Tag: مزاحیہ مضامین

  • اس واردات کو ’تالا توڑنے‘ کا نام نہیں دیا جاسکتا!

    اس واردات کو ’تالا توڑنے‘ کا نام نہیں دیا جاسکتا!

    قرض کی مے تو نہیں البتہ چائے ضرور پیتے تھے (کیوں کہ غالب سے ازلی اور ابدی رشتہ ہے!) اور جانتے تھےکہ ایک دن یہ فاقہ مستی، جس میں سے اب مستی بھی غائب ہوتی جا رہی ہے، ضرور رنگ لائے گی۔

    تو صاحب وہ رنگ لائی اور ایسا چوکھا کہ ہماری عینک زدہ آنکھیں بھی چکا چوند ہوگئیں۔ واقعہ کسی سال کے کسی مہینے کی کسی تاریخ کا ہے کہ ہماری ایک دوست نے شیطانِ اعظم کا رول ادا کیا۔ یعنی ہمیں ورغلا کر اپنے گھر لے گئیں۔ ابھی تصوراتی اطمینان کا روایتی سانس بھی نہیں لیا تھا کہ اطلاع ملی ہمارے کبوتر خانےکا، جسےعرف خاص میں دولت خانہ (اگرچہ دولت سرے سے مفقود ہے) کہا جاتا ہے، تالا توڑ دیا گیا ہے۔

    گھر پہنچتے پہنچتے پوری ایک قوم تعزیت کرنے اور پس ماندگان کو صبرکی تلقین کرنے جمع ہوگئی۔ ان سب کو ہم نے اطمینان دلایا کہ اوّل تو ہمارا تالا ازل ہی سے ٹوٹا ہوا تھا۔ یہ ہمارے ہاتھ کی صفائی تھی جس سےاس کا بھرم قائم تھا۔ یعنی اسے ہم اس فن کارانہ خوبی سے چپکا دیتے تھےکہ وہ بند معلوم ہونے لگتا تھا، اس لیے اس واردات کو ’تالا توڑنے‘ کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور دوسرے یہ کہ دن کو اس طرح لٹنےسے رات کو چوری کا خدشہ نہ رہا۔

    اور پھر گھر کی یہ حالت کہ جب جب کوئی آتا ہمیں نہایت ہی فلسفیانہ اور راہبانہ انداز میں پوز بنا کر کہنا پڑتا، ’’آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا۔‘‘

    لے دے کے جوتے کے پرانے ڈبے سے مشابہ ایک ریڈیو تھا جس میں ہر وہ اسٹیشن لگ جاتا جسے آپ نہ لگانا چاہتے ہوں۔ اور جس میں بیک وقت آدھے پون درجن اسٹیشن سنے جاسکتے تھے۔ ریڈیو سیلون کے بیوپار وبھاگ سے فلم ’پریم کی بلبل‘ کی کہانی، آکاش وانی کے پنچ رنگی پروگرام وودھ بھارتی سے فلمی گانے، ریڈیو پاکستان سےعربی فارسی میں خبریں، بمبئی سے ڈرامہ، مدراس سے تامل میں آ۔ آ اور جالندھر سے بلے بلے۔ اور جب یہ نقطۂ عروج پر ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا کسی میدانِ جنگ سے بمباری کا آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا حال سنایا جا رہا ہو۔ اور ایک گھڑی تھی جو ممکن ہے کسی زمانے میں گھڑی رہی ہو۔ لیکن اب اس میں اس قسم کے کوئی جراثیم نہیں پائے جاتے تھے۔

    تو صاحب جب منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی زبوں حالی کا یہ عالم ہو تو چوری کا کیا غم! غم تھا تو صرف اس بات کا کہ غریب نے گھر کی ایک ایک چیز الٹنے پلٹنے میں کتنی محنت کی اور اسے واپسی کے لیے بس کا کرایہ تک نہ مل سکا۔ بھلا وہ اپنے دل میں کیا سوچتا ہوگا۔ اس سے زیادہ بےعزتی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ کہیں کل کلاں کو وہ الٹا ہمیں ہی منی آرڈر نہ بھیج دے! یا اکھل بھارتیہ چور سبھا بنا کر ہم جیسے لوگوں کی فلاح و بہبود کے ذرائع نہ سوچنے لگے۔

    خیر جو ہوا سو ہوا۔ مگر اب ایسے آڑے وقتوں کے لیے کہ جب گھر کی عزت پر بن جائے ہمیں کچھ نہ کچھ بچائے رکھنا چاہیے۔ ہماری آمدنی اور خرچ کا حساب کچھ ایسا ترقی پسندانہ تھا کہ ہزار اکاؤنٹنٹ رکھے جانےاور سیکڑوں کمیشن بٹھائے جاتے تب بھی ان کی ایک دوسرے سے دوستی نہ ہوتی۔ اس لیے حساب کتاب کرنا یا بجٹ بنانا ایسا ہی تھا جیسے یو۔ این۔ او میں کشمیر کا مسئلہ اٹھانا۔ اس جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے ہم نے اپنے ویٹو پاور سے کام لیتے ہوئے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، نہ آگا نہ پیچھا، جھٹ سو روپے اٹھا کے ایسی جگہ رکھوا دیے جہاں وہ ہمارے لیے بھی اجنبی بن گئے۔

    چار، پانچ روز بخیر و خوبی گزر گئے اور ہمیں اپنے سو روپوں کی جدائی کا قطعی احساس نہ ہوا۔ بلکہ ہم خاصا فخر محسوس کررہے تھے کہ ہم بھی صاحبِ جائیداد ہوگئے۔ گردن میں ایک خاص تناؤ اور چال میں رعونت پیدا ہو گئی۔ اور راوی تو یہاں تک کہتا ہے کہ لب و لہجہ میں بھی انقلاب آگیا۔ ہم جو پہلے ہر وقت اپنے جیسے پھکڑ لوگوں کے ساتھ گپیں ہانکا کرتے تھے اور وہ قہقہے لگاتے تھے جو گزوں اور میلوں تک سنے جا سکتے تھے۔ اب صرف زیرِ لب تبسم (کہ جس میں تبسم کم اور متانت زیادہ ہوتی ہے) سے کام چلایا کرتے۔ اور اس پھکڑ قوم کے ساتھ بیٹھنا اور گپیں ہانکنا تو اب عہدِ پارینہ کی داستان بن چکا تھا۔ گو اس تبدیلی کا ہم پر یہ اثر ہوا کہ کئی دنوں تک گردن، زبان، جبڑے، ہونٹ اور پیٹ میں شدت کا درد ہوتا رہا۔ طبیعت گری گری رہی۔ کسی کام میں دل نہ لگتا تھا، کیا کرتے مجبور تھے کہ صاحبِ جائیداد طبقے کا شیوہ یہی ہے۔

    چھٹے روز ناگہانی طور پر بازار سے گزر ہوا۔ ایک حسین ساڑھی دکان میں لہرارہی تھی۔ ہم نے پہلے اسے دیکھا پھر اپنی ڈھائی جگہ سے سلی ساڑھی کو۔ اور ایک عاشقانہ سی آہ بھر کے آگے بڑھ گئے۔ کیوں کہ سو روپے بچانے کے لیے لازمی تھا کہ ہم ڈھائی نہیں بلکہ سوا تین اور ساڑھے چار جگہ سے پھٹی ساڑھی پہنے گھومیں۔

    دو قدم چلنے کے بعد سال بھر پرانی چپل بھی ٹاٹا۔ بائی، بائی کہنے لگی۔ پھر دل پر سو کا نوٹ کہ جو پتھر سے بھی بھاری تھا رکھا اور چپل میں پن اٹکا لی۔

    رفتہ رفتہ ہم بکھرے سوکھے بال، سونی آنکھیں، پھیکے ہونٹ اور روکھا ویران چہرہ لیے کالج پہنچنے لگے۔ عوام اور خواص نے سوچا کہ شاید ہمارے کسی عزیز کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس لیے ہم اتنے سوگوار ہیں۔ یا شاید ہم نے پھر ایک نیا عشق شروع کر دیا ہے اور جو شد و مد کے لحاظ سے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دے گا۔ اس لیے ایک طرف تو تعزیتی جلسے کا انتظام ہونے لگا تو دوسری طرف بڑے رازدارانہ انداز میں مشورے دیے جانے لگے۔ اور تب ہم نےاعلان کیا کہ اس سوگواری میں نہ کسی موت کا ہاتھ ہے نہ رومان کا۔ سب مایا کا جال اور ہماری چال ہے۔ یعنی ہم نے مبلغ سو روپے بچائے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ہم اس قابل نہیں رہے کہ لپ اسٹک، پوڈر، کاجل، کریم، تیل کی لگژریز کو برداشت کر سکیں۔ اگر آپ لوگوں کو یہ خوف ہے کہ آپ کی طبعِ نازک ہماری اس ویران صورت کو برداشت نہ کر سکے گی اور عین ممکن ہے کہ اسی صدمے سے ایک آدھ کا ہارٹ فیل ہوجائے تو بخوشی (یا بہ رنج) ہمارے سولہ نہ سہی آٹھ سنگھار کا انتظام کر دیجیے ہمیں قطعی اعتراض نہ ہوگا۔

    خیر صاحب صورت پر ڈالیے خاک، کہ یہ خاک سے بنی ہے اور خاک میں ملے گی۔ اور سیرت پر نظر ڈالیے کہ یہ نہ کسی سے بنی ہے نہ کسی میں ملے گی۔ مگر وائے تقدیر کہ یہ سیرت بھی سو روپے یعنی دس ہزار نئے پیسوں کی چمکتی دیوار میں، زندہ چنی جارہی ہے اور کسی مائی کے لال (افسوس کہ لالی یعنی بیٹی کو قابلِ التفات ہی نہیں سمجھا گیا۔) میں ہمت نہیں کہ اسے کھینچ کے نکال سکے۔

    ہاں وہ قصۂ حاتم طائی یوں ہے کہ حسبِ معمول چند ایسی لڑکیوں نے جن کے چہرے غریب و افلاس کی دھول سے اٹے رہتے ہیں۔ جن کی آنکھیں حسرت و مایوسی کے بوجھ سے جھکی رہتی ہیں۔ جو اپنے آپ کو اس درجہ مجرم سمجھتی ہیں کہ نہ کبھی ہنستی ہیں، نہ مسکراتی ہیں، نہ اچھلتی کودتی ہیں۔ بلکہ ہمیشہ جھکی جھکی رہتی ہیں اور ان کا بس چلے تو شاید زمین میں زندہ دفن ہو جائیں۔ تو ایسی ہی دو لڑکیوں نے داخلے کی فیس کے لیے روپے مانگے۔ کیونکہ انہوں نے سُن رکھا تھا کہ حاتم کی قبر پر لات مارنے والی (دھیرے سے ہی سہی) ہستی موجود ہے۔

    مہینے کے پندرہ دن گزر گئے۔ پکچر ہم نے دیکھی نہیں۔ کینٹین میں چائے پینی (اپنے پیسے سے) چھوڑ دی۔ لوگوں کے گھر آنا جانا بند کر دیا کہ بس اور ٹیکسی پر پیسے نہ اٹھیں۔ لیکن پیسے ہیں کہ جو اٹھتے ہیں تو بس اٹھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ بڑے اور چھوٹےغلام علی کی تانوں کی طرح اور اب تو تان اس نقطے پر پہنچ گئی ہے کہ چائے کی پتی رخصتی کی تیاری کر رہی ہے تو شکر الوداعی گیت گا رہی ہے۔ اور آٹا دال چاول تیل گھی وہ زور و شور سے کوچ کے نقارے بجا رہے ہیں کہ ہمارے ہوش و حواس تو خیر گم ہو ہی رہے ہیں مگر وہ سو کا نوٹ اسی ما ڈرن مجنوں کی طرح جان بچاتا پھر رہا ہے جس کے پیچھے لیلی بیگم کے ڈیڈی اپنی کشمیری چھڑی لیے پھررہے ہوں۔

    مگر جناب یہ جان اور آن کی فری اسٹائل کشتی ہے۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ جیت اسی کی ہوتی ہے جسے ریفری جتانا چاہے سو آپ کا یہ ریفری حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ’آن‘ کے حق میں ہے (کہ اس ترکیب سے ’جان‘ بھی محفوظ رہے گی) تو چاہے جان چلی جائے (ذرا دیر کے لیے فرض کر ہی لیجیے) مگر سو روپے خرچ نہ کیے جائیں گے۔ اور جان کو بچانا بھی ان سو روپوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے، اس لیے ہم پندرہ دن تک روز چائے ناشتہ اور کھانا باری باری سے دوستوں کے یہاں کھاتے رہیں گے۔ اور حالات سازگار ہوئے تو کپڑے بھی دوسروں ہی کے استعمال کیے جائیں گے۔ بلکہ کوشش تو یہ ہو گی کہ کسی طرح مکان کا کرایہ، بجلی کا بل وغیرہ بھی چندہ کر کے ادا کر دیا جائے کہ سو روپے جمع کرنے اور صاحبِ جائیداد کہلانے کا یہی وحدہٗ لا شریک نسخہ ہے۔

    (طنز و مزاح نگار اور بھارتی ادیب شفیقہ فرحت کی شگفتہ تحریر)

  • باتوں‌ کے بھوت!

    باتوں‌ کے بھوت!

    نجانے وہ لوگ کہاں بستے ہیں جن کے بارے میں احمد فراز نے کہا تھا:
    کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفت گو کرے
    جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے
    ہمیں تو اپنے ارد گرد وہ لوگ ہی نظر آتے ہیں جنھیں سخن سے دل کو لہو اور سماعت کو لہولہان کرنے کا شوق ہے۔

    ہمارے ہاں باتیں کرنا ایک باقاعدہ مشغلہ اور رواج ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو ”گپ شپ“ اور ”کچہری کرنے“ کی دعوت دیتے ہیں اور یہ ”دعوتِ گفت گو“ گھنٹوں پر محیط ہوتی ہے۔

    ہمارے ہاں بات چیت کا آغاز ہی نہایت بے تکے پن سے کیا جاتا ہے، لہٰذا دورانِ گفت گو دانائی اور معقولیت کی توقع رکھنا فضول ہے۔ بات چیت کی ابتدا عموماً دو بھلے چنگے اور ہنستے مسکراتے افراد اس سوال سے کرتے ہیں:

    ”اور بھئی ٹھیک ٹھاک۔“ یا ”خیریت سے ہو۔“

    اس کے بعد لایعنی سوالات اور بے معنی گفت گو کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔

    مغرب میں دو اجنبیوں میں گفت گو کی شروعات عموماً موسم کے تذکرے سے ہوتی ہے۔ مگر ہمارے یہاں جب دو ناآشنا ملتے ہیں تو خالصتاً ذاتی نوعیت کے سوالوں سے بات شروع کی جاتی ہے۔ مثلاً اپنے کاروبار کے مالک اور خاصے متموّل یا نو دولتیے، بھائی اچھّن اور ایک فیکٹری میں ملازمت کرنے والے شبّو میاں پہلی بار ایک شادی کی تقریب میں ملے ہیں، جہاں وہ دونوں محض اس لیے ایک دوسرے سے گویا ہونے پر مجبور ہوگئے کہ کوئی تیسرا انھیں لفٹ نہیں کرا رہا۔

    بھائی اچھّن (گاڑی کی چابی گھُماتے ہوئے): ”آپ کی کیا مصروفیات ہیں؟“
    شبّو میاں: ”مصروفیات تو بڑے لوگوں کی ہوتی ہیں۔ ہم جیسے لوگ تو نوکری ہی میں مصروف رہ کر زندگی گزار دیتے ہیں۔“
    بھائی اچھّن:”کہاں نوکری کرتے ہیں۔“
    شبّو میاں: ”ایک فیکٹری میں۔“
    بھائی اچھّن: ”فیکٹریوں میں تو تنخواہیں بہت کم ہیں۔ گزارہ ہوجاتا ہے؟“
    شبّو میاں: ”بڑی مشکل سے۔“
    بھائی اچھّن: ”تو اپنا کاروبار کیوں نہیں کرلیتے؟“
    اس سوال پر شبّو میاں کے چہرے کا رنگ متغیر ہوجاتا ہے اور کئی مغلظات ان کے گلے تک آکر بہ مشکل واپس جاتی ہیں۔ وہ بھائی اچھّن کے پاس سے اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بھائی اچھّن اس شکار کو اتنی آسانی سے چھوڑنے والے نہیں۔ وہ شبّو میاں کے سامنے مشوروں کا انبار لگا دیتے ہیں، جن میں مختلف کاروبار کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔

    میاں اچھّن کی طرح کے کردار ہمارے یہاں عام ”دست یاب “ ہیں۔ یہ خواتین و حضرات کی وہ قسم ہے جسے دوسروں کو مشورے دینے کا جنون ہوتا ہے۔

    یہ ہر وقت بیتاب رہتے ہیں کہ کسی طرح دوسروں کے مسائل جان لیں، تاکہ انھیں حل کرنے کے لیے کوئی نادرونایاب مشورہ دیا جاسکے، بلکہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگوں کو مسائل میں مبتلا دیکھیں اور ان مسائل کا حل تجویز کریں۔ اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے یہ لوگ دوسروں کے دل و دماغ، یہاں تک کہ کپڑوں میں جھانکنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

    اگر آپ کہیں ان کے سامنے کھانس دیے تو یہ ذراسی دیر میں آپ کے لیے لاتعداد حکیمی، ہومیوپیتھک اور ایلوپیتھک ادویات تجویز کردیں گے۔ ادھر آپ نے ان کے رُو بَرو اپنی مالی پریشانی کا تذکرہ کیا اور ادھر یہ کسی ماہرِ معاشیات کی طرح آپ کی معیشت سدھارنے کے فارمولے پیش کرنے لگے۔ ان خواتین و حضرات کے بارے میں ہم آج تک یہ طے نہیں کرسکے ہیں کہ یہ صرف باتوں کے لیے مشوروں کی پٹاری کھول دیتے ہیں یا مشورے دینے کے لیے گفت گو فرماتے ہیں۔

    (معروف صحافی، ادیب اور شاعر عثمان جامعی کے طنز و مزاح پر مبنی کالموں‌ کے مجموعے "کہے بغیر” سے اقتباس)

  • گدھوں کی خوبیاں

    گدھوں کی خوبیاں

    میں گدھوں کی خوبیاں نہیں گنواؤں گا، اگر آپ خود بال بچوں والے ہیں تو آپ کو یقینا یاد ہو گا کہ آپ اپنے بیٹے سے لاڈ کرتے ہوئے، اسے مخاطب کرتے ہوئے ہمیشہ کہا کرتے تھے:

    ”اوئے گدھے“ بلکہ جب بہت ہی پیار آتا تھا تو اسے گدھے کا بچہ بھی کہہ دیتے تھے۔

    یہ سوچنے کی بات ہے کہ آپ اپنے چھوٹے بچوں کو لاڈ پیار سے یہ کبھی نہیں کہتے کہ اوئے مگرمچھ یا اوئے گھوڑے کے بچے۔ صرف گدھے کے بچے کہتے ہیں تو اس سے گدھے کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

    ایک بار لاہور کے ڈیفنس میں مَیں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک گدھا گاڑی والا سنگِ مَرمَر کی ٹائلیں گاڑی پر لاد رہا ہے اور ان کا وزن اتنا ہے کہ پورے کا پورا گدھا ہوا میں معلق ہو چکا ہے اور بے بسی سے ٹانگیں چلا رہا ہے۔

    باقاعدہ گدھا بھی نہیں تھا، گدھے کا بچہ تھا۔ تو مجھے بہت ترس آیا اور میں نے اس کے مالک سے کہا کہ بھائی یہ بے زبان جانور ہے۔ ریڑھی پر اتنا وزن تو نہ لوڈ کرو کہ یہ بے چارہ ہوا میں معلق ہو کر ٹانگیں چلانے لگے تو وہ ہنس کر بولا۔

    ”صاحب آپ نہیں جانتے کہ یہ اس لمحے زندگی سے بہت لطف اندوز ہو رہا ہے بلکہ ہوا میں ریلیکس کر رہا ہے اور یوں ٹانگیں چلانے سے اس کی تھکن دور ہو رہی ہے۔“

    ٹائلیں لوڈ کرنے کے بعد گاڑی والے نے ہوا میں معلق گدھے کو کان سے پکڑ کر نیچے کیا، اس کے پاؤں زمین تک نہیں لایا اور اس سے پیشتر کہ وہ گاڑی کے بوجھ سے پھر بلند ہو جاتا، اُچک کر گاڑی کے اگلے حصے پر بیٹھ گیا اور یوں اس کے وزن سے گاڑی بیلنس میں آ گئی اور گدھا نہایت مزے سے کان ہلاتا سڑک پر رواں ہو گیا۔

    (طنز و مزاح، مستنصر حسین تارڑ کے قلم سے)