Tag: مزاحیہ شاعری

  • ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ اور ’’مقدمہ بازی‘‘

    ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ اور ’’مقدمہ بازی‘‘

    ’’زیڈ۔ اے۔ بی‘‘ کے بڑے بھائی کو ہم لوگ ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ ہی کہا کرتے تھے، ورنہ محض بخاری صاحب کہنے میں سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ کون سے بخاری صاحب، بڑے یا چھوٹے؟

    اور پورا نام لینے میں یعنی احمد شاہ بخاری اور ذوالفقار علی بخاری کہنے میں کچھ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اتنی سی تو عمر ہے اتنے بڑے بڑے نام لے کر اس کی خواہ مخواہ فضول خرچی کیوں کی جائے۔

    لہٰذا ریڈیو والے عموماً ان دونوں بھائیوں کو ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ اور ’’زیڈ۔ اے۔ بی‘‘ ہی کہنے میں کفایت شعاری کے زرّیں اصول پر عمل کیا کرتے تھے، لیکن یہ میں نے بیچ دھڑے سے ریڈیو کی بات کہاں شروع کردی۔ ریڈیو سے تو میرا تعلق اس وقت پیدا ہوا ہے جب آل انڈیا ریڈیو کا لکھنؤ اسٹیشن قائم کیا گیا ہے اور میں ’’اے۔ ایس۔ بی‘‘ سے بحیثیت پطرس کے اس سے پہلے ہی مل چکا تھا۔

    یعنی اس وقت جو میں لکھنؤ سے بحیثیت ’’ٹاکر‘‘ تقریباً ہر ہفتہ آل انڈیا ریڈیو دہلی جایا کرتا تھا اور تاکے بیٹھا تھا کہ پطرس سے ملاقات ہوتے ہی ان کو بھی اسی طرح پھانس لوں گا (کتاب کا مقدمہ لکھوانے کے لیے) جس طرح مولانا نیاز فتح پوری، عظیم بیگ چغتائی، فرحت الله بیگ اور رشید احمد صدیقی کو پھانس چکا ہوں۔

    اپنے ایک مجموعہ مضامین پر مولانا نیاز فتح پوری سے مقدمہ لکھوا چکا تھا۔ اس مجموعے کا نام ’’بحرِ تبسم‘‘ تھا۔ دوسرے مجموعہ ’’سیلابِ تبسم‘‘ پر مرزا عظیم بیگ چغتائی سے مقدمہ لکھوایا تھا۔ تیسرے مجموعہ ’’طوفانِ تبسم‘‘ پر مرزا فرحت الله بیگ نے مقدمہ لکھا تھا۔ چوتھے مجموعہ ’دنیائے تبسم‘‘ پر رشید احمد صدیقی کا مقدمہ تھا اور اب ایک اور مجموعہ پر مقدمہ لکھنے کو پطرس بخاری پر نشانہ باندھ چکا تھا۔

    چناں چہ ایک مرتبہ جو اپنی تقریر نشر کرنے دہلی گیا تو اس نئے مجموعے سے مسلح ہو کر گیا اور بخاری صاحب کو ان کے دفتر میں جالیا۔ بڑے خلوص سے ملے بلکہ مجھ کو کچھ شبہ سا ہونے لگا کہ میں ان سے پہلی مرتبہ نہیں مل رہا ہوں، یعنی ان سے مرعوب ہونا چاہتا اور وہ اس کا موقع ہی نہ دیتے تھے۔

    ہرچند کہ وہ اس وقت ڈپٹی کنٹرولر براڈ کاسٹنگ کی کرسی پر بیٹھے تھے، مگر مجھ کو اس سے کیا میں تو ایک عظیم مزاح نگار کے سامنے ان کے ایک عقیدت مند کی حیثیت سے حاضر تھا اور ان کی عظمت کا احساس مجھ پر طاری تھا۔ جس کو وہ اپنے انتہائی یگانگت اور مساوات کے برتاؤ سے غیر محسوس بنائے دیتے تھے۔ آخر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں حرفِ مطلب زبان پر لایا اور بخاری صاحب سے اپنے نئے مجموعہ مضامین پر مقدمہ لکھنے کی درخواست کی تو بڑی خندہ پیشانی سے بولے،

    ’’یہ کیا مقدمہ بازی لے بیٹھے آپ؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’جی ہاں یہ چھوٹا منہ بڑی بات ضرور ہے، مگر میں آپ سے وعدہ لیے بغیر ٹلنے والا نہیں ہوں۔‘‘ کچھ ہنستی ہوئی آنکھوں سے گھورا۔ کچھ سر پر ہاتھ پھیرا اور گویا عاجز آکر مسکراتے ہوئے بولے، ’’اگر آپ اپنے مقدمہ نگاروں کی ٹیم ہی مکمل کرنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے لکھ دوں گا مقدمہ۔‘‘

    وہ وعدہ لے کر میں بڑے فاتحانہ انداز سے واپس آیا، مگر اس ملاقات کے بعد ہی حالات کچھ کے کچھ ہوگئے۔ آل انڈیا ریڈیو نے لکھنؤ میں بھی اپنا اسٹیشن کھول دیا اور اس اسٹیشن کے ڈائریکٹر جگل کشور مہر اور پروگرام ڈائریکٹر ملک حسیب احمد نے اپنے محکمہ کو نجانے کیا پٹی پڑھائی کہ مجھ کو بھی صحافت چھوڑ کر ریڈیو سے وابستہ ہوجانا پڑا۔

    اور اس کے چند ہی دن بعد میرا وہ مسوّدہ جو میں بخاری صاحب کے پاس چھوڑ آیا تھا مجھ کو ان کے اس خط کے ساتھ واپس مل گیا کہ ’’اب آپ کو ریڈیو میں ایک منصب حاصل ہوچکا ہے، عافیت کا تقاضا یہی ہے کہ آپ مجھ سے مقدمہ نہ لکھوائیں اور میں مقدمہ نہ لکھوں۔‘‘ بات بھی ٹھیک تھی لہذا یہ ارمان دل کا دل ہی میں رہ گیا اور بقول بخاری صاحب کے میری مقدمہ نگاروں کی ٹیم مکمل نہ ہوسکی۔

    (نام وَر ادیب اور شاعر شوکت تھانوی نے یوں تو ادب کی مختلف اصناف میں‌ طبع آزمائی کی اور خوب لکھا، لیکن ان کی وجہِ شہرت طنز و مزاح ہے، پیشِ نظر پارہ ان کی ایک شگفتہ تحریر سے لیا گیا ہے)

  • "مجرم نے کوڑے کھانے کی سزا کیوں قبول کی؟”

    "مجرم نے کوڑے کھانے کی سزا کیوں قبول کی؟”

    ہم تین چیزوں سے بہت ڈرتے ہیں۔ تجریدی مصوری سے، علامتی افسانے سے اور اساتذہ کے کلام سے۔ وجہ یہ ہے کہ ان تینوں کے مفہوم اخذ کرنا ناظر یا قاری کی ذمہ داری ہے نہ کہ مصور، افسانہ نگار اور شاعر کی۔

    مصور ترچھے خطوط سے، افسانہ نگار الفاظ سے اور اساتذۂ سخن ردیف و قوانی سے فن پارے کو اس حد تک گراں بار کر دیتے ہیں کہ اس میں مزید کوئی بار اٹھانے کی گنجائش نہیں رہتی۔ لہٰذا مفہوم و معنی کا یہ بار ہم جیسے ناتوانوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔

    میر تقی میرؔ کو بھی اس قسم کا تجربہ ہوا تھا جس کا ذکر اس شعر میں ملتا ہے:

    سب پہ جس بار نے گرانی کی
    اس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا

    ہم تجریدی مصوری کی نمائشوں میں کبھی نہیں جاتے، یہاں تک احتیاط برتتے ہیں کہ جب شہر میں اس قسم کی کوئی نمائش ہوتی ہے، تو گھر سے باہر نہیں نکلتے کہ کہیں فضائی آلودگی ہم پر بھی اثر انداز نہ ہوجائے۔ علامتی افسانے لکھنے والوں کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ انہوں نے گفتگو میں علامتوں سے کام لیا، تو ہمارا حشر بھی وہی ہوگا جو افسانے کی صنف کا ہوا ہے۔

    اساتذۂ سخن کا ہم بے حد ادب کرتے ہیں اور اِسی وجہ سے ہم نے کبھی ان سے بے تکلف ہونے کی جسارت نہیں کی، یعنی ان کے دواوین کے قریب جانا اور چُھونا تو کیا، انھیں دُور سے دیکھنا بھی ہمارے نزدیک سوئے ادب ہے۔

    ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے، تو بڑی جماعتوں کے طالب علموں کو ان کی شرارتوں پر جو سخت سزا دی جاتی تھی وہ یہ تھی کہ ان سے استاد ذوقؔ کی کسی غزل کی شرح لکھوائی جاتی تھی۔ یہی سبب ہے کہ ہم نے بڑی جماعتوں میں پہنچنے سے پہلے ہی سلسلۂ تعلیم منقطع کر لیا۔ معلوم نہیں آج کل اسکولوں میں اِس قسم کی سزائیں دینے کا رواج ہے یا نہیں۔ اگر ہوگا تو یقینا اُستاد اختر انصاری اکبر آبادی کا کلام سزا دینے کے کام آتا ہوگا۔

    یہ بات ہم نے بلاوجہ نہیں کہی۔ سلطان جمیل نسیم نے یہ واقعہ ہمیں سنایا ہے کہ حیدرآباد میں ایک مجرم کو پندرہ کوڑے کھانے یا استاد کی پندرہ غزلیں سننے کی سزا دی گئی۔ سزا کے انتخاب کا حق استعمال کرتے ہوئے مجرم نے کوڑے کھانے کا فیصلہ کیا کیوں کہ یہ سزا نسبتاً نرم تھی۔ سلطان جمیل نسیم چوں کہ افسانہ نگار ہیں، اِس لیے ممکن ہے بعض لوگ اس واقعے کو درست نہ سمجھیں، لیکن ہمارا خیال ہے کہ کسی افسانہ نگار کا سہواً کسی واقعے کو صحیح بیان کر دینا خارج از امکان نہیں۔

    استاد اختر انصاری شاعر ہی نہیں، ایک رسالے کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ رسالہ تو کبھی کبھی چھپتا ہے، لیکن دیوان ہر سال باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں استاد کا بیسواں دیوان شائع ہوا تھا، تو وہ اسے اپنے عقیدت مندوں میں قیمتاً تقسیم کرنے کے لیے کراچی تشریف لائے تھے۔ اس سلسلے میں وہ ہم سے بھی ملے تھے۔

    ہم نے عرض کیا تھا: ’’استاد! ہم اس شرط پر قیمت ادا کریں گے کہ دیوان آپ کسی اور کو دے دیں۔‘‘ اس گزارش سے وہ بے حد خوش ہوئے اور فرمایا: ’’اگر سب عقیدت مند آپ کی طرح کے ہوں، تو پھر دیوان چھپوائے بغیر ہی اس کا پورا ایڈیشن فروخت ہوسکتا ہے۔‘‘

    (مشفق خواجہ، خامہ بگوش کے قلم سے)

  • اکبر الٰہ آبادی کی برسی جن کے متعدد اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں

    اکبر الٰہ آبادی کی برسی جن کے متعدد اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں

    ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
    وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

    اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر تقریر سے تحریر تک، مجبوری و بے بسی کو عیاں کرنے، طنز کرتے ہوئے اپنی مظلومیت اور حالت کو بیان کرتا چلا آرہا ہے۔ ایک یہی نہیں اکبر الہ آبادی کے متعدد اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔ آج اردو کے اس مشہور شاعر کی برسی ہے۔

    9 ستمبر 1921 کو اکبر الٰہ آبادی وفات پاگئے تھے۔ اردو شاعری میں طنزیہ اور پُرمزاح انداز میں اصلاحی شاعری کرنے والے اکبر الٰہ آبادی نے ایک نئی طرز اپنائی جو انہی کے ساتھ تمام ہوئی۔ ان کا شمار ایسے شعرا میں‌ کیا جاتا ہے جنھوں‌ نے ہندوستان میں مغربی تہذیب کے اثرات پر اپنی طنزیہ شاعری کے ذریعے تنقید کی۔

    اکبر الٰہ آبادی 1946 کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام اکبر حسین تھا۔ وکالت کا امتحان پاس کیا اور مختلف عہدوں‌ پر کام کرتے ہوئے 1894 میں سیشن جج کے عہدے پر فائز ہوئے۔ شعر گوئی کا شوق بچپن سے تھا۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور اکبر نے اپنے دور کے حالات و واقعات اور ہندوستان میں‌ رونما ہونے والی تبدیلیوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔‌

    اکبر الٰہ آبادی کا کلام چار جلدوں پر مشتمل کلیاتِ اکبر میں‌ شامل ہے۔

  • آغا صاحب انسان نہیں!

    آغا صاحب انسان نہیں!

    آغا صاحب انسان نہیں اشعار کی چلتی پھرتی بیاض ہیں۔

    آج سے چند برس پہلے مشاعروں میں شرکت کیا کرتے تھے اور ہر مشاعرے میں ان کا استقبال اس قسم کے نعروں سے کیا جاتا تھا۔ ’’بیٹھ جائیے‘‘، ’’تشریف رکھیے‘‘، ’’اجی قبلہ مقطع پڑھیے‘‘، ’’اسٹیج سے نیچے اتر جائیے‘‘۔

    اب وہ مشاعروں میں نہیں جاتے۔ کلب میں تشریف لاتے ہیں اور مشاعروں میں اٹھائی گئی ندامت کا انتقام کلب کے ممبروں سے لیتے ہیں۔

    ادھر آپ نے کسی بات کا ذکر کیا۔ ادھر آغا صاحب کو چابی لگ گئی۔ کسی ممبر نے یونہی کہا، ’’ہمارے سیکریٹری صاحب نہایت شریف آدمی ہیں۔‘‘ آغا صاحب نے چونک کر فرمایا۔ جگر مرادآبادی نے کیا خوب کہا ہے:

    آدمی آدمی سے ملتا ہے
    دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

    لیکن صاحب کیا بات ہے نظیر اکبر آبادی کی۔ آدمی کے موضوع پر ان کی نظم حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے۔ ایک بند ملاحظہ فرمائیے:

    دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    زردار، بے نوا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
    ٹکڑے چبا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

    کسی نے تنگ آکر گفتگو کا رخ بدلنے کے لیے کہا، ’’آج ورما صاحب کا خط آیا ہے لکھتے ہیں کہ۔۔۔‘‘

    آغا صاحب ان کی بات کاٹتے ہوئے بولے، ’’قطع کلام معاف! کبھی آپ نے غور فرمایا کہ خط کے موضوع پر شعرا نے کتنے مختلف زاویوں سے طبع آزمائی کی ہے۔ وہ عامیانہ شعر تو آپ نے سنا ہوگا۔‘‘

    خط کبوتر کس طرح لے جائے بامِ یار پر
    پَر کترنے کو لگی ہیں قینچیاں دیوار پر

    اور پھر وہ شعر جس میں خود فریبی کو نقطہ عروج تک پہنچایا گیا ہے:

    کیا کیا فریب دل کو دیے اضطراب میں
    ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں

    واللہ جواب نہیں اس شعر کا۔ اب ذرا اس شعر کا بانکپن ملاحظہ فرمائیے:

    ہمیں بھی نامہ بَر کے ساتھ جانا تھا، بہت چوکے
    نہ سمجھے ہم کہ ایسا کام تنہا ہو نہیں سکتا

    اور پھر جناب یہ شعر تو موتیوں میں تولنے کے قابل ہے۔ وہ شعر ہے۔۔۔۔ شعر ہے۔۔۔ کم بخت پھر حافظے سے اتر گیا۔۔۔۔۔ ہاں، یاد آ گیا۔

    لفافے میں ٹکڑے میرے خط کے ہیں۔۔۔

    اتنے میں یک لخت بجلی غائب ہو گئی۔ سب لوگ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کلب سے کھسک گئے۔

    (اردو کے ممتاز ادیب اور مشہور مزاح نگار کنہیا لال کپور کے مضمون "ایک شعر یاد آیا” سے اقتباس)

  • "زنوں سے مرد بھی ہارے عجب یہ دور آیا ہے”

    "زنوں سے مرد بھی ہارے عجب یہ دور آیا ہے”

    اردو ادب کا پہلا طنز و مزاح نگار جعفر زٹلی کو تسلیم کیا جاتا ہے اور زٹلی کا زمانہ مغل سلطنت کے مشہور فرماں روا اورنگ زیب کا دورِ آخر ہے۔

    اورنگ زیب کی وفات کی وفات کے چند دہائیوں کے اندر ہی سلطنتِ مغلیہ پر انتشار کے آثار نظر آنے لگے۔ تخت نشینی کے لیے سازشیں، جھڑپیں، اور جنگیں شروع ہو گئیں اور یوں‌ مغل پائے تخت کا وقار جاتا رہا جس نے سلطنت کو کم زور کیا۔ اس عرصے میں جو سیاسی صورتِ حال اور انتشار عیاں ہوا اس نے سماج کو بھی متاثر کیا اور جعفر زٹلی وہ شاعر ہیں جنھوں نے اس سیاسی اور سماجی ڈھانچے کے خلاف عوام کی نا آسودگی اور ناراضی کا اظہار احتجاج کی شکل میں کیا۔

    اقتدار کی ہوس میں شہزادگان کی لڑائیاں اور ظلم و ستم سے عوام کی پریشانیاں بڑھنے لگیں تو جعفر زٹلی جیسے حساس اور زود رنج شاعر نے طنز اور تنقید کے ذریعے محل سے سماج تک کی کہانی بیان کی ہے

    سماجی ناہمواری، فرسودہ رسم و رواج، اخلاقی گراوٹ، بے عملی، قدروں کی پامالی کے ساتھ ساتھ سلطنتِ مغلیہ کے زوال اور اس کے نتیجے میں معاشی ابتری پر جعفر نے قلم اٹھایا ہے۔ البتہ ان کا انداز جارحانہ اور اکثر پھکڑ پن اور ابتذال کا شکار ہے، جس کی ناقدین نے نشان دہی کی ہے۔ تاہم ان کا اپنے دور میں صدائے احتجاج اور آواز بلند کرنا ضرور اہمیت رکھتا ہے۔ ان کے کلام سے چند اشعار دیکھیے۔

    ایک نظم کے اشعار:
    ہنر مندان ہرجائی، پھریں در بدر رسوائی
    رزل قوموں کی بن آئی، عجب یہ دور آیا ہے
    نہ بولے راستی کوئی، عمر سب جھوٹ میں کھوئی
    اتاری شرم کی لوئی، عجب یہ دور آیا ہے

    سماجی و معاشرتی حالات میں‌ ابتری اور گراوٹ کو اس طرح نمایاں کیا ہے

    گیا اخلاص عالم سے عجب یہ دور آیا ہے
    ڈرے سب خلق ظالم سے عجب یہ دور آیا ہے
    نہ یاروں میں رہی یاری، نہ بھائی میں وفاداری
    محبت اٹھ گئی ساری عجب یہ دور آیا ہے
    خصم کو جورو اٹھ مارے، گریباں باپ کا پھاڑے
    زنوں سے مرد بھی ہارے عجب یہ دور آیا ہے

  • مسکراہٹیں بکھیرنے والے شاعر عنایت علی خان انتقال کر گئے

    مسکراہٹیں بکھیرنے والے شاعر عنایت علی خان انتقال کر گئے

    کراچی: مسکراہٹیں بکھیرنے والے معروف شاعر اور استاد پروفیسر عنایت علی خان خالق حقیقی سے جا ملے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں طنز و مزاح کے نامور شاعر پروفیسر عنایت علی خان ٹونکی انتقال کر گئے ہیں، ان کی نماز جنارہ کراچی کے علاقے ماڈل کالونی میں ادا کی جائے گی۔

    مرحوم کے اہل خانہ کے مطابق پروفیسر عنایت علی کا انتقال گزشتہ شب دل کا دورہ پڑنے سے ہوا، مرحوم کی عمر 85 برس تھی اور وہ کئی ماہ سے علیل تھے۔

    پروفیسر عنایت طنز و مزاح کے ساتھ سنجیدہ شاعری میں بھی الگ پہچان رکھتے تھے، ان کی موت سے علم و ادب کی ایک اور شمع بجھ گئی ہے، وہ 1935 میں بھارتی ریاست ٹونک میں پیدا ہوئے تھے، اور نومبر 1948 میں ہجرت کے بعد سندھ کے شہر حیدرآباد میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ انھوں نے 1962 میں سندھ یونی ورسٹی سے ایم اے کے امتحان میں ٹاپ کیا۔

    سنجیدہ شاعری ہو یا مزاحیہ پروفیسرعنایت علی خان منفرد اسلوب کے مالک تھے، تدریس سے وابستہ پروفیسر عنایت علی خان کو 6 کتابوں پر انعام سے بھی نوازا گیا، ان کی مشہور تصانیف میں ازراہِ عنایت، عنایات، عنایتیں کیا کیا شامل ہیں۔

    چنو منو اور شیطان، پیاری کہانیاں کے نام سے پروفیسر عنایت نے بچوں کے لیے کہانیوں اور نظموں کی دو کتابیں بھی لکھیں، ان کی نظم بول میری مچھلی کے کئی مزاحیہ قطعات زبان زد عام ہوئے۔

    پروفیسر عنایت کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

  • آ کے ہم کو بھی ”تا” کرے کوئی!

    آ کے ہم کو بھی ”تا” کرے کوئی!

    بابائے ظرافت سید ضمیر جعفری کو ہم سے بچھڑے بیس برس بیت چکے ہیں۔ اردو ادب میں‌ نثر ہو یا نظم طنز و مزاح کے لیے مشہور شخصیات میں‌ ضمیر جعفری‌ کا نام اپنے موضوعات اور شائستہ انداز کی وجہ سے سرِفہرست رہے گا۔

    سماج کے مختلف مسائل، خوبیوں اور خامیوں‌ کو اجاگر کرنے کے ساتھ انھوں نے ہماری تفریحِ طبع کا خوب سامان کیا۔

    سید ضمیر جعفری نے ہمیشہ پُر وقار انداز میں بامقصد تفریح کا موقع دیا۔ ان کی یہ غزل آپ کو ضرور مسکرانے پر مجبور کردے گی۔

    نمکین غزل
    شب کو دلیا دلا کرے کوئی
    صبح کو ناشتہ کرے کوئی

    آدمی سے سلوک دنیا کا
    جیسے انڈا تلا کرے کوئی

    سوچتا ہوں کہ اس زمانے میں
    دادی اماں کو کیا کرے کوئی

    جس سے گھر ہی چلے نہ ملک چلے
    ایسی تعلیم کیا کرے کوئی

    ایسی قسمت کہاں ضمیرؔ اپنی
    آ کے پیچھے سے ”تا” کرے کوئی

  • سَر درد کی گولی کے "سائیڈ ایفیکٹس” تو  جان لیں!

    سَر درد کی گولی کے "سائیڈ ایفیکٹس” تو جان لیں!

    ادب میں‌ جہاں سیاست سے سماج تک ہر شعبے میں عام مسائل اور مختلف خامیوں اور برائیوں کی نشان دہی کے لیے نثر نگاروں نے طنز و مزاح کا سہارا لیا ہے، وہیں، شعرا نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔

    انور مسعود پاکستان کے ممتاز مزاح گو شاعر ہیں۔ یہاں ہم ان کی ایک مزاحیہ نظم پیش کررہے ہیں جو ایک طرف تو آپ کو مسکرانے پر مجبور کردے گی، اور دوسری جانب یہ غیر ضروری اور معمولی شکایت کی صورت میں ادویہ کے استعمال کی حوصلہ شکنی بھی کرتی ہے۔

    اگر صرف سَر درد کی بات کی جائے تو اکثر اسکرین کے سامنے مسلسل اور زیادہ وقت گزارنے، موسمی اثرات جیسے تیز دھوپ میں رہنے کی وجہ سے بھی سَر میں بھاری پن اور درد محسوس ہوسکتا ہے، اور یہ کیفیت کچھ دیر بعد ختم ہوجاتی ہے، لیکن بعض لوگ درد کُش ادویہ کے ذریعے مسئلے سے فوری نجات چاہتے ہیں جس سے بچنا چاہیے۔

    اگر چند گھنٹوں کے آرام سے مسئلہ حل نہ ہو اور آپ سمجھتے ہوں کہ اس سَر درد کی کوئی خاص وجہ ہے تو مستند معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔

    اب آپ اس مزاحیہ کلام سے لطف اندوز ہوتے ہوئے "ازخود” علاج کی صورت میں پیدا ہونے والے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرسکتے ہیں۔

    سَر درد میں گولی یہ بڑی زود اثر ہے
    پر تھوڑا سا نقصان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتی ہے پیدا کوئی تبخیر کی صورت
    دل تنگ و پریشان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتی ہے کچھ ثقلِ سماعت کی شکایت
    بیکار کوئی کان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ممکن ہے خرابی کوئی ہو جائے جگر میں
    ہاں آپ کو یرقان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    پڑ سکتی ہے کچھ جلد خراشی کی ضرورت
    خارش کا کچھ امکان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتی ہیں یادیں بھی ذرا اس سے متاثر
    معمولی سا نسیان بھی ہو سکتا ہے اس سے

    بینائی کے حق میں بھی یہ گولی نہیں اچھی
    دیدہ کوئی حیران بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ہو سکتا ہے لاحق کوئی پیچیدہ مرض بھی
    گردہ کوئی ویران بھی ہو سکتا ہے اس سے

    ممکن ہے کہ ہو جائے نشہ اس سے ذرا سا
    پھر آپ کا چالان بھی ہو سکتا ہے اس سے

  • میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں!

    میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں!

    مجید لاہوری کے مزاحیہ اشعار محض سخن برائے گفتن نہیں بلکہ ہنسی ہنسی میں وہ زخم کریدنے، سماجی ناہمواریوں اور معاشرتی مسائل پر نشتر برسانے کا فن جانتے تھے۔ ان کے چند منتخب اشعار جو آج کے جدید معاشرے کی بھی عکاسی کرتے ہیں‌ ملاحظہ ہوں۔

    میدانِ سیاست سے زورِ خطابت تک دھوکے اور فریب سے خود کو مسیحا بتانے والوں‌ کے پیچھے چلنے والے عوام سے وہ ایسے مخاطب ہوتے ہیں۔

    اے قوم بنا دے تُو مجھ کو بھی ذرا لیڈر
    کیا اور کروں آخر جب کام نہیں ملتا
    گدھوں پہ لاد کے ہم بوجھ ذمے داری کا
    یہ کہہ رہے ہیں کوئی آدمی نہیں ملتا

    حضرتِ انسان کی کم عقلی، کج فہمی کا عالم یہ ہے کہ اس نے دنیا میں‌ اپنے ہی جیسے انسانوں‌ کو گویا پالن ہار اور ان داتا بنا رکھا ہے۔ مجید لاہوری کا یہ شعر دیکھیے۔

    فرعون و ہامان و قارون سارے
    سبھی مفلسوں کے بنائے ہوئے ہیں

    وہ ہمارے جمہوری نظام اور سیاسی ابتری پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

    بناتے تھے مجھے کب لوگ ممبر
    میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں

    اور یہ دو شعر کیسے نمکین ہیں جس میں‌ اردو زبان کی بے وقعتی پر انھوں‌ نے اہلِ علم کو خبردار کیا ہے اور اردو بولنے والوں‌ کو گویا جگانے کی کوشش کی ہے۔

    کھا کے امریکا کا گھی پھر نوجواں ہو جائے گا
    مولوی گل شیر، بھولو پہلواں ہو جائے گا
    غیر ٹھکرائیں گے،اپنے بھی نہیں اپنائیں گے
    اے مرے دل تو بھی کیا اردو زباں ہو جائے گا

    اس شعر میں‌ مجید لاہوری نے سیاسی نظام پر ظریفانہ چوٹ کی ہے

    ہم نے بی اے کیا، کلرک ہوئے
    جو مڈل پاس تھے، وزیر ہوئے

  • کسی نوجوان کے اداس ہونے کی صرف دو وجوہ ہو سکتی ہیں!

    کسی نوجوان کے اداس ہونے کی صرف دو وجوہ ہو سکتی ہیں!

    بخاری صاحب کا ان دنوں عالمِ شباب تھا۔ پینتیس سال کے قریب عمر ہوگی، دراز قد، گھنی بھنویں، سرخ و سفید رنگت، بڑی بڑی روشن آنکھیں، لمبوترا چہرہ، شکل و شباہت کے اعتبار سے وہ افغان یا ایرانی دکھائی دیتے تھے۔

    ریشمی گاؤن پہن کر کلاس روم میں آتے تھے۔ حاضری لیے بغیر لیکچر شروع کیا کرتے، عموماً لیکچر سے پہلے اپنے عزیز شاگردوں سے دو ایک چونچیں ضرور لڑایا کرتے تھے۔ بلراج ساہنی مشہور ہندوستانی اداکار، ان کا عزیزترین شاگرد تھا۔ اکثرایک آدھ فقرہ اس پر کستے تھے۔

    ’’کیا بات ہے ساہنی، آج کچھ کھوئے کھوئے نظر آتے ہو، جانتے ہو جب کوئی نوجوان اداس رہتا ہے تو اس کی اداسی کی صرف دو وجہیں ہوتی ہیں یا وہ عشق فرمانے کی حماقت کر رہا ہے یا اس کا بٹوہ خالی ہے۔‘‘

    لیکچر کسی کتاب یا نوٹس کی مدد کے بغیر دیتے تھے۔ انگریزی کا تلفظ ایسا تھا کہ انگریزوں کو رشک آتا تھا۔ فرسودہ یا روایتی اندازِ بیان سے چڑ تھی۔ غلطی سے بھی کوئی عامیانہ فقرہ ان کی زبان سےنہیں نکلتا تھا۔

    ڈراما پڑھانے میں خاص کمال حاصل تھا۔ ہملیٹ پڑھا رہے ہیں تو چہرے پر وہی تأثرات پیدا کرلیں گے جو موقع محل کی عکاسی کرتے ہوں۔ کنگ لیر پڑھاتے تو معلوم ہوتا، کہ طوفانوں میں گھرا ہوا بوڑھا شیر غرا رہا ہے۔ شیکسپیئر کے مشہور کرداروں کی تقریریں زبانی یاد تھیں، انھیں اس خوبی سے ادا کرتے کہ سامعین کو پھریری سی آجاتی۔

    حافظہ غضب کا پایا تھا، اکثر جب کوئی نئی کتاب پڑھتے تو دوسرے دن کلاس روم میں اس کا خلاصہ اتنی صحت کے ساتھ بیان کرتے کہ لیکچر سننے کے بعد محسوس ہوتا کتاب انھوں نےنہیں ہم نے پڑھی ہے۔

    ایک بار فرانسیسی فلسفی برگساں کی کتاب ’’مزاح‘‘ کی وضاحت فرماتے وقت انھوں نے طنز و مزاح سے متعلق بہت دل چسپ باتیں بتائیں۔

    فرمایا۔ انسان ہی صرف ہنسنے والا جانور ہے۔

    میں نے کہا، جناب بندر بھی ہنستا ہے۔

    ہنس کر فرمایا، کیوں کہ وہ انسان کا جدِ امجد ہے۔

    بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔ ہنسنے کے لیے عقل کا ہونا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیوقوف کو لطیفہ سنانا تضیعِ اوقات ہے۔ اگرایک آدمی کیلے کے چھلکے سے پھسل پڑے تو دوسرے اس پر ہنستے ہیں، لیکن اگر ایک بھینس کیلے کے چھلکے سے پھسل کر کیچڑ میں گر پڑے تو باقی بھینسیں اس پر کبھی نہیں ہنسیں گی، کیوں کہ بھینس کے پاس عقل نہیں ہوتی، تبھی تو یہ محاورہ ایجاد ہوا، عقل بڑی یا بھینس۔۔۔۔

    معروف مزاح نگار کنہیا لال کپور کے مضمون پیرومرشد سے انتخاب