Tag: مزاحیہ تحریریں

  • ماہر چور اور اصلاحِ احوال

    ماہر چور اور اصلاحِ احوال

    آپ یقین مانیے کہ اگر مذہبی قیود، سماجی ذمہ داریاں اور ذاتی وقعت کا خیال لوگوں کے دلوں سے نکال دیا جائے تو آپ کو یہ جتنے شریف صورت انسان نظر آ رہے ہیں، ان کے کارناموں سے شیطان بھی پناہ مانگے اور یہ لوگ وہ حشر بپا کر دیں کہ دنیا دوزخ کا نمونہ بن جائے۔

    یہ تو شاید آپ بھی مانتے ہوں گے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور یہ خطاب اس کو محض اس کی دماغی قوتوں کی وجہ سے ملا ہے۔ چونکہ شیطان اور اس کی ذریات یقیناً اشرف المخلوقات کے زمرے سے خارج ہیں، اس لئے ماننا پڑے گا کہ ان کے سروں میں دماغ نہیں ہے اور جب دماغ ہی نہیں ہے تو وہ کسی طرح بھی سوچ سوچ کر وہ بد معاشیاں نہیں کر سکتے جو انسان کر سکتا ہے اور جو جو باتیں دماغ سے اتار کر یہ کر جاتا ہے وہ فرشتہ تو کیا حضرت عزرائیل کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آ سکتیں۔

    اس کے بعد دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر واقعات کسی شخص کو نیک سے بد اور اچھے سے برا کر سکتے ہیں تو کیا واقعات کسی بدمعاش کو نیک معاش بھی بنا سکتے ہیں۔ اس بارے میں میری اور دنیا کی بعض قابل احترام ہستیوں کی رائے میں اختلاف ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ چیز ممکن ہے وہ کہتے ہیں کہ برائی کا مادّہ پختہ ہو کر کوئی بیرونی اثر قبول نہیں کر سکتا۔ یہ وہ بحث ہے جس کے سلسلے میں اپنی زندگی کے بعض حالت لکھ کر میں آپ کی رائے کا طالب ہوں۔ مگر خدا کے لیے رائے ظاہر کرتے وقت آپ صرف واقعات کو دیکھیے اور اس کا خیال نہ کیجیے کہ ایک طرف تو ایک ایسے شخص کی رائے ہے جس کی تمام عمر بدمعاشیاں کرتے گزری ہے اور دوسری طرف ان لوگوں رائے ہے جن کی عزت دنیا میں ہر شخص کے دل میں ہے اور جن کے قول آپ حدیث اور آیت کے ہم پلہ سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی بتائیے کہ کیا طریقے ہو سکتے ہیں جو پختہ کار بدمعاشوں کو راہِ راست پر لا سکیں اور ان کی اصلاح حال کر سکیں۔

    اس سے غرض نہیں کہ میں کہاں پیدا ہوا اور کب پیدا ہوا۔ اس سے مطلب نہیں کہ میں کس خاندان میں پیدا ہوا۔ میرا نام کیا رکھا گیا اور میں نے اس ایک نام کے رفتہ رفتہ کتنے نام کر لیے۔ ہمارے گرد و پیش کے واقعات سمجھنے کے لیے بس اتنا جاننا کافی ہے کہ ہم پیدا ہوئے اور ایسے والدین کے ہاں پیدا ہوئے کہ جناب والد صاحب قبلہ سخت شرابی اور بے فکرے تھے اور ہماری اماں بالکل اپاہج۔ گھر میں پہلے کچھ جمع پونجی ہو تو ہو لیکن جب سے ہوش سنبھالا، ہم نے تو یہاں خاک ہی اڑتے دیکھی۔ ہم کو اب تک یہ معلوم نہیں کہ آخر گھر کا خرچ چلتا تھا تو کیوں کر چلتا تھا۔ آٹھ نو برس تک ہماری عمر لونڈوں میں گیڑیاں اور گلی ڈنڈا کھیلنے، بدمعاشیاں کرنے اور شہر بھر کے گلی کوچوں کی خاک چھاننے میں گزری۔

    کوئی ہم دس برس کے ہوں گے کہ والدہ صاحبہ نے گھر کا خرچ چلانے کا آلہ ہم کو بنایا۔ یعنی چوری کرنے کی ترغیب دی اور اس طرح ہم نے چوری کی۔ بسم اللہ سامنے کے گھر والے مولوی صاحب کے مرغے سے کی لیکن وہ مرغا بھی آخر مولوی صاحب کا مرغا تھا۔ ادھر ہم نے اس پر ہاتھ ڈالا اور ادھر اس نے غل مچا کر سارے محلّے کو جمع کر لیا۔ مولوی صاحب بھی باہر نکل آئے۔ مرغے کو ہماری بغل سے رہائی دلائی۔ ہمارے دو تین چپت رسید کیے۔ خوب ڈانٹا۔ ہماری اماں سے شکایت کی اور ڈرامے کا یہ سین ختم ہو گیا۔ ہماری عمر کا لحاظ کرتے ہوئے کسی کو یہ خیال بھی نہیں گزرا کہ ہم نے چوری کی نیّت سے یہ مرغا پکڑا تھا۔ یہ سمجھے کہ جس طرح بچّے جانوروں کو ستاتے ہیں، اسی طرح اس نے بھی کیا ہوگا۔ چلیے گئی گزری بات ہوئی۔

    ہم روتے ہوئے اماں کے پاس آئے۔ انہوں نے ہم کو ایک ایسی ترکیب بتا دی کہ اب کہو تو سارے شہر کی مرغیاں پکڑ لاؤں اور کیا مجال ہے کہ ایک بھی ذرا چوں کر جائے۔ خیر وہ ترکیب بھی سن لیجیے۔ مگر للہ اس پر عمل نہ کیجیے، ورنہ یاد رکھیے کہ چوری کا جو مادّہ فطرت نے آپ کو ودیعت کیا ہے اس میں ہیجان پیدا ہو جائے گا اور ممکن ہے آپ بھی مرغے چور ہو جائیں۔

    یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ مرغی پر اگر پانی کی ایک بوند بھی پڑ جائے تو وہ سکڑ کر وہیں بیٹھ جاتی ہے اور چاہے مار بھی ڈالو تو آواز نہیں نکالتی اور اسی سے ’’بھیگی مرغی‘‘ کا محاورہ نکلا ہے۔ فطرت کے مطالعے نے چوروں کو سکھا دیا ہے کہ مرغیوں کے چرانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ان کو کسی طرح گیلا کر دیا جائے۔ وہ کیا کرتے ہیں کہ جہاں کسی مرغی کو اپنے موقع پر دیکھا اور چپکے سے گیلا کپڑا اس پر ڈال دیا۔ ادھر گیلا کپڑا پڑا اور ادھر وہ دبکی۔ انہوں نے اٹھا کر بغل میں دبایا اور چلتے بنے۔ اب مرغی ہے کہ آنکھیں بند کیے سکڑی سکڑائی بغل میں دبی چلی جا رہی ہے۔ نہ کڑ کڑاتی ہے اور نہ منہ سے آواز نکالتی ہے۔ بہر حال یہ طریقہ سیکھ ہم نے سب سے پہلے مولوی صاحب کے مرغے پر ہی ہاتھ صاف کیا۔ اس روز بہت دنوں کے بعد ہمارے ہاں مرغ کا سالن پکا اور سب نے بڑے مزے سے اڑایا۔ مرغ کے بال و پر سب گڑھا کھود کر گھر ہی میں دفن کر دیے۔

    بات یہ ہے کہ بچّے کو جو چیز سکھائی جاتی ہے وہ جلد سیکھ جاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اپنے ہاتھ کی چالاکی دکھا کر لوگوں کو بتائے کہ ہم کسی کارروائی میں بڑوں سے دب کر رہنے والے نہیں ہیں۔ چنانچہ ہم نے بھی مرغیاں پکڑنے کا تانتا باندھ دیا۔ شاید ہی کوئی منحوس دن ہوتا ہوگا جو ہم مرغیاں پکڑ کر نہ لاتے ہوں۔ کچھ دنوں تو یہ مرغیاں صرف ہمارے کھانے میں آتی رہیں۔ اس کے بعد ان کی تجارت شروع کی۔ یہاں کی مرغی پکڑی وہاں بیچ دی۔ وہاں کی مرغی لائے یہاں فروخت کر دی۔ غرض ہمارے بل پر گھر کا خرچ چلنے لگا۔ گھر کے خرچ سے جو کچھ بچتا وہ والد صاحب قبلہ مار پیٹ کر لے جاتے اور مفت کی شراب اڑاتے۔

    اسی آوارہ گردی میں ہماری ملاقات ایسے لوگوں سے ہو گئی جو چوری میں مشاق تھے۔ ان میں بعضے ایسے تھے جو قید خانے کی ڈگریاں بھی حاصل کر چکے تھے۔ رفتہ رفتہ ان کی صحبت میں ہم کو مزہ آنے لگا۔ ہم اپنے کارنامے بیان کرتے وہ اپنے قصے سناتے۔ ہمارا شوق بڑھتا اور جی چاہتا کہ کچھ ایسا کام کرو جو یہ بھی کہیں کہ ’’واہ میاں صاحب زادے تم نے تو کمال کر دیا۔‘‘ غرض’’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔‘‘ کے خیال نے ہم کو مرغی چور سے پکا چور کر دیا۔ پہلے جیب کترنے کی مشق کی۔ گندہ بروزہ مل مل کر انگلیوں کی کگریں ایسی سخت کر لیں کہ مضبوط سے مضبوط اور موٹے سے موٹے کپڑے کو چٹکی میں لیا، ذرا مسلا اور جیب ہاتھ میں آ گئی۔ ہوتے ہوتے انگلیاں ایسا کام کرنے لگیں کہ قینچی بھی کیا کرے گی۔ جب اس میں کمال حاصل ہوگیا تو پھر قفل شکنی کی مشق بہم پہنچائی۔

    قفل دو طرح سے کھولے جاتے ہیں۔ یا کنجیوں سے یا تار سے۔ اب یہ چور کا کمال ہے کہ قفل کو دیکھتے ہی اپنے لچھے میں سے کنجی ایسی نکالے جو قفل میں ٹھیک بیٹھ جائے، اور تار کو اس طرح موڑ کر ڈالے کہ پہلے ہی چکر میں سب پتلیاں ہٹ کر کھٹ سے قفل کھل جائے۔ کچھ خدا کی دین تھی کہ مجھے اس کام میں یدِ طولٰی حاصل ہو گیا۔ معمولی قفل تو درکنار، چپ کے کارخانے کا قفل بھی میں ایک منٹ میں کھول دیتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ شہر کے بڑے بڑے چور بھی میری خوشامد کرتے۔ سب سے بڑا حصہ دیتے۔ اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر مجھے ساتھ لے جاتے مگر میں سوائے قفل کھول دینے کے چوری سے کچھ غرض نہ رکھتا تھا۔ قفل کھولا اور چلا آیا۔ یار لوگوں نے چوری کا مال فروخت کیا اور میرا حصہ چپکے سے میرے پاس بھیج دیا۔ میرے ساتھی اکثر گرفتار ہوئے جیل گئے لیکن میرا نام کبھی عدالت کے سامنے نہیں آیا اورمیں باوجود سیکڑوں وارداتوں میں حصہ لینے کے بچا رہا۔

    ہوتے ہوتے میرے ہاتھ کی صفائی نے وہ نام پیدا کیا کہ مجھے شہر بھر کے چوروں نے اپنا سردار بنا لیا۔ کوئی بڑی واردات نہ ہوتی تھی جس میں مجھ سے مشورہ نہ کیا جاتا ہو۔ کوئی بڑی چوری نہ ہوتی تھی جس کا میں نقشہ نہ ڈالتا ہوں اور کوئی مقدمہ نہ ہوتا تھا جس میں میری ذہانت سے مدد لے کر ملز مین رہا نہ ہوتے ہوں۔ بڑے بڑے گھاگ جیب کترے میرا لوہا مانتے تھے اور بڑے بڑے دیہاڑی چور میرے مشورے بغیر کسی کام میں ہاتھ نہ ڈالتے تھے۔

    میری عمر کوئی اٹھارہ انیس سال کی ہو گی کہ اخبار ’’حفاظت‘‘ میں ایک اشتہار میری نظر سے گزرا۔ ہمارے ملک کے ایک بہت بڑے ادیب مسٹر مسعود نے لکھا تھا کہ ’’میں ایک ناول لکھنا اور چوری کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اگر اس فن کا کوئی ماہر میری مدد کرے تو میں اس کو مناسب معاوضہ دینے پر بھی تیار ہوں۔‘‘ آپ جانتے ہیں کہ ہر شخص اپنے کارناموں پر فخر کرتا اور ان کو مشتہر کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک انسانی کمزوری ہے اور اس سے کوئی فرد بشر خالی نہیں ہے۔ خیر انعام و اکرام کا تو مجھے فکر نہ تھا۔ ہاں میرے دل نے کہا کہ ذرا ان صاحب سے چل کر مل لو اور دیکھو کہ ہیں یہ کتنے پانی میں۔ چوروں کے قصے لکھ لکھ کر یہ اتنے مشہور ہو گئے ہیں لیکن یہ جانتے بھی ہیں کہ چور کیسے ہوتے ہیں اور چوری کس طرح کرتے ہیں۔

    خطرہ ضرور تھا مگر میرے شوق نے مجھے اس قدر گھیرا کہ میں آخر شریفوں کی سی شکل بنا ان کے پاس پہنچ ہی گیا۔

    کیا دیکھتا ہوں کہ ایک خوبصورت نوجوان سا شخص سامنے کھڑا مسکرا رہا ہے۔ آنکھوں میں ذہانت اور چہرہ پر متانت کے ساتھ شوخی اور لباس میں سادگی کے ساتھ صفائی ہے۔ آتے ہی ہاتھ بڑھایا اور کہا، ’’معاف کیجیے گا میں نے آپ کو نہیں پہچانا۔‘‘ میں نے کہا، ’’میں آپ ہی کی طلبی پر حاضر ہوا ہوں۔ آپ ہم لوگوں کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ میں آپ کی اس خواہش کو پورا کر سکوں۔‘‘

    کہنے لگے ’’اوہو۔ آپ میرے اشتہار کے جواب میں تشریف لائے ہیں۔ ذرا ٹھہریے۔ میں ابھی اپنی موٹر لاتا ہوں۔ ایسی باتیں کرنے کے لئے یہ جگہ مناسب نہیں ہے۔ کہیں سوفتے میں بیٹھ کر گفتگو کریں گے۔ مجھے آپ سے بہت کچھ پوچھنا ہے۔ ممکن ہے کہ ہماری یہ گفتگو دونوں کے لئے فائدہ بخش ہو۔‘‘

    وہ تو یہ کہہ کر چلے گئے اور مجھے خیال ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ حضرت مجھے گرفتار کرا دیں۔ پھر سوچا کہ مجھ پر الزام ہی کیا ہے جو میں ڈروں۔ اور ان کو میرے حالات ہی کیا معلوم ہیں جو مجھے کچھ اندیشہ ہو۔ اگر گڑبڑ ہوئی بھی تو خود انہی کو شرمندہ ہونا پڑے گا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہ موٹر لے آئے اور میں ’’ہر چہ باد باد ما کشتی در آب انداختیم‘‘ کہتا ہوا ان کے ساتھ سوار ہو گیا۔

    موٹر فراٹے بھرتی شہر سے گزر آبادی کو پیچھے چھوڑ، جنگل میں سے ہوتی ہوئی ایک ندی پر پہنچی۔ مسٹر مسعود نے موٹر روکی۔ ہم دونوں اترے۔ چائے کا سامان نکالا گیا اور ندی کے کنارے دستر خوان بچھا کر ہم دونوں بیٹھے۔ اب کھاتے جاتے ہیں اور باتیں ہوتی جاتی ہیں۔

    مسٹر مسعود نے کہا کہ ’’معاف کیجیے میں آپ کا نام نہیں جانتا اس لئے آپ کو گفتگو میں صرف ’’مسٹر‘‘ کہوں گا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ کے حالات شاید اس کی اجازت نہ دیں کہ آپ اپنا نام کسی اجنبی شخص پر ظاہر کریں۔ اور اگر آپ نے ظاہر کیا بھی تو وہ یقیناً آپ کا اصلی نام نہ ہوگا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ صرف لفط ’’مسٹر‘‘ سے ان تمام دقتوں کو رفع کیا جائے۔

    اس سے تو آپ مطمئن ہو گئے ہوں گے کہ میں آپ کو ایسی جگہ لایا ہوں جہاں کوئی شخص چھپ چھپا کر ہماری باتیں نہیں سن سکتا۔ اور میں نے یہ صرف اس لیے کیا ہے کہ آپ کو یہ اندیشہ نہ ہو کہ میں آپ کے واقعات سننے میں کسی دوسرے کو شریک کر کے گواہ بنانا چاہتا ہوں۔ اب ہم نہایت اطمینان سے گفتگو کر سکتے ہیں۔ آپ کا جو جی چاہے مجھ سے پوچھیے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ہر چیز صاف دلی سے بیان کروں گا اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی میرے سوالوں کے جواب میں سچائی کا پہلو اختیار کریں گے اور اس طرح ممکن ہے کہ یہ صحبت ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کا دوست اور پکا دوست بنا دے۔

    مسٹر مسعود کی آواز میں کچھ ایسا لوچ، الفاظ میں کچھ ایسی شیرینی، نگاہ میں کچھ ایسی محبت اور گفتگو میں کچھ ایسی دل چسپی تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں وہ تمام اندیشے ہوا ہو گئے جو مجھ جیسے شخص کے دل میں پیدا ہوئے تھے۔ اور پیدا ہونے لازمی تھے اور یہ پہلا موقع تھا کہ میرے دل میں کسی شخص کی وقعت قائم ہوئی۔ اور خود اپنے متعلق بھی سمجھا کہ میں بھی آدمی ہوں اور ایک شریف آدمی بن سکتا ہوں۔ باتوں باتوں میں یہ بھی معلوم ہوا کہ مسٹر مسعود کو ابتدا ہی سے مجھ جیسے لوگوں سے ملنے کا شوق ہے اور وہ کوئی کتاب نہیں لکھتے جب تک اس کی بنا واقعات پر نہ ہو۔ ان کو بہت سے بدمعاشوں نے دھوکے بھی دیے اور دوستی کی آڑ میں ان کو خوب لوٹا۔ یہاں تک کہ کئی دفعہ تو خود ان کے گھر میں چوری کی اور مزہ یہ ہے کہ خود اس چوری کا حال ان سے بیان بھی کر دیا مگر اس اللہ کے بندے نے نہ کبھی کسی کے خلاف کوئی کارروائی کی اور نہ کبھی کوئی شکوہ و شکایت زبان پر لایا۔

    مجھے یہ معلوم کر کے بڑی حیرت ہوئی کہ وہ اور تو اور، خود میرے حالات سے پوری طرح واقف ہیں۔ انہوں نے اپنا جال کچھ اس طرح پھیلایا تھا کہ کوئی واردات نہ ہوتی ہوگی جس کا رتی رتی حال ان کو نہ معلوم ہو جاتا ہو۔ اور کوئی مشہور چور یا ڈاکو ایسا نہ تھا جس کو وہ ذاتی طور پر نہ جانتے ہوں، اور ضرورت کے وقت اس کی مدد نہ کرتے ہوں۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ ضرورت اکثر لوگوں کو چوری کا پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے لیکن رفتہ رفتہ گرد و پیش کے واقعات جال بن کر ان کو اس طرح پھنسا لیتے ہیں کہ وہ جتنا نکلنا چاہتے ہیں اتنی ہی جال کی رسیاں ان کو کستی چلی جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ کسی جیل خانے میں مر کر رہ جاتے ہیں یا ضمیر کی ملامت کسی مرض میں مبتلا کر کےان کا خاتمہ کر دیتی ہے۔

    مسٹر مسعود جیسے شخص کے ساتھ دل کھول کر گفتگو نہ کرنا واقعی ظلم تھا۔ میں نے بھی اپنے اگلے پچھلے واقعات سب بیان کر دیے۔ چوری کرنے کی ترکیبیں بتائیں۔ قفل کھولنے کے طریقے بتائے۔ اپنے ساتھیوں کے قصے بیان کیے۔ غرض کوئی تین چار گھنٹے اسی قسم کی گفتگو میں گزر گئے۔ شام ہو گئی تھی اس لیے ہم دونوں اٹھے۔ شہر کے کنارے پر انہوں نے مجھے موٹر سے اتار دیا۔ دوسرے دن ملنے کا وعدہ لیا اور اس طرح ہم دونوں کی گفتگو کا سلسلہ کوئی مہینہ بھر چلتا رہا۔ انہوں نے مجھے معقول معاضہ دینا بھی چاہا لیکن میں نے لینے سے انکار کر دیا۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے، ’’مسٹر اب معلوم نہیں آئندہ ہمارا ملنا ہو یا نہ ہو لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ آپ کی صحبت میں جو مزہ مجھے آیا ہے، وہ شاید ہی کسی کی صحبت میں آیا ہو۔ میرا ارادہ ہے کل یہاں سے چلا جاؤں گا۔ اس لئے یہ سمجھنا چاہیے کہ آج میری اور آپ کی آخری ملاقات ہے۔

    ایک دن میں نے اخبار میں پڑھا کہ قفلوں کے ایک بڑے کارخانے میں ایک کاریگر کی ضرورت ہے۔ اسّی روپے تنخواہ ملے گی مگر انہی لوگوں کو درخواست دینی چاہیے جو قفلوں کی پتلیوں کو سمجھتے ہوں اور ان میں ایجاد کرنے کا مشورہ دے سکتے ہوں۔ مجھ کو آتا ہی کیا تھا، اگر کچھ آتا تھا تو انہی پتلیوں کا الٹ پھیر۔ دل میں آیا کہ چلو یہاں قسمت آزمائی کریں۔ جیب جو ٹٹولی تو کرایہ تک پاس نہ تھا۔ اللہ کا نام لے کر پیدل چل کھڑا ہوا۔

    سو میل کا فاصلہ چار دن میں طے کیا۔ کارخانے میں پہنچا۔ میری زدہ حالت دیکھ کر کسی نے منہ نہ لگایا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ جگہ بھر چکی ہے۔ کارخانے کی سیڑھیوں پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر نہ ہوئی تھی کہ خدا کی قدرت سے کارخانے کے مالک وہاں سے گزرے۔ مجھے سر پکڑے بیٹھا دیکھ کر وہیں ٹھہر گئے۔ مجھ سے پوچھا کہ ’’آپ کون ہیں اور یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟‘‘

    میں نے اپنے پیدل آنے کا قصہ بیان کیا۔ ان پر اس کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ مجھے لے کر کارخانے میں گئے۔ ایک بڑی تجوری رکھی تھی۔ کہنے لگے، ’’ذرا بتاؤ تو سہی کہ اس میں کتنی پتلیاں ہیں۔ ہمارے کار خانے کا دعویٰ ہے کہ اسے کوئی نہیں کھول سکتا۔‘‘ میں نے ان سے ایک موٹا تار مانگا۔ قفل کے سوراخ میں ڈال کر گھمایا اور کہا کہ’’اس میں گیارہ پتلیاں ہیں اور اس کے کھولنے کے لیے دو کنجیاں چاہییں۔ لیکن اگر آپ کہیں تو اسی تار سے میں اس کو کھول دوں۔‘‘

    میں نے تار کو ذرا موڑ کر دو چکر دیے۔ قفل کھٹ سے کھل گیا۔ یہ دیکھ کر تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کہنے لگے، ’’کیا تم بتا سکتے ہو کہ اس میں اور کیا ترمیم کی ضرورت ہے جو قفل بغیر کسی کنجی کے نہ کھل سکے۔‘‘ میں نے اپنے تجربے کے لحاظ سے ان کو پتلیوں کی ترتیب بتائی۔ یہ سن کر تو وہ ایسے خوش ہوئے کہ وہیں کھڑے کھڑے اسّی روپے پر مجھے نوکر رکھ لیا۔ اس کے بعد میں نے اتنی محنت سے کام کیا اور قفلوں میں وہ ایجادیں کیں کہ تھوڑے ہی دنوں میں وہ کارخانہ کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔ میری تنخواہ بڑھ کر تین سو روپے ہو گئی۔ دوسرے کارخانے والوں نے مجھے توڑنا بھی چاہا لیکن میں نے صاف انکار کر دیا۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ جس شخص نے مصیبت میں میری مدد کی تھی اس کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ غرض یہ کہ تمام ملک میں ہمارے کارخانے کی دھاک بیٹھ گئی۔ جب اس طرح اطمینان ہو گیا، تو میں نے گھر بسانے کا ارادہ کیا۔ شادی بھی ٹھہر گئی لیکن عین وقت پر از غیبی گولہ پڑا۔

    ہوا یہ کہ ہمارے شہر میں’’چور اور چوری‘‘ پر ایک لیکچر کا اشتہار دیا گیا۔ میں نے سوچا کہ چلو دیکھیں کہ یہ لیکچرار صاحب اس پیشے کے متعلق کیا جانتے ہیں اور کیا کہتے ہیں۔ وقت مقررہ پر جو میں جلسہ میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہزاروں آدمیوں کا مجمع ہے۔ سیکڑوں اخباروں کے نمائندے فوٹو کے کیمرے لیے موجود ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر ان بھلے آدمیوں کو چوروں سے کچھ ایسی دلچسپی ہے جو اپنا سارا کاروبار چھوڑ کر یہاں جمع ہوئے ہیں۔ بہرحال چار بجے کے قریب مقرر صاحب تشریف لائے۔ ان کے خیر مقدم میں تالیوں کا وہ شور اور ہرے ہرے کا وہ غل ہوا کہ زمین آسمان ہل گئے۔ وہ بھی نہایت شان سے چبوترہ پر آئے۔ اب جو دیکھتا ہوں تو یہ تو میرے پرانے دوست مسٹر مسعود ہیں۔ میں نے کہا، ’’لو بھئی اچھا ہوا، اب ان کو بتاؤں گا کہ حضرت مجھے دیکھ کر آپ اندازہ کیجیے کہ میں صحیح کہتا تھا یا آپ صحیح کہتے تھے۔ میں پہلے کیا تھا اور اب کیا ہوں۔ آخر میری اصلاح حال ہوئی یا نہیں۔‘‘

    خیر لیکچر شروع ہوا۔ مسٹر مسعود نے چوروں کی ٹولیوں کے، ان کے رہنے سہنے کے، ان کے چوری کرنے کے، ان کے خیالات کے غرض ان کی زندگی کے ہر پہلو کا نقشہ اس خوبی سے کھینچا کہ دل خوش ہو گیا۔ اور اس وقت معلوم ہواکہ واقعی مطالعۂ زندگی اس طرح کیا جاتا ہے اور تجربات کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔ اپنے لیکچر کے آخر میں انہوں نے وہی پرانی بحث چھیڑی کہ ’’جس شخص کو چوری کا مرض پڑ گیا ہو کیا اس کی اصلاح حال کی جا سکتی ہے؟‘‘ اور اپنی وہی پرانی رائے ظاہر کی کہ ’’یہ مرض پختہ ہو کر عادت ثانی ہو جاتا ہے۔ اور عادت ثانی کا چھڑانا ناممکن ہے۔‘‘ لیکچر ختم ہونے کے بعد مجھ سے نہ رہا گیا اور میں سیدھا لیکچرار صاحب کے چبوترے پر پہنچا۔ انہوں نے مجھ کو ذرا غور سے دیکھا لیکن یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ کون شخص ہے۔

    مجھ کو لیکچر وکچر دینا تو آتا نہیں۔ ہاں میں نے سیدھی سیدھی زبان میں کہا، ’’معزز حاضرین! ہمارے کرم فرما مسٹر مسعود نے آخر میں جو کچھ کہا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ ممکن ہے کہ ان کی دریافت میں کوئی ایسا چور نہ ملا ہو جو راہ راست پر آیا ہو۔ لیکن میرا تجربہ اس کے بالکل خلاف ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ بد سے بد تر شخص کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ خواہ اس کو مسٹر مسعود مانیں یا نہ مانیں۔‘‘ میں یہیں تک کہنے پایا تھا کہ جلسہ میں غل مچ گیا۔ کوئی کہتا، ’’حضرت آپ کے دماغ کا علاج کرائیے۔‘‘ کوئی کہتا، ’’آپ کی فصد لیجیے۔‘‘ غرض کیسا سننا اور کیسا سمجھنا۔ ایک طوفان بے تمیزی برپا ہو گیا۔ مسٹر مسعود تو سوار ہو کر چل دیے اور مجھے اخبار کے نمائندوں نے گھیر لیا۔ بیسیوں فوٹو لیے گئے۔ہزاروں سوالات کیے گئے۔

    میں نے پوچھا، ’’بھائیو یہ کیا معاملہ ہے۔ آخر میں نے ایسی کون سی عجیب بات کہی ہے جو مجھے یوں دیوانہ بنا لیا ہے۔‘‘ آخر بڑی مشکل سے ایک صاحب نے کہا، ’’حضرت معلوم بھی ہے کہ آپ نے کس شخص کی تردید کی ہے۔ مسٹر مسعود وہ شخص ہیں کہ جرائم پیشہ لوگوں کی واقفیت کے متعلق تمام دنیا ان کا لوہا مانتی ہے۔ آپ کے سوا اس شہر میں تو کیا ساری دنیا میں کوئی نہ ہوگا کہ مسٹر مسعود ان لوگوں کے بارے میں کچھ فرمائیں اور وہ آمنّا اور صدقنا نہ کہے۔ خیر اور کچھ نہیں تو یہ ضرور ہوگا کہ ساری دنیا میں شہرت ہو جائے گی کہ آج بھرے جلسے میں ایک صاحب نے مسٹر مسعود پراعتراض ٹھونک دیا۔‘‘ میں پریشان تھا کہ یا میرے اللہ یہ عجیب بات ہے کہ یہ دنیا والے جب کسی کو اچھا سمجھنے لگتے ہیں تو پھر اس کے خلا ف کچھ سننا ہی نہیں چاہتے اور اس کی صحیح اور غلط ہر بات پر سر تسلیم جھکا دیتے ہیں۔

    چار روز بھی نہیں گزرتے تھے کہ ملک کے سارے اخباروں میں اس جلسے کی کیفیت اور میری تقریر چھپ گئی۔ ہر اخبارمیں میری تصویر تھی اور اس کے نیچے لکھا تھا کہ ’’آپ فلاں شہر میں لوہار ہیں۔ اور چوروں کے اصلاح حال کے بارے میں مسٹر مسعود کی رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔‘‘ غرض کوئی پرچہ نہ تھا جس میں مجھے خوب نہ بنایا گیا ہو، اور میرا مذاق نہ اڑایا گیا ہو۔ جو پرچہ چھپتا اس کی ایک کاپی میرے پاس بھی آتی۔ میں دیکھتا اور ہنس کر خاموش ہو جاتا۔ لوگوں کی اس بے ہودگی کی تو مجھے پروا نہ تھی لیکن غضب یہ ہوا کہ یہ اخبار میرے قدیم ہم پیشہ لوگوں کے ہاتھوں میں بھی پڑے۔ وہ پہلے سے میری تلاش میں تھے، اور پیشہ چھوڑنے کی وجہ سے مجھ سے بدلہ لینا چاہتے تھے۔ انہوں نے یہ کیا کہ میرے سابقہ حالات اخباروں میں چھپوا دیے۔ اور دنیا کو بتا دیا کہ جن صاحب نے مسٹر مسعود کی مخالفت کی ہے وہ خود بڑے دیہاڑی چور ہیں۔ اور اس لیے ان کی رائے کسی طرح بھی مسٹر مسعود کی رائے سے کم وقعت نہیں رکھتی۔

    ان حالات کا چھپنا تھا کہ سارے ملک میں اودھم مچ گیا ور جو عزت میں نے اپنی محنت، کار گزاری اور دیانت سے حاصل کی تھی وہ سب خاک میں مل گئی۔

    (اردو کے مقبول مزاح نگار مرزا فرحت اللہ بیگ کی ایک شگفتہ تحریر سے اقتباسات)

  • مانگے کی چیز برتنا!

    مانگے کی چیز برتنا!

    چراغ حسن حسرت کا یہ مضمون اُن کے قلم کی شوخی و ظرافت اور مزاح کی طاقت سے ایک نہایت دل پذیر تحریر کے ساتھ ہمارے سماجی رویوں پر گہری چوٹ ہے۔ حسرت نے یہ شگفتہ پارے کئی سال پہلے تحریر کیے تھے، مگر اس کی افادیت آج بھی وہی ہے، جو اس دور میں رہی ہوگی۔ حسرت کا شمار بیسویں صدی کے ان جید ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں میں ہوتا ہے جو اپنے عہد کے مقبول ترین قلم کاروں میں سے ایک تھے۔

    حسرت اپنے مضمون میں‌ لکھتے ہیں۔

    پچھلے دنوں ایک پرانے رسالے کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ مانگے تانگے کی چیزوں کے متعلق ایک مضمون نظر آیا۔

    اصل مضمون تو بیری پین کا ہے، اردو میں کسی صاحب نے اس کا چربا اتارا ہے۔ ماحصل یہ کہ مانگے تانگے کی چیزیں برتنا گناہ ہے۔ جیب میں زور ہے تو جس چیز کی ضرورت پڑے بازار سے خرید لائیے، نہیں تو دل پر جبر کیجیے، لیکن اس میں نہ بیری پین کا کوئی کمال ہے نہ اس مضمون کو اردو جامہ پہنانے والے نے کوئی تیر مارا ہے۔ بڑا پیش پا افتادہ اور پامال سا مضمون ہے۔ جس پر شیخ سعدی کے استاد بوٹے خاں تک سبھی طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ کتنی ہی سچائیاں ہیں جو منڈی میں جھوٹ کے بھاؤ بک رہی ہیں اور کتنے جھوٹ ہیں جنہوں نے سچ کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ بس اس کو بھی انہیں میں سے سمجھیے۔

    ہمارے بیری پین صاحب تو ولایت میں بیٹھ کر فلسفہ بگھارتے رہ گئے۔ ذرا ہندوستان آتے تو انہیں قدر عافیت معلوم ہو جاتی۔ یورپ کی بات کو جانے دیجیے۔ ایشیا میں تو زندگی جیسی قیمتی شے کو بھی مانگے تانگے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ایران اور ہندوستان کے شاعر ہمیشہ زندگی مستعار ہی کہتے چلے آئے ہیں۔ اور کہتے چلے آئیں ہیں کہ معنی کہتے چلے جائیں گے۔

    میں نے عہد جدید کے ترقی پسند شاعروں کا کلام بہت کم پڑھا ہے اور جتنا پڑھا ہے اسے بھول بھی گیا ہوں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض ایسے نکل آئیں کہ جن کے نزدیک زندگی کو مستعار کہنا یا سمجھنا فرسودہ خیالی ہو، لیکن پرانے انداز کے سخنور خاص طور پر غزل گو شاعر ہمیشہ زندگی کو مستعار ہی کہیں گے کیونکہ بہار، دیار، شمار قافیہ ہو تو حیات مستعار کی گرما گرم ترکیب مصرع میں یوں بیٹھتی ہے جس طرح انگشتری میں نگینہ۔ ہاں اگر سرے سے قافیہ ہی غتربود ہو جائے تو اور بات ہے۔۔۔ لیکن اس بحث کو چھوڑیے اور ذرا اس بات پر غور فرمائیے کہ جب زندگی ہی مستعار ہے تو اس ٹیں کے کیا معنی ہیں کہ نہیں صاحب ہم تو مانگے کی کوئی چیز نہیں برتتے۔

    غرض زندگی مستعار ہے۔ اس مستعار زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے کا سب سے کم خرچ بالا نشین طریقہ یہ ہے کہ جہاں تک بن پڑے مانگے تانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈالیے۔ ممکن ہے کہ آپ کو اجنبیوں سے راہ و رسم پیدا کرنے کی بہت سی ترکیبیں آتی ہوں لیکن مجھے تو بس ایک ہی نسخہ یاد ہے جو ہمیشہ تیر بہدف ثابت ہوا ہے یعنی جب کسی سے شناسائی پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے تو ہمت کر کے اس سے کوئی چھوٹی موٹی چیز مانگ لیتا ہوں۔ مثلاً اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ سگریٹ نکالا لیکن جیب میں دیا سلائی نہیں۔ یہ واقعہ راستہ چلتے پیش آیا تو کسی راہ گیر سے دیا سلائی مانگ کر سگریٹ سلگایا اور دیا سلائی کے ساتھ سگریٹ کیس بھی ان کی طرف بڑھایا۔ انہوں نے کسی قدر پس و پیش کے بعد سگریٹ سلگا کے کش لگایا اور اجنبیت کا حجاب دھوئیں کے ساتھ ساتھ ہوا میں تحلیل ہو کے رہ گیا۔

    یہ نسخہ صدری اسرار میں سے نہیں کہ فقیر کے سوا کسی کو معلوم نہ ہو۔ اکثر لوگوں نے اسے بارہا آزمایا ہے اور ہمیشہ بہت موثر پایا ہے اور میں نے بعض لوگوں کو تو دیکھا ہے کہ جیب میں دیا سلائی موجود ہے جب بھی کسی اجنبی سے مانگیں گے۔ پھر بھی دیکھا گیا ہے کہ دیا سلائی کے اس داد و ستد سے محبت اور دوستی کا جو تعلق قائم ہوا، برسوں کی گرما گرمی میں فرق آنے نہیں پایا۔ چنانچہ بہت سی دوستیاں جو آگے چل کر شعر و شاعری کا موضوع بنیں اسی قسم کے کسی واقعہ سے شروع ہوئی ہیں اور کہیں کہیں تو ہم نے یوں ہی بیاہ ہوتے اور گھر بستے بھی دیکھے ہیں۔

    آخر زندگی کا مقصد اس کے سوا اور ہے بھی کیا کہ خوش ہونے اور دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش کی جائے اور اگر مانگے کی چیز برتنا زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے اور اللہ کی مخلوق کو خوش رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے تو اسے برا کون کہتا ہے۔ وہ تو ایک طرح کی عبادت ہے عبادت۔

    اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتادوں کی مانگے تانگے کی چیزوں سے اللہ کی مخلوق کو خوش کرنے کا کام کیسے لیا جائے یا لیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کے پڑوس میں کوئی کوٹھی ہے اور کوٹی میں کوئی مالی ہے تو اس سے گھاس چھیننے کا کھرپا مانگ لائیے۔ اس بات پر چونک نہ پڑیے۔ حاشا و کلا میرا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ میں آپ کو گھسیارا یا مالی سمجھتا ہوں یا میرے نزدیک کھرپا آپ کے مصرف کی کوئی چیز ہے۔ میں تو صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہو کہ جب آپ مالی سے کھرپا مانگیں تو اسے اس خیال سے کتنی طمانیت حاصل ہوگی کہ اس کا کھرپا بھی بڑے کام کی چیز ہے یعنی وہ اپنے پڑوسی سے عاریتاً کھرپا دے کے اس کی گردن اپنے بار احسان سے جھکا سکتا ہے۔

    آپ کو مالی کھرپا دینے سے ہر گز انکار نہیں کرے گا۔ اور انکار کرنے کی وجہ بھی کیا ہو سکتی ہے۔ وہ تو الٹا آپ کا احسان مند ہوگا کہ احسان اٹھانا گوارا کر لینا بیچارے مالی کے لئے کتنا عظیم الشان واقعہ ہے۔ اس کا اندازہ آپ نہیں کر سکتے۔ وہ مہینوں لوگوں سے اس واقعہ کا ذکر کرتا رہے گا۔ برسوں اس کے گن گائے گا۔ جس سے کہے گا کہ یہ صاحب جو پڑوس میں آکے ٹکے ہیں بہت شریف آدمی ہیں، ابھی کچھ دن ہوئے کہ مجھ سے کھرپا مانگ کر لے گئے تھے، جانے کیا ضرورت تھی، چاہتے تو نوکر کو بھیج دیتے، لیکن وہ خود آئے اور کھرپا مانگ کر لیے گئے اور یہ نہیں بلکہ چلتے وقت اس طرح میرا شکریہ ادا کیا کہ جیسے میں کہیں کا نواب ہوں اور جب بچے رات کو سوتے وقت کہانی کے لیے ضد کریں گے تو مالی اپنے پڑوسی بابو صاحب اور اپنے کھرپے کا قصہ لے بیٹھے، اور خدا جانے کتنی نسلوں تک یہی واقعہ کس قدر تغیر و تبدل کے ساتھ روتے بچوں کو بہلانے اور منانے کے کام آتا رہے گا۔

    یہ جو کچھ میں نے کہا ہے مثال کے طور پر کہا ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ صرف مالی سے مانگیے اور کھرپا ہی مانگیے۔ مالی ہی سے نہیں اڑوس پڑوس میں جتنے لوگ ہیں سب سے مانگیے۔ راستہ چلتوں سے مانگیے۔ دوکانداروں پر اعتماد کریں تو ان سے مانگیے۔ درزی سے انگشتانہ قینچی، سوئی یا ہو سکے تو کپڑے سینے کی مشین مانگ لائیے۔ بڑھئی سے بسولا، لوہار سے ہتھوڑا، سقے سے مشک غرض کہ جس گھر پر اداسی چھائی ہوئی نظر آئے وہاں سے کوئی نہ کوئی چیز مانگ لائیے۔ اکثر لوگوں کی زندگی تو اس خیال نے تلخ کر رکھی ہے کہ ان کی زندگی بے مصرف ہے۔ نہ مال ہے نہ دولت، نہ اثاثہ نہ جائیداد، نہ وہ کسی پر احسان کرنے کے قابل ہیں نہ کوئی احسان اٹھانے کو تیار ہیں۔ ایسے لوگوں سے کوئی چیز مانگنا ان پر احسان کرنا ہے کیونکہ اس طرح ان کا بھی کوئی مصرف ہے۔ وہ بھی دوسرے انسانوں پر احسان کر سکتے ہیں۔ غرض مانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈالیے تو آپ بھی خوش دوسرے بھی خوش۔ دوسروں کو یہ احساس کہ وہ احسان کرنے کے قابل ہیں اور آ پ کو یہ احساس کہ آپ لوگوں کے احسان اٹھا کے ان کی زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔

    اب فرمائیے دنیا میں اس سے بڑھ کر نیکی اور کیا ہوگی کہ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو مانگے کی چیز برتنے میں اپنی سبکی سمجھتے ہیں۔ کیسی ہی ضرورت کیوں نہ آپڑے کسی سے مانگیں گے نہیں۔ اس عادت نے ان کی طبیعت میں اکل کھرا پن پیدا کردیا ہے۔ مزاج میں شگفتگی نام کو نہیں۔ بات کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بس رو ہی دیں گے۔ گھر میں بیوی سے چخ چلتی ہے، باہر ملازمت یا کاروبار کے سلسلے میں جن لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، ان سے ہمیشہ ٹھنی رہتی ہے۔ ایسے لوگ چاہے مالی لحاظ سے کتنے ہی آسودہ کیوں نہ ہوں ان کی زندگی ہمیشہ تلخ رہے گی۔

    مجھے ایک شخص نے بتایا ہے کہ ان کا بچپن سے یہی حال ہے۔ اسکول میں تھے، جب بھی مانگے تانگے کی کوئی چیز نہیں برتتے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا اس میں کچھ زیادہ قصور نہیں۔ تربیت ہی ناقص ہوئی ہے ورنہ کون ہے جو اسکول میں مانگے کی چیز برتنے کو معیوب سمجھے۔ ہمارے ملک کے اسکولوں میں جہاں اور بہت سی باتیں سکھائی جاتی ہیں وہاں مانگے کی چیزیں برتنا بھی سکھایا جاتا ہے اور سکھایا کیا جاتا ہے خود آجاتا ہے۔ لڑکے ایک دوسرے سے قلم، دوات، کتاب، پنسل، ربڑ مانگ کر برتتے ہیں اور اس طرح ان کی زندگی ہنسی خوشی گزر جاتی ہے۔ لیکن اسکولوں میں چیزیں مانگنا محض اختیاری مضمون ہے لازمی مضمون قرار دے کر اسکول کے نصاب میں شامل کر لیا جائے اور یہی نہیں بلکہ ماں باپ کو چاہیے کہ بچے کو تربیت دیتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں۔

    مانگے کی چیزیں برتنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح چیزوں کو احتیاط سے برتنے کا ڈھنگ آجاتا ہے۔ اپنی چیز ٹوٹ پھوٹ جائے تو کوئی بات نہیں لیکن دوسرے کی چیز کو برتتے وقت انسان بڑی احتیاط کرتا ہے اور جو لوگ بچپن ہی سے مانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈال لیتے ہیں وہ اپنی چیزیں بھی احتیاط سے برتنے لگتے ہیں۔

    غرض یہ کہ اگر آپ چیزیں برتنے کا ڈھنگ سیکھنا چاہتے ہیں تو مانگے تانگے کی چیزیں استعمال کیجیے اور اگر آپ نے بہت سی ضرورت کی چیزیں خرید لی ہیں اور انہیں برتنے کا سلیقہ نہیں آیا تو جو کوئی مانگنے آئے اسے بے تکلف دے ڈالیے۔ اس طرح آپ کی چیزیں محفوظ رہیں گی۔ اور اس زمانے میں تو یہ اور بھی ضروری ہے کہ نئی چیز یں نہ خریدی جائیں اور پرانی چیزوں ہی سے کام لیا جائے اور اگر کوئی صاحب اپنی چیزوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں کوئی طریقہ نہیں سوجھتا تو میری خدمات حاصل کریں۔

  • سیاست کا لفظی تجزیہ

    سیاست کا لفظی تجزیہ

    جانے وہ کون سے ممالک ہیں جہاں سیاست کو عبادت اور عوام کی خدمت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ وہاں‌ کے قابل و باصلاحیت شہری کوچۂ سیاست میں اس لیے قدم رکھتے ہیں کہ اپنے وطن کے لیے کچھ کرسکیں اور قوم کا وقار بلند کریں۔ ان کے حقوق کی پاس داری کرتے ہوئے ان کو بہت سی سہولیات فراہم کرسکیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں سیاست کا تصور اس کے عین برعکس ہے۔

    اردو ادب میں طنز و مزاح پر مبنی نثر یا شاعری میں بھی ہمیں پاکستان کی بے ڈھنگی سیاست اور بگڑے ہوئے سیاست دانوں کی کہانیاں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ لطائف یا مزاحیہ ادب ہمیں غور و فکر کا موقع دیتے ہوئے مسکرانے پر بھی مجبور کر دیتا ہے۔ یہاں‌ ہم ایک ایسا ہی شگفتہ پارہ نقل کررہے ہیں جو معروف طنز و مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے قلم سے نکلا ہے اور ان کی کتاب ’کتنے آدمی تھے؟‘ میں‌ شامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    انگریزی کا لفظ Politics (سیاست) دو الفاظ کا مرکب ہے، یعنی Poly بمعنی ”بہت سے“ اور tics بمعنی ”خون چوسنے والے ننھے ننھے کیڑے!“ سیاست کے اس لفظی تجزیے سے سیاست داں کی جبلّت پر بخوبی قیاس کیا جا سکتا ہے، خواہ اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطّے سے ہو۔ اس جبلّت کا ایک رخ یہ ہے کہ بھوٹان سے لے کر یونان تک سیاست داں کو اپنے ارد گرد منڈلانے والے اہل غرض یا گھیر گھار کر لائے گئے مٹھی بھر من موجی زیادہ اور اپنے دھرنوں، جلسوں میں خوار ہونے والے کچھ زیادہ لوگ بہت زیادہ نظر آتے ہیں۔ وہ ایک ایک کرسی پر 20 سے 25 آدمیوں کو بیٹھے دیکھتا ہے اور ہزار 1500 آدمیوں کے ”ٹھاٹھیں مارتے سمندر“ سے جھوم جھوم کر خطاب کرتا ہے۔ یہی 1500 لوگ جب اس کے پیچھے ”مارچ“ کی صورت میں جمع ہوتے ہیں، تو وہ ملین سے ہرگز کم نہیں ہوتے۔ یہ اس کی نظر کا قصور نہیں، بلکہ ذہن کا فتور ہے جو اسے صحیح بات کے شعور سے محروم کر دیتا ہے۔

    لطف کی بات یہ ہے کہ جب جلسے، دھرنے اور مارچ مخالف پارٹی کے ہوں تو سیاست داں کی آنکھوں میں کالا موتیا اتر آتا ہے۔ اب اسے 20 کی جگہ ایک آدمی نظر آتا ہے، کرسیاں خالی خالی دکھائی دیتی ہیں اور ریلیاں جعلی۔ اخبارات دونوں پارٹیوں کے مؤقف شائع کر کے عوام کے لئے مسئلہ کھڑا کر دیتے ہیں کہ

    کس کا یقین کیجیے، کس کا یقیں نہ کیجیے
    لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ

  • کلام اقبال اور ہماری غلط فہمیاں

    کلام اقبال اور ہماری غلط فہمیاں

    شاعرِ مشرق، حکیم الامت حضرت علامہ اقبال کے اشعار کی تفسیر و تشریح میں اکثر ہم لوگ غلطی کر جاتے ہیں۔ اگر بات علمی مباحث تک ہو تو بھی ٹھیک ہے، مگر جب ان غلط تشریحات کا اطلاق عملی زندگی میں ہونے لگے تو ہمارے لیے پریشانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔

    کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی شعر کا مطلب تو صحیح نکالتے ہیں لیکن اس کے انطباق میں غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ مثلاً اس شعر ہی کو لیجیے؎

    نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
    تُو شاہیں ہے بسیراکر پہاڑوں کی چٹانوں میں

    اب جسے دیکھو علامہ اقبال کے اس شعر کو راہ نما بنا کر منہ اٹھائے پہاڑوں کی طرف چل دیتا ہے۔ حالاں کہ پہاڑوں کی طرف رختِ سفر باندھنے سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ شاعرِ مشرق نے کن پہاڑوں میں سکونت اختیار کرنے کی ”ہدایت“ کی ہے۔ ہمارے خیال میں علامہ کا اشارہ تورا بورا کے کوہ ساروں کی طرف تھا اور ان کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ ”عقابی حرکتیں“ کرنے والوں کے لیے یہ پہاڑ ہی محفوظ پناہ گاہ بن سکتے ہیں۔ رہے بلوچستان وغیرہ کے پہاڑ تو بھیا! ان ”پہاڑوں“ کا کوئی بھروسا نہیں۔ آپ ان میں جاکے بیٹھیں تو یہ آپ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ علامہ نے اپنے شعر میں واضح طور پر تورا بورا کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ ہمارے خیال میں انھوں نے افغانستان کی مناسبت سے ”پٹھانوں کی چٹانوں میں“ لکھا ہوگا، جو ”پٹھانوں“ سے بگڑ کر ”پہاڑوں“ ہوگیا۔ اور پھر اسے ”پہاڑوں“ ہی تسلیم کرلیا گیا کیوں کہ پٹھان بگڑ جائے تو ”بڑے بڑوں“ کو اسے ”پہاڑ“ تسلیم کرنا پڑتا ہے۔

    ہم یہاں کلام اقبال کے حوالے سے کچھ اور غلط فہمیوں کی نشان دہی بھی کیے دیتے ہیں۔

    کافر ہو تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
    مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

    شمشیر بہ دست کافر سے بے تیغ مومن کا رانوں پر ہاتھ مار کر ”کبڈی کبڈی“ کہتے ہوئے بِِھڑ جانا، نری خود کشی ہوگی اور بھلا اقبال مسلمانوں کو خودکشی کا مشورہ کیوں دینے لگے؟ ان کے کہنے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ غنیم کو شکست دینے کے لیے تلوار پر بھروسا کرنا تو کافروں کا وتیرہ ہے۔ ”مومن سپاہی“ تو بس قلم اٹھاتا ہے اور کاغذ پر دشمن کے کشتوں کے پشتے لگاتا چلا جاتا ہے۔ اور جب کم از کم ڈیڑھ دو سیر کاغذ دشمن کے خون میں نہا کر سفید سے سرخ اور سرخ سے سیاہ ہوجاتا ہے تو مومن سپاہی اسے ”خود نوشت“ کی صورت میں شایع کر دیتا ہے۔

    اے طائرِ لاہوتی، اس رزق سے موت اچھی
    جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

    اس شعر کے مصرعِ ثانی کو صدر ایوب خان نے اپنی ”مبینہ خود نوشت“ کے اردو ترجمے کا عنوان بنایا تھا۔ اس عنوان نے کتاب کی فروخت پر بڑا بُرا اثر ڈالا۔ اکثر لوگوں نے اس کتاب کے سرورق پر نظر پڑتے ہی سمجھا کہ یہ وہ ”رزق“ ہے جو پرواز میں کوتاہی لاتا ہے اور پھر ”اس رزق سے موت اچھی“ کہہ کر کتاب خریدنے کا ارادہ ترک کردیا۔ نتیجتاً بنیادی جمہوریت، ون یونٹ اور کنوینشنل لیگ کی طرح ایوب خان کی کتاب بھی رزق خاک ہوئی۔
    ہمارے خیال میں امریکی امداد، بھارتی اجناس اور عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں کے معاملے میں اس شعر کو حوالہ بنانا مصلحت اور عقل کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہوگا۔ لہٰذا اسے علامہ کا پرندوں کو مشورہ سمجھ لینے ہی میں عافیت ہے۔

    مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
    خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

    غریبوں نے اپنے ممدوح کا یہ شعر پڑھ کر نام پیدا کرنے کی ٹھان لی۔ اب نام ور ہونے کے لیے ضروری ہے کہ؎ پُل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا۔ اور بے چارے غریب تو اپنے کپڑے بنانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔ چناں چہ انھوں نے نام وری کے لیے نورِ نظر اور لختِ جگر کی پیداوار دھڑادھڑ شروع کر دی اور ہر بچے کے نام سے اپنا نام جوڑ کر سمجھے کہ نام پیدا کرلیا۔ ہمارے محلّے دار ’ببّن میاں‘ نے کثرت اولاد کی خواہش کو ”یقین محکم“ بنا اور ”محبت فاتحِ بیگم“ کا نعرہ لگا کر جو ”عمل پیہم“ شروع کیا تو ان کے گھر میں بچوں کی بھیڑ لگ گئی۔ موصوف، شبو ببن، نبو ببن، کلو ببن سمیت ایک درجن پسران و دختران کی ولدیت کا اعزاز رکھنے کی وجہ سے اس خیال میں غلطاں ہیں کہ انھوں نے دنیا میں ”ببّنوں“ کی تعداد بڑھا کر اپنا نام زندہ جاوید کر لیا ہے۔

    ببن میاں جیسے حالات اور خیالات کے حامل خواتین و حضرات کو ہمارا مشورہ ہے کہ نام پیدا کرنے کے چکر میں نہ پڑیں اور خودی بیچ کر گھر چلائیں، کیوں کہ ہم جس سرمایہ داری نظام میں زندہ ہیں اس میں افراد واقوام خودی کا سودا کیے بغیر نام نہیں صرف مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔

    گیا دورِ سرمایہ داری گیا
    تماشا دکھا کر مداری گیا

    علامہ کو غلط فہمی ہوئی تھی۔ ”مداری“ بس کچھ دور گیا تھا اور اشتراکیت سے کہہ گیا تھا ”بی بی! تم اپنا پتلی تماشا دکھاؤ، میں ابھی آتا ہوں۔“ اشتراکی پتلی باز کا تماشا ابھی جاری ہی تھا کہ مداری اپنے سرکس کے ساتھ واپس آگیا۔ اب کے اس کا تماشا ایسا دل چسپ تھا کہ تماش بیں مبہوت ہوکر دیکھا کیے۔ مداری نے بندر کے بہ جائے سفید ریچھ اور کاغذی شیروں کو نچایا۔ مجاہدین سے موت کے گولے اور موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلوائی اور جوکروں سے خود ان کی بَھد اڑوائی۔ اتنے بڑے اور ایسے دل چسپ سرکس کے سامنے بے چارے پتلی باز کی کیا چلتی۔ چار و ناچار وہ خود بھی سرکس میں ملازم ہوگیا۔ ایسے میں کٹھ پتلیاں بے آسرا ہوگئیں، اب ان کی حالت یہ ہے کہ جو بھی ڈور پکڑ لے اس کی انگلیوں پر ناچنے لگتی ہیں۔

    خیر علامہ اقبال کو تو کچھ آثار دیکھ کر سرمایہ داری کے رخصت ہوجانے کی غلط فہمی ہوئی تھی۔ بہتر یہی ہے کہ دور حاضر میں کوئی، علامہ اقبال کی غلط فہمی کو جواز بنا کر، ”گیا دور سرمایہ داری گیا“ کا راگ نہ الاپے اور اگر الاپے تو ہم سے یہ شکایت نہ کرے کہ………..مجھ کو دیوانہ سمجھتے ہیں ترے شہر کے لوگ۔

    ترے سوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی
    لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

    عہدِ حاضر کے جوانوں کو اس شعر سے نصیحت پکڑنے کی کوئی ضرورت نہیں، کیوں کہ، ایک تو اس شعر میں سوفوں اور قالینوں کا ذکر کیا گیا ہے، اور مقامی طور پر تیار کردہ یہ اشیاء افرنگی و ایرانی سوفوں اور قالینوں کی ٹکر کی ہیں۔ اس شعر میں ”میڈ ان چائنا“ اشیاء، امریکی مصنوعات، جاپانی و جرمن گاڑیوں، سوئس گھڑیوں، فرانسیسی خوشبوعات اور بھارتی پیاز وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں۔ لہٰذا یہ اشیا بلاتکلف اور علامہ اقبال کے لہو رونے کے خدشے سے بے نیاز ہوکر خریدی جاسکتی ہیں۔

    جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
    اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

    یہ شعر آپ کو حکم رانوں کی تقاریر، علما کے وعظ و خطبوں اور سرکاری و نجی عمارات کی دیواروں پر آویزاں کلامِ اقبال میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔ پس، سمجھ لینا چاہیے کہ یہ ”حکم“ منسوخ ہو چکا ہے۔ ویسے بھی اس شعر کی پیروی کرنے والا دہقان خود بھوکا مر جائے گا۔ کیوں کہ اسے روزی سے محروم رکھنے والے ”چوہدری صاحب“ کے گودام میں گندم کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ خوشہ ہائے گندم جل گئے تو وہ اس نقصان کے نام پر حکومت سے سہولتیں اور بینک سے قرضہ لے کر اپنے دھن میں اضافہ کریں گے اور کھیت بیچ کر کارخانہ لگا لیں گے۔ رہی جلی ہوئی گندم تو وہ حکومت کے توسط سے کسی بھی ملک برآمد کردی جائے گی۔ گندم کے جلنے سے اس کی پیداوار کو جو نقصان ہوگا وہ امریکا سے ایف 16 طیاروں کے منسوخ شدہ سودے کے عوض گندم لے کر پورا کر لیا جائے گا۔ سو میاں دہقان! جس کھیت سے تم کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کو اپنا لہو پلاتے رہو۔

    کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
    مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
    یہ شعر نائٹ شفٹ کے اخبار نویسوں، رات گئے تک کام کرنے والوں اور دن چڑھے سو کر اٹھنے والے ہم جیسے ”کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے“ کے مصداق خواتین و حضرات کے لیے نہیں۔ علاوہ ازیں فلیٹوں کے مکین، باوجود کوشش اس شعر کی پیروی سے قاصر رہیں گے۔ زمین، فلک اور فضا کے نام پر وہ فرش، چھت اور کھڑکی کے باہر پھیلا دھواں دیکھ کر صرف ”حجتِ شرعی“ پوری کر پائیں گے۔ رہا ابھرتے سورج کا نظارہ تو اس مقصد کے لیے فرائی انڈے کا دیدار کیا جاسکتا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس شعر کے ذریعے حضرت علامہ نے مسلمانوں کو تڑکے تڑکے، پو پھٹنے سے پہلے اٹھنے کی تلقین کی ہے۔ اور کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس شعر میں جہاں بینی و سیر بینی کی تاکید کی جارہی ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ علامہ کہہ رہے ہیں،

    ”ارے بے وقوف! اتنے سویرے کیوں اٹھ گیا۔ خوابیدہ نظروں سے گھڑی کیا تک رہا ہے۔ اب اگر اٹھ ہی گیا ہے تو؎ کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ…. کہیں کوئی کام کرتا نظر آرہا ہے۔ ابھی تو سورج ابھر ہی رہا ہے اور تجھے اٹھنے کی پڑگئی۔ چَل! منہ ڈھک کے سوجا۔“

    (ادیب، شاعر اور معروف طنز و مزاح نگار محمد عثمان جامعی کی کتاب "کہے بغیر” سے ایک شگفتہ پارہ)

  • بیزار ہونے کا عرصہ!

    بیزار ہونے کا عرصہ!

    نصف صدی کی طویل مدت بالعموم ایک دوسرے سے بیزار ہونے کے لیے بہت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اتنے عرصے میں گلاب کی خوش بو مانوسیت کے باعث باسی باسی سی لگتی ہے، مگر وہی بے ضرر سے کانٹے اب بہت چبھنے لگتے ہیں۔

    امریکا میں ایک حالیہ سروے سے یہ دل چسپ انکشاف ہوا ہے کہ 50 فی صد جوڑوں کی طلاق شادی کے تین سال کے اندر ہو جاتی ہے۔ اس لیے وہ ایک دوسرے کے مزاج سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے۔ بقیہ پچاس فی صد جوڑوں کی طلاق 40 سال بعد ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اس اثنا میں وہ ایک دوسرے کے مزاج سے اچھی طرح واقف ہوجاتے ہیں۔ پچاس سال دوستانہ تعلق کا وہی ہوجاتا ہے جس کی تصویر غالب نے مرزا تفتہ کے نام اپنے خط میں کھینچی ہے۔ لکھتے ہیں ”جیسے اچھی جورو برے خاوند کے ساتھ مرنا بھرنا اختیار کرتی ہے میرا تمہارے ساتھ وہ معاملہ ہے۔“ یوں تو غالب کا ہر قول حرف آخر کا درجہ رکھتا ہے تاہم مجھے اس میں تھوڑا سا اضافہ کرنے کی اجازت ہو تو عرض کروں گا کہ تعلقات میں مزید پیچیدگی اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب دونوں فریق خود کو مظلوم زوج سمجھ کر اپنا سہاگ اجڑنے کی دعا کرنے لگیں۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ”شامِ شعریاراں“ سے لیا گیا)

  • نفسیات کی زبان میں اِس طرزِ عمل کو Impulsivity کہتے ہیں!

    نفسیات کی زبان میں اِس طرزِ عمل کو Impulsivity کہتے ہیں!

    چونکہ محاورے کی رُو سے حرکت میں برکت ہے اس لیے بہت سے وہ لوگ جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا (مثلاً سرکاری ملازمین اور باس ٹائپ کے لوگ) اپنے ایک یا دونوں ہاتھوں کو مسلسل کسی نہ کسی فضول حرکت میں مصروف رکھ کر مفت میں برکتیں لوٹتے رہتے ہیں۔

    کچھ لوگ برکت کے حصول کی غرض سے بیٹھے اپنی ٹانگیں ہلاتے رہتے ہیں، کچھ جسم کو کھجاتے ہیں، کچھ میز پر طبلہ بجاتے ہیں، ناخن چباتے ہیں وغیرہ۔ نفسیات کی زبان میں اس طرز عمل کو Impulsivity کہتے ہیں۔

    اردو لغت میں ایسی بابرکت حرکات کے لیے ایک لفظ ملتا ہے: چُل۔ اسی سے لفظ بنا ”چُلبل“ یعنی بے کل، بے چین، نچلا نہ بیٹھنے والا۔

    حضرتِ سودا نے ”شیخ“ کی چُل پر یہ چوٹ کی تھی:
    شیخ کو ذوق اچھلنے سے نہیں مجلس میں
    اس بہانے سے مٹاتا ہے وہ اپنی چُل کو

    کل جب ایک دیرینہ دوست سے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران اچانک لائن کٹ گئی، تو ہمیں نہ جانے کیوں بعض احباب کی چُلیں یاد آگئیں۔ آپ نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہوگا کہ جب ان پر ہنسی کا دورہ پڑتا ہے تو وہ اپنا دایاں ہاتھ ہوا میں بلند کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے ہوا میں اٹھنے والی چیز کو نیچے بھی آنا ہوتا ہے، لہٰذا آپ ان کے قریب بیٹھے ہیں، تو ضرور برداشت کر کے تالی کی آواز پیدا کر دیں۔ اگر آپ نے ایسا نہیں کیا، تو جان لیجیے کہ ان کا ہاتھ آپ کے جسم کے کسی بھی حصے پر گر کر اسے عارضی طور پر سہی، ناکارہ یا غیر فعال بنا سکتا ہے۔ اس لیے کہ زور دار قہقہے کے دوران فریق ثانی کی آنکھیں عموماً بند ہوتی ہیں۔ ہاتھ کہاں گرنے والا ہے اسے کچھ علم نہیں ہوتا۔

    ہمارے ایک دوست اپنے اٹھنے والے ہاتھ کی نچلی منزل کا تعین پہلے سے خود کر لیتے ہیں یعنی سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی ران، لہٰذا ہم جب بھی ان کے پاس جاتے ہیں اپنے دونوں ہاتھوں، رانوں پر رکھ کر ”ارد گرد کے رقبے کا دفاع کر لیتے ہیں۔

    بعض لوگ دورانِ گفتگو اپنے جسم کے کسی نہ کسی عضو (عموماً پیشانی، کھوا، ٹھوڑی، گُدی وغیرہ) کو ہلکے ہلکے سہلاتے رہتے ہیں۔ ٹی وی کے ایک سینئر اداکار کی چُل یہ ہے کہ وہ ڈائیلاگ کی ڈلیوری کے دوران اپنے دائیں نتھنے کو دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت سے چھیڑتے رہتے ہیں۔ ٹی وی ہی کے ایک اینکر اور سینئر صحافی کی چُل ہے کہ وہ بات کر کے خاموش ہوتے ہیں، تو اپنے چشمے کی ایک کمانی کا سرا چوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ دانش وَر ٹائپ کے لوگ کسی کی بات سن رہے ہوتے ہیں تو بار بار اپنے دونوں ہاتھ تیمم کے انداز میں پورے چہرے پر پھیر کر اور آنکھیں باہر نکال کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ آپ کو بولا ہوا ایک ایک لفظ ان کے ذہن میں پوری طرح سرایت کرتا جا رہا ہے۔ کسی کی بات سنتے وقت بعض لوگوں کی گردن کو قرار نہیں رہتا۔ وہ مسلسل اپنے نیچے یا دائیں بائیں حرکت میں رہتی ہے۔ اوپر نیچے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ آپ کے مؤقف سے متعلق ہے، جب کہ گردن کو دائیں بائیں ہلا کر وہ گویا آپ کے مؤقف کو مسترد کرتے ہیں۔ تاہم یہ اشاراتی زبان کا کوئی پیٹنٹ اصول نہیں ہے۔ حیدرآباد (دکن) کے احباب انکار میں گردن ہلاتے ہیں، تو آپ مایوس نہ ہوں ان کے انکار کا مطلب اقرار ہوتا ہے۔

    (مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی کتاب ’کتنے آدمی تھے؟‘ سے انتخاب)

  • گم شدہ کی تلاش

    گم شدہ کی تلاش

    یہ اشتہار میں اپنے گم شدہ بھائی چنتا منی کے متعلق دے رہا ہوں۔ موصوف ایک مرتبہ پہلے بھی گم ہوگئے تھے، لیکن اس وقت میں نے اشتہار نہیں دیا تھا۔

    کیونکہ میرا خیال تھا کہ موصوف خود دار آدمی ہے، اس لیے اس نے ضرور کنوئیں میں چھلانگ لگا دی ہوگی۔ لیکن چھٹے دن وہ میلی چکٹ پتلون کے ساتھ گھر لوٹ آیا اور بقول ہمارے چچا کے ’’آخر تو ہمارا ہی خون تھا، کیوں نہ لوٹتا، خون نے جوش مارا ہوگا۔‘‘

    ہمیشہ اجلی پتلون پہننے والا کب تک گھر سے باہر رہ سکتا تھا۔ خودی چاہے کتنی ہی بلند ہو جائے پتلون کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ مگر اس بار مجھے یقین ہے کہ موصوف لوٹ کر نہیں آئے گا۔ کیونکہ وہ گھر سے دو سو روپے اٹھا کر لے گیا ہے۔ اس لیے اب اس کی رگوں میں ہمارا خون جوش نہیں مارے گا۔ اشتہار دینے کی ایک اور وجہ والدہ محترمہ ہیں، جو موصوف کو ابھی تک ’’نادان لڑکا‘‘ گردان رہی ہیں۔ میں نے لاکھ کہا کہ مادر مہربان! چنتا منی اب بیس برس کا ہوچکا ہے نادان نہیں رہا۔ وہ چہرے مہرے سے ہی گدھا دکھائی دیتا ہے مگر اندر سے کافی کائیاں ہوچکا ہے۔ مگر والدہ محترمہ جس نے اس گدھے کو جنم دیا، اپنی تخلیق پر زیادہ مستند رائے رکھتی ہیں، اس نے مجھے طعنہ دیا، ’’دراصل تم چھوٹے بھائی کی غیرحاضری میں ساری آبائی جائیداد کو تنہا ہڑپ کرنا چاہتے ہو۔‘‘

    ہماری آبائی جائیداد دو کمروں والا ایک مکان ہے جو ہم نے کرائے پر لے رکھا ہے یا پھر والد محترم کے قبضہ میں ایک بہی کھاتا ہے جس میں درج ہے کہ ہمارے خاندان کے پاس ڈیڑھ سو ایکڑ زمین ہے جس پر آج کل ایک دریا بہہ رہا ہے۔ والد محترم گزشتہ گیارہ برس سے اس دریا کے سوکھنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

    اگرچہ والدہ محترمہ کے طعنہ کی بنیادیں دریا برد ہوچکی ہیں لیکن پھر بھی ایک فرماں بردار فرزند کے طور پر میں یہ اشتہار دینے پر مجبور ہوا ہوں۔

    برادر عزیز چنتا منی کی تصویر مجھے نہیں مل سکی ورنہ اس اشتہار کے ساتھ ضرور چھپواتا۔ دراصل اس کے جتنے فوٹو تھے وہ اس نے اپنی وقتاً فوقتاً قسم کی محبوباؤں میں بانٹ دیے تھے۔ پوچھنے پر چنتا منی کی ہر محبوبہ نے جواب دیا کہ اس کے پاس چنتا منی کی فوٹو تھی، وہ اس نے رسوائی کے خوف سے ضائع کر دی ہے۔ ایک محبوبہ تو اتنی صاف گو نکلی کہ اس نے تنک کر جواب دیا، ’’میں نے شادی ہوتے ہی چنتا منی کی وہ فوٹو لوٹا دی تھی اور آج کل بٹوے میں اپنے خاوند کا فوٹو رکھتی ہوں۔‘‘

    چنانچہ فوٹو دستیاب نہ ہونے کے باعث مجبوراً میں اپنا ہی فوٹو اس اشتہار کے ساتھ شائع کر رہا ہوں۔ اس کے باوجود گم شدہ میرے بھائی کو سمجھا جائے، مجھے نہیں۔

    والد اور والدہ محترمہ دونوں کی متفقہ رائے ہے کہ چنتا منی کی ناک تم سے ملتی ہے، اس لیے پہچاننے میں آسانی رہے گی۔ ہمارے نانا مرحوم کی ناک بھی تم دونوں نواسوں سے ملتی تھی اور وہ بھی گھر سے بھاگ گئے تھے (عجیب ناک ہے، نانا کے وقت سے کٹ رہی ہے) بہرکیف فوٹو میں میری ناک حاضر ہے۔ ناک کے علاوہ میرے جتنے اعضا ہیں وہ میرے ذاتی ہیں۔ برادر عزیز چنتا منی کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔

    برادر موصوف چنتا منی کے باقی ناک نقشہ کے متعلق پوزیشن یہ ہے کہ اس کا رنگ بچپن میں دودھ کی طرح گورا تھا (ان دنوں وہ صرف ماں کا دودھ پیا کرتا تھا) لڑکپن میں وہ دودھیا رنگ گندمی ہوتا گیا، کیونکہ اس نے گندم کھانا شروع کردی تھی۔ جوان ہوتے ہی رنگ کا میلان سیاہی کی طرف ہوگیا، نہ جانے جوانی میں چوری چھپے اس نے کیا کھانا شروع کردیا تھا۔ البتہ جب والد محترم اسے ہیبت ناک قسم کی گالیاں اور بھبکیاں دیا کرتے تو لمحہ بھر کے لیے اس کا رنگ پیلا بھی پڑ جاتا تھا۔ گویا چنتا منی بڑا رنگا رنگ آدمی تھا (خدا اسے ہر رنگ میں خوش رکھے۔)

    آنکھیں بڑی بڑی مگر گونگی قسم کی، جیسے کوئی حسینہ بغیر بیاہ کے بیوہ ہو گئی ہو۔ کئی بار میں نے اسے مشورہ دیا، ’’ارے پگلے! ان پر کالا چشمہ لگالے، بات بن جائے گی۔‘‘ مگر وہ نہیں مانا۔ ایک بار میں نے اپنی بیوی کی آنکھ بچا کر اپنا چشمہ اسے دے بھی دیا مگر وہ اس نے ایک دوست کو دے دیا۔ دوست نوازی میں تو وہ بے مثال تھا۔

    والد محترم اسے دوست نوازی پر ہمیشہ چھڑی سے پیٹا کرتے تھے اور اس پٹائی کو وہ کمال صبر و شکر سے سہ لیتا تھا۔ صبر و شکر میں بھی بے مثال تھا۔ والد محترم نہایت فخر سے کہا کرتے تھے کہ میں نے اپنی زندگی میں صرف ایک ہی شریف اور صابر لڑکا پیدا کیا ہے اور وہ چنتا منی ہے۔ بزرگوں کے سامنے چوں تک نہیں کرتا۔ آہ اس کے بھاگنے کے بعد اب ان بزرگوار کی چھڑی کسی کام نہیں آرہی۔

    چنتا منی کی پیشانی پر ایک داغ ہے۔ ایک بار وہ چھت پر کھڑا ایک لڑکی کو گھور رہا تھا۔ لڑکی مذکورہ نے جواباً ایک اینٹ دے ماری۔ اگرچہ چنتا منی نے اس خشت محبت کا ذکر کسی سے نہیں کیا مگر بعد میں اس ناشائستہ لڑکی نے اپنی سہیلیوں سے ذکر کردیا تو بات پھیل گئی اور اس ڈاکٹر تک بھی جاپہنچی جس نے علاج کا بل ایک دم یہ کہہ کر بڑھا دیا کہ اینٹ کا زخم زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔

    چنتا منی کے جسم کے باقی حصے صحیح سلامت ہیں۔ وہ ایک مضبوط الجثہ نوجوان ہے۔ غلہ کی بوری اٹھا کر تین میل تک چل سکتا ہے۔ ممکن ہے وہ اس وقت بھی کسی غلہ منڈی میں بوریاں اٹھانے کا کام کر رہا ہو اور منڈی کے بیوپاری اسے نہایت قلیل اجرت دے رہے ہوں۔ کیونکہ چنتا منی کو بھاؤ تاؤ کرنا نہیں آتا۔ اسے کچھ بھی نہیں آتا۔ سوائے خاموش رہنے کے۔ سوائے ستم سہنے کے۔ مگر میں بیوپاریوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ اس ستم پسندی کا زیادہ استحصال نہ کریں، ورنہ وہ ان کے ہاں سے بھی بھاگ جائے گا۔ کیونکہ بھاگنے کے لیے اس کے پاس پاؤں موجود ہیں۔ چنتا منی کی زبان کام نہیں کرتی، پاؤں کام کرتے ہیں۔

    چنتا منی کیوں بھاگا؟ اس کے متعلق مؤرخین کی آراء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ والد محترم یعنی ابوالچنتا منی کا خیال ہے کہ لڑکا شادی کا خواہش مند تھا مگر اسے دور دور تک شادی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے تھے۔ مگر عم الچنتا منی یعنی چچا جان اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ چنتا سرے سے شادی سسٹم کے ہی خلاف تھا اور برہم چریہ میں یقین رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ ایک ذمہ دارانہ سوجھ بوجھ کا مالک تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی دو بہنیں ابھی تک کنواری بیٹھی ہیں۔ یعنی برہم چریہ کے لیے اس کے پاس ٹھوس وجہ موجود تھی۔۔۔ تیسرے مؤرخ ام الچنتا منی یعنی والدہ محترمہ کی رائے چچا جان سے کسی حد تک ملتی ہے، صرف اس ترمیم کے ساتھ کہ بہو (یعنی میری زوجہ) نے ہی اسے یہاں سے فرار ہونے میں مدد دی ہے۔

    خود بہو بھی اس قسم کی ایک الگ رائے رکھتی ہے۔ یعنی جو ساس کہے اس کے الٹ۔

    قارئین! مجھے انتہائی افسوس ہے کہ چنتا منی کی خاطر مجھے اپنے کنبہ کی اندرونی حالت ظاہر کرنا پڑی اور باعزت کنبے کے لیے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ لیکن پورا پس منظر دیے بغیر چنتا منی کی تلاش ناممکن ہے، بہرکیف مؤرخین کے ان شدید اختلافات کی موجودگی میں وثوق سے کہنا ناممکن ہے کہ چنتامنی کیوں بھاگا؟ بیکاری، بیزاری، کنوارپن، کند ذہنی، پٹائی، ڈیموکریسی، صنعتی ارتقا، برہم چریہ، قربانی، بے وقوفی۔۔۔ ان میں سے کوئی ایک وجہ بھی ہوسکتی ہے یا ساری وجہیں بھی ہوسکتی ہیں۔ شاید چنتا منی ان تمام وجہوں کو اپنے ذہن میں پالتا رہا، پالتا رہا اور اس دن یہ تمام وجہیں منزل مقصود کو پہنچ گئیں جب اچانک دو سو رپے اس کے ہاتھ لگ گئے۔

    یہ دو سورپے میرے ایک دوست کی امانت تھے اور اب اس نے مجھ پر مقدمہ کر رکھا ہے۔

    عزیز چنتا منی کی تلاش میں ہم نے کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔ ریلوے اسٹیشنوں پر ڈھونڈا، جیل خانے چھانے، جوئے خانوں میں گئے، فلم کمپنیوں سے پوچھا۔ میری ماں درختوں سے پوچھتی پھری۔ والد محترم نے مختلف ریل گاڑیوں پر سفر کیا لیکن چنتا منی جیسے ایک خدا تھا کہ کہیں نہیں ملا۔

    (ممتاز اردو ادیب اور معروف مزاح نگار فکر تونسوی کی ایک شگفتہ تحریر)

  • ”پِکاسو کے کیا کہنے!“

    ”پِکاسو کے کیا کہنے!“

    اردو ادب میں ہمارا جو مقام ہے (ہماری اپنی نظر میں) اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ہم کچھ کہیں گے، تو کسی کی زبان تھوڑا پکڑی جا سکتی ہے۔ لوگ اسے خود ستائی پر محمول کریں گے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے مضامین میں ہم کورے ہیں۔

    فنونِ لطیفہ سے ہمارے نابلد ہونے کی بات جو اتنی مشہور ہے اس کی کچھ اصل نہیں۔ ڈراما ہو یا موسیقی یا مصوری، کسی میں ہم کسی اور سے ہیٹے نہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے معیار بہت اونچے ہیں۔ لندن میں ہم نے سرلارنس الیور کا ایک کھیل دیکھا اور بہت خوش ہو کر اخباری نمائندوں سے ان کی ہونہاری کی تعریف اور ان کے روشن مستقبل کی پیش گوئی کی اور یہ واقعی سچ ہے کہ وہ برابر اسٹیج پر آتے رہے، تو ایک دن نام پیدا کریں گے۔ شیکسپیئر کو بھی ہم بہت پسند کرتے ہیں اور اردو کے نقادوں سے متفق ہیں کہ اپنے زمانے کا آغا حشر تھا۔

    موسیقی میں لوگوں نے ہمیں اُس روز روشن آرا کی گائیکی پر سَر ہلاتے پکڑا۔ ایک روشن آرا ہیں اور ایک اور ہیں جن کا بھلا سا نام ہے اور نور جہاں ہے۔ ان سب کے فن سے ہم محظوظ ہونے پر قادر ہیں بشرطے کہ ہمیں پہلے سے کوئی بتا دے کہ یہ روشن آرا گا رہی ہیں یا نور جہاں ہی ہیں۔

    مصوری میں ہم اپنی ژرف نگاہی کے قائل ہیں اس روز کسی نے ہمیں اپنی تصویر دکھائی، ہم نے پوچھا کس کی ہے۔ معلوم ہوا پکاسو کی ہے، ہم نے کہا یہ بات ہے تو بہت اچھی ہے۔ پِکاسو کے کیا کہنے ہیں۔ دیکھتے نہیں کہ ان کا ایک ایک نقش فریادی ہے۔ اور رنگ کتنے اعلیٰ کوالٹی کے لگے ہوئے ہیں۔ ہم نے کراچی آرٹس کونسل میں کئی مقامی مصوروں کی نمائشیں دیکھی ہیں لیکن انصاف یہ ہے کہ پکاسو کا کوئی جواب نہیں۔

    (ممتاز ادیب، شاعر اور مشہور مزاح نگار ابنِ انشا کی کتاب ”خمارِ گندم“ سے ایک پارہ)

  • کراچی کا سفر نامہ (طنز و مزاح)

    کراچی کا سفر نامہ (طنز و مزاح)

    یوں تو ”ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے“ اور ہر تمنا پوری نہیں ہوتی لیکن یار لوگ تادم مرگ دل میں کوئی نہ کوئی آرزو پالے رکھتے ہیں اور اس کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

    بعض صاحبان اگر اپنی خواہشات من وعن پوری نہ کرسکیں تو بھی کسی نہ کسی طرح دل کا ارمان نکال ہی لیتے ہیں۔ مثلاً شاعر کہلانے کے آرزومند خواتین و حضرات ایک عرصے تک طبع آزمائی اور قافیہ پیمائی کے باوجود جب اپنے کلام کو باوزن کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں تو ”نثری نظمیں“ کہہ کر شاعر کہلانے کا ارمان پورا کرلیتے ہیں یا ڈاکٹر بننے کے خواہش مند اگر ایم بی بی ایس میں داخلے سے محروم رہ جائیں تو ہومیوپیتھ بن کر اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگا لیتے ہیں۔ ہمارا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

    ہمیں آرزو تھی کہ ملکوں ملکوں سفر کریں اور سفرنامے لکھیں۔ اب آپ سے کیا پردہ، ہماری اس خواہش کے پیچھے سیاحت سے زیادہ ابن بطوطہ سے لے کر مستنصر حسین تارڑ تک تقریباً تمام سیاحوں کی رنگیں بیانیوں کا عمل دخل تھا۔ سوچا تھا کہ ابن بطوطہ کی طرح فی سفر ایک شادی نہ بھی کرسکے تو تارڑ صاحب کی طرح فی سیاحت ایک رومان تو کر ہی ڈالیں گے، لیکن مجبوری حالات نے ملکوں ملکوں گھومنا تو کجا پنڈی بھٹیاں اور رن پٹھانی کا سفر بھی نہیں کرنے دیا۔ لیکن ہم بھی ایک ڈھیٹ، تہیہ کرلیا کہ سفر کریں نہ کریں سفر نامہ ضرور لکھیں گے سو ”میں نے آسٹریلیا دیکھا“، ”ہٹلر کے دیس میں“ اور ”جہاں انگریز بستے ہیں“ کے زیر عنوان بالترتیب آسٹریلیا، جرمنی اور برطانیہ کے سفر نامے لکھ اور چھپوا ڈالے۔

    یہ سفر نامے کیا تھے معلومات کے خزانے تھے، ان میں ہم نے ایسے ایسے انکشافات کیے تھے کہ اگر یہ کسی اور ملک میں چھپتے تو ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے اور ہمیں سیاح اور مصنف کے بہ جائے محقق کا درجہ عطا کردیا جاتا۔ مثلاً ”ہٹلر کے دیس میں“ میں ہم نے پہلی بار یہ انکشاف کیا کہ جرمنی کا نام جرمنی اس لیے پڑا کہ وہاں جرمن رہتے ہیں۔ آسٹریلیا کے بارے میں ہماری یہ تحقیق ملتِ بیضا کے لیے کتنی دل خوش کُن ہونا چاہیے تھی کہ یہ ملک ”آسٹر علی“ نامی ایک یورپی نژاد مسلمان نے دریافت کیا تھا اور اسی سے منسوب ہوا، بعد میں کچھ زیادہ ہی بگڑ کر یہ نام ”آسٹر علی“ سے آسٹریلیا ہوگیا، ویسے ہم تو یہ بھی ثابت کرسکتے تھے کہ آسٹریلیا جون ایلیا نے کسی آسٹر نامی انگریز کے اشتراک سے دریافت کیا تھا، اور اس ملک کا اصل نام ”آسٹر ایلیا“ تھا، لیکن (ہمارے یا آسٹریلیا کے) ایک بہی خواہ نے مسودہ دیکھ کر ہمیں سمجھایا کہ جون صاحب نے ”پیالۂ ناف“ کے سوا کچھ دریافت نہیں کیا اور یوں بھی وہ آسٹریلیا کے بہت بعد پیدا ہوئے تھے۔ اسی طرح ”جہاں انگریز بستے ہیں“ میں ہم پہلی مرتبہ یہ حقیقت سامنے لائے کہ برطانیہ، یو کے اور انگلینڈ، ان تینوں ملکوں میں بڑی ثقافتی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ لیکن ایسی خرد افروز اور علم افزا تصانیف کا صلہ ناقدین نے ہمیں ”جاہل مطلق“ ٹھہراکر دیا۔ انھوں نے ہماری ذکر کردہ معلومات اور ہمارے کچھ فقروں کو جواز بنا کر ہم پر وہ لعن طعن کی کہ خدا کی پناہ۔ ہماری تصانیف کے جو فقرے طنزوتضحیک کا نشانہ بنے ان میں سے چند یہ ہیں:

    ”میں نیاگرا آبشار کے کنارے خاموش بیٹھا اس جھرنے کی صدا سن رہا ہوں جو آسٹریلیا کی تاریخ بیان کررہا ہے۔“(”میں نے آسٹریلیا دیکھا“ صفحہ 3)

    ”دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی دوحصوں میں منقسم ہو گیا۔ ایک کا نام رکھا گیا مغربی جرمنی اور دوسرا مشرقی جرمنی کہلایا۔ ہمارے ہاں تو مشرقی پاکستان میں بنگالی بستے تھے، لیکن حیرت ہے کہ یہاں مغربی کی طرح مشرقی جرمنی میں بھی جرمن ہی آباد ہیں، ہمیں تلاش بسیار کے باوجود یہاں ایک بھی بنگالی نظر نہیں آیا۔ اس صورت حال سے اندازہ ہوا کہ ان کے ٹکا اور یحییٰ خان ہمارے والوں سے کہیں زیادہ سفاک تھے۔ یہ امکان بھی ہے کہ جرمنوں کے ساتھ رہتے رہتے مشرقی جرمنی کے بنگالی بھی جرمن ہوگئے ہوں۔ اس امکان نے ہمیں خوف زدہ کردیا اور ہم اپنا سفر مختصر کر کے اس ڈر سے پاکستان واپس آگئے کہ کہیں کچھ روز اور جرمنی میں رہ کر ہم بھی جرمن نہ ہوجائیں۔“ (”ہٹلر کے دیس میں“ صفحہ 608)

    ”برطانیہ میں جہاں دیکھو انگریز نظر آتے ہیں۔ یقیناً یہ انگلستان سے آکر یہاں بسے ہوں گے اور ایسے بسے کہ سارے ملک پر چھاگئے۔“

    اب آپ ہی بتائیے کہ ان تحریروں میں آخر ایسا کیا ہے جس سے ہماری جہالت یا لاعلمی ثابت ہوتی ہو؟ اس ضمن میں تنقید کرنے والوں سے ہم نے کہا کہ جہاں تک نیاگرا آبشار کا تعلق ہے تو ہم نے یہ کب لکھا کہ یہ جھرنا کینیڈا کے بہ جائے آسٹریلیا میں گرتا ہے۔ بات بس اتنی ہے کہ آسٹریلیا جانے سے پہلے ہم کینیڈا گئے تھے اور نیاگرا کے قریب بیٹھے آسٹریلیا کے خیالوں میں گم تھے۔ یہ منظر ہم نے ذرا شاعرانہ انداز میں بیان کردیا اور کینیڈا کا تذکرہ کرنا بھول گئے اور نقادوں نے اتنی سی بات کا بتنگڑ بنادیا۔ جب یہی وضاحت ہم نے ایک نقاد جناب ”اعتراض الدین معترض“ کے سامنے پیش کی تو فرمانے لگے:

    ”اچھا تو بتائیے کہ آخر نیاگرا آبشار کینیڈا کے بہ جائے آسٹریلیا کی تاریخ کیوں بیان کرنے لگا۔“

    ہم نے دل ہی دل میں انھیں ”احمق“، ”گاؤدی“ اور ”گھامڑ“ جیسے القابات سے نوازا اور گویا ہوئے ”حضرت! کینیڈا میں تو ہم بہ نفس نفیس موجود تھے، چناں چہ اس ملک کے ماضی و حال کے بارے میں سب کچھ جان سکتے تھے تو نیاگرا آبشار ہمیں کینیڈا کے بارے میں کیوں بتاتا؟ لہٰذا اس نے ہمیں اس ملک کی تاریخ سے آگاہ کیا جہاں ہم جانے والے تھے۔“

    اعتراض الدین صاحب منہ پھاڑے ہماری وضاحت وصراحت سنا کیے پھر جانے کیا بڑبڑاتے ہوئے چل دیے۔ اسی طرح جرمنی اور برطانیہ کے باب میں ہم نے جو کچھ لکھا وہ ہماری ذہانت اور سوچ کی گہرائی کا واضح ثبوت ہے، نہ کہ اسے ہماری ناواقفیت کی دلیل بنایا جائے۔

    بہرحال، ہمارے یہ تینوں سفرنامے ہم سے ناشر اور ناشر سے دکان دار تک کا سفر طے کر کے ہمارے پاس واپس آگئے اور اس کے بعد ہم نے بنا سفر کے سفرنامے لکھنے سے توبہ کرلی۔ لیکن سفرنامہ لکھنے کی خواہش سے دست بردار نہیں ہوئے، تاہم، اس تجربے نے ہمیں یہ ضرور باور کرادیا کہ جو دیکھو وہی لکھو۔ چناں چہ ہم نے فیصلہ کیا کہ کراچی کا سفر نامہ لکھیں گے ساتھ ہی یہ بھی طے کرلیا کہ یہ سفر نامہ کتاب کے بہ جائے مضمون کی صورت میں تحریر کریں گے، کیوں کہ ایک تو نہیں ہوتی اس میں محنت زیادہ اور دوسرے پیسے ڈوبنے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔ تو ہمارا ”سفرنامۂ کراچی“ ملاحظہ کیجیے۔

    ہم نے اپنے سفر کا آغاز سہراب گوٹھ سے کیا۔ ہم واضح کر دیں کہ اس جگہ کا رستم و سہراب سے کوئی تعلق نہیں، البتہ یہاں سہراب سے کہیں زیادہ زورآور بستے ہیں اور جو کام ان سے ہورہے ہیں وہ رستم سے بھی نہ ہوں گے۔ نہ ہی یہ روایتی معنوں میں گوٹھ ہے۔ ایک سہراب گوٹھ کیا کراچی کے اکثر علاقے اسی طرح ”اسم بے مسمیٰ“ ہیں مثلاً گلستان جوہر اور گلشن اقبال میں کہیں دور دور تک گُلوں کا نام ونشان نہیں، گیدڑ کالونی میں گیدڑ ناپید اور دریا آباد میں دریا تو کجا کوئی تالاب تک نہیں۔ سہراب گوٹھ میں کبھی کوئی گوٹھ آباد ہوگا، مگر اب تو یہ علاقہ افغان مہاجرین کے دم سے غزنی یا جلال آباد دکھائی دیتا ہے۔ سہراب گوٹھ پر بسوں ٹرکوں ”وغیرہ“ کے اڈے ہیں اور امی ابو نے ہمیں ہر قسم کے اڈوں سے دور رہنے کی تاکید کر رکھی ہے، لہٰذا ہم نے اس علاقے میں زیادہ ٹھہرنا مناسب نہیں سمجھا۔

    اب ہم فیڈرل بی ایریا پہنچے۔ یہ علاقہ فیڈرل اس نسبت سے کہلاتا ہے کہ جب یہ آباد ہوا تو کراچی وفاقی دارالحکومت تھا۔ بعدازاں ”الحکومت“ اسلام آباد چلی گئی اور کراچی میں دار ہی دار رہ گئی، لیکن یہ علاقہ آج بھی فیڈرل کہلاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے ملک کو ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کہا جاتا ہے۔ کافی عرصے سے لوگ فیڈرل بی ایریا کو ”فیڈرل بھائی ایریا“ کہنے لگے ہیں۔ ہمیں اس نام کی دو وجوہ تسمیہ بتائی گئیں ایک تو یہ کہ اس علاقے میں الطاف بھائی کی قیام گاہ اور ان کی جماعت کا مرکز واقع ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس بستی اور فیڈرل گورنمنٹ کے درمیان بڑی مدت بعد بھائی چارے کی فضا قایم ہوگئی ہے!

    فیڈرل بی ایریا کے بعد لیاقت آباد شروع ہوتا ہے۔ یہ کبھی لالو کھیت کہلاتا تھا، جہاں مختلف حکومتوں نے بے روزگاری اور افلاس کی فصل کاشت کی اور پھل کی صورت میں پتھر کھائے۔ شہید ملت لیاقت علی خان سے منسوب اس بستی میں ایک زمانے میں شہادت بلامطلوب ومقصود عام تھی۔ شہادتیں اس علاقے کے باسیوں کا مقدر بنیں اور مال غنیمت اور کشور کشائی دوسروں کے حصے میں آئی۔

    اب ہم ناظم آباد سمیت کئی بستیوں کو چھوڑتے ہوئے لیاری میں داخل ہوئے۔ یہ شہر کی قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک ہے، چناں چہ ”اولڈ از گولڈ“ کے محاورے کے تحت اسے چمکتا دمکتا علاقہ ہونا چاہیے تھا، مگر یہ علاقہ غربت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے، جہاں واحد چمکتی چیز وہ ”سفید سفوٖف“ ہے جو ”ولن“ ہونے کے باوجود ہیروئن کہلاتا ہے۔

    لیاری کے بعد ہماری منزل ایم اے جناح روڈ تھی۔ یہ کبھی بندرگاہ کے حوالے سے بندر روڈ کہلاتی تھی، لیکن اب ریلیوں اور جلوسوں کی وجہ سے یہ سڑک اکثر بند رہتی ہے، لہٰذا لوگ اسے بند روڈ کہنے لگے ہیں۔ اس شاہ راہ پر واقع اہم ترین مقام مزار قائد ہے۔ حکومت نے مزارقائد کے گرد ایک خوب صورت باغ لگا دیا ہے۔ نوجوان جوڑوں کی کھیپ کی کھیپ ہر روز مزار قائد پر حاضری دینے آتی ہے اور باغ قائد اعظم میں بیٹھ کر ”یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران“ گاتی ہے۔ اس شاہ راہ پر آگے چلیں تو نشتر پارک آتا ہے۔ یہ دنیا کا واحد ”الاسٹک“ کا بنا ہوا پارک ہے، جس میں چند ہزار نفوس کی گنجایش ہے، لیکن سیاسی جلسوں کے دوران یہ پارک لاکھوں افراد کو اپنے اندر سمولیتا ہے۔ اپنی اس خصوصیت کی بنا پر نشتر پارک کو ”گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز“ میں جگہ ملنی چاہیے، مگر مغربی دنیا کے مسلمانوں سے تعصب کے باعث یہ پارک اس اعزاز سے اب تک محروم ہے۔

    ایم اے جناح روڈ کی دھوئیں سے آلودہ فضا اور گاڑیوں کے شور نے ہماری طبیعت ایسی مکدر کی کہ شہر کی گنجان آباد غریب بستیوں کے سفر کا ارادہ ترک کرکے ہم ڈیفنس سوسائٹی اور کلفٹن کی جانب رواں ہوگئے۔ یہ آبادیاں درحقیقت دو سمندروں کے درمیان واقع جزائر ہیں، جن کے سامنے بحیرۂ عرب ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور عقب میں غربت، بھوک بیماری، بے روزگاری اور دیگر لاتعداد مصائب کے بحر ظلمات کی لہریں ساحل امید پر سر پٹخ پٹخ کر ناکام ونامراد لوٹ رہی ہیں۔ وسیع وعریض محلات سے مزین ان علاقوں کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے آپ کسی ایسے الف لیلوی شہر کی سیر کررہے ہوں، جس کے باسی کسی عذاب کا شکار ہوکر اپنے قصور خالی چھوڑ گئے ہیں۔ لیکن کسی کوٹھی کے اونچے دروازے سے زن سے نکلتی کوئی بیش قیمت گاڑی آپ کی یہ غلط فہمی دور کر دیتی ہے۔ ان بستیوں کے مکینوں کی اکثریت صرف شہریت اور پاسپورٹ کے اعتبار سے پاکستانی ہے ورنہ ان کے انداز واطوار، بول چال، چال ڈھال اور طرز رہایش و ذہنیت سب بدیسی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ انگریز حکم رانوں کی نشانیاں اور امریکی تہذیب کا نشان ہیں۔ ان علاقوں میں ہم جیسے ”مڈل کلاسیے“ کا پاپیادہ سفر ہمیں مشکوک بناکر مشکل میں ڈال سکتا تھا، اس لیے ہم نے ان بستیوں کی مختصر سیاحت کے بعد اپنے گھر کی راہ لی۔

    آپ کے لیے ہمارا یہ مختصر سفر نامہ اس لحاظ سے خاصا بے زار کردینے والا اور مایوس کُن ہو گا کہ یہ وجود زن سے تہی ہے۔ مگر کیا کریں، مستنصر حسین تارڑ اور دیگر سیاحوں نے جن علاقوں کا سفر کیا وہاں خواتین و حضرات بسوں اور ٹرینوں میں ساتھ ساتھ براجمان ہوتے ہیں، چناں چہ اس بات کا پورا امکان ہوتا ہے کہ کوئی حسینہ ان سیاحوں کے کندھے پر سر رکھ کر سورہے اور زیب داستاں بن جائے، لیکن کراچی کی بسوں میں خواتین کے حصے میں سلاخیں لگا کر اسے مردوں کے لیے (ماسوائے کنڈیکٹر) ممنوعہ علاقہ قرار دے دیا گیا ہے، اس باعث کسی کم عمر حسینہ تو کجا کسی ادھیڑ عمر بدصورت بی بی کے قربت کی امید بھی ناپید ہوگئی ہے۔ لہٰذا مختلف بسوں میں دوران سفر ہمارے شانے پر کوئی نہ کوئی خان صاحب اپنی بھاری بھرکم ”سری“ رکھے خراٹے لیتے اور اپنے لعاب کا خزانہ ہماری دھلی دھلائی قمیص پر لٹاتے رہے۔ ہم نے ان مناظر کا تفصیلی تذکرہ محض اس لیے نہیں کیا کہ یہ مناظر زیب داستاں کے بہ جائے ”عیب داستاں“ بن جاتے۔

    (معروف طنز و مزاح نگار محمد عثمان جامعی کے فکاہیہ مضامین کے مجموعے "کہے بغیر” سے انتخاب)

  • ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!‘‘

    ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!‘‘

    ادھر کئی مہینوں سے مکان کی تلاش میں شہر کے بہت سے حصوں اور گوشوں کی خاک چھاننے اور کئی محلّوں کی آب و ہوا کو نمونے کے طور پر چکھنے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ جس طرح ہر گلی کے لیے کم سےکم ایک کم تول پنساری، ایک گھر کا شیر کتا، ایک لڑا کا ساس، ایک بد زبان بہو، ایک نصیحت کرنے والے بزرگ، ایک فضیحت پی جانے والا رند، اور حوائجِ ضروری سے فارغ ہوتے ہوئے بہت سے بچوں کا ہونا لازمی ہوتا ہے، اسی طرح کسی نہ کسی بھیس میں ایک ماہرِ غالبیات کا ہونا بھی لازمی ہوتا ہے اور بغیر اس کے گرد و پیش کا جغرافیہ کچھ ادھورا رہ جاتا ہے۔

    اچھا بھلا ایک مکان مل گیا تھا لیکن ابھی اس میں منجملہ اسبابِ ویرانی میرا لپٹا ہوا بستر بھی ٹھیک سے کھل نہیں پایا تھا کہ محلّے کے ماہرِ غالبیات نے نہیں معلوم کیسے سونگھ لیا کہ میں سخن فہم نہ سہی غالب کا طرف دار ضرور ہوں اور مجھے اپنی غالبانہ گرفت میں ایک صید زبوں کی طرح جکڑ لیا۔ آتے ہی آتے انہوں نےغالب کے متعلق دوچار حیرت انگیز انکشافات کے بعد مجھے پھانسنے کے لیے ایک آدھ ہلکے پھلکے سوالات کر دیے۔ اب میری حماقت ملاحظہ ہو۔۔۔ کہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو بہت بڑاغالب فہم سمجھتا۔ میں نے ان کو نرم چارہ سمجھ کر ان پر دوچار منھ ماردیے یا یوں سمجھ لیجیے ان کی دُم پر پیر رکھ دیا یعنی ان کے سامنے غالب کو اپنے مخصوص زاویہ نگاہ سے پیش کرنے کی ’’سعی لا حاصل‘‘ کر بیٹھا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ میں کسی بارود کے خزانے کے قریب دیا سلائی جلانے کی کوشش کر رہا ہوں؟

    پھر کیا تھا، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں‘‘ چیخ کر ماہرِ غالبیات پھٹ تو پڑے مجھ پر! اور میری معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے فنِ غالبیات کی ایسی ایسی توپوں اور آتش فشانوں کے دہانے کھول دیے کہ میں سراسیمہ، مبہوت اور ششدر ہو کر ہمیشہ کے لیے عہد کر بیٹھا کہ اب آئندہ کسی اجنبی بزرگ کے سامنے حضرت غالب کا نام اپنی زبان بے لگام سے ہرگز ہرگز نکلنے نہ دوں گا۔ دوسرے ہی دن سے ماہر غالبیات نے، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ کے عنوان سے میری باقاعدہ تعلیم شروع کر دی۔ سویرے میں بستر ہی پر ہوتا کہ وہ ’’لذت خواب سحر‘‘ پر دھاوا بولتے آپہنچتے اور پہلے غالب کے کچھ انتہائی سنگلاخ اشعار پڑھ کر ان کے معنی مجھ سے پوچھتے، گویا میرا آموختہ سنتے اور پھر قبل اس کے کہ میں ایک لفظ بھی اپنی زبان سے نکال پاؤں، وہ ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ فرما کر ان کے معنی اور مطالب خود بیان کرنا شروع کر دیتے۔

    آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
    مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

    اور پھر نوبت یہاں تک پہنچتی کہ میں داڑھی بنارہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ حسن سمجھا رہے ہیں۔ میں کنگھا کر رہا ہوں اور وہ آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز، میں مسئلہ ارتقا کو پروان چڑھتے دیکھ رہے ہیں۔ میں کپڑے بدل رہا ہوں اور وہ ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا، پڑھ پڑھ کر اور گاہے گاہے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگا لگا کر غالب کو ہندوستان کا سب سے پہلا انقلابی ثابت کر رہے ہیں۔ میں جوتے کی ڈوریاں باندھ رہا ہوں اور وہ ’بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے‘ والے مصرع سے فضائے آسمانی پر اسپٹنگ چھوڑ رہے ہیں۔ میں ناشتہ کر رہا ہوں اور وہ ’’مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے‘‘ دہرا دہرا کر غالب کے علم الغذا پر کچھ اس انداز سے روشنی ڈال رہے ہیں کہ میرے منہ کا نوالہ حلق میں جانے سے انکار کر بیٹھتا ہے۔ میں دفتر جانے کے لیے سائیکل نکال رہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ عمرانیات بیان کر رہے ہیں۔ میں سائیکل پر بیٹھ چکا ہوں اور وہ شام کو دفتر سے میری واپسی پر غالب اور ضبطِ تولید کے موضوع پر اپنے تازہ ترین الہامات کو مجھ پر نازل کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

    شام کو ظہور پذیر ہوتے تو غالب اور دوسرے شعرا کا موازنہ شروع فرما دیتے اور غالب کے منہ لگنے والے دیگر تمام شعرا کو قابل گردن زدنی قرار دے کر بھی جب تسلی نہ ہوتی تو غالب کے مختلف شارحین کا پہلے سرکس پھر کشتی شروع کرا دیتے اور کافی دھر پٹخ کے بعد جب ہر شارح کافی پست ہو چکتا تو خود بھی اکھاڑے میں کود پڑتے اور فرداً فرداً ہر شارح کو پچھاڑتے اور پھر ہر شعر کے متعلق اپنی ایک انوکھی، اچھوتی اور عجوبۂ روزگار شرح کا آغاز کر دیتے جس کا انجام غالباً اس وقت تک نہ ہوتا جب تک میں اپنے ہوش و حواس کی قید و بند سے نجات پاکر وہاں نہ پہنچ جاتا جہاں سے خود مجھ کو میری خبر نہ آتی، یعنی بالکل ہی بے سدھ ہو کر اپنے بستر پر گر نہ جاتا۔

    کئی مرتبہ تکلف برطرف کرکے منت سماجت کی، ہاتھ جوڑے، داڑھی میں ہاتھ دیا، کان پکڑ کر اٹھا بیٹھا اور حرف مطلب یوں زبان پر لایا کہ اے ماہرِ غالبیات آپ کو آپ کے حضرت غالب مبارک! مجھ مغلوب کو میرے ہی حال پر چھوڑ دیجیے تو آپ کی غالبیت میں کون سا بٹا لگ جائے گا؟ میں ایک گدائے بے نوا ہوں، احمق، جاہل اور ہیچمداں ہوں۔ میرے ایسے ذرۂ ناچیز کو غالب ایسے آفتاب عالم تاب سے کیا نسبت؟ میں حضرت غالب کا صرف اس قدر گنہگار ہوں کہ عالمِ طفولیت میں ایک مولوی صاحب نے اسکول میں کورس کی کتاب سے ان کی چند غزلیں زبردستی پڑھا دی تھیں۔ اس کے علاوہ مجھ سے قسم لے لیجیے جو میں نے کبھی انہیں ہاتھ بھی لگایا ہو اور ہاتھ لگاتا بھی خاک…. ہاتھ آئیں تو لگائے نہ بنے! غالب کو میں کیا میری سات پشتیں بھی نہیں سمجھ سکتیں۔

    لیکن ماہرِ غالبیات بھلا کب ماننے والے تھے؟ میرے اظہارِ بیچارگی سے ان کی ہمہ دانی میں اور بھی چار چاند لگ جاتے اور فخر و تمکنت سے ان کے گلے کی رگیں پہلے سے بھی زیادہ پھولنے لگتیں،

    ’’ہو گا کوئی ایسا بھی جو غالب کو نہ جانے؟

    دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور!

    آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!

    اے دریغاوہ رند شاہد باز!‘‘

    اور یہ فرمانے کے بعد وہ غالب کے متعلق اپنی تحقیق اور دریافت کی گولہ باری مجھ پر کچھ اور تیز کر دیتے۔

    بس کیا عرض کیا جائے کہ کس طرح عاجز اور پریشان کر رکھا تھا ان ماہرِ غالبیات نے۔ ان سے جان چھڑانے کے لیے بیسیوں ترکیبیں کیں۔ محلّے کے با اثر لوگوں کا دباؤ ڈالوایا۔ گمنام خطوط لکھے۔ ایک انسپکٹر پولیس سے ان کے خلاف کوئی فرضی مقدمہ چلانے کی فرمائش کی، بیماری کا ڈھونگ بنایا۔ بہرے بنے (تو التفات دونا ہوگیا۔) دوستوں کے گھر جا کر پناہ لی، گھر کے دروازے بند کرائے۔ نوکر کو ہدایت کی کہ ’’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے!‘‘ لیکن اجی توبہ کیجیے۔…. اہل تدبیر کی وا ماندگیاں!

    ان حالات میں اسے چاہے میری بد ذاتی کہیے، چاہے اقدامِ قتل سے گریز کہ جیسے ہی مجھے ایک دوسرا مکان ملا جو اگرچہ میرے پہلے مکان کا صرف نصف بہتر معلوم ہوتا، میں رسیاں تڑا کر بھاگا۔ ماہر غالبیات سے میں نے کہہ دیا کہ میں شہر کیا صوبہ چھوڑ رہا ہوں اور وہ مجھے آبدیدہ ہوکر رخصت کرنے آئے تو بڑے رقت انگیز لہجے میں فرمایا، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ اور اگر میں ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی۔‘‘ نہ چیختا اور غلطی سے تانگے والا اس اس کا مخاطب اپنے آپ کو سمجھ کر فوراً تانگہ ہانک نہ دیتا تو یقیناً ماہرِ غالبیات مجھے ایک فی البدیہ الوداعی جلاب دیے بغیر ہرگز نہ مانتے۔ اپنے ان جان لیوا ماہرِ غالبیات سے چھٹکارا پاکر مجھے جو مسرتِ بے پایاں حاصل ہوئی اس کا اظہار غالباً غیرضروری ہے۔

    (ادیب اور طنز و مزاح نگار وجاہت علی سندیلوی کے قلم سے)