Tag: مزاح نگار

  • مجتبیٰ‌ حسین:‌ اردو کے معروف ادیب اور مزاح نگار

    مجتبیٰ‌ حسین:‌ اردو کے معروف ادیب اور مزاح نگار

    مجتبیٰ حسین اردو کے ممتاز ادیب اور مشہور مزاح نگار تھے۔ ان کی تحریریں شگفتہ ہی نہیں رمزیت اور برجستگی کا نمونہ ہیں۔ مجتبیٰ حسین نے انشائیے بھی لکھے جنھیں طنز و مزاح کی آمیزش کے سبب بہت پسند کیا گیا۔

    بھارت کے ممتاز ادیب اور مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا ادبی سفر چار دہائیوں‌ پر محیط ہے، وہ 27 مئی 2020ء کو انتقال کرگئے تھے۔ مجتبیٰ حسین 15 جولائی 1936ء کو گلبرگہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور 1956ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ نوجوانی سے ہی طنز و مزاح کی جانب مائل ہوگئے تھے اور حیدرآباد دکن کے روزنامہ سیاست سے وابستگی کے دوران انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ بعد ازاں محکمۂ اطلاعات میں ملازمت اختیار کرلی اور پھر دلّی میں مختلف محکموں میں ملازمت کے بعد 1992ء میں ریٹائر ہوگئے۔ ان کا قیام حیدرآباد دکن میں رہا۔

    مجتبیٰ حسین کے یہاں طنز کا پہلو کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کا موضوع نوعِ انسانی ہے۔ واقعہ نگاری اور مرقع کشی میں ان کا کمالِ فن عروج پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنے مشاہدے کی مدد سے مختلف واقعات کے مضحک پہلوؤں کو اپنی تحریروں میں نہایت خوب صورتی سے اجاگر کیا اور قارئین میں‌ ان کے مضامین اور انشائیے مقبول ہوئے۔ سماج کے مختلف طبقات اور شعبہ ہائے حیات سے متعلق افراد کے طرزِ زندگی، ان کے مسائل اور ان کے مخصوص رویوں، عادات پر ان کی تحریروں کو کتابی شکل میں بہت پذیرائی ملی۔

    سماج ہی نہیں‌ سیاست اور اس کے بطن سے پھوٹنے والے ہنگامے بھی ان کی نظر میں‌ رہے۔ مجتبیٰ حسین کی ایک تحریر سے یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔ ’’اگر آپ خالص فسادات دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہندوستان ہی جائیے۔ یہاں کے فسادات اتنے خالص ہوتے ہیں کہ ان میں کہیں بھی انسانیت کی ملاوٹ نہیں ہوتی۔ اس صفائی سے انسانوں کے سر کاٹے جاتے ہیں اور ان کے جسموں میں چھرے بھونک دیے جاتے ہیں کہ عقل حیران اور نظر دنگ رہ جاتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ فرقہ وارانہ فساد ہندوستان کا بڑا قدیم کھیل ہے۔‘‘

    بہرحال، بالآخر اور الغرض ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور انشائیوں کے مشہور مجموعے ہیں۔ انھوں نے سفر نامے بھی تحریر کیے اور کالم بھی لکھے جو بہت مقبول ہوئے، قصہ مختصر، آدمی نامہ، جاپان چلو جاپان چلو اور کئی کتابوں کے مصنّف مجتبیٰ حسین کو ان کی تخلیقی کاوشوں اور ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

  • معروف مزاح نگار کرنل محمد خان کا تذکرہ

    معروف مزاح نگار کرنل محمد خان کا تذکرہ

    اردو مزاح نگاری کی تاریخ میں کرنل محمد خان نے اپنی تخلیق کو جس طرح ظ‌رافت کے ساتھ افادی بنایا ہے، وہ بہت مزاح نگار کرسکے ہیں۔ ان کا فن محض وقت گزاری کا وسیلہ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ عمل ہے۔ وہ ادب برائے ادب کے بجائے ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔ آج کرنل محمد خان کی برسی ہے۔

    کرنل محمد خان کے اسلوب کی خصوصیات اس کی خیال آفرینی، فکر انگیزی اور لطافت و شگفتگی ہے جو مزاح نگاری میں ان کا امتیازی وصف بھی ہے۔ کرنل محمد خان کی ادبی شہرت کا سفر ان کی ایک تصنیف بجنگ آمد سے شروع ہوا جو قارئین میں بہت مقبول ہوئی۔ اردو زبان کے اس معروف مزاح نگار نے 23 اکتوبر 1999 کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    متحدہ ہندوستان کے ضلع چکوال کے چھوٹے سے علاقے بلکسر میں پیدا ہونے والے کرنل محمد خان کا سنہ پیدائش 1910 ہے۔ 1966 میں کی پہلی تصنیف بجنگ آمد کی اشاعت ہوئی تھی۔ اس کتاب کی مقبولیت کے بعد کرنل محمد خان نے اپنے قارئین کو مزید دو کتابیں بسلامت روی اور بزم آرائیاں پڑھنے کو دیں۔ کرنل محمد خان کی ایک کتاب تراجم پر مشتمل تھی جو بدیسی مزاح کے نام سے منظرِ‌عام پر آئی۔

    کرنل محمد خان تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانوی فوج سے وابستہ ہوگئے اور بجنگ آمد اسی زمانے کی وہ کتاب ہے جس میں انھوں نے مزاح کے پیرائے میں سوانح رقم کی اور یہ کتاب فوج میں اُن کی شمولیت اور مختلف واقعات کے علاوہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران پیدا ہونے والی صورتِ حال اور مصنّف کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا پُر لطف بیان ہے۔ یہ کتاب ان کے زورِ قلم کی عمدہ مثال ہے۔ اس کتاب میں کرنل محمد خان نے چھٹیوں‌ پر اپنے گاؤں لوٹنے پر اپنے استقبال اور اپنی والدہ سے بولے گئے ایک جھوٹ کو نہایت پُراثر انداز میں کچھ یوں‌ بیان کیا ہے۔

    ”خبر مشہور ہو گئی کہ کپتان آگیا ہے، محمد خان آگیا ہے۔ کتنا دبلا پتلا تھا، اب دیکھو کیسا جوان نکلا ہے، صاحب بن گیا ہے، “سرگٹ” بھی پیتا ہے، مسکوٹ میں کھانا کھاتا ہے، نوکری پہرہ بھی معاف ہے۔

    گاؤں کے چھوٹے بڑے کام چھوڑ کر ملاقات کو آنے لگے۔ ہم نے پہلے دو دن میں کوئی ایک ہزار معانقے کیے ہوں گے اور بس اتنی ہی ہمارے گاؤں کی مردانہ آبادی تھی۔ چھاتی دکھنے لگی، لیکن دل کو ایک عجیب سکھ حاصل ہوا۔ مہینے بھر میں صرف چند روز اپنے گھر کھانا کھایا اور وہ بھی والدہ کے اصرار پر کہ مجھے اپنے بیٹے کو جی بھر کر دیکھ لینے دو اور بہت دیر دیکھ چکیں تو وہ کچھ کہا جو صرف ماں ہی کہہ سکتی ہے۔

    “بیٹا اب ساری فوج میں تم ہی بڑے افسر ہو نا؟”

    میں والدہ کو دیکھتا اور سوچتا کہ اگر اس پیکرِ محبت کا وجود نہ ہوتا تو کیا مجھے وطن واپسی کا یہی اشتیاق ہوتا؟ بغیر کسی جھجک کے جواب دیا۔

    “جی ہاں ایک آدھ کو چھوڑ کر سب میرے ماتحت ہیں۔” اور ماں کی دنیا آباد ہو گئی۔

    ویسے سچ یہ تھا کہ ایک آدھ نہیں بلکہ ایک لاکھ چھوڑ کر بھی ہمیں اپنے ماتحت ڈھونڈنے کے لیے چراغ بلکہ سرچ لائٹ کی ضرورت تھی، لیکن وہ سچ کس کام کا جس سے ماں کا دل دکھے؟“

    کرنل محمد خان قیامِ پاکستان کے بعد پاک فوج سے منسلک رہے، وہ شعبۂ تعلیم میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے اور اسی عہدے سے ریٹائر‌ ہوئے۔

    بطور مزاح نگار کرنل محمد خان نے طنز سے معاشرتی ناہمواریوں کو نشانہ بنایا ہے، مگر ان کا وصف یہ ہے کہ وہ زندگی کو بالعموم خندہ پیشانی سے دیکھتے ہیں اور ناہمواریوں کو بھی خوش مزاجی سے قبول کرتے ہیں۔ کرنل محمد خان نے سفر نامے بھی لکھے اور اس میں بھی وہ اشیا اور مظاہر کو شوخ و شنگ نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے سفر کی روداد کو انشائی لطافت سے پیش کرتے ہیں۔

  • ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی برسی

    ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی برسی

    یہ بیسویں صدی کی ساتویں دہائی سے اردو زبان کے طنزیہ اور مزاحیہ ادب میں جو نام مقبول ہوئے، مشتاق احمد یوسفی ان میں سے ایک تھے۔ انھیں اردو زبان کا سب سے بڑا اور نہایت مقبول ادیب کہا گیا اور عہد ساز مزاح نگار تسلیم کیا گیا۔ آج مشتاق احمد یوسفی کی برسی منائی جا رہی ہے۔

    مشتاق یوسفی کے دستاویزات کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش چار اگست سنہ 1923 ہے۔ وہ انڈیا کی ریاست راجھستان کے شہر ٹونک میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ آگرہ یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی تعلیم مکمل کرنے والے یوسفی صاحب نے ملازمت کے لیے شعبۂ مالیات کا انتخاب کیا اور بینکار کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے ریٹائر ہوئے۔

    مشتاق احمد یوسفی کئی کتابوں کے مصنّف ہیں جن میں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت، آبِ گم بہت مقبول ہیں جب کہ وفات سے قبل ان کی آخری کتاب شام شعرِ یاراں کے نام سے شایع ہوئی تھی۔ ان کی کوئی تصنیف ربع صدی بعد سامنے آئی تھی اور یوسفی صاحب کے مداحوں کا یہ طویل انتظار مایوسی پر تمام ہوا۔ اس عرصہ میں اگرچہ یوسفی صاحب کو جو پذیرائی اور قارئین میں مقبولیت نصیب ہوئی وہ بہت کم لوگوں کے حصّے میں آتی ہے اور اسی کے زیرِ‌اثر ان سے توقعات بہت تھیں۔ مداحوں کو یوسفی صاحب کے طنز و مزاح، ان کی زبان اور تحریر کا چکسا لگ چکا تھا چنانچہ وہ نئی تصنیف کا بڑی بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ یہ سب ان کی پچھلی کتابوں‌ کے گدگداتے جملے اور منفرد لب و لہجہ میں‌ طنز و مزاح کی وجہ سے تھا، مگر نئی کتاب محض تقریروں کا مجموعہ تھی جس میں انہی کے مضامین کے ڈھیروں اقتباس موجود تھے۔ لیکن وہ ایک عظیم مزاح نگار تھے اور کہا جاتا ہے کہ یہ مزاح کا عہدِ یوسفی ہے۔

    مشتاق احمد یوسفی پی سی ایس کا امتحان پاس کر کے 1950ء تک ہندوستان میں ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز رہے تھے۔ لیکن پھر ان کا خاندان پاکستان ہجرت کر گیا اور یہاں یوسفی صاحب نے بینک کی ملازمت کو ذریعۂ معاش بنایا۔

    مشتاق احمد یوسفی کا ادبی سفر 1955 میں اس وقت شروع ہوا جب ان کی ایک تحریر صنفِ لاغر” کے نام سے لاہور سے شایع ہونے والے رسالے’’سویرا‘‘ کی زینت بنی۔ بعد میں مختلف رسائل میں ان کے مضامین کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 1961 میں مختلف انشائیوں اور مضامین کو بہم کر کے ان کا پہلا مجموعہ ’’چراغ تلے‘‘ کے نام سے قارئین تک پہنچا۔ ان کے کل پانچ مجموعہ ہائے مضامین شائع ہوئے جن میں ’’چراغ تلے‘‘ کے بعد ’’خاکم بدہن‘‘ 1970 میں، ’’زرگزشت‘‘اگلے سال، ’’آبِ گُم‘‘1989 اور آخری کتاب ’’شامِ شعرِ یاراں‘‘شامل ہے۔

    مشتاق احمد یوسفی نے انشائیے، خاکے، آپ بیتی اور پیروڈیاں لکھی ہیں‌ جن میں زبان کی چاشنی کے ساتھ وہ پُرلطف طنز و مزاح پڑھنے کو ملتا ہے کہ ادب کا ہر قاری مشتاق احمد یوسفی کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی کی تخلیقات میں ان کی زندگی کے مختلف ادوار کا دل چسپ بیان اور شخصیات کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو ان کے قریب رہے۔

    اردو کے اس ممتاز مزاح نگار کی تحریروں پر نظر ڈالیں‌ تو ظرافت نگاری کے ساتھ انھوں‌ نے سیاست اور سماج میں پیدا ہونے والی کج روی، کم زوریوں اور عیوب پر چوٹ کی ہے۔ لیکن ان کا انداز ہمدردانہ ہے اور اس سے مقصود اصلاح ہے جب کہ یہ تحریریں ان سچائیوں کو بھی اجاگر کرتی ہیں‌ جن سے ہمارا معاشرہ براہِ راست متأثر ہورہا ہے۔ یوسفی صاحب نے اپنی تخلیقی صلاحیت سے کام لے کر کئی رنگا رنگ موضوعات کو اپنے دلکش اور شوخ انداز میں اس طرح بیان کیا کہ قارئین آج بھی ان کے طرزِ‌ تحریر کے سحر میں گرفتار ہیں۔

    یوسفی صاحب 20 جون 2018ء کو انتقال کرگئے تھے۔

  • اس واردات کو ’تالا توڑنے‘ کا نام نہیں دیا جاسکتا!

    اس واردات کو ’تالا توڑنے‘ کا نام نہیں دیا جاسکتا!

    قرض کی مے تو نہیں البتہ چائے ضرور پیتے تھے (کیوں کہ غالب سے ازلی اور ابدی رشتہ ہے!) اور جانتے تھےکہ ایک دن یہ فاقہ مستی، جس میں سے اب مستی بھی غائب ہوتی جا رہی ہے، ضرور رنگ لائے گی۔

    تو صاحب وہ رنگ لائی اور ایسا چوکھا کہ ہماری عینک زدہ آنکھیں بھی چکا چوند ہوگئیں۔ واقعہ کسی سال کے کسی مہینے کی کسی تاریخ کا ہے کہ ہماری ایک دوست نے شیطانِ اعظم کا رول ادا کیا۔ یعنی ہمیں ورغلا کر اپنے گھر لے گئیں۔ ابھی تصوراتی اطمینان کا روایتی سانس بھی نہیں لیا تھا کہ اطلاع ملی ہمارے کبوتر خانےکا، جسےعرف خاص میں دولت خانہ (اگرچہ دولت سرے سے مفقود ہے) کہا جاتا ہے، تالا توڑ دیا گیا ہے۔

    گھر پہنچتے پہنچتے پوری ایک قوم تعزیت کرنے اور پس ماندگان کو صبرکی تلقین کرنے جمع ہوگئی۔ ان سب کو ہم نے اطمینان دلایا کہ اوّل تو ہمارا تالا ازل ہی سے ٹوٹا ہوا تھا۔ یہ ہمارے ہاتھ کی صفائی تھی جس سےاس کا بھرم قائم تھا۔ یعنی اسے ہم اس فن کارانہ خوبی سے چپکا دیتے تھےکہ وہ بند معلوم ہونے لگتا تھا، اس لیے اس واردات کو ’تالا توڑنے‘ کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اور دوسرے یہ کہ دن کو اس طرح لٹنےسے رات کو چوری کا خدشہ نہ رہا۔

    اور پھر گھر کی یہ حالت کہ جب جب کوئی آتا ہمیں نہایت ہی فلسفیانہ اور راہبانہ انداز میں پوز بنا کر کہنا پڑتا، ’’آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا۔‘‘

    لے دے کے جوتے کے پرانے ڈبے سے مشابہ ایک ریڈیو تھا جس میں ہر وہ اسٹیشن لگ جاتا جسے آپ نہ لگانا چاہتے ہوں۔ اور جس میں بیک وقت آدھے پون درجن اسٹیشن سنے جاسکتے تھے۔ ریڈیو سیلون کے بیوپار وبھاگ سے فلم ’پریم کی بلبل‘ کی کہانی، آکاش وانی کے پنچ رنگی پروگرام وودھ بھارتی سے فلمی گانے، ریڈیو پاکستان سےعربی فارسی میں خبریں، بمبئی سے ڈرامہ، مدراس سے تامل میں آ۔ آ اور جالندھر سے بلے بلے۔ اور جب یہ نقطۂ عروج پر ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا کسی میدانِ جنگ سے بمباری کا آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا حال سنایا جا رہا ہو۔ اور ایک گھڑی تھی جو ممکن ہے کسی زمانے میں گھڑی رہی ہو۔ لیکن اب اس میں اس قسم کے کوئی جراثیم نہیں پائے جاتے تھے۔

    تو صاحب جب منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی زبوں حالی کا یہ عالم ہو تو چوری کا کیا غم! غم تھا تو صرف اس بات کا کہ غریب نے گھر کی ایک ایک چیز الٹنے پلٹنے میں کتنی محنت کی اور اسے واپسی کے لیے بس کا کرایہ تک نہ مل سکا۔ بھلا وہ اپنے دل میں کیا سوچتا ہوگا۔ اس سے زیادہ بےعزتی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ کہیں کل کلاں کو وہ الٹا ہمیں ہی منی آرڈر نہ بھیج دے! یا اکھل بھارتیہ چور سبھا بنا کر ہم جیسے لوگوں کی فلاح و بہبود کے ذرائع نہ سوچنے لگے۔

    خیر جو ہوا سو ہوا۔ مگر اب ایسے آڑے وقتوں کے لیے کہ جب گھر کی عزت پر بن جائے ہمیں کچھ نہ کچھ بچائے رکھنا چاہیے۔ ہماری آمدنی اور خرچ کا حساب کچھ ایسا ترقی پسندانہ تھا کہ ہزار اکاؤنٹنٹ رکھے جانےاور سیکڑوں کمیشن بٹھائے جاتے تب بھی ان کی ایک دوسرے سے دوستی نہ ہوتی۔ اس لیے حساب کتاب کرنا یا بجٹ بنانا ایسا ہی تھا جیسے یو۔ این۔ او میں کشمیر کا مسئلہ اٹھانا۔ اس جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے ہم نے اپنے ویٹو پاور سے کام لیتے ہوئے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، نہ آگا نہ پیچھا، جھٹ سو روپے اٹھا کے ایسی جگہ رکھوا دیے جہاں وہ ہمارے لیے بھی اجنبی بن گئے۔

    چار، پانچ روز بخیر و خوبی گزر گئے اور ہمیں اپنے سو روپوں کی جدائی کا قطعی احساس نہ ہوا۔ بلکہ ہم خاصا فخر محسوس کررہے تھے کہ ہم بھی صاحبِ جائیداد ہوگئے۔ گردن میں ایک خاص تناؤ اور چال میں رعونت پیدا ہو گئی۔ اور راوی تو یہاں تک کہتا ہے کہ لب و لہجہ میں بھی انقلاب آگیا۔ ہم جو پہلے ہر وقت اپنے جیسے پھکڑ لوگوں کے ساتھ گپیں ہانکا کرتے تھے اور وہ قہقہے لگاتے تھے جو گزوں اور میلوں تک سنے جا سکتے تھے۔ اب صرف زیرِ لب تبسم (کہ جس میں تبسم کم اور متانت زیادہ ہوتی ہے) سے کام چلایا کرتے۔ اور اس پھکڑ قوم کے ساتھ بیٹھنا اور گپیں ہانکنا تو اب عہدِ پارینہ کی داستان بن چکا تھا۔ گو اس تبدیلی کا ہم پر یہ اثر ہوا کہ کئی دنوں تک گردن، زبان، جبڑے، ہونٹ اور پیٹ میں شدت کا درد ہوتا رہا۔ طبیعت گری گری رہی۔ کسی کام میں دل نہ لگتا تھا، کیا کرتے مجبور تھے کہ صاحبِ جائیداد طبقے کا شیوہ یہی ہے۔

    چھٹے روز ناگہانی طور پر بازار سے گزر ہوا۔ ایک حسین ساڑھی دکان میں لہرارہی تھی۔ ہم نے پہلے اسے دیکھا پھر اپنی ڈھائی جگہ سے سلی ساڑھی کو۔ اور ایک عاشقانہ سی آہ بھر کے آگے بڑھ گئے۔ کیوں کہ سو روپے بچانے کے لیے لازمی تھا کہ ہم ڈھائی نہیں بلکہ سوا تین اور ساڑھے چار جگہ سے پھٹی ساڑھی پہنے گھومیں۔

    دو قدم چلنے کے بعد سال بھر پرانی چپل بھی ٹاٹا۔ بائی، بائی کہنے لگی۔ پھر دل پر سو کا نوٹ کہ جو پتھر سے بھی بھاری تھا رکھا اور چپل میں پن اٹکا لی۔

    رفتہ رفتہ ہم بکھرے سوکھے بال، سونی آنکھیں، پھیکے ہونٹ اور روکھا ویران چہرہ لیے کالج پہنچنے لگے۔ عوام اور خواص نے سوچا کہ شاید ہمارے کسی عزیز کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس لیے ہم اتنے سوگوار ہیں۔ یا شاید ہم نے پھر ایک نیا عشق شروع کر دیا ہے اور جو شد و مد کے لحاظ سے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دے گا۔ اس لیے ایک طرف تو تعزیتی جلسے کا انتظام ہونے لگا تو دوسری طرف بڑے رازدارانہ انداز میں مشورے دیے جانے لگے۔ اور تب ہم نےاعلان کیا کہ اس سوگواری میں نہ کسی موت کا ہاتھ ہے نہ رومان کا۔ سب مایا کا جال اور ہماری چال ہے۔ یعنی ہم نے مبلغ سو روپے بچائے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ہم اس قابل نہیں رہے کہ لپ اسٹک، پوڈر، کاجل، کریم، تیل کی لگژریز کو برداشت کر سکیں۔ اگر آپ لوگوں کو یہ خوف ہے کہ آپ کی طبعِ نازک ہماری اس ویران صورت کو برداشت نہ کر سکے گی اور عین ممکن ہے کہ اسی صدمے سے ایک آدھ کا ہارٹ فیل ہوجائے تو بخوشی (یا بہ رنج) ہمارے سولہ نہ سہی آٹھ سنگھار کا انتظام کر دیجیے ہمیں قطعی اعتراض نہ ہوگا۔

    خیر صاحب صورت پر ڈالیے خاک، کہ یہ خاک سے بنی ہے اور خاک میں ملے گی۔ اور سیرت پر نظر ڈالیے کہ یہ نہ کسی سے بنی ہے نہ کسی میں ملے گی۔ مگر وائے تقدیر کہ یہ سیرت بھی سو روپے یعنی دس ہزار نئے پیسوں کی چمکتی دیوار میں، زندہ چنی جارہی ہے اور کسی مائی کے لال (افسوس کہ لالی یعنی بیٹی کو قابلِ التفات ہی نہیں سمجھا گیا۔) میں ہمت نہیں کہ اسے کھینچ کے نکال سکے۔

    ہاں وہ قصۂ حاتم طائی یوں ہے کہ حسبِ معمول چند ایسی لڑکیوں نے جن کے چہرے غریب و افلاس کی دھول سے اٹے رہتے ہیں۔ جن کی آنکھیں حسرت و مایوسی کے بوجھ سے جھکی رہتی ہیں۔ جو اپنے آپ کو اس درجہ مجرم سمجھتی ہیں کہ نہ کبھی ہنستی ہیں، نہ مسکراتی ہیں، نہ اچھلتی کودتی ہیں۔ بلکہ ہمیشہ جھکی جھکی رہتی ہیں اور ان کا بس چلے تو شاید زمین میں زندہ دفن ہو جائیں۔ تو ایسی ہی دو لڑکیوں نے داخلے کی فیس کے لیے روپے مانگے۔ کیونکہ انہوں نے سُن رکھا تھا کہ حاتم کی قبر پر لات مارنے والی (دھیرے سے ہی سہی) ہستی موجود ہے۔

    مہینے کے پندرہ دن گزر گئے۔ پکچر ہم نے دیکھی نہیں۔ کینٹین میں چائے پینی (اپنے پیسے سے) چھوڑ دی۔ لوگوں کے گھر آنا جانا بند کر دیا کہ بس اور ٹیکسی پر پیسے نہ اٹھیں۔ لیکن پیسے ہیں کہ جو اٹھتے ہیں تو بس اٹھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ بڑے اور چھوٹےغلام علی کی تانوں کی طرح اور اب تو تان اس نقطے پر پہنچ گئی ہے کہ چائے کی پتی رخصتی کی تیاری کر رہی ہے تو شکر الوداعی گیت گا رہی ہے۔ اور آٹا دال چاول تیل گھی وہ زور و شور سے کوچ کے نقارے بجا رہے ہیں کہ ہمارے ہوش و حواس تو خیر گم ہو ہی رہے ہیں مگر وہ سو کا نوٹ اسی ما ڈرن مجنوں کی طرح جان بچاتا پھر رہا ہے جس کے پیچھے لیلی بیگم کے ڈیڈی اپنی کشمیری چھڑی لیے پھررہے ہوں۔

    مگر جناب یہ جان اور آن کی فری اسٹائل کشتی ہے۔ اور آپ جانتے ہی ہیں کہ جیت اسی کی ہوتی ہے جسے ریفری جتانا چاہے سو آپ کا یہ ریفری حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ’آن‘ کے حق میں ہے (کہ اس ترکیب سے ’جان‘ بھی محفوظ رہے گی) تو چاہے جان چلی جائے (ذرا دیر کے لیے فرض کر ہی لیجیے) مگر سو روپے خرچ نہ کیے جائیں گے۔ اور جان کو بچانا بھی ان سو روپوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے، اس لیے ہم پندرہ دن تک روز چائے ناشتہ اور کھانا باری باری سے دوستوں کے یہاں کھاتے رہیں گے۔ اور حالات سازگار ہوئے تو کپڑے بھی دوسروں ہی کے استعمال کیے جائیں گے۔ بلکہ کوشش تو یہ ہو گی کہ کسی طرح مکان کا کرایہ، بجلی کا بل وغیرہ بھی چندہ کر کے ادا کر دیا جائے کہ سو روپے جمع کرنے اور صاحبِ جائیداد کہلانے کا یہی وحدہٗ لا شریک نسخہ ہے۔

    (طنز و مزاح نگار اور بھارتی ادیب شفیقہ فرحت کی شگفتہ تحریر)

  • ایک عجیب و غریب ٹیلیفونک بات چیت

    کل رات کے پچھلے پہر فون کی گھنٹی بجی اور میں نے ریسیور اٹھایا تو ایک عجیب و غریب ٹیلی فونی کال سے میرا واسطہ پڑا۔

    مخاطب نے میرا نام لے کر کہا، ’’بتاؤ کیسے ہو۔ کس حال میں ہو؟‘‘ اپنا حال اسے بتانے سے پہلے عادت کے مطابق میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ دیکھیں دوسری طرف کون بول رہا ہے تاکہ میں اسی کے مطابق اپنا حال بتا سکوں۔ جس طرح کا شناسا ہو، اسے میں اسی طرح کا حال بتایا کرتا ہوں کیونکہ ہر رشتہ کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی یونہی رسماً میرا حال پوچھ لے اور میں اسے اپنا اصلی اور کھرا کھرا حال سنانے بیٹھ جاؤں۔ بعض لوگ بس یونہی مروتاً کسی کا حال پوچھ لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو آپ اپنا سچّا حال بتا بھی دیں تو آپ کا حال بہتر نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔

    میں نے جب اس کا نام پوچھا تو آواز آئی ’’میں عبد اللطیف بول رہا ہوں، پرانی دہلی کے چتلی قبر والے علاقہ کا تمہارا پرانا دوست‘‘ عبد اللطیف کا نام سنتے ہی میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ اس دنیا میں میرا ایک ہی دوست عبد اللطیف تھا اور جس عبد اللطیف سے میری بات ہو رہی تھی اسے اس دنیا سے گزرے ہوئے چھ مہینے بیت چکے ہیں۔

    عبد اللطیف سے میری پچیس برس پرانی دوستی تھی، وہ خود تو ادیب، شاعر یا فن کار نہیں تھا لیکن اسے ادیبوں اور شاعروں کی محبت میں رہنے کا شوق تھا۔ پرانی دہلی میں اس کی کپڑے کی دکان تھی اور جس طرح وہ اپنے دوستوں کی خاطر تواضع کرتا تھا اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس کا کاروبار اچھا چلتا ہے۔ جب بھی میرے گھر آتا تو خالی ہاتھ نہیں آتا تھا، کچھ نہ کچھ ضرور لے آتا تھا۔ کوئی بقر عید ایسی نہیں گزری جب میں دہلی میں موجود ہوں اور وہ قربانی کے بکرے کی سالم ران لے کر میرے پاس نہ آیا ہو۔ اس کی یہ محبت یک طرفہ تھی۔ میرے ہر دوست نے کسی نہ کسی مرحلہ پر اپنا کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا کام مجھ سے ضرور کروایا لیکن عبد اللطیف نے کبھی کسی کام کے لیے نہیں کہا۔ جن دنوں میں پابندی سے کافی ہاؤس جایا کرتا تھا عبد اللطیف بڑی پابندی سے کافی ہاؤس کے سامنے رسالوں اور اخبارات کے ایک اسٹال پر میرا انتظار کرتا تھا اور جب تک میں وہاں نہ پہنچوں وہ رسالوں کے مطالعہ میں مصروف رہتا تھا۔ اس بہانے نیوز پیپر اسٹال والے سے بھی اس کی دوستی ہو گئی تھی اور وہ اس کے بیٹھنے کے لیے ایک اسٹول فراہم کر دیتا تھا تاکہ وہ اطمینان سے اخباروں اور رسالوں کا مطالعہ کر سکے۔ میرے وہاں پہنچنے کے بعد ہی وہ میرے ساتھ کافی ہاؤس میں داخل ہوتا تھا اور میرے ساتھ ہی باہر بھی نکلتا تھا۔ محفل میں وہ ہمیشہ خاموش رہتا تھا البتہ میرے اور میرے دوستوں کے درمیان جو نوک جھونک چلا کرتی تھی اس سے بے حد لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ یوں میں اس کی محبت کا عادی ہوتا چلا گیا۔ جب میں نے کافی ہاؤس آنا جانا کم کر دیا تو وہ فون کر کے میرے پاس آنے لگا۔ روز تو خیر نہیں آتا تھا لیکن ہفتہ میں ایک مرتبہ کسی نہ کسی طرح میرے پاس آ جاتا تھا۔

    چھے مہینے پہلے جب اس کا انتقال ہوا تو صبح صبح اُس کے بیٹے نے مجھے فون کر کے یہ اندوہناک اطلاع دی کہ ’’ابوّ کا کل رات اچانک انتقال ہو گیا، آج وہ غالباً آپ سے ملنے والے تھے، مرنے سے پہلے شدید کرب کے عالم میں بھی انہوں نے مجھے یہ ہدایت دی تھی کہ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو آپ کو فوراً اس کی اطلاع دے دی جائے چنانچہ آج دوپہر میں بعد نماز ظہر آئی ٹی او کے قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئے گی۔‘‘ اس خبر کو سن کر مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا۔

    عبد اللطیف جیسے خاموش، مخلص اور بے لوث محبت کرنے والے دوست کا اس دنیا سے گزر جانا میرے لیے نہایت تکلیف دہ سانحہ تھا۔ میری دنیا یوں بھی ان دنوں سکڑتی چلی جا رہی ہے۔ جب بھی کوئی پرانا دوست اس دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے میری سماجی زندگی کا ایک ستون گر گیا ہے۔ میرے سماجی رشتوں کے ایوان کی موجودہ حالت کم و بیش ویسی ہی ہو گئی ہے جیسے امریکی بم باری کے بعد بغداد شہر کی ہو گئی ہے۔ ہر عمارت نہ صرف تباہ و تاراج ہو چکی ہے بلکہ اس کے اندر جو سامان تھا وہ بھی لٹ چکا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دوستوں کی رحلت کو برداشت کرنے کی عادت مجھ میں پیدا ہوتی جا رہی ہے کیونکہ مشکلیں جب زیادہ پڑتی ہیں تو خود بخود آسان ہو جاتی ہیں۔ تاہم عبد اللطیف کی موت کی خبر سن کر میں بڑی دیر تک چپ چاپ بیٹھا رہا تاکہ میں اپنے اندر اس سانحہ کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا کر سکوں۔ ہمت تو خیر پیدا نہیں ہوئی، البتہ بے بسی اور بے حسی کی ایک ایسی کیفیت ضرور پیدا ہوئی جسے لوگ غلط فہمی یا نا سمجھی میں ہمت کا نام دے ڈالتے ہیں۔

    کچھ دیر بعد میں نے گھڑی دیکھی تو دس بج رہے تھے۔ اتفاق سے اس دن مجھے صبح میں دو چار ضروری کام کرنے تھے۔ میں نے سوچا کہ کچھ کاموں کو ملتوی کر دوں اور جو بھی ضروری کام کروں انہیں کچھ اس طرح انجام دوں کہ ظہر کی نماز کے بعد عبد اللطیف کی آخری رسومات میں ضرور شرکت کر سکوں۔ میں نہانے کے لیے باتھ روم میں گیا تو معلوم ہوا کہ پانی نہیں آ رہا ہے۔ ایک رات پہلے شمالی ہندوستان میں بجلی کے گریڈ کے نظام میں خرابی پیدا ہو جانے کے بعد کئی گھنٹوں تک بجلی بند رہی تھی جس کی وجہ سے پانی کی سپلائی میں بھی خلل واقع ہو گیا تھا۔ میں نہانے اور داڑھی وغیرہ بنانے کے معاملہ میں زیادہ دیر نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ عبد اللطیف کی آخری رسومات میں ٹھیک وقت پر شرکت کرنا ضروری تھا۔ میں نے بحالتِ مجبوری منرل واٹر کے بیس بیس لیٹر والے دو کنستر ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور سے منگوائے۔ یہ اور بات ہے کنستروں کے آنے میں بھی آدھے گھنٹے کا وقت ضائع ہو گیا کیونکہ معلوم ہوا کہ ڈپارٹمنٹل اسٹور پر ان کنستروں کو حاصل کرنے والوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔

    غرض نہا کر غسل خانے سے نکلنے اور تیار ہو کر گھر سے باہر آنے تک بارہ بج چکے تھے۔

    دھوبی نے بھی کپڑوں پر استری کرنے میں کچھ دیر لگا دی تھی۔ مجھے سب سے پہلے بجلی کا بل جمع کرنا تھا اور اندیشہ تھا کہ اگر اس دن بل جمع نہ ہوا تو وہ بجلی جو پہلے ہی سے بند ہے، وہ بھی کٹ جائے گی۔ باہر نکلا تو پتہ چلا کہ آٹو رکشا والوں نے ہڑتال کر رکھی ہے۔ چار و ناچار ایک سائیکل رکشا پر سوار ہو کر بجلی کے دفتر تک گیا۔ وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ بجلی کی خرابی کی وجہ سے کمپیوٹر سسٹم خراب ہو گیا ہے۔ جب تک کمپیوٹر ٹھیک نہیں ہو گا تب تک بل جمع نہیں ہو سکتا۔ مجبوراً ایک گھنٹہ تک لائن میں کھڑا رہا۔ مجھے رہ رہ کر عبد اللطیف کا خیال آتا رہا کہ اس کے گھر میں کہرام مچا ہو گا اور یہ کہ اب اس کی میّت کو غسل دیا جا رہا ہو گا اور کیا عجب کہ اس مقصد کے لیے بھی منرل واٹر کے کنستر منگوائے گئے ہوں۔ لعنت ہے اس شہر پر جہاں میّت کو غسل دینے کے لیے بھی منرل واٹر کا سہارا لینا پڑ جائے۔ خیر بجلی کا بل جمع کر کے باہر نکلنے تک ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا۔ میں نہایت عجلت میں ایک ہڑتالی آٹو رکشا ڈرائیور کے آگے ہاتھ جوڑے، اسے اپنے ایک عزیز ترین دوست کے مرنے کا حوالہ دیا۔ بالآخر اس کی سوئی ہوئی انسانیت جاگ اٹھی اور وہ دگنے کرایہ پر مجھے لے چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ ہڑتالی آٹو رکشا ڈرائیوروں کی نظریں بچا کر پہلے تو وہ گلیوں میں چلتا رہا۔ پھر سڑک پر آیا تو ہڑتالیوں نے اس کے پہیوں کی ہوا نکال دی، مرتا کیا نہ کرتا، میں نے منت سماجت کر کے قبرستان کے طرف جانے والے ایک موٹر نشین کو روکا اور اس سے لفٹ لے لی۔ آخرکار جب میں قبرستان میں پہنچا تو اس وقت تک عبداللطیف کی میّت نہ صرف قبر میں اتاری جا چکی تھی بلکہ اس پر مٹی کی آخری تہ جمائی جا رہی تھی۔ مجھے بے حد دکھ ہوا کہ میں اپنے ایک بے لوث دوست کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔

    مگر کل رات جب عبد اللطیف مرحوم کا فون میرے پاس آیا تو میری ندامت اور شرمندگی کا پارہ ساتویں آسمان پر چڑھ گیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ’’عبد اللطیف! میں تم سے بے حد شرمندہ ہوں کہ میں تمہاری آخری رسومات میں شرکت کے لیے اس وقت پہنچا جب تمہاری قبر مٹی سے پاٹ دی گئی تھی اور میں تمہارا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ اس بات کا بڑا قلق ہے کہ میں اپنے ایک عزیز ترین دوست کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ تمہارے جانے سے میری زندگی میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہ ہو گا تم جیسا مخلص دوست اب کہاں ملے گا۔ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔ مشیت ایزدی کو یہی منظور تھا۔ تم بھی صبر کرو اور میں بھی صبر کرتا ہوں۔ ان اللہ مع الصابرین‘‘۔

    میری بات کو سن کر عبد اللطیف نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا ’’یار! تم جو بھی بات کرتے ہو نرالی کرتے ہوئے، مرنے والے کا پُرسہ عموماً اس کے لواحقین کو دیا جاتا ہے اور ان سے صبر کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ غالباً تم پہلے آدمی ہو جو مرنے والے کو بالمشافہ پُرسہ دے رہے ہو۔ میں نے بھی زندگی میں بہت سے پُرسے دیے ہیں۔ کیا میں نہیں جانتا کہ پُرسہ دینے والے کے دل میں کیا بات ہوتی ہے اور اس کی زبان پر کیا ہوتا ہے۔ مجھے اس بات کا بالکل دکھ نہیں ہے کہ تم میری آخری رسومات میں بروقت نہیں پہنچے۔ میں تو ہمیشہ سے ہی کہتا رہا ہوں کہ دہلی بڑی کُتّی چیز ہے۔ یہاں آدمی نہ تو چین سے زندہ رہ سکتا ہے اور نہ اپنے مرنے کے لیے کسی موزوں وقت کا انتخاب کر سکتا ہے۔ وہ تو میرا ہی قصور تھا کہ میں نے مرنے کے لیے ایسے دن کا انتخاب کیا، جب دہلی میں بارہ گھنٹوں سے بجلی غائب تھی اور اوپر سے آٹو رکشا والوں نے بھی ہڑتال کر رکھی تھی۔ اس کے باوجود تمہارا میری آخری رسومات میں آنا ایسا ہی ہے جیسے پہاڑ کو کاٹ کر دودھ کی نہر لانا۔ بھئی ’لانگ ڈسٹنس کال‘ میں بہت سی باتیں نہیں کہی جا سکتیں۔ میں پھر کبھی فون کروں گا‘‘۔ میں نے کہا ’’یہ تو بتاؤ کہ دوسری دنیا میں تمہارا کیا حال ہے؟ جنت میں داخل ہو گئے ہو یا جنت کے دروازے پر بیٹھے میرے آنے کا انتظار کر رہے ہو جس طرح کافی ہاؤس کے باہر تم میرے آنے کا انتظار کیا کرتے تھے تاکہ میں آ جاؤں تو میرے ساتھ کافی ہاؤس میں داخل ہو سکو۔ اور ہاں یہ تو بتاؤ کہ کیا دوسری دنیا میں بھی موبائل فون رکھنے کی سہولت ہے۔‘‘ عبد اللطیف نے پھر قہقہہ لگا کر کہا ’ بھیا! یہاں تو روحانی فون کی سہولت موجود ہے۔ میں تم سے بات بھی صرف اس لیے کر رہا ہوں کہ تمہارا فون کل سے ڈیڈ ہے، اگر تمہارا فون اچھا رہتا تو شاید میں تم سے بات نہ کر پاتا۔‘‘

    عبد اللطیف کے اس انکشاف کو سنتے ہی میری نیند اچانک اُچٹ گئی۔ گھڑی دیکھی تو رات کے تین بج رہے تھے۔ میں نے فون کا ریسیور اٹھایا تو وہ سچ مچ ڈیڈ تھا۔ یاد آیا کہ ایک دن پہلے ہی میں نے ٹیلی فون ایکسچینج میں اپنے فون کے ڈیڈ ہونے کی شکایت درج کرائی تھی۔ اس کے بعد بڑی دیر تک مجھے نیند نہ آئی۔ اس لیے کہ ایک عرصہ بعد عبد اللطیف مرحوم کی محبت سے لبریز باتیں سن کر میں نہال ہو گیا تھا۔

    دوسرے دن صبح صبح میں بطور خاص ٹیلی فون ایکسچینج گیا اور ایک دن پہلے لکھوائی ہوئی اپنی شکایت واپس لے لی۔ ایکسچینج والوں کو تاکید کی کہ وہ میرا فون ٹھیک نہ کریں بلکہ ڈیڈ ہی رہنے دیں۔ جب انہوں نے حیرت سے اپنی آنکھیں پھاڑ کر میری اس نامعقول تاکید کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا ’’میرے فون کے ڈیڈ رہنے کی وجہ سے میرے پاس ڈیڈ لوگوں کے یعنی مرحومین کے فون آنے لگے ہیں، میرے سارے اچھے دوست اب دوسری دنیا میں آباد ہیں۔ ان سے اتنا ’’لانگ ڈسٹنس رابطہ‘‘ رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ میں اپنے فون کو ڈیڈ رکھوں۔ یوں بھی میں زندہ لوگوں کے ٹیلی فون کال سے تنگ آ چکا ہوں کیونکہ ان کی باتوں میں اب زندگی کم اور مردنی زیادہ پائی جاتی ہے۔ کیوں نہ میں مردہ لوگوں کی زندہ باتیں سنوں‘‘۔ وہ لوگ مجھے حیرت سے دیکھنے لگے تو میں وہاں سے واپس چلا آیا۔

  • وائسرائے کی ‘خبر’ لینے والے عبدالمجید سالک کی برسی

    وائسرائے کی ‘خبر’ لینے والے عبدالمجید سالک کی برسی

    عبدالمجید سالک شاعر اور اپنے زمانے کے ایک مقبول کالم نویس تھے۔ وہ زمیندار اخبار کے مدیر کی حیثیت سے بھی مشہور تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    ہندوستان پر برطانوی راج میں‌ جب لارڈ ویول کو وائسرے مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا تو انھوں نے اپنے ایک فکاہیہ کالم میں‌ لکھا، ’’لارڈ ویول کے وائسرائے مقرر ہونے کا یہ وعدہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘‘

    بات یہ تھی کہ لارڈ ویول بائیں‌ آنکھ کی بینائی سے محروم تھا۔ ادھر مولانا عبدالمجید سالکؔ جو خود شگفتہ مزاج بھی تھے اور تحریروں میں بھی ان کی طبیعت کی طرح شگفتگی اور ظرافت موجود ہوتی تھی۔ جب انھوں نے یہ خبر سنی تو لارڈ ویول کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستانیوں‌ کو انوکھے ڈھنگ سے بتایا کہ ان کا وائسرائے ایک آنکھ سے محروم ہے۔

    ان کا نام عبدالمجید، سالک تخلص تھا۔ 1894 کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں پیدا ہوئے تھے۔ لاہور سے بی اے کیا اور بعد میں‌ پٹھان کوٹ سے رسالہ’’فانوس خیال‘‘ نکالا جو ایک سال جاری رہا۔ 1915 کے اواخر میں وہ ’’تہذیب نسواں‘‘ اور ’’پھول‘‘ کے ایڈیٹر بنے اور 1920 میں ’’زمیندار‘‘ کی ادارت سنبھالی۔

    شعر گوئی، ادب، تنقید اور صحافت ان کے مشاغل رہے۔ سالک کا رجحان نظم کی طرف زیادہ تھا۔ ’ذکرِ اقبال‘، ’سرگزشت‘ (خود نوشت)، ’مسلم صحافت ہندوستان میں‘، ’یارانِ کہن‘، ’خود کشی کی انجمن‘، ’قدیم تہذیبیں‘ اور ’کاری گری‘ شامل ہیں‌۔

    عبدالمجید سالک 1959 میں‌ آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

  • اردو زبان کے صفِ اوّل کے طنز نگار چراغ حسن حسرت کی برسی

    اردو زبان کے صفِ اوّل کے طنز نگار چراغ حسن حسرت کی برسی

    چراغ حسن حسرتؔ کی نثر کے بارے میں شورش کاشمیری لکھتے ہیں، ’’وہ نثر کی ہر صنف پر قادر تھے، سیرت بھی لکھی، افسانے بھی تحریر کیے، تاریخ پر بھی قلم اٹھایا۔ بچّوں کا نصاب بھی لکھا۔‘‘

    26 جون 1955 کو مولانا چراغ حسن حسرت لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔ آج اس ممتاز ادیب و شاعر اور جیّد صحافی کی برسی منائی جارہی ہے۔ مزاحیہ مضامین اور فکاہیہ کالم ان کی خاص وجہِ شہرت ہیں۔

    چراغ حسن حسرت 1904 میں کشمیر میں پیدا ہوئے تھے۔ اسکول کے زمانے میں شاعری کی طرف راغب ہوئے، فارسی پر عبور اور عربی جاننے کے ساتھ اردو زبان و بیان پر قدرت رکھتے تھے اور پاکستان ہجرت کرنے کے بعد یہاں اردو اور فارسی کی تدریس سے منسلک ہوگئے۔ اسی زمانے میں عملی صحافت کا سلسلہ شروع ہوگیا اور متعدد اخبارات میں کام کرنے کے ساتھ ادبی جرائد کے لیے لکھنے لگے اور ادارت بھی کی جن میں ’’انسان، زمیندار، شیراز اور شہباز‘‘ شامل ہیں۔ انھیں شملہ اور کلکتہ میں بھی تدریس اور صحافت کے شعبے میں اپنے تجربے اور علم و قابلیت کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا۔

    حسرت نے مختلف قلمی ناموں سے لکھا جن میں ’’کولمبس، کوچہ گرد، اور سند باد جہازی‘‘ مشہور ہیں۔ ان ناموں سے حسرت کی تحریریں ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوئیں اور ان کا طرزِ نگارش اور دل چسپ و شگفتہ انداز ان کی شہرت میں اضافہ کرتا چلا گیا۔

    مولانا چراغ حسن حسرت کی تصانیف اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔ ان کی کتابوں میں کیلے کا چھلکا، پربت کی بیٹی، مردم دیدہ، دو ڈاکٹر اور پنجاب کا جغرافیہ و دیگر شامل ہیں۔

    چراغ حسن حسرتؔ کی نثر مختلف النّوع موضوعات پر مشتمل ہے۔ وہ سنجیدہ، خالص ادبی اور رومانوی مضامین کے ساتھ طنز و مزاح لکھتے تھے۔ اس کے علاوہ خاکہ نویسی، تراجم، تبصرے اور تحقیقی مضامین بھی ان کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ حسرت کو ان کے فکاہیہ مضامین اور ظرافت آمیز کالموں سے خوب شہرت ملی۔ چراغ حسن حسرتؔ نے لاہور کے روزناموں سے مزاحیہ کالموں کا سلسلہ کم و بیش چودہ پندرہ برس جاری رکھا۔

    انھوں نے زیادہ تر اپنے ماحول اور اردگرد بکھرے ہوئے موضوعات کو اپنے کالموں میں پیش کیا ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں زور اور اثر پیدا کرنے کے لیے محاورہ، تشبیہ، استعارہ اور ضربُ الامثال سے خوب کام لیتے تھے۔

    ایک ادیب، ایک صحافی، انشا پرداز اور ایک تاریخ نگار کی حیثیت سے جہاں انھوں نے قارئین کی بڑی تعداد کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا، وہیں‌ وہ علم و ادب کی دنیا اور اپنے قریبی احباب میں اپنی بادہ نوشی اور بعض عادات کی وجہ سے مطعون بھی کیے جاتے تھے۔

    اردو کے نام وَر افسانہ نگار سعادت حسن منٹو بھی چراغ حسن حسرت کے بے تکلّف دوستوں‌ میں‌ شامل تھے، اور ان کا ایک خاکہ لکھا تھا جس سے چند پارے ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

    "مولانا چراغ حسن حسرت جنہیں اپنی اختصار پسندی کی وجہ سے حسرت صاحب کہتا ہوں۔ عجیب و غریب شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ پنجابی محاورے کے مطابق دودھ دیتے ہیں مگر مینگنیاں ڈال کر۔ ویسے یہ دودھ پلانے والے جانوروں کی قبیل سے نہیں ہیں حالانکہ کافی بڑے کان رکھتے ہیں۔

    آپ سے میری پہلی ملاقات عرب ہوٹل میں ہوئی۔ جسے اگر فرانس کا ’’لیٹن کوارٹر‘‘ کہا جائے تو بالکل درست ہوگا۔ ان دنوں میں نے نیا نیا لکھنا شروع کیا تھا اور خود کو بزعمِ خویش بہت بڑا ادیب سمجھنے لگا تھا۔ عرب ہوٹل میں تعارف مظفر حسین شمیم نے اُن سے کرایا۔ یہ بھی حسرت صاحب کے مقابلے میں کم عجیب و غریب شخصیت نہیں رکھتے۔ میں بیمار تھا۔ شمیم صاحب کی وساطت سے مجھے ہفتہ وار’’پارس‘‘ میں جس کے مالک کرم چند تھے، ملازمت مل گئی۔ تنخواہ چالیس روپے ماہوار مقرر ہوئی مگر ایک مہینے میں بمشکل دس پندرہ روپے ملتے تھے۔ شمیم صاحب اور میں ان دنوں دوپہر کا کھانا عرب ہوٹل میں کھاتے تھے۔

    ایک دن میں نے اس ہوٹل کے باہر تھڑے پر وہ ٹوکرا دیکھا جس میں بچا کھچا کھانا ڈال دیا جاتا تھا۔ اس کے پاس ایک کتا کھڑا تھا۔ ہڈیوں اور تڑی مڑی روٹیوں کو سونگھتا، مگر کھاتا نہیں تھا۔ مجھے تعجب ہوا کہ یہ سلسلہ کیا ہے۔

    شمیم صاحب نے جب حسرت صاحب سے میرا تعارف کرایا اور ادھر ادھر کی چند باتیں ہوئیں، تو میرے استفسار پر بتایا کہ اس کتّے کی محبت ایک سانڈ سے ہے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی لیکن میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان دو حیوانوں میں دوستی تھی۔ سانڈ ساڑھے بارہ بجے دوپہر کو خراماں خراماں آتا، کتّا دُم ہِلا ہلا کر اس کا استقبال کرتا اور وہ ٹوکرا جس کا میں ذکر کر چکا ہوں، اس کے حوالے کردیتا۔ جب وہ اپنا پیٹ بھر لیتا جو کچھ باقی بچ جاتا اس پر قناعت کرتا۔

    اس دن سے اب تک میری اور حسرت صاحب کی دوستی، اس سانڈ اور کتّے کی دوستی ہے۔ معلوم نہیں حسرت صاحب سانڈ ہیں یا میں کتّا۔ مگر ایک بات ہے کہ ہم میں سے کوئی نہ کوئی سانڈ اور کتا ضرور ہے لیکن ہم میں اکثر لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں جو ان دو حیوانوں میں شاید نہ ہوتی ہوں۔

    حسرت صاحب بڑی پیاری شخصیت کے مالک ہیں۔ میں ان سے عمر میں کافی چھوٹا ہوں لیکن میں انہیں بڑی بڑی مونچھوں والا بچّہ سمجھتا ہوں۔ یہ مونچھیں صلاح الدین احمد صاحب کی مونچھوں سے بہت ملتی جلتی ہیں۔

    حسرت صاحب کہنے کو تو کشمیری ہیں مگر اپنے رنگ اور خدوخال کے اعتبار سے معلوم نہیں کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ فربہ اندام اور خاصے کالے ہیں۔ معلوم نہیں کس اعتبار سے کشمیری ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں؟

    ویسے مجھے اتنا معلوم ہے کہ آپ آغا حشر کاشمیری کے ہم جلیس تھے۔ علامہ اقبال سے بھی شرفِ ملاقات حاصل تھا جو کشمیری تھے۔ خاکسار بھی ہیں جس سے ان کی’’سانڈ اور کتے‘‘ کی دوستی ہے لیکن اس کے باوجود اگر یہ ثابت کرنا چاہیں کہ خالص کشمیری ہیں تو کوئی کشمیری نہیں مانے گا۔ حالانکہ انہوں نے کشمیر پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

    یہ کتاب میں نے پڑھی ہے۔ میں عام طور پر بڑا برخود غلط انسان متصور کیا جاتا ہوں لیکن مجھے ماننا پڑتا ہے اور آپ سب کے سامنے حسرت صاحب بڑی دلفریب اندازِ تحریر کے مختار اور مالک ہیں۔ بڑی سہلِ ممتنع قسم کے فقرے اور جملے لکھتے ہیں۔ پر ان کی ان پیاری تحریروں میں مجھے ایک بات کھٹکتی ہے کہ وہ ہمیشہ استادوں کا طریقۂ تعلیم استعمال کرتے ہیں۔ ان کے بے شمار شاگرد موجود ہیں جو شاید ان کے علم میں نہ ہوں مگر ان کی خواہش ہے کہ وہ ہر بچّے، نوجوان اور بوڑھے پر رعب جمائیں اور اس کا کاندھا تھپکا کر اسے یہ محسوس کرنے پر مجبور کریں کہ وہ ان کا برخوردار ہے۔ مجھے ان کی طبیعت کا یہ رخ سخت ناپسند ہے، اسی وجہ سے میری اور ان کی لڑائی ہوتی رہی ہے۔

    اردو کے صفِ اوّل کے طنز نگار چراغ حسن حسرت لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

  • مشتاق احمد یوسفی: کچھ باتیں، کچھ یادیں

    مشتاق احمد یوسفی: کچھ باتیں، کچھ یادیں

    مشتاق احمد یوسفی اپنی زبان دانی کے لیے مشہور تھے۔ وہ لفظوں کے ہیر پھیر سے ایسا مزاح پیدا کرتے ہیں جس کی گرفت کے لیے قاری کو خاصا ہشیار رہنا پڑتا ہے۔ اپنے عہد کے ایک ممتاز ادیب اور شاعر شمس الرحمٰن فاروقی نے ان کے بارے میں‌ لکھا:

    ’’مشتاق احمد یوسفی ہمارے دور کے سب سے بڑے طنز و مزاح نگار ہیں۔ ان کے مزاح میں شعر و ادب کا علم کچھ اس طرح پیوست ہے، اردو زبان کی وسعتوں پر انھیں اس قدر قابو ہے کہ اس کے باعث انھیں پڑھنے اور ان کے فن کا پورا لطف حاصل کرنے کے لیے ہمارا بالغ نظر اور وسیع مطالعہ کا حامل ہونا ضروری ہے۔ پرانی باتوں، خاص کر زمانۂ گزشتہ کے اشعار اور عبارات کو پر لطف تحریف کے ساتھ پیش کرنا یوسفی کا خاص انداز ہے۔ قاری کی نظر اگر ان پرانے حوالوں پر ہو تو وہ یوسفی کی مزاحیہ تحریف کو سمجھ سکتا ہے اور پھر وہ ان کی پہنچ اور ندرتِ خیال کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘

    مشتاق احمد یوسفی ایک ایسے مزاح نگار ہیں جن کی تحریریں قاری سے غور و خوض اور فہم و تدبّر کا تقاضا کرتی ہیں۔ ان کی عبارات سے لطف اٹھانے کے لیے انہیں کئی بار پڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اردو طنز و مزاح میں‌ مشتاق احمد یوسفی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انھیں اس عہد کا سب سے بڑا مزاح نگار کہا جاتا ہے۔ آج مشتاق یوسفی کی برسی پر ان کی طنز و مزاح پر مبنی تحریروں سے اقتباس ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    1955ء میں مشتاق یوسفی نے ’’صنفِ لاغر‘‘ عنوان سے مضمون لکھا تھا جو مشہور رسالے ’’سویرا‘‘ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا اور ان کی شہرت اور مقبولیت بھی پاک و ہند تک محدود نہ رہی بلکہ جہاں‌ جہاں‌ اردو زبان پڑھنے اور سمجھنے والے بستے ہیں، وہاں وہاں مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری کا لطف لیا گیا۔ 1961ء میں ان کی پہلی تصنیف ’’چراغ تلے‘‘ شائع ہوئی تھی جسے ہر خاص و عام میں سراہا گیا۔ دوسری کتاب ’’خاکم بدہن‘‘ 1970ء میں اور تیسری ’’زرگزشت‘‘ 1976ء میں منظرِ عام پر آئی اور مقبول ہوئی جب کہ ’’آبِ گم‘‘ 1989ء میں آنے والا ان کے مضامین کا مجموعہ تھا اور پانچویں کتاب کا نام ’’شامِ شعر یاراں‘‘ تھی جو 2014ء میں شایع ہوئی۔

    ان کے رشحاتِ خامہ طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ اپنے اندر گہرائی، گیرائی، اصلاح اور فلسفہ جذب کیے ہوئے ہیں۔ ذہانت و لیاقت اور وسعتِ مطالعہ کے ساتھ لسانی بازی گری کے ذریعے مشتاق یوسفی نے طنز و مزاح نگاری کو بامِ معراج پر پہنچایا ہے اور اس پر اردو ادب ہمیشہ گراں بار رہے گا۔ اپنے طنز سے بھرپور نشتروں کے ذریعے وہ سماج میں پائی جانے والی برائیوں کی جس طرح جراحی کرتے ہیں، وہ بے مثال اور لاجواب ہے۔

    وہ ایک بینکار تھے اور موصوف کو اپنے والد کی وفات پر صرف تین دن کی چھٹیاں ملی تھیں، اس پر ستم ظریفی یہ کہ تین چھٹیوں کی تنخواہ بھی ان کی ماہانہ تنخواہ سے منہا کر دی گئی تھی۔ وہ اپنے مزاحیہ انداز میں زرگزشت میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    ’’ہمیں یاد ہے جون کا مہینہ فری امپورٹ کا زمانہ تھا۔ کام بے اندازہ آدمی کم۔ ہم چار آدمیوں کے برابر کام اور آٹھ آدمیوں کے برابر غلطیاں بڑی تن دہی سے کر رہے تھے۔ ایک منحوس صبح خبر آئی کہ ٹنڈو آدم میں اخبار پڑھتے پڑھتے ابّا جان پر دل کا دورہ پڑا، اور زمیں نے اپنی امانت واپس لے لی۔ حیدر آباد میں ان کی تدفین کے سلسلہ میں تین دن کی رخصت اتفاقیہ لینے کی پاداش میں یعسوب الحسن غوری نے ہماری تنخواہ کاٹ لی۔ جو کچھ عرصہ بعد انڈرسن نے اس وارننگ پر واپس دلوا دی کہ ’’ آئندہ اس واقعہ کو نہیں دہرایا جائے گا۔‘‘

    کسی پیشے میں جب کوئی نو وارد ہوتا ہے تو اسے کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہاں کے ماحول میں ڈھلنے اور اپنی ذہانت اور قابلیت کا ثبوت دینے تک ہر طرح کے طعن و تشنیع سے دوچار ہونا پڑ تا ہے۔ موصوف کو بھی بینک کی ملازمت اختیار کرنے پر ان پریشانیوں کا شکار ہونا پڑا جن کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    ’’ہم ریوڑ میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ ہر ایک سینگ مارتا تھا۔ ’’کی جس سے بات اس نے ہدایت ضرور کی‘‘ یوں تو سارے جہان کی کھڑکیاں ہمارے ہی آنگن میں کھلتی تھیں لیکن یعسوب الحسن غوری کا انگوٹھا ہمارے ٹینٹوے پر ہی رہتا تھا۔ روز روز کے طعن و تشنیع سے ہمارا کلیجہ چھلنی ہو گیا تھا بلکہ چھلنی میں چھید بھی ہو گئے تھے جن میں سے اب موٹے موٹے طعنے پھسل کر نکلنے لگے تھے۔ منجملہ دیگر الزامات کے ہم پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ ہمارے دستخط گستاخانہ حد تک لمبے تھے۔‘‘

    اسی طرح ایک مضمون میں‌ خودکشی کرنے والوں کی بابت یوں شگفتہ نگاری کی ہے:
    اس زمانے میں عام آدمی کو خود کشی کے لیے طرح طرح کی صعوبتیں اُٹھانا اور کھکھیڑ اُٹھانی پڑتیں تھیں۔ گھروں کا یہ نقشہ تھا کہ ایک ایک کمرے میں دس دس اس طرح ٹُھنسے ہوتے کہ ایک دوسرے کی آنتوں کی قراقر تک سُن سکتے تھے۔ ایسے میں اتنا تخلیہ کہاں نصیب کہ آدمی پھانسی کا پھندا کڑے میں باندھ کر تنہا سکون سے لٹک جائے۔ علاوہ ازیں، کمرے میں ایک ہی کڑا ہوتا تھا جس میں پہلے ہی ایک پنکھا لٹکا ہوتا تھا۔ گرم کمرے کے مکین اس جگہ کسی اور کو لٹکنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ رہے پستول اور بندوق تو اُن کے لائسنس کی شرط تھی جو صرف امیروں، وڈیروں اور افسروں کو ملتے تھے۔ چناچہ خود کشی کرنے والے ریل کی پٹری پر دن بھر لیٹے رہتے کہ ٹرین بیس بیس گھنٹے لیٹ ہوتی تھی۔ آخر غریب موت سے مایوس ہو کر کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوتے۔

  • "یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگا تار بول کر بحث نہیں جیت سکتے!”

    "یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگا تار بول کر بحث نہیں جیت سکتے!”

    جو کچھ کہنے کا اردہ ہو ضرور کہیے۔ دورانِ گفتگو خاموش رہنے کی صرف ایک وجہ ہونی چاہیے۔ وہ یہ کہ آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

    ورنہ جتنی دیر چاہے، باتیں کیجیے۔ اگر کسی اور نے بولنا شروع کر دیا تو موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور کوئی دوسرا آپ کو بور کرنے لگے گا۔

    چنانچہ جب بولتے بولتے سانس لینے کے لیے رُکیں تو ہاتھ کے اشارے سے واضح کر دیں کہ ابھی بات ختم نہیں ہوئی یا قطع کلامی معاف کہہ کر پھر سے شروع کردیجیے۔ اگر کوئی دوسرا اپنی طویل گفتگو ختم نہیں کر رہا تو بے شک جمائیاں لیجیے، کھانسیے، بار بار گھڑی دیکھیے۔ ابھی آیا… کہہ کر باہر چلے جائیں یا پھر وہیں سو جائیے۔

    یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگا تار بول کر بحث نہیں جیت سکتے۔ اگر آپ ہار گئے تو مخالف کو آپ کی ذہانت پر شبہ ہو جائے گا۔ البتہ لڑیے مت، کیونکہ اس سے بحث میں خلل آ سکتا ہے۔ کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اسے بھی مت مانیے۔ لوگ ٹوکیں، تو الٹے سیدھے دلائل بلند آواز میں پیش کر کے انہیں خاموش کرا دیجیے، ورنہ خوامخواہ سر پر چڑھ جائیں گے۔

    دورانِ گفتگو لفظ آپ کا استعمال دو یا تین مرتبہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اصل چیز میں ہے۔ اگر آپ نے اپنے متعلق کچھ نہ کہا تو دوسرے اپنے متعلق کہنے لگیں گے۔ تعریفی جملوں کے استعمال سے پرہیز کریں۔ کبھی کسی کی تعریف مت کریں۔ ورنہ سننے والے کو شبہ ہو جائے گا کہ آپ کو اُس سے کوئی کام ہے۔

    اگر کسی شخص سے کچھ پوچھنا ہو تو، جسے وہ چُھپا رہا ہو، تو بار بار اُس کی بات کاٹ کر اُسے چڑائیے۔ وکیل بھی اسی طرح مقدّمے جیتتے ہیں۔

    (ممتاز مزاح نگار شفیق الرّحمٰن کی کتاب "مزید حماقتیں” سے اقتباس)

  • اردو زبان و ادب کے ایک نادرِ روزگار پطرس بخاری کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب کے ایک نادرِ روزگار پطرس بخاری کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب کو پطرس بخاری کے قلم نے انشائیوں کے ساتھ بیک وقت مزاح، بہترین تنقیدی مضامین اور عمدہ تراجم دیے، لیکن وہ صرف اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ صحافت میں‌ جیّد، صدا کاری و شعبۂ نشریات میں‌ ماہر اور ایک منجھے ہوئے سفارت کار بھی کہلائے۔ آج پطرس بخاری کا یومِ وفات ہے۔

    1898ء میں‌ پشاور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہونے والے پروفیسر احمد شاہ بخاری نے اپنے قلمی نام پطرس بخاری سے شہرت پائی۔ وہ اردو، فارسی، پشتو اور انگریزی پر دسترس رکھتے تھے۔ ان کا انگریزی زبان کا درست تلفّظ مشہور تھا۔

    احمد شاہ بخاری نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور اپنے علم و ادب کے شوق کے سبب کالج کے معروف مجلّے ’راوی‘ کی ادارت سنبھالی۔ یہیں سے ان کے لکھنے لکھانے کا باقاعدہ آغاز بھی ہوا۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کیمبرج گئے جہاں ان کی دل چسپی اور رغبت انگریزی شعروادب میں‌ بڑھی اور انھوں نے انگریزی کے ادب پاروں کو اردو کے قالب میں ڈھالنا شروع کیا۔ ہندوستان واپس آکر بھی انھوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا اور دوسرے ادیبوں کو بھی ترجمے اور تالیف کی طرف راغب کیا۔

    ان کی ادبی خدمات اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی نے انھیں‌ آل انڈیا ریڈیو کے ناظمِ اعلیٰ کے منصب پر پہنچایا، لیکن ان کی اردو سے محبّت اور ریڈیو پر ان کے بعض فیصلوں نے انھیں غیرمقبول اور بعض‌ شخصیات کی نظر میں‌ ناپسندیدہ بنا دیا اور وہ سازشوں اور شکایات کی وجہ سے تنگ آگئے اور جب انھیں گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل کا عہدہ پیش کیا گیا تو انھوں نے فوراً یہ پیش کش قبول کر لی۔

    بخاری صاحب علمی و ادبی شخصیت اور باصلاحیت ہی نہیں‌ ذہین، مدبّر اور معاملہ فہم بھی تھے جنھیں‌ لیاقت علی خاں نے سفارت کار کے طور پر منتخب کرلیا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکا بخاری صاحب کو پاکستانی ترجمان کے طور پر ساتھ لے گئے۔ پچاس کے عشرہ میں‌ پطرس بخاری اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ بعد میں‌ وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی بنائے گئے۔ اسی زمانے میں ان کا انتقال ہوا۔ 5 دسمبر 1958ء کو پطرس بخاری نیویارک میں چل بسے۔

    پطرس کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی تھی۔ انھوں نے پشاور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور بی اے کرنے کے بعد 1922ء میں لاہور یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ انھوں نے امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کی تھی۔

    وطن واپسی پر گورنمنٹ کالج لاہور میں کئی سال تک ادبیات کے پروفیسر رہے اور پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی سے وابستہ رہے۔

    پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ وہ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع تھے جن کی کئی پُرلطف اور دلچسپ باتیں مشہور ہیں۔

    ہاسٹل میں‌ پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں کے علاوہ ان کے کئی شگفتہ مضامین اور خطوط بالخصوص قارئین میں مقبول ہیں۔