Tag: مزاحیہ اقتباس

  • ”میں تو تابع دار ہوں…“

    ”میں تو تابع دار ہوں…“

    بڑا مبارک ہوتا ہے وہ دن جب کوئی نیا خانساماں گھر میں آئے اور اس سے بھی زیادہ مبارک وہ دن جب وہ چلا جائے! چونکہ ایسے مبارک دن سال میں کئی بار آتے ہیں اور تلخیٔ کام و دہن کی آزمائش کر کے گزر جاتے ہیں۔ اس لیے اطمینان کاسانس لینا، بقول شاعر صرف دو ہی موقعوں پر نصیب ہوتا ہے…

    اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد

    عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بدذائقہ کھانا پکانے کا ہنر صرف تعلیم یافتہ بیگمات کو آتا ہے لیکن ہم اعداد و شمار سے ثابت کر سکتے ہیں کہ پیشہ ور خانساماں اس فن میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے ہنسنا اور کھانا آتا ہے۔ اسی وجہ سے پچھلے سو برس سے یہ فن کوئی ترقی نہیں کر سکے۔

    کچھ دن ہوئے ایک مڈل فیل خانساماں ملازمت کی تلاش میں آنکلا اور آتے ہی ہمارا نام اور پیشہ پوچھا۔ پھر سابق خانساماؤں کے پتے دریافت کیے۔ نیز یہ کہ آخری خانساماں نے ملازمت کیوں چھوڑی؟ باتوں باتوں میں انھوں نے یہ عندیہ بھی لینے کی کوشش کی کہ ہم ہفتے میں کتنی دفعہ باہر مدعو ہوتے ہیں اور باورچی خانے میں چینی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز سے ہمارے اعصاب اور اخلاق پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے۔ ایک شرط انھوں نے یہ بھی لگائی کہ اگر آپ گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑ پر جائیں گے تو پہلے ”عوضی مالک“ پیش کرنا پڑے گا۔

    کافی رد و کدّ کے بعد ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہم میں وہی خوبیاں تلاش کر رہے ہیں جو ہم ان میں ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی اور کام کے اوقات کا سوال آیا تو ہم نے کہا کہ اصولاً ہمیں محنتی آدمی پسند ہیں۔ خود بیگم صاحبہ صبح پانچ بجے سے رات کے دس بجے تک گھر کے کام کاج میں جٹی رہتی ہیں۔ کہنے لگے، ”صاحب! ان کی بات چھوڑیئے۔ وہ گھرکی مالک ہیں۔ میں تو نوکر ہوں!“ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ برتن نہیں مانجھوں گا۔ جھاڑو نہیں دوں گا۔ ایش ٹرے صاف نہیں کروں گا۔ میز نہیں لگاؤں گا۔ دعوتوں میں ہاتھ نہیں دھلاؤں گا۔

    ہم نے گھبرا کر پوچھا، ”پھر کیا کرو گے؟“

    ”یہ تو آپ بتائیے۔ کام آپ کو لینا ہے۔ میں تو تابع دار ہوں۔“

  • فلم ایکٹریس کی ڈاک

    فلم ایکٹریس کی ڈاک

    دراصل سب سے زیادہ ڈاک تو اس سرکاری افسر کی ہوتی ہے، جس نے کلرکی کی اسامی کے لیے اشتہار دے رکھا ہو۔ اور اس سے دوسرے درجے پر اس شخص کی ڈاک ہوتی ہے جس نے امساک کی گولیاں بطور نمونہ مفت کا اعلان کر رکھا ہو۔ لیکن دل چسپ ترین ڈاک صرف دو شخصیتوں ہی کی ہوتی ہے۔ ایڈیٹر کی ڈاک اور فلم ایکٹرس کی ڈاک۔

    جس قسم کے خطوط ایکٹرس کو روزانہ موصول ہوتے رہتے ہیں اس کے چند نمونے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔ پڑھیے اور لطف اٹھائیے۔

    فلمی ایڈیٹر کا ایک خط

    محترمہ، تسلیم!
    ’’فلم کی بات‘‘ تازہ پرچہ ارسال خدمت ہے، سرورق پر اپنی سہ رنگی تصویر ملاحظہ فرمائیے اور یاد رہے کہ اس ہفتہ غازی مصطفیٰ کمال پاشا کی تصویر شائع کرنا ضروری تھا کیونکہ رسالہ کے اندر اس کی وہ تقریر درج ہے جو اس نے فلموں کی حمایت میں کی۔ لیکن میری قربانی دیکھیے کہ میں نے اس حقیقت کو جانتے ہوئے آپ کی تصویر شائع کی کہ اگر میں غازی موصوف کی تصویر شائع کرتا تو ان کی فلمی تقریر کے علاوہ انٹریو کانفرنس کی مناسبت سے یہ پرچہ سیکڑوں کی تعداد میں فروخت ہوجاتا۔ لیکن میں نے اس کی پروا نہیں کی اور آپ کی تصویر کی مناسبت سے اس تازہ فلم ’’تیر کی نوک‘‘ پر بھی بسیط تبصرہ کر دیا ہے جس میں آپ نے ہیروئن کا پارٹ ادا کیا ہے۔

    آپ اس تبصرے کو غور سے پڑھیے اور دیکھیے کہ پارٹ کے اندر جہاں جہاں آپ نے لغزشیں کی ہیں۔ میں نے ان لغزشوں کو آپ کی بہترین خوبیاں ثابت کیا ہے۔ دوست مجھے طعنہ دیتے ہیں کہ تم نے مس……. کو دنیا بھر کی ایکٹرسوں سے بڑھا دیا ہے۔ لیکن میں ان سے کہتا ہوں کہ محترمہ فی الحقیقت دنیا بھر کی ایکٹرسوں کی سرتاج ہیں اور عنقریب بالی وڈ والے آپ کو بلانے والے ہیں۔

    پچھلی دفعہ جب میں نے آپ کی ایکٹری پر ایک ہنگامہ خیز مضمون لکھا تھا۔ اس وقت سے آپ کے دشمن میرے رسالے کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں اور مجھے بہت نقصان ہو رہا ہے، آپ نے جو دس روپے کا منی آرڈر بھیجا تھا اس سے کاتب کا بل بھی نہ چکایا جا سکا۔ پانچ اور ہوتے تو کم ازکم یہ بلا تو سَر سے ٹل جاتی۔

    بہرحال آپ میرا خیال رکھیں نہ رکھیں، مجھے تو آپ کی ترقی کا ہر وقت خیال رہتا ہے اور خواہ میرے رسالے کی اشاعت کتنی ہی کیوں نہ گھٹ جائے، میں حق گوئی سے باز نہیں رہ سکتا تھا۔

    اور سچ پوچھو تو یہ آپ پر کوئی احسان بھی نہیں کیونکہ آپ کے فنی اوصاف پر مضامین لکھنا فن کی خدمت کرنا ہے۔ اور حاضریٔ حسن کی تعریف پر خامہ خرسائی کرنا مصورِ فطرت کے شاہکار کا اعتراف۔ ساٹھویں سالگرہ مبارک!
    نیاز مند ایڈیٹر

    ایک بیرسٹر کا خط

    مس صاحبہ!
    آداب عرض
    اگر آپ اخبارات میں عدالتی کالموں کا مطالعہ کرتی ہیں تو ضروری بات ہے کہ آپ میرے نام سے واقف ہوں، کیونکہ میں نوجوان ہونے کے باوجود نہ صرف اپنے شہر کا ایک کامیاب ترین قانون داں ہوں بلکہ ملک کے ہر حصے میں بلایا جاتا ہوں۔

    باعثِ تحریر آنکہ میں نے ایک مقامی رسالہ ’’داستان فلم‘‘ میں آپ کے خلاف ایک مضمون پڑھا ہے، جو تعزیرات فلم کی دفعہ 99 کی زد میں آتا ہے۔ اور ایڈیٹر پر ’’ازالہ کی حیثیت فلمی‘‘ کا دعوی دائر کیا جاسکتا ہے، رسالہ ایک بڑے سرمایہ دار کی ملکیت ہے اور اس سے بہت بڑی رقم حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لیے اگر آپ میری مؤکل بننا چاہیں تو میری قانونی خدمات حاضر ہیں اور پانچ ہزار روپے کی ڈگری مع حرجہ خرچہ کے دلانے کا یقین دلاتا ہوں۔

    باقی رہا میرے محنتانہ کا سوال، اس کے متعلق عرض ہے کہ مجھے اپنے نیاز مندوں ہی میں شمار کیجیے اور اس وہم میں نہ پڑجائیے کہ میں نقد معاوضہ کے لالچ میں آکر یہ تجویز پیش کر رہا ہوں۔ خدا نے مجھے بہت کچھ دے رکھا ہے۔ البتہ میرا مطلب یہ ہے کہ زرِ نقد کی بجائے محنتانہ کی اور صورتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ اور اصولاً مجھے اور آپ کو کسی نہ کسی صورت پر متفق ہوجانا چاہیے۔ تشریح کی ضرورت نہیں، آپ ماشاء اللہ عقل مند ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ قانون کی رُو سے کوئی مؤکل اپنے وکیل سے محنتانہ ادھار نہیں کرسکتا۔

    یعنی محنتانہ نقد ہو یا بصورتِ ’’جنس‘‘ ہر حالت میں پیشگی لینا لازمی ہے۔ ورنہ وکیل پر حکومت مقدمہ چلا دیتی ہے۔ میں کنگال بنک کے مشہور مقدمۂ غبن کے سلسلے میں کلکتہ آرہا ہوں۔ ارشاد ہو تو قدم بوسی کا فخر حاصل کروں۔
    بندہ
    بیرسٹر ایٹ لا، عمر 25 سال

    شاعر کا خط

    جانِ جہاں!
    خدا جانے وہ کیسا زمانہ تھا، جب کہ شعراء کی قدر تھی، قدر دان اُمراء کسی شاعر کے ایک شعر پر خوش ہوکر اسے زر و جواہر سے مالا مال کر دیتے تھے۔ اب تو زبانی داد بھی بمشکل ملتی ہے۔ بقول حضرت اکبرؔ مرحوم؛

    بوسہ کیا ان سے گلوری بھی نہیں پاتا ہوں
    میں روز انہیں جاکے سنا آتا ہوں
    وہ یہ کہتے ہیں، کہ واہ خوب کہا ہے واللہ
    میں یہ کہتا ہوں کہ آداب بجا لاتا ہوں

    میں نے آپ کی شان میں نصف درجے قصیدے لکھ کر فلمی رسالوں میں شائع کرائے ہیں اور ان کی کاپیاں بھی آپ کی خدمت میں بھجواتا رہا۔ لیکن آپ سے اتنا نہیں ہوسکا کہ شکریے کی چٹھی ہی ارسال کر دیتیں۔ میں نے پچھلے دنوں لکھا تھا کہ اپنے دستخطوں سے اپنی ایک تصویر مرحمت فرمائیے۔ لیکن جواب نہ ملا۔ کیا قدر دانیِ فن اسی کا نام ہے؟
    سنا ہے آپ کی سال گرہ قریب آرہی ہے۔ ارادہ ہے کہ ایک قصیدہ لکھ کر خود حاضر ہوں گا۔
    والسلام
    خادم

    (اردو کے معروف مزاح نگار، کالم نویس اور صحافی حاجی لق لق کی شگفتہ بیانی)

  • گاہک اور دکان دار

    گاہک اور دکان دار

    کوئی شخص ایسا نظر آجائے جو حلیے اور چال ڈھال سے ذرا بھی گاہک معلوم ہو تو لکڑ منڈی کے دکان دار اس پر ٹوٹ پڑتے۔ بیشتر گاہک گرد و نواح کے دیہاتی ہوتے جو زندگی میں پہلی اور آخری بار لکڑی خریدنے کانپور آتے تھے۔ ان بیچاروں کا لکڑی سے دو ہی مرتبہ سابقہ پڑتا تھا۔ ایک اپنا گھر بناتے وقت دوسرے اپنا کریا کرم کرواتے سمے۔

    قیام پاکستان سے پہلے جن پڑھنے والوں نے دلّی یا لاہور کے ریلوے اسٹیشن کا نقشہ دیکھا ہے وہ اس چھینا جھپٹی کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ 1945 میں ہم نے دیکھا کہ دلّی سے لاہور آنے والی ٹرین کے رکتے ہی جیسے ہی مسافر نے اپنے جسم کا کوئی حصہ دروازے یا کھڑکی سے باہر نکالا، قلی نے اسی کو مضبوطی سے پکڑ کے سالم مسافر کو اپنی ہتھیلی پر رکھا اور ہوا میں ادھر اٹھا لیا اور اٹھا کر پلیٹ فارم پر کسی صراحی یا حقے کی چلم پر بٹھا دیا لیکن جو مسافر دوسرے مسافروں کے دھکے سے خودبخود ڈبّے سے باہر نکل پڑے، ان کا حشر ویسا ہی ہوا جیسا اردو کی کسی نئی نویلی کتاب کا نقادوں کے ہاتھ ہوتا ہے۔ جو چیز جتنی بھی جس کے ہاتھ لگی، سَر پر رکھ کر ہوا ہو گیا، دوسرے مرحلے میں مسافر پر ہوٹلوں کے دلال اور ایجنٹ ٹوٹ پڑتے۔ سفید ڈرل کا کوٹ پتلون، سفید قمیض، سفید رومال، سفید کینوس کے جوتے، سفید موزے، سفید دانت۔ اس کے باوجود محمد حسین آزاد کے الفاظ میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چنبیلی کا ڈھیر پڑا ہنس رہا ہے۔ ان کی ہر چیز سفید اور اجلی ہوتی، سوائے چہرے کے۔ ہنستے تو معلوم ہوتا توا ہنس رہا ہے۔

    یہ مسافر پر اس طرح گرتے جیسے انگلستان میں رگبی کی گیند اور ایک دوسرے پر کھلاڑی گرتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو کا مقصد خود کچھ حاصل کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو حاصل کرنے سے باز رکھنا ہوتا تھا۔

    مسلمان دلال ترکی ٹوپی سے پہچانے جاتے۔ وہ دلّی اور یوپی سے آنے والے مسلمان مسافروں کو ٹونٹی دار لوٹے، مستورات، کثرتِ اطفال اور قیمے والے پراٹھے کے بھبکے سے فوراً پہچان لیتے اور ’’برادرانِ اسلام السلام علیکم‘‘ کہہ کر لپٹ جاتے۔

    مسلمان مسافروں کے ساتھ صرف مسلمان دلال ہی دھینگا مشتی کرسکتے تھے۔ جس دلال کا ہاتھ مسافر کے کپڑوں کے مضبوط ترین حصے پر پڑتا وہی اسے گھسیٹتا ہوا باہر لے آتا۔ جن کا ہاتھ لباس کے کمزور یا بوسیدہ حصوں پر پڑتا، وہ بعد میں ان کو بطور دستی رومال استعمال کرتے۔ نیم ملبوس مسافر قدم قدم پر اپنی ستر کشائی کرواتا۔ اسٹیشن کے باہر قدم رکھتا تو لاتعداد پہلوان جنہوں نے اکھاڑے کو ناکافی محسوس کرکے تانگہ چلانے کا پیشہ اختیار کرلیا تھا خود کو اس پر چھوڑ دیتے۔ اگر مسافر کے تن پر کوئی چیتھڑا اتفاقاً بچ رہا تو اسے بھی نوچ کر تانگے کی پچھلی سیٹ پر رام چندر جی کی کھڑاؤں کی طرح سجا دیتے۔ اگر کسی کے چوڑی دار کے کمر بند کا سرا تانگے والے کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ غریب گرہ پر ہاتھ رکھے اسی میں بندھا چلا آتا۔

    (’’آبِ گم‘‘ از مشتاق احمد یوسفی سے اقتباس)

  • "یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگا تار بول کر بحث نہیں جیت سکتے!”

    "یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگا تار بول کر بحث نہیں جیت سکتے!”

    جو کچھ کہنے کا اردہ ہو ضرور کہیے۔ دورانِ گفتگو خاموش رہنے کی صرف ایک وجہ ہونی چاہیے۔ وہ یہ کہ آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

    ورنہ جتنی دیر چاہے، باتیں کیجیے۔ اگر کسی اور نے بولنا شروع کر دیا تو موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور کوئی دوسرا آپ کو بور کرنے لگے گا۔

    چنانچہ جب بولتے بولتے سانس لینے کے لیے رُکیں تو ہاتھ کے اشارے سے واضح کر دیں کہ ابھی بات ختم نہیں ہوئی یا قطع کلامی معاف کہہ کر پھر سے شروع کردیجیے۔ اگر کوئی دوسرا اپنی طویل گفتگو ختم نہیں کر رہا تو بے شک جمائیاں لیجیے، کھانسیے، بار بار گھڑی دیکھیے۔ ابھی آیا… کہہ کر باہر چلے جائیں یا پھر وہیں سو جائیے۔

    یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگا تار بول کر بحث نہیں جیت سکتے۔ اگر آپ ہار گئے تو مخالف کو آپ کی ذہانت پر شبہ ہو جائے گا۔ البتہ لڑیے مت، کیونکہ اس سے بحث میں خلل آ سکتا ہے۔ کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اسے بھی مت مانیے۔ لوگ ٹوکیں، تو الٹے سیدھے دلائل بلند آواز میں پیش کر کے انہیں خاموش کرا دیجیے، ورنہ خوامخواہ سر پر چڑھ جائیں گے۔

    دورانِ گفتگو لفظ آپ کا استعمال دو یا تین مرتبہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اصل چیز میں ہے۔ اگر آپ نے اپنے متعلق کچھ نہ کہا تو دوسرے اپنے متعلق کہنے لگیں گے۔ تعریفی جملوں کے استعمال سے پرہیز کریں۔ کبھی کسی کی تعریف مت کریں۔ ورنہ سننے والے کو شبہ ہو جائے گا کہ آپ کو اُس سے کوئی کام ہے۔

    اگر کسی شخص سے کچھ پوچھنا ہو تو، جسے وہ چُھپا رہا ہو، تو بار بار اُس کی بات کاٹ کر اُسے چڑائیے۔ وکیل بھی اسی طرح مقدّمے جیتتے ہیں۔

    (ممتاز مزاح نگار شفیق الرّحمٰن کی کتاب "مزید حماقتیں” سے اقتباس)