Tag: مزاحیہ شاعر

  • دلاور فگار:‌ اردو شاعری کے شہنشاہِ‌ ظرافت کا تذکرہ

    دلاور فگار:‌ اردو شاعری کے شہنشاہِ‌ ظرافت کا تذکرہ

    اردو شاعری میں طنز و مزاح کے بادشاہ کہلانے والے دلاور فگار نے ایک زمانے میں عام آدمی کے مسائل اور اس کی مشکلات کو اپنے اشعار کی صورت میں اربابِ حلّ و عقد تک پہنچانے کا کام کیا۔ ان کی شاعری گویا عوام کی آواز تھی۔

    دلاور فگار مشاعروں میں اپنے ظریفانہ کلام اور انداز کی وجہ سے خوب داد وصول کرتے تھے۔ انھیں اردو کے مزاح گو شعراء میں شہنشاہِ ظرافت کے نام سے شہرت اور امتیاز حاصل ہوا۔ دلاور فگار 21 جنوری 1998ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    عام آدمی کے مسائل اور دکھوں کو قہقہوں کی پوشاک میں لپیٹ کر طنزیہ انداز میں حکم رانوں کے سامنے لانے والے دلاور فگار کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے ایک تخلیق کار اور معاشرے کے فرد کی حیثیت سے اپنی ذمے داری پوری کی۔ دلاور فگار کا مزاح سخت اور کھردرا نہیں‌ بلکہ یہ خوش دلی اور خوش مذاقی پر مبنی ہے۔ ان کے طنزیہ اشعار بھی تہذیب اور شرافت کے پیمانے پر پورا اترتے ہیں۔ ان کا یہ مشہور قطعہ ملاحظہ کیجیے۔

    حاکمِ رشوت ستاں فکرِ گرفتاری نہ کر
    کر رہائی کی کوئی آسان صورت، چھوٹ جا
    میں بتاؤں تجھ کو تدبیرِ رہائی، مجھ سے پوچھ
    لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا

    یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ دلاور فگار نے شباب بدایونی کے تخلّص سے سنجیدہ شاعری بھی کی اور ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ بعنوان حادثہ 1954ء شایع ہوا تھا۔ بعد میں انھوں نے تخلّص ہی نہیں اپنا ذوق و طرزِ شاعری ہی بدل لیا اور طنز و مزاح کے میدان میں دلاور فگار مشہور ہوئے۔ اس وقت تک وہ بھارت میں مقیم تھے۔

    ان کا خاندانی نام دلاور حسین تھا۔ 1928ء میں بدایوں کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ 1942ء میں ہائی اسکول کے امتحان کام یاب ہوئے۔ والد مقامی اسلامیہ اسکول میں استاد تھے۔ دلاور حسین اس وقت اعلٰی تعلیم حاصل نہیں کرسکے لیکن بعد میں ایم اے کے سند یافتہ ہوگئے۔ کم عمر تھے جب ایک ڈاک خانے میں کام کرنے لگے تھے۔ اسی زمانے میں علم و ادب کا شوق ہوا اور شاعری شروع کی اور بدایوں کے مشاعروں میں پہچان بنانے لگے مگر شباب بدایوں کے نام سے۔ وہ لہک لہک کر اپنی غزلیں سنایا کرتے تھے۔

    دس جماعتیں پڑھ لینے کے چار سال بعد انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا اور بریلی کالج گئے جہاں سے معلّمی کا ڈپلومہ بھی لے لیا اور والد کے سایۂ عاطفت سے محرومی کے بعد 1950ء میں ٹیچنگ شروع کردی۔ 1953ء میں بی اے کیا اور اس کے بعد معاشیات میں ایم اے۔ 1966ء انھوں نے اردو میں ایم اے کیا اور فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔ یہ بھارت میں قیام کے دوران ان کا تعلیمی اور ادبی سفر تھا اور پھر وہ ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ یہاں وہ کراچی میں مقیم ہوئے۔

    کراچی میں دلاور فگار کو عبد اﷲ ہارون کالج میں بحیثیت لیکچرار اردو پڑھانے کا موقع ملا۔ مشہور شاعر فیض احمد فیض اس وقت وہاں پرنسپل تھے۔ شہرِ قائد کے مشاعروں میں دلاور فگار شریک ہوتے اور اپنی مزاحیہ شاعری سے سامعین کو قہقہے لگانے پر ہی مجبور نہیں کرتے بلکہ انھیں مسائل کا ادراک کرواتے اور آمادہ کرتے کہ وہ اپنے لیے غوروفکر کریں۔

    دلاور فگار کے مزاحیہ شعری مجموعوں میں "انگلیاں فگار اپنی”، "ستم ظریفیاں”، "آداب عرض”، "شامتِ اعمال”، "مطلع عرض ہے”، "خدا جھوٹ نہ بلوائے”، "چراغِ خنداں” اور "کہا سنا معاف کرنا” شامل ہیں۔ مرحوم نے جمی کارٹر کی مشہور تصنیف کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔

  • یومِ وفات: تذکرہ خواہ مخواہ کا….

    یومِ وفات: تذکرہ خواہ مخواہ کا….

    اردو شاعری میں طنز و مزاح کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے خواہ مخواہ حیدر آبادی اُن بزلہ سنج شعرا میں شامل ہوئے جنھیں لوگوں نے سندِ قبولیت بخشی اور ان کی سخن طرازیوں پر خوب داد و تحسین سے نوازا۔ آج اس مزاح گو شاعر کی برسی منائی جارہی ہے۔

    نثر یا نظم میں‌ طنز و مزاح کسی بھی معاشرے کے افراد میں جہاں برداشت، تحمل اور بردباری پیدا کرتا ہے، وہیں‌ ان کو زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی کے آزار سے دور اور پھیکے پن سے نکل کر لمحۂ موجود کو خوش گوار بنانے پر آمادہ کرتا ہے۔ اگر یہ کوشش کوئی شاعر کرے اور اس میں‌ کام یاب ہوجائے تو وہ مقبول بھی ہوجاتا ہے۔ غوث خواہ مخواہ حیدرآبادی ایسے ہی شاعر تھے جن کا انتقال 2 مئی 2017ء کو ہوا۔

    ہندوستان اور بیرونِ ممالک مقیم باذوق اور شعر و ادب سے شغف رکھنے والے افراد کی اکثریت خواہ مخواہ حیدرآبادی کی مداح ہے اور دکنی بولی میں ان کے کلام سے لطف اندوز ہوتی رہی ہے۔ خواہ مخواہ حیدرآبادی کو بالخصوص مشاعروں‌ میں‌ بڑے شوق اور توجہ سے سنا جاتا تھا۔ خواہ مخواہ حیدرآبادی کے اوراقِ‌ زیست کو الٹتے ہوئے طنز و مزاح‌ سے متعلق ڈاکٹر وزیر آغا کی یہ رائے بھی پڑھیے: ’’مزاح نگار اپنی نگاہِ دوربین سے زندگی کی ان ناہمواریوں اور مضحک کیفیتوں کو دیکھ لیتا ہے جو ایک عام انسان کی نگاہوں سے اوجھل رہتی ہیں۔ دوسرے ان ناہمواریوں کی طرف مزاح نگار کے ردعمل میں کوئی استہزائی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ ان سے محظوظ ہوتا اور اس ماحول کو پسند بھی کرتا ہے جس نے ان ناہمواریوں کو جنم دیا ہے۔ چنانچہ ان ناہمواریوں کی طرف اس کا زاویۂ نگاہ ہمدردانہ ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ مزاح نگار اپنے ’’تجربے‘‘ کے اظہار میں فن کارانہ انداز اختیار کرتا ہے اور اسے سپاٹ طریق سے پیش نہیں کرتا۔‘‘ خواہ مخواہ حیدرآبادی نے بھی زندگی اور مسائل کو فن کارانہ طریقے سے اپنے کلام میں‌ پیش کیا اور اسے ہر طرح‌ کے ابتذال اور سطحی پن سے بھی دور رکھا۔

    خواہ مخواہ حیدرآبادی 1928ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ وہ نوجوانی میں‌ مشاعرے پڑھنے لگے تھے اور دکن میں‌ اپنی اردو اور دکنی زبان میں‌ مزاحیہ شاعری کے باعث لوگوں میں بہت مقبول ہوئے۔ انہیں مزاحیہ مشاعروں میں خاص طور پر مدعو کیا جاتا تھا بلکہ وہ ہندوستان کے مزاحیہ مشاعروں کا جزوِ لازم تھے۔ خواہ مخواہ ان شعرا میں سے تھے جن کا دکنی زبان مں کلام زباں زدِ عام ہوا۔ ’’نئیں بولے تو سنتے نئیں‘‘ اس شاعر کا وہ کلام ہے جسے ہندوستان اور بیرونِ ملک منعقدہ مشاعروں‌ میں ہمیشہ فرمائش کرکے سنا جاتا تھا۔

    ان کا اصل نام غوث محی الدّین احمد تھا۔ ابتدائی تعلیم حیدرآباد دکن میں پائی اور اردو میڈیم میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ غوث خواہ مخواہ کو بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں منعقدہ مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا اور وہاں تارکینِ وطن کی بڑی تعداد انھیں بڑے شوق سے سنتی تھی۔ ان میں‌ پاک و ہند کے لوگوں کے ساتھ بنگلہ دیشی اور دیگر ممالک کے اردو سمجھنے والے افراد شامل ہیں۔ فالج کے حملے کے بعد اپنی مزاحیہ شاعری سے لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کر دینے والے خواہ مخواہ حیدرآبادی چلنے پھرنے معذور اور بولنے سے قاصر تھے۔ خواہ مخواہ حیدرآبادی کی تصانیف میں ’’حرفِ مکرر‘‘، ’’بفرضِ محال‘‘اور ’’کاغذ کے تیشے‘‘ شامل ہیں۔

  • کیا کوئی شاعر مَر گیا…!

    کیا کوئی شاعر مَر گیا…!

    شاعروں نے رات بھر بستی میں واویلا کیا
    داد کے ہنگامہ سے پورا محلہ ڈر گیا
    اک ضعیفہ اپنے بیٹے سے یہ بولی اگلے روز
    رات کیسا شور تھا کیا کوئی شاعر مر گیا

    یہ مزاحیہ قطعہ اطہر شاہ خان جیدی کا ہے جو شاعر ہی نہیں‌ ایک اسکرپٹ رائٹر، ہدایت کار اور اداکار بھی تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2020ء میں ہمیشہ کے لیے دنیا سے چلے گئے تھے۔

    اطہر شاہ خان کی پیدائش رام پور کی تھی۔ تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کی تو کراچی میں‌ سکونت پذیر ہوئے۔ انھوں نے اپنے تعلیمی مراحل مختلف شہروں میں مکمل کیے۔ ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی اور بعد میں پشاور اور پھر کراچی سے گریجویشن کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے صحافت کے شعبے میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔ جیدی اُن کا وہ روپ تھا جس میں انھوں نے اپنے دیکھنے والوں کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیا اور اس کردار کے ذریعے لوگوں کو صاف ستھرا مزاح اور بامقصد تفریح کا موقع دیا۔ ان کے اس کردار کو وہ مقبولیت اور پسندیدگی حاصل ہوئی کہ جیدی ان کے اصل نام کے ساتھ ہی جڑ گیا۔

    ریڈیو پاکستان سے سفر کا آغاز کرنے والے اطہر علی شاہ عرف جیدی نے لگ بھگ بیس برسوں میں سات سو ڈرامے لکھے۔ 70 اور 80 کی دہائی میں وہ نہایت مشہور ہوئے اور ان کے مزاحیہ ڈرامے اور جیدی کا کردار ہر گھر میں‌ پسند کیا جاتا تھا۔ پی ٹی وی پر ان کے ڈراموں میں انتظار فرمائیے، با ادب باملاحظہ ہوشیار، لاکھوں میں تین بہت مقبول ہوئے۔

    اطہر شاہ خان جیدی نے ڈرامہ نگاری کے ساتھ فلمیں بھی لکھیں۔ ان کی پہلی فلم بازی، سپر ہٹ ثابت ہوئی، جس میں فلم اسٹار ندیم اور محمد علی پہلی بار آمنے سامنے آئے اور اس میں اداکارہ نشو کو بھی متعارف کرایا گیا۔ ان کی دیگر فلموں میں گونج اٹھی شہنائی، ماں بنی دلہن، منجی کتھے ڈھاواں شامل ہیں۔ اطہر شاہ خان جیدی نے ڈرامہ نگاری، کردار نگاری اور شاعری میں منفرد شناخت بنائی۔ انھوں نے مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے بڑا نام کمایا اور مشاعروں میں انھیں خوب سنا جاتا تھا۔

    ’’جیدی‘‘ ان کا تخلیق کردہ ایک ایسا کردار تھا جو ان کی وجہ شہرت بنا اور ناقابلِ فراموش ثابت ہوا۔ اس کردار کے لیے انھوں نے ایک بڑا سا کوٹ، ایک بڑے فریم کی عینک پہنی اور بولنے کا مخصوص انداز اپنایا جس میں مٹھاس اور ایسی کشش تھی کہ ہر ایک کو جیدی اپنا لگنے لگا، جب کہ اپنے مکالموں اور مخصوص فقروں کی بدولت وہ سبھی کے دل میں‌ گھر کر گئے۔ اطہر شاہ خان نے تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلموں کے لیے معیاری اسکرپٹ، خاکے لکھے اور ساتھ ساتھ اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔

    2001ء میں اطہر شاہ خان کو حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا۔

  • یومِ وفات: "سیّد محمد جعفری کی مزاحیہ شاعری ماند پڑنے والی نہیں”

    یومِ وفات: "سیّد محمد جعفری کی مزاحیہ شاعری ماند پڑنے والی نہیں”

    سیّد محمد جعفری اردو شاعری میں ایسے مزاح گو مشہور ہیں جنھیں صاحبِ اسلوب کہا جاتا ہے اور جن کا کلام فنی اعتبار سے نہایت بلند ہے۔ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، لیکن ان مزاحیہ شاعری بھی ماند پڑنے والی نہیں جس کا ایک سبب یہ ہے کہ سیّد محمد جعفری نے جن طبقات اور مسائل کو موضوع بنایا، وہ آج بھی برقرار ہیں۔

    سیّد محمد جعفری 7 جنوری 1976ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے 27 دسمبر 1905ء کو متحدہ ہندوستان کے علاقے بھرت پور کے ایک ذی علم گھرانے میں آنکھ کھولی۔والد بسلسلہ ملازمت لاہور چلے آئے جہاں سیّد محمد جعفری کا بچپن گزرا اور اسی شہر میں تعلیم و تربیت پائی۔ میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے اور کیمیا کے مضمون میں‌ بی ایس سی (آنرز) کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں ایم اے (فارسی) اور ایم او اے (ماسٹر آف اورینٹل) اورینٹل کالج لاہور سے پاس کیا۔ میو اسکول آف آرٹس لاہور سے مصوّری اور سنگ تراشی کی تعلیم حاصل کی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد سیّد محمد جعفری کو مرکزی محکمۂ اطلاعات میں اہم منصب پر فائز کردیا گیا۔ اسی دوران ایران میں بحیثیت پریس اور کلچرل اتاشی خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ اس سے قبل برطانوی ہند کی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ذیلی ادارے پریس انفامیشن ڈیپارٹمنٹ، دہلی سے وابستگی کے بعد کراچی، لاہور، تہران اور ایران میں خدمات انجام دے چکے تھے۔

    سیّد محمد جعفری نے سیاسی اور سماجی موضوعات پر لگ بھگ 900 نظمیں تحریر کیں۔ ان کے یہاں کلاسیکی شاعری کی تمام التزامات نظر آتے ہیں، خصوصاً غالب اور اقبال کے جن مصرعوں کی تضمین کی ہے اس کی اردو شاعری میں مثال کم ہی ملتی ہے۔ اس ممتاز مزاح گو شاعر کے کلام کی سب سے بڑی خوبی نکتہ سنجی ہے اور یہ شاعری شادابی اور شگفتگی کا آئینہ ہے۔ انھوں‌ نے تضمین اور تحریف کے ساتھ مختلف موضوعات کو اپنی مزاحیہ شاعری میں سمیٹا ہے۔

    سیّد محمد جعفری کی وفات کے بعد ان کی شاعری کے دو مجموعے شوخیٔ تحریر، تیر نیم کش اور بعد میں کلیات شائع ہوئی۔ امتحان کے عنوان سے ان کی ایک مزاحیہ نظم یہاں ہم نمونۂ کلام کے طور پر نقل کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔

    "امتحان”
    امتحاں سر پر ہے لڑکے لڑکیاں ہیں اور کتاب
    ڈیٹ شیٹ آئی تو گویا آ گیا یوم الحساب

    صرف اک کاغذ کے پرزے سے ہوا یہ انقلاب
    خود بہ خود ہر اک شرارت کا ہوا ہے سد باب

    پہلے تھیں وہ شوخیاں جو آفت جاں ہو گئیں
    ”لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں”

    وقت رٹنے کے لیے کم رہ گیا زیادہ ہے کام
    سال بھر جن کو نہ دیکھا وہ خلاصے نیک نام

    سامنے رکھے ہیں ان کو جھک کے کرتے ہیں سلام
    ان کی پوجا ہی میں سارا وقت ہوتا ہے تمام

    ٹیلی ویژن بھی نہیں غائب ہوئے ہیں سارے کھیل
    ڈال کر کولہو میں بچوں کو نکالو ان کا تیل

    آج کل بھولے ہوئے ہیں سب الیکشن اور ڈیبیٹ
    پریکٹیکل کی کاپیوں کے آج کل بھرتے ہیں پیٹ

    حاضری اب کون بولے کون اب آئے گا لیٹ
    کالج اور اسکول ہیں سنسان خالی ان کے گیٹ

    بند ہے کمرے کے اندر گردش لیل و نہار
    کیا خبر آئی خزاں کب کب گئی فصل بہار

    امتحاں کا بھوت ہے یا ہے قیامت کا سماں
    امی اور ابا سے چھپ کر رو رہی ہیں لڑکیاں

    کہتے ہیں لڑکے کیا کرتے تھے جو اٹکھیلیاں
    ”یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں”

    اب ہرن کی طرح سے بھولے ہوئے ہیں چوکڑی
    اس قدر رٹنا پڑا ہے جل اٹھی ہے کھوپڑی

    حال پر بچوں کے ہیں بے حد پریشاں والدین
    ساتھ میں اولاد کے ان کا اڑا جاتا ہے چین

    گرچہ ہے تعلیم اور رٹنے میں بعد المشرقین
    سوچتے ہیں وہ کہ اچھا ذہن ہے خالق کی دین

    کیا خبر تھی اس طرح جی کا زیاں ہو جائے گا
    ”یعنی یہ پہلے ہی نذر امتحاں ہو جائے گا”

    رات بھر جاگیں گے وہ جو سال بھر سوتے رہے
    کاٹنے جاتے ہیں گندم گرچہ جو بوتے رہے

    کیا توقع ان سے رکھیں فیل جو ہوتے رہے
    نقل کر کے داغ کو دامن سے جو دھوتے رہے

    نقش فریادی ہے ان کی شوخی تحریر کا
    معرکہ ہوتا ہے اب تدبیر کا تقدیر کا

    جو سوال امپارٹینٹ آتا ہے ہر اک باب میں
    غور سے دیکھا ہے اس کو دن دہاڑے خواب میں

    ہو گیا ہوں اس لیے بد نام میں اصحاب میں
    آؤٹ کر ڈالا ہے پیپر عالم اسباب میں

    کچھ تو ہے آخر جو گیس پیپر میں آیا یاد تھا
    جس نے پیپر سیٹ کیا ہے وہ مرا استاد تھا

  • مغرب زدہ طبقے اور معاشرے کی اصلاح کرنے والے شاعر اکبر الٰہ آبادی کی برسی

    مغرب زدہ طبقے اور معاشرے کی اصلاح کرنے والے شاعر اکبر الٰہ آبادی کی برسی

    اکبر الٰہ ابادی اردو شاعری میں اپنے طنز و مزاح پر مبنی کلام کی بدولت ہی مشہور نہیں تھے بلکہ انھیں اپنے زمانے کا ایک مفکّر، مدبّر اور مصلح بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

    اکبر الٰہ آبادی کے دور میں نہ صرف مشرقیت پر بلکہ اسلامیت پر بھی مغربی رنگ غلبہ پا رہا تھا۔ اس دور میں قوم و ملّت کی اصلاح کی اشد ضرورت تھی، اکابرین چاہتے تھے کہ لوگ اپنی اسلامی روایات پر قائم رہتے ہوئے اپنی تہذیب اور ثقافت کو اہمیت دیں۔ انہی میں اکبر بھی شامل تھے۔ مغربیت کے اس غلبے کے خلاف اکبر الٰہ آبادی نے شاعری سے مدد لی۔

    آج اردو زبان کے اس مشہور شاعر کا یومَِ وفات ہے۔ وہ 1921ء کو آج ہی دن دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    اکبر کی شاعری اخلاقی، سیاسی، تہذیبی شعور اور زندگی کا آئینہ سمجھی جاتی ہے۔ وہ واعظ بھی تھے، مصلح بھی، نقّاد بھی، نکتہ چیں بھی۔ انھیں ان کی روایت اور جدّت پسندانہ سوچ کے ساتھ ایک انقلابی اور باغی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔

    اکبر کو اس دور کے خواص اور عوام دونوں نے سندِ قبولیت بخشی۔ اکبر نے اپنے کلام کے ذریعے اس دور میں‌ سبھی کی گویا خبر لی، اور کسی سے مرعوب ہوئے۔ وہ حق بات کہنے سے نہ گھبرائے اور اس معاملے میں کسی کے عہدے مرتبے کا لحاظ بھی نہ کیا۔

    یہاں ہم اکبر سے متعلق ایک واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جس سے اس دور میں ان کی حیثیت و مرتبے اور شہرت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    اکبر الہ آبادی کی شہرت اور ان کی مقبولیت نے جہاں‌ کئی حاسد پیدا کیے، وہیں بہت سے لوگوں نے ان کی شاگردی کا دعویٰ کرکے دوسروں کی نظر میں خود کو مستند اور معتبر منوانا چاہا۔

    ایک صاحب کو دور کی سوجھی۔ انھوں نے خود کو اکبر کا استاد مشہور کر دیا۔ کسی طرح یہ بات اکبر کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ ان تک اطلاع پہنچی کہ حیدرآباد میں ان کے ایک استاد کا ظہور ہوا ہے، تو ایک روز اپنے دوستوں اور مداحوں کی محفل میں فرمایا،

    ’’ہاں مولوی صاحب کا ارشاد سچ ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں ایک مولوی صاحب الہ آباد میں تھے۔ وہ مجھے علم سکھاتے تھے اور میں انہیں عقل، مگر دونوں ناکام رہے۔ نہ مولوی صاحب کو عقل آئی اور نہ مجھ کو علم۔‘‘

    آج بھی جب ہم اکبر الٰہ آبادی کے اشعار پڑھتے ہیں تو مسکرانے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اگر ان کی شاعری کو سامنے رکھ کر اپنا محاسبہ کریں تو شرمندگی بھی محسوس کرتے ہیں۔

    اکبر الہ آبادی کا اصل نام سیّد اکبر حسین تھا۔ انھوں نے 16 نومبر 1846ء کو آنکھ کھولی۔ اپنے وطن کی نسبت نام سے لاحقہ جوڑا اور اکبر الٰہ آبادی کہلائے۔ ابتدائی اور اعلیٰ ثانوی تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد وکالت پڑھی اور امتحان پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ مقدمات لڑے اور پھر جج کے منصب تک پہنچے۔ اس دوران انھوں نے سماج کے مختلف روپ بھی دیکھے اور ہندوستان میں‌ انگریزوں کی آمد کے بعد تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول اور تہذیب و ثقافت پر مغربیت کا غلبہ تو دیکھ ہی رہے تھے۔ سو، ان کی شاعری نے اصلاح اور طنز کا انداز اپنا لیا۔

    انھوں‌ نے اپنی شاعری سے اصلاحِ معاشرہ کا وہی کام لیا جو اس دور میں سر سیّد احمد خان اور علاّمہ اقبال جیسی شخصیتوں کا شیوہ رہا۔ انھوں نے اپنی شاعری میں اکثر سماجی برائیوں، مغربی تہذیب اور لادینیت کو طنز و مزاح کے پیرائے میں بیان کیا اور نئی تہذیب یا مغربیت کے دلدادگان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تاہم ان کی اس طرزِ شاعری میں کوشش یہ تھی کہ لوگوں کا وقار اور انا مجروح نہ ہو اور وہ اپنا محاسبہ بھی کریں‌۔ ان کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے اور آج بھی ہماری اخلاقی اور معاشرتی خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے اصلاح کرتے ہیں۔

    لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو
    مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں

    ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
    کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

    چھوڑ لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
    شیخ و مسجد سے تعلق ترک کر اسکول جا
    چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
    کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا

  • ‘میجر حسرت’ جنھیں سنگا پور میں احمد علی کی تلاش تھی!

    ‘میجر حسرت’ جنھیں سنگا پور میں احمد علی کی تلاش تھی!

    دوسری عالم گیر جنگ کے خاتمے پر جب اتحادی قابض فوجیں ملایا کے ساحل پر اتریں تو مولانا چراغ حسن حسرتؔ اس کے ہراول دستوں میں شامل تھے۔ آپ دو سال سے کچھ اوپر سنگاپور میں مقیم رہے۔

    حسرت اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور صحافی تھے جن کی وجہِ شہرت ان کے طنز و مزاح پر مبنی مضامین ہیں۔ ادھر دوسری جنگ عظیم میں ضمیر جعفری بھی برطانوی فوج میں بھرتی ہوکر بیرونِ ہندوستان فرائض کی انجام دہی کے لیے روانہ ہوئے اور وہاں سنگا پور میں‌ حسرت سے ملاقات ہوئی۔ ضمیر جعفری بھی طنز و مزاح کی دنیا میں ممتاز ہوئے اور انھیں مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے بے حد پذیرائی ملی۔

    پیشِ نظر تحریر ضمیر جعفری کی یادوں سے مقتبس ہے جس میں انھوں نے چراغ حسن حسرت کو اپنا مرشد کہہ کر ان سے متعلق ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "مرشد کے دوست مشہور ادیب پروفیسر احمد علی ہندوستان سے چین جا رہے تھے۔ ان کا جہاز شب کے چند گھنٹوں کے لیے سنگا پور میں رک رہا تھا۔ مرشد ایک مدت سے ان کی راہ تک رہے تھے اور ان کے چند گھنٹوں کے قیام کو پُرلطف بنانے کے لیے کوئی پورے تین شب و روز کی مصروفیت طے کر چھوڑی تھی۔

    لیکن اتفاق دیکھیے کہ جس شام احمد علی وہاں پہنچے ہیں، مرشد کو سوکر جاگنے، جاگ کر اٹھنے، اٹھ کر تیار ہونے اور پھر دو تین ساغر برائے ملاقات پینے میں اتنی دیر ہوگئی کہ جب ہم لوگ جہاز پر پہنچے تو پروفیسر صاحب شہر کی گشت پر نکل چکے تھے۔ اب انھیں ڈھونڈھنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ جاوید نے کہا کہ اتنے بڑے اجنبی، پُراسرار شہر میں اندھا دھند تلاش سے کون مل سکتا ہے۔ لیکن مرشد بہت پُرامید تھے۔

    فرمایا۔ ‘‘کیوں نہیں ملے گا۔ مجھے معلوم ہے احمد علی کو کہاں ہونا چاہیے۔ میرے بھائی میں احمد علی کو جانتا ہوں۔’’ تلاش شروع ہوئی تو احمد علی کو جہاں جہاں ہونا چاہیے تھا، ایک ایک مقام پر چھان مارا مگر وہ خدا معلوم کہاں غائب ہوگئے تھے۔

    کوئی بارہ بجے کے قریب مرشد یہ کہہ کر کہ ذرا تازہ دم ہوکر ابھی پھر نکلتے ہیں، ایک چینی ریسٹورنٹ میں گھس گئے اور وہاں جام و مینا سے نہ معلوم کیا سرگوشیاں ہوئی کہ خیالات کا دھارا احمد علی کو پا سکنے کی رجائیت کی طرف سے یک بارگی احمد علی کو نہ پا سکنے کی قنوطیت کی طرف مڑ گیا۔ بولے:

    ‘‘مولانا یہ احمد علی تو ملتا دکھائی نہیں دیتا۔’’

    ‘‘کیوں؟’’ہم نے پوچھا۔

    ‘‘مولانا چینیوں کے اس شہر میں احمد علی کا ملنا ناممکن ہے۔ بات یہ ہے کہ سامنے کے رخ سے احمد علی بھی ساٹھ فی صدی چینی معلوم ہوتا ہے اور چینیوں کے انبوہ میں کسی چینی سے آپ خط کتابت تو کرسکتے ہیں، اسے شناخت نہیں کرسکتے۔ اب اس کو جہاز پر ہی پکڑیں گے۔’’

    پھر وہیں بیٹھے بیٹھے مرشد نے جو احمد علی کی باتیں شرع کی ہیں کہ وہ کتنا پیارا آدمی ہے، کتنا نڈر ادیب ہے، کتنا قیمتی دوست ہے تو درمیان میں ہماری وقفہ بہ وقفہ یاد دہانیوں کے بعد جب ریستواراں سے اٹھ کر آخر جہاز پر پہنچے تو جہاز ہانگ کانگ کو روانہ ہوچکا تھا۔

    بعد میں خط کتابت سے معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب نے بھی اس شب اپنے آپ کو سنگاپور پر چھوڑ رکھا تھا۔

  • ’’اتّفاق کے نقصانات جانیے!‘‘

    ’’اتّفاق کے نقصانات جانیے!‘‘

    اردو کے ممتاز مزاح گو شاعر ہری چند اختر نے سنجیدہ شاعری بھی کی، لیکن ان کی وجہِ شہرت طنز و مزاح پر مبنی کلام ہے۔

    وہ نام وَر شاعر حفیظ جالندھری کے شاگرد تھے۔ ہری چند اختر کے کچھ مضامین بھی ان کے قلم کی شوخی اور ظرافت کا نمونہ ہیں اور درجنوں لطائف اور دل چسپ قصّے بھی ان سے منسوب ہیں۔ یہ پارہ جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں، ان کی شگفتہ بیانی کا خوب صورت نقش ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    سالانہ امتحان میں مضمون کا موضوع تھا، ’’اتفاق۔‘‘

    استاد نے طلبا کو بتا رکھا تھا کہ جب کسی چیز پر مضمون لکھنا ہو تو تین چیزوں کا خیال رکھو۔

    1۔ تمہید: یعنی اس چیز کی وضاحت جس پر مضمون لکھنا ہو۔

    2۔ فوائد: پھر اس کے فائدے بیان کرو۔

    3۔ نقصانات: اور آخر میں اس کے نقصانات تحریر کرو۔

    ایک طالبِ علم کو استاد کا یہ سبق حرف بہ حرف یاد تھا۔ چناں چہ اس نے تمہید کے طور پر اتفاق کی معنویت پر چند جملے تحریر کیے۔ پھر اس کے فائدے گنوائے اور مثال کے طور پر بوڑھے اور اس کے بیٹوں کی وہ کہانی لکھ دی جس میں بوڑھا اتفاق کی تلقین کرتے ہوئے بیٹوں کو تنکوں کا ایک گھٹا توڑنے کی ہدایت کرتا ہے۔

    جب اتفاق کے نقصانات لکھنے کا سوال پیدا ہُوا تو اس نو عمر مضمون نگار کا قلم چند لمحوں کے لیے رک گیا۔ وہ سوچ میں پڑگیا کہ کیا لکھے۔

    آخر ایک دم اس کی تخلیقی رگ پھڑکی اور اس نے لکھنا شروع کیا۔

    ’’جیسے ہر چیز کے فائدے اور نقصان ہوتے ہیں، اسی طرح اتّفاق کے بھی بعض نقصانات ہوتے ہیں، جیسے اتفاق سے دو موٹروں کی ٹکر ہوجاتی ہے، یا اتفاق سے کوئی گاڑی پٹری سے اتر جاتی ہے اور اس طرح اتّفاق سے بعض دفعہ بہت سا جانی اور مالی نقصان ہوجاتا ہے ۔‘‘

    اور اتّفاق سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کل کا وہ بچّہ جس نے یہ مضمون تحریر کیا تھا بعد کا پنڈت ہری چند اختر تھا۔

  • سَر درد کی گولی کے "سائیڈ ایفیکٹس” تو  جان لیں!

    سَر درد کی گولی کے "سائیڈ ایفیکٹس” تو جان لیں!

    ادب میں‌ جہاں سیاست سے سماج تک ہر شعبے میں عام مسائل اور مختلف خامیوں اور برائیوں کی نشان دہی کے لیے نثر نگاروں نے طنز و مزاح کا سہارا لیا ہے، وہیں، شعرا نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔

    انور مسعود پاکستان کے ممتاز مزاح گو شاعر ہیں۔ یہاں ہم ان کی ایک مزاحیہ نظم پیش کررہے ہیں جو ایک طرف تو آپ کو مسکرانے پر مجبور کردے گی، اور دوسری جانب یہ غیر ضروری اور معمولی شکایت کی صورت میں ادویہ کے استعمال کی حوصلہ شکنی بھی کرتی ہے۔

    اگر صرف سَر درد کی بات کی جائے تو اکثر اسکرین کے سامنے مسلسل اور زیادہ وقت گزارنے، موسمی اثرات جیسے تیز دھوپ میں رہنے کی وجہ سے بھی سَر میں بھاری پن اور درد محسوس ہوسکتا ہے، اور یہ کیفیت کچھ دیر بعد ختم ہوجاتی ہے، لیکن بعض لوگ درد کُش ادویہ کے ذریعے مسئلے سے فوری نجات چاہتے ہیں جس سے بچنا چاہیے۔

    اگر چند گھنٹوں کے آرام سے مسئلہ حل نہ ہو اور آپ سمجھتے ہوں کہ اس سَر درد کی کوئی خاص وجہ ہے تو مستند معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔

    اب آپ اس مزاحیہ کلام سے لطف اندوز ہوتے ہوئے "ازخود” علاج کی صورت میں پیدا ہونے والے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرسکتے ہیں۔

    سَر درد میں گولی یہ بڑی زود اثر ہے
    پر تھوڑا سا نقصان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتی ہے پیدا کوئی تبخیر کی صورت
    دل تنگ و پریشان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتی ہے کچھ ثقلِ سماعت کی شکایت
    بیکار کوئی کان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ممکن ہے خرابی کوئی ہو جائے جگر میں
    ہاں آپ کو یرقان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    پڑ سکتی ہے کچھ جلد خراشی کی ضرورت
    خارش کا کچھ امکان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتی ہیں یادیں بھی ذرا اس سے متاثر
    معمولی سا نسیان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    بینائی کے حق میں بھی یہ گولی نہیں اچھی
    دیدہ کوئی حیران بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتا ہے لاحق کوئی پیچیدہ مرض بھی
    گردہ کوئی ویران بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ممکن ہے کہ ہو جائے نشہ اس سے ذرا سا
    پھر آپ کا چالان بھی ہو سکتا ہے اس سے