Tag: مزاحیہ تحریریں

  • "کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی”

    "کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی”

    کراچی میں سردی اتنی ہی پڑتی ہے جتنی مری میں گرمی۔

    اس سے ساکنانِ کوہِ مری کی دل آزاری نہیں، بلکہ عروسُ البلاد کراچی کی دلداری مقصود ہے۔

    کبھی کبھار شہرِ خوباں کا درجۂ حرارت جسم کے نارمل درجۂ حرارت یعنی 98.4 سے دو تین ڈگری نیچے پھسل جائے تو خوبانِ شہر لحاف اوڑھ کر ائرکنڈیشنر تیز کر دیتے ہیں۔ حسنِ تضاد کو کراچی کے محکمۂ موسمیات کی اصطلاح میں ’’کولڈ ویو‘‘ (سردی کی لہر) کہتے ہیں۔

    لوگ جب اخبار میں لاہور اور پنڈی کی سردی کی شدید خبریں پڑھتے ہیں تو ان سے بچاؤ کے لیے بالو کی بھنی مونگ پھلی اور گزک کے پھنکے مارتے ہیں۔ ان کے بچّے بھی انہی پر پڑے ہیں۔ بادِ شمال اور گوشمالی سے بچنے کے لیے اونی کنٹوپ پہن کر آئسکریم کھاتے اور بڑوں کے سامنے بتیسی بجاتے ہیں۔

    کراچی میں پنڈی سے تین لحاف کم سردی پڑتی ہے۔ نو وارد حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ جاڑا ہے تو اللہ جانے گرمی کیسی ہوتی ہو گی۔ بیس سال سرد و گرم جھیلنے کے بعد ہمیں اب معلوم ہوا کہ کراچی کے جاڑے اور گرمی میں تو اتنا واضح فرق ہے کہ بچّہ بھی بتا سکتا ہے۔ 90 ڈگری ٹمپریچر اگر مئی میں ہو تو یہ موسمِ گرما کی علامت ہے۔ اگر دسمبر میں ہو تو ظاہر ہے کہ جاڑا پڑ رہا ہے۔ البتہ جولائی میں 90 ڈگری ٹمپریچر ہو اور شام کو گرج چمک کے ساتھ بیوی برس پڑے تو برسات کا موسم کہلاتا ہے۔

    تین چار سال بعد دو تین دن کے لیے سردی کا موسم آجائے تو اہلِ کراچی اس کا الزام ’’کوئٹہ ونڈ‘‘ پر دھرتے ہیں اور کوئٹہ کی سردی کی شدّت کو کسی سیم تن ستر نما سوئٹر سے ناپتے ہیں۔

  • "عورتوں کی آنکھوں سے آنسو نکلوانے کی ترکیبیں”

    "عورتوں کی آنکھوں سے آنسو نکلوانے کی ترکیبیں”

    میرے ایک دوست کا مشاہدہ ہے کہ عورتوں کی باہمی گفتگو یا خط و کتابت میں موت یا بیماری کی خبروں کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسے واقعات کے بیان کرنے میں عورتیں غیر معمولی تفصیل اور رقّت انگیزی سے کام لیتی ہیں۔

    گویا ناگوار باتوں کو ناگوار ترین پیرائے میں بیان کرنا ان کا نہایت پسندیدہ شغل ہے۔ ان سے وہ کبھی سیر نہیں ہوتیں۔ ایک ہی موت کی خبر کے لیے اپنی شناساؤں میں سے زیادہ سے زیادہ سامعین کی تعداد ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتی ہیں۔ ایسی خبر جب بھی نئے سرے سے سنانا شروع کرتی ہیں، ایک نہ ایک تفصیل کا اضافہ کر دیتی ہیں اور ہر بار نئے سرے سے آنسو بہاتی ہیں اور پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ موت یا بیماری کسی قریبی عزیز کی ہو۔ کوئی پڑوسی ہو، ملازم ہو، ملازم کے ننھیال یا سہیلی کے سسرال کا واقعہ ہو، گلی میں روزمرّہ آنے والے کسی خوانچہ والے کا بچہ بیمار ہو، کوئی اُڑتی اُڑتی خبر ہو، کوئی افواہ ہو۔ غرض یہ کہ اس ہم دردی کا حلقہ بہت وسیع ہے: ”سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے“

    نہ صرف یہ بلکہ رقّت انگیز کہانیوں کے پڑھنے کا شوق عورتوں ہی کو بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس بارے میں سب ہی اقوام کا ایک ہی سا حال ہے۔ غیر ممالک میں بھی رلانے والی کہانیاں ہمیشہ نچلے طبقہ کی عورتوں میں بہت مقبول ہوتی ہیں۔ گھٹیا درجے کے غم نگار مصنفین کو اپنی کتابوں کی قیمت اکثر عورتوں کی جیب سے وصول ہوتی ہے۔

    وہ بھی عورتوں کی فطرت کو سمجھتے ہیں۔ کہانی کیسی ہی ہو اگر اس کا ہر صفحہ غم و الم کی ایک تصویر ہے تو اس کی اشاعت یقینی ہے اور عورتوں کی آنکھوں سے آنسو نکلوانے کے لیے ایسے مصنفین طرح طرح کی ترکیبیں کرتے ہیں۔

    کبھی ایک پھول سے بچے کو سات آٹھ سال کی عمر میں ہی مار دیتے ہیں اور بسترِ مرگ پر توتلی باتیں کرواتے ہیں۔ کبھی کسی یتیم کو رات کے بارہ بجے سردی کے موسم میں کسی چوک پر بھوکا اور ننگا کھڑا کر دیتے ہیں۔ اور بھی رقّت دلانی ہو تو اسے سید بنا دیتے ہیں۔ یہ کافی نہ ہو تو اسے بھیک مانگتا ہوا دکھا دیتے ہیں کہ ”میری بوڑھی ماں مر رہی ہے۔ دوا کے لیے پیسے نہیں۔ خدا کے نام کا کچھ دیتے جاؤ۔

    کبھی کسی سگھڑ خوب صورت نیک طینت لڑکی کو چڑیل سی ساس کے حوالے کرا دیا۔ یا کسی بدقماش خاوند کے سپرد کر دیا۔ اور کچھ بس نہ چلا تو سوتیلی ماں کی گود میں ڈال دیا اور وہاں دل کی بھڑاس نکال لی۔ پڑھنے والی ہیں کہ زار و قطار رو رہی ہیں اور بار بار پڑھتی ہیں اور بار بار روتی ہیں۔

    (اردو ادب میں طنز و مزاح نگاری کے لیے نام وَر پطرس بخاری کے ایک چٹکیاں‌ لیتے مضمون سے انتخاب)

  • ضرورت نہیں ہے!

    ضرورت نہیں ہے!

    اخبارات میں "ضرورت ہے” کے عنوان سے مختلف اشیا کی خرید و فروخت اور اسامیوں کے اشتہارات تو آپ نے پڑھے ہی ہوں گے، جو سنجیدہ اور واقعی ضرورت و طلب کے مطابق ہوتے ہیں، لیکن ابنِ انشا نے ان اشتہارات کو یوں اپنی شگفتہ بیانی اور شوخیِ طبع کی "نذر” کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    ہمیں درکار نہیں
    کار مارس مائنر ماڈل 1959ء بہترین کنڈیشن میں۔ ایک بے آواز ریڈیو، نہایت خوب صورت کیبنٹ، ایک ویسپا موٹر سائیکل اور دیگر گھریلو سامان پنکھے، پلنگ وغیرہ قسطوں پر یا بغیر قسطوں کے ہمیں درکار نہیں۔ ہمارے ہاں خدا کے فضل سے یہ سب چیزیں پہلے سے موجود ہیں۔

    عدم ضرورتِ رشتہ
    ایک پنجابی نوجوان، برسرِ روزگار، آمدنی تقریباً پندرہ سو روپے ماہ وار کے لیے باسلیقہ، خوب صورت، شریف خاندان کی تعلیم یافتہ دو شیزہ کے رشتے کی ضرورت نہیں ہے کیوں‌ کہ لڑکا پہلے سے شادی شدہ ہے۔ خط و کتابت صیغہ راز میں نہیں رہے گی۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار لڑکے اور لڑکیوں کے لیے رشتے مطلوب نہیں ہیں۔ پوسٹ بکس کراچی۔

    داخلے جاری نہ رکھیے
    کراچی کے اکثر کالج آج کل انٹر اور ڈگری کلاسوں میں داخلے کے لیے اخباروں میں دھڑا دھڑ اشتہار دے رہے ہیں۔ یہ سب اپنا وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کے ہاں داخل ہونا مقصود نہیں۔ ہم نے کئی سال پہلے ایم اے پاس کر لیا تھا۔

  • اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب میں‌ اعتماد کی کمی تھی!

    اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب میں‌ اعتماد کی کمی تھی!

    رضیہ ہماری توقع سے بھی زیادہ حسین نکلی اور حسین ہی نہیں کیا فتنہ گرِ قد و گیسو تھی۔ پہلی نگاہ پر ہی محسوس ہوا کہ initiative ہمارے ہاتھ سے نکل کر فریقِ مخالف کے پاس چلا گیا ہے۔

    یہی وجہ تھی کہ پہلا سوال بھی ادھر سے ہی آیا: "تو آپ ہیں ہمارے نئے نویلے ٹیوٹر؟” اب اس شوخ سوال کا جواب تو یہ تھا کہ "تو آپ ہیں ہماری نئی نویلی شاگرد؟” لیکن سچّی بات یہ ہے کہ حسن کی سرکار میں ہماری شوخی ایک لمحے کے لیے ماند پڑ گئی اور ہمارے منہ سے ایک بے جان سا جواب نکلا:

    ” جی ہاں، نیا تو ہوں، ٹیوٹر نہیں ہوں۔ مولوی صاحب کی جگہ آیا ہوں۔”

    "اس سے آپ کی ٹیوٹری میں کیا فرق پڑتا ہے؟”

    "یہی کہ عارضی ہوں۔”

    "تو عارضی ٹیوٹر صاحب۔ ہمیں ذرا اس مصیبت سے نجات دلا دیں۔” رضیہ کا اشارہ دیوانِ غالب کی طرف تھا۔ میں نے قدرے متعجب ہو کر پوچھا: "آپ دیوانِ غالب کو مصیبت کہتی ہیں؟”

    "جی ہاں! اور خود غالب کو بھی۔”

    "میں پوچھ سکتا ہوں کہ غالب پر یہ عتاب کیوں؟”

    "آپ ذرا آسان اردو بولیے۔ عتاب کسے کہتے ہیں؟”

    "عتاب غصّے کو کہتے ہیں۔”

    "غصّہ؟ ہاں غصّہ اس لیے کہ غالب صاحب کا لکھا تو شاید وہ خود بھی نہیں سمجھ سکتے۔ پھر خدا جانے پورا دیوان کیوں لکھ مارا؟”

    "اس لیے کہ لوگ پڑھ کر لذّت اور سرور حاصل کریں۔”

    "نہیں جناب۔ اس لیے کہ ہر سال سیکڑوں لڑکیاں اردو میں فیل ہوں۔”

    "محترمہ۔ میری دل چسپی فقط ایک لڑکی میں ہے، فرمائیے آپ کا سبق کس غزل پر ہے؟” جواب میں رضیہ نے ایک غزل کے پہلے مصرع پر انگلی رکھ دی، لیکن منہ سے کچھ نہ بولی۔ میں نے دیکھا تو غالب کی مشہور غزل تھی۔

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

    میں نے کہا، "یہ تو بڑی لاجواب غزل ہے، ذرا پڑھیے تو۔”

    "میرا خیال ہے آپ ہی پڑھیں۔ میرے پڑھنے سے اس کی لاجوابی پر کوئی ناگوار اثر نہ پڑے۔” مجھے محسوس ہوا کہ ولایت کی پڑھی ہوئی رضیہ صاحبہ باتونی بھی ہیں اور ذہین بھی لیکن اردو پڑھنے میں غالباً اناڑی ہی ہیں۔

    میں نے کہا، "میرے پڑھنے سے آپ کا بھلا نہ ہوگا۔ آپ ہی پڑھیں کہ تلفظ بھی ٹھیک ہو جائے گا۔”

    رضیہ نے پڑھنا شروع کیا اور سچ مچ جیسے پہلی جماعت کا بچّہ پڑھتا ہے۔

    ” یہ نہ تھی ہماری قس مت کہ وصل۔۔۔۔” میں نے ٹوک کر کہا۔

    "یہ وصل نہیں وصال ہے، وصل تو سیٹی کو کہتے ہیں۔”

    رضیہ نے ہمیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ہم ذرا مسکرائے اور ہمارا اعتماد بحال ہونے لگا۔

    رضیہ بولی: "اچھا۔ وصال سہی۔ وصال کے معنی کیا ہوتے ہیں؟”

    "وصال کے معنی ہوتے ہیں ملاقات، محبوب سے ملاقات۔ آپ پھر مصرع پڑھیں۔” رضیہ نے دوبارہ مصرع پڑھا۔ پہلے سے ذرا بہتر تھا لیکن وصال اور یار کو اضافت کے بغیر الگ الگ پڑھا۔ اس پر ہم نے ٹوکا۔

    "وصال یار نہیں وصالِ یار ہے۔ درمیان میں اضافت ہے۔”

    "اضافت کیا ہوتی ہے؟ کہاں ہوتی ہے؟”

    "یہ جو چھوٹی سی زیر نظر آرہی ہے نا آپ کو، اسی کو اضافت کہتے ہیں۔”

    "تو سیدھا سادہ وصالے یار کیوں نہیں لکھ دیتے؟”

    "اس لیے کہ وہ علما کے نزدیک غلط ہے۔” یہ ہم نے کسی قدر رعب سے کہا۔

    علما کا وصال سے کیا تعلق ہے؟”

    "علما کا تعلق وصال سے نہیں زیر سے ہے۔”

    "اچھا جانے دیں علما کو۔ مطلب کیا ہوا؟”

    "شاعر کہتا ہے کہ یہ میری قسمت ہی میں نہ تھا کہ یار سے وصال ہوتا۔”

    "قسمت کو تو غالب صاحب درمیان میں یونہی گھسیٹ لائے، مطلب یہ کہ بے چارے کو وصال نصیب نہ ہوا۔”

    "جی ہاں کچھ ایسی ہی بات تھی۔”

    "کیا وجہ؟”

    "میں کیا کہہ سکتا ہوں؟”

    "کیوں نہیں کہہ سکتے۔ آپ ٹیوٹر جو ہیں۔”

    "شاعر خود خاموش ہے۔”

    "تو شاعر نے وجہ نہیں بتائی مگر یہ خوش خبری سنادی کہ وصال میں فیل ہوگئے؟”

    ” جی ہاں فی الحال تو یہی ہے۔ آگے پڑھیں۔” رضیہ نے اگلا مصرع پڑھا۔ ذرا اٹک اٹک کر مگر ٹھیک پڑھا:

    اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

    میں نے رضیہ کی دل جوئی کے لیے ذرا سرپرستانہ انداز میں کہا، "شاباش، آپ نے بہت اچھا پڑھا ہے۔”

    "اس شاباش کو تو میں ذرا بعد میں فریم کراؤں گی۔ اس وقت ذرا شعر کے پورے معنیٰ بتا دیں۔” ہم نے رضیہ کا طنز برداشت کرتے ہوئے کہا۔

    "مطلب صاف ہے، غالب کہتا ہے قسمت میں محبوبہ سے وصال لکھا ہی نہ تھا۔ چنانچہ اب موت قریب ہے مگر جیتا بھی رہتا تو وصال کے انتظار میں عمر کٹ جاتی۔”

    ” توبہ اللہ، اتنا Lack of confidence، یہ غالب اتنے ہی گئے گزرے تھےِ؟”

    گئے گزرے؟ نہیں تو۔۔۔غالب ایک عظیم شاعر تھے۔”

    "شاعر تو جیسے تھے، سو تھے لیکن محبت کے معاملے میں گھسیارے ہی نکلے”

    (ممتاز مزاح نگار کرنل محمد خان کے قلم سے)

  • گھوڑے کی چاکری

    گھوڑے کی چاکری

    مرزا وحیدُ الزّمان بیگ جس کے نام کے آگے یا پیچھے کوچوان لکھتے ہوئے کلیجہ خون ہوتا ہے، اپنا ہر جملہ "قصور معاف!” سے شروع کرتا تھا۔

    ملازمت کے انٹرویو کے دوران اس نے دعویٰ کیا کہ میں موٹر ڈرائیونگ بھی بہت اچھی جانتا ہوں۔ بشارت نے جل کر حقارت سے کہا، تو پھر تم تانگہ کیوں چلانا چاہتے ہو؟ دُعا کے انداز میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہنے لگا، پاک پروردگار آپ کو کار دے گا تو کار بھی چلا لیں گے۔

    بشارت نے اسے یہ سوچ کر ملازم رکھا تھا کہ چلو مسکین آدمی ہے۔ قابو میں رہے گا۔

    مرزا عبدُالودود بیگ نے ٹِپ دیا تھا کہ ذہانت پر ریجھ کر کبھی کسی کو ملازم نہیں رکھنا چاہیے۔ ملازم جتنا غبی ہو گا اتنا ہی زیادہ تابع دار اور خدمتی ہو گا، لیکن اس نے کچھ دن تو بڑی تابع داری دکھائی، پھر یہ حال ہو گیا کہ اسکول سے کبھی ایک گھنٹا لیٹ آ رہا ہے، کبھی دن میں تین تین گھنٹے غائب۔

    ایک دفعہ اسے ایک ضروری انوائس لے کر پاکستان ٹوبیکو کمپنی بھیجا۔ چار گھنٹے بعد لوٹا۔ بچے اسکول کے پھاٹک پر بھوکے پیاسے کھڑے رہے۔ بشارت نے ڈانٹا۔ اپنی پیٹی کی طرف جسے راچھ اوزار کی پیٹی بتاتا اور تانگے میں ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا تھا، اشارہ کر کے کہنے لگا، قصور معاف، وقوعہ ہو گیا۔

    میونسپل کارپوریشن کی بغل والی سڑک پر گھوڑا سکندری (ٹھوکر) کھا کے گر پڑا۔ ایک تنگ ٹوٹ گیا تھا۔ نعل بھی جھانجھن کی طرح بجنے لگی۔ انھیں ٹھیک کر رہا تھا۔ قصور معاف، نعل کی ایک بھی میخ ڈھیلی ہو تو ایک میل دور سے فقط ٹاپ سن کر بتا سکتا ہوں کہ کون سا سُم ہے۔

    بشارت نے حیرت سے پوچھا، تم خود نعل باندھ رہے تھے؟ بولا، اور نہیں تو۔ کہاوت ہے۔

    کھیتی، پانی، بینتی اور گھوڑے کا تنگ۔ اپنے ہاتھ سنواریے چاہے لاکھوں ہوں سنگ۔ گھوڑے کی چاکری تو خود ہی کرنی پڑتی ہے۔

    وہ ہر دفعہ نئی داستان اور نیا عذر تراشتا تھا۔ جھوٹے لپاٹی آدمی کی مصیبت یہ ہے کہ وہ سچ بھی بولے تو لوگ جھوٹ سمجھتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوا کہ اسی کی بات سچ نکلی۔ تاہم اس کی بات پر دل نہیں ٹھکتا تھا۔

    ایک دن بہت دیر سے آیا۔ بشارت نے آڑے ہاتھوں لیا تو کہنے لگا۔ "جنابِ عالی” میری بھی تو سنیے۔ میں ریس کلب کے اصطبل کے سامنے سے اچھا بھلا گزر رہا تھا کہ گھوڑا ایک دَم اَڑ گیا۔ چابک مارے تو بالکل الف ہو گیا۔ راہ گیر تماشا دیکھنے کھڑے ہو گئے۔

    اتنے میں اندر سے ایک بڈھا سلوتری نکل کے آیا۔ گھوڑے کو پہچان کے کہنے لگا، ” ارے ارے ! تُو اس شہزادے کو کائے کو مار ریا ہے۔ اس نے اچھے دن دیکھے ہیں۔ قسمت کی بدنصیبی کو صیّاد کیا کرے۔ یہ تو اصل میں دُرِشہوار (گھوڑی کا نام) کی بُو لیتا، یہاں آن کے مچلا ہے۔ جس ریس میں اس کی ٹانگ میں موچ آئی ہے، دُرِشہوار بھی اس کے ساتھ دوڑی تھی۔ دو اتوار پہلے، پھر اوّل نمبر پر آئی ہے۔ اخباروں میں فوٹو چھپے تھے۔بھاگوان نے مالک کو لکھ پتی کر دیا۔”

    پھر اس نے اس کے پرانے سائیس کو بلایا۔ ہم تینوں اسے تانگے سے کھول کے اندر لے جانے لگے۔ اسے سارے رستے معلوم تھے۔ سیدھا ہمیں اپنے تھان پہ لے گیا۔

    وہاں ایک بے ڈول کالا بھجنگ گھوڑا کھڑا پشتک (دولتی) مار رہا تھا۔ ذرا دور پہ، دوسری طرف دُرِشہوار کھڑی تھی۔ وہ اسے پہچان کے بے کل ہو گئی۔ کہاں تو یہ اتنا مچل رہا تھا اور کہاں یہ حال کہ بالکل چپکا، بے ست ہو گیا۔ گردن کے زخم کی مکھیاں تک نہیں اڑائیں، صاحب جی، اس کا گھاؤ بہت بڑھ گیا ہے۔ سائیس نے اسے بہت پیار کیا۔

    کہنے لگا، بیٹا! اس سے تو بہتر تھا کہ تجھے اسی وقت انجکشن دے کے سلا دیتے۔ یہ دن تو نہ دیکھنے پڑتے۔ یہ تو تیرے مالک کو ترس آگیا۔

    پھر اس نے اس کے سامنے ریس کلب کا راتب رکھا۔ صاحب، ایسا چبینا تو انسان کو بھی نصیب نہیں۔ پر قسم لے لو جو اس نے چکھا ہو۔ بس سَر جھکائے کھڑا رہا۔ سائیس نے کہا، اسے تو بخار ہے۔ اس نے اس کا بقیہ ساز کھول دیا اور لپٹ کے رونے لگا۔

    (نام وَر ادیب اور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے)

  • ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ اور ’’مقدمہ بازی‘‘

    ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ اور ’’مقدمہ بازی‘‘

    ’’زیڈ۔ اے۔ بی‘‘ کے بڑے بھائی کو ہم لوگ ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ ہی کہا کرتے تھے، ورنہ محض بخاری صاحب کہنے میں سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ کون سے بخاری صاحب، بڑے یا چھوٹے؟

    اور پورا نام لینے میں یعنی احمد شاہ بخاری اور ذوالفقار علی بخاری کہنے میں کچھ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اتنی سی تو عمر ہے اتنے بڑے بڑے نام لے کر اس کی خواہ مخواہ فضول خرچی کیوں کی جائے۔

    لہٰذا ریڈیو والے عموماً ان دونوں بھائیوں کو ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ اور ’’زیڈ۔ اے۔ بی‘‘ ہی کہنے میں کفایت شعاری کے زرّیں اصول پر عمل کیا کرتے تھے، لیکن یہ میں نے بیچ دھڑے سے ریڈیو کی بات کہاں شروع کردی۔ ریڈیو سے تو میرا تعلق اس وقت پیدا ہوا ہے جب آل انڈیا ریڈیو کا لکھنؤ اسٹیشن قائم کیا گیا ہے اور میں ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ سے بحیثیت پطرس کے اس سے پہلے ہی مل چکا تھا۔

    یعنی اس وقت جو میں لکھنؤ سے بحیثیت ’’ٹاکر‘‘ تقریباً ہر ہفتہ آل انڈیا ریڈیو دہلی جایا کرتا تھا اور تاکے بیٹھا تھا کہ پطرس سے ملاقات ہوتے ہی ان کو بھی اسی طرح پھانس لوں گا (کتاب کا مقدمہ لکھوانے کے لیے) جس طرح مولانا نیاز فتح پوری، عظیم بیگ چغتائی، فرحت الله بیگ اور رشید احمد صدیقی کو پھانس چکا ہوں۔

    اپنے ایک مجموعہ مضامین پر مولانا نیاز فتح پوری سے مقدمہ لکھوا چکا تھا۔ اس مجموعے کا نام ’’بحرِ تبسم‘‘ تھا۔ دوسرے مجموعہ ’’سیلابِ تبسم‘‘ پر مرزا عظیم بیگ چغتائی سے مقدمہ لکھوایا تھا۔ تیسرے مجموعہ ’’طوفانِ تبسم‘‘ پر مرزا فرحت الله بیگ نے مقدمہ لکھا تھا۔ چوتھے مجموعہ ’دنیائے تبسم‘‘ پر رشید احمد صدیقی کا مقدمہ تھا اور اب ایک اور مجموعہ پر مقدمہ لکھنے کو پطرس بخاری پر نشانہ باندھ چکا تھا۔

    چناں چہ ایک مرتبہ جو اپنی تقریر نشر کرنے دہلی گیا تو اس نئے مجموعے سے مسلح ہو کر گیا اور بخاری صاحب کو ان کے دفتر میں جالیا۔ بڑے خلوص سے ملے بلکہ مجھ کو کچھ شبہ سا ہونے لگا کہ میں ان سے پہلی مرتبہ نہیں مل رہا ہوں، یعنی ان سے مرعوب ہونا چاہتا اور وہ اس کا موقع ہی نہ دیتے تھے۔

    ہرچند کہ وہ اس وقت ڈپٹی کنٹرولر براڈ کاسٹنگ کی کرسی پر بیٹھے تھے، مگر مجھ کو اس سے کیا میں تو ایک عظیم مزاح نگار کے سامنے ان کے ایک عقیدت مند کی حیثیت سے حاضر تھا اور ان کی عظمت کا احساس مجھ پر طاری تھا۔ جس کو وہ اپنے انتہائی یگانگت اور مساوات کے برتاؤ سے غیر محسوس بنائے دیتے تھے۔ آخر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں حرفِ مطلب زبان پر لایا اور بخاری صاحب سے اپنے نئے مجموعہ مضامین پر مقدمہ لکھنے کی درخواست کی تو بڑی خندہ پیشانی سے بولے،

    ’’یہ کیا مقدمہ بازی لے بیٹھے آپ؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’جی ہاں یہ چھوٹا منہ بڑی بات ضرور ہے، مگر میں آپ سے وعدہ لیے بغیر ٹلنے والا نہیں ہوں۔‘‘ کچھ ہنستی ہوئی آنکھوں سے گھورا۔ کچھ سر پر ہاتھ پھیرا اور گویا عاجز آکر مسکراتے ہوئے بولے، ’’اگر آپ اپنے مقدمہ نگاروں کی ٹیم ہی مکمل کرنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے لکھ دوں گا مقدمہ۔‘‘

    وہ وعدہ لے کر میں بڑے فاتحانہ انداز سے واپس آیا، مگر اس ملاقات کے بعد ہی حالات کچھ کے کچھ ہوگئے۔ آل انڈیا ریڈیو نے لکھنؤ میں بھی اپنا اسٹیشن کھول دیا اور اس اسٹیشن کے ڈائریکٹر جگل کشور مہر اور پروگرام ڈائریکٹر ملک حسیب احمد نے اپنے محکمہ کو نجانے کیا پٹی پڑھائی کہ مجھ کو بھی صحافت چھوڑ کر ریڈیو سے وابستہ ہوجانا پڑا۔

    اور اس کے چند ہی دن بعد میرا وہ مسوّدہ جو میں بخاری صاحب کے پاس چھوڑ آیا تھا مجھ کو ان کے اس خط کے ساتھ واپس مل گیا کہ ’’اب آپ کو ریڈیو میں ایک منصب حاصل ہوچکا ہے، عافیت کا تقاضا یہی ہے کہ آپ مجھ سے مقدمہ نہ لکھوائیں اور میں مقدمہ نہ لکھوں۔‘‘ بات بھی ٹھیک تھی لہذا یہ ارمان دل کا دل ہی میں رہ گیا اور بقول بخاری صاحب کے میری مقدمہ نگاروں کی ٹیم مکمل نہ ہوسکی۔

    (نام وَر ادیب اور شاعر شوکت تھانوی نے یوں تو ادب کی مختلف اصناف میں‌ طبع آزمائی کی اور خوب لکھا، لیکن ان کی وجہِ شہرت طنز و مزاح ہے، پیشِ نظر پارہ ان کی ایک شگفتہ تحریر سے لیا گیا ہے)

  • "مجرم نے کوڑے کھانے کی سزا کیوں قبول کی؟”

    "مجرم نے کوڑے کھانے کی سزا کیوں قبول کی؟”

    ہم تین چیزوں سے بہت ڈرتے ہیں۔ تجریدی مصوری سے، علامتی افسانے سے اور اساتذہ کے کلام سے۔ وجہ یہ ہے کہ ان تینوں کے مفہوم اخذ کرنا ناظر یا قاری کی ذمہ داری ہے نہ کہ مصور، افسانہ نگار اور شاعر کی۔

    مصور ترچھے خطوط سے، افسانہ نگار الفاظ سے اور اساتذۂ سخن ردیف و قوانی سے فن پارے کو اس حد تک گراں بار کر دیتے ہیں کہ اس میں مزید کوئی بار اٹھانے کی گنجائش نہیں رہتی۔ لہٰذا مفہوم و معنی کا یہ بار ہم جیسے ناتوانوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔

    میر تقی میرؔ کو بھی اس قسم کا تجربہ ہوا تھا جس کا ذکر اس شعر میں ملتا ہے:

    سب پہ جس بار نے گرانی کی
    اس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا

    ہم تجریدی مصوری کی نمائشوں میں کبھی نہیں جاتے، یہاں تک احتیاط برتتے ہیں کہ جب شہر میں اس قسم کی کوئی نمائش ہوتی ہے، تو گھر سے باہر نہیں نکلتے کہ کہیں فضائی آلودگی ہم پر بھی اثر انداز نہ ہوجائے۔ علامتی افسانے لکھنے والوں کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ انہوں نے گفتگو میں علامتوں سے کام لیا، تو ہمارا حشر بھی وہی ہوگا جو افسانے کی صنف کا ہوا ہے۔

    اساتذۂ سخن کا ہم بے حد ادب کرتے ہیں اور اِسی وجہ سے ہم نے کبھی ان سے بے تکلف ہونے کی جسارت نہیں کی، یعنی ان کے دواوین کے قریب جانا اور چُھونا تو کیا، انھیں دُور سے دیکھنا بھی ہمارے نزدیک سوئے ادب ہے۔

    ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے، تو بڑی جماعتوں کے طالب علموں کو ان کی شرارتوں پر جو سخت سزا دی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ ان سے استاد ذوقؔ کی کسی غزل کی شرح لکھوائی جاتی تھی۔ یہی سبب ہے کہ ہم نے بڑی جماعتوں میں پہنچنے سے پہلے ہی سلسلۂ تعلیم منقطع کر لیا۔ معلوم نہیں آج کل اسکولوں میں اِس قسم کی سزائیں دینے کا رواج ہے یا نہیں۔ اگر ہوگا تو یقینا اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی کا کلام سزا دینے کے کام آتا ہوگا۔

    یہ بات ہم نے بلاوجہ نہیں کہی۔ سلطان جمیل نسیم نے یہ واقعہ ہمیں سنایا ہے کہ حیدرآباد میں ایک مجرم کو پندرہ کوڑے کھانے یا استاد کی پندرہ غزلیں سننے کی سزا دی گئی۔ سزا کے انتخاب کا حق استعمال کرتے ہوئے مجرم نے کوڑے کھانے کا فیصلہ کیا کیوں کہ یہ سزا نسبتاً نرم تھی۔ سلطان جمیل نسیم چوں کہ افسانہ نگار ہیں، اِس لیے ممکن ہے بعض لوگ اس واقعے کو درست نہ سمجھیں، لیکن ہمارا خیال ہے کہ کسی افسانہ نگار کا سہواً کسی واقعے کو صحیح بیان کر دینا خارج از امکان نہیں۔

    استاد اختر انصاری شاعر ہی نہیں، ایک رسالے کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ رسالہ تو کبھی کبھی چھپتا ہے، لیکن دیوان ہر سال باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں استاد کا بیسواں دیوان شائع ہوا تھا، تو وہ اسے اپنے عقیدت مندوں میں قیمتاً تقسیم کرنے کے لیے کراچی تشریف لائے تھے۔ اس سلسلے میں وہ ہم سے بھی ملے تھے۔

    ہم نے عرض کیا تھا: ’’استاد! ہم اس شرط پر قیمت ادا کریں گے کہ دیوان آپ کسی اور کو دے دیں۔‘‘ اس گزارش سے وہ بے حد خوش ہوئے اور فرمایا: ’’اگر سب عقیدت مند آپ کی طرح کے ہوں، تو پھر دیوان چھپوائے بغیر ہی اس کا پورا ایڈیشن فروخت ہوسکتا ہے۔‘‘

    (مشفق خواجہ، خامہ بگوش کے قلم سے)

  • اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہو گا؟

    اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہو گا؟

    بیکاری یعنی بے روزگاری اس اعتبار سے تو نہایت لاجواب چیز ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی حیثیت کا انسان اپنے گھر میں تمام دنیا سے بے نیاز ہو کر اس طرح رہتا ہے کہ ایک شہنشاہِ ہفت اقلیم کو اپنے محل میں وہ فارغ البالی نصیب نہیں ہو سکتی۔

    سچ تو یہ ہے کہ وہ دولت جس کو تمام دنیا کے سرمایہ دار اپنی جان اور اپنا ایمان سمجھتے ہیں، ایک ایسا مستقل عذاب ہے جو انسان کو کبھی مطمئن نہیں ہونے دیتا۔ سرمایہ داروں کی تمام زندگی بس دو ہی فکروں میں کٹتی ہے ایک یہ کہ اگر ہمارا روپیہ چور لے گئے تو کیا ہوگا؟

    یہ دونوں فکریں اپنی اپنی جگہ ایسی مہلک ہوتی ہیں کہ ان کو بھی دق کی منجملہ اقسام کے سمجھنا چاہیے بلکہ دق کی دوسری قسمیں تو معمولی ہیں مثلا پھیپھڑے کی دق، آنتوں کی دق، ہڈی کی دق وغیرہ، مگر یہ فکریں تو دل اور دماغ کی دق سے کم نہیں جن کا مارا ہوا نہ مرتا ہے نہ جیتا ہے۔ بس توند بڑھتی جاتی ہے اور دل چھوٹا ہوتا رہتا ہے۔

    مختصر یہ کہ ان سرمایہ داروں کی زندگی حقیقتا کشمکشِ جبر و اختیار میں بسر ہوتی ہے کہ نہ زندہ رہتے بن پڑتی ہے نہ مرنے کو دل چاہتا ہے۔

    اب رہے غریب ان کی زندگی بھی کوئی زندگی ہے کہ بلا ضرورت پیدا ہوگئے اور جب بھی چاہا مر گئے۔ نہ جینے کی خوشی تھی، نہ مرنے کا کوئی غم۔

    "اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے”

    (شوکت تھانوی کے ایک شگفتہ مضمون سے اقتباس)

  • قلم اور کھرپی…

    قلم اور کھرپی…

    اردو ادب اور طنز و مزاح کے میدان میں رشید احمد صدیقی بڑا نام اور مقام رکھتے ہیں۔ یہاں ہم ان پر لکھے گئے ایک شخصی خاکے سے چند پارے نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں‌ گے۔

    یہ خاکہ رشید احمد صدیقی کی وفات کے بعد ان کے شاگرد مسعود حسین خاں نے لکھا تھا جو ماہرِ لسانیات، نقاد اور محقق بھی تھے۔

    ’’رشید احمد صدیقی کو پھولوں سے بہت رغبت تھی، بالخصوص گلاب کے پھولوں سے۔ یہ ان کا پسندیدہ پھول تھا۔ انھوں نے اپنے مکان کے وسیع اور کشادہ صحن میں گلاب کاشت کر رکھا تھا اور ہمہ وقت اس کی دیکھ بھال میں لگے رہتے تھے، کھرپی ان کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔‘‘

    ’’رشید صاحب معاشرتی و جمالیاتی دونوں اعتبار سے بیرونِ خانہ سے زیادہ اندرونِ خانہ کی زیبائش کے قائل تھے۔ چنانچہ جب کہ مکان کے باہری حصے میں خاک، دھول اڑتی تھی، اندر ایک لہلہاتا چمن اور سبزہ زار تھا اور پھولوں کی وہ بھرمار کہ پریاں قطار اندر قطار۔ قلم کے بعد صرف کھرپی کو یہ شرف حاصل تھا کہ ان کے دستِ مبارک میں دیکھی جاتی جس سے وہ کیاریوں میں قلم کاری کرتے۔‘‘

    ’’پھولوں ہی کی نسبت سے انھیں جانوروں سے چڑ تھی۔ میں نے کبھی ان کے مکان پر کوئی کتا پلا ہوا نہیں دیکھا۔ انھیں سالانہ چوریاں گوارا تھیں، لیکن کتا پالنا منظور نہیں تھا۔ اکثر کہتے کہ انسان سے بہتر جانور ہوتا ہے، لیکن سب سے بہتر یہ خاموش پھول پودے ہوتے ہیں۔ ان کا سب سے قیمتی تحفہ گلاب کا پھول ہوتا اور سب سے بڑی مرحمت گلاب کی پود جسے وہ دوسروں پر اعتبار نہ کرتے ہوئے اپنے خاص مالی سے آپ کے مکان میں لگوا دیتے۔‘‘

  • کسی نوجوان کے اداس ہونے کی صرف دو وجوہ ہو سکتی ہیں!

    کسی نوجوان کے اداس ہونے کی صرف دو وجوہ ہو سکتی ہیں!

    بخاری صاحب کا ان دنوں عالمِ شباب تھا۔ پینتیس سال کے قریب عمر ہوگی، دراز قد، گھنی بھنویں، سرخ و سفید رنگت، بڑی بڑی روشن آنکھیں، لمبوترا چہرہ، شکل و شباہت کے اعتبار سے وہ افغان یا ایرانی دکھائی دیتے تھے۔

    ریشمی گاؤن پہن کر کلاس روم میں آتے تھے۔ حاضری لیے بغیر لیکچر شروع کیا کرتے، عموماً لیکچر سے پہلے اپنے عزیز شاگردوں سے دو ایک چونچیں ضرور لڑایا کرتے تھے۔ بلراج ساہنی مشہور ہندوستانی اداکار، ان کا عزیزترین شاگرد تھا۔ اکثرایک آدھ فقرہ اس پر کستے تھے۔

    ’’کیا بات ہے ساہنی، آج کچھ کھوئے کھوئے نظر آتے ہو، جانتے ہو جب کوئی نوجوان اداس رہتا ہے تو اس کی اداسی کی صرف دو وجہیں ہوتی ہیں یا وہ عشق فرمانے کی حماقت کر رہا ہے یا اس کا بٹوہ خالی ہے۔‘‘

    لیکچر کسی کتاب یا نوٹس کی مدد کے بغیر دیتے تھے۔ انگریزی کا تلفظ ایسا تھا کہ انگریزوں کو رشک آتا تھا۔ فرسودہ یا روایتی اندازِ بیان سے چڑ تھی۔ غلطی سے بھی کوئی عامیانہ فقرہ ان کی زبان سےنہیں نکلتا تھا۔

    ڈراما پڑھانے میں خاص کمال حاصل تھا۔ ہملیٹ پڑھا رہے ہیں تو چہرے پر وہی تأثرات پیدا کرلیں گے جو موقع محل کی عکاسی کرتے ہوں۔ کنگ لیر پڑھاتے تو معلوم ہوتا، کہ طوفانوں میں گھرا ہوا بوڑھا شیر غرا رہا ہے۔ شیکسپیئر کے مشہور کرداروں کی تقریریں زبانی یاد تھیں، انھیں اس خوبی سے ادا کرتے کہ سامعین کو پھریری سی آجاتی۔

    حافظہ غضب کا پایا تھا، اکثر جب کوئی نئی کتاب پڑھتے تو دوسرے دن کلاس روم میں اس کا خلاصہ اتنی صحت کے ساتھ بیان کرتے کہ لیکچر سننے کے بعد محسوس ہوتا کتاب انھوں نےنہیں ہم نے پڑھی ہے۔

    ایک بار فرانسیسی فلسفی برگساں کی کتاب ’’مزاح‘‘ کی وضاحت فرماتے وقت انھوں نے طنز و مزاح سے متعلق بہت دل چسپ باتیں بتائیں۔

    فرمایا۔ انسان ہی صرف ہنسنے والا جانور ہے۔

    میں نے کہا، جناب بندر بھی ہنستا ہے۔

    ہنس کر فرمایا، کیوں کہ وہ انسان کا جدِ امجد ہے۔

    بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔ ہنسنے کے لیے عقل کا ہونا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیوقوف کو لطیفہ سنانا تضیعِ اوقات ہے۔ اگرایک آدمی کیلے کے چھلکے سے پھسل پڑے تو دوسرے اس پر ہنستے ہیں، لیکن اگر ایک بھینس کیلے کے چھلکے سے پھسل کر کیچڑ میں گر پڑے تو باقی بھینسیں اس پر کبھی نہیں ہنسیں گی، کیوں کہ بھینس کے پاس عقل نہیں ہوتی، تبھی تو یہ محاورہ ایجاد ہوا، عقل بڑی یا بھینس۔۔۔۔

    معروف مزاح نگار کنہیا لال کپور کے مضمون پیرومرشد سے انتخاب