Tag: مزاح نگاری

  • گفتگو کا آرٹ!

    گفتگو کا آرٹ!

    جو کچھ کہنے کا اردہ ہو ضرور کہیے۔ دورانِ گفتگو خاموش رہنے کی صرف ایک وجہ ہونی چاہیے۔ وہ یہ کہ آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ورنہ جتنی دیر چاہے، باتیں کیجیے۔

    اگر کسی اور نے بولنا شروع کر دیا تو موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور کوئی دوسرا آپ کو بور کرنے لگے گا۔ چنانچہ جب بولتے بولتے سانس لینے کے لیے رُکیں تو ہاتھ کے اشارے سے واضح کر دیں کہ ابھی بات ختم نہیں ہوئی یا قطع کلامی معاف کہہ کر پھر سے شروع کردیجئے۔ اگر کوئی دوسرا اپنی طویل گفتگو ختم نہیں کر رہا تو بے شک جمائیاں لیجیے، کھانسیے، بار بار گھڑی دیکھیے۔۔۔ابھی آیا۔۔۔ کہہ کر باہر چلے جائیں یا پھر وہیں سو جائیے۔

    یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگاتار بول کر بحث نہیں جیت سکتے۔ اگر آپ ہار گئے تو مخالف کو آپ کی ذہانت پر شبہ ہو جائے گا۔ البتہ لڑیئے مت، کیونکہ اس سے بحث میں خلل آ سکتا ہے۔ کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو اسے بھی مت مانیے۔ لوگ ٹوکیں، تو الٹے سیدھے دلائل بلند آواز میں پیش کر کے اُنہیں خاموش کرا دیجیے، ورنہ خوامخواہ سر پر چڑھ جائیں گے۔ دورانِ گفتگو لفظ آپ کا استعمال دو یا تین مرتبہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اصل چیزمیں ہے۔ اگر آپ نے اپنے متعلق کچھ نہ کہا تو دوسرے اپنے متعلق کہنے لگیں گے۔ تعریفی جملوں کے استعمال سے پرہیز کریں۔ کبھی کسی کی تعریف مت کریں۔ ورنہ سننے والے کو شبہ ہو جائے گا کہ آپ کو اُس سے کوئی کام ہے۔ اگر کسی شخص سے کچھ پوچھنا ہو تو، جسے وہ چھپا رہا ہو تو بار بار اُس کی بات کاٹ کر اُسے چڑائیے۔وکیل بھی اسی طرح مقدّمے جیتتے ہیں۔

    ( مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی کتاب مزید حماقتیں سے اقتباس)

  • موسموں کا شہر

    موسموں کا شہر

    انگریزوں کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ طبعاً کم گو واقع ہوئے ہیں۔

    میرا خیال ہے کہ وہ فقط کھانے اور دانت اکھڑوانے کے لیے منھ کھولتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر انگلستان کا موسم اتنا واہیات نہ ہوتا تو انگریز بولنا بھی نہ سیکھتے اور انگریزی زبان میں کوئی گالی نہ ہوتی۔ کم و بیش یہی حال ہم اہلیانِ کراچی کا ہے۔ میں اپنے شہر کی برائی کرنے میں کوئی بڑائی محسوس نہیں کرتا۔ لیکن میرا خیال ہے جو شخص کبھی اپنے شہر کی برائی نہیں کرتا وہ یا تو غیر ملکی جاسوس ہے یا میونسپلٹی کا بڑا افسر! یوں بھی موسم، معشوق اور حکومت کا گلہ ہمیشہ سے ہمارا قومی تفریحی مشغلہ (INDOOR PASTIME) رہا ہے۔ ہر آن بدلتے ہوئے موسم سے جس درجہ شغف ہمیں ہے اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ یہاں بہت سے نجومی ہاتھ دیکھ کر آئندہ چوبیس گھنٹوں کے موسم کی پیش گوئی کرتے ہیں اور الغاروں کماتے ہیں۔

    اب سے چند مہینے پہلے تک بعض گرم و سرد چشیدہ سیاست دان خرابیِ موسم کو آئے دن وزارتی رد و بدل کا ذمہ دار ٹھیراتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ کراچی کا موسم بھی انگریز ہی کی ایک چال ہے۔ لیکن موسم گزیدہ عوام کو یقین ہو چلا تھا کہ در حقیقت وزارتی رد و بدل کے سبب یہاں کا موسم خراب ہو گیا ہے۔ نظرِ انصاف سے دیکھا جائے تو موسم کی برائی تہذیب اخلاق کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ اگر موسم کو برا بھلا کہہ کر دل کا غبار نکالنا شہری آداب میں داخل نہ ہوتا تو لوگ مجبوراً ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگتے۔

    اس میں شک نہیں کہ ریڈیو کی گڑگڑاہٹ ہو یا دمہ، گنج ہو یا پاؤں کی موچ، ناف ٹلے یا نکسیر پھوٹے، ہمیں یہاں ہر چیز میں موسم کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ بلغمی مزاج والا سیٹھ ہو یا سودائی فن کار، ہر شخص اسی بت ہزار شیوہ کا قتیل ہے۔ کوئی خرابی ایسی نہیں جس کا ذمہ دار آب و ہوا کو نہ ٹھیرایا جاتا ہو (حالانکہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کو خرابیٔ صحت کی وجہ سے موسم خراب لگتا ہے۔)

    ایک صاحب کو جانتا ہوں جنہیں عرصہ سے بنولے کے سٹہ کا ہوکا ہے۔ وہ بھی کراچی کی مرطوب آب و ہوا ہی کو اپنے تین دوالوں کا ذمہ دارقرار دیتے ہیں۔ ایک اور بزرگ کا دعویٰ ہے کہ میں اپنی بتیسی اسی نامعقول آب و ہوا کی نذر کر چکا ہوں۔ دیکھنےمیں یہ بات عجیب ضرور لگتی ہے مگر اپنے مشاہدے کی بناپر کہتا ہوں کہ اس قسم کی آب و ہوا میں چائے اور سٹہ کے بغیر تندرستی قائم نہیں رہ سکتی۔ اور تو اور چالان ہونے کے بعد اکثر پنساری اپنی بے ایمانی کو ایمائے قدرت پر محمول کرتے ہوئے اپنی صفائی میں کہتے ہیں کہ ’’حضور! ہم موسم کی خرابی کی وجہ سے کم تولتے ہیں۔ سیلن سے جنس اور دالوں کا وزن دگنا ہو جاتا ہے اور زنگ کھا کھا کر باٹ آدھے رہ جاتے ہیں۔ نتیجہ میں گاہک کو ۱/۴سودا ملتا ہے! ہم بالکل بے قصور ہیں۔‘‘

    ایک اور ایک کفایت شعار خاتون (جنھوں نے پچھلے ہفتہ اپنی 32 ویں سالگرہ پر 23 موم بتیاں روشن کی تھیں) اکثر کہتی ہیں کہ دس سال پہلے میں گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑی رہتی تھی۔ لیکن یہاں کی آب و ہوا اتنی واہیات ہے کہ اب بے خبری میں آئینے پر نظر پڑ جاتی ہے تو اس کی ’’کوالٹی‘‘ پر شبہ ہونے لگتا ہے۔
    لیکن غصہ ان حضرات پر آتا ہے جو بے سوچے سمجھے یہاں کے موسم پر نکتہ چینی کرتے ہیں اور اس کی وضاحت نہیں فرماتے کہ انہیں کون سا موسم ناپسند ہے۔

    یہ تو آپ جانتے ہیں کہ کراچی میں موسم ہر لحظہ روئی کے بھاؤ کی طرح بدلتا رہتا ہے۔ ہم نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ ایک ہی عمارت کے کرایہ دار ایک منزل سے دوسری منزل پر تبدیل آب و ہوا کی غرض سے جاتے ہیں۔ یہاں آپ دسمبر میں ململ کا کرتہ یا جون میں گرم پتلون پہن کر نکل جائیں تو کسی کو ترس نہیں آئے گا۔ اہلِ کراچی اس واللہ اعلم بالصواب قسم کے موسم کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ اگر یہ دو تین گھنٹے تبدیل نہ ہو تو وحشت ہونے لگتی ہے اور بڑی بوڑھیاں اس کو قربِ قیامت کی نشانی سمجھتی ہیں۔

    ہوتا یہ ہے کہ اچھے خاصے لحاف اوڑھ کر سوئے اور صبح پنکھا جھلتے ہوئے اٹھے۔ یا محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کو ملحوظ رکھتے ہوئے صبح برساتی لے کر گھر سے نکلے اور دوپہر تک لو لگنے کے سبب بالا ہی بالا اسپتال میں داخل کرا دیے گئے۔ کہاں تو رات کو ایسی شفاف چاندنی چھٹکی ہوئی تھی کہ چارپائی کی چولوں کے کھٹمل گن لیجیے۔ اور کہاں صبح دس بجے کہرے کا یہ عالم کہ ہر بس ہیڈ لائٹ جلائے اور اوس سے بھیگی سڑک پر خربوزے کی پھانک کی طرح پھسل رہی ہے۔ بعض اوقات تو یہ کہرا اتنا گہرا ہوتا ہے کہ نوواردوں کو کراچی کا اصل موسم نظر نہیں آتا۔ موسم کے تلون کی یہ کیفیت ہے کہ دن بھر کے تھکے ہارے پھیری والے شام کو گھر لوٹتے ہیں تو بغیر استخارہ کیے یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ صبح اٹھ کر بھول بل کی بھنی گرما گرم مونگ پھلی بیچیں یا آئس کریم!

    کراچی کے باشندوں کو غیر ملکی سیر و سیاحت پر اکسانے میں آب و ہوا کو بڑا دخل ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقیت ہے کہ انگلستان کا موسم اگر اتنا ظالم نہ ہوتا تو انگریز دوسرے ملکوں کو فتح کرنے ہرگز نہ نکلتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ محض میری صحت دیکھ کر یہاں کی آب و ہوا سے بدظن ہو جائیں۔ لیکن اطلاعاً اتنا ضرور عرض کروں گا کہ مقامی چڑیا گھر میں جو بھی نیا جانور آتا ہے، کچھ دن یہاں کی بہارِ جاں فزا دیکھ کر میونسپل کارپوریشن کو پیارا ہوجاتا ہے اور جو جانور بچ جاتے ہیں، ان کا تعلق اس مخلوق سے ہے جس کو طبعی موت مرتے کم از کم میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ مثلاً مگرمچھ، ہاتھی، میونسپلٹی کا عملہ!

    (ممتاز مزاح نگار مشتاق یوسفی کی ایک تحریر سے چند پارے)

  • حکومت ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر ہی دے!

    حکومت ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر ہی دے!

    گرامر کی طرح گالی کے بھی کچھ قواعد و ضوابط ہیں۔

    اگرچہ یہ قواعد و ضوابط بعض ممالک کے دساتیر کی طرح غیر تحریری ہیں، مگر ان کا احترام کچھ ریاستوں کے تحریری آئین کے مندرجات سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح کئی ملکوں میں گالی آئین سے کہیں زیادہ معتبر حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں تک پاکستان میں رائج قواعدِ دشنام کا تعلق ہے تو ہمارے یہاں تین قسم کی گالیاں مروج ہیں۔

    1- موٹی سی گالی
    2- چھوٹی سی گالی
    3- جھوٹی سی گالی

    اور ان گالیوں کی مزید کئی قسمیں ہیں۔ ویسے ہماری سمجھ میں نہیں یہ آتا کہ گالی کو خلافِ اخلاق اور بدتہذیبی کی علامت کیوں سمجھا جاتا ہے؟ آخر گالی میں ایسی کون سی بات ہے جسے اخلاقیات کے ضابطوں سے روگردانی قرار دیا جائے؟ ہمارے سوالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذرا مروجہ گالیوں کے عناصر ترکیبی پر غور کیجیے!………. آپ کو ان گالیوں میں فقط وہ لوازمات ملیں گے جن کے بغیر ہماری زندگی نامکمل ہے۔ مثلاً بنیادی انسانی رشتے، ضروری جسمانی اعضا اور ناگزیر افعال۔ ان لوازمات کو مناسب ترتیب دینے سے گالی وجود میں آجاتی ہے۔ ان عناصر کے ”ظہورِ ترتیب“ پر ناک بھوؤں چڑھانا اور انھیں اجزائے پریشاں کی صورت میں دیکھ اور سُن کر کوئی اعتراض نہ کرنا………آپ ہی بتائیے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟

    ہم تو سمجھتے ہیں کہ تہذیب و ثقافت، رسم و رواج، علوم و فنون اور آثارِ قدیمہ کی طرح کسی قوم کی گالیاں بھی اس کی پہچان ہوا کرتی ہیں۔ کیا اچھا ہو کہ حکومتِ پاکستان ہمارا ”فلسفۂ مغلظات“ تسلیم کرتے ہوئے گالیوں کو بھی قومی ورثہ قرار دے دے۔ قومی پھول، قومی کھیل اور قومی جانور کی طرح ”قومی گالی“ کا بھی تعین کر دیا جائے۔ قومی گالی کے تعین کے سلسلے میں کراچی اور پنجاب کے درمیان چشمک ہوسکتی ہے۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں کی طرح ملک بھی میں ”گالی بازی“ پر نشستیں منعقد ہوں، جن میں ”گالی باز“ یا دشنام طراز اپنی نئی نئی گالیاں پیش کرکے داد حاصل کریں۔ گالیوں پر تنقیدی نشستیں ہوں، جن میں نقاد گالیوں کے بارے میں اپنی آراء کا اظہار کریں اور تنقیدی نظریات کی روشنی میں یہ ثابت کریں کہ کون سی گالی سماج کی آئینہ دار ہو کر ترقی پسندی کے رجحان کا پتا دے رہی ہے، کس میں علامتی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ کون سی گالی فطری ہے اور کون سی غیر فطری۔ کس دشنام طراز کی تخلیق شعور کی لہر کا نتیجہ ہے اور کس گالی باز کی کاوش منفرد لب و لہجہ رکھتی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ اپنی نوعیت کی واحد تنقیدی نشستیں ہوں گی، جن میں نقّاد تنقید سے پہلے گالیاں سنیں گے!

    پاکستانی گالیوں کے عالمی سطح پر فروغ کے لیے ملک میں اور بیرون ملک پاکستانی گالیوں کی نمائشیں بھی منعقد کی جاسکتی ہیں۔ ان نمائشوں میں قدیم اردو شعرا کی ہجویات سے لے کر دورِ حاضر کے سیاست دانوں کی مغلظات تک پھیلے ہمارے عظیم ”دشنامی ورثے“ کو ”سُن“ کر غیرملکیوں کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہم کوئی ”ایویں“ قوم نہیں بلکہ گالیوں کی ایک طویل روایت سے جڑے ہوئے ہیں۔

    اگر حکومت نے ہمارا پیش کردہ ”فلسفۂ مغلظات“ اپنا لیا اور اسے عملی شکل دے دی تو یقین مانیے ہماری کرخت گالیاں راتوں رات ہمارا وہ ”سوفٹ امیج“ بنا دیں گی، جس کے لیے حکومت ایک مدت سے کوشاں ہے۔

    (معروف مزاح نگار، شاعر اور صحافی محمد عثمان جامعی کی ایک شگفتہ تحریر، یہ مزاح پارے مصنّف کی کتاب "کہے بغیر” سے مقتبس ہیں)

  • ایک عجیب و غریب ٹیلیفونک بات چیت

    کل رات کے پچھلے پہر فون کی گھنٹی بجی اور میں نے ریسیور اٹھایا تو ایک عجیب و غریب ٹیلی فونی کال سے میرا واسطہ پڑا۔

    مخاطب نے میرا نام لے کر کہا، ’’بتاؤ کیسے ہو۔ کس حال میں ہو؟‘‘ اپنا حال اسے بتانے سے پہلے عادت کے مطابق میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ دیکھیں دوسری طرف کون بول رہا ہے تاکہ میں اسی کے مطابق اپنا حال بتا سکوں۔ جس طرح کا شناسا ہو، اسے میں اسی طرح کا حال بتایا کرتا ہوں کیونکہ ہر رشتہ کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی یونہی رسماً میرا حال پوچھ لے اور میں اسے اپنا اصلی اور کھرا کھرا حال سنانے بیٹھ جاؤں۔ بعض لوگ بس یونہی مروتاً کسی کا حال پوچھ لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو آپ اپنا سچّا حال بتا بھی دیں تو آپ کا حال بہتر نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔

    میں نے جب اس کا نام پوچھا تو آواز آئی ’’میں عبد اللطیف بول رہا ہوں، پرانی دہلی کے چتلی قبر والے علاقہ کا تمہارا پرانا دوست‘‘ عبد اللطیف کا نام سنتے ہی میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ اس دنیا میں میرا ایک ہی دوست عبد اللطیف تھا اور جس عبد اللطیف سے میری بات ہو رہی تھی اسے اس دنیا سے گزرے ہوئے چھ مہینے بیت چکے ہیں۔

    عبد اللطیف سے میری پچیس برس پرانی دوستی تھی، وہ خود تو ادیب، شاعر یا فن کار نہیں تھا لیکن اسے ادیبوں اور شاعروں کی محبت میں رہنے کا شوق تھا۔ پرانی دہلی میں اس کی کپڑے کی دکان تھی اور جس طرح وہ اپنے دوستوں کی خاطر تواضع کرتا تھا اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس کا کاروبار اچھا چلتا ہے۔ جب بھی میرے گھر آتا تو خالی ہاتھ نہیں آتا تھا، کچھ نہ کچھ ضرور لے آتا تھا۔ کوئی بقر عید ایسی نہیں گزری جب میں دہلی میں موجود ہوں اور وہ قربانی کے بکرے کی سالم ران لے کر میرے پاس نہ آیا ہو۔ اس کی یہ محبت یک طرفہ تھی۔ میرے ہر دوست نے کسی نہ کسی مرحلہ پر اپنا کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا کام مجھ سے ضرور کروایا لیکن عبد اللطیف نے کبھی کسی کام کے لیے نہیں کہا۔ جن دنوں میں پابندی سے کافی ہاؤس جایا کرتا تھا عبد اللطیف بڑی پابندی سے کافی ہاؤس کے سامنے رسالوں اور اخبارات کے ایک اسٹال پر میرا انتظار کرتا تھا اور جب تک میں وہاں نہ پہنچوں وہ رسالوں کے مطالعہ میں مصروف رہتا تھا۔ اس بہانے نیوز پیپر اسٹال والے سے بھی اس کی دوستی ہو گئی تھی اور وہ اس کے بیٹھنے کے لیے ایک اسٹول فراہم کر دیتا تھا تاکہ وہ اطمینان سے اخباروں اور رسالوں کا مطالعہ کر سکے۔ میرے وہاں پہنچنے کے بعد ہی وہ میرے ساتھ کافی ہاؤس میں داخل ہوتا تھا اور میرے ساتھ ہی باہر بھی نکلتا تھا۔ محفل میں وہ ہمیشہ خاموش رہتا تھا البتہ میرے اور میرے دوستوں کے درمیان جو نوک جھونک چلا کرتی تھی اس سے بے حد لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ یوں میں اس کی محبت کا عادی ہوتا چلا گیا۔ جب میں نے کافی ہاؤس آنا جانا کم کر دیا تو وہ فون کر کے میرے پاس آنے لگا۔ روز تو خیر نہیں آتا تھا لیکن ہفتہ میں ایک مرتبہ کسی نہ کسی طرح میرے پاس آ جاتا تھا۔

    چھے مہینے پہلے جب اس کا انتقال ہوا تو صبح صبح اُس کے بیٹے نے مجھے فون کر کے یہ اندوہناک اطلاع دی کہ ’’ابوّ کا کل رات اچانک انتقال ہو گیا، آج وہ غالباً آپ سے ملنے والے تھے، مرنے سے پہلے شدید کرب کے عالم میں بھی انہوں نے مجھے یہ ہدایت دی تھی کہ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو آپ کو فوراً اس کی اطلاع دے دی جائے چنانچہ آج دوپہر میں بعد نماز ظہر آئی ٹی او کے قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئے گی۔‘‘ اس خبر کو سن کر مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا۔

    عبد اللطیف جیسے خاموش، مخلص اور بے لوث محبت کرنے والے دوست کا اس دنیا سے گزر جانا میرے لیے نہایت تکلیف دہ سانحہ تھا۔ میری دنیا یوں بھی ان دنوں سکڑتی چلی جا رہی ہے۔ جب بھی کوئی پرانا دوست اس دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے میری سماجی زندگی کا ایک ستون گر گیا ہے۔ میرے سماجی رشتوں کے ایوان کی موجودہ حالت کم و بیش ویسی ہی ہو گئی ہے جیسے امریکی بم باری کے بعد بغداد شہر کی ہو گئی ہے۔ ہر عمارت نہ صرف تباہ و تاراج ہو چکی ہے بلکہ اس کے اندر جو سامان تھا وہ بھی لٹ چکا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دوستوں کی رحلت کو برداشت کرنے کی عادت مجھ میں پیدا ہوتی جا رہی ہے کیونکہ مشکلیں جب زیادہ پڑتی ہیں تو خود بخود آسان ہو جاتی ہیں۔ تاہم عبد اللطیف کی موت کی خبر سن کر میں بڑی دیر تک چپ چاپ بیٹھا رہا تاکہ میں اپنے اندر اس سانحہ کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا کر سکوں۔ ہمت تو خیر پیدا نہیں ہوئی، البتہ بے بسی اور بے حسی کی ایک ایسی کیفیت ضرور پیدا ہوئی جسے لوگ غلط فہمی یا نا سمجھی میں ہمت کا نام دے ڈالتے ہیں۔

    کچھ دیر بعد میں نے گھڑی دیکھی تو دس بج رہے تھے۔ اتفاق سے اس دن مجھے صبح میں دو چار ضروری کام کرنے تھے۔ میں نے سوچا کہ کچھ کاموں کو ملتوی کر دوں اور جو بھی ضروری کام کروں انہیں کچھ اس طرح انجام دوں کہ ظہر کی نماز کے بعد عبد اللطیف کی آخری رسومات میں ضرور شرکت کر سکوں۔ میں نہانے کے لیے باتھ روم میں گیا تو معلوم ہوا کہ پانی نہیں آ رہا ہے۔ ایک رات پہلے شمالی ہندوستان میں بجلی کے گریڈ کے نظام میں خرابی پیدا ہو جانے کے بعد کئی گھنٹوں تک بجلی بند رہی تھی جس کی وجہ سے پانی کی سپلائی میں بھی خلل واقع ہو گیا تھا۔ میں نہانے اور داڑھی وغیرہ بنانے کے معاملہ میں زیادہ دیر نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ عبد اللطیف کی آخری رسومات میں ٹھیک وقت پر شرکت کرنا ضروری تھا۔ میں نے بحالتِ مجبوری منرل واٹر کے بیس بیس لیٹر والے دو کنستر ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور سے منگوائے۔ یہ اور بات ہے کنستروں کے آنے میں بھی آدھے گھنٹے کا وقت ضائع ہو گیا کیونکہ معلوم ہوا کہ ڈپارٹمنٹل اسٹور پر ان کنستروں کو حاصل کرنے والوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔

    غرض نہا کر غسل خانے سے نکلنے اور تیار ہو کر گھر سے باہر آنے تک بارہ بج چکے تھے۔

    دھوبی نے بھی کپڑوں پر استری کرنے میں کچھ دیر لگا دی تھی۔ مجھے سب سے پہلے بجلی کا بل جمع کرنا تھا اور اندیشہ تھا کہ اگر اس دن بل جمع نہ ہوا تو وہ بجلی جو پہلے ہی سے بند ہے، وہ بھی کٹ جائے گی۔ باہر نکلا تو پتہ چلا کہ آٹو رکشا والوں نے ہڑتال کر رکھی ہے۔ چار و ناچار ایک سائیکل رکشا پر سوار ہو کر بجلی کے دفتر تک گیا۔ وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ بجلی کی خرابی کی وجہ سے کمپیوٹر سسٹم خراب ہو گیا ہے۔ جب تک کمپیوٹر ٹھیک نہیں ہو گا تب تک بل جمع نہیں ہو سکتا۔ مجبوراً ایک گھنٹہ تک لائن میں کھڑا رہا۔ مجھے رہ رہ کر عبد اللطیف کا خیال آتا رہا کہ اس کے گھر میں کہرام مچا ہو گا اور یہ کہ اب اس کی میّت کو غسل دیا جا رہا ہو گا اور کیا عجب کہ اس مقصد کے لیے بھی منرل واٹر کے کنستر منگوائے گئے ہوں۔ لعنت ہے اس شہر پر جہاں میّت کو غسل دینے کے لیے بھی منرل واٹر کا سہارا لینا پڑ جائے۔ خیر بجلی کا بل جمع کر کے باہر نکلنے تک ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا۔ میں نہایت عجلت میں ایک ہڑتالی آٹو رکشا ڈرائیور کے آگے ہاتھ جوڑے، اسے اپنے ایک عزیز ترین دوست کے مرنے کا حوالہ دیا۔ بالآخر اس کی سوئی ہوئی انسانیت جاگ اٹھی اور وہ دگنے کرایہ پر مجھے لے چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ ہڑتالی آٹو رکشا ڈرائیوروں کی نظریں بچا کر پہلے تو وہ گلیوں میں چلتا رہا۔ پھر سڑک پر آیا تو ہڑتالیوں نے اس کے پہیوں کی ہوا نکال دی، مرتا کیا نہ کرتا، میں نے منت سماجت کر کے قبرستان کے طرف جانے والے ایک موٹر نشین کو روکا اور اس سے لفٹ لے لی۔ آخرکار جب میں قبرستان میں پہنچا تو اس وقت تک عبداللطیف کی میّت نہ صرف قبر میں اتاری جا چکی تھی بلکہ اس پر مٹی کی آخری تہ جمائی جا رہی تھی۔ مجھے بے حد دکھ ہوا کہ میں اپنے ایک بے لوث دوست کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔

    مگر کل رات جب عبد اللطیف مرحوم کا فون میرے پاس آیا تو میری ندامت اور شرمندگی کا پارہ ساتویں آسمان پر چڑھ گیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ’’عبد اللطیف! میں تم سے بے حد شرمندہ ہوں کہ میں تمہاری آخری رسومات میں شرکت کے لیے اس وقت پہنچا جب تمہاری قبر مٹی سے پاٹ دی گئی تھی اور میں تمہارا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ اس بات کا بڑا قلق ہے کہ میں اپنے ایک عزیز ترین دوست کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ تمہارے جانے سے میری زندگی میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہ ہو گا تم جیسا مخلص دوست اب کہاں ملے گا۔ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔ مشیت ایزدی کو یہی منظور تھا۔ تم بھی صبر کرو اور میں بھی صبر کرتا ہوں۔ ان اللہ مع الصابرین‘‘۔

    میری بات کو سن کر عبد اللطیف نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا ’’یار! تم جو بھی بات کرتے ہو نرالی کرتے ہوئے، مرنے والے کا پُرسہ عموماً اس کے لواحقین کو دیا جاتا ہے اور ان سے صبر کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ غالباً تم پہلے آدمی ہو جو مرنے والے کو بالمشافہ پُرسہ دے رہے ہو۔ میں نے بھی زندگی میں بہت سے پُرسے دیے ہیں۔ کیا میں نہیں جانتا کہ پُرسہ دینے والے کے دل میں کیا بات ہوتی ہے اور اس کی زبان پر کیا ہوتا ہے۔ مجھے اس بات کا بالکل دکھ نہیں ہے کہ تم میری آخری رسومات میں بروقت نہیں پہنچے۔ میں تو ہمیشہ سے ہی کہتا رہا ہوں کہ دہلی بڑی کُتّی چیز ہے۔ یہاں آدمی نہ تو چین سے زندہ رہ سکتا ہے اور نہ اپنے مرنے کے لیے کسی موزوں وقت کا انتخاب کر سکتا ہے۔ وہ تو میرا ہی قصور تھا کہ میں نے مرنے کے لیے ایسے دن کا انتخاب کیا، جب دہلی میں بارہ گھنٹوں سے بجلی غائب تھی اور اوپر سے آٹو رکشا والوں نے بھی ہڑتال کر رکھی تھی۔ اس کے باوجود تمہارا میری آخری رسومات میں آنا ایسا ہی ہے جیسے پہاڑ کو کاٹ کر دودھ کی نہر لانا۔ بھئی ’لانگ ڈسٹنس کال‘ میں بہت سی باتیں نہیں کہی جا سکتیں۔ میں پھر کبھی فون کروں گا‘‘۔ میں نے کہا ’’یہ تو بتاؤ کہ دوسری دنیا میں تمہارا کیا حال ہے؟ جنت میں داخل ہو گئے ہو یا جنت کے دروازے پر بیٹھے میرے آنے کا انتظار کر رہے ہو جس طرح کافی ہاؤس کے باہر تم میرے آنے کا انتظار کیا کرتے تھے تاکہ میں آ جاؤں تو میرے ساتھ کافی ہاؤس میں داخل ہو سکو۔ اور ہاں یہ تو بتاؤ کہ کیا دوسری دنیا میں بھی موبائل فون رکھنے کی سہولت ہے۔‘‘ عبد اللطیف نے پھر قہقہہ لگا کر کہا ’ بھیا! یہاں تو روحانی فون کی سہولت موجود ہے۔ میں تم سے بات بھی صرف اس لیے کر رہا ہوں کہ تمہارا فون کل سے ڈیڈ ہے، اگر تمہارا فون اچھا رہتا تو شاید میں تم سے بات نہ کر پاتا۔‘‘

    عبد اللطیف کے اس انکشاف کو سنتے ہی میری نیند اچانک اُچٹ گئی۔ گھڑی دیکھی تو رات کے تین بج رہے تھے۔ میں نے فون کا ریسیور اٹھایا تو وہ سچ مچ ڈیڈ تھا۔ یاد آیا کہ ایک دن پہلے ہی میں نے ٹیلی فون ایکسچینج میں اپنے فون کے ڈیڈ ہونے کی شکایت درج کرائی تھی۔ اس کے بعد بڑی دیر تک مجھے نیند نہ آئی۔ اس لیے کہ ایک عرصہ بعد عبد اللطیف مرحوم کی محبت سے لبریز باتیں سن کر میں نہال ہو گیا تھا۔

    دوسرے دن صبح صبح میں بطور خاص ٹیلی فون ایکسچینج گیا اور ایک دن پہلے لکھوائی ہوئی اپنی شکایت واپس لے لی۔ ایکسچینج والوں کو تاکید کی کہ وہ میرا فون ٹھیک نہ کریں بلکہ ڈیڈ ہی رہنے دیں۔ جب انہوں نے حیرت سے اپنی آنکھیں پھاڑ کر میری اس نامعقول تاکید کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا ’’میرے فون کے ڈیڈ رہنے کی وجہ سے میرے پاس ڈیڈ لوگوں کے یعنی مرحومین کے فون آنے لگے ہیں، میرے سارے اچھے دوست اب دوسری دنیا میں آباد ہیں۔ ان سے اتنا ’’لانگ ڈسٹنس رابطہ‘‘ رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ میں اپنے فون کو ڈیڈ رکھوں۔ یوں بھی میں زندہ لوگوں کے ٹیلی فون کال سے تنگ آ چکا ہوں کیونکہ ان کی باتوں میں اب زندگی کم اور مردنی زیادہ پائی جاتی ہے۔ کیوں نہ میں مردہ لوگوں کی زندہ باتیں سنوں‘‘۔ وہ لوگ مجھے حیرت سے دیکھنے لگے تو میں وہاں سے واپس چلا آیا۔

  • ‘میجر حسرت’ جنھیں سنگا پور میں احمد علی کی تلاش تھی!

    ‘میجر حسرت’ جنھیں سنگا پور میں احمد علی کی تلاش تھی!

    دوسری عالم گیر جنگ کے خاتمے پر جب اتحادی قابض فوجیں ملایا کے ساحل پر اتریں تو مولانا چراغ حسن حسرتؔ اس کے ہراول دستوں میں شامل تھے۔ آپ دو سال سے کچھ اوپر سنگاپور میں مقیم رہے۔

    حسرت اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور صحافی تھے جن کی وجہِ شہرت ان کے طنز و مزاح پر مبنی مضامین ہیں۔ ادھر دوسری جنگ عظیم میں ضمیر جعفری بھی برطانوی فوج میں بھرتی ہوکر بیرونِ ہندوستان فرائض کی انجام دہی کے لیے روانہ ہوئے اور وہاں سنگا پور میں‌ حسرت سے ملاقات ہوئی۔ ضمیر جعفری بھی طنز و مزاح کی دنیا میں ممتاز ہوئے اور انھیں مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے بے حد پذیرائی ملی۔

    پیشِ نظر تحریر ضمیر جعفری کی یادوں سے مقتبس ہے جس میں انھوں نے چراغ حسن حسرت کو اپنا مرشد کہہ کر ان سے متعلق ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "مرشد کے دوست مشہور ادیب پروفیسر احمد علی ہندوستان سے چین جا رہے تھے۔ ان کا جہاز شب کے چند گھنٹوں کے لیے سنگا پور میں رک رہا تھا۔ مرشد ایک مدت سے ان کی راہ تک رہے تھے اور ان کے چند گھنٹوں کے قیام کو پُرلطف بنانے کے لیے کوئی پورے تین شب و روز کی مصروفیت طے کر چھوڑی تھی۔

    لیکن اتفاق دیکھیے کہ جس شام احمد علی وہاں پہنچے ہیں، مرشد کو سوکر جاگنے، جاگ کر اٹھنے، اٹھ کر تیار ہونے اور پھر دو تین ساغر برائے ملاقات پینے میں اتنی دیر ہوگئی کہ جب ہم لوگ جہاز پر پہنچے تو پروفیسر صاحب شہر کی گشت پر نکل چکے تھے۔ اب انھیں ڈھونڈھنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ جاوید نے کہا کہ اتنے بڑے اجنبی، پُراسرار شہر میں اندھا دھند تلاش سے کون مل سکتا ہے۔ لیکن مرشد بہت پُرامید تھے۔

    فرمایا۔ ‘‘کیوں نہیں ملے گا۔ مجھے معلوم ہے احمد علی کو کہاں ہونا چاہیے۔ میرے بھائی میں احمد علی کو جانتا ہوں۔’’ تلاش شروع ہوئی تو احمد علی کو جہاں جہاں ہونا چاہیے تھا، ایک ایک مقام پر چھان مارا مگر وہ خدا معلوم کہاں غائب ہوگئے تھے۔

    کوئی بارہ بجے کے قریب مرشد یہ کہہ کر کہ ذرا تازہ دم ہوکر ابھی پھر نکلتے ہیں، ایک چینی ریسٹورنٹ میں گھس گئے اور وہاں جام و مینا سے نہ معلوم کیا سرگوشیاں ہوئی کہ خیالات کا دھارا احمد علی کو پا سکنے کی رجائیت کی طرف سے یک بارگی احمد علی کو نہ پا سکنے کی قنوطیت کی طرف مڑ گیا۔ بولے:

    ‘‘مولانا یہ احمد علی تو ملتا دکھائی نہیں دیتا۔’’

    ‘‘کیوں؟’’ہم نے پوچھا۔

    ‘‘مولانا چینیوں کے اس شہر میں احمد علی کا ملنا ناممکن ہے۔ بات یہ ہے کہ سامنے کے رخ سے احمد علی بھی ساٹھ فی صدی چینی معلوم ہوتا ہے اور چینیوں کے انبوہ میں کسی چینی سے آپ خط کتابت تو کرسکتے ہیں، اسے شناخت نہیں کرسکتے۔ اب اس کو جہاز پر ہی پکڑیں گے۔’’

    پھر وہیں بیٹھے بیٹھے مرشد نے جو احمد علی کی باتیں شرع کی ہیں کہ وہ کتنا پیارا آدمی ہے، کتنا نڈر ادیب ہے، کتنا قیمتی دوست ہے تو درمیان میں ہماری وقفہ بہ وقفہ یاد دہانیوں کے بعد جب ریستواراں سے اٹھ کر آخر جہاز پر پہنچے تو جہاز ہانگ کانگ کو روانہ ہوچکا تھا۔

    بعد میں خط کتابت سے معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب نے بھی اس شب اپنے آپ کو سنگاپور پر چھوڑ رکھا تھا۔

  • موٹر سائیکل والا….

    موٹر سائیکل والا….

    ایک آدھ دفعہ خیال آیا کہ بسوں میں دھکے کھانے اور اسٹرپ ٹیز کروانے سے تو بہتر ہے کہ آدمی موٹر سائیکل خرید لے۔ موٹر سائیکل رکشا کا خیال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے کہ تین پہیوں پر خود کشی کا یہ سہل اور شرطیہ طریقہ ابھی رائج نہیں ہوا تھا۔

    اس زمانے میں عام آدمی کو خود کشی کے لیے طرح طرح کی صعوبتیں اُٹھانا اور کھکھیڑ اُٹھانی پڑتیں تھیں۔ گھروں کا یہ نقشہ تھا کہ ایک ایک کمرے میں دس دس اس طرح ٹھنسے ہوتے کہ ایک دوسرے کی آنتوں کی قراقر تک سُن سکتے تھے۔ ایسے میں اتنا تخلیہ کہاں نصیب کہ آدمی پھانسی کا پھندا کڑے میں باندھ کر تنہا سکون سے لٹک جائے۔

    علاوہ ازیں، کمرے میں ایک ہی کڑا ہوتا تھا جس میں پہلے ہی ایک پنکھا لٹکا ہوتا تھا۔ گرم کمرے کے مکین اس جگہ کسی اور کو لٹکنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ رہے پستول اور بندوق، تو اُن کے لائسنس کی شرط تھی۔ جو صرف امیروں، وڈیروں اور افسروں کو کو ملتے تھے۔

    چناں چہ خود کشی کرنے والے ریل کی پٹری پر دن بھر بھر لیٹے رہتے کہ ٹرین بیس بیس گھنٹے لیٹ ہوتی تھی۔ آخر غریب موت سے مایوس ہو کر کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوتے۔

    موٹر سائیکل میں بشارت کو سب سے بڑی قباحت یہ نظر آئی کہ موٹر سائیکل والا سڑک کے کسی بھی حصے پر موٹر سائیکل چلائے، محسوس یہی ہو گا کہ وہ غلط جا رہا ہے۔ ٹریفک کے حادثات کے اعداد و شمار پر ریسرچ کرنے کے بعد ہم بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے ہاں پیدل چلنے والے اور موٹر سائیکل چلانے والے کا نارمل مقام ٹرک اور منی بس کے نیچے ہے۔

    دوسری مصیبت یہ ہے کہ ہم نے آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو پانچ سال سے کراچی میں موٹر سائیکل چلا رہا ہو اور کسی حادثے میں ہڈی پسلی نہ تڑوا چکا ہو۔ مگر ٹھہریے۔ خوب یاد آیا۔ ایک شخص بے شک ایسا ملا جو سات سال سے کراچی میں بغیر ایکسیڈنٹ کے موٹر سائیکل چلا رہا تھا۔ مگر وہ صرف موت کے کنویں ( Well Of Death) میں چلاتا تھا۔

    تیسری قباحت اُنہیں یہ نظر آئی کہ مین ہول بناتے وقت کراچی میونسپل کارپوریشن دو باتوں کا ضرور لحاظ رکھتی ہے۔ اوّل یہ کہ وہ ہمیشہ کھلے رہیں تاکہ ڈھکنا دیکھ کر چوروں اور اُچکوں کو خواہ مخواہ یہ تجّس نہ ہو کہ نہ جانے اندر کیا ہے۔ دوم، دہانہ اتنا چوڑا ہو کہ موٹر سائیکل چلانے والا اس میں اندر تک بغیر کسی رکاوٹ کے چلا جائے۔ آسانی کے ساتھ۔ تیز رفتاری کے ساتھ۔ پیچھے بیٹھی سواری کے ساتھ۔

    (ممتاز ادیب اور نام وَر مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے)

  • گھر داماد

    گھر داماد

    ہمارے ایک دوست ’’بی۔ اے۔ پاس‘‘ ہیں، لیکن ’’بی بی پاس‘‘ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے بی اے پاس دوست بے روزگار ہونے کے علاوہ خود دار آدمی بھی ہیں، لہٰذا ’’گھر داماد‘‘ بننے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں۔

    چنانچہ ’’بی بی پاس‘‘ ہونے کا نہ سوال ہی پیدا ہوتا ہے اور نہ بچّہ۔ اب وہ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی اچھی سی نوکری ملے اور کوئی اچھا سا مکان کرائے پر لیں تاکہ بی بی پاس ہو۔

    ہم نے ان بی اے پاس دوست کو بہتیرا سمجھایا کہ ’’میاں، یہ خود داری چھوڑو۔ بی اے پاس ہو تو اب بی بی پاس بھی ہوجاؤ۔ تمہاری بی بی تو سچ مچ کی ’’گھر والی‘‘ ہے۔ ہماری بیویوں کی طرح ’’گھر والی‘‘ تو نہیں کہ گھر کے مالک ہم، گھر کا کرایہ ہم دیں اور ہماری بی بی صاحبہ مفت میں گھر والی کہلائیں۔

    مگر وہ جھکّی، خواہ مخواہ کے خود دار بی اے پاس دوست بی بی پاس ہونے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔

    حالاں کہ ان کے ’’خسر‘‘ صاحب ’’مُصِر‘‘ کہ ’’داماد‘‘ ان پر ’’اعتماد‘‘ کریں کہ ان کے ساتھ ’’روایتی بدنام گھر داماد‘‘ جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا۔

    ’’ساس‘‘ بے چاری ’’آس‘‘ لگائے بیٹھی ہیں کہ داماد کب ’’بی بی پاس‘‘ ہوگا۔

    ایک دن ہمارے بی اے پاس دوست حسبِ معمول ہمارے پاس بیٹھے بی بی کی یاد میں ٹسر ٹسر روتے ہوئے ساس سُسر کو کوس رہے تھے، تو ہمیں بڑا غصّہ آیا اور ہم پھٹ پڑے۔

    ’’ارے کم بخت۔ جب تو کہیں نوکر نہیں ہوا تھا اور تیرے پاس رہنے کے لیے گھر تک نہیں تھا، تو تُو نے آخر شادی کی کیوں تھی؟‘‘

    بی اے پاس دوست تنک کر بولا، ’’میں نے کب کی تھی۔ میرے سُسرال والوں نے مجھے دھوکہ دیا۔ شادی سے پہلے وہ کہتے تھے کہ مجھے ایک الگ گھر لے کر دیں گے، اور ایک دکان بھی لگا کر دیں گے لیکن شادی کے بعد سے میرے سسر صاحب بالکل انجان ہوگئے، اب وہ اسی بات پر مُصر ہیں کہ علیحدہ گھر خریدنا تو مشکل ہے اسی گھر کا ایک علیحدہ کمرہ دے دیں گے۔ یقین نہ آئے تو تم خود ان سے پوچھ لو۔‘‘

    اتفاق سے اسی شام ایک اور ’’لڑکی کے نیلام‘‘ یعنی شادی کی تقریب میں ہمارے دوست کے خسر صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ ہم نے اپنے دوست کا ذکر چھیڑ کر پوچھا، ’’کیوں صاحب، کیا یہ صحیح ہے کہ آپ نے میرے دوست سے یہ وعدہ کیا تھا کہ شادی کے بعد اسے ایک علیحدہ گھر لے کر دیں گے اور ایک دکان بھی لگا کر دیں گے۔‘‘

    یہ سُن کر بے چارے خسر صاحب کا چہرہ ایک دم مرجھا سا گیا اور وہ جیسے اپنے آنسو روک کر بولے، ’’ہائے، کیا مصیبت ہے۔ سترہ اٹھارہ برس تک بیٹی کو پال پوس کر پڑھا لکھا کر بڑا کیجیے اور شادی کے موقع پر بیٹی کے علاوہ ایک مکان، دکان اور روپیہ بھی دیجیے۔‘‘

    اور پھر انہوں نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’اللہ، موجودہ لالچی زمانے میں کسی غیرت مند آدمی کو بیٹی کا باپ نہ بنا۔‘‘ ہمیں ان پر ترس تو آیا لیکن ہم یہ پوچھنے میں پھر بھی حق بجانب تھے کہ’’قبلہ، جب آپ مکان، دکان دینے کا وعدہ پورا نہ کرسکتے تھے تو آپ کو وعدہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔‘‘

    بے چارے بڑے آزردہ اور آب دیدہ ہوکر بولے، ’’آپ سچ کہتے ہیں۔ واقعی مجھے وعدہ نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن میں اپنے وعدے پر اب بھی قائم ہوں مگر کیا کروں لالچ ہر جگہ ہے، جو مکان چار ہزار کی لاگت میں میرے سامنے تعمیر ہوا، اس کے اب بیس بیس، پچاس پچاس ہزار روپے مانگے جا رہے ہیں۔

    میں نے صاحبزادے سے اب بھی وعدہ کیا ہے کہ چھ مہینے اور انتظار کریں۔ میری ایک بڑی رقم ایک محکمہ میں پھنسی ہے وہ مل جائے تو تمہیں خدا کی قسم ایک مکان لے دوں گا۔ جب تک تم میرے گھر کو اپنا گھر سمجھو لیکن میں حیران ہوں کہ ایک انسان بیک وقت لالچی اور خود دار کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

    یہ درد ناک باتیں سن کر ہمیں ان بزرگ سے واقعی بڑی ہم دردی ہوگئی اور ہم نے وعدہ کیا کہ ہم ان کے نامعقول داماد کو آج ہی شام ان کے پاس پکڑ کر لائیں گے اور اسے گھر داماد بنائے بغیر نہ چھوڑیں گے۔ چنانچہ ہم بڑی ترکیب سے بہلا پھُسلا کر ان کے داماد کو گھر لے گئے۔ صلح صفائی کی باتوں میں جب داماد نے کہا، ’’لیکن اگر میں گھر داماد بن گیا تو لوگ کیا کہیں گے؟‘‘

    خُسر صاحب نے بڑے تلخ لہجے میں کہا، ’’برخوردار، میں پوچھتا ہوں کہ موجودہ زمانے میں کون گھر داماد نہیں ہے۔ ہر جہیز میں ایک مکان یا کوٹھی جو دی جاتی ہے، وہ کوئی داماد کے باپ کا گھر ہے؟‘‘

    فرق صرف یہ ہوگیا ہے کہ پُرانے زمانے میں لڑکی کے والدین داماد کو گھر داماد بنالیا کرتے تھے اور موجودہ زمانے میں وہ داماد کے لیے جہیز میں ایک الگ ’’داماد گھر‘‘ خرید کردیتے ہیں۔

    ’’گھر داماد‘‘ نہ سہی…….. ’’داماد گھر‘‘ سہی۔ بات تو ایک ہی ہے اور میں پوچھتا ہوں کہ زمانے میں کون شخص کسی نہ کسی شکل میں گھر داماد نہیں ہے؟‘‘

    اور یہ کہہ کر خسر صاحب نے رازدارانہ لہجے میں اِدھر اُدھر دیکھ کر سَر جھکا لیا اور مَری ہوئی آواز میں بولے، ’’برخوردار، میں خود بھی گھر داماد ہوں۔‘‘

    (معروف ادیب، طنز و مزاح نگار اور صحافی ابراہیم جلیس کے قلم سے)

  • دیواریں بولتی ہیں، مگر ایسے!

    دیواریں بولتی ہیں، مگر ایسے!

    دیواروں پر لکھے سیاسی نعرے شہریوں کے لیے بہت اہم ہیں۔

    ان کے مطالعے سے نہ صرف معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، بلکہ شہری آنے والے خطرات سے ہوشیار بھی ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایک تنظیم کے دیواروں پر تحریر کردہ نعرے سے پتا چلتا ہے کہ اس تنظیم نے راہ نما کی صورت میں شیر پال لیا ہے، لہٰذا جس کو ہو جان و دل عزیز ان کی گلی میں جائے ”مت۔“

    ایک زمانے میں دیواروں پر تحریر ایک نعرے نے ظالموں میں خواہ مخواہ ہلچل مچادی تھی، حالاں کہ نعرے میں ظالموں سے صرف اتنا کہا گیا تھا کہ فلاں صاحب آرہے ہیں۔ وہ آکر کیا کریں گے؟ اس بابت کوئی اشارہ تک نہیں تھا۔

    کراچی میں کچھ عرصہ قبل دیواروں پر لکھے سیاسی نعرے شہریوں کے بہت کام آتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب شہر ”حقیقی“ سمجھی جانے والی مفروضہ تقسیم کا شکار ہوچکا تھا، اور شہریوں کو سیاست دوراں پر بولنے سے پہلے سوچنا پڑتا تھا کہ وہ شہر کے کس علاقے میں ہیں، ایسے میں دیواروں پر لکھے نعرے مشکل آسان کر دیتے تھے۔

    ہمارے ہاں دیواریں بیک وقت اخبار، ڈائری محبت نامے، اعمال نامے اور اشتہاری بورڈ کا کام دیتی ہیں۔ دیواریں پڑھ کر آپ اہم سیاسی خبروں سے واقف ہوسکتے ہیں، مثلاً کون صاحب شہر میں نزول فرمانے والے ہیں، جن کا والہانہ استقبال کرنا ہر شہری کا فرض ہے، یا نشتر پارک میں کون سیاست داں عوام سے ”تاریخی“ خطاب کرے گا۔

    دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے دیواروں سے اچھی کوئی جگہ نہیں، یہاں آپ علاقہ کونسلر سے لے کر صدر بُش تک جس کی شان میں جو چاہے بلاخوف و خطر لکھیں۔ دیواروں پر امریکا کو مٹا دینے، اسرائیل کو ملیا میٹ اور بھارت کو تہس نہس کر دینے کے نعرے پڑھ کر ایک عرصے تک ہم سمجھتے رہے کہ دشمنان اسلام کے خاتمے پر مُصر لشکر جرار دیواروں پر اپنے عزائم نقش کرنے کے فوری بعد ”محاذ“ پر روانہ ہوچکا ہے اور امریکا، اسرائیل اور بھارت کو نیست و نابود کرکے مال غنیمت سمیت واپس لوٹے گا۔

    اس انتظار میں برسوں بیت گئے، ”لشکر جرار“ کا راستہ دیکھتے دیکھتے ہماری آنکھیں پتھرا گئیں۔ مگر ادھر یہ حال کہ ”نہ آپ آویں نہ بھیجیں چٹھیاں“ تھک ہار کر ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ دیواروں پر انتہا پسندانہ نعرے لکھنے والے عملی اقدام اٹھانے کے بجائے ساکت و جامد ہو کر دیوار کا حصہ بن جاتے ہیں۔

    (محمد عثمان جامعی کی کتاب کہے بغیر سے انتخاب)

  • اماں نامہ – مزاح نگاری میں تازہ ہوا کا جھونکا

    اماں نامہ – مزاح نگاری میں تازہ ہوا کا جھونکا

    زبان کوئی بھی مزاح نگاری یقیناً ایک دشوار گزار مرحلہ ہے جس کے سبب بہت سے بہترین ادیب بھی اس رستے سے کنی کتر ا کر گزرجاتے ہیں، اردو ادب کی تاریخ میں مزاح نگار انگلیوں پرگنے جاسکتے ہیں اور اب یقیناً اس میں ایک نئے نام کا اضافہ ہوچکا ہے۔

    افسانوں کی دنیا میں زورِ قلم آزمانے والی نشاط یاسمین خان نے اپنی زندگی کو موضوعِ گفتگو بناتے ہوئے ’’اماں نامہ‘‘ کے نام سے اپنے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ترتیب دیا ہے جسے بلاشبہ مزاح نگاری کےمیدان میں تازہ ہوا کا جھونکا تصور کیا جاسکتا ہے۔ نشاط کے اس مجموعے کی خاص بات یہ ہے کہ مصنف ظرافت اور بھونڈے پن کے درمیان موجود بال برابر فرق کو اچھی طرح سمجھتی ہیں اور اسی فرق کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے جس طرح انہوں نے معاشرے کے کئی بوسیدہ رویوں کو انوکھے انداز میں برتا ہے وہ خاصے کی چیز ہے۔

    مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ’ رنگِ ادب پبلیکشنز نے کراچی سے شائع کی ہے۔ کل صفحات کی تعداد 128 ہے،طباعت نسبتاً بہترکاغذ پر کی گئی ہےاوراس کی قیمت 300 روپے مقرر کی گئی ہے۔

    اماں نامہ – کتاب پر ایک نظر


    کتاب کے پیش لفظ میں نشاط خان ہمیں بتاتی ہیں کہ یہ کتاب اور اس موجود مضامین در اصل ان کی آپ بیتی ہیں لیکن وہ اس میں محض راوی کے طور پر موجود ہیں اور جب آپ کتاب پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ واقعی ایسا ہی ہے ، ’اماں ‘ آپ کو ہر میدان میں غالب نظر آئیں گی۔

    اس خود نوشت میں مصنف معاشرے کے کچھ ایسے رویوں کو لطیف تنقید کا نشانہ بناتی ہیں جن کے بارے میں عموماً پورے معاشرے کو ہی یقین ہے کہ یہ رویے کسی بھی صورت درست نہیں ، اس کے باوجود وہ رویے عام ہیں اور کوئی بھی انہیں ترک کرنے کو تیار نہیں ہے۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ نشاط نے ان رویوں پر اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا بلکہ ان کے مثبت اور منفی پہلو کھول کر سامنے رکھ دیے ہیں جس کے بعد قاری باآسانی فیصلہ کرسکتا ہے کہ کون سا رویہ درست ہے اور کون سا غلط۔ مثال کے طور پرگھروں میں والدین کی جانب سے بچوں میں کی جانے والی تفریق ہو، شادیوں کے موقع پر رشتے ڈھونڈنے کا چلن ہو یا شادی کے بعد نئی رشتے داری کو نبھانے کا معاملہ ہو، اس کتاب کی بدولت ہم اپنے گریبان میں جھانک پاتے ہیں کہ ہم نے اپنے ارد گرد کیسے کیسے رویوں کو فروغ دے رکھا ہے اور ان پر نازاں بھی ہیں۔

    ایک مقام پر اماں مصنف کے والد سے فرماتی ہیں کہ ’’دیکھ لیجیے گا کہ ایسا بر ملے گا کہ سارا خاندان رشک کرے گا۔ آپ تو اپنی والی کی فکر کریں ،’’انہیں تو کوئی عقل کا اندھاگانٹھ کا پورا‘‘ مل جائے تو بہت ہے۔ ہمیں تو ابھی سے اس کی فکر ستائے جارہی ہے‘‘۔

    اب اس ایک جملے میں دیکھیں کس طرح مصنف نے والدین کے درمیان بچوں کی تقسیم بھی اجاگر کی ہے اور ساتھ ہی شادی بیاہ کو لے کر ہمارے معاشرتی رویوں کو بھی بیان کیا ہے کہ ہم اسے دو انسانوں کے بندھن کے بجائے سماج میں نمود و نمائش کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

    [bs-quote quote=”اماں، جس طرح جنگل میں دو شیر نہیں رہ سکتے اور ایک ڈربے میں دو مرغے، اسی طرح ایک گھر میں دو داماد نہیں رہ سکتے۔ اس طرح ایک طرف تو اقتدار کی جنگ شروع ہوجائے گیاور دوسری طرف آپ محلاتی سازشوں کا شکار اور ہم بھی تو اقوامِ عالم میں سراٹھا کرجینا چاہتے ہیں” style=”style-7″ align=”center”][/bs-quote]

    یہ کتاب آگے چل کر خاندانی تعلقات سے ایک قدم آگے بڑھتی ہے اور سماجی تعلقات کو بھی موضوع گفتگو بناتی ہے اور اس میں سب سے اہم کردار میاں عبدالقدوس کا ہے ، مصنف کہتی ہیں کہ ’’بے چارہ عبدالقدوس ‘‘ بری کے سامان کے ساتھ مفت میں پڑتا ہے ۔ لیکن یہی مفت کا’عبدالقدوس ‘ زندگیوں میں کس طرح کا کردار ادا کرتا ہے وہ آپ کتاب پڑھ کر ہی جان پائیں گے۔

    اسی آپ بیتی بیتی میں ایک کردار بڑے میاں کا بھی ہے ، یہ ایک مختصر کردار ہے لیکن ہمیں بتاتا ہے کہ معاشرے میں پرانے ملازمین کس مالکان کے معاملات میں کس حد تک دخیل ہوتے ہیں اور مالکان بھی پرانے ملازمین کے ساتھ کیسا رویہ روا رکھتے ہیں۔

    سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سارے معاملات اس کتاب میں اس قدر دلچسپ اندا ز میں بیان کیے گئے ہیں کہ پڑھنے والا موضوع کے سحر میں کھو سا جاتا ہے اور ایک مرتبہ کتاب اٹھانے کے بعد اسے مکمل کیے بغیر رہنا ناممکن ہے۔ کتاب کے کچھ کمزور مقامات کے بارے میں مصنف نے پہلے ہی نشاندہی کی ہے یہ کتاب ’’الل ٹپ‘ انداز میں سودا سلف لانے والی کاپی پر لکھی گئی ہے جس کی وجہ سے رعایت دینا ضروری ہے۔

     

     

    مصنف کے بارے میں


    نشاط یاسمین خان کی یہ چوتھی مطبوعہ کتاب ہے اور اس سے قبل وہ ایک ناول ’تیسرا کنارہ) ( 2007) میں، دوریاں اور قربتیں (افسانوی مجموعہ) اور سرخ لکیریں ( افسانوی مجموعہ) تحریر کرچکی ہیں۔

    ان کی زیرِ طباعت کتب میں ابا نامہ ، م سے مرد ، رود کوہی اور سو لفظوں کی کہانیاں شامل ہیں، جو عنقریب ہی ان کے قارئین کو میسر ہوں گی۔

    انہوں نے جامعہ کراچی سے اپنی تعلیم حاصل کی ہے اور بنیادی طور پر ایک گھریلو خاتون ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں کی بے ساختگی کسی سنی سنائی کی محتاج نہیں بلکہ وہ حالات واقعات کو ایسے ہی بیان کرتی چلی جاتی ہیں جیسا کہ وہ ان پر بیتے اور یہی ان کی
    تحریر کا حسن بھی ہے ۔

    اماں نامہ کی صورت ان کے مزاح نگاری کے جوہر کھل کر سامنے آئے ہیں اور اگر وہ ایسے ہی اس سلسلے کو آگے بڑھاتی رہیں تو وہ دن دور نہیں جب ان کا شمار صف ِ اول کے مزاح نگاروں میں ہوسکتا ہے۔