Tag: مزاحیہ تحریریں

  • اشیاء بدل بہن!

    اشیاء بدل بہن!

    بعض لوگ کوئی نہ کوئی علّت پال لیتے ہیں۔ روشن بھی انہی میں سے ایک ہے جو بہنیں بنانے کی علّت کا شکار ہے۔ وہ اپنے اخلاص اور محبت کی تمام روشنی اپنی ایسی بہنوں میں منتقل کر کے بہت خوش نظر آتی ہے۔

    سچ تو یہ ہے کہ نئے اور ایسے انوکھے رشتے بنانا آسان مگر بنا کر نباہنا سہل نہیں ہوتا بلکہ یہ ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں ہوتی لیکن روشن، روشن ہی ہے جو اپنے کسی خیال پر تاریکی کا سایہ تک نہیں پڑنے دیتی بلکہ نام کی طرح اُس کی سوچ کی کرنیں بھی اپنے عمل سے روشنی بکھرتی رہتی ہیں۔

    روشن کا کمال یہی ہے۔ وہ نبھانا خوب جانتی ہے۔ ہر نئی بہن سے غضب کا بہناپا ہوتا ہے اور اس سے بڑا ہنر ہے مساوی تقسیم کہ دیکھ کر تعجب ہی نہیں ہوتا بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ کسی سے سلوک میں رتی برابر بھی فرق نہیں کرتی۔ یہ فن تو ہماری روشن پر تمام ہے تمام۔

    کسی محفل میں چلے جائیے اور وہاں روشن بھی ہوں تو ان کی کوئی نہ کوئی بہن ضرور نظر آجائے گی اور یوں بھی ہوتا ہے جب تک روشن گھر واپسی کی راہ پکڑتی ہیں ان کے دل میں ایک اور بہن کی آمد اور محبت کے چراغ روشن ہو چکے ہوتے ہیں۔ صرف دوپٹہ بدل بہنوں کی تعداد سات ہے اور بھی کئی اشیاء بدل بہنیں ہیں۔ بہت ہی حرافہ ہے میری یہ نند، روشن جس کا نام ہے۔ بَڑھیا دوپٹوں کے عوض اپنا معمولی دوپٹہ دے کر دوپٹہ بدل بہن بن کر سُرخرو ہو جاتی ہے۔

    روشن کے گھر کبھی کسی تقریب میں چلی جاؤ، ان کی ایسی بہنوں کا میلہ ضرور لگتا ہے۔ ان کی اکثریت سے میری بھی شناسائی ہے۔ گزشتہ ماہ روشن کی ایسی ہی کئی بہنوں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں ایک نیا چہرہ بھی نظر آیا جس پر روشن جی جان سے نثار ہو رہی تھیں۔ تعارف پر میں چونکی جب روشن نے کہا ’’بھابھی بیگم ان سے ملیے یہ میری ڈبہ بدل ہیں۔“

    ”اَیں کون سی بہن؟ مجھے اپنی سماعت پر کچھ شک سا گزرا۔ میری کیفیت دیکھتے ہوئے روشن نے بے ہنگم قہقہے لگاتے ہوئے داستانِ ملن یوں سنائی کہ ”بھابھی بیگم! ہُوا یوں کہ کل میں بازار گئی تھی، لان کے سوٹ لینے۔ عجلت میں ہمارے ڈبے بدل گئے۔ گھر آکر جو دیکھا تو میرا لیا ہوا ایک بھی سوٹ اس میں نہیں، بھاگم بھاگ بوتیک پہنچی۔ وہاں یہ بھی لشتم پشتم آ موجود۔ ہم نے ڈبوں کا تبادلہ کیا اور آن کی آن میں ہم ڈبہ بدل بہنیں بن گئیں۔“

    اپنی نوعیت کے اس انوکھے ملن نے مجھے دنوں حیرت میں مبتلا رکھا۔ ابھی میں اس حیرانی سے سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ روشن نے اپنے نئے بنگلے کی خوشی میں ایک تقریب کا انعقاد کیا، جہاں دو خواتین روشن کی خصوصی توجہ کا مرکز تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی روشن لپک کر میرے پاس آئیں اور ان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ”بھابھی بیگم! وہ جو سبز ساڑھی میں ہیں نا وہ میری بنگلہ بدل بہن ہیں جنھوں نے میرا وہ والا بنگلہ خریدا ہے اور وہ جو سرخ اور سفید پشواز میں بالکل انارکلی لگ رہی ہیں، اُن سے میں نے یہ والا بنگلہ خریدا ہے، آئیے آپ کو اپنی بنگلہ بدل بہنوں سے ملواؤں۔“

    ابھی روشن نے قدم آگے بڑھائے ہی تھے کہ کسی کے فوری بلاوے پر اس کی جانب بڑھ گئی۔ میری بڑی بیٹی صفیہ اس معاملے میں پھوپھی پر گئی ہے۔ کمبخت کی صورت ہی نہیں حرکات بھی ددھیالی ہیں، دوسری روشن ہے۔ ابھی صرف سولہ برس کی ہے اور تین اشیاء بدل بہنیں بنا چکی ہے۔ جانے آگے جا کر کیا گل کھلائے گی۔ میری تو ابھی سے طبیعت گھبرانے لگی ہے۔

    اور پھر اس وقت رفیعہ بیگم جو روشن کی بھابھی ہیں، ان کی روانی سے چلتی ہوئی زبان رک گئی۔ ان کی چھوٹی بھابھی نے بھری محفل میں انہیں آئینہ دکھا دیا تھا۔

    ”آپا جان آپ کی زبان کو تو لگام ہی نہیں، میرٹھ کی قینچی بھی کیا تیز چلتی ہوگی جیسی آپ کی زبان چلتی ہے۔ بیچاری روشن باجی کو بہنیں بنانے کا شوق ہی تو ہے اور تو کوئی برائی نہیں۔“

    ”ہاں بیٹا ایک ہی شوق ہے اور وہ بھی ایسا کہ جو ”لاعلاج مرض“ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔“ رفیعہ نے کہا۔

    ”آپا جان اس میں بُرائی ہی کیا ہے؟ روشن باجی دل کی بہت اچھی ہیں، انہوں نے کبھی کسی کی برائی نہیں کی اور سنا تو میں نے یہی ہے کہ روشن باجی کے اس شوق نے ہی توآپ کو اُن کی بھابھی بنایا ہے۔ نہ روشن باجی آپ کو کتاب بدل بہن بناتیں اور نہ ہی آج آپ اُن کی بھابھی کہلاتیں۔ نہ آپ پہلی مرتبہ بہن بنانے پر اُن کی حوصلہ افزائی کرتیں نہ روشن باجی اس شوق کو پروان چڑھاتیں، اب بھگتیے۔“

    ”ہاں بیٹا بھگت ہی تو رہی ہوں اور جانے کب تک بھگتوں گی، وہ کتاب تو آج تک نہ پڑھی جس کے بدلے پہلے ان کی بہن اور پھر بھاوج بنی، لیکن روشن کے بھیا کی کتاب زیست پڑ ھ پڑھ کر عاجز آگئی، اتنا اُلجھاؤ کہ اللہ میری توبہ۔ ہائے کیا بھلی کتاب تھی جو روشن نے مجھ سے بدلی تھی، اس کا سرورق بھی تو ڈھنگ سے نہیں دیکھ پائی تھی۔ اور وہ کتاب جو روشن نے مجھے دی تھی، بھابھی بناتے ہی مجھ سے ہتھیا لی۔ ہائے میری چالاک نند میں کتنی بھولی تھی۔“

    رفیعہ خاموش ہوئیں تو اُن کی بھابھی نے اُنہیں ماضی بعید سے ماضی قریب میں لاتے ہوئے کہا، ”آپا جان آپ نے بھی تو مجھے بیٹی بنا کر بھابھی بنا ڈالا مگر میں تو بُرا نہیں منایا۔ ہائے میں کتنی معصوم تھی۔“

    چھوٹی بھاوج کی شرارت پر جو اُنھیں، مثل بیٹی کے عزیز تھی رفیعہ بیگم مسکرا دیں تو روشن جو جانے کب سے وہاں کھڑی ان مکالموں سے لطف اندوز ہو رہی تھیں مسکراتے ہوئے آگے بڑھیں اور ”بھابھی بیگم! بہن نہیں ہیں“ کہہ کر اُن سے لپٹ گئیں۔ رفیعہ بھی ہنس دیں۔

    ”وہ تو میں ہوں بلکہ حرفِ اوّل تو میں ہی ہوں، مجھے پہلی مرتبہ دیکھتے ہی تمہارے دل میں بہن بنانے کی ہڑک اُٹھی تھی۔ اللہ تمہارے اس شوق میں دن دگنی رات چوگنی ترقی دے، مگر اللہ کے واسطے اپنی بھتیجی کو اس علت سے نجات دلا دو۔ تمہاری احسان مند رہوں گی۔“

    ”بھابھی بیگم! یہ ممکن نہیں کیونکہ ہفتہ بھر پہلے جو لڑکی ہماری صفیہ کی دوپٹہ بدل بہن بنی تھی، کل اس کی امی آئی تھیں صفیہ کے لیے۔ گھرانا بہت اچھا ہے اور لڑکا بھی۔“ روشن کے انکشاف پر رفیعہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ یعنی؟ ’جی ہاں بھابھی بیگم تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، بس جغرافیہ بدل گیا ہے۔“

    ”اللہ کی رضا یہی ہے تو میں کیا کرسکتی ہوں، پَر صفیہ کو سمجھا دو کہ شادی کے بعد جو جی چاہے کرے، جتنی چاہے اشیاء بدل بہنیں بنائے ابھی تو مجھے بخش دے۔“

    رفیعہ بیگم نے ہاتھ جوڑدیے تو روشن کھلکھلا کر ہنس دیں۔ ”امی بھی تو مجھ سے یہی کہتی تھیں، میں نے بھی جی بھر کر بھراس نکالی۔“

    ”اور تمہاری طبیعت ابھی تک نہیں بھری۔“ بھابھی بیگم نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو وہ ہنس دی، ”ارے بھابھی اشیاء بدل بہن بنا کر تو دیکھیں، کتنا لطف آتا ہے ایسے رشتے ناتے جوڑنے میں۔ ابھی ابھی میری ایک کیبل بدل بہن بنی ہیں آپ تو جانتی ہیں… مجھے ”مصالحہ“ کی چاٹ پڑی ہے اور انھیں ”ذائقہ“ کا لپکا ہے۔ وہ پڑوسی ملک کے ڈراموں کی دیوانی ہیں اور مجھے پاکستانی ڈرامے بھاتے ہیں، اس لیے آج سے ہم کیبل بدل بہنیں بن گئی ہیں۔“

    روشن اطلاع دے کر آگے بڑھی تو میں سرد آہ بھر کر رہ گئی۔ اس کے علاوہ میں کر بھی کیا سکتی ہوں، اپنی کرنی تو مجھے بھرنی ہی ہے۔ نند کے ساتھ ساتھ اب بیٹی بھی تو اس راہ کی مسافت طے کر رہی ہے۔

    (مضون نگار اور فیچر رائٹر شائستہ زرّیں کے قلم کی شوخی)

  • مرزا غالب: خدا نے انھیں دونوں جہان دے دیے تھے

    مرزا غالب: خدا نے انھیں دونوں جہان دے دیے تھے

    آپ مرزا کے مختصر سوانح حیات سنیے، بخوفِ طوالت صرف چند واقعات کے بیان پر ہی اکتفا کروں گا جو عام محققوں اور تذکرہ نویسوں کی نظر سے اوجھل رہے۔

    مرزا کی زندگی اگرچہ عسرت میں گزری تھی لیکن اس کے لیے اللہ میاں ذمہ دار نہ تھے، خود مرزا کو اقرار ہے کہ خدا نے انھیں دونوں جہان دے دیے تھے۔ سنیے،
    دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
    یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں

    سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ دونوں جہاں گئے کہاں؟ جواب مرزا کے اس شعر میں موجود ہے:
    لو وہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ و نام ہے
    یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں

    پس دونوں جہان بھی گھر کے ساتھ ہی لٹا دیے ہوں گے۔

    غالب کا گھر نہ صرف ویران تھا بلکہ اس میں ویرانی سی ویرانی تھی۔ چنانچہ:
    کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
    دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

    لیکن یہ گھر وسیع نہ تھا اور مرزا کو ورزش کے لیے یا شاید گیند بلاّ کھیلنے کے لیے بہت کھلی جگہ کی ضرورت تھی، اس لیے جنگل میں جارہے تھے، فرماتے ہیں:
    کم نہیں وہ بھی خرابی میں پہ وسعت معلوم
    دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں

    جنگلوں کی زندگی مرزا کو بہت عزیز تھی اور انھوں نے اپنے گھر کو طاقِ نسیاں پر رکھ کر قفل لگا دیا تھا۔ مرزا کے پاؤں میں چکر تھا، وہ کسی جگہ بیٹھ نہیں سکتے تھے۔ جب چلتے چلتے پاؤں میں چھالے پڑ جاتے تو اس وقت انھیں جھاڑ جھنکاڑ کی تلاش ہوتی تھی۔ کانٹوں کو دیکھ کر آپ کا دل مسرت و شادمانی کے جھولے میں جھولنے لگتا تھا۔ کہتے ہیں:
    ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
    جی خوش ہوا ہے راہ کو پُرخار دیکھ کر

    مرزا بڑے سادہ لوح اور صاف دل انسان تھے۔ اکثر ایسی حرکتیں کر بیٹھتے جن کا نتیجہ ان کے حق میں بہت برا ہوتا تھا۔ چنانچہ ایک دن محبوب کی گلی میں بیٹھے بیٹھے کسی ذرا سی غلطی پر پاسبان سے اپنی چندیا گنجی کرا لی، اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے:
    گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئی
    اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے

    ایک مرتبہ خود محبوب کے ہاتھوں سے بھی پٹے مگر چوں کہ قصور اپنا تھا اس لیے نہایت ایمان داری سے اعتراف بھی کرلیا کہ
    دھول دھپّا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
    ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایک دن

    اس سادہ لوحی کی بدولت ایک دن محبوب کی حد سے زیادہ تعریف کر کے ایک راز دار کو رقیب بنا لیا، ثبوت ملاحظہ ہو:
    ذکر اس پری وش کا اور پھر بیان اپنا
    بن گیا رقیب آخر تھا جو راز داں اپنا

    لیکن دیوانہ بکار خویش ہشیار کبھی کبھی رقیب کو جل بھی دے جاتے:
    تا کرے نہ غمازی کر لیا ہے دشمن کو
    دوست کی شکایت میں ہم نے ہمزباں اپنا

    مرزا نجوم اور جوتش کے نہ صرف قائل تھے بلکہ محبت کے معاملوں میں بھی جوتشیوں سے پوچھ گچھ کرتے رہتے تھے، اسی لیے کہا ہے:
    دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
    اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

    غالب کا دل عام لوگوں کی طرح خون کا قطرہ یا گوشت کا لوتھڑا نہ تھا بلکہ آفت کا ایک بڑا سا ٹکڑا تھا۔ اس میں کئی جگہ ٹیڑھ میڑھ تھے اور وہ ہروقت شوروغل مچائے رکھتا تھا۔ مرزا بھی اس کی آوارگی کے ہمیشہ شاکی رہتے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے:
    میں اور اک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی کہ ہے
    عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا

    مرزا کبھی کبھی اپنے اس دل سے کام بھی لے لیا کرتے تھے۔ مثلاً ایک دفعہ محبوب کی تمنا کہیں آپ کے ہتھے چڑھ گئی۔ آپ نے جی بھر کے انتقام لیے اور دل کے شور و غل کے ذریعے اس بے چاری کے کانوں کے پردے پھٹے جاتے تھے۔ رات دن دل میں چکر کاٹتی مگر باہر نکلنے کا راستہ نہیں ملتا۔ آخر ایک دن خود اس پر ترس کھا کر محبوب سے درخواست کی ہے:
    ہے دلِ شوریدۂ غالب طلسمِ پیچ و تاب
    رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے

    لیکن خدا کے فضل و کرم سے مرزا کو جلد ہی اس سے رہائی مل گئی۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے سوزِ نہاں کا دورہ ہوا اور سارے کا سارا دل بے محابا جل گیا۔ اس حادثۂ فاجعہ کا ذکر مرزا نے یوں کیا ہے:
    دل مرا سوزِ نہاں سے بے محابا جل گیا
    آتشِ خاموش کی مانند گویا جل گیا

    بد قسمتی سے مرزا کے ناخن بہت جلد بڑھتے تھے۔ چنانچہ دل کا زخم ابھی بھرنے بھی نہ پاتا تھاکہ ناخنوں کے کھرپے پھر تیز ہوجایا کرتے تھے، فرماتے ہیں:
    دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
    زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا

    (ہری اختر چند کی شگفتہ بیانی، مضمون غالب اپنے کلام کے آئینے میں سے مقتبس)

  • "ہمارا عقیدہ”

    "ہمارا عقیدہ”

    دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آرہی ہے کہ انڈہ پہلے آیا یا مرغی۔

    کچھ لوگ کہتے ہیں انڈہ۔ کچھ کا کہنا ہے مرغی۔ ایک کو ہم مرغی اسکول یا فرقۂ مرغیہ کہہ سکتے ہیں۔ دوسرے کو انڈہ اسکول۔ ہمیں انڈہ اسکول سے منسلک سمجھنا چاہیے۔ ملّتِ بیضا کا ایک فرد جاننا چاہیے۔ ہمارا عقیدہ اس بات میں ہے کہ اگر آدمی تھانے دار یا مولوی یعنی فقیہِ شہر ہو تو اس کے لیے مرغی پہلے اور ایسا غریبِ شہر ہو تو اس کے لیے انڈہ پہلے اور غریبِ شہر سے بھی گیا گزرا ہو تو نہ اس کی دسترس مرغی تک ہوسکتی ہے نہ انڈہ اس کی گرفت میں آسکتا ہے۔ اسے اپنی ذات اور اس کی بقا کو ان چیزوں سے پہلے جاننا چاہیے۔

    (ابنِ انشا کی شگفتہ تحریر سے انتخاب)

  • ہم اور ہمارا امتحان

    ہم اور ہمارا امتحان

    نہ ہوئی گر میرے پرچوں سے تسلی نہ سہی
    امتحاں اور بھی باقی ہے تو یہ بھی نہ سہی

    لوگ امتحان کے نام سے گھبراتے ہیں لیکن مجھے ان کے گھبرانے پر ہنسی آتی ہے۔ آخر امتحان ایسا کیا ہوّا ہے۔ دو ہی صورتیں ہیں ’فیل یا پاس‘ اس سال کام یاب نہ ہوئے آئندہ سال سہی۔

    میں اپنے دوستوں اور ہم جماعتوں کو دیکھتا تھا کہ جوں جوں امتحان کے دن قریب آتے جاتے ان کے حواس پر، ان کا دماغ مختل اور ان کی صورت اتنی سی نکلتی آتی تھی۔ بندۂ درگاہ پر امتحان کا رتّی برابر اثر پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ گو امتحان سے فارغ ہو چکا ہوں لیکن اب بھی اس کے ختم ہو جانے کا افسوس ہے۔ امیدواروں کا مجمع، نئی نئی صورتیں، عجیب عجیب خیالات، یہ ایسی چیزیں ہیں جن سے کبھی دل سیر نہیں ہو سکتا۔ جی چاہتا ہے کہ تمام عمر امتحان ہوئے جائے لیکن پڑھنے اور یاد کرنے کی شرط اٹھا دی جائے۔

    میری سنیے کہ دو سال میں لاء کلاس کا کورس پورا کیا۔ مگر کس طرح؟ شام کو یاروں کے ساتھ ٹہلنے نکلتا، واپسی کے وقت لاء کلاس میں بھی جھانک آتا۔ منشی صاحب دوست تھے اور لکچرار صاحب پڑھانے میں مستغرق۔ حاضری کی تکمیل میں کچھ دشواری نہ تھی۔ اب آپ ہی بتائیے کہ لاء کلاس میں شریک ہونے سے میرے کس مشغلے میں فرق آ سکتا تھا؟ والد صاحب قبلہ خوش تھے کہ بیٹے کو قانون کا شوق ہو چلا ہے۔ کسی زمانے میں بڑے بڑے وکیلوں کے کان کترے گا۔ ہم بھی بے فکر تھے کہ چلو دو برس تک تو کوئی محنت کے لیے کہہ نہیں سکتا۔ بعد میں دیکھیے کون جیتا ہے اور کون مرتا ہے۔ لیکن زمانہ آنکھ بند کیے گزرتا ہے۔ دو سال ایسے گزر گئے جیسے ہوا۔ لاء کلاس کا صداقت نامہ بھی مل گیا۔

    اب کیا تھا والدین امتحانِ وکالت کی تیاری کے لیے سَر ہو گئے مگر میں بھی ایک ذات شریف ہوں۔ ایک بڑھیا اور ایک بڈھے کو دھوکا دینا کیا بڑی بات ہے۔ میں نے تقاضا کیا کہ علاحدہ کمرہ مل جائے تو محنت کروں۔ بال بچّوں کی گڑبڑ میں مجھ سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ چند روز اسی حیلے سے ٹال دیے۔ لیکن تابکے!

    بڑی بی نے اپنے سونے کا کمرہ خالی کر دیا۔ اب میں دوسری چال چلا۔ دروازوں میں جو شیشے تھے ان پر کاغذ چپکا دیا۔ لیمپ روشن کر کے آرام سے سات بجے سو جاتا اور صبح نو بجے اٹھتا۔ اگر کسی نے آواز دی اور آنکھ کھل گئی تو ڈانٹ دیا کہ خواہ مخواہ میری پڑھائی میں خلل ڈالا جاتا ہے۔ اگر آنکھ نہ کھلی اور صبح کو سونے کا الزام لگایا گیا تو کہہ دیا کہ میں پڑھتے وقت کبھی جواب نہ دوں گا، آئندہ کوئی مجھے دق نہ کرے۔ بعض وقت ایسا ہوا کہ لیمپ بھڑک کر چمنی سیاہ ہو گئی اور میری زیادہ محویت اور محنت کا نتیجہ سمجھی گئی۔ بعض وقت والد، والدہ کہتے بھی تھے کہ اتنی محنت نہ کیا کرو لیکن میں زمانے کی ترقی کا نقشہ کھینچ کر ان کا دل خوش کر دیا کرتا تھا۔

    خدا خدا کر کے یہ مشکل بھی آسان ہوگئی اور امتحان کا زمانہ قریب آیا۔ میں نے گھر میں بہت کہا کہ ابھی میں امتحان کے لیے جیسا چاہیے ویسا تیار نہیں ہوں لیکن میری مسلسل حاضری، لاء کلاس اور شبانہ روز کی محنت نے ان کے دلوں پر سکّہ بٹھا رکھا تھا۔ وہ کب ماننے والے تھے۔ پھر بھی احتیاطاً اپنے بچاؤ کے لیے ان سے کہہ دیا اگر میں فیل ہو جاؤں تو اس کی ذمے داری مجھ پر نہ ہوگی۔ کیونکہ میں ابھی اپنے آپ کو امتحان کے قابل نہیں پاتا۔ لیکن والد صاحب مسکرا کے بولے کہ امتحان سے کیوں ڈرے جاتے ہو، جب محنت کی ہے تو شریک بھی ہو جاؤ، کام یابی و ناکام یابی خدا کے ہاتھ ہے۔

    مرد باید کہ ہراساں نشود

    میں نے بھی تقدیر اور تدبیر پر ایک چھوٹا سا لیکچر دے کر ثابت کر دیا کہ تدبیر کوئی چیز نہیں۔ تقدیر سے تمام دنیا کے کام چلتے ہیں۔

    قصہ مختصر درخواستِ شرکت دی گئی اور منظور ہوگئی اور ایک دن وہ آیا کہ ہم ہال ٹکٹ لیے ہوئے مقام امتحان پر پہنچ ہی گئے، گو یاد نہیں کیا تھا لیکن دو وجہ سے کام یابی کی امید تھی۔ اوّل تو امدادِ غیبی، دوسرے پرچوں کی الٹ پھیر۔ شاید وہ حضرات جو امتحان میں کبھی شریک نہیں ہوئے، اس مضمون کو نہ سمجھیں اس لیے ذرا وضاحت سے عرض کرتا ہوں۔

    ’’امدادِ غیبی‘‘ سے مراد امیدوارانِ امتحان کی اصطلاح میں وہ مدد ہے جو ایک کو دوسرے سے یا کسی نیک ذات نگراں کار سے یا عندالموقع کتاب سے پہنچ جاتی ہے۔ پرچوں کی الٹ پھیر گو بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہے لیکن تقدیر سب کچھ آسان کر دیتی ہے۔ بعض شریف کم حیثیت ملازم ایسے بھی نکل آتے ہیں جو بہ امیدِ انعام پرچے بدل دیتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ اس سے ایک محنت کرنے والے کو نقصان پہنچ جاتا ہے لیکن تدبیر و تقدیر کا مسئلہ جیسا اس کارروائی میں حل ہوتا ہے، دوسری کسی صورت میں حل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اور بھی صورتیں ہیں لیکن وہ بہت کم پیش آتی ہیں۔ اس لیے ان پر بھروسہ کرنا نادانی ہے۔

    خیر آمدم برسرِ مطلب! پونے دس بجے گھنٹی بجی اور ہم بسم اللہ کہہ کر کمرۂ امتحان میں داخل ہوئے۔ یہاں ایک بہت خلیق اور ہنس مکھ نگراں کار تھے۔ مجھے جگہ نہیں ملتی تھی۔ میں نے ان سے کہا۔ وہ میرے ساتھ ہو لیے، جگہ بتائی اور بڑی دیر تک ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے۔ میں سمجھا چلو بیڑا پار ہے اللہ دے اور بندہ لے۔

    ٹھیک دس بجے پرچہ تقسیم ہوا۔ میں نے پرچہ لیا۔ سرسری نظر ڈالی اور میز پر رکھ دیا۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ پرچہ پڑھنے کے بعد جیسا میرے چہرے پر اطمینان تھا شاید ہی کسی کے چہرے پر ہوگا۔ خود تو اس پرچے کے متعلق اندازہ نہ کر سکا لیکن نگراں کار صاحب کو یہ کہتے ضرور سنا کہ پرچہ مشکل ہے۔ میں کئی مرتبہ اوّل سے آخر تک اس کو پڑھ گیا لیکن نہ معلوم ہوا کس مضمون کا ہے۔ جوابات کی کاپی دیکھی۔ اس کے آخر کی ہدایتیں پڑھیں۔ صفحۂ اوّل کی خانہ پری کی اور کھڑا ہو گیا۔ گارڈ صاحب فوراً ہی آئے۔ میں نے ان سے کہا جناب! یہ پرچہ کس مضمون کا ہے۔ وہ مسکرائے، زبان سے تو کچھ نہ بولے مگر پرچے کے عنوان پر انگلی رکھ دی۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ’’اصولِ قانون‘‘ کا پرچہ ہے۔ دل کھل گیا۔

    اب کیا تھا میں نے بھی قلم اٹھا کر لکھنا شروع کر دیا۔ کیونکہ اصول کے لیے کسی کتاب کے پڑھنے کی ضرورت تو ہے ہی نہیں۔ اس مضمون پر ہر شخص کو رائے دینے کا حق حاصل ہے۔ ایک مقنن ایک اصول قائم کرتا ہے۔ دوسرا اس کو توڑ دیتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم اپنی رائے کو کسی دوسرے کی تجویز کا پابند کریں۔ میں نے اپنے برابر والے سے پوچھنے کی کوشش بھی کی۔ کچھ ادھر ادھر نگاہ بھی دوڑائی مگر وہ گارڈ صاحب میری حالت کو کچھ ایسا تاڑ گئے تھے کہ ہر وقت بلائے ناگہانی کی طرح سر پر ہی کھڑے رہتے تھے۔ ذرا میں نے ادھر ادھر گردن پھیری اور انہوں نے آواز دی کہ، ’’جناب اپنے پرچے پر نظر رکھیے۔‘‘

    جب دوسروں سے مدد ملنے کی توقع منقطع ہو گئی تو میں نے دل میں سوچا کہ چلو ان گارڈ صاحب ہی سے پوچھیں۔ میں کھڑا ہو گیا۔ وہ آئے، میں نے دریافت کیا کہ، ’’جناب والا اس دوسرے سوال کا کیا جواب ہے۔‘‘ وہ مسکرائے اور کہا کہ ’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘ میں نے کہا کہ یہ برابر والے بڑے زور سے لکھ رہے ہیں ان سے پوچھ دیجیے اور اگر آپ کو دریافت کرتے ہوئے لحاظ آتا ہے تو ذرا ادھر ٹہلتے ہوئے تشریف لے جائیے میں خود پوچھ لوں گا۔‘‘ مگر وہ کب ہلنے والے تھے۔ قطب ہو گئے۔ ان کا مسکرانا پہلے تو بہت اچھا معلوم ہوتا تھا لیکن پھر آخر میں تو زہر ہو گیا۔ میں واللہ سچ کہتا ہوں کہ اگر تمام عمر میں قلبی نفرت مجھے کسی سے ہوئی ہے تو انہیں صاحب سے ہوئی ہے۔ ان کا وہ مسکراتے ہوئے ٹہلنا مجھے ایسا برا معلوم ہوتا تھا کہ کئی دفعہ میں نے ارادہ کیا کہ اگر میرے برابر کھڑے ہو کر یہ مسکرائے تو ضرور گلخپ ہو جاؤں لیکن پھر سوچا کہ سرکاری معاملہ ہے۔ کہیں اینچن چھوڑ کر گھسیٹن میں نہ پڑ جاؤں۔ اس لیے چپکا ہو رہا۔

    غرض اس طرح یہ تمام دن امتحان کے گزر گئے۔ لیکن آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے ظالم کے ساتھ ایسی حالت میں کہ ایک حرف بھی یاد نہ ہو، پورے چھ گھنٹے گزارنے کیسے مشکل ہوں گے۔ میں تو ہر روز آدھ گھنٹے کے بعد ہی کمرے سے نکل آتا لیکن مصیبت یہ آن پڑی کہ والد صاحب روز گیارہ بجے سے آ جاتے اور نیچے صحن میں بیٹھے رہتے۔ اب میں جلدی باہر آ جاتا تو جو رعب میں نے دو سال کے عرصے میں قائم کیا تھا وہ سب ہوا ہو جاتا۔ اس لیے قہرِ درویش بر جانِ درویش آخری وقت تک کمرہ امتحان میں بیٹھا رہتا اور جب نیچے اترتا تو والد صاحب سے پرچے کی سختی کی ضرور شکایت کرتا۔ وہ بھی میری تشفی کے لیے ممتحن کو بہت برا بھلا کہتے لیکن ان کو یہ خیال ہو گیا تھا کہ کچھ ہی کیوں نہ ہو میرا بیٹا کام یاب ضرور ہوگا۔

    امتحان ختم ہوا اور امید نمبر ایک اور دو کا خون ہو گیا۔ اب ممتحنوں کے پاس کوشش کی سوجھی۔ والد صاحب ایک زبردست چٹھی سفارش کی لے کر ایک صاحب کے ہاں پہنچے۔ وہ چٹھی دیکھ کر بہت اخلاق سے ملے۔ آنے کی وجہ دریافت کی۔ والد نے عرض کیا کہ خادم زادہ اس سال امتحان میں شریک ہوا ہے۔ اگر آپ کچھ کوشش فرمائیں تو یہ خانہ زاد ہمیشہ ممنونِ احسان رہے گا۔

    وہ بہت ہنسے اور دوسرے لوگوں سے جو سلام کو حاضر ہوئے تھے فرمانے لگے۔ یہ عجیب درخواست ہے۔ ان کا بیٹا تو امتحان دے اور کوشش میں کروں۔ بندۂ خدا اپنے لڑکے سے کہو وہ خود کوشش کرے۔ بے چارے بڑے میاں ایسے نادم ہوئے کہ پھر کسی کے پاس نہ گئے۔

    کچھ عرصے بعد نتیجہ بھی شائع ہو گیا اور کم ترین جملہ مضامین میں بدرجۂ اعلیٰ فیل ہوا۔ خبر نہیں کہ وہ کون سے بھلے مانس ممتحن تھے کہ انہوں نے دو نمبر بھی دیے۔ باقی نے تو صفر ہی پر ٹالا۔

    (مرزا فرحت اللہ بیگ کی ایک شگفتہ تحریر)

  • کرکٹ سے دل بستگی کا ایک پرانا واقعہ

    کرکٹ سے دل بستگی کا ایک پرانا واقعہ

    یوں تو آج کل ہر وہ بات جس میں ہارنے کا امکان زیادہ ہو کھیل سمجھی جاتی ہے۔ تاہم کھیل اور کام میں جو بین فرق ہماری سمجھ میں آیا، یہ ہے کہ کھیل کا مقصد خالصتاً تفریح ہے۔ دیکھا جائے تو کھیل کام کی ضد ہے جہاں اس میں گمبھیرتا آئی اور یہ کام بنا۔ یہی وجہ ہے کہ پولو انسان کے لیے کھیل ہے اور گھوڑے کے لیے کام۔

    ضد کی اور بات ہے ورنہ خود مرزا بھی اس بنیادی فرق سے بے خبرنہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن وہ ٹنڈو اللہ یار سے معاوضہ پر مشاعرہ “پڑھ‘‘ کے لوٹے تو ہم سے کہنے لگے، ’‘فی زمانہ ہم تو شاعری کو جب تک وہ کسی کا ذریعۂ معاش نہ ہو، نری عیاشی بلکہ بد معاشی سمجھتے ہیں۔‘‘ اب یہ تنقیح قائم کی جا سکتی ہے کہ آیا کرکٹ کھیل کے اس معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کرکٹ دراصل انگریزوں کا کھیل ہے اور کچھ انہی کے بلغمی مزاج سے لگّا کھاتا ہے۔

    ان کی قومی خصلت ہے کہ وہ تفریح کے معاملے میں انتہائی جذباتی ہوجاتے ہیں اور معاملاتِ محبت میں پرلے درجے کے کاروباری۔ اسی خوش گوار تضاد کا نتیجہ ہے کہ ان کا فلسفہ حد درجہ سطحی ہے اور مزاح نہایت گہرا۔

    کرکٹ سے ہماری دل بستگی ایک پرانا واقعہ ہے جس پر آج سو سال بعد تعجب یا تأسف کا اظہار کرنا اپنی نا واقفیتِ عامّہ کا ثبوت دینا ہے۔ 1857ء کی رست خیز کے بعد بلکہ اس سے کچھ پہلے ہمارے پرکھوں کو انگریزی کلچر اور کرکٹ کے باہمی تعلق کا احساس ہو چلا تھا۔ جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے، کرکٹ انگریزوں کے لیے مشغلہ نہیں مشن ہے۔ لیکن اگر آپ نے کبھی کرکٹ کی ٹیموں کو مئی جون کی بھری دوپہر میں ناعاقبت اندیشانہ جرأت کے ساتھ موسم کو چیلنج کرتے دیکھا ہے تو ہماری طرح آپ بھی اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ ہمارے ہاں کرکٹ مشغلہ ہے نہ مشن، اچھی خاصی تعزیری مشقت ہے، جس میں کام سے زیادہ عرق ریزی کرنا پڑتی ہے۔

    اب اگر کوئی سر پھرا منہ مانگی اجرت دے کر بھی اپنے مزدوروں سے ایسے موسمی حالات میں یوں کام کرائے تو پہلے ہی دن اس کا چالان ہو جائے۔ مگر کرکٹ میں چونکہ عام طور سے معاوضہ لینے کا دستور نہیں، اس لیے چالان کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاتھوں جس طرح ہلکا پھلکا کھیل ترقی کر کے کام میں تبدیل ہو گیا وہ اس کے موجدین کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا۔

    غالبؔ نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال سے متاثر ہو کر کہا تھا کہ ہم مغل بچے بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔ اور اس کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیل کے معاملے میں ہمارا رویہ بالغوں جیسا نہیں، بالکل بچّوں کا سا ہے۔ اس لحاظ سے کہ صرف بچے ہی کھیل میں اتنی سنجیدگی برتتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے بچّہ سیانا ہوتا ہے کھیل کے ضمن میں اس کا رویہ غیر سنجیدہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یہی ذہنی بلوغ کی علامت ہے۔ کرکٹ کے رسیا ہم جیسے ناآشنائے فن کو لاجواب کرنے کے لیے اکثر کہتے ہیں، ’’میاں! تم کرکٹ کی باریکیوں کو کیا جانو؟ کرکٹ اب کھیل نہیں رہا، سائنس بن گیا ہے سائنس!‘‘ عجیب اتفاق ہے۔ تاش کے دھتی بھی رمی کے متعلق نہایت فخر سے یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سولہ آنے سائنٹیفک کھیل ہے۔ بَکنے والے بَکا کریں، لیکن ہمیں رمی کے سائنٹیفک ہونے میں مطلق شبہ نہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ روپیہ ہارنے کا اس سے زیادہ سائنٹیفک طریقہ ہنوز دریافت نہیں ہوا۔ پس ثابت ہوا کہ کرکٹ اور رمی قطعی سائنٹیفک ہیں اور اسی بنا پر کھیل نہیں کہلائے جاسکتے۔

    بات یہ ہے کہ جہاں کھیل میں دماغ پر زور پڑا کھیل کھیل نہیں رہتا کام بن جاتا ہے۔ ایک دفعہ کرکٹ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے ہم نے مرزا سے کہا کہ کھیلوں میں وہی کھیل افضل ہے جس میں دماغ پر کم سے کم زور پڑے۔

    فرمایا، ’’بجا! آپ کی طبعِ نازک کے لیے نہایت موزوں رہے گا۔ کس واسطے کہ جوئے کی قانونی تعریف یہی ہے کہ اسے کھیلنے کے لیے عقل قطعی استعمال نہ کرنی پڑے۔‘‘ محض کرکٹ ہی پر منحصر نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں رجحان عام ہے کہ تعلیم نہایت آسان اور تفریح روز بروز مشکل ہوتی جاتی ہے (مثلاً بی اے کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، مگر برج سیکھنے کے لیے عقل درکار ہے) ریڈیو، ٹیلی ویژن، سنیما اور با تصویر کتابوں نے اب تعلیم کو بالکل آسان اور عام کر دیا ہے لیکن کھیل دن بدن گراں اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا بعض غبی لڑکے کھیل سے جی چرا کر تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دینے لگے ہیں۔

    اس سے جو سبق آموز نتائج رونما ہوئے وہ سیاست دانوں کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہیں۔

    کسی اعتدال پسند دانا کا قول ہے، ’’کھیل کے وقت کھیل اور کام کے وقت کام اچھا۔‘‘ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمیں اس زرّیں اصول سے سراسر اختلاف ہے تو اس کو یہ معنیٰ نہ پہنائے جائیں کہ خدانخواستہ ہم شام و سحر، آٹھوں پہر کام کرنے کے حق میں ہیں۔ سچ پوچھیے تو ہم اپنا شمار ان نارمل افراد میں کرتے ہیں جن کو کھیل کے وقت کھیل اور کام کے وقت کھیل ہی اچھا لگتا ہے اور جب کھل کے باتیں ہو رہی ہیں تو یہ عرض کرنے کی اجازت دیجیے کہ فی الواقع کام ہی کے وقت کھیل کا صحیح لطف آتا ہے۔ لہٰذا کرکٹ کی مخالفت سے یہ استنباط نہ کیجیے کہ ہم تفریح کے خلاف بپھرے ہوئے بوڑھوں (ANGROLD MEN) کا کوئی متحدہ محاذ بنانے چلے ہیں۔

    ہم بذاتِ خود سو فی صد تفریح کے حق میں ہیں، خواہ وہ تفریح برائے تعلیم ہو، خواہ تعلیم براہِ تفریح! ہم تو محض یہ امر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر چہ قدیم طریقِ تعلیم سے جدید طرزِ تفریح ہزار درجے بہتر ہے؛ مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔

    (مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ‘چراغ تلے’ سے ایک شگفتہ پارہ)

  • فلم ایکٹریس کی ڈاک

    فلم ایکٹریس کی ڈاک

    دراصل سب سے زیادہ ڈاک تو اس سرکاری افسر کی ہوتی ہے، جس نے کلرکی کی اسامی کے لیے اشتہار دے رکھا ہو۔ اور اس سے دوسرے درجے پر اس شخص کی ڈاک ہوتی ہے جس نے امساک کی گولیاں بطور نمونہ مفت کا اعلان کر رکھا ہو۔ لیکن دل چسپ ترین ڈاک صرف دو شخصیتوں ہی کی ہوتی ہے۔ ایڈیٹر کی ڈاک اور فلم ایکٹرس کی ڈاک۔

    جس قسم کے خطوط ایکٹرس کو روزانہ موصول ہوتے رہتے ہیں اس کے چند نمونے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔ پڑھیے اور لطف اٹھائیے۔

    فلمی ایڈیٹر کا ایک خط

    محترمہ، تسلیم!
    ’’فلم کی بات‘‘ تازہ پرچہ ارسال خدمت ہے، سرورق پر اپنی سہ رنگی تصویر ملاحظہ فرمائیے اور یاد رہے کہ اس ہفتہ غازی مصطفیٰ کمال پاشا کی تصویر شائع کرنا ضروری تھا کیونکہ رسالہ کے اندر اس کی وہ تقریر درج ہے جو اس نے فلموں کی حمایت میں کی۔ لیکن میری قربانی دیکھیے کہ میں نے اس حقیقت کو جانتے ہوئے آپ کی تصویر شائع کی کہ اگر میں غازی موصوف کی تصویر شائع کرتا تو ان کی فلمی تقریر کے علاوہ انٹریو کانفرنس کی مناسبت سے یہ پرچہ سیکڑوں کی تعداد میں فروخت ہوجاتا۔ لیکن میں نے اس کی پروا نہیں کی اور آپ کی تصویر کی مناسبت سے اس تازہ فلم ’’تیر کی نوک‘‘ پر بھی بسیط تبصرہ کر دیا ہے جس میں آپ نے ہیروئن کا پارٹ ادا کیا ہے۔

    آپ اس تبصرے کو غور سے پڑھیے اور دیکھیے کہ پارٹ کے اندر جہاں جہاں آپ نے لغزشیں کی ہیں۔ میں نے ان لغزشوں کو آپ کی بہترین خوبیاں ثابت کیا ہے۔ دوست مجھے طعنہ دیتے ہیں کہ تم نے مس……. کو دنیا بھر کی ایکٹرسوں سے بڑھا دیا ہے۔ لیکن میں ان سے کہتا ہوں کہ محترمہ فی الحقیقت دنیا بھر کی ایکٹرسوں کی سرتاج ہیں اور عنقریب بالی وڈ والے آپ کو بلانے والے ہیں۔

    پچھلی دفعہ جب میں نے آپ کی ایکٹری پر ایک ہنگامہ خیز مضمون لکھا تھا۔ اس وقت سے آپ کے دشمن میرے رسالے کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں اور مجھے بہت نقصان ہو رہا ہے، آپ نے جو دس روپے کا منی آرڈر بھیجا تھا اس سے کاتب کا بل بھی نہ چکایا جا سکا۔ پانچ اور ہوتے تو کم ازکم یہ بلا تو سَر سے ٹل جاتی۔

    بہرحال آپ میرا خیال رکھیں نہ رکھیں، مجھے تو آپ کی ترقی کا ہر وقت خیال رہتا ہے اور خواہ میرے رسالے کی اشاعت کتنی ہی کیوں نہ گھٹ جائے، میں حق گوئی سے باز نہیں رہ سکتا تھا۔

    اور سچ پوچھو تو یہ آپ پر کوئی احسان بھی نہیں کیونکہ آپ کے فنی اوصاف پر مضامین لکھنا فن کی خدمت کرنا ہے۔ اور حاضریٔ حسن کی تعریف پر خامہ خرسائی کرنا مصورِ فطرت کے شاہکار کا اعتراف۔ ساٹھویں سالگرہ مبارک!
    نیاز مند ایڈیٹر

    ایک بیرسٹر کا خط

    مس صاحبہ!
    آداب عرض
    اگر آپ اخبارات میں عدالتی کالموں کا مطالعہ کرتی ہیں تو ضروری بات ہے کہ آپ میرے نام سے واقف ہوں، کیونکہ میں نوجوان ہونے کے باوجود نہ صرف اپنے شہر کا ایک کامیاب ترین قانون داں ہوں بلکہ ملک کے ہر حصے میں بلایا جاتا ہوں۔

    باعثِ تحریر آنکہ میں نے ایک مقامی رسالہ ’’داستان فلم‘‘ میں آپ کے خلاف ایک مضمون پڑھا ہے، جو تعزیرات فلم کی دفعہ 99 کی زد میں آتا ہے۔ اور ایڈیٹر پر ’’ازالہ کی حیثیت فلمی‘‘ کا دعوی دائر کیا جاسکتا ہے، رسالہ ایک بڑے سرمایہ دار کی ملکیت ہے اور اس سے بہت بڑی رقم حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لیے اگر آپ میری مؤکل بننا چاہیں تو میری قانونی خدمات حاضر ہیں اور پانچ ہزار روپے کی ڈگری مع حرجہ خرچہ کے دلانے کا یقین دلاتا ہوں۔

    باقی رہا میرے محنتانہ کا سوال، اس کے متعلق عرض ہے کہ مجھے اپنے نیاز مندوں ہی میں شمار کیجیے اور اس وہم میں نہ پڑجائیے کہ میں نقد معاوضہ کے لالچ میں آکر یہ تجویز پیش کر رہا ہوں۔ خدا نے مجھے بہت کچھ دے رکھا ہے۔ البتہ میرا مطلب یہ ہے کہ زرِ نقد کی بجائے محنتانہ کی اور صورتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ اور اصولاً مجھے اور آپ کو کسی نہ کسی صورت پر متفق ہوجانا چاہیے۔ تشریح کی ضرورت نہیں، آپ ماشاء اللہ عقل مند ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ قانون کی رُو سے کوئی مؤکل اپنے وکیل سے محنتانہ ادھار نہیں کرسکتا۔

    یعنی محنتانہ نقد ہو یا بصورتِ ’’جنس‘‘ ہر حالت میں پیشگی لینا لازمی ہے۔ ورنہ وکیل پر حکومت مقدمہ چلا دیتی ہے۔ میں کنگال بنک کے مشہور مقدمۂ غبن کے سلسلے میں کلکتہ آرہا ہوں۔ ارشاد ہو تو قدم بوسی کا فخر حاصل کروں۔
    بندہ
    بیرسٹر ایٹ لا، عمر 25 سال

    شاعر کا خط

    جانِ جہاں!
    خدا جانے وہ کیسا زمانہ تھا، جب کہ شعراء کی قدر تھی، قدر دان اُمراء کسی شاعر کے ایک شعر پر خوش ہوکر اسے زر و جواہر سے مالا مال کر دیتے تھے۔ اب تو زبانی داد بھی بمشکل ملتی ہے۔ بقول حضرت اکبرؔ مرحوم؛

    بوسہ کیا ان سے گلوری بھی نہیں پاتا ہوں
    میں روز انہیں جاکے سنا آتا ہوں
    وہ یہ کہتے ہیں، کہ واہ خوب کہا ہے واللہ
    میں یہ کہتا ہوں کہ آداب بجا لاتا ہوں

    میں نے آپ کی شان میں نصف درجے قصیدے لکھ کر فلمی رسالوں میں شائع کرائے ہیں اور ان کی کاپیاں بھی آپ کی خدمت میں بھجواتا رہا۔ لیکن آپ سے اتنا نہیں ہوسکا کہ شکریے کی چٹھی ہی ارسال کر دیتیں۔ میں نے پچھلے دنوں لکھا تھا کہ اپنے دستخطوں سے اپنی ایک تصویر مرحمت فرمائیے۔ لیکن جواب نہ ملا۔ کیا قدر دانیِ فن اسی کا نام ہے؟
    سنا ہے آپ کی سال گرہ قریب آرہی ہے۔ ارادہ ہے کہ ایک قصیدہ لکھ کر خود حاضر ہوں گا۔
    والسلام
    خادم

    (اردو کے معروف مزاح نگار، کالم نویس اور صحافی حاجی لق لق کی شگفتہ بیانی)

  • نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں؟

    نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں؟

    لکھنؤ اور کانپور اردو کے گڑھ تھے۔ بے شمار اردو اخبار نکلتے تھے۔

    خیر، آپ تو مان کے نہیں دیتے۔ مگر صاحب ہماری زبان سند تھی۔ اب یہ حال ہے کہ مجھے تو سارے شہر میں ایک بھی اردو سائن بورڈ نظر نہیں آیا۔ لکھنؤ میں بھی نہیں۔ میں نے یہ بات جس سے کہی وہ آہ بھر کے یا منھ پھیر کے خاموش ہو گیا۔ شامتِ اعمال، یہی بات ایک محفل میں دہرا دی تو ایک صاحب بپھر گئے۔ غالباً ظہیر نام ہے۔ میونسپلٹی کے ممبر ہیں۔ وکالت کرتے ہیں۔ نجانے کب سے بھرے بیٹھے تھے۔

    کہنے لگے، "للہ، ہندوستانی مسلمانوں پر رحم کیجیے۔ ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیجیے۔ پاکستان سے جو بھی آتا ہے، ہوائی جہاز سے اترتے ہی اپنا فارن ایکسچینج اچھالتا، یہی رونا روتا آتا ہے۔ جسے دیکھو، آنکھوں میں آنسو بھرے شہر آشوب پڑھتا چلا آ رہا ہے۔ ارے صاحب، ہم نصف صدی سے پہلے کا کانپور کہاں سے لا کے دیں؟ بس جو کوئی بھی آتا ہے، پہلے تو ہر چیز کا موازنہ پچاس برس پہلے کے ہندوستان سے کرتا ہے۔ جب یہ کر چکتا ہے تو آج کے ہندوستان کا موازنہ آج کے پاکستان سے کرتا ہے۔ دونوں مقابلوں میں چابک دوسرے گھوڑے کے مارتا ہے، جتواتا ہے اپنے ہی گھوڑے کو۔” وہ بولتے رہے، میں مہمان تھا، کیا کہتا، وگرنہ وہی (سندھی) مثل ہوتی کہ گئی تھی سینگوں کے لیے، کان بھی کٹوا آئی۔

    لیکن ایک حقیقت کا اعتراف نہ کرنا بد دیانتی ہو گی۔ ہندوستانی مسلمان کتنا ہی نادار اور پریشان روزگار کیوں نہ ہو، وہ مخلص، با وقار، غیور اور پُر اعتماد ہے۔ نشور واحدی سے لمبی لمبی ملاقاتیں رہیں۔ سراپا محبت، سراپا خلوص، سراپا نقاہت۔ ان کے ہاں شاعروں اور ادیبوں کا جماؤ رہتا ہے۔ دانشور بھی آتے ہیں۔ مگر دانشور ہیں، دانا نہیں۔ سب یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ اردو بہت سخت جان ہے۔ دانشوروں کو اردو کا مستقبل غیر تاریک دکھلائی پڑتا ہے۔ بڑے بڑے مشاعرے ہوتے ہیں۔ سنا ہے ایک مشاعرے میں تو تیس ہزار سے زیادہ سامعیں تھے۔ صاحب مجھے آپ کی رائے سے اتفاق نہیں کہ جو شعر بیک وقت پانچ ہزار آدمیوں کی سمجھ میں آ جائے وہ شعر نہیں ہو سکتا۔ کچھ اور شے ہے۔ بے شمار سالانہ سمپوزیم اور کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ سنا ہے کئی اردو ادیبوں کو پدم شری اور پدم بھوشن کے خطاب مل چکے ہیں۔ میں نے کئیوں سے پدم اور بھوشن کے معنی پوچھے تو جواب میں انہوں نے وہ رقم بتائی جو خطاب کے ساتھ ملتی ہے۔ آج بھی فلمی گیتوں، ذو معنی ڈائیلاگ، قوالی اور آپس کی مار پیٹ کی زبان اردو ہے۔ سنسکرت الفاظ پر بہت زور ہے۔ مگر آپ عام آدمی کو سنسکرت میں گالی نہیں دے سکتے۔ اس کے لیے مخاطب کا پنڈت اور ودوان ہونا ضروری ہے۔ صاحب، بقول شخصے، گالی، گنتی، سرگوشی اور گندا لطیفہ تو اپنی مادری زبان میں ہی مزہ دیتا ہے۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ اردو والے کافی پُر امید ہیں۔ ثقیل ہندی الفاظ بولتے وقت اندرا گاندھی کی زبان لڑکھڑاتی ہے تو اردو والوں کی کچھ آس بندھتی ہے۔

    (مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے)

  • مشہورِ زمانہ شیخ چلی کے مکتب میں کارنامے

    مشہورِ زمانہ شیخ چلی کے مکتب میں کارنامے

    نویں برس باپ نے بہت مجبور کیا اور وہ محلّے والی مسجد کے مکتب میں جانے لگا۔ اپنی لاجواب ذہانت سے بغدادی قاعدے اس نے دسواں برس شروع ہوتے ہوتے ختم کر دیے۔

    استاد کو اس کے پڑھانے میں کچھ دقت ہی نہ ہوتی تھی۔ کیونکہ وہ ہر کام اصول سے کرتا تھا یعنی دو حرف یک مشت استاد اس کو بتا دیتے تھے اور تین دن میں رے زے رے زے کہتے کہتے وہ بالکل یاد کر لیتا تھا۔

    شیخ چلی کے مکتب میں بیٹھنے سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ استاد کو اتنی سکت ہی نہ رہتی تھی کہ شیخ چلی کی مرمت کے بعد کسی اور لڑکے کو قمچیاں مارنے کا موقع ملتا۔ لڑکے وہی تھے جو اس کے ساتھ کھیلا کرتے تھے اور اس لیے اس نوگرفتار سے انس اور یارانہ پیدا کرنے میں ان کو کچھ محنت نہیں پڑی۔ وہ سدھا ہوا ان کا ہم جولی تھا۔ آپس کی شرارتوں کو وہ آسانی کے ساتھ غریب شیخ کے سر تھوپنے میں کبھی نہ چوکتے اور مولوی صاحب کی پرسش پر یہ صابر اور متحمل لڑکا بے تکلف اپنا قصور قبول کر لیتا۔ بلکہ جس بدسلوکی کی فریاد ہوتی تھی اسی کو عملی طور پر بھی دکھا دیتا کہ میں نے یوں منہ چڑھایا تھا یا اس طرح چپت مار دی تھی۔ لڑکوں کی کتابوں اور قلم دوات کے انتظام میں اس نے بڑی دل چسپی ظاہر کی۔ ممکن نہ تھا وہ کسی کی کتاب پا جاتا اور دو چار ورق کی تخفیف نہ کر دیتا۔ اُس کا خیال تھا کہ اس ترکیب سے کتاب جلد ختم ہو سکتی ہے اور دوسری کتاب شروع کرنے کی اس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں ہے۔

    قلموں سے وہ میاں جی کے حقّہ بھرنے کی انگیٹھی کو ہمیشہ گرم کر دیا کرتا اور نیم سوختہ قلم نکال کے دیتا اور کہتا پھر بنا لو۔ تختی پر وہ اس طرح مشق کرتا کہ تل بھر سفیدی نہ چھوٹتی۔ آسان لٹکا اس کے ہاتھ آگیا تھا کہ دوات سے صوف نکالا اور تختی کو لیپ دیا۔ اس کام یابی پر وہ اس قدر خوش ہوتا کہ استاد کو بغیر دکھائے نہ رہتا۔ جس کا صلہ وہ خوشی سے قبول کرنے پر ہر دم تیار تھا۔

    کتب فروش اس کو ہمیشہ دعا دیتے تھے، کیوں کہ اس کی وجہ سے نہ صرف اس کا باپ دوسرے چوتھے روز نئی کتاب خرید کرتا، اور لڑکوں کے ورثا بھی جلد جلد کتابیں لینے پر حریف تھے۔ استاد نے کئی بار اس کو عزت کے ساتھ یہ کہہ کے رخصت کر دیا کہ جاؤ تم فاضل ہو گئے مگر وہ علم کا ایسا شوقین تھا کہ تیسرے ہی روز باپ کے ساتھ مکتب میں داخل ہو جاتا۔ اور پچھلا پڑھا لکھا از سر نو دہراتا تاکہ کچھ غلطی نہ رہ جائے۔

    تمام جہان کے معلّم بد خو، ترش مزاج ہوا کرتے ہیں۔ اس مکتب کے میاں جی ان صفات میں کسی سے پیچھے نہ تھے اور لونڈوں کو بھی بالطبع استاد سے عداوت ہوتی ہے۔ اس کلیہ کی بنا پر ایک بار لڑکوں نے سازش کی کہ مولوی صاحب کو کِوانچ کی پھلیوں کا مزہ چکھانا چاہیے۔ بیچارے نے عمر بھر میں دیکھی بھی نہ ہوں گی۔ اس مشورے میں شیخ چلی صاحب بھی شریک تھے۔ گو سب لڑکوں سے ان کی رائے مختلف تھی، یعنی ان کی صلاح تھی کہ پھلیوں کو استنجے کے ڈھیلوں پر نہ ملنا چاہیے بلکہ دھوبی ہمارا دوست ہے اس سے کہہ کے پائجامہ میں ملوا دیں گے لیکن کثرتِ آرا سے ان کی رائے نا منظور ہوئی اور حقہ کی مہنال، استنجے کے ڈھیلوں، وضو کے لوٹے میں پھلیاں پیس کے چھڑکی گئیں۔ سویرے یہ سب کام ہو چکا تھا۔

    مولوی صاحب نے ابھی کوئی چیز استعمال نہ کی تھی کہ شیخ کا آموختہ سننے بیٹھے۔ یہاں وہی الف دو زبر آن اور آگے آیہ مطلق۔ پٹے اور بہت پٹے۔ تب تو دانت پیس کے مولوی صاحب سے کہہ دیا۔ میں نے تو پاجامہ میں پھلیاں ملنے کو کہا تھا۔ مگر سب نے لوٹے میں ڈالی ہیں اور ڈھیلوں پر ملی ہیں، اب کی بار میں بھی تم کو پان میں کھلا دوں گا۔ مولوی چوکنا ہوئے اور بھید کھل گیا۔

    شیخ چلی سے اگر حماقت ہوئی ہے تو عمر میں یہی ہوئی کہ مولوی صاحب بال بال بچ گئے۔ الغرض شیخ چلی اپنی خدا داد طبیعت کے زور دکھا رہا ہے اور روز ایک نئی ادا اس دانش مند لڑکے کے انداز سے پیدا ہو رہی ہے۔ دنیا کے مرقع میں کل نہیں تو اس کے قصبہ سکونتی کے لوگ اس کی حرکات سے دل چسپی حاصل کرنے لگے ہیں اور وہ اتنے سے سن میں نام وری کے آسمان پر زینہ لگا چکا ہے، چڑھنے کی کسر باقی ہے۔ صرف تعلیم میں اس نے پندرہ برس کے سن تک مصروفیت کے ساتھ اپنے کمالات کو ایک متوسط ایشیائی ذی علم کی حد تک پہنچا دیا۔ چونکہ طباعی کے ساتھ اس کا حافظہ بھی بے نظیر تھا، وہ اپنے کل سبق حفظ کر لیا کرتا اور چونکہ ذہین اور طباع آدمی بے پروا بھی ہوا کرتے ہیں، اس لیے وہ اپنے لکھنے پڑھنے میں استغنا کو بہت دخل دیتا تھا۔ اسی وجہ سے آج کا سبق جو حفظ کرنے کی حد تک پہنچ جاتا تھا کل بالکل سپاٹ اور سہو محو ہو جاتا تھا۔ جس کو وہ باہمت طالب علم پھر دہرانے سے کبھی نہیں تھکتا تھا۔

    اس نے تعلیم کے بعد مکتب چھوڑ دیا اور نامِ خدا اب جوان ہو گیا، اس لیے شوریدگیٔ شباب نے اس کے دلی جذبات کو اور بھی چمکا دیا جس سے اس نے اپنی اس جدید زندگی کو بہت ہی قابل یادگار بنانے میں ذرا بھی کمی نہیں کی۔

    (منشی سجاد حسین کی تصنیف کردہ کتاب "حیاتِ شیخ چلی” سے انتخاب جو اس مشہور کردار کی ظریفانہ انداز میں‌ لکھی گئی سوانح عمری ہے)

  • بُلبل غلطیوں سے فائدہ نہیں اٹھاتی!

    بُلبل غلطیوں سے فائدہ نہیں اٹھاتی!

    بلبل ایک روایتی پرندہ ہے جو ہر جگہ موجود ہے سوائے وہاں کے جہاں اسے ہونا چاہیے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ نے چڑیا گھر میں یا باہر بلبل دیکھی ہے تو یقیناً کچھ اور دیکھ لیا ہے۔ ہم ہر خوش گلو پرندے کو بلبل سمجھتے ہیں۔ قصور ہمارا نہیں ہمارے ادب کا ہے۔

    شاعروں نے نہ بلبل دیکھی ہے، نہ اسے سنا ہے۔ کیوں کہ اصلی بلبل اس ملک میں نہیں پائی جاتی۔ سنا ہے کہ کوہِ ہمالیہ کے دامن میں کہیں کہیں بلبل ملتی ہے لیکن کوہِ ہمالیہ کے دامن میں شاعر نہیں پائے جاتے۔

    عام طور پر بلبل کو آہ و زاری کی دعوت دی جاتی ہے اور رونے پیٹنے کے لیے اکسایا جاتا ہے۔ بلبل کو ایسی باتیں بالکل پسند نہیں۔ ویسے بلبل ہونا کافی مضحکہ خیز ہوتا ہوگا۔ بلبل اور گلاب کے پھول کی افواہ کسی شاعر نے اڑائی تھی، جس نے رات گئے گلاب کی ٹہنی پر بلبل کو نالہ و شیون کرتے دیکھا تھا۔ کم از کم اس کا خیال تھا کہ وہ پرندہ بلبل ہے اور وہ چیز نالہ وشیون۔ دراصل رات کو عینک کے بغیر کچھ کا کچھ دکھائی دیتا ہے۔

    بلبل پروں سمیت محض چند انچ لمبی ہوتی ہے۔ یعنی اگر پروں کو نکال دیا جائے تو کچھ زیادہ بلبل نہیں بچتی۔ بلبل کی نجی زندگی کے متعلق طرح طرح کی باتیں مشہور ہیں۔ بلبل رات کو کیوں گاتی ہے؟ پرندے جب رات کو گائیں تو ضرور کچھ مطلب ہوتا ہے۔ وہ اتنی رات گئے باغ میں اکیلی کیوں جاتی ہے؟ بلبل کو چہچہاتے سن کر دور کہیں ایک اور بلبل چہچہانے لگتی ہے۔ پھر کوئی بلبل نہیں چہچہاتی وغیرہ۔ ہمارے ملک میں تو لوگ بس اسکینڈل کرنا جانتے ہیں۔ اپنی آنکھوں سے دیکھے بغیر کسی چیز کا یقین نہیں کرنا چاہیے۔

    کبھی کبھی بلبل غلطیاں کرتی ہے، لیکن اس سے فائدہ نہیں اٹھاتی۔ چناں چہ پھر غلطیاں کرتی ہے۔ سیاست میں تو یہ عام ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ بلبل کے گانے کی وجہ اس کی غمگین خانگی زندگی ہے، جس کی وجہ یہ ہر وقت کا گانا ہے۔ دراصل بلبل ہمیں محظوظ کرنے کے لیے ہرگز نہیں گاتی۔ اسے اپنے فکر ہی نہیں چھوڑتے۔

    کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بلبل گاتے وقت بل۔ بل، بلبل۔ بل کی سی آوازیں نکالتی ہے۔ یہ غلط ہے۔ بلبل پکے راگ گاتی ہے یا کچّے؟ بہرحال اس سلسلے میں وہ بہت سے موسیقاروں سے بہتر ہے۔ ایک تو وہ گھنٹے بھر کا الاپ نہیں لیتی۔ بے سُری ہو جائے تو بہانے نہیں کرتی کہ ساز والے نکمے ہیں۔ آج گلا خراب ہے۔ آپ تنگ آجائیں، تو اسے خاموش کرا سکتے ہیں۔ اور کیا چاہیے؟

    جہاں تیتر ’’سبحان تیری قدرت‘‘ پپیہا ’’پی کہا‘‘ اور گیدڑ ’’پدرم سلطان بود‘‘ کہتا ہوا سنا گیا ہے، وہاں بلبل کے متعلق وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی مصرعے کے ایک حصّے پر اٹک گئی ہو۔ مثلاً مانا کہ ہم پہ جور و جفا، جور و جفا، جور و جفا۔ یا تعریف اس خدا کی، خدا کی، خدا کی۔ اور دِلے بفر و ختم، بفر و ختم، بفر و ختم۔ شاید اسی میں آرٹ ہو۔

    ہو سکتا ہے کہ ہماری توقعات زیاد ہوں، لیکن یہ گانے کا ریکٹ اس نے خود شروع کیا تھا۔ بلبل کو شروع شروع میں قبول صورتی، گانے بجانے کے شوق اور نفاست پسندی نے بڑی شہرت پہنچائی۔ کیوں کہ یہ خصوصیات دوسرے پرندوں میں یک جا نہیں ملتی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی نوعیت جاتی رہی اور لوگوں کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔ ادھر بلبل پر نئی نئی تحریکوں اور جدید قدروں کا اتنا سا بھی اثر نہیں ہوا، چناں چہ اب بلبل سو فی صدی رجعت پسند ہے۔ کچھ لوگ اس زمانے میں بھی بلبل کے نغموں، چاندنی راتوں اور پھولوں کے شائق ہیں۔ یہ لوگ حالات حاضرہ اور جدید مسائل سے بے خبر ہیں اور سماج کے مفید رکن ہرگز نہیں بن سکتے۔ وقت ثابت کر دے گا کہ وغیرہ وغیرہ۔

    جیسے گرمیوں میں لوگ پہاڑ پر چلتے جاتے ہیں اسی طرح پرندے بھی موسم کے لحاظ سے نقلِ وطن کرتے ہیں۔ بلبل کبھی سفر نہیں کرتی۔ اس کا خیال ہے کہ وہ پہلے ہی سے وہاں ہے جہاں اسے پہنچنا چاہیے تھا۔ ہمارے ادب کو دیکھتے ہوئے بھی بلبل نے اگر اس ملک کا رخ کیا تو نتائج کی ذمہ دار خود ہوگی۔

    (معروف مزاح نگار شفیق الرّحمٰن کے قلم سے)

  • "غیبت سوسائٹی” کی ضرورت کیوں‌ پیش آئی؟ دل چسپ تفصیل جانیے

    "غیبت سوسائٹی” کی ضرورت کیوں‌ پیش آئی؟ دل چسپ تفصیل جانیے

    آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ ہماری ایک غیبت سوسائٹی ہے جس میں ہم لوگ اپنے رشتے داروں، دوستوں اور ملنے والوں کی حرکات و سکنات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں۔

    ظاہر ہے کہ تعریف یا اچھائیاں تو مقابل بیٹھ کر کرنے سے ہی سننے والے کو خوش کر دیتی ہیں۔ لیکن اگر ہم کسی کے طرزِ تکلّم پر یا ان کے عادات و اطوار پر اعتراض کریں تو صاحب موصوف کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے اور بفرضِ محال وہ آپ کی باتوں کا منہ توڑ جواب نہ دیں جو ان کی انسانیت کو ظاہر کرے گا، لیکن اس میں شک نہیں کہ مستقبل میں وہ آپ سے ملنے سے کترانے لگیں گے اور اگر رشتے ناتے کی ایسی ڈور آپ کے بیچ ہے کہ میل ملاقات قطع نہیں کی جاسکتی تو بادلِ نخواستہ آداب سلام کی رواداری کا سلسلہ بنا رہے گا۔

    آپسی محبت و خلوص آپ کی کڑوی سچائی کے زہر میں گھل جائے گا۔ یہی وہ بنیاد ہے جس نے ہم کو غیبت سوسائٹی بنانے کی ترغیب دی۔

    یہ تو انسانی فطرت ہے کہ دنیا میں، چاہے دینوی معاملہ ہو یا دنیاوی سب کا ہم خیال ہونا ضروری نہیں۔ ہر فرد کسی بھی مسئلے پر جداگانہ طریقے سے غور کرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہوں لیکن ظاہر ہے کہ ہر ایک اپنی بات کو صحیح تصور کرتا ہے اور دوسروں سے منوانا چاہتا ہے۔ یہ بھی لازمی ہے کہ جس دلیل پر اختلافِ رائے ہو یا ہم اوروں کو اپنی رائے سے متفق کرنا چاہیں تو ناخوش گوار حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔

    مجھے یاد آیا کہ ایک بار ہماری غیبت سوسائٹی سے انحراف کرتے ہوئے ایک صاحب کہنے لگے کہ غیبت اور جھوٹ گناہ ہے۔ لوگوں کی خوشی کے لیے دونوں کا سہارا غلط ہے۔ ہم نے سمجھایا کہ ان دونوں کو مصلحت کے تحت اپنایا جائے تو حالات خوش گوار رہتے ہیں۔ اگر ہماری بات صحیح نہیں سمجھتے ہیں تو آزما کر دیکھ لیجیے۔ جناب انہوں نے دل میں ٹھان لی کہ ایک دن صبح سے شام تک میں سچ اور صاف گوئی سے کام لے کر دیکھوں گا۔

    صبح ہوئی بیوی مسکراتی چائے لے کر آئی، انہوں نے ایک گھونٹ لیا ہوگا کہ اس نے اٹھلا کر پوچھا: "اچھی ہے نا؟” اور انہوں نے منہ بنا کر کہا: بالکل بیکار، گرم پانی کی طرح۔

    بیوی کا چہرہ اتر گیا۔ اس کی خدمت گزاری پر اوس پڑ گئی اور وہ وہاں سے چلی گئی۔ پھر یہ صاحب دفتر پہنچے۔ اپنے سینئر افسر سے مڈبھیڑ ہوئی، صاحب سلامت کے بعد انہوں نے اپنی ٹائی کے متعلق پوچھا کیسی ہے؟ انہوں نے کہا کوئی خاص نہیں، آپ کی شرٹ پر تو مناسب نہیں لگتی۔ وہ اپنی ڈریسنگ کی دھجیاں اڑتے دیکھ کر ٹھنڈے پڑ گئے، مگر تمام دن ان صاحب کے ساتھ گرما گرمی کا برتاؤ جاری رکھا۔

    ابھی دن گزرنے میں بہت وقت باقی تھا مگر ان کے ارادے اٹل کہ جو کہوں گا سچ کہوں گا اور منہ پر کہوں گا۔ کھانے کا وقت آ گیا۔ روز کی طرح سب اکھٹے ہوئے اور ایک ساتھی نے جو خود توشہ نہیں لایا تھا ان کی خاطر شروع کی تو یہ بول اٹھے: خوب جناب، حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ؟ اور وہ جو محبت سے ان کا خیال کر رہا تھا یک دم خاموش ہو گیا۔ اسی طرح گھر واپس آنے تک مختلف ملنے والوں سے ان کے کام کے بارے میں گل فشانی رہی۔ شام کو اسے احساس ہوا کہ اس کے اطراف اترے چہرے یا خفگی بھرا ماحول چھایا ہے، تب ہی اس کو احساس ہوا کہ کسی کے سامنے اس پر اعتراض سے کشیدگی یا بدمزگی ہی پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر ہم غیبت کے بنیادی نکتوں پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ ہم خیال لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے۔ گفتگو میں لطف پیدا کرتی ہے۔ اور اس کا سلسلہ طویل ہوتا ہے۔

    غیبت سے یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کے کردار پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں۔ ایک اور بات غیبت کرنے میں یہ ہے کہ انسان میں شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنا جائزہ لینے اور اپنے آپ کو اچھا ثابت کرنے کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ جب آپ دوسروں کی بری باتوں کا ذکر کرتے ہیں یا باالفاظ دیگر ان کی خصلت، ان کے طور طریقہ اور ان کے برتاؤ پر تنقید کرتے ہیں تو ڈھکے چھپے طریقے سے یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ برائیاں آپ کی شخصیت میں نہیں۔ اتفاقاً اگر دوسروں کی کچھ قابلِ اعتراض باتیں جنہیں غیبت سوسائٹی میں زیرِ بحث رکھا گیا ہو، اپنے حالات سے ملتی جلتی دکھائی دیتی ہیں، تو اس سوسائٹی کے ممبران سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ شیشے کے گھروں میں رہنے والے دوسروں پر پتھر نہیں پھینک سکتے۔ کیوں کیا خیال ہے آپ کا؟

    (یہ دل چسپ اور مزاحیہ تحریر، نسیمہ ترابُ الحسن (بھارت) کی ہے جو نثر اور مزاح نگاری کے میدان میں "باتیں کہنے سننے کی” اور خاکوں کے مجموعے "نقوشِ دل” کے لیے پہچانی جاتی ہیں)