Tag: مزاحیہ شو

  • عمر شریف کی بھارت میں ایک یادگار پرفارمنس کا تذکرہ

    عمر شریف کی بھارت میں ایک یادگار پرفارمنس کا تذکرہ

    یکم اپریل کی خوش گوار شام جب عمر شریف خم ٹھونک کر حیدرآباد کے اوپن ایئر تھیٹر کے اسٹیج پر اترے تو پھر انھیں میدان مارنے سے کوئی نہیں روک سکا۔

    اپنے لطیفوں، آس پاس کے لوگوں اور حاضرین سے نوک جھونک، طنز کے تیروں اور زبان کی مٹھاس سے عمر شریف نے وہ جادو جگایا کہ شاید حیدرآباد اور حیدرآباد والے اس سرور سے کافی طویل عرصے تک جھومتے رہیں گے۔

    یہ ہندوستان کے مشہور شہر حیدر آباد دکن میں کامیڈی کنگ کی 2006ء کی ایک اسٹیج پرفارمنس کا تذکرہ ہے اور یہ پارے صحافی عمر فاروق کی ایک رپورٹ سے نقل کیے گئے ہیں۔

    لوگوں کو لطائف سناکر، مزاحیہ اور طنزیہ جملوں اور برجستہ مکالموں سے ہنسنے اور قہقہے لگانے پر مجبور کردینے والے پاکستانی فن کار کا بھارت میں یہ پہلا شو تھا۔

    عمر شریف نے اس موقع پر اپنے جذبات کا جن الفاظ میں اظہار کیا، انھیں عمر فاروق نے یوں رقم کیا، ’مجھے یہاں آکر ہرگز نہیں لگتا کہ میں کسی اجنبی جگہ آگیا ہوں۔ نہ تو لوگوں کی آنکھوں میں بیگانگی ہے اور نہ ہی ان کے ملنے میں کوئی ہچکچاہٹ۔ میں یہاں ملنے والی محبت اور یہاں کے لوگوں کی گرم جوشی، یہاں کی زبان اور تہذیب سے بہت متاثر ہوا ہوں۔‘
    پاکستان میں اسٹیج شوز اور مزاحیہ تھیٹر کی دنیا پر دہائیوں تک راج کرنے والے عمر شریف کو گزشتہ روز سپرد خاک کردیا گیا۔

    حیدرآباد دکن میں ان کے اسٹیج شو کی مختصر روداد کے ساتھ ہم آپ کو یہاں اس فلم کے بارے میں بھی بتائیں گے جسے ہندوستان میں بننے والی پہلی ایسی فلم کہا گیا تھا، جس کا ہدایت کار پاکستانی فن کار تھا۔ یہ عمر شریف ہی تھے۔

    عمر شریف صرف 14 سال کی عمر میں تھیٹر سے بطور اداکار وابستہ ہوئے۔ ان کی اولین اسٹیج پرفارمنس کا ماجرا بھی بہت دل چسپ ہے۔

    کراچی کے آدم جی ہال میں اسٹیج ڈرامہ منعقد ہونا تھا، جس کا ایک گجراتی اداکار اپنے قریبی عزیز کی اچانک وفات کی وجہ سے ڈرامہ چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ شو سے دو گھنٹے قبل عمرشریف کو بلایا گیا اور انھیں جوتشی بن کر حاضرین کے سامنے بھیج دیا گیا۔

    عمرشریف نے اپنی پرفارمنس سے خود کو پُراعتماد اور باصلاحیت ثابت کردیا۔ ان کی پرفارمنس کے بعد ان کے لیے دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔

    اپنی شہرت کے کئی برس بعد جب انھوں نے حیدرآباد، دکن میں ایک پروگرام کیا تو وہاں ان کے مداحوں کے لیے یہ بہت خوشی کا موقع تھا۔ لوگوں کا بے پناہ اشتیاق اور عمر شریف کے لیے ان کی چاہت کا اظہار دیدنی تھا۔ اس عظیم فن کار کو اسٹیج پر دیکھنے والوں میں ایسے شائقین بھی تھے جو مقبول ترین اسٹیج شو ‘بکرا قسطوں پر’ دیکھ چکے تھے اور عمر شریف کے بڑے مداح تھے۔

    یہ بھی ایک بڑا کامیڈی شو ثابت ہوا جس میں عمر شریف نے اپنے فن کا بھرپور اور کامیڈی کی صلاحیت کا شان دار مظاہرہ کیا۔

    صحافی عمر فاروق لکھتے ہیں، انھوں نے کئی تیز رفتار اور بے دم کر دینے والے آئٹم پیش کیے جس میں ایک طرف پاکستان اور مغربی جرمنی کے ہاکی میچ کی دھواں دھار کمنٹری اور اس میں ’سمیع اللہ کلیم اللہ، کلیم اللہ پھر سمیع اللہ‘ کا کبھی نہ ختم ہونے والا ورد تھا۔ تو دوسری طرف عزیز میاں قوال کی یادگار قوالی ’میں شرابی میں شرابی‘ کی ہوبہو نقل بھی۔

    جب سے ’بکرا قسطوں پہ‘ جیسے کامیڈی ڈرامے کے ویڈیو کیسٹ ہندوستان میں آئے اور پھر کسی وبا کی طرح پھیلتے چلے گئے، تب ہی سے عمر شریف کا نام، ان کا چہرہ مہرہ اور ان کی چال ڈھال، یہاں کے لوگوں میں ساری چیزیں بے حد مقبول رہی ہیں۔

    انھوں نے کے ایل سہگل، گلوکار محمد رفیع اور کشور کمار کی آوازیں ہی نہیں سنائیں، مہدی حسن کے انداز میں ایک جدید فلمی گانا بھی سنایا۔ اس پرفارمنس کے دوران گائیکی اور موسیقی میں نام ور نصرت فتح علی خان کے ڈیل ڈول اور ان کی شخصیت کا نقشہ بھی کچھ انداز سے کھینچا کہ لوگ ہنستے ہنستے دہرے ہوگئے۔

    یہ عمر شریف کا وہ پہلا شو تھا جو انھوں نے لاہور میں دل کے ایک آپریشن کے بعد کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بائی پاس سرجری کے بعد انھیں نئی زندگی ملی ہے۔

    اب بات کرتے ہیں ‘تم میرے ہو’ نامی فلم کی۔ یہ وہ فلم تھی جس کے لیے عمر شریف نے بھارت میں ہدایات دیں۔ حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے ایک پروڈیوسر مسعود علی نے اپنی فلم بنانے کا اعلان کرتے ہوئے اس میں مشہور اداکاروں راجیش کھنہ، آرتی چھابڑیہ، اشمت پٹیل، رزاق خان، جسپال بھٹی کے کام کرنے کی بات کی، وہیں بتایا کہ ہدایت کاری کے ساتھ عمر شریف بھی ان کی فلم میں تین کردار ادا کررہے ہیں جب کہ ہندوستان کے تین بڑے اداکاروں پریش راول، انوپم کھیر اور جانی لیور سے بھی اس فلم میں کردار ادا کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔

    عمر شریف اسی فلم کے سلسلے میں بھارت گئے تھے جہاں دکن میں انھوں نے وہ اسٹیج پرفارمنس دی تھی جس کی یاد ایک بار پھر تازہ ہو گئی ہے، لیکن آج حیدرآباد دکن ہی کیا، ہندوستان، پاکستان اور دنیا بھر میں موجود عمر شریف کے مداح اُس یادگار پرفارمنس کی ریکارڈنگ دیکھتے ہوئے ہنسنے اور قہقہے لگانے پر مجبور ہوجانے کے باوجود اُس ہنسانے والے کی یاد میں صرف رونا چاہتے ہیں۔

  • ہر دل عزیز معین اختر آج ہی کے دن ہم سے جدا ہوئے تھے

    ہر دل عزیز معین اختر آج ہی کے دن ہم سے جدا ہوئے تھے

    ہر دل عزیز فن کار معین اختر نے آج ہی کے روز اس دنیا سے ناتا توڑا تھا، اور مداح آج ان کی نویں برسی منارہے ہیں۔

    پاکستان میں پرفارمنگ آرٹ، خاص طورپر نقالی کے فن کی بات کی جائے تو معین اختر کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اس فن کو نہایت خوبی سے اپنی شناخت کا ذریعہ بناتے ہوئے معین اختر نے صدا کاری سے ادا کاری تک اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور شہرت کے ہفت آسمان طے کیے۔

    معین اختر جیسے فن کار صدیوں میں‌ پیدا ہوتے ہیں۔ اسٹیج سے ریڈیو تک، ریڈیو سے ٹیلی ویژن اور پھر فلم نگری تک معین اختر نے ہزاروں روپ بدلے، سیکڑوں کردار نبھائے اور وہ سبھی لازوال اور ذہنوں پر نقش ہیں۔

    انھیں ایک ایسے ورسٹائل آرٹسٹ اور باکمال فن کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جس نے اس نگری کے ہر شعبے میں تخلیقی اور شان دار کام کیا۔ اسٹیج اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں کامیڈی کے ساتھ معین اختر نے سنجیدہ کردار بھی نبھائے۔ صدا کار، ادا کار، مختلف پروگراموں کے کام یاب میزبان، گلوکار اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے بھی معین اختر نے اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوایا۔

    معین اختر کا تعلق کراچی سے تھا جہاں 24 دسمبر، 1950 کو آنکھ کھولی۔ اس بے مثال اداکار نے 2011 کو اسی شہر میں زندگی کا سفر تمام کیا۔

    معین اختر سولہ برس کے تھے جب اسٹیج پر پہلی پرفارمنس دی اور حاضرین کے دل جیت لیے۔ ٹیلی ویژن وہ میڈیم تھا جہاں قدم رکھتے ہی گویا ان کی شہرت کو پَر لگ گئے۔ 70 کی دہائی میں معین اختر پاکستان بھر میں پہچان بنا چکے تھے۔

    مزاحیہ شوز ففٹی ففٹی، لوز ٹاک، ہاف پلیٹ، اسٹوڈیو ڈھائی اور روزی جیسا ٹی وی پلے ان کی شان دار پرفارمنس کی وجہ بہت مقبول ہوا۔

    معین اختر کا فنی سفر 45 سال پر محیط ہے جسے ہر لحاظ سے شان دار اور متأثر کن کہا جاتا ہے۔

    پرفارمنگ آرٹ کے اس بے تاج بادشاہ نے کئی معتبر ایوارڈز اپنے نام کیے اور انھیں سرحد پار بھی بہت پسند کیا جاتا تھا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے معین اختر کو ستارۂ امتیاز اور تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    معین اختر پاکستان کے ان آرٹسٹوں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے دلوں پر راج کیا اور کبھی، کسی بھی روپ میں ان کے مداحوں کو ان کی پرفارمنس سے مایوسی نہیں ہوئی۔ معین اختر کے ساتھ فنِ نقالی اور اسٹیج پرفارمنس کا گویا ایک عہد بھی رخصت ہوگیا۔