Tag: مزاحیہ ادب

  • لاکھوں کے آدمی کا رقعہ

    لاکھوں کے آدمی کا رقعہ

    خواجہ علی احمد شہر کے بڑے سوداگر تھے۔ لاکھوں کا کاروبار چلتا تھا۔ لوگوں میں عزّت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ بچّہ بچّہ ان کی دیانت داری سے واقف تھا اور ہر شخص جانتا تھا کہ خواجہ علی احمد قول کے سچّے اور بات کے پکّے ہیں۔

    ایک دن انہوں نے اپنے ایک آدمی کو جوتے والے کی دکان سے جوتا خریدنے بھیجا۔ جوتے کی قیمت بیس روپے تھی، لیکن بجائے اس کے کہ خواجہ علی احمد اپنے نوکر کو بیس روپے دے کر بھیجتے، انہوں نے نوکر کے ہاتھ کریم خاں جوتے والے کے نام ایک رقعہ لکھا:

    ’’میاں کریم خاں! مہربانی کر کے ہمارے آدمی کو بیس روپے کا ایک جوتا دے دو، ہمارا یہ رقعہ اپنے پاس سنبھال کے رکھ چھوڑو۔ جب تمہارا دل چاہے۔ یہ رقعہ آ کے ہم کو یا ہمارے منشی کو دکھا دینا اور بیس روپے لے جانا۔ یہ رقعہ اگر تم کسی اور شخص کو دینا چاہو تو بےشک دے دو، جو ہمارے پاس لائے گا ہم اس کو بیس روپے دے دیں گے۔ راقم خواجہ علی احمد۔‘‘

    دکان دار نے جب رقعے کے نیچے خواجہ علی احمد کا دستخط دیکھا تو اسے اطمینان ہوا۔ جانتا تھا کہ خواجہ صاحب مکرنے والے آدمی نہیں اور پھر لاکھوں کے آدمی ہیں۔ روپے نہیں بھیجے تو نہ سہی۔ یہ رقعہ کیا روپوں سے کم ہے؟ جب چاہوں گا، رقعہ جا کر دے دوں گا اور روپیہ لے لوں گا، چنانچہ اس نے بغیر تامل کے جوتا بھیج دیا۔

    تھوڑی دیر بعد کریم خاں دکان دار کے پاس عبد اللہ حلوائی آیا اور کہنے لگا۔ ’’میاں کریم خاں! میرے تمہارے طرف پچیس روپے نکلتے ہیں۔ ادا کر دو تو تمہاری مہربانی ہو گی۔ کریم خاں نے کہا۔ ’’ابھی لو۔ یہ پانچ تو نقد لے لو۔ باقی بیس روپے مجھے خواجہ علی احمد سے لینے ہیں یہ دیکھو، ان کا رقعہ ذرا ٹھہر جاؤ، تو میں جا کے ان سے بیس روپے لے آؤں۔

    عبد اللہ بھی خواجہ علی احمد کو اچھی طرح جانتا تھا کیوں کہ شہر بھر میں خواجہ صاحب کی ساکھ قائم تھی کہنے لگے۔ تم یہ رقعہ مجھے ہی کیوں نہ دے دو میں ان سے بیس روپے لے آؤں گا کیوں کہ اس میں لکھا ہے کہ جو شخص یہ رقعہ لائے گا اس کو بیس روپے دے دیے جائیں گے۔‘‘

    کریم خان نے کہا۔ ’’یونہی سہی۔‘‘ چناں چہ عبد اللہ حلوائی نے بیس روپے کے بدلے وہ رقعہ قبول کر لیا۔

    کئی دنوں تک یہ رقعہ یونہی ایک دوسرے کے ہاتھ میں پہنچ کر شہر بھر میں گھومتا رہا۔ خواجہ علی احمد پر لوگوں کو اس قدر اعتبار تھا کہ ہر ایک اسی رقعے کو بیس روپے کے بجائے لینا قبول کر لیتا کیوں کہ ہر شخص جانتا تھا کہ جب چاہوں گا اسے خواجہ صاحب کے منشی کے پاس لے جاؤں گا اور وہاں سے بیس روپے وصول کر لوں گا۔

    ہوتے ہوتے یہ رقعہ ایک ایسے شخص کے پاس پہنچ گیا جس کا بھائی کسی دوسرے شہر میں رہتا تھا۔ یہ شخص اپنے بھائی کو منی آرڈر کے ذریعے بیس روپے بھیجنا چاہتا تھا۔ ڈاک خانے والوں نے اس رقعہ کو بیس روپے کے عوض میں لینا قبول نہ کیا۔ چناں چہ وہ شخص سیدھا خواجہ احمد علی کی کوٹھی پر پہنچا۔ رقعہ منشی کو دیا۔ منشی نے بیس روپے کھن کھن گن دیے۔ اس نے روپے جا کر ڈاک خانے والوں کو دیے اور انہوں نے آگے اس کے بھائی کو بھیج دیے۔

    اس مثال سے یہ ظاہر ہوا کہ محض ایک کاغذ کا پرزہ کتنی مدت تک روپے کا کام دیتا رہا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کاغذ کے نیچے ایک ایسے شخص کے دستخط تھے جس کی دیانت داری پر سب کو بھروسا تھا۔ اور جس کی دولت کا سب کو علم تھا۔ سب جانتے تھے کہ یہ شخص جب چاہے بیس روپے ادا کر سکتا ہے۔ اور قول کا اتنا پکّا کہ کبھی ادا کرنے سے انکار نہ کرے گا۔

    اگر ایسے ہی ایک رقعے کے نیچے ہم یا تم دستخط کر دیتے تو کوئی بھی اسے روپے کے بدلے میں قبول نہ کرتا۔ اوّل تو ہمیں جانتا ہی کون ہے اور جو جانتا بھی ہے وہ کہے گا کہ ان کا کیا پتہ۔ آدمی نیک اور شریف اور دیانت دار سہی، لیکن خدا جانے ان کے پاس بیس روپے ہیں بھی یا نہیں؟ کیا معلوم یہ مانگنے جائیں اور وہاں کوڑی بھی نہ ہو۔

    (کاغذی روپیہ سے اقتباس، از پطرس بخاری)

  • چنیوٹ کا اچار اور سرسوں چُننے والیاں

    چنیوٹ کا اچار اور سرسوں چُننے والیاں

    جہاں تک میرا حافظہ کام کرتا ہے اور میرا حافظہ بہت دور تک کام کرتا ہے۔ صرف قریب کی باتوں اور واقعات کو یاد رکھنے سے انکاری ہے۔ تو جہاں تک یاد پڑتا ہے ضمیر بھائی سے میرا تعارف 1951ء کے اواخر میں نہایت عزیز دوست میاں فضل حسن مرحوم کے توسل سے ہوا۔ فضل صاحب شعر و ادب، شکار اور موسیقی کے رسیا تھے۔ جامع الحیثیات شخصیت، کئی ہزار کتابوں اور ایک مل کے مالک تھے۔

    شاعروں اور ادیبوں کو اس طرح جمع کرتے تھے جیسے بچّے ڈاک کے استعمال شدہ ٹکٹ یا خارج المیعاد یعنی پرانے سکّے جمع کرتے ہیں۔ وہ ہر اتوار کو سات آٹھ شاعروں کو گھیر گھار کر گارڈن ایسٹ میں اپنے دولت کدے پر لاتے جہاں ایک بجے تک گپ اور لنچ کے بعد مشاعرے کا رنگ جمتا۔

    لنچ کا ذکر اس لیے بھی کرنا پڑا کہ من جملہ دیگر لذائذ کے دستر خوان پر چنیوٹ کا اچار بھی ہوتا تھا جس میں مجھ سے فرق ناشناس کو بس اتنا ہی فرق معلوم ہوتا تھا کہ زیادہ کھٹا ہوتا ہے اور سرسوں کے تیل میں اٹھایا جاتا ہے جس کی بُو مجھے اچھی نہیں لگتی۔

    فضل صاحب کہتے تھے جس کیری پہ چنیوٹ کا طوطا بیٹھ جائے وہ بڑی جلدی پکتی اور گدر ہوتی ہے۔ مرزا کہتے ہیں کہ طوطا اگر انڈسٹری پہ بیٹھ جائے تو وہ بھی خوب پھل دیتی ہے۔ ہمارے ناپسندیدہ تیل کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اس میں الہڑ مٹیاروں کے ہاتھوں کی مست مہک آتی ہے جو سنہرے کھیتوں میں سرسوں چنتی ہیں!

    ہمیں آج بھی اس تیل کا اچار کھانا پڑا تو یہ سمجھ کے کھاتے ہیں گویا سنہرے کھیتوں میں مذکورہ بالا ہاتھوں سے مصافحہ کر رہے ہیں۔

    (نام ور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریر "ضمیر واحد متبسم” سے اقتباس)

  • گھوڑے کی چاکری

    گھوڑے کی چاکری

    مرزا وحیدُ الزّمان بیگ جس کے نام کے آگے یا پیچھے کوچوان لکھتے ہوئے کلیجہ خون ہوتا ہے، اپنا ہر جملہ "قصور معاف!” سے شروع کرتا تھا۔

    ملازمت کے انٹرویو کے دوران اس نے دعویٰ کیا کہ میں موٹر ڈرائیونگ بھی بہت اچھی جانتا ہوں۔ بشارت نے جل کر حقارت سے کہا، تو پھر تم تانگہ کیوں چلانا چاہتے ہو؟ دُعا کے انداز میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہنے لگا، پاک پروردگار آپ کو کار دے گا تو کار بھی چلا لیں گے۔

    بشارت نے اسے یہ سوچ کر ملازم رکھا تھا کہ چلو مسکین آدمی ہے۔ قابو میں رہے گا۔

    مرزا عبدُالودود بیگ نے ٹِپ دیا تھا کہ ذہانت پر ریجھ کر کبھی کسی کو ملازم نہیں رکھنا چاہیے۔ ملازم جتنا غبی ہو گا اتنا ہی زیادہ تابع دار اور خدمتی ہو گا، لیکن اس نے کچھ دن تو بڑی تابع داری دکھائی، پھر یہ حال ہو گیا کہ اسکول سے کبھی ایک گھنٹا لیٹ آ رہا ہے، کبھی دن میں تین تین گھنٹے غائب۔

    ایک دفعہ اسے ایک ضروری انوائس لے کر پاکستان ٹوبیکو کمپنی بھیجا۔ چار گھنٹے بعد لوٹا۔ بچے اسکول کے پھاٹک پر بھوکے پیاسے کھڑے رہے۔ بشارت نے ڈانٹا۔ اپنی پیٹی کی طرف جسے راچھ اوزار کی پیٹی بتاتا اور تانگے میں ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا تھا، اشارہ کر کے کہنے لگا، قصور معاف، وقوعہ ہو گیا۔

    میونسپل کارپوریشن کی بغل والی سڑک پر گھوڑا سکندری (ٹھوکر) کھا کے گر پڑا۔ ایک تنگ ٹوٹ گیا تھا۔ نعل بھی جھانجھن کی طرح بجنے لگی۔ انھیں ٹھیک کر رہا تھا۔ قصور معاف، نعل کی ایک بھی میخ ڈھیلی ہو تو ایک میل دور سے فقط ٹاپ سن کر بتا سکتا ہوں کہ کون سا سُم ہے۔

    بشارت نے حیرت سے پوچھا، تم خود نعل باندھ رہے تھے؟ بولا، اور نہیں تو۔ کہاوت ہے۔

    کھیتی، پانی، بینتی اور گھوڑے کا تنگ۔ اپنے ہاتھ سنواریے چاہے لاکھوں ہوں سنگ۔ گھوڑے کی چاکری تو خود ہی کرنی پڑتی ہے۔

    وہ ہر دفعہ نئی داستان اور نیا عذر تراشتا تھا۔ جھوٹے لپاٹی آدمی کی مصیبت یہ ہے کہ وہ سچ بھی بولے تو لوگ جھوٹ سمجھتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوا کہ اسی کی بات سچ نکلی۔ تاہم اس کی بات پر دل نہیں ٹھکتا تھا۔

    ایک دن بہت دیر سے آیا۔ بشارت نے آڑے ہاتھوں لیا تو کہنے لگا۔ "جنابِ عالی” میری بھی تو سنیے۔ میں ریس کلب کے اصطبل کے سامنے سے اچھا بھلا گزر رہا تھا کہ گھوڑا ایک دَم اَڑ گیا۔ چابک مارے تو بالکل الف ہو گیا۔ راہ گیر تماشا دیکھنے کھڑے ہو گئے۔

    اتنے میں اندر سے ایک بڈھا سلوتری نکل کے آیا۔ گھوڑے کو پہچان کے کہنے لگا، ” ارے ارے ! تُو اس شہزادے کو کائے کو مار ریا ہے۔ اس نے اچھے دن دیکھے ہیں۔ قسمت کی بدنصیبی کو صیّاد کیا کرے۔ یہ تو اصل میں دُرِشہوار (گھوڑی کا نام) کی بُو لیتا، یہاں آن کے مچلا ہے۔ جس ریس میں اس کی ٹانگ میں موچ آئی ہے، دُرِشہوار بھی اس کے ساتھ دوڑی تھی۔ دو اتوار پہلے، پھر اوّل نمبر پر آئی ہے۔ اخباروں میں فوٹو چھپے تھے۔بھاگوان نے مالک کو لکھ پتی کر دیا۔”

    پھر اس نے اس کے پرانے سائیس کو بلایا۔ ہم تینوں اسے تانگے سے کھول کے اندر لے جانے لگے۔ اسے سارے رستے معلوم تھے۔ سیدھا ہمیں اپنے تھان پہ لے گیا۔

    وہاں ایک بے ڈول کالا بھجنگ گھوڑا کھڑا پشتک (دولتی) مار رہا تھا۔ ذرا دور پہ، دوسری طرف دُرِشہوار کھڑی تھی۔ وہ اسے پہچان کے بے کل ہو گئی۔ کہاں تو یہ اتنا مچل رہا تھا اور کہاں یہ حال کہ بالکل چپکا، بے ست ہو گیا۔ گردن کے زخم کی مکھیاں تک نہیں اڑائیں، صاحب جی، اس کا گھاؤ بہت بڑھ گیا ہے۔ سائیس نے اسے بہت پیار کیا۔

    کہنے لگا، بیٹا! اس سے تو بہتر تھا کہ تجھے اسی وقت انجکشن دے کے سلا دیتے۔ یہ دن تو نہ دیکھنے پڑتے۔ یہ تو تیرے مالک کو ترس آگیا۔

    پھر اس نے اس کے سامنے ریس کلب کا راتب رکھا۔ صاحب، ایسا چبینا تو انسان کو بھی نصیب نہیں۔ پر قسم لے لو جو اس نے چکھا ہو۔ بس سَر جھکائے کھڑا رہا۔ سائیس نے کہا، اسے تو بخار ہے۔ اس نے اس کا بقیہ ساز کھول دیا اور لپٹ کے رونے لگا۔

    (نام وَر ادیب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے)

  • "کیا بال بچّے ہونے تک بال بچے رہیں گے؟”

    "کیا بال بچّے ہونے تک بال بچے رہیں گے؟”

    مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ میرے بالوں کے جھڑنے کا عمل پہلے شروع ہوا تھا یا ان میں سفیدی جھلکنے کی ابتدا پہلے ہوئی تھی، لیکن جب آئینے سے وحشت شروع ہوئی تو آدھے سے زیادہ بال داغِ مفارقت دے چکے تھے۔ پسماندگان میں بچے کھچے بال بیوگی کا سفید لبادہ اوڑھے کنپٹیوں اور سَر کے پیچھے ڈٹے، ستی کی رسم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے نظر آئے۔

    بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ گنجا پن دولت آنے کی نشانی ہے۔ مجھے اس مفروضے پر ہمیشہ سے شک رہا ہے، کیوں کہ ایسی صورت میں انکم ٹیکس اور انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ والے اپنے ڈیٹا بیس میں شہر کے تمام گنجے لوگوں کی فہرست تیار رکھتے بلکہ ان کے افسران بھیس بدل کر راہ چلتے لوگوں کے بال نوچتے پھرتے کہ کہیں کوئی اپنی جیولری اور پراپرٹی وِگ میں تو چھپائے نہیں پھر رہا ہے۔ البتّہ وِپرو کے مالک عظیم پریم جی کے ساتھ یہ طریقۂ تفتیش اپنانے پر متعلقہ افسران کو معطلی یا تبادلے کا سامنا کرنا پڑتا۔

    عورتیں عموماً اس وبالِ جان سے پیدائشی طور پر مستثنیٰ ہیں (یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہزاروں کروڑ پتی ہیں لیکن ”کروڑ پتنی“ گنتی کے چند)۔ اگر ان کی یہ استثنائی حیثیت ختم ہو جائے تو دنیا کے تمام بیوٹی پارلرز بند ہو جائیں گے۔ شیمپو، تیل اور کنگھی بنانے والی فیکٹریوں میں تالے لگ جائیں گے۔ البتّہ اسکارف اور حجاب بنانے اور فروخت کرنے والوں کی چاندی ہو جائے گی۔

    شادی شدہ جوڑے دوسروں کی شادی کی تقاریب میں وقت پر بلکہ بعض اوقات وقت سے پہلے پہنچ پائیں گے۔ عورتوں کی آپسی ہاتھا پائی کی نوعیت میں بھی قدرے تبدیلی آئے گی کہ روایتی گتھم گتھا کے انداز میں ترمیم کی ضرورت پیش آئے گی۔

    کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گنجا پن عقل اور علم و دانش کے اعلیٰ درجے پر ہونے کا غماز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر پروفیسر، ڈاکٹر، دانش وَر اور سائنس داں وغیرہ گنجے ہوتے ہیں (البرٹ آئن اسٹائن نے تحقیق میں بھی چیٹنگ کی ہوگی! یقین نہیں آتا)۔ لہٰذا عورتوں کی مذکورہ استثنائی حیثیت کے در پردہ حقیقت۔۔۔ خیر، چھوڑیے اس بات کو۔ ہم کون ہوتے ہیں مشیتِ ایزدی میں دخل دینے والے۔

    کالج کے دنوں میں اکثر فکر دامن گیر ہوتی کہ کیا بال بچّے ہونے تک بال بچے رہیں گے؟ مگر پھر خیال آیا جب اوپر والے نے راکیش روشن اور اکشے کھنّہ کو نہیں بخشا تو میری کیا وقعت؟ لہٰذا کثرتِ استغفار کے ساتھ گڑگڑا کر دعا کی یا مولا، بھلے ہی وقت سے قبل میرے بالوں کو سفید کر دے کہ اسے خضاب کا حجاب حاصل ہوگا مگر جھڑنے کے عذاب سے محفوظ رکھ، لیکن افسوس، دعا کے صرف پہلے حصے کو شرفِ قبولیت حاصل ہوا، اور یوں دہرے عذاب میں مبتلا ہوا۔

    (جاوید نہال حَشمی کے فکاہیہ سے مقتبس)

  • "موئے کبوتر باز”

    "موئے کبوتر باز”

    میں ایک میاں ہوں۔ مطیع و فرماں بردار، اپنی بیوی روشن آرا کو اپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آگاہ رکھنا اصولِ زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہا ہوں۔ خدا میرا انجام بخیر کرے۔

    چناں چہ میری اہلیہ میرے دوستوں کی تمام عادات و خصائل سے واقف ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دوست جتنے مجھ کو عزیز ہیں اتنے ہی روشن آرا کو برے لگتے ہیں۔ میرے احباب کی جن اداؤں نے مجھے مسحور کر رکھا ہے انہیں میری اہلیہ ایک شریف انسان کے ليے باعثِ ذلّت سمجھتی ہیں۔

    آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ خدانخواستہ وہ کوئی ایسے آدمی ہیں، جن کا ذکر کسی معزز مجمع نہ کیا جاسکے۔ کچھ اپنے ہنر کے طفیل اور کچھ خاکسار کی صحبت کی بدولت سب کے سب ہی سفید پوش ہیں۔ لیکن اس بات کو کیا کروں کہ ان کی دوستی میرے گھر کے امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔

    مثلاً مرزا صاحب ہی کو لیجیے، اچھے خاصے اور بھلے آدمی ہیں۔ گو محکمہ جنگلات میں ایک معقول عہدے پر ممتاز ہیں لیکن شکل و صورت ایسی پاکیزہ پائی ہے کہ امام مسجد معلوم ہوتے ہیں۔ جوا وہ نہیں کھیلتے، گلی ڈنڈے کا ان کو شوق نہیں۔ جیب کترتے ہوئے کبھی وہ نہیں پکڑے گئے۔ البتہ کبوتر پال رکھے ہیں، ان ہی سے جی بہلاتے ہیں۔

    ہماری اہلیہ کی یہ کیفیت ہے کہ محلے کا کوئی بدمعاش جوئے میں قید ہوجائے تو اس کی ماں کے پاس ماتم پرسی تک کو چلی جاتی ہیں۔ گلی ڈنڈے میں کی آنکھ پھوٹ جائے تو مرہم پٹی کرتی رہتی ہیں۔ کوئی جیب کترا پکڑا جائے تو گھنٹوں آنسو بہاتی رہتی ہیں، لیکن وہ بزرگ جن کو دنیا بھر کی زبان میں مرزا صاحب کہتے تھکتی ہے وہ ہمارے گھر میں "موئے کبوتر باز” کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔

    کبھی بھولے سے بھی میں آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کسی چیل، کوئے، گدھ، شکرے کو دیکھنے لگ جاؤں تو روشن آرا کو فوراً خیال ہوجاتا ہے کہ بس اب یہ بھی کبوتر باز بننے لگا۔

    اس کے بعد مرزا صاحب کی شان میں ایک قصیدہ شروع ہو جاتا ہے۔ بیچ میں میری جانب گریز۔ کبھی لمبی بحر میں، کبھی چھوٹی بحر میں۔

    ایک دن جب یہ واقعہ پیش آیا، تو میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس مرزا کم بخت کو کبھی پاس نہ پھٹکنے دوں گا، آخر گھر سب سے مقدم ہے۔ بیوی کے باہمی اخلاص کے مقابلے میں دوستوں کی خوش نودی کیا چیز ہے؟

    چناں چہ ہم غصّے میں بھرے ہوئے مرزا صاحب کے گھر گئے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ کہنے لگے اندر آجاؤ۔ ہم نے کہا، نہیں آتے، تم باہر آؤ۔ خیر اندر گیا۔ بدن پر تیل مل کر ایک کبوتر کی چونچ منہ میں لیے دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے بیٹھ جاؤ ہم نے کہا، بیٹھیں گے نہیں، آخر بیٹھ گئے۔ مرزا بولے کیوں بھئی؟ خیر باشد! میں نے کہا کچھ نہیں۔ کہنے لگے اس وقت کیسے آنا ہوا؟

    اب میرے دل میں فقرے کھولنے شروع ہوئے۔ پہلے ارادہ کیا کہ ایک دم ہی سب کچھ کہہ ڈالو اور چل دو، پھر سوچا کہ مذاق سمجھے گا اس ليے کسی ڈھنگ سے بات شروع کرو۔ لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ پہلے کیا کہیں، آخر ہم نے کہا۔

    "مرزا، بھئی کبوتر بہت مہنگے ہوتے ہیں؟” یہ سنتے ہی مرزا صاحب نے چین سے لے کر امریکا تک کے تمام کبوتروں کو ایک ایک کرکے گنوانا شروع کیا۔ اس کے بعد دانے کی مہنگائی کے متعلق گل افشانی کرتے رہے اور پھر محض مہنگائی پر تقریر کرنے لگے۔ اس دن تو ہم یوں ہی چلے آئے لیکن ابھی کھٹ پٹ کا ارادہ دل میں باقی تھا۔

    خدا کا کرنا کیا ہوا کہ شام کو گھر میں ہماری صلح ہوگئی۔ ہم نے کہا، چلو اب مرزا کے ساتھ بگاڑنے سے کیا حاصل؟ چناں چہ دوسرے دن مرزا سے بھی صلح صفائی ہوگئی لیکن میری زندگی تلخ کرنے کے ليے ایک نہ ایک دوست ہمیشہ کارآمد ہوتا ہے۔

    ( ممتاز ادیب اور مزاح نگار پطرس بخاری کے مضمون "میں ایک میاں‌ ہوں” سے اقتباس)

  • بینگن کے بھرتے پر چخ چخ اور بے جی کی یاد

    بینگن کے بھرتے پر چخ چخ اور بے جی کی یاد

    ہماری آنکھ آیائوں کی گود میں نہیں کھلی، ماں کی گود اور ماں کی کمک پر محبت میں امڈی ہوئی ماسیوں، چاچیوں، پھوپھیوں اور رشتے کی بڑی بہنوں کی گود میں کھلی۔

    یوں بھی بے جی (والدہ مکرمہ) کے پاس عورتوں کا گزری میلہ سا لگا رہتا تھا۔ کچھ تو برادری کی معاصر خواتین ہوتیں جو ایک دوسرے کے گھروں میں باقاعدہ آتی جاتی رہتی تھیں کہ اپنی گائے بھینس کے تذکرے میں اپنی بہو کی بات ملا کر چلم کا تمباکو اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکیں، لیکن بڑی تعداد آس پاس کے دیہات کی چرواہوں کی ہوتی جو اپنے ڈھورڈنگروں کو ہانکتی پھراتی ہمارے گائوں کے رقبوں میں لے آتیں اور پھر کچھ سستانے، لسی پانی پینے یا یونہی گپ شپ لڑانے کے لیے بستی میں اپنی اپنی ’’سیدھ‘‘ (جان پہچان) کے گھروں میں پھیل جاتیں۔

    ہمارا مکان ایک تو گائوں سے باہر اس طور واقع تھا کہ اگر بیرونی دیواریں مضبوط نہ ہوتیں تو کھیتوں کی فصلیں ہمارے صحن میں آ کر لہلہانے لگتیں۔ پھر اس کے ساتھ کنواں بھی، پھر ملحق ایک کھلا میدان جس کو ہم ’’کھلا کہتے ہیں (شاید کھلیان سے)۔ بہرحال ہمارے گھر میں ان سادہ روزگار اور سخت معاش چرواہوں کی ریل پیل کچھ زیادہ ہی لگی رہتی۔

    ہمارے کنبے کی آمدنی اگر آج بھی وہی ہوتی تو ہمیں دو وقت کی روٹی مشکل ہوجاتی، لیکن اس زمانے میں ہمارا گھر بستی کے خوش حال گھروں میں شمار ہوتا اور ہماری حویلی اپنے چبارے کی وجہ سے، جو مدت تک گائوں کا اکلوتا چبارہ رہا، کسی قدر منفرد حیثیت رکھتی تھی، لیکن ہمارے گھر کی جانب اطراف و اکناف کی عورتوں کا رخ ہماری ’’آسودہ حالی‘‘ سے زیادہ دراصل بے جی کی دریا دلی کی وجہ سے تھا۔

    پیسے تو ان کے پاس ہوتے نہ تھے، البتہ حویلی کی تاریک ترین کوٹھڑی میں رکھی ہوئی لکڑی کی بنی ہوئی ایک اونچی مخروطی ’’گہی‘‘ (اجناس کی ذخیرہ دانی) سے گیہوں، باجرے، جوار کے ’’ٹوپے‘‘ اور پڑوپیاں‘‘ (اجناس مانپنے کے پیمانے) بھر بھر کر حاجت مندوں میں تقسیم کرتی رہتیں۔ بے جی کا نام سردار بیگم تھا اور وہ اپنی سخاوت سے تھیں بھی ایک سردار خاتون۔

    بے جی اتنے تڑکے اٹھتیں کہ ہم دونوں بھائی ان کے ساتھ اٹھ کر پھر سوجاتے، پھر اٹھتے پھر سو جاتے، لیکن جب بھی اٹھے، مطلع عالم پر تاریکی کا پہرہ مسلط ہوتا۔ گھر کے کام کاج ان کو دن بھر سر اٹھانے کی مہلت نہ دیتے۔ آئے گئے والا گھر تھا، ایک گیا دو آگئے۔

    تنور ہر وقت گرم رہتا۔ بارہ بارہ کوس میں وعظ کی مجلس خواہ کسی گائوں میں جمتی، واعظین کا پڑائو ہمارے گھر پر ہوتا۔ ہزاروں لاکھوں مریدوں کے پیرصاحبان اس علاقے میں قدم رنجا فرماتے تو ارادت مندوں کے جلو میں ایک وقت کی ضیافت ہمارے گھر پر بھی تناول فرماتے۔

    خاندان کے متعدد بزرگوں کی سالانہ برسیاں جو اب مہینے میں دو دو مرتبہ ہو رہی تھیں، مزید براں تھیں، چنانچہ صحن میں چاول کے ’’دیگ برے‘‘ (بڑے دیگچے) اور آلو گوشت کے ’’کٹوے‘‘ (مٹی کی بڑی بڑی ہانڈیاں) چولہوں پر چڑھے رہتے۔

    بے جی گھر بار کے کسی کام کو اپنے ہاتھوں کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتیں۔ سمے کی معاشرت ہی ایسی تھی۔ بھینسیں دوہنا تو عورتوں کے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی، ہم نے انہیں ایک دو مرتبہ راج مستریوں سے کرنڈی چھین کر چھت کی لپائی کرتے بھی دیکھا۔

    اس کو کہتے ہیں عالم آرائی

    ہانڈی پکانے سے چھت کی لپائی تک کسی دوسرے کا کیا ہوا کام انہیں مشکل ہی سے کبھی پسند آتا۔ آج تک ہم دونوں بھائیوں کی جتنی چخ چخ اپنی بیویوں کے ساتھ بینگن کے بھرتے پر ہوئی ہے، اس نے زندگی کا بھرتی کر رکھا ہے۔

    (بابائے ظرافت سید ضمیر جعفری کے اپنی والدہ سے متعلق ایک مضمون سے اقتباس)

  • دادی اماں اور سات کا ہندسہ

    دادی اماں اور سات کا ہندسہ

    دادی جی بہت اچھی ہیں۔ پوپلا منہ، چہرے پر بے شمار جھریاں اور خیالات بے حد پرانے۔

    ہر وقت مجھے بھوتوں جنوں اور چڑیلوں کی باتیں سنا سنا کر ڈراتی رہتی ہیں۔ ’’دیکھ بیٹا مندر کے پاس جو پیپل ہے اس کے نیچے مت کھیلنا۔ اس کے اوپر ایک بھوت رہتا ہے۔

    آج سے پچاس سال پہلے جب میری شادی نہیں ہوئی تھی میں اپنی ایک سہیلی کے ساتھ اس پیپل کے نیچے کھیل رہی تھی کہ یک لخت میری سہیلی بے ہوش ہو گئی۔ اس طرح وہ سات دفعہ ہوش میں آئی اور سات دفعہ بے ہوش ہوئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے چیخ کر کہا ’’بھوت‘‘! اور وہ پھر بے ہوش ہو گئی۔

    اسے گھر پہنچایا گیا جہاں وہ سات دن کے بعد مر گئی اور وہاں، پرانی سرائے کے پاس جو کنواں ہے اس کے نزدیک مت پھٹکنا۔ اس میں ایک چڑیل رہتی ہے۔ وہ بچوں کا کلیجہ نکال کر کھا جاتی ہے۔ اس چڑیل کی یہی خوراک ہے۔‘‘

    بڑے بھائی صاحب کا خیال ہے جو چیز بڑوں کے لیے بے ضرر ہے چھوٹوں کے لیے سخت مضر ہے۔ خود چوبیس گھنٹے پان کھاتے ہیں لیکن اگر کبھی مجھے پان کھاتا دیکھ لیں فوراً ناک بھویں چڑھائیں گے۔ پان نہیں کھانا چاہیے۔ بہت گندی عادت ہے۔ سنیما دیکھنے کے بہت شوقین ہیں لیکن اگر میں اصرار کروں تو کہیں گے، چھوٹوں کو فلمیں نہیں دیکھنا چاہیے۔ اخلاق پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔

    بڑی بہن کو گانے بجانے کا شوق ہے۔ ان کی فرمائشیں اس قسم کی ہوتی ہیں ’’ہارمونیم پھر خراب ہو گیا ہے اسے ٹھیک کرا لاؤ۔ ستار کے دو تار ٹوٹ گئے ہیں اسے میوزیکل ہاؤس لے جاؤ۔ طبلہ بڑی خوف ناک آوازیں نکالنے لگا ہے اسے فلاں دکان پر چھوڑ آؤ۔‘‘

    لے دے کر سارے گھر میں ایک غم گسار ہے اور وہ ہے میرا کتّا ’’موتی۔‘‘

    بڑا شریف جانور ہے۔ وہ نہ تو بھوتوں اور چڑیلوں کے قصّے سنا کر مجھے خوف زدہ کرنے کی کوشش کرتا، نہ مجھے نالائق کہہ کر میری حوصلہ شکنی کرتا ہے اور نہ اسے جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق ہے اور نہ ستار بجانے کا۔

    بس ذرا موج میں آئے تو تھوڑا سا بھونک لیتا ہے۔ جب اپنے بزرگوں سے تنگ آ جاتا ہوں تو اسے لے کر جنگل میں نکل جاتا ہوں۔

    کاش! میرے بزرگ سمجھ سکتے کہ میں بھی انسان ہوں۔ یا کاش، وہ اتنی جلدی نہ بھول جاتے کہ وہ کبھی میری طرح ایک چھوٹا سا لڑکا ہوا کرتے تھے۔

    کنہیا لال کپور کے مضمون "مجھے میرے بزرگوں سے بچاؤ” سے انتخاب

  • السلام علیکم کہا، نہ آداب، مزاج پوچھا نہ احوال!

    السلام علیکم کہا، نہ آداب، مزاج پوچھا نہ احوال!

    ضمیر جعفری جس انداز سے اپنے چاہنے والوں سے ملتے تھے، اسے خلوص یا تپاک کہنا کسر بیانی (Under-statement) ہو گا۔ ان کی چھلکتی ہمکتی گرم جوشی اس سے آگے کی چیز تھی۔

    ٹیلی فون پر بھی ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ’’جچھی‘‘ ڈال دی ہے اور اپنے 50 انچ چوڑے سینے سے علیٰحدہ نہیں ہونے دیں گے۔

    جیسے ہی وہ فون اٹھاتے اور میں کہتا، "میں یوسفی بول رہا ہوں” تو وہ نہ السلام علیکم کہتے، نہ آداب۔ مزاج پوچھتے نہ حال احوال۔ بلکہ مجھے بھی اتنا موقع نہ دیتے کہ یہ مراسم ادا کر سکوں۔

    فون پر بس ایک لفظی نعرۂ مستانہ سا سنائی دیتا: ’’جناب۔‘‘

    نہ میں نے کسی اور کو اس طرح لفظ ’’جناب‘‘ میں اپنی ساری شخصیت اور پیار کو سموتے سنا، نہ میں ان کے ’’جناب‘‘ کی نقل کرسکتا ہوں۔

    ممکن ہے ان کے چھوٹے صاحب زادے جو اپنے ابا کے دلآویز اور گونجیلے ترنم کی بڑی اچھی نقل کرتے ہیں، ان کے ’’جناب‘‘ کی گونج اور گمک بھی سنا سکیں۔

    وہ ’’جناب‘‘ کے ’’نا‘‘کو اپنی مخصوص لے میں اتنا کھینچتے کہ راگ دلار کا الاپ معلوم ہوتا۔

    کیسے بتاؤں کہ وہ اس سمپورن الاپ میں کیا کیا سمو دیتے تھے۔

    (مشہور مزاح نگار سید ضمیر جعفری سے متعلق مشتاق احمد یوسفی کی تحریر سے انتخاب)

  • آ کے ہم کو بھی ”تا” کرے کوئی!

    آ کے ہم کو بھی ”تا” کرے کوئی!

    بابائے ظرافت سید ضمیر جعفری کو ہم سے بچھڑے بیس برس بیت چکے ہیں۔ اردو ادب میں‌ نثر ہو یا نظم طنز و مزاح کے لیے مشہور شخصیات میں‌ ضمیر جعفری‌ کا نام اپنے موضوعات اور شائستہ انداز کی وجہ سے سرِفہرست رہے گا۔

    سماج کے مختلف مسائل، خوبیوں اور خامیوں‌ کو اجاگر کرنے کے ساتھ انھوں نے ہماری تفریحِ طبع کا خوب سامان کیا۔

    سید ضمیر جعفری نے ہمیشہ پُر وقار انداز میں بامقصد تفریح کا موقع دیا۔ ان کی یہ غزل آپ کو ضرور مسکرانے پر مجبور کردے گی۔

    نمکین غزل
    شب کو دلیا دلا کرے کوئی
    صبح کو ناشتہ کرے کوئی

    آدمی سے سلوک دنیا کا
    جیسے انڈا تلا کرے کوئی

    سوچتا ہوں کہ اس زمانے میں
    دادی اماں کو کیا کرے کوئی

    جس سے گھر ہی چلے نہ ملک چلے
    ایسی تعلیم کیا کرے کوئی

    ایسی قسمت کہاں ضمیرؔ اپنی
    آ کے پیچھے سے ”تا” کرے کوئی

  • مرید پور کے پیر اور ان کا بھتیجا!

    مرید پور کے پیر اور ان کا بھتیجا!

    میرا بھتیجا دیکھنے میں عام بھتیجوں سے مختلف نہیں۔ میری تمام خوبیاں اس میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ نئی پود سے تعلق رکھنے کے باعث اس میں بعض فالتو اوصاف نظر آتے ہیں۔ لیکن ایک صفت تو اس میں ایسی ہے کہ آج تک ہمارے خاندان میں اس شدت کے ساتھ کبھی رونما نہیں ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ بڑوں کی عزت کرتا ہے۔ اور میں تو اس کے نزدیک بس علم و فن کا ایک دیوتا ہوں۔

    یہ خبط اس کے دماغ میں کیوں سمایا ہے؟ اس کی وجہ میں یہی بتا سکتا ہوں کہ نہایت اعلیٰ سے اعلیٰ خاندانوں میں بھی کبھی کبھی ایسا دیکھنے میں آ جاتا ہے۔ میں شائستہ سے شائستہ دو زمانوں کے فرزندوں کو بعض وقت بزرگوں کا اس قدر احترام کرتے دیکھا، کہ ان پر پنچ ذات کا دھوکا ہونے لگتا ہے۔

    ایک سال میں کانگریس کے جلسے میں چلا گیا۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ کانگریس کا جلسہ میرے پاس چلا آیا۔ مطلب یہ کہ جس شہر میں، میں موجود تھا وہیں کانگریس والوں نے بھی اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی ٹھان لی۔

    جب کانگریس کا سالانہ جلسہ بغل میں ہو رہا ہو تو کون ایسا متقی ہو گا جو وہاں جانے سے گریز کرے، زمانہ بھی تعطیلات اور فرصت کا تھا چنانچہ میں نے مشغلۂ بیکاری کے طور پر اس جلسے کی ایک ایک تقریری سنی۔ دن بھر تو جلسے میں رہتا۔ رات کو گھر آ کر اس دن کے مختصر سے حالات اپنے بھتیجے کو لکھ بھیجتا تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔

    بعد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بھتیجے صاحب میرے ہر خط کو بے حد ادب و احترام کے ساتھ کھولتے، بلکہ بعض بعض باتوں سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس افتتاحی تقریب سے پیش تر وہ باقاعدہ وضو بھی کر لیتے۔ خط کو خود پڑھتے پھر دوستوں کو سناتے۔ پھر اخباروں کے ایجنٹ کی دکان پر مقامی لال بجھکڑوں کے حلقے میں اس کو خوب بڑھا چڑھا کر دہراتے، پھر مقامی اخبار کے بے حد مقامی ایڈیٹر کے حوالے کر دیتے جو اس کو بڑے اہتمام کے ساتھ چھاپ دیتا۔

    یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس اخبار نے میرے ان خطوط کے بل پر ایک کانگریس نمبر بھی نکال مارا جو اتنی بڑی تعداد میں چھپا کہ اس کے اوراق اب تک بعض پنساریوں کی دکانوں پر نظر آتے ہیں۔ بہرحال مرید پور کے بچے بچے نے میری قابلیت، انشا پردازی، صحیح الدماغی اور جوشِ قومی کی داد دی۔

    میری اجازت اور میرے علم کے بغیر مجھ کو مرید پور کا قومی لیڈر قرار دیا گیا۔ ایک دو شاعروں نے مجھ پر نظمیں بھی لکھیں۔ جو وقتاً فوقتاً مرید پور گزٹ میں چھپتی رہیں۔

    میں اپنی اس عزت افزائی سے محض بے خبر تھا۔ سچ ہے خدا جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے، مجھے معلوم تھا کہ میں اپنے بھتیجے کو محض چند خطوط لکھ کر اپنے ہم وطنوں کے دل میں اس قدر گھر کر لیا ہے۔

    (پطرس بخاری کے مزاحیہ مضمون "مرید پور کا پیر” سے انتخاب)