولیت بخشی تھی۔ کہتے ہیں اکبر نے اپنے کلام کے ذریعے اس دور میں‌ سبھی کی خبر لی ہے، اور کسی سے مرعوب ہوئے نہ کہیں اپنی بات کہنے سے ڈرے۔

    یہاں ہم اکبر سے متعلق ایک واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جس سے ان کی حیثیت و مرتبے اور شہرت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    اکبر الہ آبادی کی شہرت اور ان کی مقبولیت نے جہاں‌ کئی حاسد پیدا کیے، وہیں بہت سے لوگوں نے ان کی شاگردی کا دعویٰ کرکے دوسروں کی نظر میں خود کو مستند اور معتبر منوانا چاہا۔

    ایک صاحب کو دور کی سوجھی۔ انھوں نے خود کو اکبر کا استاد مشہور کر دیا۔ کسی طرح یہ بات اکبر کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ ان تک اطلاع پہنچی کہ حیدرآباد میں ان کے ایک استاد کا ظہور ہوا ہے، تو ایک روز اپنے دوستوں اور مداحوں کی محفل میں فرمایا،

    ’’ہاں مولوی صاحب کا ارشاد سچّ ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں ایک مولوی صاحب الہ آباد میں تھے۔ وہ مجھے علم سکھاتے تھے اور میں انہیں عقل، مگر دونوں ناکام رہے۔ نہ مولوی صاحب کو عقل آئی اور نہ مجھ کو علم۔‘‘

  • ’’لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا…‘‘

    ’’لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا…‘‘

    لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا۔ جوں جوں تمہارا تجربہ بڑھتا جائے گا، تمہارے خیالات میں پختگی آتی جائے گی اور یہ افسوس بھی بڑھتا جائے گا۔ یہ خواب پھیکے پڑتے جائیں گے، تب اپنے آپ کو فریب نہ دے سکو گے۔

    بڑے ہو کر تمہیں معلوم ہو گا کہ زندگی بڑی مشکل ہے۔ جینے کے لیے مرتبے کی ضرورت ہے۔ آسائش کی ضرورت ہے اور ان کے لیے روپے کی ضرورت ہے۔ اور روپیہ حاصل کرنے کے لیے مقابلہ ہوتا ہے۔ مقابلے میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے، دھوکا دینا پڑتا ہے، غداری کرنی پڑتی ہے۔ یہاں کوئی کسی کی پروا نہیں کرتا۔ دنیا میں دوستی، محبت، انس، سب رشتے مطلب پر قائم ہیں۔

    محبّت آمیز باتوں، مسکراہٹوں، مہربانیوں، شفقتوں، ان سب کی تہ میں کوئی غرض پوشیدہ ہے۔ یہاں تک کہ خدا کو بھی لوگ ضرورت پڑنے پر یاد کرتے ہیں۔ اور جب خدا دعا قبول نہیں کرتا تو لوگ دہریے بن جاتے ہیں، اس کے وجود سے منکر ہو جاتے ہیں۔

    اور دنیا کو تم کبھی خوش نہیں رکھ سکتے۔ اگر تم سادہ لوح ہوئے تو دنیا تم پر ہنسے گی، تمہارا مذاق اُڑاے گی۔ اگر عقل مند ہوئے تو حسد کرے گی۔ اگر الگ تھلگ رہے تو تمہیں چڑچڑا اور مکّار گردانا جائے گا۔ اگر ہر ایک سے گھل مل کر رہے تو تمہیں خوشامدی سمجھا جائے گا۔ اگر سوچ سمجھ کر دولت خرچ کی تو تمہیں پست خیال اور کنجوس کہیں گے اور اگر فراخ دل ہوئے تو بیوقوف اور فضول خرچ۔

    عمر بھر تمہیں کوئی نہیں سمجھے گا، نہ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ تم ہمیشہ تنہا رہو گے حتّٰی کہ ایک دن آئے گا اور چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ گے۔یہاں سے جاتے وقت تم متحیر ہو گے کہ یہ تماشا کیا تھا۔ اس تماشے کی ضرورت کیا تھی۔ یہ سب کچھ کس قدر بے معنٰی اور بے سود تھا۔

    (معروف مزاح نگار شفیق الرّحمٰن کے قلم سے)

  • لمحہ لمحہ بدلنے والی تین چیزیں

    لمحہ لمحہ بدلنے والی تین چیزیں

    دنیا کی یوں تو سبھی چیزیں بدلتی رہتی ہیں، کیوں کہ دنیا کا انتظام انسانوں کے ہاتھ میں ہے اور ہم انسان اس بات کے قائل نہیں کہ دنیا اسی ڈھب پر چلتی رہے جس ڈھب پر سورج، چاند، ستارے اور ہوا جیسی چیزیں چلتی آرہی ہیں۔

    سورج وہی اپنی قدیم رفتار پر قائم ہے، نہ تو اس کے قد و قامت، جسامت اور ضخامت میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے اور نہ اس کی مشرق کی طرف سے طلوع ہونے کی عادت بدلی ہے۔ مغرب نے سائنس وغیرہ کے معاملے میں اتنی ترقّی کرلی لیکن سورج نے اس ترقّی اور مغربی ممالک کے بڑھتے اقتدار کی کوئی پروا نہیں کی۔ یہی حال چاند ستاروں کا ہے۔ ہوا بھی ویسی کی ویسی ہی ہے، جیسی کہ پہلے تھی۔

    اس میں آلودگی ذرا زیادہ ہوئی ہے، لیکن یہ کوئی خاص تبدیلی نہیں ہے، لیکن دنیا کی ہر چیز تغیر پذیر ہے۔ خود آدمی بھی اب اتنا بدل گیا ہے کہ پتا نہیں چلتا کہ یہ آدمی ہے بھی یا نہیں۔

    جہاں تک رفتار کا تعلق ہے، دنیا کی تین چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں کہا نہیں جاسکتا کہ یہ کس لمحہ بدل جائیں گی۔ لمحہ لمحہ بدلنے والی ان تین چیزوں میں پہلی چیز ہے قیمتیں۔ قیمتیں چاہے آلو کی ہوں یا رتالو کی۔ چولھے کی ہوں یا دولھے کی، زر کی ہوں یا زمین کی، اس قدر تیزی سے بدلنے لگی ہیں کہ زمین کے سودے کی بات چیت ختم ہونے سے پہلے زمین کی قیمت میں دس بیس فی صد کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

    دوسری چیز ہے عورتوں کا مزاج، یہ بھی کچھ کم تیزی سے نہیں بدلتا۔ ہمارے یہاں تو خیر ابھی بیسویں صدی کے آخری دہوں میں بھی غنیمت ہے کہ خواتین کسی اور بات کا نہ سہی، کم سے کم ازدواجی رشتوں کا تھوڑا بہت لحاظ کرتی ہیں، ورنہ دنیا میں ایسے کئی ملک موجود ہیں جہاں کی رہنے بسنے والی خواتین اس تیزی سے ان رشتوں کو بدلتی ہیں کہ مردوں کے فرشتوں کو بھی ان کے منصوبوں کی اطلاع نہیں ملتی۔ کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ عدالت میں جب جج محترم قانون کے حق میں فیصلہ لکھنے کے لیے قلم اٹھاتا ہے تو یہ محترمہ اپنا فیصلہ بدل دیتی ہیں اور عدالت سے درخواست کرتی ہیں کہ وہ ملزم کو یعنی اُن کے شوہر کو راہِ راست پر آنے کے لیے چند دنوں کی مہلت عطا کرے۔

    ہمارے یہاں عورتوں کے مزاج اس تیزی سے نہیں بدلتے۔ ان کے مزاج میں پہلے صرف رچاؤ تھا، اب ٹھہراؤ آگیا ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ شاید یہ ہے کہ عورتوں کو اب مردوں پر فوقیت حاصل ہوگئی ہے۔ برابری کا درجہ تو حاصل تھا ہی، عورتیں اب سماج سدھار اور سیاست میں حصّہ لینے لگی ہیں حالاں کہ سماج سدھار اور سیاست دو الگ چیزیں ہیں۔

    عورتوں کو اس سے تعلق ہے بھی نہیں کہ کون سی چیز مفید ہے اور کون سی نقصان دہ۔ بیلن اور تھالی لے کر جب وہ شارعِ عام پر نکل آتی ہیں تو سرکار لرزہ براندام ہوجاتی ہے، کیوں کہ عورتوں کو سرکار سے جب بھی کوئی مطالبہ کرنا ہوتا ہے وہ اتنے سخت لہجے میں مطالبہ کرتی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرکارسے نہیں اپنے گھر میں اپنے شوہر سے مخاطب ہیں۔ عورتوں کے اسی لب و لہجہ کو شاعروں نے سراہا ہے۔

    کہا جاتا ہے عورتوں کا مزاج، باورچی خانے میں بھی قابو میں نہیں رہتا۔ ویسے تو عام طور پر عورتوں نے کھانا پکانا ہی ترک کردیا ہے، لیکن جنھوں نے ترقّی کی اس منزل پر قدم نہیں رکھا ہے جب بھی کھانا پکاتی ہیں اپنا منصوبہ ہر دوسرے لمحے بدل دیتی ہیں۔

    کسی ایک پراجیکٹ پر کام کرنا ان سے ہو نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی تیّار کی ہوئی ڈش کھانے کی میز پر پہنچتی ہے تو پہچاننا دشوار ہو جاتا ہے کہ یہ غذا ہے یا راتب۔ شوہر اس غذا کو اس لیے قبول کرلیتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ کڑی سزا برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

    (طنز و مزاح نگاری میں ممتاز یوسف ناظم کے شگفتہ مضمون فیشن سے اقتباس)

  • "کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی”

    "کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی”

    کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔

    اس سے ساکنانِ کوہِ مری کی دل آزاری نہیں، بلکہ عروسُ البلاد کراچی کی دلداری مقصود ہے۔

    کبھی کبھار شہرِ خوباں کا درجۂ حرارت جسم کے نارمل درجۂ حرارت یعنی 98.4 سے دو تین ڈگری نیچے پھسل جائے تو خوبانِ شہر لحاف اوڑھ کر ائرکنڈیشنر تیز کر دیتے ہیں۔ حسنِ تضاد کو کراچی کے محکمۂ موسمیات کی اصطلاح میں ’’کولڈ ویو‘‘ (سردی کی لہر) کہتے ہیں۔

    لوگ جب اخبار میں لاہور اور پنڈی کی سردی کی شدید خبریں پڑھتے ہیں تو ان سے بچاؤ کے لیے بالو کی بھنی مونگ پھلی اور گزک کے پھنکے مارتے ہیں۔ ان کے بچّے بھی انہی پر پڑے ہیں۔ بادِ شمال اور گوشمالی سے بچنے کے لیے اونی کنٹوپ پہن کر آئسکریم کھاتے اور بڑوں کے سامنے بتیسی بجاتے ہیں۔

    کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے۔ نو وارد حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ جاڑا ہے تو اللہ جانے گرمی کیسی ہوتی ہو گی۔ بیس سال سرد و گرم جھیلنے کے بعد ہمیں اب معلوم ہوا کہ کراچی کے جاڑے اور گرمی میں تو اتنا واضح فرق ہے کہ بچّہ بھی بتا سکتا ہے۔ 90 ڈگری ٹمپریچر اگر مئی میں ہو تو یہ موسمِ گرما کی علامت ہے۔ اگر دسمبر میں ہو تو ظاہر ہے کہ جاڑا پڑ رہا ہے۔ البتہ جولائی میں 90 ڈگری ٹمپریچر ہو اور شام کو گرج چمک کے ساتھ بیوی برس پڑے تو برسات کا موسم کہلاتا ہے۔

    تین چار سال بعد دو تین دن کے لیے سردی کا موسم آجائے تو اہلِ کراچی اس کا الزام ’’کوئٹہ ونڈ‘‘ پر دھرتے ہیں اور کوئٹہ کی سردی کی شدّت کو کسی سیم تن ستر نما سوئٹر سے ناپتے ہیں۔

  • ضرورت نہیں ہے!

    ضرورت نہیں ہے!

    اخبارات میں "ضرورت ہے” کے عنوان سے مختلف اشیا کی خرید و فروخت اور اسامیوں کے اشتہارات تو آپ نے پڑھے ہی ہوں گے، جو سنجیدہ اور واقعی ضرورت و طلب کے مطابق ہوتے ہیں، لیکن ابنِ انشا نے ان اشتہارات کو یوں اپنی شگفتہ بیانی اور شوخیِ طبع کی "نذر” کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    ہمیں درکار نہیں
    کار مارس مائنر ماڈل 1959ء بہترین کنڈیشن میں۔ ایک بے آواز ریڈیو، نہایت خوب صورت کیبنٹ، ایک ویسپا موٹر سائیکل اور دیگر گھریلو سامان پنکھے، پلنگ وغیرہ قسطوں پر یا بغیر قسطوں کے ہمیں درکار نہیں۔ ہمارے ہاں خدا کے فضل سے یہ سب چیزیں پہلے سے موجود ہیں۔

    عدم ضرورتِ رشتہ
    ایک پنجابی نوجوان، برسرِ روزگار، آمدنی تقریباً پندرہ سو روپے ماہ وار کے لیے باسلیقہ، خوب صورت، شریف خاندان کی تعلیم یافتہ دو شیزہ کے رشتے کی ضرورت نہیں ہے کیوں‌ کہ لڑکا پہلے سے شادی شدہ ہے۔ خط و کتابت صیغہ راز میں نہیں رہے گی۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار لڑکے اور لڑکیوں کے لیے رشتے مطلوب نہیں ہیں۔ پوسٹ بکس کراچی۔

    داخلے جاری نہ رکھیے
    کراچی کے اکثر کالج آج کل انٹر اور ڈگری کلاسوں میں داخلے کے لیے اخباروں میں دھڑا دھڑ اشتہار دے رہے ہیں۔ یہ سب اپنا وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کے ہاں داخل ہونا مقصود نہیں۔ ہم نے کئی سال پہلے ایم اے پاس کر لیا تھا۔