Tag: مزاحیہ تحریریں

  • مَردوں کا سچ…

    مَردوں کا سچ…

    جب یہ امر طے شدہ ہے کہ مرد عورتوں سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، تو اسے تحقیق کے ذریعے ثابت اور بے چارے مردوں کو مزید رسوا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

    برطانیہ کے محققین کو نہ جانے کیا سوجھی کہ بیٹھے بٹھائے مردوں اور عورتوں کی دروغ گوئی کی پیمائش کر ڈالی اور سروے کے ذریعے مردوں کو زیادہ جھوٹا قرار دے دیا۔

    دراصل سروے میں معصوم مردوں نے سچ سچ بتا دیا کہ وہ روزانہ کم از کم تین جھوٹ بولتے ہیں، یوں عورتوں سے بڑھ کر جھوٹے ٹھہرائے گئے۔
    محققین نے یہ تو جان لیا کہ مرد عورتوں سے زیادہ جھوٹ بولتے ہیں، مگر یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ آخر وہ ایسا کرتے کیوں ہیں۔ ارے یہ جھوٹ ہی تو ہے جس کے سہارے مرد جی لیتے ہیں، ورنہ ہر مرد یہی دعا مانگتا نظر آئے ؎

    اب کے جنم موہے ”کاکا“ نہ کیجو

    جھوٹ مردوں کی مجبوری اور ان کی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ خاص طور پر اس برادری کی مظلوم ترین ”نوع“ شوہروں کا دروغ گوئی کے بغیر گزارہ ہی نہیں۔ اب خدا لگتی کہیے، شادی کے دس پندرہ سال بعد،”میں کیسی لگ رہی ہوں“ کے اہلیانہ سوال کا جواب پوری سچائی کے ساتھ دیا جاسکتا ہے؟ ایسے کتنے ہی سوال ہر روز شوہروں کے سامنے کھڑے کہہ رہے ہوتے ہیں،”ہمت ہے تو سچ بول کے دکھا۔“ اسی طرح،”چَن کِتھاں گزاری ائی رات وے“ کا سیدھا سچا جواب ”چن“ کے دن رات کا چین چھین لے گا، چناں چہ اسے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی کہانی گھڑنا پڑتی ہے۔

    ”کیا آپ نے شادی سے پہلی کسی سے محبت کی ہے؟“ کا شک میں گندھا بلکہ سَنا ہوا استفسار اس لیے نہیں ہوتا کہ شوہر پڑوس کی بانو، پچھلی گلی کی رانو، اَگلی گلی کی چَھپن چُھری، کالج کی حمیدہ، یونیورسٹی کی زبیدہ اور دفتر کی سعیدہ سے تعلق کے گفتنی اور ناگفتنی تذکرے چھیڑ دے اور اہلیہ برداشت کی پوری اہلیت کے ساتھ مزے لے لے کر سُنتی رہیں، بلکہ بیگم صاحبہ صرف یہ سننا چاہتی ہیں کہ تم میری پہلی اور آخری محبت ہو، لہذا ”پہلی“ سے پہلے ”شادی کے بعد“ اور ”آخری“ سے قبل ”اب تک کی“ کے ٹکڑے دل ہی دل میں جوڑ کر حسب منشا جواب دے دیا جاتا ہے۔

    نصف بہتر کے ہاتھ کا بدترین کھانا بھی ”واہ واہ“ کر کے پیٹ میں انڈیلنا پڑتا ہے، ورنہ شوہر غریب کتنی ہی دیر کھا جانے والی نظروں کا سامنا کرتا رہے گا اور اس کے کان کھائے جاتے رہیں گے۔

    اب آپ ہی فیصلہ کیجیے مرد جھوٹے ہیں یا وہ لوگ ظالم ہیں جو مردانہ مجبوریوں کو جھوٹ کا مکروہ نام دیتے ہیں۔

    (معروف مزاح نگار، کہانی نویس، شاعر اور سینئر صحافی محمد عثمان جامعی کی کتاب ‘کہے بغیر’ سے انتخاب)

  • کوّؤں کے بھی کچھ حقوق ہیں!

    کوّؤں کے بھی کچھ حقوق ہیں!

    کوّا گرائمر میں ہمیشہ مذکر استعمال ہوتا ہے۔ کوّا صبح صبح موڈ خراب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ایسا موڈ جو کوّے کے بغیر بھی کوئی خاص اچھا نہیں ہوتا۔

    علی الصبح کوّے کا شور انسان کو مذہب کے قریب لاتا ہے اور نروان کی خواہش شدت سے پیدا ہوتی ہے۔ کوّا گا نہیں سکتا اور کوشش بھی نہیں کرتا۔ وہ کائیں کائیں کرتا ہے۔ ’کائیں‘ کے کیا معنیٰ ہیں؟ میرے خیال میں تو اس کا کوئی مطلب نہیں۔

    کوّے کالے ہوتے ہیں۔ برفانی علاقے میں سفید مائل کوّا نہیں پایا جاتا۔ کوّا سیاہ کیوں ہوتا ہے…؟ اس کا جواب بہت مشکل ہے۔

    پہاڑی کوّا ڈیڑھ فٹ لمبا اور وزنی ہوتا ہے۔ میدان کے باشندے اس سے کہیں چھوٹے اور مختصر کوّے پر قانع ہیں۔ کوّے خوب صورت نہیں ہوتے، لیکن پہاڑی کوّا تو باقاعدہ بدنما ہوتا ہے، کیوں کہ وہ معمولی کوّے سے حجم میں زیادہ ہوتا ہے۔

    کوّے کا بچپن گھونسلے میں گزرتا ہے، جہاں اہم واقعات کی خبریں ذرا دیر سے پہنچتی ہیں۔ اگر وہ سیانا ہو تو بقیہ عمر وہیں گزار دے، لیکن ’سوشل‘ بننے کی تمنّا اسے آبادی میں کھینچ لاتی ہے… جو کوّا ایک مرتبہ شہر میں آجائے، وہ ہرگز پہلا سا کوّا نہیں رہتا۔

    کوّے کی نظر بڑی تیز ہوتی ہے۔ جن چیزوں کو کوّا نہیں دیکھتا، وہ اس قابل نہیں ہوتیں کہ انہیں دیکھا جائے۔ کوّا بے چین رہتا ہے اور جگہ جگہ اڑ کر جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی بے حد مختصر ہے، چناں چہ وہ سب کچھ دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ کون نہیں چاہتا؟

    کبھی کبھی کوّے ایک دوسرے میں ضرورت سے زیادہ دل چسپی لینے لگتے ہیں۔ دراصل ایک کوّا دوسرے کوّے کو اس نظر سے نہیں دیکھتا، جس سے ہم دیکھتے ہیں۔ دوسرے پرندوں کی طرح کوّوں کے جوڑے کو کبھی چہلیں کرتے نہیں دیکھا گیا۔ کوّا کبھی اپنا وقت ضائع نہیں کرتا یا کرتا ہے؟ کوّے کو لوگ ہمیشہ غلط سمجھتے ہیں۔ سیاہ رنگ کی وجہ سے اسے پسند نہیں کیا جاتا۔ لوگ تو بس ظاہری رنگ روپ پر جاتے ہیں۔ باطنی خوبیوں اور ’کردار‘ کو کوئی نہیں دیکھتا۔ کوّا کوئی جان بوجھ کر تو سیاہ نہیں ہوا۔ لوگ چڑیوں، مرغیوں اور کبوتروں کو دانہ ڈالتے وقت کوؤں کو بھگا دیتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح نہ صرف کوؤں کے لاشعور میں کئی ناخوش گوار باتیں بیٹھ جاتی ہیں، بلکہ ان کی ذہنی نشوونما پر برا اثر پڑتا ہے۔ آخر کوؤں کے بھی تو حقوق ہیں۔

    کوّے باورچی خانے کے پاس بہت مسرور رہتا ہے۔ ہر لحظے کے بعد کچھ اٹھا کر کسی اور کے لیے کہیں پھینک آتا ہے اور پھر درخت پر بیٹھ کر سوچتا ہے کہ زندگی کتنی حسین ہے۔

    کہیں بندوق چلے تو کوّے اسے اپنی ذاتی توہین سمجھتے ہیں اور دفعتاً لاکھوں کی تعداد میں کہیں سے آجاتے ہیں۔ اس قدر شور مچتا ہے کہ بندوق چلانے والا مہینوں پچھتاتا رہتا ہے۔ بارش ہوتی ہے تو کوّے نہاتے ہیں، لیکن حفظانِ صحت کے اصولوں کا ذرا خیال نہیں رکھتے۔ کوّا سوچ بچار کے قریب نہیں پھٹکتا۔ اس کا عقیدہ ہے کہ زیادہ فکر کرنا اعصابی بنا دیتا ہے۔

    (مزاح نگار شفیق الرّحمان کے قلم سے)

  • نجات کا طالب غالب

    نجات کا طالب غالب

    مرزا غالب کی غزلیں‌ ہی نہیں ان کے خطوط بھی مشہور ہیں۔ غالب نے اردو زبان میں خطوط نویسی میں پُر تکلّف زبان، القاب اور روایتی طریقۂ سلام و پیام کو اہمیت نہ دی بلکہ اس روش کو ترک کر کے اردو خطوط نویسی کو خوش مزاجی، لطف اور تازگی سے بھر دیا۔ ابنِ‌ انشاء اردو کے ممتاز مزاح نگار اور شاعر تھے جن کی کتاب خمارِ گندم میں شامل غالب کا ایک فرضی خط یہاں ہم نقل کر رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    منشی صاحب میاں داد خاں سیاح

    یہ خط نواب غلام بابا خاں کے توسط سے بھیج رہا ہوں کہ تمہارا تحقیق نہیں اس وقت کہاں ہو۔ اشرف الاخبار تمہارے نام بھجوایا تھا، وہ واپس آگیا کہ مکتوب الیہ شہر میں موجود نہیں۔ اس اخبار کے مہتمم صاحب کل آئے تو کچھ اخبار بلاد دیگر کے دے گئے کہ مرزا صاحب انہیں پڑھیے اور ہو سکے تو رنگ ان لوگوں کی تحریر کا اختیار کیجیے کہ آج کل اسی کی مانگ ہے۔

    یہ اخبار لاہور اور کرانچی بندر کے ہیں۔ کچھ سمجھ میں آئے کچھ نہیں آئے۔ آدھے آدھے صفحے تو تصویروں کے ہیں۔ دو دو رنگ کی چھپائی موٹی موٹی سرخیاں۔ افرنگ کی خبریں۔ اگر بہت جلد بھی آئیں تو مہینہ سوا مہینہ تو لگتا ہی ہے لیکن یہ لوگ ظاہر کرتے ہیں کہ آج واردات ہوئی اور آج ہی اطلاع مل گئی۔ گویا لوگوں کو پرچاتے ہیں۔ بے پر کی اڑاتے ہیں۔ پھر ایک ہی اخبار میں کشیدہ کاری کے نمونے ہیں، ہنڈیا بھوننے کے نسخے ہیں۔ کھیل تماشوں کے اشتہار ہیں۔ ایک لمبا چوڑا مضمون دیکھا، ’’اداکارہ دیبا کے چلغوزے کس نے چرائے۔‘‘ سارا پڑھ گیا۔ یہ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا بات ہوئی۔ کسی کی جیب سے کسی نے چلغوزے نکال لیے تو یہ کون سی خبر ہے۔

    خیر یہ سب سہی، لطیفے کی بات اب کہتا ہوں۔ کرانچی کے ایک اخبار میں میرے تین خط چھپے ہیں۔ ایک منشی ہرگوپال تفتہ کے نام ہے، ایک میں نواب علائی سے تخاطب اور ایک میر مہدی مجروح کے نام۔ میں حیران کہ ان لوگوں نے میرے خطوط اخبار والوں کو کیوں بھیجے۔ اب پڑھتا ہوں تو مضمون بھی اجنبی لگتا ہے۔ اب کہ جو شراب انگریزی سوداگر دے گیا ہے کچھ تیز ہے۔ اور یہ سچ ہے کہ کبھی کبھی کیفیت اک گونہ بے خودی سے آگے کی ہو جاتی ہے۔ یا تو میں نے اس عالم میں لکھے اور کلیان اٹھا کر ڈاک میں ڈال آیا۔ یا پھر کسی نے میری طرف سے گھڑے ہیں اور اندازِ تحریر اڑانے کی کوشش کی ہے۔ کونے میں کسی کا نام بھی لکھا ہے، ابنِ انشا۔

    کچھ عجب نہیں یہی صاحب اس شرارت کے بانی مبانی ہوں۔ نام سے عرب معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ کیا حرکت ہے۔ سراسر دخل در معقولات ہے۔ اخبار نویسی میں ٹھٹول کیا معنی؟ بھئی مجھے بات پسند نہیں آئی۔ امید ہے وہ ٹوپیاں تم نے نواب صاحب کو پہنچا دی ہوں گی۔ نواب صاحب سے میرا بہت بہت سلام اور اشتیاق کہنا۔ میں سادات کا نیاز مند اور علی کا غلام ہوں۔

    نجات کا طالب
    غالب

  • اگر چنگیز خان زندہ ہوتا!

    اگر چنگیز خان زندہ ہوتا!

    بے اطمینانی انسان کی طبیعت میں ہے۔ نہ وہ اپنے ماضی سے مطمئن نہ حال سے خوش۔ جب وہ اپنی ناکامیوں پر نظر ڈالتا ہے تو صرف ٹھنڈی سانس بھر کر چپکا نہیں ہو جاتا بلکہ جو واقعات گزر چکے ہیں کبھی کبھی اپنے ذہن میں ان کی ترکیب بدل دیتا ہے۔ بلکہ ان میں سے تبدیلیاں کر لیتا ہے۔

    جس طرح ایک شاعر اپنے کلام پر نظر ثانی کرتے وقت تنقید کے خوف سے الفاظ کی ترتیب بدل ڈالے یا بعض الفاظ کو حشو سمجھ کر نکال دے اور ان کی جگہ دوسرے الفاظ لے آئے۔ آپ نے اگر اس انداز میں اپنی گزشتہ زندگی پر غور کیا ہے تو آپ کو اس طومار میں ایطائے خفی یا ایطائے جلی کی مثالیں نظر آئی ہوں گی۔ کبھی آپ نے یہ بھی محسوس کیا ہو گا کہ اس شعر میں شتر گربہ ہے۔ یہاں بندش سست ہے۔ یہاں حرف صحیح ساقط ہو گیا ہے۔ یہاں مضمون پامال ہے۔ یہاں اختلافِ بحر ہے اور استغفراللہ یہ غزل کہتے وقت میری کیا مت ماری گئی تھی کہ پورا مصرع وزن سے خارج ہے۔ لیکن صاحب دل ہی دل میں اپنی گزشتہ زندگی کے واقعات کو الٹ پلٹ کے اور ان کی ترتیب بدل کے خوش ہو لینا اور بات ہے۔ زندگی سچ مچ شعر تو نہیں کہ جب چاہیں اس کی اصلاح کر لیں یا اگر کلام چھپ گیا تو اس کے ساتھ ایک غلط نامہ شائع کروا لیں اور یہ بھی نہ ہو سکے تو سوچ کے چپکے ہو رہیں کہ چلو اگلے ایڈیشن میں صحیح ہو جائے گی۔

    گزرے ہوئے دن پلٹ کر نہیں آتے اور جو کچھ ہو چکا اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ ہم اور آپ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے لیے اگر مگر چناں و چنیں اور کاشکے کی بھول بھلیاں میں کھو جائیں اور ‘یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا’ گنگنانا شروع کر دیں یا مرزا غالب کی طرح یہ کہہ کے چپکے ہو رہیں کہ:

    آئینہ و گزشتہ تمنا و حسرت است
    یک کاشکے بود کہ بصد جا نوشتہ ایم

    لیکن سوال یہ نہیں کہ ہم اور زندگی میں جو غلطیاں کر چکے ہیں اگر وہ ہم سے سرزد نہ ہوتیں تو کیا ہوتا۔ یا مرز غالب کو اپنے چچا کی پوری جاگیر مل جاتی تو آیا وہ کلکتہ اٹھ جاتے یا دہلی میں رہتے اور کلکتے چلے جاتے تو وہاں کی آب و ہوا کا ان کی غزل گوئی پر کیا اثر پرتا؟ مجھ سے تو یہ سوال کیا گیا ہے کہ اگر چنگیز خان زندہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ اوّل تو مجھے اس سوال پر ہی اعتراض ہے۔ چنگیز خان جن اثرات کی پیداوار تھا۔ ان پر غور کیا جائے تو علت اور معلول کا ایک لامتناہی سلسلہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ جس کی کڑیاں گننا ہمارے بس کا روگ نہیں۔ زندگی کے پیڑ میں ایسا کڑوا پھل ہمیشہ نہیں رہتا۔ اس لیے خاص موسم شرط ہے اور انصاف کی بات یہ ہے کہ چنگیز خاں جیسے شخص کے لیے بارھویں تیرھویں صدی کا موسم اور مغولستان یعنی منگولیا کا ماحول ہی موزوں تھا۔ چنگیز خاں کو جس زمان اور جس ماحول میں پیدا ہونا چاہیے تھا۔ وہ اسی زمانے میں اور ماحول میں پیدا ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ آپ اور ہم اپنی گزشتہ زندگی کے واقعات کی ترتیب الٹنے پلٹنے اور نئے ڈھنگ سے ان کی چولیں بٹھانے کے عادی ہیں۔ چنگیز خاں سے بھی اسی قسم کی زبردستی کر گزریں یعنی اسے تیرھویں صدی سے کھینچ کر بیسویں صدی میں لا کھڑا کریں۔ خیر یوں ہے تو یوں ہی سہی۔ آئیے اب ہم اور آپ مل کر اس سوال پر غور کریں کہ اگر یہ مغل سردار جس نے پرانی دنیا کے نصف حصے کو زیر و زبر کر ڈالا تھا۔ آج ہوتا تو کیا ہوتا؟

    یہ سوال سن کر آپ کا ذہن یقیناً ہٹلر کی طرف منتقل ہو گیا ہے۔ کیونکہ ہٹلر کے چہرے میں چنگیز خان کے خدوخال کا عکس تیار کر لینا بڑی آسان اور پیش پا افتادہ سی با ت ہے اور ممکن ہے کہ آپ کو اقبال کا یہ شعر بھی یاد آ گیا ہو کہ:

    از خاک سمر قندے ترسم کرد گر خیزد
    آشوبِ ہلاکوئے ہنگامۂ چنگیزے

    ہٹلر اور چنگیز خان میں بظاہر کئی چیزیں مشترک معلوم ہوتی ہیں۔ اور دونوں کے کارناموں میں بھی بڑی مشابہت ہے۔ مثلاً چنگیز خان تو چنگیز خانی کو جو اس کے بعض قوانین کا مجموعہ تھا ساری دنیا میں پھیلا دینا چاہتا تھا۔ ہٹلر بھی نیا نظام قائم کرنے کا مدعی تھا اور نازیوں میں مائن کیمپ کو وہی حیثیت دی جاتی تھی جو مغلوں میں تورہ چنگیز خانی کو حاصل تھی۔ پھر دونوں میں تنظیم کی خاص صلاحیت ہے اور دونوں خون ریزی کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ اس سے بڑی مشابہت یہ ہے کہ کیف کا شہر دو دفعہ لٹا ہے۔ ایک دفعہ چنگیز مغلوں نے اسے تاراج کیا تھا اور دوسری دفعہ ہٹلر نازیوں کے ہاتھوں اس کی تباہی آئی۔ اس لیے مجھے مان لینے میں کوئی تامل نہیں کہ اگر چنگیز خان آج زندہ ہوتا اور یورپ میں ہوتا تو نسل انسانی کے لیے ہٹلر سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوتا۔ لیکن یہ امر مشتبہ ہے کہ اگر چنگیز خان آج مغولستان ہی میں پیدا ہوتا تو کیا دنیا اسے فاتح اور کشور کشا کی حیثیت سے جانتی۔ اور کیا اس کی سرداری میں مغل فوجیں آج بھی نصف کرۂ ارض کو پامال کر ڈالتیں۔

    بارہویں اور تیرہویں صدی میں ایسے کارنامے انجام دینے کے لیے جو چیزیں ضروری تھیں وہ آج بے کار ہو کے رہ گئی ہیں، مثلاً اس عہد میں ہر نامور سردار کے لیے ضروری تھا کہ وہ جسمانی قوت میں نمایاں اور ممتاز حیثیت رکھتا ہو۔ فنون سپہ گری یعنی تیغ گری، تیغ زنی، تیر اندازی، نیزہ بازی، اور شہسوری میں ماہر ہو۔ لیکن آج کل جسمانی قوت یا فنونِ سپہ گری کی مہارت بے معنی ہے۔ ہٹلر میں تنظیم کی صلاحیت ضرور تھی۔ لیکن وہ پہلوان تو ہرگز نہ تھا۔ فنون سپہ گری سے بھی نابلد تھا۔ پھر اس نے وہ کیا جو چنگیز خاں نے اپنے عہد میں کیا تھا۔ اس کے علاوہ چنگیز خان نے بڑی بڑی فتوحات اس لیے حاصل کیں کہ منگولیا میں اعلیٰ نسل کے مضبوط اور جفا کش گھوڑے کثرت سے ہوتے ہیں۔ مغل گھوڑے چڑھے جب مغولستان کے کوہستانوں سے گھوڑے دوڑاتے نکلتے ہیں تو انہوں نے بڑی بڑی سلطنتوں کا تختہ الٹ کر رکھ دیا۔

    آج کی لڑائیوں میں گھوڑوں کو اتنی اہمیت نہیں رہی، اب تو ٹینکوں کا زمانہ ہے اور ہٹلر نے ٹینکوں کی مدد سے ہی میدان سر کیے ہیں۔ شاید آپ کہیں گے کہ اگر چنگیز خان اس زمانے میں ہوتا تو اس کے پاس بھی ٹینک ہوتے لیکن صاحب مغولستان میں ٹینک کہاں سے آتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے لیکن منگولیا کے باشندوں کی زندگی میں زیادہ فرق نہیں آیا۔ ان کی زندگی اب بھی قریب قریب ایسی ہی ہے کہ جیسی آج سے سات ساڑھے سات سو برس پہلے تھی۔ اب بھی دشت گوبی کے آس پاس کے علاقے میں مغل خانہ بدوشوں کے قافلے بھیڑ بکریوں کے گلے کے لیے چارے کی تلاش میں پھرتے نظر آتے ہیں۔ اب بھی گھوڑے ان کی سب سے بڑی دولت ہیں۔ اس لیے چنگیز خان آج ہوتا تو کسی خانہ بدوش قبیلے کا سردار یا منگولیا کے کسی علاقے کا حاکم ہوتا۔ اور اگر اسے فتح مندی اور کشور کشائی کا شوق چراتا تو آس پاس کے علاقے پر چھاپا مارنا شروع کر دیتا اور ممکن ہے کہ اخباروں کے کالموں میں اس کا نام بھی آ جاتا۔ ریڈیو پر بھی ہم اس کا ذکر سن لیتے اور ہمارے ملک کے اکثر لوگ یہ جان لیتے کہ منگولیا کے سرداروں میں ایک صاحب چنگیز بھی ہیں۔ اور ممکن ہے ک کبھی ہم یہ بھی سن لیتے جاپانیوں یا روسیوں سے چنگیز کی ان بن ہو گئی۔ پہلے تو بڑے زور میں تھا لیکن ایک ہی ہوائی حملے نے ساری شیخی کرکری کر دی اور چنگیز خانی دھری کی دھری رہ گئی۔ اور ممکن ہے کہ چنگیز خان کو کسی قبیلے کی سرداری بھی ہاتھ نہ آتی اور ساری عمر جھیل بے کال کے آس پاس گھاس کھودتے گزر جاتی اور اس طرح اس مذاقِ خوں ریزی کی تسکین کا سامان فراہم ہو جاتا۔ یہ میں نے اس لیے کہا ہے کہ قیصر ولیم ثانی جنگ عظیم میں شکست کھانے کے بعد درخت کاٹا کرتے تھے۔ غالباً انہوں نے یہ مشغلہ اس لیے اختیار کیا تھا کہ انہیں بھی تخریب سے ازلی مناسبت تھی۔

    منگولیا میں درخت کم ہیں، اس لیے چنگیز خان درختوں کے بجائے گھاس پر غصہ نکالتا اور اسی کو کشور کشائی اور جہانگیری کا بدل سمجھتا اور یہ بھی اسی صورت میں ہو سکتا تھا کہ چنگیز خان منگولیا میں ہوتا۔ ورنہ اگر وہ ہندوستان اور پاکستان میں پیدا ہوتا تو کسی خانہ بدوش قبیلے کا سردار ہوتا نہ کسی علاقے کا حاکم۔ بلکہ یا تو لیڈر ہوتا یا پھر شاعر ہوتا۔ لیڈر ہوتا تو سیاست کے گلے پر کند چھری پھیرتا۔ اخبار نویس کی ٹانگ اس طرح توڑتا کہ بچاری ہمیشہ کے لیے لنگڑی ہو کر رہ جاتی۔ اور شاعر یا ادیب ہوتا تو ادب کا خون بہاتا۔ بھاری بھرکم لغات اس طرح لڑھکاتا کہ شاعری اس کے نیچے دب کے رہ جاتی۔ پرانے شاعروں کے دیوانوں پر ڈاکہ ڈالتا اور بڑے بڑے سلاطینِ سخن کے کلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتا۔ متداول بحروں میں ایسے تصرفات کرتا کہ ان کی شکل نہ پہچانی جاتی۔ یہ اس لیے کہ ہندوستان پاکستان میں منگولیا ایسے گیاہستان نہیں جہاں چنگیز خان اطمینان سے گھاس کھود سکتا اور درخت کاٹنا جرم ہے اور یہ پھر بھی ہے جس طرح منگولیا گھوڑوں کے لیے مشہور ہے۔

    ہمارا ملک شاعری اور شاعروں کے لیے مشہور ہے۔ اس لیے یقین ہے کہ چنگیز خان کو شاعری کا پیشہ اختیار کر کے کاغذی گھوڑے دوڑانے اور قلم کی تلوار چمکانے کے سوا اور کوئی چارہ نظر نہ آتا اور اس معاملے میں مرزا غالب کا فتویٰ بھی تو یہی ہے کہ

    بحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا

    (دنیائے ادب اور صحافت میں ممتاز چراغ حسن حسرت کی ایک شگفتہ تحریر)

  • اب لائیے ادھر کان!

    اب لائیے ادھر کان!

    ایک تھا کچھوا۔ ایک تھا خرگوش۔ دونوں نے آپس میں دوڑ کی شرط لگائی۔

    کوئی کچھوے سے پوچھے کہ تُو نے کیوں لگائی؟ کیا سوچ کر لگائی۔ دنیا میں احمقوں کی کمی نہیں۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ طے یہ ہوا کہ دونوں میں سے جو نیم کے ٹیلے تک پہلے پہنچے، اسے اختیار ہے کہ ہارنے والے کے کان کاٹ لے۔

    دوڑ شروع ہوئی۔ خرگوش تو یہ جا وہ جا، پلک چھپکنے میں خاصی دور نکل گیا۔ میاں کچھوے وضع داری کی چال چلتے منزل کی طرف رواں ہوئے۔ تھوڑی دور پہنچے تو سوچا بہت چل لیے۔ اب آرام بھی کرنا چاہیے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے شان دار ماضی کی یادوں میں کھو گئے۔ جب اس دنیا میں کچھوے راج کیا کرتے تھے۔ سائنس اور فنون لطیفہ میں بھی ان کا بڑا نام تھا۔ یونہی سوچتے میں آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ خود تو تخت شاہی پر بیٹھے ہیں۔ باقی زمینی مخلوق شیر، چیتے، خرگوش، آدمی وغیرہ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں یا فرشی سلام کر رہے ہیں۔ آنکھ کھلی تو ابھی سستی باقی تھی۔ بولے ابھی کیا جلدی ہے۔ اس خرگوش کے بچّے کی کیا اوقات ہے۔ میں بھی کتنے عظیم ورثے کا مالک ہوں۔ واہ بھئی واہ میرے کیا کہنے۔

    جانے کتنا زمانہ سوئے رہے تھے۔ جب جی بھر کے سستا لیے تو پھر ٹیلے کی طرف رواں ہوئے۔ وہاں پہنچے تو خرگوش کو نہ پایا۔ بہت خوش ہوئے۔ اپنے کو داد دی کہ واہ رے مستعدی میں پہلے پہنچ گیا۔ بھلا کوئی میرا مقابلہ کرسکتا ہے؟ اتنے میں ان کی نظر خرگوش کے ایک پلے پر پڑی جو ٹیلے کے دامن میں کھیل رہا تھا۔

    کچھوے نے کہا، ’’اے برخوردار تو خرگوش خان کو جانتا ہے؟‘‘ خرگوش کے بچّے نے کہا، ’’جی ہاں جانتا ہوں۔ میرے ابا حضور تھے۔ معلوم ہوتا ہے آپ وہ کچھوے میاں ہیں جنہوں نے باوا جان سے شرط لگائی تھی۔ وہ تو پانچ منٹ میں یہاں پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد مدتوں آپ کا انتظار کرتے رہے۔ آخر انتقال کرگئے۔ جاتے ہوئے وصیت کرگئے تھے کہ کچھوے میاں آئیں تو ان کے کان کاٹ لینا۔ اب لائیے ادھر کان۔‘‘

    کچھوے نے اپنے کان اور سری خول کے اندر کر لی۔ آج تک چھپائے پھرتا ہے۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور مقبول مزاح نگار ابنِ‌ انشاء کے قلم کی شوخی)

  • شور نہ کیجیے!

    شور نہ کیجیے!

    شہروں اور خاص طور پر بڑے شہروں میں سکون اور اطمینانِ قلب کی کوئی جگہ ڈھونڈنا ایسا ہی ہے جیسے کسی ادبی رسالے کے خاص نمبر میں کسی خاص بات کی تلاش۔ شہروں میں بہرحال ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں سناٹا ہوا کرتا ہے۔ یہ جگہ لائبریری کہلاتی ہے۔

    اکثر لائبریریوں میں تو ہُو کا عالم رہتا ہے۔ لائبریری وہ مقام ہے جہاں لائبریرین کے سوا کوئی نہیں جاتا۔ لائبریرین بے چارہ بھی وہاں جانے پر اس لئے مجبور ہے کہ اسے اس کام کی تنخواہ ملتی ہے (مشہور تو یہی ہے کہ اسے تنخواہ بھی دی جاتی ہے)۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ شخص بھی بس کبھی کبھی ہی وہاں جاتا ہے (اتنی عقل تو اس میں ہونی ہی چاہیے) لائبریری میں آپ بیٹھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ایلورا کے کسی غار میں بیٹھے ہوئے ہیں (یہ مثال ان دنوں کے لئے ہے جب سیاحوں کا موسم نہ ہو) ذات کی تنہائی کے لئے کسی تنہا یا ویران مقام کی ضرورت تو نہیں ہوا کرتی لیکن ضرورت پڑنے پر لائبریری ہی کا رخ کرنا چاہئے۔

    کہتے ہیں ایک کیبرے ڈانسر سے کسی دانشور نے پوچھا کہ تم اتنی پڑھی لکھی ہو اور ایسے گھٹیا ہوٹل میں ڈانس کرنے آتی ہو، اس کی کیا وجہ ہے؟
    ڈانسر نے جواب دیا کہ اسے پڑھے لکھے لوگوں سے ملنے کا بڑا شوق تھا اور اس نے اسی شوق کی خاطر ایک لائبریری میں ملازمت بھی کی تھی لیکن وہاں کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص سے اس کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور جب سے اس نے اس گھٹیا ہوٹل میں آنا شروع کیا ہے، وہ شہر کے ہر دانشور سے مل چکی ہے۔

    کیا تعجب، یہ بات صحیح ہو کیونکہ کیبرے ڈانسر کو کوئی چیز پوشیدہ رکھنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ کسی مصنف کی کتاب کا فٹ پاتھ پر پہنچ جانا پہلے بہت برا سمجھا جاتا تھا (فٹ پاتھ کو لوگ نہایت ناقص قسم کی چیز سمجھتے ہیں اور اس پر چلنا بھی گوارا نہیں کرتے، وہ ہمیشہ سڑک کے بیچ میں چلا کرتے ہیں) لیکن اب اگر کسی مصنف کی کتاب، کسی لائبریری مین پہنچ جائے تو اسے اس کی سب سے بڑی بد قسمتی سمجھا جاتا ہے۔ فٹ پاتھ پر کتاب رکھی رہے تو کیا تعجب بھولے بھٹکے کسی کی نظر اس پر پڑ جائے بلکہ یہ فٹ پاتھ پر پہنچتی ہی اس وقت ہے جب یہ پڑھی جا چکتی ہے (کتاب کا سکنڈ ہینڈ ہونا بڑی عزت کی بات ہے)۔ لائبریری کی الماری میں بڑے اہتمام اور قرینے سے سجی ہوئی کتاب تو آج 25 ، 30 سال پہلے کی اس پردہ نشین خاتون کی طرح ہوتی ہے جس کے آنچل کی ہلکی سی جھلک بھی نظر آجاتی تو طوفان کھڑا ہو جاتا تھا ( اس زمانے میں چونکہ الیکشن کے امیدوار وغیرہ نہیں ہوا کرتے تھے اس لئے ایسی ہی چیزیں کھڑی ہوا کرتی تھیں) ان کتابوں کا آنچل بھی کبھی نہیں میلا ہوا کرتا۔ حالانکہ کتابوں کے گرد پوش آج کل اتنے نفیس اور خوبصورت ہوتے ہیں کہ کم سے کم انہیں تو دیکھا ہی جاسکتا ہے لیکن صرف گرد پوش دیکھنے کے لئے لائبریری کون جائے۔ آرٹ گیلری اس کام کے لئے بہتر جگہ ہے۔

    اگر مصنف خود ہی لائبریری جاکر اپنے ہی نام اپنی کتاب نہ نکلوائے تو کتاب میں رکھا ہوا کارڈ، اس کی قسمت ہی کی طرح معرّی رہے۔ ( اس میں ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اگر ناحسنِ اتفاق سے یہ کتاب کسی اور پڑھ لی ہے تو مصنف کو اپنے بارے میں اس معزز شخص کی رائے بھی معلوم ہوجائے گی۔ یہ رائے کتاب میں جگہ جگہ درج ہوگی کیونکہ لائبریری کی ہر کتاب، کتاب الرّائے ہوا کرتی ہے۔

    پڑھے لکھے لوگوں نے ان دنوں اپنی اپنی ذاتی لائبریریاں بنالی ہیں۔ ان لائبریریوں میں گم شدہ اور مسروقہ کتابوں کا نایاب ذخیرہ ہوتا ہے، لیکن الماریاں بہر حال ان کی اپنی ہوتی ہیں۔ اس میں ان کی مجبوری کو دخل ہے کیونکہ کتابیں تو مستعار مل جاتی لیکن الماریوں کے معاملے میں یہ طریقہ ابھی شروع نہیں ہوا ہے۔ (ہمارے پسماندہ ہونے کا یہ بھی ایک ثبوت ہے ) گھریلو لائبریری قائم کرنے والوں کو اتنی قربانی تو دینی ہی چاہئے۔ ذاتی لائبریری میں مختلف ترکیبوں سے جمع کی ہوئی کتابوں کا پڑھا جانا ضروری نہیں۔ کبھی کبھی انہیں جھٹک کر ٹھیک سے رکھ دینا کافی ہے (بعض لوگ ان کی طرف سال میں ایک آدھ مرتبہ نظر اٹھا کر دیکھ لینا بھی کافی سمجھتے ہیں) ان لوگوں کی بات البتہ الگ ہے جو خود کے لئے نہیں دوسروں کے لئے مطالعہ فرمایا کرتے ہیں۔ یہ لوگ ایک کتاب پڑھ کر جب تک دوسروں سے اپنے مطالعے کا انتقام نہیں لے لیتے، انہیں بلڈ پریشر رہتا ہے۔ یہ سمجھتے ہیں اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو ان کی ازدواجی زندگی میں فتور آجائے گا۔ پڑھتے تو خیر یہ دوسروں کے لئے ہیں لیکن لکھتے خود کے لئے ہیں۔ احتیاط یہ ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا سمجھ نہ لے۔ ان کی تصنیف میں ان کا اپنا حصہ ہی ہوتا ہے جتنا سمندر میں خشکی کا (اتنا کثیر حصہ معمولی بات نہیں) یہ لوگ بہر حال ان مصنفوں سے بہتر ہوتے ہیں جو صرف لکھنا جانتے ہیں پڑھنا نہیں۔

    لائبریریوں میں پہلے جگہ جگہ یہ ہدایت لکھی ہوتی تھی کہ شور نہ کیجئے۔ شور نہ کیجئے۔ اب ان ہدایتوں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ضرورت تو ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ابابیلیں نوٹسیں نہیں پڑھا کرتیں۔

    (یوسف ناظم کے مزاحیہ مضامین پر مشتمل کتاب ‘البتہ’ سے انتخاب)

  • باتوں کے بھوت…

    باتوں کے بھوت…

    نجانے وہ لوگ کہاں بستے ہیں جن کے بارے میں احمد فراز نے کہا تھا ؎

    کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفت گو کرے
    جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے

    ہمیں تو اپنے ارد گرد وہ لوگ ہی نظر آتے ہیں جنھیں سخن سے دل کو لہو اور سماعت کو لہولہان کرنے کا شوق ہے۔ ہمارے ہاں باتیں کرنا ایک باقاعدہ مشغلہ اور رواج ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو ”گپ شپ“ اور ”کچہری کرنے“ کی دعوت دیتے ہیں اور یہ ”دعوتِ گفتگو“ گھنٹوں پر محیط ہوتی ہے۔

    ہمارے ہاں بات چیت کا آغاز ہی نہایت بے تکے پن سے کیا جاتا ہے، لہٰذا دوران گفتگو دانائی اور معقولیت کی توقع رکھنا فضول ہے۔ بات چیت کی ابتدا عموماً دو بھلے چنگے اور ہنستے مسکراتے افراد اس سوال سے کرتے ہیں:

    ”اور بھئی ٹھیک ٹھاک“ یا ”خیریت سے ہو۔“ اس کے بعد لایعنی سوالات اور بے معنی گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔

    مغرب میں دو اجنبیوں میں گفتگو کی شروعات عموماً موسم کے تذکرے سے ہوتی ہے۔ مگر ہمارے یہاں جب دو ناآشنا ملتے ہیں تو خالصتاً ذاتی نوعیت کے سوالوں سے بات شروع کی جاتی ہے۔ مثلاً اپنے کاروبار کے مالک اور خاصے متمول یا نو دلتیے، بھائی اچھن اور ایک فیکٹری میں ملازمت کرنے والے شبّو میاں پہلی بار ایک شادی کی تقریب میں ملے ہیں، جہاں وہ دونوں محض اس لیے ایک دوسرے سے گویا ہونے پر مجبور ہوگئے کہ کوئی تیسرا انھیں لفٹ نہیں کرا رہا۔

    بھائی اچھن (گاڑی کی چابی گھُماتے ہوئے): ”آپ کی کیا مصروفیات ہیں؟“

    شبو میاں: ”مصروفیات تو بڑے لوگوں کی ہوتی ہیں۔ ہم جیسے لوگ تو نوکری ہی میں مصروف رہ کر زندگی گزار دیتے ہیں۔“

    بھائی اچھن:”کہاں نوکری کرتے ہیں“

    شبو میاں: ”ایک فیکٹری میں۔“

    بھائی اچھن: ”فیکٹریوں میں تو تنخواہیں بہت کم ہیں۔ گزارہ ہو جاتا ہے؟“

    شبو میاں: ”بڑی مشکل سے“

    بھائی اچھن: ”تو اپنا کاروبار کیوں نہیں کر لیتے؟“

    اس سوال پر شبو میاں کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ہے اور کئی مغلظات ان کے گلے تک آکر بہ مشکل واپس جاتی ہیں۔ وہ بھائی اچھن کے پاس سے اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بھائی اچھن اس شکار کو اتنی آسانی سے چھوڑنے والے نہیں۔ وہ شبو میاں کے سامنے مشوروں کا انبار لگادیتے ہیں، جن میں مختلف کاروبار کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔

    میاں اچھن کی طرح کے کردار ہمارے یہاں عام ”دست یاب“ ہیں۔ یہ خواتین و حضرات کی وہ قسم ہے جسے دوسروں کو مشورے دینے کا جنون ہوتا ہے۔ یہ ہر وقت بے تاب رہتے ہیں کہ کسی طرح دوسروں کے مسائل جان لیں، تاکہ انھیں حل کرنے کے لیے کوئی نادر و نایاب مشورہ دیا جاسکے۔ بلکہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کو مسائل میں مبتلا دیکھیں اور ان مسائل کا حل تجویز کریں۔ اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے یہ لوگ دوسروں کے دل و دماغ، یہاں تک کہ کپڑوں میں جھانکنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر آپ کہیں ان کے سامنے کھانس دیے تو یہ ذراسی دیر میں آپ کے لیے لاتعداد حکیمی، ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک ادویات تجویز کر دیں گے۔ ادھر آپ نے ان کے روبرو اپنی مالی پریشانی کا تذکرہ کیا اور ادھر یہ کسی ماہر معاشیات کی طرح آپ کی معیشت سدھارنے کے فارمولے پیش کرنے لگے۔ ان خواتین و حضرات کے بارے میں ہم آج تک یہ طے نہیں کرسکے ہیں کہ یہ صرف باتوں کے لیے مشوروں کی پٹاری کھول دیتے ہیں یا مشورے دینے کے لیے گفت گو فرماتے ہیں!

    (شاعر، ناول نگار، سینئر صحافی اور مزاح نگار محمد عثمان جامعی کے قلم سے)

  • شیر کا سفر نامہ

    شیر کا سفر نامہ

    سفر نامہ شروع کرنے سے قبل میں اپنا تعارف پیش کر دوں۔ میں کراچی کے ایک گھر میں پالا جانے والا شیر ہوں، ظاہر ہے میں کسی جنگل سے لاپتا ہو کر اس شہر میں آپہنچا، یوں میں تاریخ کا پہلا لاپتا ہوں جسے کراچی لایا گیا۔

    جب ہوش سنبھالا تو میں ایک بڑے سے بنگلے میں تھا۔ بہت دنوں تک تو پتا ہی نہ چلا کہ میں شیر ہوں۔ اڑوس پڑوس اور ارد گرد کے بنگلوں میں پَلے کُتے دیکھ کر میں سمجھتا تھا کہ میں بھی کسی اعلیٰ نسل کا کُتا ہوں۔ آئینے کا سامنا کر کے اور اپنی آواز سُن کر حیرت ہوتی کہ میں باقی کُتوں سے اتنا مختلف کیوں ہوں؟ لیکن پھر سوچتا کہ شاید میرے ماں باپ کُتوں کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے زیادہ کھانے کے سبب ان کا منہ بڑا ہوتا گیا اور دوسروں کو نیچا سمجھتے سمجھتے ان کی بھونک دہاڑ میں تبدیل ہوگئی۔ وہ تو اللہ بھلا کرے ”نیشنل جیوگرافک“ چینل کا جس کے طفیل اپنی آگاہی ہوئی۔

    میرا مالک کبھی کبھی مجھے اپنے پاس ڈرائنگ روم میں بٹھا لیتا اور دیوار پر نصب بڑی سی ٹی وی اسکرین پر پروگرام دیکھتا رہتا۔ ایک دن لگا ٹی وی اسکرین نہیں آئینہ دیکھ رہا ہوں۔ وہاں میرے ہم شکل ”کُتے“ جنگل میں دھاڑتے، بھاگتے دوڑتے اور ہرنوں، بھینسوں، زرافوں پر حملہ کرتے اور انھیں بھنبھوڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ مالک کی نظر جب میرے چہرے پر پڑی تو میری آنکھوں میں حیرت اور جوش دیکھ کر وہ سہم سا گیا، اور فوراً چینل تبدیل کر کے ایک نیوز چینل لگا دیا اور ٹاک شو دیکھنے لگا۔ وہ شاید دھاڑتے اور ایک دوسرے پر جھپٹتے سیاست داں دکھا کر مجھے انسانوں سے ڈرانا اور یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ ”کسی خوش فہمی میں نہ رہنا، ہم آدم زاد کسی بھی درندے سے زیادہ درندگی دکھا سکتے ہیں۔“ بعد میں گھر میں آنے جانے والی ایک بلّی نے مجھے بتایا،”میاں! تم شیر ہو شیر“ اسی نے مجھے شیروں کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔

    اب آتے ہیں سفر نامے کی طرف۔ اپنے سفر نامے کی شروعات میں اس وضاحت سے کر دوں کہ میرا یہ سفر اتفاقیہ تھا، نہ میں ابن بطوطہ کی طرح کھوج لگانے نکلا تھا نہ بہت سے سیاحوں کی طرح عشق لڑانے۔ ہوا یوں کہ ایک دن سُن گُن ملی کہ میرا مالک مجھے کسی کے ہاتھ فروخت کرکے پنجاب بھیج رہا ہے۔ مجھے بہت دکھ ہوا، ایسا نہیں کہ میں فلم ”میں پنجاب نہیں جاﺅں گی“ سے متاثر تھا یا کراچی میں چائنا کٹنگ، واٹر ٹینکر، تجاوزات یا موبائل چھیننے کے دھندوں سے میرا کچھ لینا دینا ہے کہ میں کراچی چھوڑوں نہ کراچی والوں کو چھوڑوں، بس اتنی سی بات ہے کہ مجھے کراچی کی زندگی کی عادت ہوگئی تھی، اتنی کہ گوشت ملے نہ ملے، چائے نہ ملے تو بے تاب ہو جاتا، پھر میرا مالک گوشت کے بوٹوں کے ساتھ رائتہ، چٹنی، ہری مرچ رکھ دیتا تھا، بعض اوقات بریانی، نہاری اور بہاری کباب میرے سامنے سجا دیے جاتے، ایک دو بار تو مجھے بگھارے بیگن بھی کھانا پڑے۔ یہ سب کھانے کا میں ایسا شوقین ہوگیا تھا کہ ایک دو دن خالی کچا گوشت ملتا تو مالک کو دیکھ کر دل ہی دل اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کہتا،”کیا بات ہے مامو! کنجوس ہوگئے ہو یا مہنگائی بڑھ گئی ہے؟“ غالباً ان کھانوں ہی کا اثر تھا کہ کبھی کبھی میں غرانے کی کوشش کرتا تو منہ سے اردو نکل جاتی۔

    میرے ساتھ اس بنگلے میں آباد طوطے کا کہنا تھا، ”یہ کراچی والا تمھیں بھی کھانے کے معاملے میں نخریلا بنا کر چھوڑے گا، مگر یاد رکھو کہیں اور گئے تو یہ سب لوازمات نہیں ملنے کے۔“ طوطے کی بات مجھے پریشان کیے دے رہی تھی۔ اپنا مسئلہ بلّی سے بیان کیا،”خالہ! دیکھو یہ ہو ریا ہے تمھارے بھانجے کے ساتھ۔“ خالہ بولیں،”بیٹا! پریشان کیوں ہوتا ہے، پنجاب میں تو ایک سے بڑھ کر ایک شیرِ پنجاب ہیں، وہاں تیری خوب جمے گی۔ ہوسکتا ہے تو کسی غیر حاضر شیر کی جگہ لے لے، کیوں کہ تو ہے بھی شریف۔“ پھر بڑے دکھ سے آنکھوں میں نمی لاکر بولیں،”میرے لعل! میری تیری کیا اوقات، کراچی سے تو دارالحکومت، اداروں کے صدر دفاتر شہر کے سیاسی قائدین، چلے گئے، کوئی روک نہ پایا۔ یوں سمجھ جو یہاں آیا ہے اسے جانا ہے۔“ ان کی بات سُن کر ڈھارس بندھی۔

    آخر وہ دن آہی گیا جب مجھے کراچی چھوڑ جانا تھا۔ جیسے ہی گاڑی میں بٹھایا گیا میرا دل بھر آیا، دماغ میں بھولے بسرے نغمے گونجنے لگے جیسے،”چھوڑ بابل کا گھر، موہے پی کے نگر آج جانا پڑا“،”کاہے بیاہی بدیس رے، لکھی بابل مورے۔“ گاڑی میں بیٹھ کر خیال آیا کاش جانے سے پہلے کراچی کو تھوڑا بہت دیکھ سکتا۔ شاید وہ قبولیت کی گھڑی تھی، کچھ دیر بعد گاڑی ایک جگہ رُکی تو مجھے کسی طرح باہر نکلنے کا موقع مل گیا۔

    سڑک پر قدم رکھتے ہی چاروں طرف دیکھا، ایک دیوار پر لکھا تھا،”دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا شیر آیا۔“ پڑھ کر دل باغ باغ ہوگیا، لیکن بڑی حیرت بھی ہوئی کہ ابھی مجھے بنگلے سے باہر آئے چند منٹ ہی ہوئے ہیں کہ لوگوں کو پتا بھی چل گیا اور انھوں نے استقبالیہ نعرے بھی لکھ دیے! تحریر کو ذرا غور سے پڑھا تو میرا نہیں کسی اور کا ذکر تھا۔ بہ ہرحال یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس شہر کے باسی شیروں سے بہت محبت کرتے ہیں، اور وہ جب بھی آتا ہے اسے دیکھ کر نہال ہوجاتے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ یہ جو بھی شیر ہے کم کم ہی آتا ہے۔

    کچھ آگے بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ خون تھوک رہے ہیں۔ سوچا یقیناً یہ کچا گوشت کھا کر خون اُگل رہے ہیں۔ بڑی بھوک لگی تھی، ایک خون تھوکتے صاحب کے قریب جاکر کہا،”بھیا! بھوکا ہوں، مجھے بھی کچھ کھانے کو دے دو۔“ بدتمیزی سے بولا،”ابے ہمارے اپنے کَنے کھانے کو نہیں تجھے کہاں سے کھلائیں، یہ لے گُٹکا کھا لے۔“ اس نے ایک چھوٹی سی پڑیا میری طرف بڑھا دی۔ میں نے کہا،”تمیز سے بات کرو، میں شیر ہوں، گوشت کھاتا ہوں۔“ کمینہ زور سے ہنسا اور کہنے لگا،”کس کا شیر ہے بھیّے، لندن والوں کا یا پاکستان والوں کا، جس کا بھی ہے وہ دور لد گیا، اب سارے شیر بکری ہوچکے ہیں، تو بھی بکری کی کھال پہن اور سبزی پر گزارہ کر۔“ میں نے سوچا دفع کرو کون اس جاہل کے منہ لگے، اور آگے بڑھ گیا۔

    سُنا تھا شیر سے سب ڈرتے ہیں، لیکن یہاں تو مجھ سے کوئی ذرا بھی خوف زدہ نہیں تھا۔ ابھی اس سوچ میں گُم تھا کہ ایک موٹرسائیکل پاس آکر رکی، جس پر دو لوگ بیٹھے تھے، آگے بیٹھنے والے نے ایک سخت سی چیز میری گردن پر ٹکائی اور کرخت لہجے میں بولا،”چل موبائل نکال۔“ میں نے اسے گھور کر دیکھا اور جواب دیا،”شیر موبائل نہیں رکھتے۔“ میری بات سُن کر پیچھے بیٹھا ہوا شخص اپنے ساتھی سے بولا،”کیوں ٹیم ضائع کر رہا ہے بھائی، اس کے پاس پہننے کو کپڑے نہیں موبائل کہاں ہوگا۔“ وہ تو چلے گئے مگر میں اس بے عزتی سے سلگ اُٹھا۔ اچانک پاس سے ”کھی کھی کھی“ کی آواز آئی۔ اس طرف نظر دوڑائی تو دیکھا ایک کُتا دانت نکالے کھڑا مجھے دیکھ کر ہنس رہا ہے۔ میں نے کہا،”شرم نہیں آتی، اپنے جانور بھائی کا مذاق اڑاتے ہو۔“ ہنسی روک کر بولا، ”اوہو، تو تم ہو وہ پالتو شیر جس کا تذکرہ ہر ٹی وی چینل پر ہورہا ہے۔ ”پالتو شیر“ ……اپنے نام کے ساتھ ”پالتو“ کا لفظ سُن کر مجھے بہت غصہ آیا۔ ”خبردار جو مجھے پالتو کہا“، ”چلو گھر کا شیر کہہ دیتا ہوں، بات تو وہی ہے۔“ کُتے نے پورے کُتے پن سے کہا۔ میں نے پوچھا،”ایک بات تو بتاﺅ، میں شیر ہوں، جنگل کا بادشاہ، سُنا تھا کہ میری بڑی ہیبت ہے، پھر اس شہر کے لوگ مجھ سے ڈر کیوں نہیں رہے؟“ کتے نے غور سے میری بات سُنی، پھر آرام سے بیٹھ گیا اور مجھے دیکھتے ہوئے گویا ہوا،”یہ شہر خود ایک خوف ناک جنگل ہے میرے بھائی، اور یہاں ایسے ایسے درندے ہیں جنھیں دیکھ کر شیروں کا پِتّا پانی ہوجائے۔ اس شہر کے لوگوں نے بڑے بڑے شیر دیکھے ہیں، جو آخر میں سرکس کے یا چڑیا گھر کے شیر ثابت ہوئے۔ اس لیے یہاں شیروں کا خوف رہا ہے نہ ان کی آبرو۔ اپنی خیریت چاہتے ہو تو جتنی جلد ہوسکے اس شہر سے نکل جاﺅ، ورنہ بچی کھچی عزت بھی گنوا بیٹھو گے۔“�

    یہ سننا تھا کہ میں جہاں تھا وہیں سکون سے بیٹھ گیا، پھر جانے کب آنے والے آئے اور مجھے اپنے ساتھ چڑیا گھر لے گئے۔ اب میں چڑیا گھر کے پنجرے میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ اس ملک اور شہر میں کیا ہر پالتو شیر کا یہی انجام ہوتا ہے؟

    (معروف طنز و مزاح نگار محمد عثمان جامعی کی ایک تحریر)

  • روشن آرا اور ‘از حد شریف’

    روشن آرا اور ‘از حد شریف’

    اردو ادب میں میاں‌ بیوی کے تعلق پر مزاح نگاروں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ اردو ہی نہیں‌ عالمی ادب میں بھی شادی شدہ مردوں کے بارے میں ایسی ہی مزاحیہ تحریریں پڑھنے کو ملتی ہیں‌ جن میں انھیں خاتونِ خانہ کے آگے بے بس اور مجبور بتایا جاتا ہے۔

    یہ پطرس بخاری کی ایک ایسی ہی تحریر ہے جس میں انھوں نے خود کو ایک ایسے خاوند کے طور پر پیش کیا ہے جو اپنی بیوی کے غصّے اور ناراضی سے ڈرتا ہے اور اس کی ہر بات مانتا ہے۔ وہ خاص طور پر اپنے دوستوں سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے کیوں کہ بیوی کی نظر میں‌ اس کے دوست نکھٹو، احمق اور کام چور ہیں۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس کا خاوند بھی انہی کی عادات اپنا رہا ہے۔ پطرس کے اس شگفتہ مضمون سے یہ اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔

    شادی سے پہلے ہم کبھی کبھی دس بجے اٹھا کرتے تھے ورنہ گیارہ بجے۔

    اب کتنے بجے اٹھتے ہیں؟ اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کے گھر ناشتہ زبردستی صبح کے سات بجے کرا دیا جاتا ہے اور اگر ہم کبھی بشری کمزوری کے تقاضے سے مرغوں کی طرح تڑکے اُٹھنے میں کوتاہی کریں تو فوراً ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اس نکھٹو نسیم کی صحبت کا نتیجہ ہے۔

    ایک دن صبح صبح ہم نہا رہے تھے۔ سردی کا موسم، ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ صابن سر پر ملتے تھے تو ناک میں گھستا تھا کہ اتنے میں ہم نے خدا جانے کس پُراسرار جذبے کے ماتحت غسل خانے میں الاپنا شروع کیا اور پھر گانے لگے کہ ’’توری چھل بل ہے نیاری۔۔۔‘‘ اس کو ہماری انتہائی بدمذاقی سمجھا گیا اور اس بدمذاقی کا اصل منبع ہمارے دوست پنڈت جی کو ٹھہرایا گیا۔

    لیکن حال ہی میں مجھ پر ایک ایسا سانحہ گزرا ہے کہ میں نے تمام دوستوں کو ترک کر دینے کی قسم کھالی ہے۔ تین چار دن کا ذکر ہے کہ صبح کے وقت روشن آرا نے مجھ سے میکے جانے کے لیے اجازت مانگی۔ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے روشن آرا صرف دو دفعہ میکے گئی ہے، اور پھر اس نے کچھ اس سادگی اور عجز سے کہا کہ میں انکار نہ کرسکا۔

    کہنے لگی، ’’تو پھر میں ڈیڑھ بجے کی گاڑی میں چلی جاؤں؟‘‘

    ’’میں نے کہا، اور کیا؟‘‘ وہ جھٹ تیاری میں مشغول ہوگئی اور میرے دماغ میں آزادی کے خیالات نے چکر لگانے شروع کیے۔ یعنی اب بیشک دوست آئیں، بیشک اودھم مچائیں۔ میں بے شک گاؤں، بے شک جب چاہوں اٹھوں۔ بے شک تھیٹر جاؤں۔ میں نے کہا، ’’روشن آرا جلدی کرو۔ نہیں تو گاڑی چھوٹ جائے گی۔‘‘

    ساتھ اسٹیشن پر گیا۔ جب گاڑی میں سوار کرا چکا تو کہنے لگی، ’’خط روز لکھتے رہیے۔‘‘

    ’’میں نے کہا، ہر روز اور تم بھی۔‘‘

    ’’کھانا وقت پہ کھا لیا کیجیے اور ہاں دھلی ہوئی جرابیں اور رومال الماری کے نچلے خانے میں پڑے ہیں۔‘‘ اس کے بعد ہم دونوں خاموش ہوگئے اور ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ میرا دل بھی بیتاب ہونے لگا اور جب گاڑی روانہ ہوئی تو میں دیر تک مبہوت پلیٹ فارم پر کھڑا رہا۔

    آخر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا کتابوں کی دکان تک آیا اور رسالوں کے ورق پلٹ پلٹ کر تصویریں دیکھتا رہا۔ ایک اخبار خریدا۔ تہہ کرکے جیب میں ڈالا اور عادت کے مطابق گھر کا ارادہ کر لیا۔ پھر خیال آیا کہ اب گھر جانا ضروری نہیں رہا۔ اب جہاں چاہوں جاؤں، چاہوں تو گھنٹوں اسٹیشن پر ہی ٹہلتا رہوں۔ دل چاہتا تھا قلابازیاں کھاؤں۔

    کہتے ہیں جب افریقہ کے وحشیوں کو کسی تہذیب یافتہ ملک میں کچھ عرصہ کے لیے رکھا جاتا ہے تو گو وہ وہاں کی شان و شوکت سے بہت متاثر ہوتے ہیں لیکن جب واپس جنگلوں میں پہنچتے ہیں تو خوشی کے مارے چیخیں مارتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت میرے دل کی بھی ہو رہی تھی۔ بھاگتا ہوا اسٹیشن سے آزادانہ باہر نکلا۔ آزادی کے لہجہ میں تانگے والے کو بلایا اور کود کر تانگے میں سوار ہوگیا۔ سگریٹ سلگا لیا، ٹانگیں سیٹ پر پھیلا دیں اور کلب کو روانہ ہوگیا۔

    رستے میں ایک بہت ضروری کام یاد آگیا۔ تانگہ موڑ کر گھر کی طرف پلٹا۔ باہر ہی سے نوکر کو آوازد دی۔
    ’’امجد!‘‘

    ’’حضور!‘‘

    ’’دیکھو، حجام کو جاکے کہہ دو کہ کل گیارہ بجے آئے۔‘‘

    ’’بہت اچھا۔‘‘

    ’’گیارہ بجے سن لیا نا؟ کہیں روز کی طرح پھر چھے بجے وارد نہ ہو جائے۔‘‘

    ’’بہت اچھا حضور۔‘‘

    ’’اور اگر گیارہ بجے سے پہلے آئے تو دھکے دے کر باہر نکال دو۔‘‘ یہاں سے کلب پہنچے۔ آج تک کبھی دن کے دو بجے کلب نہ گیا تھا۔ اندر داخل ہوا تو سنسان، آدمی کا نام و نشان تک نہیں۔ سب کمرے دیکھ ڈالے۔ بلیرڈ کا کمرہ خالی، شطرنج کا کمرہ خالی، تاش کا کمرہ خالی۔ صرف کھانے کے کمرے میں ایک ملازم چھریاں تیز کر رہا تھا۔

    اس سے پوچھا، ’’کیوں بے آج کوئی نہیں آيا؟‘‘ کہنے لگا، ’’حضور آپ جانتے ہیں، اس وقت بھلا کون آتا ہے؟‘‘ بہت مایوس ہوا۔ باہر نکل کر سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ اور کچھ نہ سوجھا تو وہاں سے مرزا صاحب کے گھر پہنچا۔ معلوم ہوا ابھی دفتر سے واپس نہیں آئے۔ دفتر پہنچا۔ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ میں نے سب حال بیان کیا۔

    کہنے لگے،’’ تم باہر کے کمرے میں ٹھہرو، تھوڑا سا کام رہ گیا ہے۔ بس ابھی بھگتا کے تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ شام کا پروگرام کیا ہے؟‘‘

    میں نے کہا، ’’تھیٹر۔‘‘

    کہنے لگے، ’’بس بہت ٹھیک ہے، تم باہر بیٹھو۔ میں ابھی آیا۔‘‘

    باہر کے کمرے میں ایک چھوٹی سی کرسی پڑی تھی۔ اس پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا اور جیب سے اخبار نکال کر پڑھنا شروع کر دیا۔ شروع سے آخر تک سب پڑھ ڈالا اور ابھی چار بجنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔ پھر سے پڑھنا شروع کر دیا۔ سب اشتہار پڑھ ڈالے اور پھر سب اشتہاروں کو دوبارہ پڑھ ڈالا۔

    آخر کار اخبار پھینک کر بغیر کسی تکلف یا لحاظ کے جمائیاں لینے لگا، جمائی پہ جمائی۔ جمائی پہ جمائی، حتٰی کہ جبڑوں میں درد ہونے لگا۔ اس کے بعد ٹانگیں ہلانا شروع کیا لیکن اس سے بھی تھک گیا۔ پھر میز پر طبلے کی گتیں بجاتا رہا۔ بہت تنگ آگیا تو دروازہ کھول کر مرزا سے کہا،
    ’’ابے یار اب چلتا بھی ہے کہ مجھے انتظار ہی میں مار ڈالے گا۔ مردود کہیں کا، سارا دن میرا ضائع کر دیا۔‘‘

    وہاں سے اُٹھ کر مرزا کے گھر گئے۔ شام بڑے لطف میں کٹی۔ کھانا کلب میں کھایا اور وہاں سے دوستوں کو ساتھ ليے تھیٹر گئے۔ رات کے ڈھائی بجے گھر لوٹے۔ تکیے پر سر رکھا ہی تھا کہ نیند نے بے ہوش کر دیا۔

    صبح آنکھ کھلی تو کمرے میں دھوپ لہریں مار رہی تھی۔ گھڑی کو دیکھا تو پونے گیارہ بجے تھے۔ ہاتھ بڑھا کر میز پر سے ایک سگریٹ اٹھایا اور سلگا کر طشتری میں رکھ دیا اور پھر اونگھنے لگا۔

    گیارہ بجے امجد کمرے میں داخل ہوا کہنے لگا، ’’حضور حجام آیا ہے۔‘‘
    ہم نے کہا، ’’یہیں بلا لاؤ۔‘‘ یہ عیش مدت کے بعد نصیب ہوا کہ بستر پر لیٹے لیٹے حجامت بنوا لیں۔ اطمینان سے اٹھے اور نہا دھو کر باہر جانے کے ليے تیار ہوئے لیکن طبیعت میں وہ شگفتگی نہ تھی، جس کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ چلتے وقت الماری سے رومال نکالا تو خدا جانے کیا خیال آیا۔ وہیں کرسی پر بیٹھ گیا اور سودائیوں کی طرح اس رومال کو تکتا رہا۔ الماری کا ایک اور خانہ کھولا تو سرمئی رنگ کا ایک ریشمی دوپٹہ نظر آیا۔ باہر نکالا، ہلکی ہلکی عطر کی خوشبو آرہی تھی۔ بہت دیر تک اس پر ہاتھ پھیرتا رہا دل بھر آیا، گھر سُونا معلوم ہونے لگا۔ بہتیرا اپنے آپ کو سنبھالا لیکن آنسو ٹپک ہی پڑے۔ آنسوؤں کا گرنا تھا کہ بیتاب ہوگیا اور سچ مچ رونے لگا۔ سب جوڑے باری باری نکال کر دیکھے لیکن نہ معلوم کیا کیا یاد آیا کہ اور بھی بےقرار ہوتا گیا۔ آخر نہ رہا گیا، باہر نکلا اور سیدھا تار گھر پہنچا۔ وہاں سے تار دیا کہ، ’’میں بہت اداس ہوں۔ تم فوراً آجاؤ!‘‘

    تار دینے کے بعد دل کو کچھ اطمینان ہوا۔ یقین تھا کہ روشن آرا اب جس قدر جلد ہوسکے گا آجائے گی۔ اس سے کچھ ڈھارس بندھ گئی اور دل پر سے جیسے ایک بوجھ ہٹ گیا۔

    دوسرے دن دوپہر کو مرزا کے مکان پر تاش کا معرکہ گرم ہونا تھا۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مرزا کے والد سے کچھ لوگ ملنے آئے ہیں۔ اس ليے تجویز یہ ٹھہری کہ یہاں سے کسی اور جگہ سرک چلو۔ ہمارا مکان تو خالی تھا ہی۔ سب یار لوگ وہیں جمع ہوئے۔ امجد سے کہہ دیا گیا کہ حقے میں اگر ذرا بھی خلل واقع ہوا تو تمہاری خیر نہیں اور پان اس طرح سے متواتر پہنچتے رہیں کہ بس تانتا لگ جائے۔

    اب اس کے بعد کے واقعات کو کچھ مرد ہی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ شروع شروع میں تو تاش باقاعدہ اور باضابطہ ہوتا رہا۔ جو کھیل بھی کھیلا گیا بہت معقول طریقے سے، قواعد و ضوابط کے مطابق اور متانت و سنجیدگی کے ساتھ لیکن ایک دو گھنٹے کے بعد کچھ خوش طبعی شروع ہوئی۔ یار لوگوں نے ایک دوسرے کے پتے دیکھنے شروع کر دیے۔ یہ حالت تھی کہ آنکھ بچی نہیں اور ایک آدھ کام کا پتہ اُڑا نہیں اور ساتھ ہی قہقہے پر قہقہے اُڑنے لگے۔

    تین گھنٹے کے بعد یہ حالت تھی کہ کوئی گھٹنا ہلا ہلا کر گا رہا ہے، کوئی فرش پر بازو ٹیکے بجا رہا ہے۔ کوئی تھیٹر کا ایک آدھ مذاقیہ فقرہ لاکھوں دفعہ دہرا رہا ہے لیکن تاش برابر ہو رہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد دھول دھپا شروع ہوگیا۔ ان خوش فعلیوں کے دوران میں ایک مسخرے نے ایک ایسا کھیل تجویز کردیا۔ جس کے آخر میں ایک آدمی بادشاہ بن جاتا ہے۔ دوسرا وزیر، تیسرا کوتوال اور جو سب سے ہار جائے وہ چور۔ سب نے کہا ’’واہ وا کیا بات کہی ہے۔‘‘

    ایک بولا، ’’پھر آج جو چور بنا اس کی شامت آجائے گی۔‘‘

    دوسرے نے کہا، ’’اور نہیں تو کیا۔ بھلا کوئی ایسا ویسا کھیل ہے۔ سلطنتوں کے معاملے ہیں، سلطنتوں کے۔‘‘

    کھیل شروع ہوا۔ بدقسمتی سے ہم چور بن گئے۔ طرح طرح کی سزائیں تجویز ہونے لگیں۔‘‘ کوئی کہے، ’’ننگے پاؤں بھاگتا ہوا جائے اور حلوائی کی دکان سے مٹھائی خرید کر لائے۔ کوئی کہے، ’’نہیں حضور! سب کے پاؤں پڑے، اور ہر ایک سے دو دو چانٹے کھائے۔‘‘ دوسرے نے کہا، ’’نہیں صاحب ایک پاؤں پر کھڑا ہو کر ہمارے سامنے ناچے۔‘‘

    آخر میں بادشاہ سلامت بولے،’’ہم حکم دیتے ہیں کہ چور کو کاغذ کی ایک لمبوتری نوک دار ٹوپی پہنائی جائے اوراس کے چہرے پر سیاہی مل دی جائے اور یہ اسی حالت میں جاکر اندر سے حقے کی چلم بھر کر لائے۔‘‘
    سب نے کہا۔ ’’کیا دماغ پایا ہے حضور نے! کیا سزا تجویز کی ہے! واہ وا‘‘

    ہم بھی مزے میں آئے ہوئے تھے، ہم نے کہا، ’’تو ہوا کیا؟ آج ہم ہیں کل کسی اور کی باری آجائے گی۔‘‘

    نہایت خندہ پیشانی سے اپنے چہرے کو پیش کیا۔ ہنس ہنس کر وہ بیہودہ سی ٹوپی پہنی۔ ایک شانِ استغنا کے ساتھ چلم اٹھائی اور زنانے کا دروازہ کھول کر باورچی خانے کو چل دیے اور ہمارے پیچھے کمرہ قہقہوں سے گونج رہا تھا۔

    صحن میں پہنچے ہی تھے کہ باہر کا دروازہ کھلا اور ایک برقعہ پوش خاتون اندر داخل ہوئی۔ منہ سے برقعہ الٹا تو روشن آرا۔

    دم خشک ہوگیا۔ بدن پر ایک لرزہ سا طاری ہوگیا۔ زبان بند ہو گئی۔ سامنے وہ روشن آرا جس کو میں نے تار دے کر بلایا تھا کہ، ’’تم فوراً آجاؤ میں بہت اداس ہوں۔‘‘ اور اپنی یہ حالت کہ منہ پر سیاہی ملی ہے، سر پر وہ لمبوتری سی کاغذ کی ٹوپی پہن رکھی ہے اور ہاتھ میں چلم اٹھائے کھڑے ہیں اور مردانے کمرے سے قہقہوں کا شور برابر آرہا ہے۔ روح منجمد ہوگئی اور تمام حواس نے جواب دے دیا۔ روشن آرا کچھ دیر تک چپکی کھڑی دیکھتی رہی اور پھر کہنے لگی۔۔۔ بس میں کیا بتاؤں کہ کیا کہنے لگی؟ اس کی آواز تو میرے کانوں تک جیسے بیہوشی کے عالم میں پہنچ رہی تھی۔

    اب تک آپ اتنا تو جان گئے ہوں گے کہ میں بذاتِ خود از حد شریف واقع ہوا ہوں۔ جہاں تک میں میں ہوں۔ مجھ سے بہتر میاں دنیا پیدا نہیں کرسکتی۔ میری سسرال میں سب کی یہی رائے ہے اور میرا اپنا ایمان بھی یہی ہے لیکن ان دوستوں نے مجھے رسوا کر دیا ہے۔ اس ليے میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ اب یا گھر میں رہوں گا یا کام پر جایا کروں گا۔ نہ کسی سے ملوں گا اور نہ کسی کو اپنے گھر آنے دوں گا، سوائے ڈاکیے یا حجام کے اور ان سے بھی نہایت مختصر باتیں کروں گا۔

    ’’خط ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’دے جاؤ۔ چلے جاؤ۔‘‘

    ’’ناخن تراش دو۔‘‘

    ’’بھاگ جاؤ۔‘‘

    بس، اس سے زیادہ کلام نہ کروں گا۔ آپ دیکھیے تو سہی!

  • مطیع و فرماں بردار میاں

    مطیع و فرماں بردار میاں

    میں ایک میاں ہوں۔ مطیع و فرماں بردار۔

    اپنی بیوی روشن آرا کو اپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آگاہ کرنا اصولِ زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہا ہوں۔ خدا میرا انجام بخیر کرے۔

    چنانچہ میری اہلیہ میرے دوستوں کی تمام عادات و خصائل سے واقف ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دوست جتنے مجھ کو عزیز ہیں اتنے ہی روشن آرا کو برے لگتے ہیں۔ میرے احباب کی جن اداؤں نے مجھے مسحور کر رکھا ہے، انہیں میری اہلیہ ایک شریف انسان کے ليے باعث ذلت سمجھتی ہے۔ آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ خدا نحواستہ وہ کوئی ایسے آدمی ہیں، جن کا ذکر کسی معزز مجمع میں نہ کیا جاسکے۔ کچھ اپنے ہنر کے طفیل اور کچھ خاکسار کی صحبت کی بدولت سب کے سب ہی سفید پوش ہیں لیکن اس بات کو کیا کروں کہ ان کی دوستی میرے گھر کے امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔

    مثلاً مرزا صاحب ہی کو لیجیے۔ اچھے خاصے بھلے آدمی ہیں۔ گو محکمہ جنگلات میں ایک معقول عہدے پر ممتاز ہیں لیکن شکل و صورت ایسی پاکیزہ پائی ہے کہ امام مسجد معلوم ہوتے ہیں۔ جوا نہیں کھیلتے، گلی ڈنڈے کا ان کو شوق نہیں، جیب کترتے ہوئے کبھی وہ نہیں پکڑے گئے۔ البتہ کبوتر پال رکھے ہیں،انھیں سے جی بہلاتے ہیں۔

    ہماری اہلیہ کی یہ کیفیت ہے کہ محلے کا کوئی بدمعاش جوئے میں قید ہوجائے تو اس کی ماں کے پاس ماتم پرسی تک کو چلی جاتی ہیں۔ گلی ڈنڈے میں کسی کی آنکھ پھوٹ جائے تو مرہم پٹی کرتی رہتی ہیں۔ کوئی جیب کترا پکڑا جائے تو گھنٹوں آنسو بہاتی رہتی ہیں لیکن وہ بزرگ جن کو دنیا بھر کی زبان مرزا صاحب مرزا صاحب کہتے تھکتی نہیں، ہمارے گھر میں ’’موئے کبوتر باز‘‘ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ کبھی بھولے سے بھی میں آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کسی چیل، کوے، گدھ، شکرے کو دیکھنے لگ جاؤں تو روشن آرا کو فوراً خیال ہوجاتا ہے کہ بس اب یہ بھی کبوتر باز بننے لگا۔

    اس کے بعد مرزا صاحب کی شان میں ایک قصیدہ شروع ہوجاتا ہے۔ بیچ میں میری جانب گریز۔ کبھی لمبی بحر میں، کبھی چھوٹی بحر میں۔

    ایک دن جب یہ واقعہ پیش آیا، تو میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس مرزا کمبخت کو کبھی پاس نہ پھٹکنے دوں گا، آخر گھر سب سے مقدم ہے۔ میاں بیوی کے باہمی اخلاص کے مقابلے میں دوستوں کی خوشنودی کیا چیز ہے؟ چنانچہ ہم غصے میں بھرے ہوئے مرزا صاحب کے گھر گئے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ کہنے لگے، ’’اندر آجاؤ‘‘ ہم نے کہا، ’’نہیں آتے، تم باہر آؤ‘‘ خیر اندر گیا۔ بدن پر تیل مل کر ایک کبوتر کی چونچ منہ میں لئے دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے ’’بیٹھ جاؤ‘‘ ہم نے کہا ’’بیٹھیں گے نہیں‘‘ آخر بیٹھ گئے، معلوم ہوتا ہے ہمارے تیور کچھ بگڑے ہوئے تھے۔ مرزا بولے، ’’کیوں بھئی؟ خیرباشد!‘‘ میں نے کہا ’’کچھ نہیں۔‘‘ کہنے لگے ’’اس وقت کیسے آنا ہوا؟‘‘

    اب میرے دل میں فقرے کھولنے شروع ہوئے۔ پہلے ارادہ کیا کہ ایک دم ہی سب کچھ کہہ ڈالو اور چل دو۔ پھر سوچا کہ مذاق سمجھے گا، اس ليے کسی ڈھنگ سے بات شروع کرو لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ پہلے کیا کہیں۔ آخر ہم نے کہا،

    ’’مرزا! بھئی کبوتر بہت مہنگے ہوتے ہیں؟‘‘ یہ سنتے ہی مرزا صاحب نے چین سے لے کر امریکہ تک کے تمام کبوتروں کو ایک ایک کرکے گنوانا شروع کیا۔ اس کے بعد دانے کی مہنگائی کے متعلق گل افشانی کرتے رہے اور پھر محض مہنگائی پر تقریر کرنے لگے۔ اس دن تو ہم یوں ہی چلے آئے لیکن ابھی کھٹ پٹ کا ارادہ دل میں باقی تھا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ شام کو گھر میں ہماری صلح ہوگئی۔ ہم نے کہا ’’چلو اب مزرا کے ساتھ بگاڑنے سے کیا حاصل؟‘‘ چنانچہ دوسرے دن مرزا سے بھی صلح صفائی ہوگئی۔

    لیکن میری زندگی تلخ کرنے کے ليے ایک نہ ایک دوست ہمیشہ کارآمد ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فطرت نے میری طبیعت میں قبولیت اور صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کیونکہ ہماری اہلیہ کو ہم میں ہر وقت کسی نہ کسی دوست کی عادات کی جھلک نظر آتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ میری اپنی ذاتی شخصی سیرت بالکل ہی ناپید ہوچکی ہے۔

    (پطرس بخاری کے مزاحیہ مضمون سے چند پارے)