Tag: مزاحیہ ادب

  • مَردوں کا سچ…

    مَردوں کا سچ…

    جب یہ امر طے شدہ ہے کہ مرد عورتوں سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، تو اسے تحقیق کے ذریعے ثابت اور بے چارے مردوں کو مزید رسوا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

    برطانیہ کے محققین کو نہ جانے کیا سوجھی کہ بیٹھے بٹھائے مردوں اور عورتوں کی دروغ گوئی کی پیمائش کر ڈالی اور سروے کے ذریعے مردوں کو زیادہ جھوٹا قرار دے دیا۔ دراصل سروے میں معصوم مردوں نے سچ سچ بتا دیا کہ وہ روزانہ کم از کم تین جھوٹ بولتے ہیں، یوں عورتوں سے بڑھ کر جھوٹے ٹھہرائے گئے۔

    محققین نے یہ تو جان لیا کہ مرد عورتوں سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، مگر یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ آخر وہ ایسا کرتے کیوں ہیں؟ ارے یہ جھوٹ ہی تو ہے جس کے سہارے مرد جی لیتے ہیں، ورنہ ہر مرد یہی دعا مانگتا نظر آئے ؎

    اب کے جنم موہے ”کاکا“ نہ کیجو

    جھوٹ مردوں کی مجبوری اور ان کی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ خاص طور پر اس برادری کی مظلوم ترین ”نوع“ شوہروں کا دروغ گوئی کے بغیر گزارہ ہی نہیں۔ اب خدا لگتی کہیے، شادی کے دس پندرہ سال بعد،”میں کیسی لگ رہی ہوں“ کے ”اہلیانہ“ سوال کا جواب پوری سچائی کے ساتھ دیا جاسکتا ہے؟

    ایسے کتنے ہی سوال ہر روز شوہروں کے سامنے کھڑے کہہ رہے ہوتے ہیں، ”ہمت ہے تو سچ بول کے دکھا۔“ اسی طرح،”چَن کِتھاں گزاری ائی رات وے“ کا سیدھا سچا جواب ”چن“ کے دن رات کا چین چھین لے گا، چناں چہ اسے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی کہانی گھڑنا پڑتی ہے۔

    ”کیا آپ نے شادی سے پہلی کسی سے محبت کی ہے“ کا شَک میں گُندھا بلکہ سَنا ہوا استفسار اس لیے نہیں ہوتا کہ شوہر پڑوس کی بانو، پچھلی گلی کی رانو، اَگلی گلی کی چَھپن چُھری، کالج کی حمیدہ، یونیورسٹی کی زبیدہ اور دفتر کی سعیدہ سے تعلق کے گُفتنی اور ناگُفتنی تذکرے چھیڑ دے اور اہلیہ برداشت کی پوری اہلیت کے ساتھ مزے لے لے کر سُنتی رہیں، بلکہ بیگم صاحبہ صرف یہ سُننا چاہتی ہیں کہ تم میری پہلی اور آخری محبت ہو، لہذا ”پہلی“ سے پہلے ”شادی کے بعد“ اور ”آخری“ سے قبل ”اب تک کی“ کے ٹکڑے دل ہی دل میں جوڑ کر حسبِ منشا جواب دے دیا جاتا ہے۔

    نصف بہتر کے ہاتھ کا بدترین کھانا بھی ”واہ واہ“ کر کے پیٹ میں انڈیلنا پڑتا ہے، ورنہ شوہر غریب کتنی ہی دیر کھا جانے والی نظروں کا سامنا کرتا رہے گا اور اس کے کان کھائے جاتے رہیں گے۔

    اب آپ ہی فیصلہ کیجیے مرد جھوٹے ہیں یا وہ لوگ ظالم ہیں جو مردانہ مجبوریوں کو جھوٹ کا مکروہ نام دیتے ہیں؟

    (محمد عثمان جامعی کی مزاحیہ تحریروں کے مجموعے ” کہے بغیر ” سے انتخاب)

  • بھورے خاں آشفتہ کا مردہ!

    بھورے خاں آشفتہ کا مردہ!

    ہم نے لکھنؤ میں ہندوستان کے ایک محقق کاظم علی خاں سے پوچھ لیا۔
    ”آج کل آپ کس موضوع پر تحقیق کررہے ہیں؟“

    انھوں نے جواب دیا۔ ”مصحفی کے ایک ہم عصر بھورے خاں آشفتہؔ کے سالِ وفات پر تحقیق جاری ہے۔“

    اس کے بعد دو گھنٹے تک وہ ہمیں اس کے نتائج سے مستفید فرماتے رہے۔

    جب بھورے خاں آشفتہ کا مردہ اچھی طرح خراب ہوچکا تو انھوں نے ہماری طرف ایسی نظروں سے دیکھا جیسے ہم ہی بھورے خاں آشفتہ ہوں۔

    پوچھا، ”آپ کی کیا رائے ہے؟“

    ہم نے کہا، ”آپ نے بھورے خاں کے ساتھ ہمارا بھی سالِ وفات ہی نہیں، تاریخ، مہینہ اور دن بھی متعین کردیا ہے۔“

    ہمارے جواب پر وہ خوش ہوئے اور کہنے لگے، ”جی ہاں تحقیق میں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ آپ کسی ایک شخص کا سالِ وفات تلاش کریں تو بہت سوں کے سال ہائے وفات خود بخود معلوم ہوتے چلے جاتے ہیں۔“

    (مشفق خواجہ کے قلم سے)

  • سَر درد کی گولی کے "سائیڈ ایفیکٹس” تو  جان لیں!

    سَر درد کی گولی کے "سائیڈ ایفیکٹس” تو جان لیں!

    ادب میں‌ جہاں سیاست سے سماج تک ہر شعبے میں عام مسائل اور مختلف خامیوں اور برائیوں کی نشان دہی کے لیے نثر نگاروں نے طنز و مزاح کا سہارا لیا ہے، وہیں، شعرا نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔

    انور مسعود پاکستان کے ممتاز مزاح گو شاعر ہیں۔ یہاں ہم ان کی ایک مزاحیہ نظم پیش کررہے ہیں جو ایک طرف تو آپ کو مسکرانے پر مجبور کردے گی، اور دوسری جانب یہ غیر ضروری اور معمولی شکایت کی صورت میں ادویہ کے استعمال کی حوصلہ شکنی بھی کرتی ہے۔

    اگر صرف سَر درد کی بات کی جائے تو اکثر اسکرین کے سامنے مسلسل اور زیادہ وقت گزارنے، موسمی اثرات جیسے تیز دھوپ میں رہنے کی وجہ سے بھی سَر میں بھاری پن اور درد محسوس ہوسکتا ہے، اور یہ کیفیت کچھ دیر بعد ختم ہوجاتی ہے، لیکن بعض لوگ درد کُش ادویہ کے ذریعے مسئلے سے فوری نجات چاہتے ہیں جس سے بچنا چاہیے۔

    اگر چند گھنٹوں کے آرام سے مسئلہ حل نہ ہو اور آپ سمجھتے ہوں کہ اس سَر درد کی کوئی خاص وجہ ہے تو مستند معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔

    اب آپ اس مزاحیہ کلام سے لطف اندوز ہوتے ہوئے "ازخود” علاج کی صورت میں پیدا ہونے والے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرسکتے ہیں۔

    سَر درد میں گولی یہ بڑی زود اثر ہے
    پر تھوڑا سا نقصان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتی ہے پیدا کوئی تبخیر کی صورت
    دل تنگ و پریشان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتی ہے کچھ ثقلِ سماعت کی شکایت
    بیکار کوئی کان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ممکن ہے خرابی کوئی ہو جائے جگر میں
    ہاں آپ کو یرقان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    پڑ سکتی ہے کچھ جلد خراشی کی ضرورت
    خارش کا کچھ امکان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتی ہیں یادیں بھی ذرا اس سے متاثر
    معمولی سا نسیان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    بینائی کے حق میں بھی یہ گولی نہیں اچھی
    دیدہ کوئی حیران بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتا ہے لاحق کوئی پیچیدہ مرض بھی
    گردہ کوئی ویران بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ممکن ہے کہ ہو جائے نشہ اس سے ذرا سا
    پھر آپ کا چالان بھی ہو سکتا ہے اس سے

  • گدھوں کی خوبیاں

    گدھوں کی خوبیاں

    میں گدھوں کی خوبیاں نہیں گنواؤں گا، اگر آپ خود بال بچوں والے ہیں تو آپ کو یقینا یاد ہو گا کہ آپ اپنے بیٹے سے لاڈ کرتے ہوئے، اسے مخاطب کرتے ہوئے ہمیشہ کہا کرتے تھے:

    ”اوئے گدھے“ بلکہ جب بہت ہی پیار آتا تھا تو اسے گدھے کا بچہ بھی کہہ دیتے تھے۔

    یہ سوچنے کی بات ہے کہ آپ اپنے چھوٹے بچوں کو لاڈ پیار سے یہ کبھی نہیں کہتے کہ اوئے مگرمچھ یا اوئے گھوڑے کے بچے۔ صرف گدھے کے بچے کہتے ہیں تو اس سے گدھے کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

    ایک بار لاہور کے ڈیفنس میں مَیں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک گدھا گاڑی والا سنگِ مَرمَر کی ٹائلیں گاڑی پر لاد رہا ہے اور ان کا وزن اتنا ہے کہ پورے کا پورا گدھا ہوا میں معلق ہو چکا ہے اور بے بسی سے ٹانگیں چلا رہا ہے۔

    باقاعدہ گدھا بھی نہیں تھا، گدھے کا بچہ تھا۔ تو مجھے بہت ترس آیا اور میں نے اس کے مالک سے کہا کہ بھائی یہ بے زبان جانور ہے۔ ریڑھی پر اتنا وزن تو نہ لوڈ کرو کہ یہ بے چارہ ہوا میں معلق ہو کر ٹانگیں چلانے لگے تو وہ ہنس کر بولا۔

    ”صاحب آپ نہیں جانتے کہ یہ اس لمحے زندگی سے بہت لطف اندوز ہو رہا ہے بلکہ ہوا میں ریلیکس کر رہا ہے اور یوں ٹانگیں چلانے سے اس کی تھکن دور ہو رہی ہے۔“

    ٹائلیں لوڈ کرنے کے بعد گاڑی والے نے ہوا میں معلق گدھے کو کان سے پکڑ کر نیچے کیا، اس کے پاؤں زمین تک نہیں لایا اور اس سے پیشتر کہ وہ گاڑی کے بوجھ سے پھر بلند ہو جاتا، اُچک کر گاڑی کے اگلے حصے پر بیٹھ گیا اور یوں اس کے وزن سے گاڑی بیلنس میں آ گئی اور گدھا نہایت مزے سے کان ہلاتا سڑک پر رواں ہو گیا۔

    (طنز و مزاح، مستنصر حسین تارڑ کے قلم سے)

  • "چپل پہن کر بینک جائیں اور….”

    "چپل پہن کر بینک جائیں اور….”

    جوتا ایسی چیز نہیں کہ زیور کی طرح مانگ تانگ کر پہن لیا جائے۔ اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا کہ چپل پہن کر بینک جائیں اور تین دن بعد تنخواہ ملے تو نیا جوتا خرید لیں۔

    پھر خیال آیا کہ اگر اینڈرسن پوچھ بیٹھا کہ آج انسپکشن ڈیپارٹمنٹ چپل پہنے کیوں پھر رہا ہے تو کیا جواب دیں گے۔
    ایک دفعہ ایک افسر بینک میں بغیر ٹائی کے آگیا تو اینڈرسن نے اس سے پوچھا کہ آج کیا بینک ہالی ڈے ہے جو یوں ننگ دھڑنگ پھر رہے ہو؟

    اسی طرح ایک کلرک کا تین دن کا بڑھا ہوا شیو دیکھ کر دوّنی پکڑاتے ہوئے کہنے لگا کہ اپنا کیمو فلاج منڈوا کر آؤ تاکہ چہرہ شناخت کر کے رجسٹر میں حاضری لگائی جاسکے۔

    ذہن پر زور ڈالا تو اس کا حل بھی نکل آیا۔ چپل پہن کر ایک پیر پر پٹی باندھ لیں گے۔

    کسی نے پوچھا تو کہہ دیں گے، چوٹ لگ گئی ہے اور یہ کچھ ایسا جھوٹ بھی نہیں۔ آخر اندرونی چوٹ تو آئی ہی تھی جس کے بارے میں حضرت نوحؔ ناروی سہلِ ممتنع میں فرما گئے ہیں:

    جگر کی چوٹ اوپر سے کہیں معلوم ہوتی ہے
    جگر کی چوٹ اوپر سے نہیں معلوم ہوتی ہے

    ایک مونڈھے پر نیلے رنگ کا جھاڑن پڑا نظر آیا۔ اس میں سے ایک لمبی سی دَھجی پھاڑ کر پٹی باندھ لی۔ سہ پہر کو اینڈر سن کی نظر پڑی تو کہنے لگا کہ زخم پر کبھی رنگیں پٹی نہیں باندھنی چاہیے، پک جاتا ہے، خصوصاً برسات میں۔

    دوسرے دن صبح دونوں کام پر جانے کے لیے تیار ہونے لگے تو بیگم دوپٹا اوڑھتے ہوئے کہنے لگیں کہ تمہارے ان لاڈلوں نے ناک میں دَم کر رکھا ہے اور کچھ نہیں تو کم بخت آدھا دوپٹا ہی پھاڑ کر لے گئے۔

    ہم نے پٹی بجنسہٖ واپس کر دی اور جلدی جلدی ایک پھٹے پاجامے کے لٹھے کی سفید پٹی باندھ کر بینک چلے گئے۔
    گیارہ بجے کسی کام سے اینڈرسن نے طلب کیا۔ واپس آنے لگے تو عینک کو ناک کی پھننگ پر رکھ کر اس کے اوپر سے دیکھتے ہوئے فرمایا: Just a minute, Tamerlane، تمہارے زخم نے چوبیس گھنٹے میں کافی مسافت طے کی ہے، دائیں سے بائیں پیر میں منتقل ہو گیا ہے۔

    اب جو ہم نے نگاہ ڈالی تو دَھک سے رہ گئے۔ افراتفری میں آج دوسرے یعنی بائیں پیر پر پٹی باندھ کر آگئے تھے۔

    (معروف مزاح نگار مشتاق یوسفی کی کتاب زرگزشت سے انتخاب)

  • کیا آپ بھی ان تین چیزوں‌ سے ڈرتے ہیں؟

    کیا آپ بھی ان تین چیزوں‌ سے ڈرتے ہیں؟

    ہم تین چیزوں سے بہت ڈرتے ہیں۔ تجریدی مصوری سے، علامتی افسانے سے اور اساتذہ کے کلام سے۔

    وجہ یہ ہے کہ اِن تینوں کے مفہوم اخذ کرنا ناظر یا قاری کی ذمہ داری ہے نہ کہ مصور، افسانہ نگار اور شاعر کی۔ مصور الوان و خطوط سے، افسانہ نگار الفاظ سے اور اساتذۂ سخن ردیف و قوانی سے فن پارے کو اِس حد تک گراں بار کر دیتے ہیں کہ اس میں مزید کوئی بار اُٹھانے کی گنجائش نہیں رہتی۔ لہٰذا مفہوم و معنی کا یہ بار ہم جیسے ناتوانوں کو اُٹھانا پڑتا ہے۔

    میر تقی میر کو بھی اِس قسم کا تجربہ ہوا تھا جس کا ذکر اِس شعر میں ملتا ہے:

    سب پہ جس بار نے گرانی کی
    اس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا

    ہم تجریدی مصوری کی نمائشوں میں کبھی نہیں جاتے، یہاں تک احتیاط برتتے ہیں کہ جب شہر میں اِس قسم کی کوئی نمائش ہوتی ہے، تو گھر سے باہر نہیں نکلتے کہ کہیں فضائی آلودگی ہم پر بھی اثر انداز نہ ہوجائے۔
    علامتی افسانے لکھنے والوں کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ انھوں نے گفتگو میں علامتوں سے کام لیا تو ہمارا حشر بھی وہی ہوگا جو افسانے کی صنف کا ہوا ہے۔

    اساتذۂ سخن کا ہم بے حد ادب کرتے ہیں اور اِسی وجہ سے ہم نے کبھی ان سے بے تکلف ہونے کی جسارت نہیں کی۔ یعنی ان کے دواوین کے قریب جانا اور چھونا تو کیا، انھیں دور سے دیکھنا بھی ہمارے نزدیک سوء ادب ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے، تو بڑی جماعتوں کے طالب علموں کو ان کی شرارتوں پر جو سخت سزا دی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ ان سے استاد ذوق کی کسی غزل کی شرح لکھوائی جاتی تھی۔

    یہی سبب ہے کہ ہم نے بڑی جماعتوں میں پہنچنے سے پہلے ہی سلسلۂ تعلیم منقطع کر لیا۔ معلوم نہیں آج کل اسکولوں میں اِس قسم کی سزائیں دینے کا رواج ہے یا نہیں۔

    مشفق خواجہ کے قلم سے ایک شگفتہ پارہ

  • جہاز میں زاہد حسین نہیں تھا!

    جہاز میں زاہد حسین نہیں تھا!

    ہمارے ایک ٹیچر مشتاق نامی لڑکے سے بہت بیزار تھے۔

    مشتاق کا کمال یہ تھا کہ اسے جو بھی مضمون لکھنے کو کہتے وہ اس میں کہیں نہ کہیں سے "میرا بہترین دوست” ضرور فٹ کردیتا تھا جو اسے فَر فَر یاد تھا۔

    مثال کے طور پر اسے کہا جاتا کہ ریلوے اسٹیشن پر مضمون لکھ دو تو وہ یوں لکھتا کہ میں اور میرے ماں باپ چیچو کی ملیاں جانے کے لیے ریلوے اسٹیشن گئے، وہاں گاڑی کھڑی تھی اور گاڑی میں میرا بہترین دوست زاہد بیٹھا تھا- زاہد حسین میرا کلاس فیلو ہے، اس کے تین بہن بھائی ہیں، اس کا باپ محکمہ پولیس میں افسر ہے- زاہد حسین بہت اچھا لڑکا ہے۔

    اگر اسے "میرا استاد” مضمون لکھنے کو کہتے تو وہ لکھتا۔

    ماسٹر افتخار میرے پسندیدہ استاد ہیں۔ ایک روز میں ان سے ملنے ان کے گھر گیا تو وہاں میرا بہترین دوست زاہد بیٹھا تھا- زاہد حسین میرا کلاس فیلو ہے۔ اس کے تین بہن بھائی ہیں۔ اس کا باپ محکمہ پولیس میں افسر ہے- زاہد حسین بہت اچھا لڑکا ہے۔

    ظاہر ہے جب کرکٹ میچ یا پکنک کی باری آتی تو وہاں بھی زاہد حسین موجود ہوتا ہے۔ تنگ آکر ماسٹر صاحب نے کہا کہ دیکھو یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہر جگہ تمھارا دوست زاہد حسین موجود ہو۔ آج تم ہوائی جہاز پر مضون لکھو اور یاد رکھو ہوائی جہاز میں زاہد حسین موجود نہیں ہونا چاہیے۔

    دوسرے دن مشتاق نے مضمون لکھا وہ اس طرح تھا۔

    میں اپنے ماں باپ کے ساتھ ایئرپورٹ گیا۔ وہاں جہاز کھڑا تھا، ہم اس میں بیٹھ گئے۔ جہاز میں زاہد حسین نہیں تھا۔ پھر جہاز اڑنے لگا۔ میں نے کھڑکی سے نیچے جھانکا تو زمین پر میرا بہترین دوست زاہد جا رہا تھا۔ زاہد حسین میرا کلاس فیلو ہے۔ اس کے تین بہن بھائی……

  • امورِ خانہ داری: میز پوش سینے اور کپڑے دھونے کا انوکھا طریقہ!

    امورِ خانہ داری: میز پوش سینے اور کپڑے دھونے کا انوکھا طریقہ!

    میز پوش سینا

    جس میز کے لیے پوش درکار ہوں، اس کا ناپ لو۔
    بہتر ہو گا کہ کپڑے کو میز پر پھیلا کر لمبائی چوڑائی کے مطابق وہیں قینچی سے قطع کر لیا جائے۔
    اب ہاتھ یا پاؤں سے چلنے والی سلائی کی مشین منگاؤ۔ سوئی میں دھاگہ پرو کر میز پوش کے ایک کونے سے سلائی شروع کرو اور سیتی چلی جاؤ حتیٰ کہ وہی کونا آ جائے جہاں سے بخیہ شروع کیا تھا۔
    اب میز پوش کو استعمال کے لیے تیار سمجھو۔ اگر سیتے وقت سارے کپڑے کے دو چکر لگ جائیں تو دگنا پائیدار میز پوش تیار ہو گا۔ ضرورت کے مطابق بعد میں کسی سے بیل بوٹے کڑھوائے جا سکتے ہیں۔

    کپڑے ڈرائی کلین کرنا

    مناسب کپڑے چُن کر ایک سمجھ دار ملازم کے ہاتھ ڈرائی کلین کی دکان پر بھجوا دو۔
    بھیجنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ صرف وہی کپڑے بھیجو جنہیں بعد میں پہچان سکو۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کپڑے واقعی ڈرائی کلین کیے گئے ہیں ایک بڑی آزمودہ ترکیب ہے۔
    کپڑوں کو سونگھ کر دیکھو، اگر پٹرول کی بو آ رہی ہو تو سمجھ لو ٹھیک ہے۔ اب کپڑے ڈرائی کلین ہو چکے ہیں اور انہیں فوراً استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
    (ایک شگفتہ تحریر، معروف مزاح نگار شفیق الرحمٰن کے قلم سے)