Tag: مزاحیہ تحریریں

  • "ہم وزیرِ اعظم کی دوڑ میں شامل نہیں…”

    "ہم وزیرِ اعظم کی دوڑ میں شامل نہیں…”

    ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ جمہوریت میں عوام پر جو دو وقت کٹھن گزرتے ہیں ان کی صحیح عکاسی کرنے کے لئے مضطر خیرآبادی کے مصرع کی ترتیب میں ذرا سی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

    مصرع اس طرح لکھا جانا چاہیے۔

    اِک ترے جانے سے پہلے

    اِک ترے آنے کے بعد

    اگر آپ مصرع کی الٹی ترتیب کو بغور پڑھیں تو عوام اور عاشق کے کٹھن وقت کے کرب کی مدد سے حکومتوں اور معشوق کی آمدورفت کے صحیح پس منظر سے کماحقہ لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ ہمارے ایک اور دوست تھے۔ بے حد جذباتی مگر رکھ رکھاؤ والے۔ اس ملک کے تیسرے عام انتخابات میں پہلی بار اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کے لئے جب وہ اپنے گھر سے چلے تو کچھ اس شان سے کہ نئی شیروانی اور نئے جوتے پہن رکھے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ زیر جامہ اور رومال بھی نیا تھا۔ آنکھوں میں سرمہ اور کان میں عطر کا پھاہا بھی رکھ چھوڑا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے عید کی نماز پڑھنے کے لیے جا رہے ہوں۔ یا سہرے کے بغیر خود اپنے ’عقد ثانی‘ میں شرکت کی غرض سے جا رہے ہوں۔ جمہوریت کا نیا نیا تجربہ تھا۔ اور ان دنوں عوام میں جوش و خروش بھی بہت پایا جاتا تھا۔ چنانچہ بعض جوشیلے رائے دہندے ایک ہی پولنگ بوتھ پر دس دس بوگس ووٹ ڈال کر آتے تھے۔ آج جب ہم جمہوریت سے اپنے پچاس سالہ شخصی تعلق پر نظر ڈالتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہمارے حقیر اور ادنیٰ سے ووٹ نے جواہر لال نہرو، لال بہادر شاستری اندرا گاندھی، راجیو گاندھی کے علاوہ وی پی سنگھ اور من موہن سنگھ جیسی ہستیوں کو اس ملک کی وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچانے میں مدد کی۔ ان پچاس برسوں تک تو معاملہ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا۔ لیکن بعد میں سیاست دانوں کا سماجی اخلاقی اور علمی معیار رفتہ رفتہ گرتا چلا گیا۔

    ہمارے ایک دوست پارلیمنٹ کے رکن ہیں، دہلی میں رہتے ہیں اور انہوں نے ہم پر یہ پابندی عائد کر رکھی ہے کہ ہم کسی محفل میں ان کا تعارف رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے نہ کرائیں۔ کہتے ہیں لاج سی آتی ہے اور آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ اب پارلیمنٹ میں پڑھے لکھے ارکان کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ غیر سماجی عناصر اور جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بعض تو ایسے بھی ہیں جو جیلوں میں بند ہیں۔ تقریباً تین دہائیوں تک اس ملک کی سیاست میں ہماری دل چسپی برقرار رہی۔ لیکن جب پہلی مرتبہ مسز اندرا گاندھی انتخابات میں ہار گئیں تو ہم نے اس بات کا اتنا گہرا اثر قبول کیا کہ دو دنوں تک گھر سے باہر نہیں نکلے۔ بلکہ پریس کلب تک نہیں گئے۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ ہم اپنا ووٹ، ووٹ بینک میں رکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ لہٰذا ہم نے بڑی ہوشیاری سے اپنا ووٹ، ووٹ بینک سے نکالا اور اب اسے حسبِ موقع اور حسبِ ضرورت استعمال کرتے ہیں۔ یوں بھی بینکنگ سے ہمارا کوئی خاص سروکار نہیں ہے۔ لوگوں نے ہمیں بہت کم کسی بینک میں دیکھا ہو گا۔ جب ہم بینکوں میں اپنا پیسہ تک رکھنے کے قابل نہیں ہیں تو اپنے اکلوتے ووٹ کو کسی ووٹ بینک میں کیوں رکھیں۔

    ہمارے ایک اور دوست ہیں جو مسز اندرا گاندھی کی ہار سے اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ جمہوریت سے ہی دست بردار ہو گئے۔ اب نہ تو وہ ووٹ دینے جاتے ہیں نہ کسی انتخابی جلسے کو سنتے ہیں۔ ہم شخصی طور پر جمہوری عمل سے اس قدر بد دل ہونے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ صبح کبھی نہ کبھی تو آئے گی ہی جب ہمارے ووٹ کی حکمرانی پھر سے قائم ہو جائے گی۔ پچھلی دو دہائیوں کا ہمارا تجربہ کہتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس ملک میں کسی ایک پارٹی کی حکمرانی قائم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ لہذا اب ’مخلوط حکومتوں‘ کا بول بالا ہے۔ مخلوط حکومت بے پیندے کے لوٹوں یا تھالی کی بینگنوں کی مدد سے بنائی جاتی ہے۔ مخلوط حکومت سرکار چلانے کے کرتب تو دکھا سکتی ہے لیکن کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتی۔ پہلے سیاست دان اس ملک کو اور ملک کے شہریوں کو آپس میں جوڑنے کی بات کرتے تھے۔ مگر اب جوڑ توڑ ہی نہیں بلکہ توڑ توڑ کا چلن عام ہو گیا ہے۔ پہلے کوئی ایک سیاسی پارٹی شہریوں کو لوٹتی تھی مگر اب کئی لٹیرے مل کر پہلے عوام کے ووٹوں کو اور بعد میں ان کے نوٹوں کو لوٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس افراتفری کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اب ہر کس و نا کس اپنے آپ کو اس ملک کا وزیر اعظم بننے کا اہل سمجھنے لگا ہے۔ جس لیڈر کو اس کی تعلیمی لیاقت کی بنیاد پر ایل ڈی سی کو نوکری نہیں مل سکتی اب وہ بھی وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھنے لگا ہے۔

    جمہوریت کا یہی تو فائدہ ہے۔ تاہم ہم اپنے طور پر بہ رضا و رغبت یہ اعلان کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم وزیر اعظم کی دوڑ میں شامل نہیں ہیں۔ اگر کوئی صاحب یا پارٹی ہمیں وزیر اعظم بنانے کا ارادہ رکھتی ہے تو وہ ہمارے بھروسے بالکل نہ رہیں۔

    (مجتبیٰ‌ حسین ہندوستان کے ممتاز مزاح نگار، انشا پرداز، خاکہ نویس اور کالم نگار تھے جن کی یہ مزاحیہ تحریر بھارت میں سیاست اور انتخابات سے متعلق ہے)

  • ہماری بے مکانی دیکھتے جاؤ…

    ہماری بے مکانی دیکھتے جاؤ…

    پرسوں میں نے کرایہ کے مکانوں میں رہنے کی سنچری اور اپنی زندگی کی نصف سنچری ایک ساتھ مکمل کر لی تو سوچا کہ کیوں نہ اس مبارک و مسعود موقع کو سیلبریٹ کیا جائے۔

    یہ اعزاز کسے ملتا ہے کہ سواں مکان شروع اور زندگی کا پچاسواں سال ختم ہو۔ یہ حسنِ اتفاق نہیں، عشقِ اتفاق ہے۔

    میں خوشی خوشی گھر پہنچا تو بیوی کو افسردہ و رنجیدہ پایا۔ میں نے کہا: ’’بہت اداس دکھائی دیتی ہو۔ کیا نیا مکان تمہیں پسند نہیں آیا۔‘‘ بولی ’’تمہاری رفاقت میں آج تک میں نے اَن گنت مکان بدلے۔ کبھی کسی مکان کے بارے میں شکایت کی؟‘‘ میں نے کہا ’’سچ تو یہ ہے کہ مجھے تم سے ہی یہ شکایت ہے کہ اتنے مکان بدلنے کے باوجود تم نے میرا ساتھ اور ہاتھ نہیں چھوڑا۔‘‘ بولی ’’اگر میں مکانوں کے بدلنے میں ہنسی خوشی تمہارا ساتھ نہ دیتی تو تم مکان بدلنے کی بجائے بیویاں بدلتے اور اس کوشش میں ایک نہ ایک دن کہیں گھر داماد لگ جاتے۔‘‘

    میں نے کہا ’’بات کیا ہے؟ تم نہ صرف اداس نظر آتی ہو بلکہ لڑائی کے موڈ میں بھی ہو۔‘‘ بولی ’’ایک بری خبر ہے، خدا کرے کہ جھوٹی ہو، ابھی ابھی تمہارے بھتیجے نے آکر یہ اطلاع دی ہے کہ 25 سال پہلے تم جس ہاؤسنگ سوسائٹی کے ممبر بنے اس نے بالآخر مکان بنا لیے ہیں یہ کہ تمہیں اب اپنا مکان ملنے ہی والا ہے۔‘‘ اس اطلاع کو سن کر میں بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔ پیروں تلے سے مکان سمیت زمین نکلنے لگی۔ میں نے سوچا، ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ میں اور اپنا ذاتی مکان! زندگی کے 50 برس بیت چکے ہیں اب میں اپنا مکان لے کر کیا کروں گا۔

    میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ بیوی نے کہا ’’کسی سوچ میں پڑ گئے، بتاؤ اب کیا ہو گا؟‘‘ میں نے بیوی پر قابو پانے کی خاطر اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا ’’ہونا کیا ہے، اگر ذاتی مکان ملتا ہے تو اس میں چلے جاتے ہیں۔ لوگ تو ذاتی مکان کے لیے ترستے ہیں۔ یہ اداس ہونے کی نہیں خوش کی بات ہے۔‘‘ بولی ’’مگر میرے لیے یہ خوشی کی بات نہیں ہے۔ کرایہ کے مکان میں ازدواجی زندگی کا جو لطف ہے وہ ذاتی مکان میں کہاں۔ میں نے تم سے شادی اس لیے کی تھی کہ تمہارا اپنا کوئی ذاتی مکان نہیں، کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ جس دن تمہیں اپنا مکان مل جائے گا تم اپنی ساری توجہ مجھے بنانے سنوارنے کی بجائے مکان کو بنانے سجانے میں صرف کر دو گے۔ میں اپنے اور تمہارے بیچ کسی مکان کو حائل ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی۔ پھر ہماری خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز یہی ہے کہ تمہارا زیادہ وقت مکانوں کے مالکوں سے لڑنے یا انہیں خوش کرنے میں گزرتا ہے۔
    مجھ سے لڑنے کی تمہیں مہلت ہی نہیں ملتی۔ جس دن مالک مکان ہم دونوں کے بیچ سے نکل جائے گا، ہم ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو جائیں گے۔ یہ ایک جنگی حکمت عملی ہے جس کے باعث ہمارے گھر میں دائمی اور پائیدار امن قائم ہے۔ میں گھریلو اور عالمی امن کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دے سکتی ہوں۔ چاہے مجھے ذاتی مکان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھونا پڑے۔‘‘

    زندگی میں پہلی بار میں اپنی بیوی کی فہم و فراست کا قائل ہو گیا۔ میں نے کہا ’’میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی اب کرایہ کے مکانوں میں رہنے کا عادی ہو چکا ہوں۔ جس آدمی نے فی برس دو مکانوں کے حساب سے اپنی جائے رہائش تبدیل کی ہو، اس کی خانہ بدوشی کو کم از کم تمہیں تو تسلیم کر لینا چاہیے۔
    اپنی تو ساری زندگی اس طرح گزری کہ ایک پاؤں ایک مکان میں ہے اور دوسرا پاؤں دوسرے مکان میں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں مکانوں کو بدلتے بدلتے مکاں سے لامکاں تک پھیل گیا ہوں۔ میں مکان میں ہوں بھی اور نہیں بھی۔ میں مکان کے اندر ہوں اور مکان میرے اندر ہے۔ کرایہ کے مکانوں کی برکتوں سے جتنا میں واقف ہوں، شاید کوئی اور ہو، بلکہ آج میں جو کچھ ہوں وہ کرایہ کے مکانوں میں رہنے کی وجہ سے ہوں۔ تمہیں یاد ہو گا کہ شادی کے بعد ہم نے ایک مکان کرایہ پر لیا تھا۔ مالک مکان نے تین چار مہینوں تک ہمیں ہنی مون منانے کی اجازت دے دی۔ پانچویں مہینے سے اس نے کرایہ کی ادائیگی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ میں اس سے منہ چھپاتا پھرا۔ ایک دن آمنا سامنا ہوا تو اس نے پوچھا ’’آخر تم کرایہ کیوں ادا نہیں کرتے؟‘‘ میں نے کہا ’’اس لیے کہ بے روزگار ہوں۔ کہیں نوکری لگے تو کرایہ بھی ادا کروں۔‘‘ تمہیں شاید نہیں معلوم کہ مالک مکان کئی دنوں تک میری ملازمت کی خاطر جوتیاں چٹخاتا پھرا۔ جگہ جگہ میری درخواستیں دیں۔ بالآخر اس نے مجھے نوکری سے لگا دیا۔ تنخواہ سے سارا کرایہ وصول کیا اور اپنے گھر سے نکال باہر کیا۔

    (بھارت سے تعلق رکھنے والے اردو کے معروف مزاح نگار مجتبیٰ حسین کے مضمون سے اقتباس)

  • عورتوں کی لڑائی

    عورتوں کی لڑائی

    بوا سلام! سکینہ نے اپنے کوٹھے کی دیوار سے سر نکال کر رضیہ کو مخاطب کرکے کہا، جو مکان کے صحن میں بیٹھی چرخہ کات رہی تھی۔

    اس نے اپنی سفید سفید بھنویں سکیڑ کر بے رونق نگاہوں سے اوپر کو دیکھا، اور بے رخی سے کہا، پڑے خاک ایسے سلام پر!

    کیا ہوا بوا، آج کیوں منھ سجائے بیٹھی ہو؟

    چل پرے۔ لمبی بن، آئی وہاں سے بوا کی لاڈلی۔

    بوا کیا ہو گیا تمہیں، کیوں تمہارے سر پر سنیچر سوار ہے آج؟

    سنیچر سوار ہو تیرے سر پر، دیکھ سکینہ میرے منہ مت لگیو!

    بوا کیا باؤلے کتے نے کاٹ لیا تمہیں، جو کاٹ کھانے کو دوڑی پڑتی ہو۔

    باؤلا کتا کاٹے تجھے، تیرے پیاروں کو، اللہ نہ کرے جو مجھے کاٹے باؤلا کتا!

    بوا، دیکھ میرے پیاروں کا نام لیا تو چٹیا کی خیر نہیں، ذرا منھ سنبھال کر بات کرو۔

    منھ وہ سنبھالے جو تیری دبی بسی رہتی ہو۔ تیرا دیا کھاتی ہو۔ مجھ پر تیرا کیا دباؤ ہے جو میں سنبھالوں منھ کو۔

    دیکھ سکینہ منھ میں لوکا دیدوں گی، جو میرے بوڑھے چونڈے کا نام لیا!

    بوا تمہارا تو دماغ چل گیا ہے، زبردستی جیب چلانے کو بیٹھ گئیں تم! میں نے بھلا کہا کیا تھا۔ تمہیں سیدھے سبھاؤ سلام کرنے کو چلی آئی تھی۔ مجھے کیا خبر تھی، یوں جلی پھنکی بیٹھی ہو۔

    جلے تو، پھنکے بھی تو، میں کیوں جلتی۔ جیب چلانے کو مجھے تیرا کیا ڈر پڑا ہے؟

    ہے کیسی لُگائی، باز ہی نہیں آتی، بالکل سر پر ہی چڑھی جارہی ہے، ہم تو بڑھاپے کا خیال کر رہے ہیں، آپ ہیں کہ آپے ہی سے باہر ہوئی جارہی ہیں۔

    آئی وہاں سے بیچاری بڑھاپے کا خیال کرنے والی۔ بڑھاپے کا خیال کرتی تو مردوں میں بیٹھ کر میری صورت میں کیڑے ہی تو ڈالتی، ارے میرے منھ میں دانت نہیں رہے۔ آنکھوں سے پانی بہتا ہے تو تیرے باوا کا کیا نقصان ہے۔ یہ تو اللہ کی قدرت ہے، جس کو چاہے جیسا بنا دے، مگر بندے کو کسی بات پر گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے۔

    بوا، ذرا دوسرے کی بھی سنا کرو۔ تم تو اپنی ہی کہے جارہی ہو، کون کہتا ہے میں نے تمہاری صورت میں کیڑے ڈالے، بوا جھوٹ بولنے کی میری عادت نہیں۔ دیکھو ایسے طوفان مت اٹھاؤ تم مجھ پر، کوئی سنے گا تو کیا کہے گا۔ میرے ہی جنم میں تھوکے گا کہ ضرور اس نے بوا کو کچھ کہا ہوگا۔

    اس گھر میں رہتے رہتے میرے بال سفید ہوگئے، آج تک کوئی کہہ تو دے میں نے کس پر طوفان اٹھائے ہیں، کس پر تہمت لگائی ہے۔ اکیلی تم ہی تو رہتی ہو، محلے میں کوئی اور تو رہتا ہی نہیں، ایک تم پر ہی طوفان توڑ رہی ہوں میں!

    اوروں کی میں کیا جانوں بوا، میں تو اپنی کہتی ہوں بوا، خدا اپنا دیدار اور محمد کی شفاعت نصیب نہ کرے، جو میں نے کسی کے سامنے تمہیں کچھ کہا ہو۔

    خدا کے خوف سے ڈر سکینہ!

    اب اس کا تو کوئی علاج ہی نہیں کہ اَن ہوئی بات کو تم میرے سر تھوپ دو، کوئی بیچ میں ہو تو اس کا نام لو، میں اولاد کی قسم دے کر پوچھوں کس کے آگے کہا میں نے بوا کو بُرا بھلا!

    سکینہ یوں باتوں میں مت اڑاؤ مجھے، میں نے دھوپ میں یہ بال سفید نہیں کیے۔

    بوا تم نے دھوپ میں سفید کیے ہوں بال یا سایہ میں، مجھے اس سے واسطہ نہیں میں تو یہ کہتی ہوں تم اس بندی کا نام بتاؤ، جس کے سامنے میں نے تمہیں برا بھلا کہا۔ جب جھوٹ سچ کھلے گا، بوا اللہ کرے میں اتنی ہی بڑی مرجاؤں، جو میں نے ایک حرف بھی زبان سے نکالا ہو۔

    کس کس کا نام بتاؤں سکینہ! کوئی ڈھکی چھپی بات ہو تو میں نام بھی بتاؤں کسی کا، بھرے مجمع میں بیٹھ کر تم نے اس دن نیم والے گھر میں مجھے اندھا بنایا، منحوس کہا، آنسو ڈھال کہا، تم نے کہا صبح صبح کوئی اس کی صورت بھی نہ دیکھے، جس دن میں اس کا منھ دیکھ لیتی ہوں شام تک چین نہیں ملتا۔

    توبہ کرو بوا توبہ! دیکھو ایسا طوفان مٹ اٹھاؤ۔ اللہ، کیسے بہتان باندھ رہی ہو، خدا جانے آسمان کس کے بھاگوں کھڑا ہے۔

    اچھا قسم کھاؤ، تم نے نہیں کہا۔

    بوا تمہارے سر کی قسم، اپنے بچہ کی سوں، جو میں نے تمہارا نام بھی لیا ہو، پڑے خاک جھوٹ بولنے والے کی صورت پے، بچہ سے زیادہ دنیا میں مجھے اور کیا ہے؟ ہاں اتنی بات تو ہوئی تھی، بوا، دیکھو میں سچی سچی بتاؤں تمیں کہ بلو دھوبن کا ذکر آگیا تھا، تو میں یوں بولی کہ آپ تو اُسے سوجھتا بھی نہیں اور منھ پے تو چھبروں نور برستا ہے جس دن سویرے ہی سویرے صورت دکھائی جاتی ہے، روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی اور کچھ نہیں تو کتا ہی ہنڈیا میں منھ ڈال جاتا ہے۔ بوا لو یہ بات تو ضرور میں نے کہی تھی، تمہارا تو نام بھی نہیں لیا۔ نامعلوم بڑھاپے میں تمہاری عقل چرنے چلی گئی ہے کیا، پہلے بات کا انجام سوچ لیا کرو پھر منھ سے کچھ نکالا کرو۔ وہ تو اچھا ہوا میں چلی آئی اس وقت، نہیں تو تہارے دل میں یہ غبار بھرا ہی رہتا۔

    سکینہ اللہ تیرا کلیجہ ٹھنڈا رکھے، بچی! لے میری کیا خطا ہے، مجھ سے تو جیسا کسی نے کہہ دیا، میں نے یقین کرلیا، میں آپ تو کچھ سننے گئی نہیں تھی، مجھے کیا خبر کہ بلو دھوبن کا قصہ تھا۔ میں تو یہی سمجھی کہ تو مجھی کو کہہ رہی ہوگی، سکینہ میرا دل تو اندر سے گواہی دے رہا تھا کہ زمین آسمان ٹل جائے اپنی جگہ سے، مگر سکینہ میرے لیے ایسے بول منھ سے نہیں نکال سکتی، اور انہیں باتوں کی بدولت تو رات دن تیرے لیے دعائیں نکلتی رہتی ہیں۔ میرے بدن کے روئیں روئیں سے!

    مگر بوا اتنے کچے کان بھی کس کام کے۔ آج تو یہ ہوا کل کو اور کچھ کہہ دیا کسی نے تم سے، تو میں کیا بگاڑ لوں گی، اس کا یا تمہارا۔

    یوں کہنے سے کیا ہوتا ہے سکینہ! ایسی میں پاگل سڑی تھوڑا ہی ہوں جو ہر کسی کے کہنے سے یقین کر لوں گی، اب لے اتنی بات تو کہنے والے نے بھی جھوٹی نہیں کہی، کسی کا ذکر تو تھا، تم خود ہی کہتی ہو۔ بلو دھوبن کو کہہ رہی تھیں، ہاں اتنی بات اور بڑھ گئی کہ اس کی جگہ میرا نام لے دیا۔

    یہی تو کرتوت ہیں بوا دشمنوں کے، میں تمہاری ہی جان کی قسم کھاکر کہتی ہوں بلو دھوبن کو کہہ رہی تھی، تمہیں کیا معلوم نہیں اس کی صورت دیکھ لو صبح صبح تو روٹی نہیں ملتی سارے دن، بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ بھائی خدا کی قسم! میں نے تو جس روز اس مردار کی صورت دیکھی مجھے سورج ڈوبنے تک چین نصیب ہوا نہیں۔

    کیا کہہ رہی ہو سیدانی، بلو دھوبن کا دم نہ ہوتا تو جھینک جھینک کر مرجاتیں تم۔ یہ میں ہی تھی کہ جب ٹانگیں پھیلائے پلنگ پر پڑی تھیں تم اور کوئی پانی پلانے والا بھی پاس نہ تھا تو اپنے بچوں کو بلکتا چھوڑ کر تمہاری پٹی نیچے آبیٹھی تھی۔ پیر میں نے دبائے تمہارے، منھ ہاتھ میں نے دھلوایا۔ روٹی میں نے پکا کے کھلائی سارے کنبہ کو، اور آج تم کہتی ہو بلو منحوس ہے، اس کی صورت دیکھنے سے روٹی نہیں ملتی، وہ دن بھول گئیں کیا جب بلو کے سوا تمہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہ تھا۔ سچ کہا ہے کسی نے نیکی کر اور کنویں میں ڈال۔

    سکینہ بلو کو دیکھتے ہی چونک گئی۔ اس کے بدن میں کاٹو تو لہو کی بوند نہیں۔ اسے سان و گمان بھی نہ تھا کہ بلو دیوار کے نیچے کھڑی سب کچھ سن رہی ہے۔ وہ بہت ہی گھبرائی، بلو نے سارا قصہ اپنے کانوں سے سن لیا تھا۔ اب اس کی تردید ہی کیا ہوسکتی تھی۔ بوا کو تو اس نے سمجھا کر ٹھنڈا کر دیا تھا۔ وہ پرانے وقتوں کی نیک دل بیوی تھیں، مگر بلو باہر پھرنے والی بے باک عورت، اس کی زبان کسی کے سامنے رکنے والی ہی نہ تھی، مگر سکینہ نے ہمت کرکے کہا۔

    بلو کیوں آپے سے باہر ہوئی جارہی ہے۔ میں تو مذاق کر رہی تھی۔ بوا کو نہ معلوم کیا ہوگیا تھا، ایک دم سے مجھ پر برس ہی تو پڑیں۔ ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کو میں نے تیرا نام لے دیا تھا۔ تیرے بچہ کی قسم کوئی اور بات تھوڑا ہی تھی، پوچھ لے بوا سے میں نے کوئی گالی دی ہو تجھے تو!

    گالی تم کیا دیتیں سیدانی، میں تو اچھے اچھوں کی نہیں سنتی، تم تو بیچاری ہو کس شمار قطار میں۔ اور گالی دینے میں تم نے کیا کسر رکھی ہے، منحوس تم نے کہا، اندھا تم نے کہا، اور کیا رہ گیا بھلا کہنے کو، سیدانی مجھے تمہارے یہ گن معلوم نہ تھے، نہیں تو کبھی تھوکتی بھی نہیں تمہارے گھر آکے اور اب دیکھو آگے کو۔

    بلو معلوم ہوتا ہے تو بھی بھنگ پی کے آئی ہے، میں نے تو گھر بسی منحوس اور اندھا نہیں کہا تجھے، پوچھ لے بوا سے!

    آنکھوں میں انگلیاں مت کرو سیدانی، میں بہری تو ہوں نہیں، اللہ رکھے میرے کان ابھی سلامت ہیں۔ میں یہیں بیٹھی سب کچھ سن رہی تھی۔ کوئی اور ہوتا تو اینٹ مار کے یہیں سے سر پھوڑ دیتی۔ اللہ کی سوں! وہ تو نہ معلوم کس بات کا خیال آگیا، اور بوا سے کیا پوچھوں، یہ تو تم سب کی کہی بدی ہے۔ تم سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہو۔ پھر بوا کاہے کو کہیں گی؟

    بلو دیکھ میں اور قسم کی عورت ہوں، سکینہ ہی سے منھ ملائے جا، میرا نام لیا تو ٹھیک نہیں۔

    کس قسم کی عورت ہو بوا۔ میرا بھلا کیا کر لو گی، جیسا کہو گی، ویسا سنو گی، میں کب تمہاری دی ہوئی روٹی کھاتی ہوں جو دبوں گی۔

    دبے گی کیسے نہیں۔ کمینوں کو منھ لگانے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے۔ سکینہ دیکھو ہمارے برابر بیٹھتے بیٹھتے آج بلو کا یہ حوصلہ ہوگیا کہ وہ کہتی ہے جیسا کہو گی ویسا سنو گی، بلو اچھی طرح سن لے کان کھول کر میں تیری برابری کی نہیں ہوں۔

    زمین پے پاؤں رکھ کے چلو بوا زمین پے!

    اب کیا تیرے سر پے رکھ کے چل رہی ہوں۔

    میرے سر پے تم کیا پیر رکھو گی بیچاری، چرخہ کاتتے کاتتے تمہاری عمر گزر گئی، ایک دن چرخہ پونی لے کے نہ بیٹھو تو اگلے دن کھانے کو روٹی نہ ملے۔ تم میرے سر پے کیا پاؤں رکھو گی؟

    بلو دیکھ منھ میں لگام دے، چڑیل کہیں کی آئی وہاں سے باتیں بنانے ایران توران کی۔

    بوا عمر کا خیال کرتی ہوں، سفید بالوں سے اللہ میاں کو بھی شرم آتی ہے، نہیں تو وہ سناتی کہ سر پیٹ لیتیں تم اپنا۔

    کھڑی تو رہ مردار۔ پیڑھی سر پے دے ماروں گی۔

    میں چونڈا اکھاڑ لوں گی، پیڑھی مارنے والی کا۔

    بک بک کیے جارہی ہے۔ چپ نہیں ہوتی کمینی۔

    تم ہزار دفعہ کمینی!

    سکینہ سن رہی ہو، اس دھوبن کی باتیں تم۔

    ہاں بوا سن تو رہی ہوں مگر کیا کروں کچھ بس نہیں چلتا۔

    وہ کیا سنے گی، ابھی تو مجھے اس کے دانے دیکھنے ہیں تم تو ویسے ہی بیچ میں ٹانگ اڑا بیٹھیں، جھگڑا تو سیدانی سے ہو رہا تھا۔

    میرے کیا دانے دیکھے گی تو چڑیل؟

    سیدانی زبان سنبھالو، نہیں تو منھ نوچ لوں گی، بالوں میں آگ لگا دوں گی۔

    میں تیری چٹیا مونڈ لوں گی!

    میں تیرے لالوں کا خون پی لوں گی!

    ارے تیرے منھ میں لگے آگ، خون پی اپنے پیاروں کا۔

    سیدانی اللہ کرے تو مجھ سی ہی ہو جا!

    خدا نہ کرے مجھے تجھ سا۔

    تیرے مریں بچے سیدانی! مجھے منحوس کہنے والی۔

    بلو دیکھ زبان قابو میں رکھ، کیسا منھ بھر بھر کے کوس رہی ہے، نمک حرام۔

    تیرے مریں لال۔

    بلو خدا کے لیے۔

    تیرا لٹے سہاگ۔

    تیرا مرے خصم۔

    تیرا نکلے جنازہ۔

    بلو، تیرے پھوٹیں دیدے۔

    تیرے منھ میں نکلے کالا دانہ۔

    بوا خدا کے لیے اس کی جیب کتر لو!

    سیدانی تو اتنی ہی بڑی مر جائے، اللہ کرے تجھے شام ہونی نصیب نہ ہو۔ اور بوا رذالی کون ہوتی ہے جیب کترنے والی۔

    بلو میں پہلے کہہ چکی ہوں میرے منھ مت لگ تو۔

    تو میرا کیا بگاڑ لے گی؟

    میں تیرا کلیجہ نکال لوں گی۔

    میں تیرے منھ پے خاک ڈال دوں گی!

    نکل چڑیل میرے گھر سے!

    بوا دیکھو مجھے ہاتھ لگایا تو جان کی خیر نہیں، میں تو مرنے ہی کو پھر رہی ہوں، کل کی مرتی آج مر جاؤں۔ مجھے پروا نہیں۔ مگر تم کھینچی کھینچی پھرو گی زمانے بھر میں۔

    بوا اور بلو کو الجھا کر، سکینہ دبے پاؤں کوٹھے سے اتر آئی اور جلدی سے کواڑوں کی زنجیر لگا دی۔ تھوڑی دیر تو بلو بوا کو کوستی کاٹتی رہی، وہ بھی برابر جواب دیتی رہیں۔ اتنے میں دن چھپ گیا اور بوا نماز کو کھڑی ہوگئیں، بلو نے فرصت پا کر اوپر دیکھا تو سکینہ غائب! اس نے غصہ میں بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر داہنے ہاتھ کو کھڑا کرکے زور سے مارا اور دانت کچکچاکے بولی، تیرے کھاؤں قتلے! تو آگ لگا کر چل دی چترا کہیں کی۔ مجھے بوا سے لڑا دیا اور آپ کھسک گئی۔

    (یہ مزاحیہ تحریر کوثر چاند پوری کی ہے، جنھوں نے افسانہ اور ناول نگاری کے ساتھ مزاح بھی تخلیق کیا)

  • حکومت ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر ہی دے!

    حکومت ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر ہی دے!

    گرامر کی طرح گالی کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہیں۔

    اگرچہ یہ قواعد و ضوابط بعض ممالک کے دساتیر کی طرح غیر تحریری ہیں، مگر ان کا احترام کچھ ریاستوں کے تحریری آئین کے مندرجات سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کئی ملکوں میں گالی آئین سے کہیں زیادہ معتبر حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں تک پاکستان میں رائج قواعدِ دشنام کا تعلق ہے تو ہمارے یہاں تین قسم کی گالیاں مروج ہیں۔

    1- موٹی سی گالی
    2- چھوٹی سی گالی
    3- جھوٹی سی گالی

    اور ان گالیوں کی مزید کئی قسمیں ہیں۔ ویسے ہماری سمجھ میں نہیں یہ آتا کہ گالی کو خلافِ اخلاق اور بدتہذیبی کی علامت کیوں سمجھا جاتا ہے؟ آخر گالی میں ایسی کون سی بات ہے جسے اخلاقیات کے ضابطوں سے روگردانی قرار دیا جائے؟ ہمارے سوالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذرا مروجہ گالیوں کے عناصر ترکیبی پر غور کیجیے!………. آپ کو ان گالیوں میں فقط وہ لوازمات ملیں گے جن کے بغیر ہماری زندگی نامکمل ہے۔ مثلاً بنیادی انسانی رشتے، ضروری جسمانی اعضا اور ناگزیر افعال۔ ان لوازمات کو مناسب ترتیب دینے سے گالی وجود میں آجاتی ہے۔ ان عناصر کے ”ظہورِ ترتیب“ پر ناک بھوؤں چڑھانا اور انھیں اجزائے پریشاں کی صورت میں دیکھ اور سُن کر کوئی اعتراض نہ کرنا………آپ ہی بتائیے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟

    ہم تو سمجھتے ہیں کہ تہذیب و ثقافت، رسم و رواج، علوم و فنون اور آثارِ قدیمہ کی طرح کسی قوم کی گالیاں بھی اس کی پہچان ہوا کرتی ہیں۔ کیا اچھا ہو کہ حکومتِ پاکستان ہمارا ”فلسفۂ مغلظات“ تسلیم کرتے ہوئے گالیوں کو بھی قومی ورثہ قرار دے دے۔ قومی پھول، قومی کھیل اور قومی جانور کی طرح ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر دیا جائے۔ قومی گالی کے تعین کے سلسلے میں کراچی اور پنجاب کے درمیان چشمک ہوسکتی ہے۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں کی طرح ملک بھی میں ”گالی بازی“ پر نشستیں منعقد ہوں، جن میں ”گالی باز“ یا دشنام طراز اپنی نئی نئی گالیاں پیش کرکے داد حاصل کریں۔ گالیوں پر تنقیدی نشستیں ہوں، جن میں نقاد گالیوں کے بارے میں اپنی آراء کا اظہار کریں اور تنقیدی نظریات کی روشنی میں یہ ثابت کریں کہ کون سی گالی سماج کی آئینہ دار ہو کر ترقی پسندی کے رجحان کا پتا دے رہی ہے، کس میں علامتی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ کون سی گالی فطری ہے اور کون سی غیر فطری۔ کس دشنام طراز کی تخلیق شعور کی لہر کا نتیجہ ہے اور کس گالی باز کی کاوش منفرد لب و لہجہ رکھتی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ اپنی نوعیت کی واحد تنقیدی نشستیں ہوں گی، جن میں نقّاد تنقید سے پہلے گالیاں سنیں گے!

    پاکستانی گالیوں کے عالمی سطح پر فروغ کے لیے ملک میں اور بیرون ملک پاکستانی گالیوں کی نمائشیں بھی منعقد کی جاسکتی ہیں۔ ان نمائشوں میں قدیم اردو شعرا کی ہجویات سے لے کر دورِ حاضر کے سیاست دانوں کی مغلظات تک پھیلے ہمارے عظیم ”دشنامی ورثے“ کو ”سُن“ کر غیرملکیوں کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہم کوئی ”ایویں“ قوم نہیں بلکہ گالیوں کی ایک طویل روایت سے جڑے ہوئے ہیں۔

    اگر حکومت نے ہمارا پیش کردہ ”فلسفۂ مغلظات“ اپنا لیا اور اسے عملی شکل دے دی تو یقین مانیے ہماری کرخت گالیاں راتوں رات ہمارا وہ ”سوفٹ امیج“ بنا دیں گی، جس کے لیے حکومت ایک مدت سے کوشاں ہے۔

    (معروف مزاح نگار، شاعر اور صحافی محمد عثمان جامعی کی ایک شگفتہ تحریر، یہ مزاح پارے مصنّف کی کتاب "کہے بغیر” سے مقتبس ہیں)

  • عقل بھینس سے بڑی ہے یا بھینس عقل سے؟

    عقل بھینس سے بڑی ہے یا بھینس عقل سے؟

    حاجی لق لق پر پچھلے دنوں بھینس کے ہاتھوں قیامت گزر گئی۔

    یہ تو اکثر لوگوں کو معلوم ہے کہ حاجی صاحب نے کوئی سال بھر سے ایک بھینس پال رکھی ہے اور اس کی خدمت اس تن دہی سے کرتے ہیں کہ کوئی اس طرح بزرگوں کی خدمت بھی کیا کرے گا؟ اگرچہ حاجی صاحب خود ’’بیچارہ‘‘ ہیں۔ مگر بھینس کے لیے چارہ فراہم کرنے میں ان سے کبھی کو تاہی نہیں ہوئی۔ لیکن پچھلے دنوں خدا جانے اس بھینس کے جی میں کیا آئی کہ رسہ تڑا کے بھاگ کھڑی ہوئی۔ اور جوار کے کھیت سے بخط مستقیم کانجی ہاؤس جا پہنچی۔

    حاجی صاحب دلؑی گئے ہوئے تھے۔ آتے ہی یہ واقعہ سنا۔ کلیجہ دھک سے رہ گیا اور منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ ’’الٰہی مری بھینس کی خیر ہو۔‘‘ ہوش ٹھکانے ہوئے تو کانجی ہاؤس پہنچے اور بھینس سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ کانجی ہاؤس والوں نے کہا، صاحب! کانجی ہاؤس کے قوانین بورسٹل جیل کے قاعدوں سے زیادہ سخت ہیں۔ بھینس سے ملنا ہے تو درخواست دیجیے ہم اسے مسٹر میکناب (افسر اعلیٰ مونسپلٹی) کے پاس بھیج دیں گے۔ وہ چاہے اجازت دیں چاہے نہ دیں۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ مجبور ہو کر درخواست لکھی اور مسٹر میکناب کے پاس بھیج دی۔ تیرہ دن گزرگئے مگر کوئی جواب نہ آیا۔

    وکیل سے مشورہ کیا تو اس نے کہا معلوم نہیں آپ کو بھینس سے ملاقات کی اجازت ملے یا نہ ملے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اجازت حاصل کرنے میں پورا سال صرف ہوجائے۔ اب جرمانہ ادا کرکے بھینس کو چھڑا کیوں نہیں لاتے؟ حاجی صاحب کو یہ بات پسند آئی۔ چناں چہ جرمانہ ادا کرنے کے لیے نہ تو کوئی چندے کی اپیل شائع کی، نہ لوگوں سے کہا کہ آپ کی غیرت کے امتحان کا وقت آگیا ہے اور نہ یہ فرمایا کہ پنجاب کی اتحادی وزارت نے مجھ سے انتقام لینے کے لیے میری عزیز از جان بھینس کو کانجی ہاؤس بھجوا دیا ہے بلکہ جرمانہ کی رقم جو غالباً پندرہ روپے ساڑھے سات آنے تھی، اپنی جیب سے ادا کرکے بھینس کو چھڑوا لائے۔

    سنا ہے کہ بھینس کا جلوس بڑی دھوم دھام سے نکلا۔ اس کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے۔ اور مصری شاہ کے گلی کوچوں میں ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کانجی ہاؤس ہائے ہائے اور ’’میری بھینس کو ڈنڈا کیوں مارا‘‘ کے نعروں کے ساتھ اسے پھرایا گیا۔ بھینس شاعر نہیں بن سکتی۔ شعر فہم نہیں بن سکتی تو کیا، لیڈر تو بن سکتی ہے۔

    آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ حاجی لق لق کے خاندان میں اس بھینس کے سوا کبھی کسی نے قانون شکنی نہیں کی۔ بھینس کو شاعری سے اس لیے بھی کوئی تعلق نہیں کہ عقل اور شاعری میں ہمیشہ سے جنگ رہی ہے اور بھینس کا مقابلہ ہمیشہ عقل سے کیا جاتا ہے۔ چناں چہ آج تک بڑے بڑے عالم یہ فیصلہ کرسکے کہ عقل بڑی ہے یا بھینس۔ بھینس کا طول و عرض حتیٰ کہ اس کا وزن تک لوگوں کو معلوم ہے لیکن عقل کے حدود و اربعہ کے متعلق ہی علما میں اختلاف نہیں بلکہ اس کے وزن کا مسئلہ بھی مشتبہ ہے۔ اب تک صرف اتنا معلوم ہوسکا ہے کہ عقل اور علم کے وزن میں ایک اور دس کی نسبت ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ ’’یک من علم را دہ من عقل باید‘‘۔

    علم کا وزن متعین ہوجائے تو عقل کے وزن کا مسئلہ بھی طے ہوسکتا ہے۔ اور عقل کا وزن معلوم ہوجائے تو اس متنازع فیہ مسئلہ کا فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ عقل بھینس سے بڑی ہے یا بھینس عقل سے۔ بہرحال اس مسئلہ کا فیصلہ ہو یا نہ ہو۔ اتنا ظاہر ہے کہ بھینس کو شاعری سے کوئی تعلق نہیں۔

    (ممتاز ادیب اور شاعر چراغ حسن حسرت کی ایک شگفتہ تحریر)

  • بلیک ہول، سائنس اور ہم

    بلیک ہول، سائنس اور ہم

    سائنس سے ہمارا تعلق اتنا ہی افسوس ناک رہا ہے جتنا ہمارے ملک کے اکثر سیاست دانوں کا ملک کی معاشی پیچیدگیوں اور بنیادی مسائل سے۔ ان بے چاروں کو یہ معلوم نہیں کہ وطن کا بنیادی مسئلہ کیا ہے اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ ” کوانٹم تھیوری “ کس علاقے کی چڑیا کا نام ہے؟

    سائنس سے ہماری یہ دشمنی عمرِ عزیز کے ایک طویل عرصے پر محیط ہے، میٹرک میں ہمیں زبردستی سائنس پڑھنا پڑی تھی اور کیمسٹری مسلسل تین دن پڑھ لینے کے بعد ہمیں سخت بخار آ جایا کرتا تھا۔ طبیعیات سے ہماری طبیعت ویسے ہی نالاں رہتی تھی، پھر وہ وقت بھی آیا جب سالانہ امتحانات ہونے والے تھے اور ہمارے وہ قارئین جو میٹرک کرنے کے جاں گسل لمحات سے گزر چکے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ امتحانات کے دنوں میں ”گیس پیپرز“ کا سیلاب سا آجایا کرتا ہے۔ کچھ راز ہائے سربستہ سینہ بہ سینہ بھی چلتے ہیں اور اکثر لڑکے قسم کھا کر بتاتے ہیں کہ پرچے میں آنے والے کچھ سوالات انہیں نہایت باوثوق ذرائع سے معلوم ہوگئے ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی ایک طالب علم نے سخت رازدارنہ انداز میں ایک معتبر ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے ہمیں بتایا کہ اس بار کیمسٹری کے پرچے میں ”نائیٹروجن“ کے بارے میں سوال لازمی طور پر ہوگا۔ چونکہ یہ راز ہمیں پرچہ ہونے سے صرف ایک دن پہلے بتایا گیا تھا اس لئے ہم نے آکسیجن، ہائیڈروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ کو ایک طرف رکھا اور نائیٹروجن کا ” رَٹّا “ لگانا شروع کردیا!

    اس مسلسل محنت سے ہم چند ہی گھنٹوں میں خود کو نائیٹروجن کا شمسُ العلماء کہلانے کے مستحق ہو گئے تھے… صبح کو ہم نہایت ہشاش بشاش اٹھے، کتاب کھول کر ایک بار پھر نائیٹروجن پر نظر ڈالی اور اپنے حافظے کو داد دیتے ہوئے امتحان گاہ کی طرف روانہ ہو گئے، وہاں حالت یہ تھی کہ ہم بلاوجہ گنگنا رہے تھے بلکہ جب امتحانی پرچہ ہمیں دیا گیا تو ہم نے قہقہہ تک لگا دیا، پھر وہ قیامت خیز لمحہ آیا جب ہم نے پرچے پر نظر ڈالی اور اچانک نظروں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ یوں لگا جیسے یہ کائنات آکسیجن کی طرح بالکل بے بُو، بے رنگ اور بے ذائقہ ہو چکی ہے۔ پرچے میں نائیٹروجن کا ذکر بالکل نہیں تھا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خواص بیان کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ ہمارے پاؤں لرزنے لگے، ذہن چکرانے لگا، دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ آنکھوں میں پھرنے لگا اور اپنے قریب کھڑے نگرانی کرنے والے شخص کی صورت ہمیں بالکل ملکُ الموت جیسی نظر آنے لگی مگر کرتے تو کیا کرتے کہ نائیٹروجن کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ ہمیں یوں لگ رہی تھی جیسے ہم ناشتے میں چائے کے ساتھ کوئی دستی بم نگل کر آئے ہوں، مجال ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کبھی ہماری ذرا سی بھی واقفیت یا سلام دعا رہی ہو… ہم نے نائیٹروجن کے بارے میں زیرِ لب کچھ ایسے الفاظ کہے جن سے اس شریف گیس کی توہین کا نہایت غیر اخلاقی پہلو نکلتا تھا، پھر قلم سنبھالا اور دوسرے سوالات حل کرنے کے لئے بساط بھر کوشش شروع کردی مگر کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بچنا ممکن نہیں تھا کیونکہ یہ سوال لازمی تھا، چنانچہ آخر میں ہم نے اس لڑکے کو چند نہایت دل گداز اور عبرت انگیز کوسنے دیے جس نے ہمیں نائیٹروجن کے بارے میں بتایا تھا۔ لگے ہاتھوں ایسا مشکل پرچہ ترتیب دینے والے کے لئے بھی کچھ جدید کوسنے ایجاد کئے اور قلم سنبھال کر پرچے کو ایک بار پھر دیکھا کہ سہو نظر نہ ہوا ہو مگر وہاں نائیٹروجن کی جگہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی لکھا تھا لہٰذا ہم نے نہایت خوش خط انداز میں امتحانی کاپی پر لکھا ” کاربن ڈائی آکسائیڈ “ اور اس کے نیچے وہ سب کچھ لکھ دیا جو نائیٹروجن کے بارے میں یاد کیا تھا۔ ہمارا اشہبِ قلم تیزی سے دوڑ رہا تھا اور ہم نے نائیٹروجن کے خواص کے علاوہ اس کے عادات و خصائل تک کے بارے میں ایک وسیع و عریض مقالہ تحریر کر ڈالا!

    اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میٹرک کے سالانہ امتحان کا نتیجہ آنے پر ہم نہایت امتیازی نمبروں سے فیل ہوئے ہوں گے… جی نہیں! ہم پاس ہوگئے تھے اور وہ بھی فرسٹ ڈویژن میں، یعنی جسے اللہ رکھے اسے کون ممتحن چکھے!! پاس ہونے کی خبر پاتے ہی ہم نے شکرانے کے نفل پڑھے اور آخر میں کیمسٹری کے پرچے کے نابینا ممتحن کی درازیٴ عمر کے لئے رقت انگیز انداز میں دعا مانگی کہ اس کے درجات بلند ہوں، وہ ہیڈ ماسٹر بنے، رزق کشادہ ہو، بال بچے روز افزوں ترقی کریں اور آخر میں شدت جذبات سے یہ تک کہہ بیٹھے کہ اللہ اس کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے!

    اب اتنے برسوں کے بعد پھر ایک سائنسی مسئلہ ہمارے سامنے ہے جسے حل کرنا یا سمجھنا ہمارے لئے اتنا ہی مشکل ہے جتنا وزیر توانائی و بجلی کے لئے یہ سمجھنا کہ جب ملک میں بارہ چودہ گھنٹے روز تک کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے تو بجلی کی قیمتوں میں ایسے ہوش ربا اضافے کا جواز کیا ہے۔ اخباری خبر مختصر طور پر کچھ یوں ہے کہ ” آج دنیا میں طبعیات کا سب سے طاقتور تجربہ کیا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد کائنات میں Big bang کے چند لمحوں کے بعد حالات کو ایک مرتبہ پھر تخلیق کرنا ہے۔ نیو کلیائی ریسرچ کے یورپی ادارے کے زیرِ اہتمام ہونے والے اس تجربے کے دوران انجینئرز اور سائنسدان ایٹم کے مثبت چارج والے ” ذرات “ ” پروٹانز “ کو ستائیس کلومیٹر طویل زیر زمین سرنگ نما مشین سے گزاریں گے اور دو مخالف سمت سے آنے والی پروٹانز کی شعاعوں کو تقریباً روشنی کی رفتار سے 10 کھرب ڈگری سینٹی گریڈ پر آپس میں ٹکرادیا جائے گا۔ مادے کے باریک ذرات کو حرکت دینے والی مشین انسانی تاریخ کی سب سے بڑی مشین ہے، بیس برس کی تیاریوں کے بعد 10 ارب ڈالر لاگت سے تیار ہونے والی 27 کلومیٹر سرنگ نما اس مشین میں پروٹان کی شعاعوں کو دہشت ناک طاقت سے آپس میں ٹکرایا جائے گا جس سے نئی طبعیات میں ” بگ بینگ “ جیسی کیفیت پیدا کی جا سکے، کئی ایسے سائنسدان بھی ہیں جو کائنات کی تخلیق کے آغاز کے لئے بگ بینگ جیسے کسی مفروضے کو نہیں مانتے اور ہم تو بحیثیت مسلمان کسی بھی بگ بینگ پر یقین نہیں رکھ سکتے کیونکہ اس کائنات کی تخلیق کسی بھی بگ بینگ نے نہیں خداوند کریم نے لفظ ” کُن “ کہہ کر کی تھی اور کُن فیکون پر ہمارا پختہ ایمان ہے مگر وہ دوسرے سائنسدان بھی جو بگ بینگ تھیوری پر یقین نہیں رکھتے آخر اس منصوبے پر 10 ارب ڈالر خرچ کر دینے والے ان فضول خرچ سائنس دانوں سے یہ احتجاج کیوں نہیں کرتے کہ بھوک اور افلاس کی ماری ہوئی اس دنیا میں اتنی بڑی رقم خوراک اور صاف پانی جیسے وسائل کی فراہمی پر خرچ کی جاتی تو کتنے پسماندہ ممالک اور ان کے کروڑوں لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔

    سائنس دانوں کے ایک گروپ کی جانب سے یہ خدشہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ اس بڑے لرزہ خیز دھماکے کے نتیجے میں زمین پر ایک بڑا بلیک ہول بھی پیدا ہو سکتا ہے اور بلیک ہول کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ بڑی سے بڑی اشیاء کو نگل لیتا ہے۔ اگر ایسا کوئی بلیک ہول پیدا ہو تو ہماری خوش گوار خواہش ہے کہ اس کا پہلا نوالا یہ خطرناک تجربہ کرنے والے ہزاروں سائنس دان ہی بنیں، اگر دو چار آدمی کم پڑ جائیں تو ہم اپنے ملک کے چند بے مصرف موقع شناس سیاست داں بھجوانے پر تیار ہیں۔

    (از قلم: اطہر شاہ خان جیدیؔ)

  • اس واردات کو ’تالا توڑنے‘ کا نام نہیں دیا جاسکتا!

    اس واردات کو ’تالا توڑنے‘ کا نام نہیں دیا جاسکتا!

    قرض کی مے تو نہیں البتہ چائے ضرور پیتے تھے (کیوں کہ غالب سے ازلی اور ابدی رشتہ ہے!) اور جانتے تھےکہ ایک دن یہ فاقہ مستی، جس میں سے اب مستی بھی غائب ہوتی جا رہی ہے، ضرور رنگ لائے گی۔

    تو صاحب وہ رنگ لائی اور ایسا چوکھا کہ ہماری عینک زدہ آنکھیں بھی چکا چوند ہوگئیں۔ واقعہ کسی سال کے کسی مہینے کی کسی تاریخ کا ہے کہ ہماری ایک دوست نے شیطانِ اعظم کا رول ادا کیا۔ یعنی ہمیں ورغلا کر اپنے گھر لے گئیں۔ ابھی تصوراتی اطمینان کا روایتی سانس بھی نہیں لیا تھا کہ اطلاع ملی ہمارے کبوتر خانےکا، جسےعرف خاص میں دولت خانہ (اگرچہ دولت سرے سے مفقود ہے) کہا جاتا ہے، تالا توڑ دیا گیا ہے۔

    گھر پہنچتے پہنچتے پوری ایک قوم تعزیت کرنے اور پس ماندگان کو صبرکی تلقین کرنے جمع ہوگئی۔ ان سب کو ہم نے اطمینان دلایا کہ اوّل تو ہمارا تالا ازل ہی سے ٹوٹا ہوا تھا۔ یہ ہمارے ہاتھ کی صفائی تھی جس سےاس کا بھرم قائم تھا۔ یعنی اسے ہم اس فن کارانہ خوبی سے چپکا دیتے تھےکہ وہ بند معلوم ہونے لگتا تھا، اس لیے اس واردات کو ’تالا توڑنے‘ کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور دوسرے یہ کہ دن کو اس طرح لٹنےسے رات کو چوری کا خدشہ نہ رہا۔

    اور پھر گھر کی یہ حالت کہ جب جب کوئی آتا ہمیں نہایت ہی فلسفیانہ اور راہبانہ انداز میں پوز بنا کر کہنا پڑتا، ’’آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا۔‘‘

    لے دے کے جوتے کے پرانے ڈبے سے مشابہ ایک ریڈیو تھا جس میں ہر وہ اسٹیشن لگ جاتا جسے آپ نہ لگانا چاہتے ہوں۔ اور جس میں بیک وقت آدھے پون درجن اسٹیشن سنے جاسکتے تھے۔ ریڈیو سیلون کے بیوپار وبھاگ سے فلم ’پریم کی بلبل‘ کی کہانی، آکاش وانی کے پنچ رنگی پروگرام وودھ بھارتی سے فلمی گانے، ریڈیو پاکستان سےعربی فارسی میں خبریں، بمبئی سے ڈرامہ، مدراس سے تامل میں آ۔ آ اور جالندھر سے بلے بلے۔ اور جب یہ نقطۂ عروج پر ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا کسی میدانِ جنگ سے بمباری کا آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا حال سنایا جا رہا ہو۔ اور ایک گھڑی تھی جو ممکن ہے کسی زمانے میں گھڑی رہی ہو۔ لیکن اب اس میں اس قسم کے کوئی جراثیم نہیں پائے جاتے تھے۔

    تو صاحب جب منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی زبوں حالی کا یہ عالم ہو تو چوری کا کیا غم! غم تھا تو صرف اس بات کا کہ غریب نے گھر کی ایک ایک چیز الٹنے پلٹنے میں کتنی محنت کی اور اسے واپسی کے لیے بس کا کرایہ تک نہ مل سکا۔ بھلا وہ اپنے دل میں کیا سوچتا ہوگا۔ اس سے زیادہ بےعزتی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ کہیں کل کلاں کو وہ الٹا ہمیں ہی منی آرڈر نہ بھیج دے! یا اکھل بھارتیہ چور سبھا بنا کر ہم جیسے لوگوں کی فلاح و بہبود کے ذرائع نہ سوچنے لگے۔

    خیر جو ہوا سو ہوا۔ مگر اب ایسے آڑے وقتوں کے لیے کہ جب گھر کی عزت پر بن جائے ہمیں کچھ نہ کچھ بچائے رکھنا چاہیے۔ ہماری آمدنی اور خرچ کا حساب کچھ ایسا ترقی پسندانہ تھا کہ ہزار اکاؤنٹنٹ رکھے جانےاور سیکڑوں کمیشن بٹھائے جاتے تب بھی ان کی ایک دوسرے سے دوستی نہ ہوتی۔ اس لیے حساب کتاب کرنا یا بجٹ بنانا ایسا ہی تھا جیسے یو۔ این۔ او میں کشمیر کا مسئلہ اٹھانا۔ اس جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے ہم نے اپنے ویٹو پاور سے کام لیتے ہوئے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، نہ آگا نہ پیچھا، جھٹ سو روپے اٹھا کے ایسی جگہ رکھوا دیے جہاں وہ ہمارے لیے بھی اجنبی بن گئے۔

    چار، پانچ روز بخیر و خوبی گزر گئے اور ہمیں اپنے سو روپوں کی جدائی کا قطعی احساس نہ ہوا۔ بلکہ ہم خاصا فخر محسوس کررہے تھے کہ ہم بھی صاحبِ جائیداد ہوگئے۔ گردن میں ایک خاص تناؤ اور چال میں رعونت پیدا ہو گئی۔ اور راوی تو یہاں تک کہتا ہے کہ لب و لہجہ میں بھی انقلاب آگیا۔ ہم جو پہلے ہر وقت اپنے جیسے پھکڑ لوگوں کے ساتھ گپیں ہانکا کرتے تھے اور وہ قہقہے لگاتے تھے جو گزوں اور میلوں تک سنے جا سکتے تھے۔ اب صرف زیرِ لب تبسم (کہ جس میں تبسم کم اور متانت زیادہ ہوتی ہے) سے کام چلایا کرتے۔ اور اس پھکڑ قوم کے ساتھ بیٹھنا اور گپیں ہانکنا تو اب عہدِ پارینہ کی داستان بن چکا تھا۔ گو اس تبدیلی کا ہم پر یہ اثر ہوا کہ کئی دنوں تک گردن، زبان، جبڑے، ہونٹ اور پیٹ میں شدت کا درد ہوتا رہا۔ طبیعت گری گری رہی۔ کسی کام میں دل نہ لگتا تھا، کیا کرتے مجبور تھے کہ صاحبِ جائیداد طبقے کا شیوہ یہی ہے۔

    چھٹے روز ناگہانی طور پر بازار سے گزر ہوا۔ ایک حسین ساڑھی دکان میں لہرارہی تھی۔ ہم نے پہلے اسے دیکھا پھر اپنی ڈھائی جگہ سے سلی ساڑھی کو۔ اور ایک عاشقانہ سی آہ بھر کے آگے بڑھ گئے۔ کیوں کہ سو روپے بچانے کے لیے لازمی تھا کہ ہم ڈھائی نہیں بلکہ سوا تین اور ساڑھے چار جگہ سے پھٹی ساڑھی پہنے گھومیں۔

    دو قدم چلنے کے بعد سال بھر پرانی چپل بھی ٹاٹا۔ بائی، بائی کہنے لگی۔ پھر دل پر سو کا نوٹ کہ جو پتھر سے بھی بھاری تھا رکھا اور چپل میں پن اٹکا لی۔

    رفتہ رفتہ ہم بکھرے سوکھے بال، سونی آنکھیں، پھیکے ہونٹ اور روکھا ویران چہرہ لیے کالج پہنچنے لگے۔ عوام اور خواص نے سوچا کہ شاید ہمارے کسی عزیز کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس لیے ہم اتنے سوگوار ہیں۔ یا شاید ہم نے پھر ایک نیا عشق شروع کر دیا ہے اور جو شد و مد کے لحاظ سے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دے گا۔ اس لیے ایک طرف تو تعزیتی جلسے کا انتظام ہونے لگا تو دوسری طرف بڑے رازدارانہ انداز میں مشورے دیے جانے لگے۔ اور تب ہم نےاعلان کیا کہ اس سوگواری میں نہ کسی موت کا ہاتھ ہے نہ رومان کا۔ سب مایا کا جال اور ہماری چال ہے۔ یعنی ہم نے مبلغ سو روپے بچائے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ہم اس قابل نہیں رہے کہ لپ اسٹک، پوڈر، کاجل، کریم، تیل کی لگژریز کو برداشت کر سکیں۔ اگر آپ لوگوں کو یہ خوف ہے کہ آپ کی طبعِ نازک ہماری اس ویران صورت کو برداشت نہ کر سکے گی اور عین ممکن ہے کہ اسی صدمے سے ایک آدھ کا ہارٹ فیل ہوجائے تو بخوشی (یا بہ رنج) ہمارے سولہ نہ سہی آٹھ سنگھار کا انتظام کر دیجیے ہمیں قطعی اعتراض نہ ہوگا۔

    خیر صاحب صورت پر ڈالیے خاک، کہ یہ خاک سے بنی ہے اور خاک میں ملے گی۔ اور سیرت پر نظر ڈالیے کہ یہ نہ کسی سے بنی ہے نہ کسی میں ملے گی۔ مگر وائے تقدیر کہ یہ سیرت بھی سو روپے یعنی دس ہزار نئے پیسوں کی چمکتی دیوار میں، زندہ چنی جارہی ہے اور کسی مائی کے لال (افسوس کہ لالی یعنی بیٹی کو قابلِ التفات ہی نہیں سمجھا گیا۔) میں ہمت نہیں کہ اسے کھینچ کے نکال سکے۔

    ہاں وہ قصۂ حاتم طائی یوں ہے کہ حسبِ معمول چند ایسی لڑکیوں نے جن کے چہرے غریب و افلاس کی دھول سے اٹے رہتے ہیں۔ جن کی آنکھیں حسرت و مایوسی کے بوجھ سے جھکی رہتی ہیں۔ جو اپنے آپ کو اس درجہ مجرم سمجھتی ہیں کہ نہ کبھی ہنستی ہیں، نہ مسکراتی ہیں، نہ اچھلتی کودتی ہیں۔ بلکہ ہمیشہ جھکی جھکی رہتی ہیں اور ان کا بس چلے تو شاید زمین میں زندہ دفن ہو جائیں۔ تو ایسی ہی دو لڑکیوں نے داخلے کی فیس کے لیے روپے مانگے۔ کیونکہ انہوں نے سُن رکھا تھا کہ حاتم کی قبر پر لات مارنے والی (دھیرے سے ہی سہی) ہستی موجود ہے۔

    مہینے کے پندرہ دن گزر گئے۔ پکچر ہم نے دیکھی نہیں۔ کینٹین میں چائے پینی (اپنے پیسے سے) چھوڑ دی۔ لوگوں کے گھر آنا جانا بند کر دیا کہ بس اور ٹیکسی پر پیسے نہ اٹھیں۔ لیکن پیسے ہیں کہ جو اٹھتے ہیں تو بس اٹھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ بڑے اور چھوٹےغلام علی کی تانوں کی طرح اور اب تو تان اس نقطے پر پہنچ گئی ہے کہ چائے کی پتی رخصتی کی تیاری کر رہی ہے تو شکر الوداعی گیت گا رہی ہے۔ اور آٹا دال چاول تیل گھی وہ زور و شور سے کوچ کے نقارے بجا رہے ہیں کہ ہمارے ہوش و حواس تو خیر گم ہو ہی رہے ہیں مگر وہ سو کا نوٹ اسی ما ڈرن مجنوں کی طرح جان بچاتا پھر رہا ہے جس کے پیچھے لیلی بیگم کے ڈیڈی اپنی کشمیری چھڑی لیے پھررہے ہوں۔

    مگر جناب یہ جان اور آن کی فری اسٹائل کشتی ہے۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ جیت اسی کی ہوتی ہے جسے ریفری جتانا چاہے سو آپ کا یہ ریفری حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ’آن‘ کے حق میں ہے (کہ اس ترکیب سے ’جان‘ بھی محفوظ رہے گی) تو چاہے جان چلی جائے (ذرا دیر کے لیے فرض کر ہی لیجیے) مگر سو روپے خرچ نہ کیے جائیں گے۔ اور جان کو بچانا بھی ان سو روپوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے، اس لیے ہم پندرہ دن تک روز چائے ناشتہ اور کھانا باری باری سے دوستوں کے یہاں کھاتے رہیں گے۔ اور حالات سازگار ہوئے تو کپڑے بھی دوسروں ہی کے استعمال کیے جائیں گے۔ بلکہ کوشش تو یہ ہو گی کہ کسی طرح مکان کا کرایہ، بجلی کا بل وغیرہ بھی چندہ کر کے ادا کر دیا جائے کہ سو روپے جمع کرنے اور صاحبِ جائیداد کہلانے کا یہی وحدہٗ لا شریک نسخہ ہے۔

    (طنز و مزاح نگار اور بھارتی ادیب شفیقہ فرحت کی شگفتہ تحریر)

  • دل کی بھڑاس نکلے ‘واٹس ایپ’ پر!

    دل کی بھڑاس نکلے ‘واٹس ایپ’ پر!

    فسادی مزاج لوگوں کے جھگڑے کے اپنے اپنے انداز ہیں۔ کوئی رُو بہ رُو، دُو بہ دُو اور تُو تڑاخ کر کے تسکین پاتا ہے تو کوئی غائبانہ فساد ڈالنے میں مہارت رکھتا ہے۔

    زمانے کے ارتقا کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچ اور رویوں میں بھی تبدیلی رونما ہو گئی۔ وہ جو کبھی ”گھر کی بات گھر میں رہے“ کے آرزومند ہُوا کرتے تھے اب دل کی بات بھی دل میں نہیں رکھ پاتے۔ یوں گھر کی بات گھر گھر پھیلتی ہے۔

    آج دنیا بھر میں‌ سماجی رابطے کا سب سے بڑا اور مقبول ذریعہ واٹس ایپ ہے جس کا اس حوالے سے فعال کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب سے واٹس ایپ پر فیملی گروپ کا رواج پڑا اور بڑھا ہے، انفرادی اور خاندانی جھگڑے یہیں نمٹائے جارہے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک ہی گھر کے مکینوں کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے یہی فیملی گروپ مؤثر اور کارآمد معلوم ہوتے ہیں۔

    ہم نے اہتمام کیا کہ خیر النساء کے ”برسوں کے تجربات“، اُن کی بڑی بہو تابندہ کے”صبح تڑکے دل لگتی باتیں“ چھوٹی بہو فراست کے ”آج کی سوغات“ اور خیر النساء کے بھائی نصیر کے”امن کی پُکار“ نامی گروپوں کے اسٹیٹس پر لگائی جانے والی گفتگو آپ کی نذر کریں۔

    ٭تابندہ٭ ”صبح تڑکے دل لگتی باتیں“: محبت کیجیے، محبت بانٹیے، محبت پائیے۔

    ٭فراست٭ ”آج کی سوغات‘‘: محبت کی تقسیم پر اپنے پرائے سب کا یکساں حق ہے۔

    ٭خیرالنساء٭ ”برسوں کے تجربات“: اتفاق میں برکت ہے۔

    لیکن پھر ہُوا یوں کہ تابندہ کے اسٹیٹس ”صبح سویرے دل پہ بیتی باتیں“ کے عنوان سے لگنے لگے۔ اب تابندہ دل کو چُھو لینے والے پیغامات کے بجائے دل پر بیتنے والی باتیں پیغامات کی صورت شیئر کر رہی تھیں، وہ بھی ایسے جو پڑھنے والوں کو چونکا دیتے تو فراست کے دل میں کانٹے بن کر چبھتے۔ کیونکہ وہ خوب جانتی تھیں کہ یہ پیغامات کس کے لیے ہیں لیکن چپ رہتیں۔ آخر کب تک؟ ایک دن تابندہ کا اسٹیٹس پڑھ کر فراست نے اپنی خاموشی توڑی اور ”نہلے پہ دہلا“ کے عنوان سے اسٹیٹس لگانے شروع کر دیے۔ ان بے لاگ اسٹیٹس کی وجہ سے دیورانی جیٹھانی میں بُری طرح ٹھن گئی۔ تابندہ کے سیر پر سوا سیر کا بٹہ مارنا فراست نے اپنا معمول بنا لیا۔

    ٭تابندہ٭ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا۔

    ٭فراست٭ معلوم نہیں کیوں لوگوں کو اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔

    ٭تابندہ٭ سو باتوں کی ایک بات۔ کھاؤ من بھاتا پہنو جگ بھاتا۔

    فراست٭ کمی نہیں ایسے لوگوں کی جو من بھاتا کھاتے ہیں سو کھاتے ہیں، مانگا تانگا بھی کھانے سے نہیں ہچکچاتے۔

    ٭تابندہ٭ تجھ کو پڑائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو۔

    فراست٭ آدھا تیتر، آدھا بٹیر، ہنسی روکوں تو کیسے روکوں۔

    ٭تابندہ٭ ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے

    ٭فراست٭ منہ اچھا نہ ہو نہ سہی۔ منہ سے نکلے بھلی بات کوئی

    ٭خیرالنساء٭ ”برسوں کے تجربات“: درگزر سے کام لو، دل صاف کرو، مل کر رہو، خوش رہو، لوگوں کے لیے مثال بنو۔

    ٭تابندہ٭ بات ہے پتے کی

    ٭فراست٭ عمل کی نوبت آئے تب۔ ورنہ؟

    ٭خیرالنساء٭ وہ نوبت بجے گی کہ دنیا دیکھے گی۔

    ٭فراست٭ دل میں چھپا ارمان تو یہی ہے لوگوں کے۔

    ٭خیرالنساء٭ کھانا پکائیں، اُبلا سُبلا اُبالا سُبالا، باتیں بگھاریں لذّت بھری۔

    اپنی ساس کے اسٹیٹس کے جواب میں فراست نے ”زندگی عذاب ٹرانسمیشن“ کے عنوان سے ساس کے برہمی کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان جاری کیا۔

    ٭فراست٭ صبح ناشتہ مع طعنہ۔ ظہرانہ دل جلانا۔ ہائے ہائے اور عصرانہ جاری ہُوا شکایت نامہ سنگ عشائیہ۔

    فراست کے اسٹیٹس نے تابندہ کے دل میں گلاب کھلا دیے۔ دیورانی سے شدید اختلافات کے باوجود فوری دل، ستارے اور پھول بھیج کر بھر پور داد دی، اس بیان کے ساتھ کہ بہو وہی اچھی جو ساس نامی بھڑ کے جتھے کو نہ چھیڑے ورنہ…..؟

    ٭فراست٭ انجام کی ذمہ دار آپ خود ہوں گی کیونکہ اس بھڑ کے جتھے میں ساس کی بد ذاتی کیفیات ذاتی رویوں کے ساتھ آپ کو ہلا کر رکھ دیں گی۔

    بہوؤں کے کاری واروں نے خیرالنساء کو اسٹیٹس کے نئے عنوان ”ساس کی للکار“ کے ہمراہ آنے پر مجبور کر دیا۔

    ٭خیرالنساء٭ طعنے بہوؤں کے سنوں اور کچھ بھی نہ کہوں
    ائی بہوؤں میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

    ٭فراست٭ نہ، نہ، نہ خاموش؟ ہر گز نہیں۔ خاموش رہ کر سینے پر مونگ دلنے سے بہتر ہے کہ بول کر بھڑاس نکال لی جائے۔

    ٭تابندہ٭ سکوتِ شہرِ سخن میں وہ آگ سا لہجہ
    سماعتوں کی فضا نار نار کر دے گا

    ٭خیرالنساء٭ با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب۔
    ٭فراست٭ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
    یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

    ٭تابندہ٭ دن بھر دل جلاتے رہنے والے تہذیب کے دیے جلاتے بھلے نہیں لگتے۔

    ٭خیرالنساء٭ اولاد کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔

    ٭فراست٭ اور بہو کی ساس بنتے ہی ماں اس تربیت گاہ کے پرخچے اُڑا دیتی ہے اور اولاد کو تتر بتر کر دیتی ہے۔

    ٭تابندہ٭ بڑے جب چھوٹوں سے بڑھ کر چھوٹے بن جائیں تب ایسا ہی ہوتا ہے۔

    ٭خیرالنساء٭ جس کا جتنا ظرف ہے اُتنا ہی وہ خاموش ہے۔

    ٭فراست٭ دریا میں کنکر مارنے والے کریں سمندر کے سکوت کا تذکرہ۔ واہ بھئی

    ٭تابندہ٭ بیٹا اگر محبت سے شریکِ حیات کو تحفہ دے تو خوشی کا اظہار کرنا چاہیے نہ کہ آگ بگولہ ہوں۔

    ٭فراست٭ داماد بیٹی کو تحفہ دے تو نگاہوں تک سے بیٹی کی آرتی اُتار لی جاتی ہے اور………

    ٭تابندہ٭ خالی جگہ پُر کریں۔

    ٭فراست٭ بیٹا بہو کو مسکرا کر بھی دیکھ لے تو لفظوں کے تیروں سے بہو کا کلیجہ چھلنی کر دیں۔

    ٭خیرالنساء٭ جلنے والے اپنی ہی آگ میں بھسم ہو جاتے ہیں۔

    ٭تابندہ٭ لے ساس بھی شائستہ کہ ظالم ہے بہت کام
    آفات کی اس پُڑیا کی تیشہ گری کا

    ٭فراست٭ چار دن ساس کے تو چار دن بہو کے۔

    جب اسٹیٹس کی جنگ کے شعلے زیادہ شدت سے بلند ہونے لگے تو خیرالنساء کے ہر دلعزیز اور صلح جُو بھائی نصیر کا اسٹیٹس ”امن کی پکار“کے نام سے آگیا۔

    ٭نصیر٭ نہ وہ بہوؤں میں لحاظ رہا
    نہ شرم ہے ساس کی زبان میں
    اپنی عزت اپنے ہی ہاتھوں اُچھالنے والوں کو اب سنبھل جانا چاہیے۔

    ٭فراست٭ نیک قدم بڑے اُٹھائیں گے تو چھوٹے وہی راہ اختیار کریں گے۔

    ٭تابندہ٭ لیکن جب بڑے بچوں کو بھی مات دے دیں تب یہ ناممکن ہے۔

    ٭خیرالنساء٭ شعلوں کو ہوا دینے والے کیسے آگ بجھا سکتے ہیں؟

    ٭نصیر٭ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

    ٭فراست٭ ستائش بیٹیوں کے لیے اور آزمائش بہوؤں کے لیے ہو تو صبر کا پیمانہ لبریز ہو ہی جاتا ہے۔

    ٭تابندہ٭ اور جب چھلکتا ہے تو کیسا ادب؟ کیسی محبت؟

    ٭خیرالنساء٭ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔

    ٭نصیر٭ جتنا بات کو بڑھائیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔

    ٭تابندہ٭ بعض لوگوں پر اپنے نام کا اثر ہی نہیں ہوتا۔

    ٭فراست٭ ہو بھی کیسے جب دل میں شر کے شرارے اور دماغ میں بدی کا طوفا ن اُٹھ رہا ہو۔

    ٭خیرالنساء٭ خیر و شر کی جنگ میں فتح ہمیشہ خیر کی ہوتی ہے۔

    ٭نصیر٭ معافی سے بڑا انتقام اور کوئی نہیں۔

    ٭خیرالنساء٭ بڑوں ہی کو دل بڑا کرنا پڑتا ہے۔

    ٭تابندہ٭ جب بڑے آغاز کریں تو چھوٹے بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں۔

    ٭فراست٭ اور چھوٹوں کا کام ہی بڑوں کی تقلید ہے۔ جیسا بوئیں گے ویسا ہی کاٹیں گے۔

    ٭نصیر٭ بقول رابرٹ بینلن ”محبت تب ہوتی ہے جب کسی کی خوشی آپ کی خوشی کے لیے لازمی شرط ہو۔“

    ٭خیرالنساء٭ محبت میں اخلاص اور دوستی بھی شامل ہو تو محبت کا حسن بڑھ جاتا ہے۔ اور میں اسی احساس کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہوں۔

    ٭تابندہ٭ اگر ایسا ہے تو آج ہی سے ”ساس ہے میری سہیلی۔“

    ٭فراست٭ دوستی ایسا ناتا جو سونے سے بھی مہنگا۔

    ٭نصیر٭ محبت کے دیے جلا لو، وفا کے گیت گنگنا لو تقاضہ ہے یہ زندگی کا۔

    ٭خیرالنساء٭ مسکراتا رہے آشیانہ۔

    (کثیرالاشاعت روزناموں میں شائستہ زریں کی مفید اور بامقصد تحریریں، افسانے اور سروے رپورٹیں‌ شایع ہوتی رہتی ہیں، انھوں نے ریڈیو کے لیے سنجیدہ اور شگفتہ تحریروں کے ساتھ کئی فیچر اسٹوریز بھی لکھی ہیں)

  • ’گاندھی جی‘ کا مجسمہ اور ”ایلفی“

    دارالخلافہ اسلام آباد ابھی پاکستان کے نقشہ پر نہیں ابھرا تھا اور کراچی ہی ’دارالخون خرابا‘ تھا۔

    کراچی کا نقشہ ہی نہیں، تلفظ اور اِملا تک گنوارو سا تھا۔ زکام نہ ہو تب بھی لوگ کراچی کو ’کرانچی‘ ہی کہتے تھے۔

    چیف کورٹ کے سامنے ’گاندھی جی‘ کا ایک نہایت بھونڈا مجسمہ نصب تھا، جس کی کوئی چیز گاندھی جی سے مشابہت نہیں رکھتی تھی۔ سوائے لنگوٹی کی سلوٹوں کے۔ گوانیر جوڑے وکٹوریہ گاڑی میں بندر روڈ پر ہوا خوری کے لیے نکلتے اور نورانی شکل کے پیرانِ پارسی شام کو ایلفنسٹن اسٹریٹ کی دکانوں کے تھڑوں پر ٹھیکی لیتے۔ ایلفنسٹن اسٹریٹ پر کراچی والوں کو ابھی پیار نہیں آیا تھا اور وہ ”ایلفی“ نہیں کہلاتی تھی۔

    سارے شہر میں ایک بھی نیو سائن نہ تھا۔ اس زمانے میں خراب مال بیچنے کے لیے اتنی اشتہار بازی کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ نیپئر روڈ پر طوائفوں کے کوٹھے، ڈان اخبار کا دفتر اور اونٹ گاڑیوں کا اڈّا تھا۔ یہاں دن میں اونٹ گاڑیوں کا اوّل الذکر حصّہ کلیلیں کرتا اور رات کو تماش بین۔ اہلِ کمال اس زمانے میں بھی آشفتہ حال پھرتے تھے۔ کچھ ہماری طرح تھے کہ محض آشفتہ حال تھے۔ شریف گھرانوں میں جہیز میں سنگر مشین، ٹین کا ٹرنک اور بہشتی زیور دیا جاتا تھا۔

    اردو غزل سے معشوق کو ہنوز شعر بدر نہیں کیا گیا تھا اور گیتوں اور کجریوں میں وہی ندیا، نِندیا اور نَندیا کا رونا تھا۔ میٹھانیوں اور اونچے گھرانوں کی بیگمات نے ابھی ساریاں خریدنے اور ہندوستانی فلمیں دیکھنے کے لیے بمبئی جانا نہیں چھوڑا تھا۔ ڈھاکا اور چٹاگانگ کے پٹ سن کے بڑے تاجر ”ویک اینڈ“ پر اپنی آرمینین داشتاؤں کی خیر خیریت لینے اور اپنی طبیعت اور امارت کا بار ہلکا کرنے کے لیے کلکتے کے ہوائی پھیرے لگاتے تھے۔

    کیا زمانہ تھا، کلکتے جانے کے لیے پاسپورٹ ہی نہیں، بہانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی۔ آم، کیلا اور شاعر ہندوستان سے اور لٹھا جاپان سے آتا تھا۔ بینکوں میں ابھی ایئرکنڈیشنر، میز پر فنانشل ٹائمز، ایرانی قالین، سیاہ مرسیڈیز کار، قلم چھوڑ ہڑتال، رشوت، آسٹن ریڈ کے سوٹ، مگرمچھ کی کھال کے بریف کیس اور اتنی ہی موٹی ذاتی کھال رکھنے کا رواج نہیں ہوا تھا۔ فقیر ابھی ہاتھ پھیلا پھیلا کر ایک پیسہ مانگتے اور مل جائے، تو سخی داتا کو کثرت اولاد کی ’بد دعا‘ دیتے تھے۔ اور یہ فقیر پُرتقصیر اپنی اوقات کو نہیں بھولا تھا۔ کنڈوں کی آنچ پر چکنی ہانڈی میں ڈوئی سے گھٹی ہوئی ارد کی بے دھلی دال چٹخارے لے لے کر کھاتا اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا تھا۔

    میں اپنے شہر (کراچی) کی برائی کرنے میں کوئی بڑائی محسوس نہیں کرتا۔ لیکن میرا خیال ہے جو شخص کبھی اپنے شہر کی برائی نہیں کرتا وہ یا تو غیر ملکی جاسوس ہے یا میونسپلٹی کا بڑا افسر! یوں بھی موسم، معشوق اور حکومت کا گِلہ ہمیشہ سے ہمارا قومی تفریحی مشغلہ رہا ہے… اس میں شک نہیں کہ ریڈیو کی گڑگڑاہٹ ہو یا دمہ، گنج ہو پاؤں کی موچ، ناف ٹلے یا نکسیر پھوٹے، ہمیں یہاں ہر چیز میں موسم کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ بلغمی مزاج والا سیٹھ ہو یا سودائی فن کار، ہر شخص اسی بُتِ ہزار شیوہ کا قتیل ہے۔ کوئی خرابی ایسی نہیں جس کا ذمہ دار آب و ہوا کو نہ ٹھہرایا جاتا ہو (حالانکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے موسم خراب لگتا ہے۔)

    (از قلم: مشتاق احمد یوسفی)

  • کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے!

    کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے!

    کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔ اس سے ساکنان کوہِ مری کی دل آزاری نہیں، بلکہ عروسُ البلاد کراچی کی دلداری مقصود ہے۔

    کبھی کبھار شہرِ خوباں کا درجۂ حرارت جسم کے نارمل درجۂ حرارت سے دو تین ڈگری نیچے پھسل جائے تو خوبانِ شہر لحاف اوڑھ کر ایئر کنڈیشنر تیز کر دیتے ہیں۔ یہ خوبی صرف کراچی کے متلون موسم میں دیکھی کہ گھر سے جو لباس بھی پہن کر نکلو، دو گھنٹے بعد غلط معلوم ہوتا ہے۔

    لوگ جب اخبار میں لاہور اور پنڈی کی شدید سردی کی خبریں پڑھتے ہیں تو ان سے بچاؤ کے لیے بالو کی بھنی مونگ پھلی اور گزک کے پھنکے مارتے ہیں۔ ان کے بچّے بھی انہی پر پڑے ہیں۔ بادِ شمال اور گوشمالی سے بچنے کے لیے اونی کنٹوپ پہن کر آئس کریم کھاتے اور بڑوں کے سامنے بتیسی بجاتے ہیں۔

    کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے۔ نووارد حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ جاڑا ہے تو اللہ جانے گرمی کیسی ہوتی ہو گی۔ بیس سال سرد و گرم جھیلنے کے بعد ہمیں اب معلوم ہوا کہ کراچی کے جاڑے اور گرمی میں تو اتنا واضح فرق ہے کہ بچّہ بھی بتا سکتا ہے۔ 90 ڈگری ٹمپریچر اگر مئی میں ہو تو یہ موسمِ گرما کی علامت ہے۔ اگر دسمبر میں ہو تو ظاہر ہے کہ جاڑا پڑ رہا ہے۔ البتہ جولائی میں 90 ڈگری ٹمپریچر ہو اور شام کو گرج چمک کے ساتھ بیوی برس پڑے تو برسات کا موسم کہلاتا ہے۔ غالباً کیا یقیناً ایسے ہی کم نیم گرم، کنکنے کراچوی جاڑے سے اکتا کر نظیر اکبرآبادی نے تمنا کی تھی،

    ہر چار طرف سے سردی ہو اور صحن کھلا ہو کوٹھے کا
    اور تن میں نیمہ شبنم کا، ہو جس میں خس کا عطر لگا
    چھڑکاؤ ہوا ہو پانی کا، اور خوب پلنگ بھی ہو بھیگا
    ہاتھوں میں پیالہ شربت کا، ہو آگے اک فراش کھڑا
    فراش بھی پنکھا جلتا ہوا، تب دیکھ بہاریں جاڑے کی

    تین چار سال بعد دو تین دن کے لیے سردی کا موسم آجائے تو اہلِ کراچی اس کا الزام ’’کوئٹہ ونڈ‘‘ پر دھرتے ہیں اور کوئٹہ کی سردی کی شدت کو کسی سیم تن کے ستر نما سوئٹر سے ناپتے ہیں۔ کراچی کی سردی بیوہ کی جوانی کی طرح ہوتی ہے۔ ہرایک کی نظر پڑتی ہے اور وہیں ٹھہر بلکہ ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔

    ادھر کوئٹہ میں جب دستانے، کمبل، مفلر اور سمور کے انبار میں سے صرف چمکتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا ناممکن ہوجائے کہ ان کے جنوب میں مونچھ ہے یا پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے، تو کوئٹہ والے اس گھپلے کا ذمہ دار قندھاری ہوا کو ٹھیراتے ہیں اور جب قندھار میں سائبیریا کی زمہریری ہواؤں سے درختوں پر اناروں کی بجائے برف کے لڈو لٹکتے ہیں، گوالے گائے کے تھنوں سے آئس کریم دوہتے ہیں، اور سردی سے تھر تھر کانپتے ہوئے انسان کے دل میں خود کو واصل جہنم کرنے کی شدید خواہش ہوتی ہے، تو اہالیانِ قندھار کمبل سے چمٹ کر ہمسایہ ملک کی طرف غضب ناک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔

    چھوٹے ملکوں کے موسم بھی تو اپنے نہیں ہوتے۔ ہوائیں اور طوفان بھی دوسرے ملکوں سے آتے ہیں۔ زلزلوں کا مرکز بھی سرحد پار ہوتا ہے۔

    (اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے مضمون "سبق یہ تھا پہلا کتاب ربا کا” سے اقتباسات)