Tag: مزاحیہ تحریر

  • دوپٹے سے پٹے تک

    دوپٹے سے پٹے تک

    ’’اے ہے! یہ نگوڑا مارے دو ڈھائی گز کے دوپٹے تم سے نہیں سنبھلتے؟‘‘

    ’’غضب خدا کا، تمام مردوں کا سامنا ہو رہا ہے اور تمھارے سر پر دوپٹہ تک نہیں ٹکتا۔‘‘

    ’’الہیٰ خیر! یہ دوپٹہ ہے یا گلے کا ہار؟‘‘

    ’’ارے بی بی سَر پر دوپٹہ تو ڈالو۔‘‘

    یہ تیر اُن جملوں میں چند ہیں، جو ہم بچپن سے لے کر آج تک دوپٹہ اوڑھنے کے سلسلے میں بطور ہدایت، تنبیہ اور سرزنش کے گھر کی بڑی بوڑھیوں سے کھاتے چلے آرہے ہیں، اس لئے یہ تیر بھی بچپن ہی سے دوپٹے کی طرح چمٹ کر ہمیشہ ہمارے گلے کا ہار بنے رہے، خاص کر دادی اماں کی کڑی نظریں ہر وقت ہمارے دوپٹے کی نگرانی کرتی رہتیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہم نے دادی اماں کا دوپٹہ ہمیشہ ان کے سرہانے رکھا پایا، جس کے ایک کونے سے وہ ’پرس‘ کا کام لیتی تھیں اور خود عام طور پر دوپٹے سے بے نیاز صحن، آنگن یا لان میں گھوما کرتیں۔ گھر کی بزرگ خواتین کے نزدیک دوپٹے کا واحد مقصد سَر پوشی ہے، اور اس کے تحت وہ احکامات صادر کرتی رہتی ہیں، لیکن جوں جوں ہماری عمر بڑھتی گئی اس کے دوسرے مقاصد بھی معلوم ہوتے گئے۔ دوپٹے کے نت نئے فوائد کے آگے ہم نے اس کے اصل مقصد کو نظر انداز کر دیا، جسے ہماری نالائقی اور سرکشی سمجھا گیا۔ اب آپ ہی بتائیے، جب ان ہی بزرگوں نے ہمیں دوپٹے کے اتنے سارے مصرف سکھا دیے ہوں، تو پھر اس سے محض ایک ہی کام سَر ڈھانکنا، جس سے بظاہر کوئی خاص تو کیا، عام فائدہ بھی نظر نہیں آتا، کیوں لیں۔

    دوپٹے کا نام سنتے ہی آپ کی نظروں میں رنگ برنگے دوپٹے لہرانے لگے ہوں گے، نیلے پیلے، اودے ہرے، سرخ و سبز، زرد و دھانی دوپٹے۔ شانوں سے ڈھلکتے، سروں سے پھسلتے ریشمی دوپٹے، کسی کے رخِ روشن کے گرد ہالہ کئے پاکیزہ دوپٹے۔

    آپ ہوں، ہم ہوں یا کوئی اور، دوپٹے کی مقبولیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ میر کے زمانے میں بھی اگر دوپٹے اس طرح مقبول ہوتے تو ان کا شعر یوں ہوتا۔

    ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
    ان دوپٹوں کے سب اسیر ہوئے

    آج کل تو اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ گلیوں، سڑکوں، بازاروں، کلبوں، ہوٹلوں، کالجوں، سنیما گھروں اور کافی ہاؤسوں غرضیکہ ہر جگہ لہراتے، سرسراتے، اور جادو جگاتے نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات تو آدمی چکرا جاتا ہے کہ ترقی لڑکیوں نے زیادہ کی ہے، یا دوپٹوں نے، اور مقبول لڑکیاں زیادہ ہیں یا دوپٹے۔

    دوپٹہ ململ کا بھی ہوتا ہے اور آبِ رواں کا بھی، نائلون کا بھی ہوتا ہے اور ڈیکرون، ٹیریلین اور شیفون کا بھی ہوتا ہے اور جالی کا بھی، چھینٹ کا بھی ہوتا ہے اور پاپلین کا بھی، غرضیکہ دنیا کے ہر کپڑے کا دوپٹہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے کوئی خاص کپڑا مخصوص نہیں ہوتا ہے، گھر میں رکھی ہوئی مچھر دانی کی جالی کا بھی دوپٹہ بنا سکتی ہیں، اور پائجامہ قمیص کے کپڑے کو بھی کام میں لا سکتی ہیں، بلکہ کھادی تک کا دوپٹہ بنا سکتی ہیں۔

    اس سلسلے میں انار کلی لیلیٰ مجنوں آنکھ کا نشہ اور جھنک جھنک پائل باجے قسم کے دوپٹوں کا ذکر دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ اول الذّکر دوپٹوں کا ہونا تو کچھ سمجھ میں آنے والی بات ہے بھی کہ شاید انار کلی نے اس کپڑے کا دوپٹہ اوڑھا ہو یا مجنوں نے لیلیٰ کو اس خاص کپڑے کا دوپٹہ بطور تحفہ پیش کیا ہو، لیکن آنکھ کا نشہ اور جھنک جھنک پائل باجے مارکہ دوپٹوں کی بات دل کو نہیں لگی۔

    خیر، ناموں میں کیا رکھا ہے، کام دیکھئے، تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ دوپٹہ اپنے اندر وحدت میں کثرت کا اثر رکھتا ہے یعنی یہ ڈھائی تین گز کا ٹکڑا سیکڑوں کام سرانجام دیتا ہے، اس کا ایک فائدہ تو بہت پرانا ہے کہ یہ سر کندھے اور جسم کے بالائی حصے کو اچھی طرح ڈھک سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اسے چادر کی طرح اوڑھ کر گھر سے بھی نکلا جا سکتا ہے۔ دن میں مکھیوں سے اور رات میں مچھروں سے بچنے کے لئے اسے اوڑھ کر سویا جا سکتا ہے۔ ہوشیار خواتین باورچی خانہ میں صفائی کے لئے صافی رکھنے کی زحمت نہیں کرتیں، اور یہ کام بھی دوپٹہ سے لے لیتی ہیں۔ ادھر ہانڈی جلی یا دودھ ابلا اور انہوں نے جھٹ پتیلی اتار لی۔ ہاتھ منہ دھونے کے بعد اب کون تولیہ تلاش کرتا پھرے، جھٹ دوپٹہ سے پونچھ لیا۔ ننھے کی ناک بہہ رہی ہو تو اسے صاف کرنے کے لئے کوئی میلا یا صاف کپڑا تلاش کرنے سے آسمان ان کے لئے، دوپٹے ہی سے ان کی ناک پونچھ دیتی ہے۔

    پلیٹیں دوپٹے سے بہت آسانی سے پونچھی جاسکتی ہیں۔ شربت بناتے جلدی میں باریک کپڑا نہ ملے تو دوپٹے کے کونے سے فوراً شکر چھان لی۔ اس دوپٹہ کا ایک کونا آپ کی چلتی پھرتی صندوقچی (پیسہ رکھنے والی) کا کام بھی دیتا ہے، جس میں پیسوں کے علاوہ چھوٹے موٹے ضروری کاغذات، بل اور سودے کا حساب وغیرہ گرہ میں بندھا ہوتا ہے، اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ نہ چوری کا اس کو کھٹکا، نہ چابی کھونے کا ڈر، نہ صندوقچی غائب ہونے کا خوف۔ چابی کی بات پر یاد آیا، کہ چابیاں کھویا بہت کرتی ہیں، اس لئے اسے بھی ایک کونے میں باندھ لیا جائے تو وہ محفوظ بھی رہیں گی، اور دوپٹے کی افادیت میں چار چاند لگ جائیں گے۔

    دوپٹے کا آنچل جھاڑن کا کام بھی خوب دیتا ہے۔ گھر گرہست خواتین دوپٹے سے میز کرسیاں اور ان کے شوہر اپنے چشمے کو شیشے صاف کرلیا کرتے ہیں، کبھی کبھی یہ بزرگوں کی ڈانٹ پھٹکار سے بچانے میں بڑی مدد دیتا ہے، مثلاً بڑوں کے سامنے اگر ہنسی روکے نہ رکے تو منہ میں دوپٹہ ٹھونس کر کھن کھن۔۔۔ کی آواز کو بخوبی روکا جاسکتا ہے اس طرح جواب نہیں سوجھتے وقت اگر اس کا کونا منہ میں دبا لیا جائے تو دماغ تیزی سے کام کرنے لگتا ہے۔

    دو دلوں کو باندھنے کے لیے بھی دوپٹہ کی گرہ حرفِ آخر سمجھی گئی ہے۔ آپ نے بھی مار دھاڑ والی فلموں میں دیکھا ہوگا یا کہانیوں میں پڑھا ہوگا کہ کس طرح کسی نوجوان اجنبی کے زخمی ہونے پر اچانک پردۂ غیب سے ایک حسینہ نمودار ہوتی ہے اور بلا کچھ سوچے سمجھے دوپٹہ کی ایک لمبی چٹ پھاڑ کر اس کے پٹی باندھ دیتی ہے، پٹی کی گانٹھ کے ساتھ دو دل بھی بندھ جاتے ہیں۔ دوپٹہ بدل کر بہن بنانے کارواج پہلے بہت تھا، مگر خراب دوپٹے کے بدلے اچھے دوپٹے اینٹھ لینے کی وجہ سے یہ رسم دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔

    دوپٹہ کی ایک قسم اور بھی ہوتی ہے اور وہ ہے رسی کی طرح بٹی ہوئی اوڑھنی جسے عرفِ عام میں چنا ہوا دوپٹہ کہتے ہیں، یہ دوپٹہ گلے کا ہار بنا رہتا ہے۔ اس سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے کسی طرح کی لاپروہی نہیں برتی جاسکتی، کیوں کہ گلے کا ہار جو ٹھہرا۔ یہ ہار ضرورت پڑنے پر پھانسی کے پھندے کا کام بھی دے سکتا ہے، اس کی اس خصوصیت کا ہمیں پچھلے ہفتے پتہ لگا جب پڑوس کی ایک ناکام محبت لڑکی نے اپنے دوپٹے سے پھانسی لگا کر اپنی محبت کے افسانے کو اچھا خاصا اسکینڈل بنا دیا۔ امتحان میں ناکامی، محبوب کی بے وفائی، محبت میں ناکامی، احساسِ حماقت کے بعد اور جہیز کا مطالبہ پورا نہ کرسکنے کی صورت میں اکثر لڑکیوں کو خودکشی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس صورت میں ان بے چاری لڑکیوں کے لئے دوپٹہ کا نسخہ بہت آسان ہے، کہ ہلدی لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔

    ہمیں افسوس ہے کہ دوپٹہ جیسی نعمت سے اکثر ملکوں کی خواتین محروم ہیں۔ افسوس تو ان مشرقی میم صاحبات پر بھی ہے جو اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھنا پسند نہیں کرتیں، اور بقول نانی اماں کے ’’کم بختیں ننگی بچی گھوما کرتی ہیں،’’ اور اس سے زیادہ افسوس ان فیشن ایبل لڑکیوں اور ٹیڈیوں پر ہے جنھوں نے اس کا طول و عرض کم کرتے کرتے اسے دوپٹے سے پٹہ بنا دیا ہے اور جس کا عرض گھٹاتے گھٹاتے ایک بالشت بلکہ چارانگل تک پہنچا چکی ہیں۔ جس طرح چوٹی کے مقابلے میں ’پٹے‘ فیشن میں آتے تھے اسی طرح اب دوپٹہ کی جگہ پٹہ (کتے یا بلی کا نہیں) لے رہا ہے لیکن اس سے نہ تو سر پوشی کا کام لیا جا سکتا ہے اور نہ ستر پوشی کا، اور نہ ہی ہزاروں دوسرے فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں، اس دوپٹے کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے یا نہیں۔ یہ بحث بھی اب آؤٹ آف ڈیٹ ہو چکی ہے، اس لئے اسے چھوڑیئے، کیوں کہ ہمیں تو کام دیکھنا ہے، اور اس کا کام بھی کسی حالت میں دوپٹہ کے کاموں سے کم نہیں، اس کا رنگا رنگ کام بھی دیکھئے۔

    یہ ایجاد کیوں کیا گیا، اس کی ایک وجہ ہماری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ اس سے مرہم پٹی کا کام بہت آسانی سے لیا جا سکتا ہے۔ لڑکیاں اب گھروں میں بیٹھ کر چولھے چکی میں پڑنا پسند نہیں کرتیں، اور ناک میں نتھ کی نکیل پڑنے تک کھیل کود، پنکنک، آؤٹنگ وغیرہ میں انہیں لڑکوں کے برابر سوراج اور مساوات کا درجہ حاصل ہے، اس لئے ہاتھ پیر ٹوٹنے یا موچ آنے کی صورت میں یہ دوپٹہ بڑا کام آتا ہے۔ ادھر کھیل کود یا دھینگا مشتی میں کسی لڑکی کی ہڈی پسلی ایک ہوئی اور محبت دوپٹہ سے بنڈیج کا کام لیا گیا۔

    اس دوپٹہ کا ایک مفید اور عام استعمال آنکھ مچولی کے دوران آنکھوں پر باندھنے یا بستر باندھنے کے لئے رسی نہ مل سکے، تو یہ کام بھی دوپٹہ بخوبی انجام دے سکتا ہے، اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ اتنا ہلکا پھلکا ہوتا ہے کہ اس کا جسم پر ہونا نہ ہونا برابر ہے، اس کا بنانا اس قدر کم خرچ بالانشیں ہوتا ہے کہ جمپر یا پائجامہ کا کپڑا بچا کر اسے تیار کیا جاتا ہے۔ اس گرانی کے زمانہ میں اس طرح کافی کم خرچ یا بالکل ہی خرچ نہ کرکے اسے بنایا جا سکتا ہے۔

    لیجئے، اپنے تجربات بتاتے بتاتے نہ جانے کب میرا دوپٹہ شانوں سے پھسل کر گود میں آگیا اور خالہ جان کی چیختی ہوئی آواز آرہی ہے، ’’نوج! اس جیسی کوئی بے خبر لڑکی ہو، جسے آج تک دوپٹہ اوڑھنے کا ڈھنگ نہ آیا۔‘‘

    (بھارت کی معروف مزاح نگار سرور جمال کی ایک شگفتہ تحریر)

  • ذکر اُس پری وَش کا

    ذکر اُس پری وَش کا

    پیدائش پٹیالہ کے ایک دیوان خاندان میں ہوئی۔ تاریخِ پیدائش مت پوچھیے کہ صنفِ نازک کی حد تک اس سوال کا پوچھنا خلافِ تہذیب سمجھا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر اس موضوع پر کوئی احمق سوال کر ہی بیٹھے تو بزرگوں کے قول کے مطابق یہ صنف تاریخ تو یاد رکھتی ہے مگر سنہ بھول جاتی ہے۔
    کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر انسان کا حافظہ خراب ہو تو وہ زیادہ دیر تک جوان رہ سکتا ہے۔
    اس بات کا ثبوت کہ پری وَش کی ولادت واقعی دیوانوں (یعنی وزیروں) کے خاندان میں ہوئی۔ اس بات سے بھی ملتا ہے کہ بات کرتے ہوئے موصوفہ خود کو صیغہ واحد کے بجائے صیغہ جمع سے تعبیر کرتی ہیں، مثلاً ہم نے ایسا کیا، ہم یہ کرنا چاہتے ہیں، ہمارا فیصلہ ہے کہ یہی ہوگا۔ اس کے علاوہ کسی اور کو کسی معاملے میں برتری حاصل نہ ہونے دینے کی خُو، گو ایسا کرنے سے کوئی خوبی ثابت نہ ہوتی ہو۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ان کے سامنے یہ دعویٰ کرے کہ اس کے لڑکے ایسے سرپھرے ہیں کہ دن میں دس روپے کی پتنگیں اڑادیتے ہیں، تو پری وَش فوراً بے پر کی اڑانے لگتی ہیں کہ ان کی لڑکیاں اپنے اس شوق کو پورا کرنے میں ایک دن میں بیس بیس روپے صرف کر دیتی ہیں۔
    تاجپوشی اور تخت نشینی ان کی 44ء میں ہوئی۔ جب راوی زرّین شیروانی اور آہنی تلوار کرایہ کی لے کر اس تقریب میں شریک ہوا تو پتہ چلا کہ ہمارے سسر صاحب مرحوم ہوکر ہم کو محروم کرگئے تھے، ان حقوق سے جو فرزندی میں لینے کے بعد خاکسار کو حاصل ہوسکتے تھے۔ بہرحال پَری وَش کی تخت نشینی کے بعد ان کا راج شروع ہوا، جو اب تک جاری و ساری ہے۔ عنانِ حکومت ہاتھ میں لینے کے بعد انہوں نے ایک ایسا نظام قائم کر رکھا ہے جس میں ایک صاحب، ایک بی بی اور ایک غلام ہونے کے باوجود غلاموں کی تعداد دو ہے۔
    ممکن ہے اب آپ یہ سمجھنے لگیں کہ رانی جی کے تعلق سے خاکسار غیرجانبدارانہ رویہ اختیار نہیں کرسکتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ موصوفہ کا شمار حسینانِ جہاں میں ہونا چاہیے۔ سرو قد، متناسب جسم، سرخ و سپید رنگت، تابناک چہرہ، آہو چشم، ایک ماہِ کامل۔ زندگی میں جب پہلی مرتبہ دیکھا تھا تو ایک لڑکی تھی۔ قیس کی لیلیٰ سے زیادہ خوبصورت اور فرہاد کی شیریں سے بڑھ کر شیریں۔ لڑکی جو عورت پھر ماں بنی، گھر کی مالک، گھرانے کی رانی، جس کی حکمرانی میں سرکشی اور بغاوت شرم سے پانی پانی۔ جس کا حکم نادرشاہی، جس کے فرامین اَٹل، جس کا غصہ گھر بھر کو لرزہ براندام کردے، جس کے رعب سے سر اور کمر جھکے رہیں۔ جس کی حشم ناکیوں سے گھر کا کتا بھونکنا بند کرکے اور دم دبا کر پلنگ کے نیچے پناہ ڈھونڈے اور خاندان کے افراد تتر بتر ہو کر سراسیمگی کی حالت میں گھر کے کونوں اور گوشوں میں سہم کر سمٹ جائیں۔ غرض شان اس پَری وَش کی شاہانہ، انداز تحکمانہ، لہجہ بیباکانہ، جب لب ہائے شیریں متحرک ہوں، یعنی یہ کھولیں اپنا دہانہ، تو اپنے الفاظ کی روانی کے سامنے تھم جائے۔ ٹینی سن کی پہاڑی ندی کا پانی اور چون و چرا کرنے کاجذبہ بھسم ہوجائے مانند پروانہ!
    جب اس رنگین قیامت کا عتاب شباب پر ہو تو آواز ایسی بلند کہ ٹیلیفون کا توسط غیر ضروری محسوس ہو۔ کانوں کے پردے ہل جائیں اور اڑوس پڑوس کی پردہ والیاں بھی پردے پرے کرکے اپنے اپنے آشیانوں سے باہر نکل پڑیں۔
    جب سے رانی جی نے چابیوں کا گچھا کمر میں لٹکانا شروع کیا ہے گھر میں سخت قسم کا کنٹرول عائد ہوگیا ہے۔ جہاں ہر چیز کسی مقفل الماری، صندوق، کمرہ یا میز کی دراز میں ہو تو ان کی اجازت یا ایما کے بغیر تنکا بھی اِدھر سے ادھر نہیں ہوسکتا اور خادم کو سگریٹ ماچس وغیرہ کے لیے گھر کے کتے کی طرح دم ہلانی پڑتی ہے۔
    ان کے دورِ حکومت میں خاندان کے اراکین میں دو کا اضافہ ہوا اور مالک یعنی اس اوپر والے کی مرضی سے دونوں چاند کی ٹکڑیاں ثابت ہوئیں۔ اس طرح ملکہ صاحبہ اولادِ نرینہ سے محروم ہیں اور ہمیشہ خاکسار کو اس کمی کے لیے ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ جب صاحبزادیاں امتحانوں میں اونچے درجے حاصل کرکے پاس ہوتی ہیں یا کوئی اور قابل ستائش کام انجام دیتی ہیں تو بتلایا جاتا ہے کہ آخر ان کی رگوں میں ان کا ہی خون ہے اور اگر شاذ و نادر وہ کبھی ضد کرتی ہیں یا کسی بات پر اڑ جاتی ہیں تو ان بچیوں کی رگوں میں خالص میرا خون دورہ کرنے لگتا ہے۔
    رانی صاحبہ کو اپنی رعایا سے جو کم و بیش خاکسار پر مشتمل ہے، یہ شکایت ہے کہ ان کو انتظامِ خانہ داری کی ہر ذمہ داری سے نپٹنا پڑتا ہے جب کہ راوی دفتر میں ٹانگیں پھیلائے گلچھڑے اڑاتا رہتا ہے۔ ان کے خیال کے مطابق دفتر کا کام محض غپ شپ لڑانے، چائے پینے، اناپ شناپ بکنے، نیچے والوں کو دھمکانے اور اوپر والوں کے سامنے بھیگی بلی کی طرح میاؤں میاؤں کرنے، اور فائلوں پر کچھ الٹے سیدھے دستخط کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ جب کبھی مجھے دفتر سے آنے میں دیر ہوجاتی ہے تو ملکہ صاحبہ میرے انتظار میں بیزار، برسرپیکار، مرنے مارنے پر تیار۔ جب مجھ پر بڑھاپے میں آوارہ گردی کا الزام دھرتے ہوئے، دفتر کے کام کے متعلق اپنے نظریے کو باآوازِ بلند بیان فرمانے لگتی ہیں تو میں نہایت ادب سے ان کے حضور میں یہ عرض کرنے کی جسارت کر بیٹھتا ہوں کہ اگر بیگم صاحبہ کے ان خیالات کی بھنک محکمہ فنانس کے کسی عہدہ دار کے کانوں میں پڑگئی تو خادم کی جگہ تخفیف میں آجائے گی اور وہ بے روزگار ہو جائے گا اور سرکار کے دربار میں جو خراج مہینے کی پہلی تاریخ کو پیش کیا جاتا ہے اس سے حضور کو ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ اس پر ملکہ صاحبہ کچھ دیر کے لیے رک تو ضرور جاتی ہیں مگر روایتی رخصتی ٹھوکر کے طور پر یہ فرماتی ہیں کہ اپنے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے لیے خاکسار نے اچھی منطق تراشی ہے۔
    ان کو خادم سے یہ بھی شکایت ہے کہ جب وہ ان الٹی سمجھ والے نوکروں کو سیدھی طرح کام کرنے کے لیے تنبیہ کر رہی ہوتی ہیں تو اس نازک موقع پر خاکسار کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ شکایت درست اور بجا ہے مگر خاکسار کو اس فروگزاشت کی صفائی میں یہ عرض کرنا ہے کہ جب ملکہ صاحبہ نوکروں سے عالمِ غیض و غضب میں مخاطب ہوتی ہیں تو ایسے موقع پر میرا کچھ کہنا سننا نقار خانے میں طوطی کی آواز سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں جس نوکر کو بڑی سفارشوں سے حاصل کیا جاتا ہے اور بڑی ناز برداری سے رکھا جاتا ہے اس کو ملازمت چھوڑ دینے کے لیے اکسانے میں بھلا میں کیونکر شریک ہوسکتا ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ رانی جی کے راج میں بہت سے نوکر ہماری ملازمت چھوڑ کر چلے گئے۔ ان میں سے ایک پچھلی جنگ کے موقع پر فوج میں بھرتی ہوگیا، تنگ آمد بجنگ رفت!

    ملکہ صاحبہ کے نوکروں کا کچھ حال آپ نے سنا۔ ان میں اور مجھ میں صرف یہ فرق ہے کہ خاکسار راہِ فرار اختیار نہیں کرسکتا۔ زندگی میں بعض ایسے موقعے بھی آئے۔ جب خاکسار نے جھگڑنے کی کوشش کی مگر رانی جی نے فوراً یہ کہہ کر منہ بند کردیا کہ اگر وہ مجھ سے شکایت نہ کریں تو اور کس سے کریں۔ کوئی اور ان کی کیوں سنے گا۔ اور یہ کہ گائے اسی کھونٹے کے زور پر جس سے وہ بندھی ہوتی ہے، بدکتی ہے۔

    پچھلے 23 سال گزارنے کے بعد یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ زندگی کی الجھنیں کم مگر زندہ رہنے کی بہت بڑھ گئی ہیں۔ خاکسار کو اب پوری طرح یقین ہوگیا ہے کہ یہ دنیا عورتوں کی ہی ہے۔ جب آدمی پیدا ہوتا ہے تو پہلا سوال جو پوچھا جاتا ہے یہ ہوتا ہے کہ بچہ کی ماں کی طبیعت کیسی ہے؟ جب وہ شادی کرتا ہے تو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کیا خوبصورت دلہن ہے۔ اور جب وہ مرجاتا ہے تو لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مرنے والے نے بیوہ کے لیے کیا چھوڑا؟
    اس دنیا کی بس یہی ریت ہے۔ خادم اس دنیا میں اب تک جو حاصل کرچکا ہے وہ محض تجربہ ہے جس کے حصول میں اس دھات کی عمر میں پہنچ گیا ہے جس میں پیروں میں سکہ، منہ میں سونا اور بالوں میں چاندی بھر جاتی ہے۔ خود پری وَش میں اب پختگی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ مگر ان کا رخِ روشن اب بھی تابناک ہے۔ جلالِ شاہانہ برقرار ہے۔ مگر ان کے خیالات، ان کی حرکات اور ان کی پالیسی جس جذبہ کے تحت تشکیل پاتی ہے وہ ماں کی محبت کا جذبہ ہے۔ ان کے دل میں اس بے لوث محبت کے انمول خزانے پنہاں ہیں اور آنکھوں میں اس محبت کے دریا لہریں مارتے ہیں۔ گرانی اور ملاوٹ کے جس دور سے ہماری زندگی گزر رہی ہے اس میں بھی ان کی بے پناہ نگرانی کے باعث صاف ستھرا رزق ہم کو میسر آرہا ہے۔ رانی جی کو جب میں ماں کی محبت کے روپ میں دیکھتا ہوں تو اس چھتری والے کے حضور میں یہ دعا مانگتا ہوں کہ ان کی حکومت ہم پر قائم و دائم رہے۔
    آپ شاید مسکرا رہے ہیں کہ آمرانہ حکمرانی کی اس لمبی چوڑی داستان کے بعد یہ کیا؟ اس کے جواب میں مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ،
    اے دیکھنے والو مجھے ہنس ہنس کے نہ دیکھو
    تم کو بھی محبت کہیں مجھ سا نہ بنادے
    (معروف مزاح نگار بھارت چند کھنہ کی شگفتہ تحریر) 
  • بے بسی کچھ نہ کھانے کی

    بے بسی کچھ نہ کھانے کی

    مثل مشہور ہے کہ ”پرہیز سب سے اچھا نسخہ ہے۔“ اور زباں زدِ عام بھی یہی ہے کہ ”پرہیز علاج سے بہتر ہے۔“ گویا معالج کی مجوزہ ادویات اُس وقت مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں جب اُن کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کی ہدایات پر سختی سے عمل کیا جائے جو علاج کا لازمی جزو اور پرہیز کہلاتی ہیں۔
    مصنفہ کی دیگر تحریریں اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    پرہیز اور علاج میں جو بنیادی فرق ہے، وہ بہت واضح ہے۔ علاج کے سلسلے میں جو رقم خرچ کرنی پڑتی ہے، پرہیز کے مرحلے سے گزرتے ہوئے اُس کی بچت ہوجاتی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس کے اور بھی کئی فائدے ہیں۔ ضبطِ نفس کے اس مظاہرے سے دنیا ہی نہیں عاقبت بھی سنورجاتی ہے۔ ایک ذرا دل پر جبر کیا کِیا، بیٹھے بٹھائے ہدایت یافتہ بھی ہوگئے اور جنّت کی کنجی بھی پالی۔
    ہمیں یہ مثل بہت اچھی لگتی ہے، جبھی اس پر عمل بھی کرتے ہیں، لیکن ایک مرتبہ یہی پرہیز ہمارے لیے کڑی آزمائش بن گیا۔ اس سے باعزّت گزر کے ہم سرخرو تو ہو گئے، لیکن کچھ دل ہی جانتا ہے جو دل پر ستم ہوئے۔
    ہُوا یوں کہ دانتوں کی شدید تکلیف ہمیں دندان ساز کے پاس لے گئی۔ ہمارے دانتوں کے ساتھ ڈاکٹر کا برتاؤ اُن کے پیشے کے عین مطابق تھا، سو ہم اُن کو قصور وار نہیں مانتے، لیکن وقتِ رخصت ڈاکٹر کی اس ہدایت نے ہمیں مشکل میں ڈال دیا کہ ”بی بی! دو گھنٹے تک کچھ نہ کھائیے گا۔“ بھوک ہم سے برداشت ہوجاتی ہے، لیکن یہاں تو صورتِ حال ہی مختلف تھی۔ ڈاکٹر کے کلینک سے محض چند قدم کے فاصلے پر احمد رشدی کا ترنّم کسی کے روزگار کے فروغ اور کسی کے ذوقِ طعام کا وسیلہ بنا ہُوا تھا۔
    گول گپے والا آیا گول گپے لایا
    اس سے قبل گول گپے کھانے کی خواہش نے اتنی شدت سے سَر نہ اٹھایا تھا، جتنا اس وقت ستا رہی تھی۔ ہم نے ازلی بے نیازی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے آگے راہ لی تو قلفی والا ہمارے ضبط کا امتحان لینے چلا آیا۔ ہم نے اس سے بھی نظریں چرا لیں۔ چند قدم کے فاصلے پر مونگ پھلی گرم کی صدائیں ہماری سماعت سے ٹکرا رہی تھیں تو دوسری جانب حبیب ولی محمد کی آواز بھی ہماری سماعت پر دستک دے رہی تھی۔
    دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں…
    چونکہ ہمیں بچپن ہی سے پرہیز علاج سے بہتر ہے کا خیال بہت بھلا لگتا ہے، سو ہم نے بدپرہیزی کے نتیجے میں ہونے والے مزید اور ممکنہ علاج سے بچنے کے لیے بچپن کی دوستی پر دھیان دیا اور دیرینہ رفاقت کا بھرم رکھتے ہوئے غیریت کی انتہا کر دی۔
    اُدھر قدم قدم پر ہر گھڑی ہمارے لیے ایک آزمائش تھی۔ یہ لیجیے”صفائی نصف ایمان ہے“ کی اطلاع دینے والے نصف ایمان سے ہاتھ کھینچے خود تو عالمِ برزخ میں کھڑے ہی تھے ہمیں بھی آزمائش میں ڈال دیا۔ گندگی کا ڈھیر چلّا چلّا کر ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔ قلفی، گول گپوں اور مونگ پھلی کی خواہش کو تو ہم نے اچھے وقتوں کے لیے اُٹھا رکھا مگر غلاظت کا انبار دیکھ کر بھی پیچ و تاب کھانے کے عمل سے خود کو باز رکھنا ہمارے لیے کٹھن تھا۔ گو پیچ وتاب کھانے پر پابندی ڈاکٹر کی ہدایت میں شامل نہ تھی لیکن اس عمل کے فوری ردِ عمل کے طور پر ہمیں ایک مرتبہ پھر کلینک کا راستہ ناپنا پڑتا کہ پیچ و تاب کھانے کا عمل دانتوں کی تکلیف کے ممکنہ خاتمہ میں حارج ہوتا۔ بھلا کبھی کسی نے دانت پیسے بغیر پیچ و تاپ کھایا ہے، پرہیز سے وفا نباہنے کا یہ فائدہ تو ہوا کہ ہم مزید عذاب جھیلنے سے بچ گئے۔
    اوّل اوّل تو ڈاکٹر کے تاکیدی فقرے ”بی بی! دو گھنٹے تک کچھ نہ کھائیے گا“ نے ہمیں صبر کی راہ دکھائی تھی، لیکن اگلی ہی ساعت ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ دورانِ گفتگو ہمیں قسم کھانے کی عادت نہیں، ورنہ کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو سکتا تھا۔ قسم کھانے کے لیے ہمیں بتیس دانتوں کے بیچ تولہ بھر زبان بہرحال ہلانی پڑتی۔ خیالات کی یلغار سے جتنا ہم نے بچنا چاہا اُتنا ہی اس کی زد میں رہے۔ ابھی ہماری سوچوں کا سفر جاری تھا کہ اچانک سڑک کے ایک جانب پڑے کوڑے پر ہماری نظر پڑی جو گلی گلی کسی کی یاد کی مانند بچھا رہتا ہے۔ جو رستہ دیکھ کر چلتے ہیں وہ یا تو خود کو بچا لیتے ہیں یا اپنا فشار خون بلند کر لیتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ ہی اور تھا، تڑپنے اور فریاد کی اجازت تو تھی پَر پیچ پر پیچ کھانے کی نہیں۔ سو بیچ سڑک پہ پڑے کوڑے کو ہم نے نظر انداز کرنا چاہا کہ بل کھانے کا حکم نہ تھا، سو ہم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوڑے کا ڈھیر لگانے والوں کو نگلنا چاہا لیکن ہماری بصارت نے بصیرت کے کہے میں آکر تعاون سے انکار کر کے ہماری رہی سہی امید پر پانی پھیر دیا۔
    ہمارا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی بھی طرح یہ دو گھنٹے جو دو صدیوں کے برابر لگ رہے ہیں دو پل میں بیت جائیں، پَر وقت نے کب کسی کی مانی ہے جو ہماری سنتا۔ وقت نے اپنی میعاد پوری کر کے ہی ہمیں آزادی کی نوید دی۔ اب ہم اپنے ہر اُس عمل کے لیے آزاد تھے جس کو کھانے سے نسبت تھی۔ ہاں وقت کی بے نیازی اور بے مہری کا ہمیں بہت گلہ تھا جس کی وقت کو پروا تک نہ تھی۔ اور جب وقت کی بے نیازی کے خلاف احتجاج کا خیال آیا تو وقت بیت گیا تھا کیونکہ دو گھنٹے کی میعاد پوری ہو چکی تھی اور ہم پر سے کچھ نہ کھانے کی قید بھی اٹھا لی گئی تھی۔ پَر اب کچھ کھانے کی خواہش سے ہمارا دل اچاٹ ہو چکا تھا۔
    بات یہیں ختم نہیں ہوئی تھی، اگلے روز بھی ڈاکٹر صاحب نے ہمیں بلایا تھا اور ترتیب وار ان ہی مراحل سے ہمیں گزرنا تھا گویا
    ابھی وقت کے امتحان اور بھی ہیں
    اور ہم نے تہیہ کر لیا تھا کہ جو آج نہ کر سکے وہ کل ضرور کریں گے اور قبل از وقت کریں گے۔ کون سا وقت؟ ارے بھئی وہی ”بد وقت‘‘جس میں بے شک ہم اشیائے خور و نوش سے ہاتھ کھینچ لیں لیکن رہ گزر کے عذاب سے کترا کر گزرنا ہمارے بس میں نہیں۔ سو ہم نے اسی وقت پیچ و تاب کھانا شروع کر دیا…. کس پر؟ کوئی ایک ہو تو ہم بتائیں بھی۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ جانے کیسے قلم کے توسط سے ہماری فسانۂ درد بیان کرنے کی نیت کی خبر عام ہو گئی اور مختلف محکموں کے کشتگانِ ستم قطار بنائے کھڑے ہو گئے۔
    ہر ستم کے مارے کی آرزو تھی کہ پہلے اس کے متعلقہ محکمہ کے دانت کھٹے کریں اور ہمارے قلم کی روشنائی اجازت ہی نہیں دے رہی تھی کہ پردہ نشینوں کو بے نقاب کریں لیکن چشم کشا حقائق سے چشم پوشی بھی تو جرم ہے اور پھر جو شے اظہر من الشّمس ہو اس کا پردہ رکھ کر ہم کون سا ثواب کما لیں گے؟ بس یہی سوچ کر ہم نے قلم کی روشنائی کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا کہ ہمارے اور آپ کے مابین رابطے کا یہ مستند و معتبر حوالہ اگر روٹھ گیا تو؟ سو ہم نے دل پر جبر کر کے خود کو ہر اس خواہش سے باز رکھا جو ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی بجا سکتی تھی۔ خود پر پابندیوں کے اس عمل سے گزرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ہم ڈاکٹر کے پاس گئے اور واپسی میں راستہ بھر بے بسی کی تصویر بنے مہر بہ لب صیاد کے مسکرانے کا تماشہ دیکھتے رہے۔ فضائی آلودگی، جا بجا گندگی کے ڈھیر، شاہراہوں پر لگے اسٹالوں اور دکانوں میں خریداروں پر ہونے والے مہنگائی کے تابڑ توڑ حملوں نے کئی بار ہمیں اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا مگر ہم نے کچھ نہ کھانے کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کھانے کی ہر قسم سے منہ موڑ لیا اور نہایت صبر شکر کے ساتھ یہ برا وقت بھی کاٹ لیا۔

    پیچ و تاب کھانے کے تمام تر سنہرے مواقع ہماری بے بسی پر ہنستے رہے اور ہم اس بے بسی پر شریفانہ احتجاج کرتے رہے۔

    دانتوں کی تکلیف سے تو ہم نے نجات حاصل کر لی لیکن اب بھی وہ برا وقت یاد آتا ہے جب شدید خواہش کے باوجود ہم نے پیچ و تاب نہیں کھایا تھا تو فیضؔ صاحب کا یہ شعر اپنی ساری توانائیوں سمیت ہمیں اپنے حصار میں لے لیتا ہے
    کیا کیا نہ تنہائی میں تجھے یاد کیا ہے
    کیا کیا نہ دلِ زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
    اور ہماری یادیں دستِ صبا تو ہیں نہیں کہ ہم فخریہ سینے سے لگائے پھرتے۔ ہمیں بے بس کرنے والے لمحات تو سینے کے وہ داغ ہیں جو اربابِ اختیار اور عوام النّاس کے باہمی تعاون ہی سے دھل سکتے ہیں۔
  • بلیک ہول، سائنس اور ہم

    بلیک ہول، سائنس اور ہم

    سائنس سے ہمارا تعلق اتنا ہی افسوس ناک رہا ہے جتنا ہمارے ملک کے اکثر سیاست دانوں کا ملک کی معاشی پیچیدگیوں اور بنیادی مسائل سے۔ ان بے چاروں کو یہ معلوم نہیں کہ وطن کا بنیادی مسئلہ کیا ہے اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ ” کوانٹم تھیوری “ کس علاقے کی چڑیا کا نام ہے؟

    سائنس سے ہماری یہ دشمنی عمرِ عزیز کے ایک طویل عرصے پر محیط ہے، میٹرک میں ہمیں زبردستی سائنس پڑھنا پڑی تھی اور کیمسٹری مسلسل تین دن پڑھ لینے کے بعد ہمیں سخت بخار آ جایا کرتا تھا۔ طبیعیات سے ہماری طبیعت ویسے ہی نالاں رہتی تھی، پھر وہ وقت بھی آیا جب سالانہ امتحانات ہونے والے تھے اور ہمارے وہ قارئین جو میٹرک کرنے کے جاں گسل لمحات سے گزر چکے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ امتحانات کے دنوں میں ”گیس پیپرز“ کا سیلاب سا آجایا کرتا ہے۔ کچھ راز ہائے سربستہ سینہ بہ سینہ بھی چلتے ہیں اور اکثر لڑکے قسم کھا کر بتاتے ہیں کہ پرچے میں آنے والے کچھ سوالات انہیں نہایت باوثوق ذرائع سے معلوم ہوگئے ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی ایک طالب علم نے سخت رازدارنہ انداز میں ایک معتبر ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے ہمیں بتایا کہ اس بار کیمسٹری کے پرچے میں ”نائیٹروجن“ کے بارے میں سوال لازمی طور پر ہوگا۔ چونکہ یہ راز ہمیں پرچہ ہونے سے صرف ایک دن پہلے بتایا گیا تھا اس لئے ہم نے آکسیجن، ہائیڈروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ کو ایک طرف رکھا اور نائیٹروجن کا ” رَٹّا “ لگانا شروع کردیا!

    اس مسلسل محنت سے ہم چند ہی گھنٹوں میں خود کو نائیٹروجن کا شمسُ العلماء کہلانے کے مستحق ہو گئے تھے… صبح کو ہم نہایت ہشاش بشاش اٹھے، کتاب کھول کر ایک بار پھر نائیٹروجن پر نظر ڈالی اور اپنے حافظے کو داد دیتے ہوئے امتحان گاہ کی طرف روانہ ہو گئے، وہاں حالت یہ تھی کہ ہم بلاوجہ گنگنا رہے تھے بلکہ جب امتحانی پرچہ ہمیں دیا گیا تو ہم نے قہقہہ تک لگا دیا، پھر وہ قیامت خیز لمحہ آیا جب ہم نے پرچے پر نظر ڈالی اور اچانک نظروں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ یوں لگا جیسے یہ کائنات آکسیجن کی طرح بالکل بے بُو، بے رنگ اور بے ذائقہ ہو چکی ہے۔ پرچے میں نائیٹروجن کا ذکر بالکل نہیں تھا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خواص بیان کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ ہمارے پاؤں لرزنے لگے، ذہن چکرانے لگا، دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ آنکھوں میں پھرنے لگا اور اپنے قریب کھڑے نگرانی کرنے والے شخص کی صورت ہمیں بالکل ملکُ الموت جیسی نظر آنے لگی مگر کرتے تو کیا کرتے کہ نائیٹروجن کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ ہمیں یوں لگ رہی تھی جیسے ہم ناشتے میں چائے کے ساتھ کوئی دستی بم نگل کر آئے ہوں، مجال ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کبھی ہماری ذرا سی بھی واقفیت یا سلام دعا رہی ہو… ہم نے نائیٹروجن کے بارے میں زیرِ لب کچھ ایسے الفاظ کہے جن سے اس شریف گیس کی توہین کا نہایت غیر اخلاقی پہلو نکلتا تھا، پھر قلم سنبھالا اور دوسرے سوالات حل کرنے کے لئے بساط بھر کوشش شروع کردی مگر کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بچنا ممکن نہیں تھا کیونکہ یہ سوال لازمی تھا، چنانچہ آخر میں ہم نے اس لڑکے کو چند نہایت دل گداز اور عبرت انگیز کوسنے دیے جس نے ہمیں نائیٹروجن کے بارے میں بتایا تھا۔ لگے ہاتھوں ایسا مشکل پرچہ ترتیب دینے والے کے لئے بھی کچھ جدید کوسنے ایجاد کئے اور قلم سنبھال کر پرچے کو ایک بار پھر دیکھا کہ سہو نظر نہ ہوا ہو مگر وہاں نائیٹروجن کی جگہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی لکھا تھا لہٰذا ہم نے نہایت خوش خط انداز میں امتحانی کاپی پر لکھا ” کاربن ڈائی آکسائیڈ “ اور اس کے نیچے وہ سب کچھ لکھ دیا جو نائیٹروجن کے بارے میں یاد کیا تھا۔ ہمارا اشہبِ قلم تیزی سے دوڑ رہا تھا اور ہم نے نائیٹروجن کے خواص کے علاوہ اس کے عادات و خصائل تک کے بارے میں ایک وسیع و عریض مقالہ تحریر کر ڈالا!

    اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میٹرک کے سالانہ امتحان کا نتیجہ آنے پر ہم نہایت امتیازی نمبروں سے فیل ہوئے ہوں گے… جی نہیں! ہم پاس ہوگئے تھے اور وہ بھی فرسٹ ڈویژن میں، یعنی جسے اللہ رکھے اسے کون ممتحن چکھے!! پاس ہونے کی خبر پاتے ہی ہم نے شکرانے کے نفل پڑھے اور آخر میں کیمسٹری کے پرچے کے نابینا ممتحن کی درازیٴ عمر کے لئے رقت انگیز انداز میں دعا مانگی کہ اس کے درجات بلند ہوں، وہ ہیڈ ماسٹر بنے، رزق کشادہ ہو، بال بچے روز افزوں ترقی کریں اور آخر میں شدت جذبات سے یہ تک کہہ بیٹھے کہ اللہ اس کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے!

    اب اتنے برسوں کے بعد پھر ایک سائنسی مسئلہ ہمارے سامنے ہے جسے حل کرنا یا سمجھنا ہمارے لئے اتنا ہی مشکل ہے جتنا وزیر توانائی و بجلی کے لئے یہ سمجھنا کہ جب ملک میں بارہ چودہ گھنٹے روز تک کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے تو بجلی کی قیمتوں میں ایسے ہوش ربا اضافے کا جواز کیا ہے۔ اخباری خبر مختصر طور پر کچھ یوں ہے کہ ” آج دنیا میں طبعیات کا سب سے طاقتور تجربہ کیا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد کائنات میں Big bang کے چند لمحوں کے بعد حالات کو ایک مرتبہ پھر تخلیق کرنا ہے۔ نیو کلیائی ریسرچ کے یورپی ادارے کے زیرِ اہتمام ہونے والے اس تجربے کے دوران انجینئرز اور سائنسدان ایٹم کے مثبت چارج والے ” ذرات “ ” پروٹانز “ کو ستائیس کلومیٹر طویل زیر زمین سرنگ نما مشین سے گزاریں گے اور دو مخالف سمت سے آنے والی پروٹانز کی شعاعوں کو تقریباً روشنی کی رفتار سے 10 کھرب ڈگری سینٹی گریڈ پر آپس میں ٹکرادیا جائے گا۔ مادے کے باریک ذرات کو حرکت دینے والی مشین انسانی تاریخ کی سب سے بڑی مشین ہے، بیس برس کی تیاریوں کے بعد 10 ارب ڈالر لاگت سے تیار ہونے والی 27 کلومیٹر سرنگ نما اس مشین میں پروٹان کی شعاعوں کو دہشت ناک طاقت سے آپس میں ٹکرایا جائے گا جس سے نئی طبعیات میں ” بگ بینگ “ جیسی کیفیت پیدا کی جا سکے، کئی ایسے سائنسدان بھی ہیں جو کائنات کی تخلیق کے آغاز کے لئے بگ بینگ جیسے کسی مفروضے کو نہیں مانتے اور ہم تو بحیثیت مسلمان کسی بھی بگ بینگ پر یقین نہیں رکھ سکتے کیونکہ اس کائنات کی تخلیق کسی بھی بگ بینگ نے نہیں خداوند کریم نے لفظ ” کُن “ کہہ کر کی تھی اور کُن فیکون پر ہمارا پختہ ایمان ہے مگر وہ دوسرے سائنسدان بھی جو بگ بینگ تھیوری پر یقین نہیں رکھتے آخر اس منصوبے پر 10 ارب ڈالر خرچ کر دینے والے ان فضول خرچ سائنس دانوں سے یہ احتجاج کیوں نہیں کرتے کہ بھوک اور افلاس کی ماری ہوئی اس دنیا میں اتنی بڑی رقم خوراک اور صاف پانی جیسے وسائل کی فراہمی پر خرچ کی جاتی تو کتنے پسماندہ ممالک اور ان کے کروڑوں لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔

    سائنس دانوں کے ایک گروپ کی جانب سے یہ خدشہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ اس بڑے لرزہ خیز دھماکے کے نتیجے میں زمین پر ایک بڑا بلیک ہول بھی پیدا ہو سکتا ہے اور بلیک ہول کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ بڑی سے بڑی اشیاء کو نگل لیتا ہے۔ اگر ایسا کوئی بلیک ہول پیدا ہو تو ہماری خوش گوار خواہش ہے کہ اس کا پہلا نوالا یہ خطرناک تجربہ کرنے والے ہزاروں سائنس دان ہی بنیں، اگر دو چار آدمی کم پڑ جائیں تو ہم اپنے ملک کے چند بے مصرف موقع شناس سیاست داں بھجوانے پر تیار ہیں۔

    (از قلم: اطہر شاہ خان جیدیؔ)

  • بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر ﷲ خان عالمِ بالا میں

    بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر ﷲ خان عالمِ بالا میں

    زمینداروں کے شرعی حقوق کے تحفظ کے لیے تنظیم سازی سے لے کر راہ نماﺅں کے اتحاد کی تشکیل تک طویل سیاسی سفر طے کر کے نواب زادہ نصر ﷲ خان اس دُنیا سے چلے گئے تھے، لیکن گذشتہ رات اچانک ہمارے خواب میں آگئے۔

    کیا دیکھتے ہیں کہ نواب زادہ نصر اﷲ خان اپنی مخصوص وضع قطع کے ساتھ حقّہ پیتے عالمِ بالا میں پہنچے اور ڈھونڈتے ڈھانڈتے پاکستانی زعماء کی محفل میں وارد ہوگئے۔ یہاں دیگر کے ساتھ ساتھ آپ کی ملاقات بانیٔ پاکستان اور مصوّرِ پاکستان سے بھی ہوئی، جنھوں نے اپنے تصور و تخلیق کردہ ملک کے بارے میں سوالات کرکے نواب زادہ کو اس مشکل میں ڈال دیا کہ حقائق بتا کر اپنے ان محسنوں کو خون کے آنسو رلائیں یا جھوٹ بولنے کی گستاخی کریں۔ بہرحال زیرک سیاست داں نے بیچ کا راستہ نکال لیا، یوں کہ کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے، یہ خواب منظر کی صورت نذرِ قارئین ہے۔

    ہم نے دیکھا کہ نواب زادہ نصر اﷲ خان جیسے ہی زعماء کی محفل کے قریب پہنچے، کئی حضرات استقبال کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے اور آوازیں بلند ہوئیں:

    حسین شہید سہروردی، مولانا مودودی، مفتی محمود: آئیے آئیے خوش آمدید بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے؟

    جنرل ضیاءُ الحق! آگئے…

    قائدِ اعظمؒ: (علّامہ اقبال سے مخاطب ہو کر) ”کون صاحب ہیں؟“

    علامہ اقبالؒ: ترکی ٹوپی تو بتا رہی ہے کہ ہمارے زمانے کے ہیں اور یہ کہ ترک قطعاً نہیں ہیں… سہروردی کو بلا کر پوچھ لیجیے، وہ جانتے ہوں گے۔

    قائد: کیا سہروردی اب ویزے کے بغیر مجھ سے مل سکتے ہیں؟

    علّامہ اقبال: خوش قسمتی سے آپ دونوں عالمِ ارواح میں ہیں ورنہ یہ ممکن نہ تھا۔

    قائد: مسٹر سہروردی! ذرا یہاں تشریف لائیے (ان کے نزدیک آتے ہی قائد پوچھتے ہیں) کون ہیں یہ نووارد؟ تعارف تو کرائیے؟

    سہروردی: (نواب زادہ کو قائد سے متعارف کراتے ہیں) سر! یہ ہیں نواب زادہ نصر ﷲ خان، جو ووٹ کی طاقت سے بنائے گئے آپ کے پاکستان میں جمہوریت کے قیام کے لیے پچاس سال سے…(کہتے کہتے رک گئے پھر گویا ہوئے) بڑی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔

    قائد: تو جمہوریت آئی؟

    نواب زادہ نصر ﷲ: جی… کئی مرتبہ۔

    قائد: کیا مطلب۔

    نواب زادہ: دراصل ہمارے یہاں خوب سے خوب تر کی تلاش میں جمہوریت بار بار نئے سرے سے لائی جاتی ہے، پھر کبھی سوئے دار اور کبھی کوئے یار روانہ کر دی جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد سنوار کر پھر لے آیا جاتا ہے۔

    قائد: ان کوششوں کے نتیجے میں جمہوریت مستحکم ہوئی؟

    نواب زادہ: صرف مضبوط ہی نہیں بلکہ موٹی تازی، لحیم شحیم اور دیوہیکل ہوچکی ہے۔

    قائد: (تشویش ناک لہجے میں) اب تو نہیں جائے گی۔

    نواب زادہ: کیسے جائے گی، اس بھاری بھر کم جمہوریت کے لیے چلنا تو کجا اُٹھنا بیٹھنا محال ہے۔

    قائد: تو گویا جمہوریت کے لیے آپ کی جدوجہد کام یاب ہوگئی، یقیناً آپ اور قوم نے میرے دیے ہوئے اصولوں، ایمان، اتحاد اور تنظیم پر عمل کیا ہوگا۔

    نواب زادہ: جی ہاں، بالخصوص اتحاد پر، میری تو ساری عمر گزری ہی اتحاد کی سیاست میں۔

    قائد: اس سیاست کے مثبت نتائج نکلے؟

    نواب زادہ: بالکل! یہاں تک کہ جس حکم راں کے خلاف اتحاد بنایا کچھ عرصے بعد وہ خود میرے ساتھ نئے اتحاد میں شریک تھا۔

    قائد: اور ڈسپلن؟

    نواب زادہ: حضرت! ہماری قوم نے تو ڈسپلن کے زیرِ سایہ ہی زندگی گزاری ہے، ہم بڑے منظم انداز میں لیفٹ رائٹ اور نہایت سرعت کے ساتھ اباﺅٹ ٹرن کر لیتے ہیں۔

    قائد: اور ایمان کا کیا کیا؟

    نواب زادہ: بُرے وقتوں کے لیے بچا رکھا ہے، اس کے سہارے خراب حالات کا مقابلہ کرتے ہیں، پھر سنبھال کر رکھ دیتے ہیں۔

    علّامہ اقبال: یہ تو بتائیے کہ پاکستان کی سلطانیٔ جمہور میں بندے گنے جاتے ہیں یا انھیں تولا جاتا ہے۔

    نواب زادہ: چُنے جاتے ہیں… پھر گنتی پوری کر دی جاتی ہے۔ ویسے اس مرتبہ چُننے کے ساتھ ساتھ تولا بھی گیا ہے۔

    اقبال: نقشِ کُہن مٹے؟

    نواب زادہ: منٹو پارک اب اقبال پارک اور گاندھی گارڈن جناح گارڈن ہوگیا ہے۔

    اقبال: بھئی میں جمہوریت کے حوالے سے پوچھ رہا ہوں؟

    نواب زادہ: کیوں نہیں ہر حکم راں نے مٹائے۔ بعض نے تو اپنے پیش رو کو بھی نقشِ کہن سمجھ کر مٹا دیا۔

    قائد: فوج کا کیا حال ہے۔

    نواب زادہ: جو ماضی میں تھا۔

    قائد: ”ماضی میں جنرل گریسی نے میرا حکم نہیں مانا تھا، اب تو جنرلوں میں تبدیلی آگئی ہوگی۔

    نواب زادہ: الحمدُ للہ اب سارے مسلمان ہیں۔

    اقبال: کیا یہ جنرل شاہین صفت ہیں۔

    نواب زادہ: کسی حد تک، یعنی جھپٹتے تو ضرور ہیں مگر پھر پلٹتے نہیں۔

    قائد: جمہوریت کو کوئی خطرہ تو نہیں؟

    نواب زادہ: (چند لمحے توقف کے بعد رندھی ہوئی آواز میں) نہیں جناب جمہوریت بڑے مضبوط ہاتھوں میں ہے۔

    یہ سُن کر قائد اور اقبال کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھے، نواب زادہ پُر نم آنکھیں جھکائے اُٹھ کر کسی طرف چل دیے اور ہمارا خواب ٹوٹ گیا۔

    (معروف ادیب اور شاعر محمد عثمان جامعی کے فکاہیہ مضامین کے مجموعے "کہے بغیر”‌ سے انتخاب)

  • حاکمِ اعلیٰ کا جنونِ لطیفہ

    حاکمِ اعلیٰ کا جنونِ لطیفہ

    بدقسمتی سے اگر کوئی افسر لطیفہ گوئی کا بیمار ہوا تو سمجھ لیجیے کہ بے چارے ماتحتوں کی مصیبت آگئی، کیوں کہ صاحب کے روکھے پھیکے، گھسے پٹے لطیفوں (جس پر ہنسنا تو ہنسنا، رونا بھی نہ آسکے) کو سن کر ان بے چاروں کو اپنی نوکری برقرار رکھنے کے لیے دیوارِ قہقہہ بننا پڑتا ہے۔

    ایک دفتر کے حاکمِ اعلیٰ بھی اس مرض میں مبتلا تھے۔ اکثر اپنے ماتحتوں کو بور کیا کرتے تھے۔ ایک دن اسی طرح لطیفہ گوئی ہو رہی تھی اور افسر صاحب کے بلند و بانگ قہقہوں کے ساتھ ان کے اسسٹنٹ صاحبان بھی قہقہے میں قہقہہ ملا رہے تھے، لیکن ایک صاحب غیر معمولی طور پر بالکل خاموش اور بے توجہ بیٹھے رہے۔

    کسی نے پوچھا، ’’آپ کیوں خاموش ہیں؟‘‘

    وہ صاحب برجستہ بول پڑے، ’’میں کیوں ہنسوں، میں تو کل سے ریٹائر ہو رہا ہوں۔‘‘

    (سرور جمال کی تحریر سے اقتباس)

  • "چودھری صاحب سے میری پہلی ملاقات!”

    "چودھری صاحب سے میری پہلی ملاقات!”

    چودھری صاحب سے میری پہلی ملاقات تو جب ہوئی جب میں دوسری جماعت میں داخل ہوا۔ جس وقت میں درجہ اوّل میں آیا تو دیکھا کہ چودھری صاحب مرغا بنے ہوئے ہیں۔ اس مبارک پرند کی وضع قطع چودھری صاحب کو مجبوراً تھوڑی دیر کے لیے اختیار کرنا پڑتی تھی۔

    وہ میرے پاس آکر بیٹھے اور سبق یاد کرنے کے وجوہ اور اس کے خطرناک نتائج پر گفتگو رہی کہ ماسٹر صاحب کے ڈنڈے نے یہ عارضی صحبت درہم برہم کر دی۔ میں تو گرفتار تھا اس لیے بچ گیا۔ اور چودھری صاحب الگ بٹھائے گئے۔ یہ تو گویا پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد کالج تک ساتھ رہا۔

    بی۔اے میں چودھری صاحب عازمِ بیت اللہ ہوئے۔ حج کرنے میں سب سے زیادہ خطرہ اس بات کا تھا کہ حاضریاں کم ہوجائیں گی اور امتحان میں شرکت کی اجازت نہ ملے گی۔ چنانچہ یہی ہوا کہ حج سے جو واپس ہوئے تو اپنا نام کالج کے نوٹس بورڈ پر آویزاں پایا۔ ان لڑکوں کی فہرست میں جو کالج سے غیر حاضر رہنے کی پاداش میں امتحان سے روکے جانے والے تھے۔

    ‘‘ذرا غور تو کیجیے’’ چودھری صاحب بولے۔ ‘‘یہ ستم نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر کرکٹ کی ٹیم مہینے بھر کے لیے باہر جائے تو سب کو حاضریاں ملیں۔ اگر لڑکے چتوڑ کا قلعہ اور دہلی کے کھنڈر دیکھنے جائیں تو شعبٔہ تاریخ کے پروفیسر صاحب اس سیر سپاٹے کو حصۂ تعلیمی سمجھ کر حاضریاں پوری کروائیں۔ آخر تکمیلِ دینیات کے سلسلے میں اگر کوئی حرمین شریف جائے تواس کو کس بنا پر پوری حاضریاں نہ ملیں؟ جیسے اور مضامین مثلاً اقتصادیات و تواریخ ہیں ویسے دینیات بھی لازمی مضمون ہے۔’’

    ان کی کوششیں رائیگاں نہ گئیں اور محکمۂ دینیات کے پروفیسروں نے چودھری صاحب کی پوری حاضریاں دلوائیں اور امتحان میں شرکت کی اجازت مل گئی۔

    حج سے پہلے وہ چودھری صاحب تھے اور حج کے بعد‘‘الحاج الشذری الہندی۔’’

    بہت غور وخوض کے بعد تمام عربی قواعد کو ملحوظ رکھتے ہوئے حجاز میں پہنچ کر لفظ‘‘چودھری’’معرب ہو کر‘‘الشذری ’’ہو گیا تھا۔ اور یہ ارتقائی نشو و نما چودھری صاحب کی ذات شریف میں اس قدر حلول کر گئی تھی کہ خالص عرب کا باشندہ تو کوٹ پتلون بھی پہن سکتا ہے، مگر ‘‘الشذری’’ اس سے مجبور تھے۔ اور عربی جبہ وقبہ پسند کرنے لگے تھے، لیکن باوجود مختصر ڈاڑھی اور عربی لبادہ اور انتہائی کوشش کے وہ کسی طرف سے عرب معلوم نہ ہوتے تھے۔

    میں نے اور انھوں نے تعلیم ساتھ پائی تھی۔ دونوں کی عربی دانی کی قابلیت بھی برابر تھی۔ اگر وہ روانی کے ساتھ قرآن مجید پڑھ سکتے تھے تو اٹک اٹک کر میں بھی پڑھ سکتا تھا۔ رہ گیا سوال معنیٰ کا تو یہ کبھی طے نہ ہوسکا کہ میں اس میں ان پر فوقیت رکھتا ہوں یا وہ مجھ پر۔ لیکن حج سے واپس آنے کے بعد ان کو بہت سی چیزوں کی عربی معلوم ہوگئی تھی اوراس کا میرے پاس کوئی علاج نہ تھا۔

    (اردو کے ممتاز طنز و مزاح نگار مرزا عظیم بیگ چغتائی کی شگفتہ تحریر سے اقتباس)

  • مَردوں کا سچ…

    مَردوں کا سچ…

    جب یہ امر طے شدہ ہے کہ مرد عورتوں سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، تو اسے تحقیق کے ذریعے ثابت اور بے چارے مردوں کو مزید رسوا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

    برطانیہ کے محققین کو نہ جانے کیا سوجھی کہ بیٹھے بٹھائے مردوں اور عورتوں کی دروغ گوئی کی پیمائش کر ڈالی اور سروے کے ذریعے مردوں کو زیادہ جھوٹا قرار دے دیا۔ دراصل سروے میں معصوم مردوں نے سچ سچ بتا دیا کہ وہ روزانہ کم از کم تین جھوٹ بولتے ہیں، یوں عورتوں سے بڑھ کر جھوٹے ٹھہرائے گئے۔

    محققین نے یہ تو جان لیا کہ مرد عورتوں سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، مگر یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ آخر وہ ایسا کرتے کیوں ہیں؟ ارے یہ جھوٹ ہی تو ہے جس کے سہارے مرد جی لیتے ہیں، ورنہ ہر مرد یہی دعا مانگتا نظر آئے ؎

    اب کے جنم موہے ”کاکا“ نہ کیجو

    جھوٹ مردوں کی مجبوری اور ان کی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ خاص طور پر اس برادری کی مظلوم ترین ”نوع“ شوہروں کا دروغ گوئی کے بغیر گزارہ ہی نہیں۔ اب خدا لگتی کہیے، شادی کے دس پندرہ سال بعد،”میں کیسی لگ رہی ہوں“ کے ”اہلیانہ“ سوال کا جواب پوری سچائی کے ساتھ دیا جاسکتا ہے؟

    ایسے کتنے ہی سوال ہر روز شوہروں کے سامنے کھڑے کہہ رہے ہوتے ہیں، ”ہمت ہے تو سچ بول کے دکھا۔“ اسی طرح،”چَن کِتھاں گزاری ائی رات وے“ کا سیدھا سچا جواب ”چن“ کے دن رات کا چین چھین لے گا، چناں چہ اسے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی کہانی گھڑنا پڑتی ہے۔

    ”کیا آپ نے شادی سے پہلی کسی سے محبت کی ہے“ کا شَک میں گُندھا بلکہ سَنا ہوا استفسار اس لیے نہیں ہوتا کہ شوہر پڑوس کی بانو، پچھلی گلی کی رانو، اَگلی گلی کی چَھپن چُھری، کالج کی حمیدہ، یونیورسٹی کی زبیدہ اور دفتر کی سعیدہ سے تعلق کے گُفتنی اور ناگُفتنی تذکرے چھیڑ دے اور اہلیہ برداشت کی پوری اہلیت کے ساتھ مزے لے لے کر سُنتی رہیں، بلکہ بیگم صاحبہ صرف یہ سُننا چاہتی ہیں کہ تم میری پہلی اور آخری محبت ہو، لہذا ”پہلی“ سے پہلے ”شادی کے بعد“ اور ”آخری“ سے قبل ”اب تک کی“ کے ٹکڑے دل ہی دل میں جوڑ کر حسبِ منشا جواب دے دیا جاتا ہے۔

    نصف بہتر کے ہاتھ کا بدترین کھانا بھی ”واہ واہ“ کر کے پیٹ میں انڈیلنا پڑتا ہے، ورنہ شوہر غریب کتنی ہی دیر کھا جانے والی نظروں کا سامنا کرتا رہے گا اور اس کے کان کھائے جاتے رہیں گے۔

    اب آپ ہی فیصلہ کیجیے مرد جھوٹے ہیں یا وہ لوگ ظالم ہیں جو مردانہ مجبوریوں کو جھوٹ کا مکروہ نام دیتے ہیں؟

    (محمد عثمان جامعی کی مزاحیہ تحریروں کے مجموعے ” کہے بغیر ” سے انتخاب)

  • "بھینس بہت مشہور جانور ہے!”

    "بھینس بہت مشہور جانور ہے!”

    یہ بہت مشہور جانور ہے۔ قد میں عقل سے تھوڑا بڑا ہوتا ہے۔

    چوپایوں میں یہ واحد جانور ہے کہ موسیقی سے ذوق رکھتا ہے، اسی لیے لوگ اس کے آگے بین بجاتے ہیں۔ کسی اور جانور کے آگے نہیں بجاتے۔

    بھینس دودھ دیتی ہے، لیکن وہ کافی نہیں ہوتا۔ باقی دودھ گوالا یعنی دودھ والا دیتا ہے اور دونوں کے باہمی تعاون سے ہم شہریوں کا کام چلتا ہے۔

    تعاون اچھی چیز ہے، لیکن دودھ کو چھان لینا چاہیے تاکہ مینڈک نکل جائیں۔

    بھینس کا گھی بھی ہوتا ہے۔ بازار میں ہر جگہ ملتا ہے۔ آلوؤں، چربی اور وٹامن سے بھرپور۔ نشانی اس کی یہ ہے کہ پیپے پر بھینس کی تصویر بنی ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ تفصیل میں نہ جانا چاہیے۔

  • "ہمارے ہاں مینڈک کی کچھ قدر نہیں”

    "ہمارے ہاں مینڈک کی کچھ قدر نہیں”

    ہمارے ہاں تو بے چارے مینڈک کی کچھ قدر نہیں، لیکن دنیا کے اکثر ممالک میں انہیں نہایت رغبت سے کھایا جاتا ہے۔

    فرانسیسیوں کا تو نام ہی اس لیے فراگ پڑ گیا کہ وہ مینڈکوں کے بے حد شوقین ہیں، لیکن ذرا کوریا، چین اور ویت نام وغیرہ جا کر دیکھیے جہاں مینڈک کڑاہی، مینڈک فرائی اور مینڈک پلاؤ وغیرہ نہایت پسندیدہ ڈشیں ہیں۔

    پاکستانی ادیبوں کے وفد کے ساتھ چین جانے کا اتفاق ہوا تو ایک صبح ہوٹل کے ڈائننگ روم میں ناشتے کے لیے اترے، وہاں ایک جانب مغربی ناشتے کا اہتمام تھا اور برابر میں چینی ناشتا سجا ہوا تھا، میں نے سوچا کہ انڈہ ٹوسٹ وغیرہ تو کھاتے ہی رہتے ہیں کیوں نہ چینی ناشتا نوش کیا جائے۔

    اب وہاں پہنچے تو کوئی شے ایسی نہ تھی جس سے کچھ واقفیت ہو۔ ایک تشتری میں سفید رنگ کے نہایت خوش نظر قتلے سجے تھے جو نہایت ذائقہ دار لگ رہے تھے۔

    ذرا قریب ہو کر ملاحظہ کیا تو ہر قتلے کے سرے پر دو آنکھیں نظر آئیں جو شناسا سی لگتی تھیں، پھر یاد آگیا کہ انہیں کہاں دیکھا ہے، اپنے گاؤں کے جوہڑ کی سطح پر دیکھا تھا!

    یعنی مینڈک تھے، جی تو چاہا کہ ذرا ٹرائی کر لیے جائیں، لیکن آس پاس اپنی ادیب برادری تھی جس نے پاکستان واپسی پر مشہور کر دینا تھا کہ جی یہ تارڑ تو وہاں دن رات مینڈک کھاتا رہتا تھا۔

    یہ بھی شنید ہے کہ آپ جس جانور کا گوشت کھائیں آپ میں اس کی خصلتیں پیدا ہو جاتی ہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وطن واپسی پر گھر میں اچھلتے پھریں اور بچہ لوگ کو بھی پتہ چل جائے کہ والد صاحب تو ڈڈو کھاتے ہیں۔

    ویسے اس کا امکان تو نہ تھا کیوں کہ یہ مفروضہ درست نہیں کہ انسان جس جانور کا گوشت کھائے اس میں اسی جانور کی خصلتیں نمودار ہو جاتی ہیں۔

    وہ جو کہتے ہیں کہ مینڈکی کو زکام ہونا تو اس کے علاوہ ایک اور محاورہ ہے جس سے آپ واقف نہیں ہوں گے کہ مینڈک چلا مینڈک کی چال اپنی چال بھی بھول گیا۔

    یہ اس لیے معرضِ وجود میں آیا کہ دنیا بھر میں ہر مینڈک کی چال الگ الگ ہوتی ہے، چال سے مراد ان کا اچھل اچھل کر سفر کرنا ہے۔

    ہر مینڈک کے اچھل کر آگے جانے کا فاصلہ کسی اور مینڈک سے مختلف ہوتا ہے۔ کئی بار کوئی مینڈک کسی خوش رفتار مینڈک کی اچھل کود کی کاپی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بری طرح ناکام رہتا ہے۔

    اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو کہیں سے دو مینڈک حاصل کیجیے اور پھر جب وہ اچھلنے لگیں تو ان کی چھلانگوں کا فاصلہ ناپیے، آپ دیکھیں گے کہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

    (مستنصر حسین تارڑ کے "ڈڈو” سے انتخاب)