Tag: مزاحیہ شاعری

  • ماچسؔ لکھنوی: اردو کے ایک مزاحیہ شاعر کا تذکرہ

    ماچسؔ لکھنوی: اردو کے ایک مزاحیہ شاعر کا تذکرہ

    ماچسؔ لکھنوی سے آج شاذ ہی کوئی واقف ہوگا۔ یہ نام اور اس شخصیت کا تذکرہ ہمارے قارئین کی اکثریت کے لیے نیا بھی ہوگا اور انوکھا بھی۔ ماچس لکھنوی ایک مشہور مزاحیہ شاعر گزرے ہیں جن کا اصل نام مرزا محمد اقبال تھا۔ لیکن مزاحیہ ادب میں انھیں ماچسؔ لکھنوی کے قلمی نام سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔

    ادب تخلیق کرنے والا کوئی بھی فرد اپنے تمام دماغی اوصاف، اور حواس کو برروئے کار لاتا ہے۔ شوخیٔ مزاج اور شگفتہ طبیعت بھی اس میں‌ اہمیت رکھتی ہے اور ہنسی مذاق انسان کی وہ عادت یا خصوصیت ہے جس کی ادب میں بھی ناگزیر حیثیت ہے۔ ایک شاعر کی بات کی جائے تو وہ ہنستے گاتے آگے بڑھنے اور زندگی کی تلخیوں کو قہقہے میں اڑانے کی سکت بھی رکھتا ہے۔ اس کی شاعری میں مزاح کے ساتھ زندگی کی ناہمواریوں اور انسانوں کے غلط رویوں پر طنز بھی ملتا ہے جس کا مقصد اصلاح ہوتا ہے۔ ماچس لکھنوی نے زندگی کے تمسخر انگیز پہلوؤں کو اپنی شاعری میں سمویا ہے۔

    ماچس لکھنؤی کو اکثر ایم ایم اقبال کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ وہ 1918ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی زندگی اور شاعری پر اردو کے سب سے مشہور تذکرہ نویس مالک رام نے ایک باب باندھا ہے اور اس میں ماچس لکھنوی کا سنہ پیدائش 1913ء لکھا ہے۔ ان کے مطابق وہ اَوَدھ کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ان کے والد میرزا فرخندہ بخت کے پوتے تھے جن کا نام میرزا مہدی حسین تھا۔ ماچس لکھنوی کی عمر ابھی تیرہ چودہ سال کی تھی کہ شاعری کی جانب میلان بڑھنے لگا۔ شاعری میں وہ انور حسین آزردہ لکھنؤی کے ایک شاگرد سے اصلاح لینے لگے اور اُن کی وفات کے بعد آزردہ لکھنؤی جب لکھنؤ آئے تو اُن سے مشورۂ سخن کرنے لگے۔ ماچس لکھنوی پہلے پہل انجمن بہارِ ادب لکھنؤ کے رکن بنے اور ادبی حلقوں میں پہچانے گئے۔ ان کا اندازِ سخن مزاح کی جانب زیادہ رہا اور اُن کی وجہ شہرت بھی مزاح نگاری بنی۔ ماچس کا کوئی مجموعۂ کلام شائع نہیں ہوا۔ کہتے ہیں ان کی یادداشت بہترین تھی۔ ماچس کی نظمیں اودھ پنچ اخبار اور شوکت تھانوی کے اخبار ’’سرپنچ‘‘ میں شائع ہوتی رہیں۔ شوکت تھانوی نے ماچس لکھنوی کو ’’ظریفُ الملک‘‘ کا لقب دیا تھا۔

    ماچس کے والد میرزا مہدی حسین 1949ء میں وفات پاگئے تھے۔ مالی حالات ایسے تھے کہ ماچس مدرسہ میں مڈل سے آگے نہ بڑھ سکے۔ کچھ تعلیم گھر پر حاصل کی لیکن یہ سلسلہ اس سے زیادہ نہ بڑھ سکا۔

    ماچس لکھنؤی کینسر کے مرض کے سبب 26 اگست 1970ء کو وفات پاگئے تھے۔ لکھنؤ ہی میں‌ انھیں سپردِ‌‌ خاک کیا گیا۔ ماچس لکھنوی کا کلام ملاحظہ کیجیے۔

    آرزوئیں ہوں جس قدر اے دل
    سب ہیں بے کار اس سوال کے بعد
    عشق پر آئے گی بہار اب تو
    ان کے والد کے انتقال کے بعد

    ایک نمکین غزل کے تین اشعار دیکھیے

    نظر پر میری اس بت کی نظر یوں چھائی جاتی ہے
    کہ جیسے ٹوکری پر ٹوکری اوندھائی جاتی ہے

    پلٹتی ہے مری آہ رسا یوں ان کے گھر جا کر
    کوئی جادو کی ہانڈی جس طرح پلٹائی جاتی ہے

    حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں
    تو ہفتوں کیا مہینوں کھوپڑی سہلائی جاتی ہے

  • سیّد محمد جعفری: مزاحیہ شاعری کا ایک معروف نام

    سیّد محمد جعفری: مزاحیہ شاعری کا ایک معروف نام

    اردو مزاح گو شعراء میں سیّد محمد جعفری چند صاحبِ اسلوب اور فنی اعتبار سے بلند شاعری کے حامل ہیں۔ آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، لیکن ان مزاحیہ شاعری بھی ماند پڑنے والی نہیں جس کا ایک سبب یہ ہے کہ سیّد محمد جعفری نے جن طبقات اور مسائل کو موضوع بنایا، وہ آج بھی ہمارے سماج کا حصّہ ہیں۔

    آج سیّد محمد جعفری کی برسی ہے۔ وہ 7 جنوری 1976ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ 27 دسمبر 1905ء کو متحدہ ہندوستان کے علاقے بھرت پور کے ایک ذی علم گھرانے میں سید محمد جعفری پیدا ہوئے۔ والد بسلسلہ ملازمت لاہور آئے اور یہیں‌ سیّد محمد جعفری کا بچپن گزرا۔ اسی شہر میں ان کی تعلیم و تربیت کے مراحل طے ہوئے۔ میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے اور کیمیا کے مضمون میں‌ بی ایس سی (آنرز) کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں ایم اے (فارسی) اور ایم او اے (ماسٹر آف اورینٹل) اورینٹل کالج لاہور سے پاس کیا۔ میو اسکول آف آرٹس لاہور سے مصوّری اور سنگ تراشی کی تعلیم حاصل کی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد سیّد محمد جعفری کو مرکزی محکمۂ اطلاعات میں اہم منصب پر فائز کردیا گیا۔ اسی دوران ایران میں بحیثیت پریس اور کلچرل اتاشی خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ اس سے قبل برطانوی ہند کی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ذیلی ادارے پریس انفامیشن ڈیپارٹمنٹ، دہلی سے وابستگی کے بعد کراچی، لاہور، تہران اور ایران میں خدمات انجام دے چکے تھے۔

    سیّد محمد جعفری نے سیاسی اور سماجی موضوعات پر لگ بھگ 900 نظمیں تحریر کیں۔ ان کے یہاں کلاسیکی شاعری کی تمام التزامات نظر آتے ہیں، خصوصاً غالب اور اقبال کے جن مصرعوں کی تضمین کی ہے اس کی اردو شاعری میں مثال کم ہی ملتی ہے۔ اس ممتاز مزاح گو شاعر کے کلام کی سب سے بڑی خوبی نکتہ سنجی ہے اور یہ شاعری شادابی اور شگفتگی کا آئینہ ہے۔ انھوں‌ نے تضمین اور تحریف کے ساتھ مختلف موضوعات کو اپنی مزاحیہ شاعری میں سمیٹا ہے۔

    سیّد محمد جعفری کی وفات کے بعد ان کی شاعری کے دو مجموعے شوخیٔ تحریر، تیر نیم کش اور بعد میں کلیات شائع ہوئی۔ امتحان کے عنوان سے ان کی ایک مزاحیہ نظم یہاں ہم نمونۂ کلام کے طور پر نقل کررہے ہیں، ملاحظہ کیجیے۔

    "امتحان”
    امتحاں سر پر ہے لڑکے لڑکیاں ہیں اور کتاب
    ڈیٹ شیٹ آئی تو گویا آ گیا یوم الحساب

    صرف اک کاغذ کے پرزے سے ہوا یہ انقلاب
    خود بہ خود ہر اک شرارت کا ہوا ہے سد باب

    پہلے تھیں وہ شوخیاں جو آفت جاں ہو گئیں
    ”لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہو گئیں”

    وقت رٹنے کے لیے کم رہ گیا زیادہ ہے کام
    سال بھر جن کو نہ دیکھا وہ خلاصے نیک نام

    سامنے رکھے ہیں ان کو جھک کے کرتے ہیں سلام
    ان کی پوجا ہی میں سارا وقت ہوتا ہے تمام

    ٹیلی ویژن بھی نہیں غائب ہوئے ہیں سارے کھیل
    ڈال کر کولہو میں بچوں کو نکالو ان کا تیل

    آج کل بھولے ہوئے ہیں سب الیکشن اور ڈیبیٹ
    پریکٹیکل کی کاپیوں کے آج کل بھرتے ہیں پیٹ

    حاضری اب کون بولے کون اب آئے گا لیٹ
    کالج اور اسکول ہیں سنسان خالی ان کے گیٹ

    بند ہے کمرے کے اندر گردش لیل و نہار
    کیا خبر آئی خزاں کب کب گئی فصل بہار

    امتحاں کا بھوت ہے یا ہے قیامت کا سماں
    امی اور ابا سے چھپ کر رو رہی ہیں لڑکیاں

    کہتے ہیں لڑکے کیا کرتے تھے جو اٹکھیلیاں
    ”یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں”

    اب ہرن کی طرح سے بھولے ہوئے ہیں چوکڑی
    اس قدر رٹنا پڑا ہے جل اٹھی ہے کھوپڑی

    حال پر بچوں کے ہیں بے حد پریشاں والدین
    ساتھ میں اولاد کے ان کا اڑا جاتا ہے چین

    گرچہ ہے تعلیم اور رٹنے میں بعد المشرقین
    سوچتے ہیں وہ کہ اچھا ذہن ہے خالق کی دین

    کیا خبر تھی اس طرح جی کا زیاں ہو جائے گا
    ”یعنی یہ پہلے ہی نذر امتحاں ہو جائے گا”

    رات بھر جاگیں گے وہ جو سال بھر سوتے رہے
    کاٹنے جاتے ہیں گندم گرچہ جو بوتے رہے

    کیا توقع ان سے رکھیں فیل جو ہوتے رہے
    نقل کر کے داغ کو دامن سے جو دھوتے رہے

    نقش فریادی ہے ان کی شوخی تحریر کا
    معرکہ ہوتا ہے اب تدبیر کا تقدیر کا

    جو سوال امپارٹینٹ آتا ہے ہر اک باب میں
    غور سے دیکھا ہے اس کو دن دہاڑے خواب میں

    ہو گیا ہوں اس لیے بد نام میں اصحاب میں
    آؤٹ کر ڈالا ہے پیپر عالم اسباب میں

  • ‘کڑوے کسیلے’ بجٹ پر انور مسعود کا ‘نمکین’ اظہارِ خیال

    ‘کڑوے کسیلے’ بجٹ پر انور مسعود کا ‘نمکین’ اظہارِ خیال

    کسی ملک کی آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ لگانے کے بعد حکومت مختلف مدات میں سبسڈی اور محصولات کا جو اعلان کرتی ہے، اسے بجٹ کہا جاتا ہے۔ یہ بجٹ کی ایک نہایت سادہ تعریف ہو سکتی ہے۔

    اربوں کھربوں‌ روپے کی باتیں، اعداد و شمار کا طومار اور بجٹ تقریر کی معاشی اصطلاحات عام آدمی کو آسانی تو کیا مشکل سے بھی شاید ہضم نہیں‌ ہوتیں۔ البتہ تمام ‘بجٹ بیزار’ انور مسعود کی اس نمکین غزل کی مدد سے آسانی سے یہ ضرور جان سکتے ہیں کہ بجٹ کس بَلا کا نام ہے۔ طنز و مزاح کے لیے انور مسعود کا نام پاک و ہند میں‌ مشہور ہے۔ ان کا یہ کلام ملاحظہ کیجیے۔

    بجٹ میں نے دیکھے ہیں سارے ترے
    انوکھے انوکھے خسارے ترے

    اللے تللّے ادھارے ترے
    بھلا کون قرضے اتارے ترے

    گرانی کی سوغات حاصل مرا
    محاصل ترے، گوشوارے ترے

    مشیروں کا جمگھٹ سلامت رہے
    بہت کام جس نے سنوارے ترے

    مری سادہ لوحی، سمجھتی نہیں
    حسابی کتابی اشارے ترے

    کئی اصطلاحوں میں گوندھے ہوئے
    کنائے ترے، استعارے ترے

    تُو اربوں کی، کھربوں کی باتیں کرے
    عدد کون اتنے شمارے ترے

    تجھے کچھ غریبوں کی پروا نہیں
    وڈیرے ہیں پیارے دُلارے ترے

    ادھر سے لیا کچھ ادھر سے لیا
    یونہی چل رہے ہیں اِدارے ترے

  • دلاور فگار کا تذکرہ جو "صرف ظرافت نگار ہیں!”

    دلاور فگار کا تذکرہ جو "صرف ظرافت نگار ہیں!”

    کراچی میں‌ پاپوش کے قبرستان میں دلاور فگار کی قبر کے کتبے پر ان کا یومِ‌ وفات 21 جنوری 1998ء درج ہے۔ یہ وہی دلاور فگار ہیں جنھیں شہنشاہِ طنز و مزاح کہا جاتا ہے۔ آج اردو کے مقبول مزاح گو شاعر کی برسی ہے۔

    اردو شاعری میں طنز و مزاح کے میدان میں دلاور فگار نے نہایت خوبی سے عام آدمی کے مسائل کو قہقہوں کی پوشاک پہناتے ہوئے اربابِ‌ حلّ و عقد پر طنز کے تیر برسائے اور ایک تخلیق کار کی حیثیت سے اپنی ذمے داری پوری کی۔ دلاور فگار کا مزاح سخت اور کھردرا نہیں‌ بلکہ یہ خوش دلی اور خوش مذاقی پر منبی ہے۔ ان کے طنزیہ اشعار بھی تہذیب اور شرافت کے پیمانے پر پورا اترتے ہیں۔ ان کا یہ مشہور قطعہ ملاحظہ کیجیے۔

    حاکمِ رشوت ستاں فکرِ گرفتاری نہ کر
    کر رہائی کی کوئی آسان صورت، چھوٹ جا
    میں بتاؤں تجھ کو تدبیرِ رہائی، مجھ سے پوچھ
    لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا

    یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انھوں نے شباب بدایون کے تخلّص سے سنجیدہ شاعری بھی کی اور ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ 1954ء شایع ہوا تھا۔ اس مجموعے کا نام حادثہ تھا۔ بعد میں انھوں نے تخلّص ہی نہیں اپنا ذوق و طرزِ شاعری ہی بدل لیا اور طنز و مزاح کے میدان میں دلاور فگار مشہور ہوئے۔ وہ اس وقت تک بھارت میں مقیم تھے۔

    ان کا خاندانی نام دلاور حسین تھا۔ 1928ء میں بدایوں کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ 1942ء میں ہائی اسکول کے امتحان کام یاب ہوئے۔ والد مقامی اسلامیہ اسکول میں استاد تھے۔ دلاور حسین اس وقت اعلٰی تعلیم حاصل نہیں کرسکے لیکن بعد میں ایم اے کے سند یافتہ ہوگئے۔ کم عمر تھے جب ایک ڈاک خانے میں کام کرنے لگے تھے۔ اسی زمانے میں علم و ادب کا شوق ہوا اور شاعری شروع کی اور بدایوں کے مشاعروں میں پہچان بنانے لگے مگر شباب بدایوں کے نام سے۔ وہ لہک لہک کر اپنی غزلیں سنایا کرتے تھے۔

    دس جماعتیں پڑھ لینے کے چار سال بعد انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا اور بریلی کالج گئے جہاں سے معلّمی کا ڈپلومہ بھی لے لیا اور والد کے سایۂ عاطفت سے محرومی کے بعد 1950ء میں ٹیچنگ شروع کردی۔ 1953ء میں بی اے کیا اور اس کے بعد معاشیات میں ایم اے۔ 1966ء انھوں نے اردو میں ایم اے کیا اور فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔ یہ ان کا بھارت میں تعلیمی اور ادبی سفر تھا جس کے بعد وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی میں مقیم ہوئے۔

    کراچی میں دلاور فگار کو عبد اﷲ ہارون کالج میں بحیثیت لیکچرار اردو پڑھانے کا موقع ملا۔ مشہور شاعر فیض احمد فیض اس وقت وہاں پرنسپل تھے۔ شہرِ قائد کے مشاعروں میں دلاور فگار شریک ہوتے اور اپنی مزاحیہ شاعری سے سامعین کو قہقہے لگانے پر ہی مجبور نہیں کرتے بلکہ انھیں مسائل کا ادراک کرواتے اور آمادہ کرتے کہ وہ اپنے لیے غوروفکر کریں۔

    ان کے مزاحیہ شعری مجموعوں میں "انگلیاں فگار اپنی”، "ستم ظریفیاں”، "آداب عرض”، "شامتِ اعمال”، "مطلع عرض ہے”، "خدا جھوٹ نہ بلوائے”، "چراغِ خنداں” اور "کہا سنا معاف کرنا” شامل ہیں۔ مرحوم نے جمی کارٹر کی مشہور تصنیف کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔

    یہاں ہم ان کی ایک مشہور ترین نظم نقل کررہے ہیں جس پر انھیں ادیبوں اور شعرا نے بھی خوب داد دی اور ان کے فن اور نکتہ رسی کو سراہا۔

    "شاعرِ اعظم”
    کل اک ادیب و شاعر و ناقد ملے ہمیں
    کہنے لگے کہ آؤ ذرا بحث ہی کریں

    کرنے لگے یہ بحث کہ اب ہند و پاک میں
    وہ کون ہے کہ شاعرِ اعظم جسے کہیں

    میں نے کہا جگرؔ، تو کہا ڈیڈ ہو چکے
    میں نے کہا کہ جوشؔ کہا قدر کھو چکے

    میں نے کہا ندیمؔ تو بولے کہ جرنلسٹ
    میں نے کہا رئیسؔ تو بولے سٹائرسٹ

    میں نے کہا کہ حضرت ماہرؔ بھی خوب ہیں
    کہنے لگے کہ ان کے یہاں بھی عیوب ہیں

    میں نے کہا کچھ اور تو بولے کہ چپ رہو
    میں چپ رہا تو کہنے لگے اور کچھ کہو

    میں نے کہا کہ ساحرؔ و مجروحؔ و جاں نثارؔ
    بولے کہ شاعروں میں نہ کیجے انہیں شمار

    میں نے کہا کلامِ روشؔ لا جواب ہے
    کہنے لگے کہ ان کا ترنم خراب ہے

    میں نے کہا ترنمِ انورؔ پسند ہے
    کہنے لگے کہ ان کا وطن دیو بند ہے

    میں نے کہا کہ ان کی غزل صاف و پاک ہے
    بولے کہ ان کی شکل بڑی خوف ناک ہے

    میں نے کہا کہ یہ جو ہیں محشرؔ عنایتی؟
    کہنے لگے کہ رنگ ہے ان کا روایتی

    میں نے کہا قمرؔ کا تغزل ہے دل نشیں
    کہنے لگے کہ ان میں تو کچھ جان ہی نہیں

    میں نے کہا فرازؔ تو بولے کہ زیر و بم
    میں نے کہا عدمؔ تو کہا وہ بھی کالعدم

    میں نے کہا خمارؔ، کہا فن میں کچّے ہیں
    میں نے کہا کہ شادؔ تو بولے کہ بچّے ہیں

    میں نے کہا کہ طنز نگاروں میں دیکھیے
    بولے کہ سیکڑوں میں ہزاروں میں دیکھیے

    میں نے کہا کہ شاعرِ اعظم ہیں جعفریؔ
    کہنے لگے کہ آپ کی ہے ان سے دوستی

    میں نے کہا ضمیرؔ کے ہیومر میں فکر ہے
    بولے یہ کس کا نام لیا کس کا ذکر ہے

    میں نے کہا کہ یہ جو دلاور فگار ہیں
    بولے کہ وہ تو صرف ظرافت نگار ہیں

    میں نے کہا مزاح میں اک بات بھی تو ہے
    بولے کہ اس کے ساتھ خرافات بھی تو ہے

    میں نے کہا تو شاعرِ اعظم کوئی نہیں
    کہنے لگے کہ یہ بھی کوئی لازمی نہیں

    میں نے کہا تو کس کو میں شاعر بڑا کہوں
    کہنے لگے کہ میں بھی اسی کشمکش میں ہوں

    پایانِ کار ختم ہوا جب یہ تجزیہ
    میں نے کہا ‘حضور’ تو بولے کہ شکریہ

  • طنز و مزاح کے لیے مشہور دکنی شاعر سلیمان خطیب کی برسی

    طنز و مزاح کے لیے مشہور دکنی شاعر سلیمان خطیب کی برسی

    شعر و ادب اور تہذیب و تمدن کے مرکز شہر گلبرگہ کے سلیمان خطیب کو منفرد لب و لہجے میں ان کی مزاحیہ شاعری کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے دکن کے میدانِ مزاح نگاری میں اپنی علیحدہ شناخت بنائی اور پاک و ہند میں مشہور ہوئے۔

    سلیمان خطیب نے متوسط طبقہ کے معاشرتی مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور شہرت حاصل کی۔ وہ 26 دسمبر 1922ء کو چٹگوپہ، کرناٹک کے ایک مہذب خطیب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے بعد میں شہر گلبرگہ کو اپنا وطنِ ثانی بنایا۔ 1941ء سے 1977ء تک سرکاری ملازمت کی اور اس کے ساتھ قدیم دکنی لہجے میں مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے اپنا سفر جاری رکھا۔ وہ 22 اکتوبر 1978ء کو وفات پاگئے تھے۔

    ‫1974ء میں حکومتِ کرناٹک نے انھیں اسٹیٹ ایوارڈ سے نوازا تھا اور اس کے علاوہ متعدد ادبی انعامات سلیمان خطیب نے اپنے نام کیے۔

    پہلی تاریخ، چھورا چھوری، ساس بہو، سانپ، ہراج کا پلنگ جیسی نظمیں سلیمان خطیب کی لازوال پہچان بنیں جن سے طنز و مزاح کے ساتھ حقیقت پسندی جھلکتی ہے اور مسائل کا ادراک ہوتا ہے۔ ان کی ایک نظم ’اٹھائیس تاریخ‘ ایک مفلوک الحال بیوہ کی درد بھری کہانی ہے جو اچھوتے انداز میں مزاح کے ساتھ ساتھ گہرے طنز کا مظہر ہے۔

    کیوڑے کا بن، سلیمان خطیب کی مزاحیہ شاعری کا مجموعہ ہے۔ سلیمان خطیب عوامی شاعرتھے، ان کی شاعری میں عوامی لہجہ اور عوامی جذبات نظر آتے ہیں اور کیوڑے کا بن میں شامل کلام اس کی عمدہ مثال ہے۔

  • مشاعروں میں ہوٹنگ کے ‘فوائد’

    مشاعروں میں ہوٹنگ کے ‘فوائد’

    مشاعرے تو بہت ہوتے ہیں، لیکن ہر مشاعرہ کام یاب نہیں ہوتا اور صرف کام یابی بھی کافی نہیں ہوتی۔ مشاعرہ اچّھے نمبروں سے کام یاب ہونا چاہیے۔ ایسی ہی کام یابی سے مشاعروں کا مستقبل روشن ہوتا ہے۔ مشاعروں کی کام یابی کا انحصار اب ہوٹنگ پر ہے۔ ہوٹنگ معرکے کی ہوگی تو مشاعرہ بھی معرکۃ الآرا ہوگا۔

    دیکھا گیا ہے کہ بڑے شہروں میں جہاں تعلیم یافتہ لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں ہوٹنگ کا معیار اچھا خاصا ہے، لیکن اضلاع کے سامعین ہوٹنگ کے معاملے میں ابھی پسماندہ ہیں۔ بعض اضلاع میں اس کا معیار ٹھیک رہا ہے، لیکن اس سلسلے میں ابھی انہیں بہت کام کرنا ہے۔ مشاعروں کے سیزن میں اضلاع کے کچھ مندوبین کو بڑے شہروں کے مشاعروں میں حاضر رہنا چاہیے۔

    مشاعرہ ورک شاپ میں حصہ لیے بغیر اچھی ہوٹنگ نہیں آتی۔ بڑے شہروں میں تو بعض مشاعرے ایسے بھی ہوئے ہیں کہ مشاعرے کے دوسرے دن مشاعرہ گاہ کی چھت کی مرمت کروانی پڑی ہے، اس لیے اب زیرِ سما مشاعروں کا رواج بڑھتا جارہا ہے۔ زیرِ سما مشاعروں میں، شاعر تو نہیں لیکن سامعین سماں باندھ دیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب مشاعروں میں شاعروں کے کلام کا مقابلہ ہوتا ہے، اب سامعین کے کمال کا مقابلہ ہوتا ہے۔ مشاعرے بھی ٹکٹ سے ہونے لگے ہیں جو ایک لحاظ سے اچھی بات ہے۔

    صحیح معنوں میں مشاعرہ وہ ہوتا ہے جب مشاعرہ گاہ میں زندگی رواں دواں ہو، مشاعرہ گاہ میں کیفیت کچھ ایسی ہونی چاہیے، جس سے یہ معلوم ہو کہ شاعروں کو سننے سامعین نہیں آئے، سامعین کا مورچہ آیا ہوا ہے۔ خوب صورت پنڈال جگمگاتا شہ نشین اور جگہ جگہ ایک ہزار کینڈل پاور کے قمقمے یہ سب بیکار ہیں۔ اصل چیز ہے ہوٹنگ۔ مشاعروں میں یہ نہ ہو تو منتظمینِ مشاعرہ مایوس ہوجاتے ہیں۔ ان کے سارے کیے کرائے پر پانی پِھر جاتا ہے۔

    مشاعروں میں ہوٹنگ کی ابتدا کب اور کہاں ہوئی اس کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں، لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مشاعرہ خود اور مشاعرے کے دیگر لوازمات (جن میں ہوٹنگ شامل ہے) شمالی ہند کی دین ہیں۔ البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کی رسمِ اجرا کہاں انجام دی گئی۔ تحقیق اس بات کی کرنی چاہیے کہ ٹکٹ سے پہلا مشاعرہ کس جگہ منعقد ہوا؟ اسی مشاعرے میں سامعین نے شور مچایا ہوگا۔ اسی احتجاج نے بعد میں ہوٹنگ کی شکل اختیار کی۔

    ہوٹنگ اب شوق یا شغل نہیں ہے، ایک فن ہے اور اس میں بھی وہی صنائع بدائع ہونے چاہییں جو شاعری میں مستعمل ہیں۔ ہوٹنگ میں اسقام کا پایا جانا معیوب ہے۔ کچھ لوگوں نے عملی تنقید کی طرح عملی ہوٹنگ کی بھی کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر شاعروں کی سرکوبی کے لیے عملی ہوٹنگ سے کام لیا گیا ہے، لیکن ان وارداتوں میں ‘ایلڈرس’ نے کبھی حصّہ نہیں لیا۔ ان وارداتوں کو ‘یوتھ فیسٹول’ سمجھ کر شاعروں کی تاریخ سے حذف کردینا چاہیے۔

    ہوٹنگ دل چسپی کی چیز ہے، دل شکنی کاحربہ نہیں۔ اسی لیے عملی ہوٹنگ مقبول نہیں ہوسکی۔ مشاعروں میں آلات و ظروف استعمال نہیں کیے جاسکتے۔ میونسپل کارپوریشن کے اجلاس کی بات اور ہوتی ہے۔

    (یوسف ناظم کا تعلق بھارت سے تھا، ان کا شمار اردو کے معروف طنز و مزاح نگاروں میں ہوتا ہے، پیشِ نظر مقتَباسات یوسف ناظم کے شگفتہ مضمون کے ہیں)

  • ’’لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا…‘‘

    ’’لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا…‘‘

    لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا۔ جوں جوں تمہارا تجربہ بڑھتا جائے گا، تمہارے خیالات میں پختگی آتی جائے گی اور یہ افسوس بھی بڑھتا جائے گا۔ یہ خواب پھیکے پڑتے جائیں گے، تب اپنے آپ کو فریب نہ دے سکو گے۔

    بڑے ہو کر تمہیں معلوم ہو گا کہ زندگی بڑی مشکل ہے۔ جینے کے لیے مرتبے کی ضرورت ہے۔ آسائش کی ضرورت ہے اور ان کے لیے روپے کی ضرورت ہے۔ اور روپیہ حاصل کرنے کے لیے مقابلہ ہوتا ہے۔ مقابلے میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے، دھوکا دینا پڑتا ہے، غداری کرنی پڑتی ہے۔ یہاں کوئی کسی کی پروا نہیں کرتا۔ دنیا میں دوستی، محبت، انس، سب رشتے مطلب پر قائم ہیں۔

    محبّت آمیز باتوں، مسکراہٹوں، مہربانیوں، شفقتوں، ان سب کی تہ میں کوئی غرض پوشیدہ ہے۔ یہاں تک کہ خدا کو بھی لوگ ضرورت پڑنے پر یاد کرتے ہیں۔ اور جب خدا دعا قبول نہیں کرتا تو لوگ دہریے بن جاتے ہیں، اس کے وجود سے منکر ہو جاتے ہیں۔

    اور دنیا کو تم کبھی خوش نہیں رکھ سکتے۔ اگر تم سادہ لوح ہوئے تو دنیا تم پر ہنسے گی، تمہارا مذاق اُڑاے گی۔ اگر عقل مند ہوئے تو حسد کرے گی۔ اگر الگ تھلگ رہے تو تمہیں چڑچڑا اور مکّار گردانا جائے گا۔ اگر ہر ایک سے گھل مل کر رہے تو تمہیں خوشامدی سمجھا جائے گا۔ اگر سوچ سمجھ کر دولت خرچ کی تو تمہیں پست خیال اور کنجوس کہیں گے اور اگر فراخ دل ہوئے تو بیوقوف اور فضول خرچ۔

    عمر بھر تمہیں کوئی نہیں سمجھے گا، نہ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ تم ہمیشہ تنہا رہو گے حتّٰی کہ ایک دن آئے گا اور چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ گے۔یہاں سے جاتے وقت تم متحیر ہو گے کہ یہ تماشا کیا تھا۔ اس تماشے کی ضرورت کیا تھی۔ یہ سب کچھ کس قدر بے معنٰی اور بے سود تھا۔

    (معروف مزاح نگار شفیق الرّحمٰن کے قلم سے)

  • اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب میں‌ اعتماد کی کمی تھی!

    اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب میں‌ اعتماد کی کمی تھی!

    رضیہ ہماری توقع سے بھی زیادہ حسین نکلی اور حسین ہی نہیں کیا فتنہ گرِ قد و گیسو تھی۔ پہلی نگاہ پر ہی محسوس ہوا کہ initiative ہمارے ہاتھ سے نکل کر فریقِ مخالف کے پاس چلا گیا ہے۔

    یہی وجہ تھی کہ پہلا سوال بھی ادھر سے ہی آیا: "تو آپ ہیں ہمارے نئے نویلے ٹیوٹر؟” اب اس شوخ سوال کا جواب تو یہ تھا کہ "تو آپ ہیں ہماری نئی نویلی شاگرد؟” لیکن سچّی بات یہ ہے کہ حسن کی سرکار میں ہماری شوخی ایک لمحے کے لیے ماند پڑ گئی اور ہمارے منہ سے ایک بے جان سا جواب نکلا:

    ” جی ہاں، نیا تو ہوں، ٹیوٹر نہیں ہوں۔ مولوی صاحب کی جگہ آیا ہوں۔”

    "اس سے آپ کی ٹیوٹری میں کیا فرق پڑتا ہے؟”

    "یہی کہ عارضی ہوں۔”

    "تو عارضی ٹیوٹر صاحب۔ ہمیں ذرا اس مصیبت سے نجات دلا دیں۔” رضیہ کا اشارہ دیوانِ غالب کی طرف تھا۔ میں نے قدرے متعجب ہو کر پوچھا: "آپ دیوانِ غالب کو مصیبت کہتی ہیں؟”

    "جی ہاں! اور خود غالب کو بھی۔”

    "میں پوچھ سکتا ہوں کہ غالب پر یہ عتاب کیوں؟”

    "آپ ذرا آسان اردو بولیے۔ عتاب کسے کہتے ہیں؟”

    "عتاب غصّے کو کہتے ہیں۔”

    "غصّہ؟ ہاں غصّہ اس لیے کہ غالب صاحب کا لکھا تو شاید وہ خود بھی نہیں سمجھ سکتے۔ پھر خدا جانے پورا دیوان کیوں لکھ مارا؟”

    "اس لیے کہ لوگ پڑھ کر لذّت اور سرور حاصل کریں۔”

    "نہیں جناب۔ اس لیے کہ ہر سال سیکڑوں لڑکیاں اردو میں فیل ہوں۔”

    "محترمہ۔ میری دل چسپی فقط ایک لڑکی میں ہے، فرمائیے آپ کا سبق کس غزل پر ہے؟” جواب میں رضیہ نے ایک غزل کے پہلے مصرع پر انگلی رکھ دی، لیکن منہ سے کچھ نہ بولی۔ میں نے دیکھا تو غالب کی مشہور غزل تھی۔

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا

    میں نے کہا، "یہ تو بڑی لاجواب غزل ہے، ذرا پڑھیے تو۔”

    "میرا خیال ہے آپ ہی پڑھیں۔ میرے پڑھنے سے اس کی لاجوابی پر کوئی ناگوار اثر نہ پڑے۔” مجھے محسوس ہوا کہ ولایت کی پڑھی ہوئی رضیہ صاحبہ باتونی بھی ہیں اور ذہین بھی لیکن اردو پڑھنے میں غالباً اناڑی ہی ہیں۔

    میں نے کہا، "میرے پڑھنے سے آپ کا بھلا نہ ہوگا۔ آپ ہی پڑھیں کہ تلفظ بھی ٹھیک ہو جائے گا۔”

    رضیہ نے پڑھنا شروع کیا اور سچ مچ جیسے پہلی جماعت کا بچّہ پڑھتا ہے۔

    ” یہ نہ تھی ہماری قس مت کہ وصل۔۔۔۔” میں نے ٹوک کر کہا۔

    "یہ وصل نہیں وصال ہے، وصل تو سیٹی کو کہتے ہیں۔”

    رضیہ نے ہمیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ہم ذرا مسکرائے اور ہمارا اعتماد بحال ہونے لگا۔

    رضیہ بولی: "اچھا۔ وصال سہی۔ وصال کے معنی کیا ہوتے ہیں؟”

    "وصال کے معنی ہوتے ہیں ملاقات، محبوب سے ملاقات۔ آپ پھر مصرع پڑھیں۔” رضیہ نے دوبارہ مصرع پڑھا۔ پہلے سے ذرا بہتر تھا لیکن وصال اور یار کو اضافت کے بغیر الگ الگ پڑھا۔ اس پر ہم نے ٹوکا۔

    "وصال یار نہیں وصالِ یار ہے۔ درمیان میں اضافت ہے۔”

    "اضافت کیا ہوتی ہے؟ کہاں ہوتی ہے؟”

    "یہ جو چھوٹی سی زیر نظر آرہی ہے نا آپ کو، اسی کو اضافت کہتے ہیں۔”

    "تو سیدھا سادہ وصالے یار کیوں نہیں لکھ دیتے؟”

    "اس لیے کہ وہ علما کے نزدیک غلط ہے۔” یہ ہم نے کسی قدر رعب سے کہا۔

    علما کا وصال سے کیا تعلق ہے؟”

    "علما کا تعلق وصال سے نہیں زیر سے ہے۔”

    "اچھا جانے دیں علما کو۔ مطلب کیا ہوا؟”

    "شاعر کہتا ہے کہ یہ میری قسمت ہی میں نہ تھا کہ یار سے وصال ہوتا۔”

    "قسمت کو تو غالب صاحب درمیان میں یونہی گھسیٹ لائے، مطلب یہ کہ بے چارے کو وصال نصیب نہ ہوا۔”

    "جی ہاں کچھ ایسی ہی بات تھی۔”

    "کیا وجہ؟”

    "میں کیا کہہ سکتا ہوں؟”

    "کیوں نہیں کہہ سکتے۔ آپ ٹیوٹر جو ہیں۔”

    "شاعر خود خاموش ہے۔”

    "تو شاعر نے وجہ نہیں بتائی مگر یہ خوش خبری سنادی کہ وصال میں فیل ہوگئے؟”

    ” جی ہاں فی الحال تو یہی ہے۔ آگے پڑھیں۔” رضیہ نے اگلا مصرع پڑھا۔ ذرا اٹک اٹک کر مگر ٹھیک پڑھا:

    اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

    میں نے رضیہ کی دل جوئی کے لیے ذرا سرپرستانہ انداز میں کہا، "شاباش، آپ نے بہت اچھا پڑھا ہے۔”

    "اس شاباش کو تو میں ذرا بعد میں فریم کراؤں گی۔ اس وقت ذرا شعر کے پورے معنیٰ بتا دیں۔” ہم نے رضیہ کا طنز برداشت کرتے ہوئے کہا۔

    "مطلب صاف ہے، غالب کہتا ہے قسمت میں محبوبہ سے وصال لکھا ہی نہ تھا۔ چنانچہ اب موت قریب ہے مگر جیتا بھی رہتا تو وصال کے انتظار میں عمر کٹ جاتی۔”

    ” توبہ اللہ، اتنا Lack of confidence، یہ غالب اتنے ہی گئے گزرے تھےِ؟”

    گئے گزرے؟ نہیں تو۔۔۔غالب ایک عظیم شاعر تھے۔”

    "شاعر تو جیسے تھے، سو تھے لیکن محبت کے معاملے میں گھسیارے ہی نکلے”

    (ممتاز مزاح نگار کرنل محمد خان کے قلم سے)

  • بابائے ظرافت دلاور فگار کی برسی

    بابائے ظرافت دلاور فگار کی برسی

    آج اردو کے ممتاز مزاح گو شاعر دلاور فگار کی برسی ہے۔ 21 جنوری 1998ء کو اس دنیا سے رخصت ہونے والے دلاور فگار کو بابائے ظرافت بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے شعر سفر کا آغاز سنجیدہ شاعری سے کیا تھا، لیکن بعد میں مزاح گوئی کی طرف مائل ہوئے اور یہی کلام ان کی وجہِ شہرت بنا اور دلاور فگار اردو کے اہم مزاح گو شعرا میں شمار کیے گئے۔

    ان کا تعلق بدایوں سے تھا۔ وہ 8 جولائی 1929ء کو پیدا ہوئے اور 1968ء میں ہجرت کرکے پاکستان آئے اور یہاں بڑا نام و مرتبہ پایا۔ دلاور فگار نے جلد ہی کراچی کے ادبی حلقوں میں شناخت بنا لی اور ‌مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ شہر کے باذوق اور طنزیہ و مزاحیہ شاعری کو سمجھنے والوں نے انھیں‌ بہت پسند سراہا اور پذیرائی دی۔

    اردو کے اس مزاح گو شاعر کے مجموعہ ہائے کلام انگلیاں فگار اپنی، ستم ظریفیاں، آداب عرض، شامتِ اعمال، مطلع عرض ہے، خدا جھوٹ نہ بلوائے اور کہا سنا معاف کے نام سے شایع ہوئے۔ دلاور فگار نے امریکی جمی کارٹر کی ایک تصنیف کا اردو ترجمہ بھی خوب تَر کہاں کے نام سے کیا تھا۔

    حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی ان کے نام کیا تھا۔ ان کے کئی مزاحیہ قطعات اور اشعار مشہور ہوئے اور اکثر تحریر و تقریر میں اپنے دل کی بات کہنے اور مدعا بیان کرنے کے لیے ان کے کلام کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہاں ہم ان کا وہ مشہور قطعہ نقل کررہے ہیں جس میں انھوں‌ نے ہمارے سماج میں جرم کے پھلنے پھولنے اور مجرم کے آزاد گھومنے کا سبب بیان کیا ہے۔

    حاکمِ رشوت ستاں، فکرِ گرفتاری نہ کر
    کر رہائی کی کوئی آسان صورت چھوٹ جا
    میں بتائوں تجھ کو، تدبیرِ رہائی مجھ سے پوچھ لے
    لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا

    انھو‌ں نے اپنی غزلوں اور نظموں میں زندگی کے بہت سے موضوعات اور انسانی کیفیات کو طنزیہ و مزاحیہ انداز میں پیش کیا۔ ان کا اسلوب اور موضوع کی تہ داری انھیں جدید دور کے مزاح گو شعرا میں منفرد اور ممتاز بناتا ہے اور ہمیں تبسم و لطافت کے ساتھ سماج کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کا موقع دیتا ہے۔

    اردو زبان سے متعلق ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    نہ اردو ہے زباں میری، نہ انگلش ہے زباں میری
    زبانِ مادری کچھ بھی نہیں، گونگی ہے ماں میری

  • حاجی لق لق کی ‘آمدنی اور خرچ’ پڑھیے

    حاجی لق لق کی ‘آمدنی اور خرچ’ پڑھیے

    اصل نام تو ان کا عطا محمد تھا، لیکن دنیائے ادب میں حاجی لق لق کے نام سے مشہور ہیں۔ لق لق ان کا تخلّص ہے۔

    حاجی لق لق 1898 میں پیدا ہوئے اور 1961 میں لاہور میں وفات پائی۔ طنز و مزاح میں نام ور ہوئے۔ سماجی اور سیاسی موضوعات کو شاعری میں‌ سمویا اور مسائل و مشکلات کی نشان دہی کرتے ہوئے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی۔

    حاجی لق لق نے اس نظم ‘آمدنی اور خرچ’ میں منہگائی اور حالات کے مارے عوام کی مالی مشکلات اور ضروریات کے بوجھ کا جو نقشہ کھینچا تھا، وہ آج بھی اسی شدّت سے بالخصوص غریب و متوسط طبقے کے مصائب و آلام اور ان کی ابتر حالت کا عکّاس ہے۔

    نظم ملاحظہ کیجیے۔

    ‘ آمدنی اور خرچ’
    کرایہ مکاں کا ادا کرنے جاؤں
    کہ بزاز و خیّاط کا بِل چکاؤں
    دوا لاؤں یا ڈاکٹر کو بلاؤں
    کہ میں ٹیکس والوں سے پیچھا چھڑاؤں
    خدارا بتاؤ کہاں بھاگ جاؤں

    میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں

    بہت بڑھ گیا ہے مکاں کا کرایہ
    ادھر نل کے آبِ رواں کا کرایہ
    بقایا ہے ‘برقِ تپاں’ کا کرایہ
    زمیں پر ہے اب آسماں کا کرایہ
    ہے بچوں کی فیس اور چندہ ضروری
    کتب کاپیوں کا پلندہ ضروری
    شکم پروری کا ہے دھندہ ضروری
    یہ آدم کی ایجادِ بندہ ضروری
    بلا کے مصارف ہیں کیا تاب لاؤں

    میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں

    عزیزوں کی امداد مہماں نوازی
    غریبوں کو خیرات احساں طرازی
    خوراک اور پوشاک میں دنیا سازی
    ادھر فلم کا شوق اور ادھر عشق بازی
    ضروری یہاں سگریٹ اور پان بھی ہے
    عدالت میں جانے کا امکان بھی ہے
    ہے بھنگی بھی دھوبی بھی دربان بھی ہے
    اور اک ساڑی والے کی دکان بھی ہے
    کہاں جاؤں کس کس سے پیچھا چھڑاؤں

    میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں

    ہیں میلے بھی اسلامی تہوار بھی ہیں
    ہم ایسے مواقع پہ خوددار بھی ہیں
    بہت خرچ کرنے کو تیار بھی ہیں
    بلا سے جو بے برگ و بے بار بھی ہیں
    کسے داستانِ مصارف سناؤں

    میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں