Tag: مزاح نگار شفیق الرحمن

  • بُلبل غلطیوں سے فائدہ نہیں اٹھاتی!

    بُلبل غلطیوں سے فائدہ نہیں اٹھاتی!

    بلبل ایک روایتی پرندہ ہے جو ہر جگہ موجود ہے سوائے وہاں کے جہاں اسے ہونا چاہیے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ نے چڑیا گھر میں یا باہر بلبل دیکھی ہے تو یقیناً کچھ اور دیکھ لیا ہے۔ ہم ہر خوش گلو پرندے کو بلبل سمجھتے ہیں۔ قصور ہمارا نہیں ہمارے ادب کا ہے۔

    شاعروں نے نہ بلبل دیکھی ہے، نہ اسے سنا ہے۔ کیوں کہ اصلی بلبل اس ملک میں نہیں پائی جاتی۔ سنا ہے کہ کوہِ ہمالیہ کے دامن میں کہیں کہیں بلبل ملتی ہے لیکن کوہِ ہمالیہ کے دامن میں شاعر نہیں پائے جاتے۔

    عام طور پر بلبل کو آہ و زاری کی دعوت دی جاتی ہے اور رونے پیٹنے کے لیے اکسایا جاتا ہے۔ بلبل کو ایسی باتیں بالکل پسند نہیں۔ ویسے بلبل ہونا کافی مضحکہ خیز ہوتا ہوگا۔ بلبل اور گلاب کے پھول کی افواہ کسی شاعر نے اڑائی تھی، جس نے رات گئے گلاب کی ٹہنی پر بلبل کو نالہ و شیون کرتے دیکھا تھا۔ کم از کم اس کا خیال تھا کہ وہ پرندہ بلبل ہے اور وہ چیز نالہ وشیون۔ دراصل رات کو عینک کے بغیر کچھ کا کچھ دکھائی دیتا ہے۔

    بلبل پروں سمیت محض چند انچ لمبی ہوتی ہے۔ یعنی اگر پروں کو نکال دیا جائے تو کچھ زیادہ بلبل نہیں بچتی۔ بلبل کی نجی زندگی کے متعلق طرح طرح کی باتیں مشہور ہیں۔ بلبل رات کو کیوں گاتی ہے؟ پرندے جب رات کو گائیں تو ضرور کچھ مطلب ہوتا ہے۔ وہ اتنی رات گئے باغ میں اکیلی کیوں جاتی ہے؟ بلبل کو چہچہاتے سن کر دور کہیں ایک اور بلبل چہچہانے لگتی ہے۔ پھر کوئی بلبل نہیں چہچہاتی وغیرہ۔ ہمارے ملک میں تو لوگ بس اسکینڈل کرنا جانتے ہیں۔ اپنی آنکھوں سے دیکھے بغیر کسی چیز کا یقین نہیں کرنا چاہیے۔

    کبھی کبھی بلبل غلطیاں کرتی ہے، لیکن اس سے فائدہ نہیں اٹھاتی۔ چناں چہ پھر غلطیاں کرتی ہے۔ سیاست میں تو یہ عام ہے۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ بلبل کے گانے کی وجہ اس کی غمگین خانگی زندگی ہے، جس کی وجہ یہ ہر وقت کا گانا ہے۔ دراصل بلبل ہمیں محظوظ کرنے کے لیے ہرگز نہیں گاتی۔ اسے اپنے فکر ہی نہیں چھوڑتے۔

    کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بلبل گاتے وقت بل۔ بل، بلبل۔ بل کی سی آوازیں نکالتی ہے۔ یہ غلط ہے۔ بلبل پکے راگ گاتی ہے یا کچّے؟ بہرحال اس سلسلے میں وہ بہت سے موسیقاروں سے بہتر ہے۔ ایک تو وہ گھنٹے بھر کا الاپ نہیں لیتی۔ بے سُری ہو جائے تو بہانے نہیں کرتی کہ ساز والے نکمے ہیں۔ آج گلا خراب ہے۔ آپ تنگ آجائیں، تو اسے خاموش کرا سکتے ہیں۔ اور کیا چاہیے؟

    جہاں تیتر ’’سبحان تیری قدرت‘‘ پپیہا ’’پی کہا‘‘ اور گیدڑ ’’پدرم سلطان بود‘‘ کہتا ہوا سنا گیا ہے، وہاں بلبل کے متعلق وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی مصرعے کے ایک حصّے پر اٹک گئی ہو۔ مثلاً مانا کہ ہم پہ جور و جفا، جور و جفا، جور و جفا۔ یا تعریف اس خدا کی، خدا کی، خدا کی۔ اور دِلے بفر و ختم، بفر و ختم، بفر و ختم۔ شاید اسی میں آرٹ ہو۔

    ہو سکتا ہے کہ ہماری توقعات زیاد ہوں، لیکن یہ گانے کا ریکٹ اس نے خود شروع کیا تھا۔ بلبل کو شروع شروع میں قبول صورتی، گانے بجانے کے شوق اور نفاست پسندی نے بڑی شہرت پہنچائی۔ کیوں کہ یہ خصوصیات دوسرے پرندوں میں یک جا نہیں ملتی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی نوعیت جاتی رہی اور لوگوں کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔ ادھر بلبل پر نئی نئی تحریکوں اور جدید قدروں کا اتنا سا بھی اثر نہیں ہوا، چناں چہ اب بلبل سو فی صدی رجعت پسند ہے۔ کچھ لوگ اس زمانے میں بھی بلبل کے نغموں، چاندنی راتوں اور پھولوں کے شائق ہیں۔ یہ لوگ حالات حاضرہ اور جدید مسائل سے بے خبر ہیں اور سماج کے مفید رکن ہرگز نہیں بن سکتے۔ وقت ثابت کر دے گا کہ وغیرہ وغیرہ۔

    جیسے گرمیوں میں لوگ پہاڑ پر چلتے جاتے ہیں اسی طرح پرندے بھی موسم کے لحاظ سے نقلِ وطن کرتے ہیں۔ بلبل کبھی سفر نہیں کرتی۔ اس کا خیال ہے کہ وہ پہلے ہی سے وہاں ہے جہاں اسے پہنچنا چاہیے تھا۔ ہمارے ادب کو دیکھتے ہوئے بھی بلبل نے اگر اس ملک کا رخ کیا تو نتائج کی ذمہ دار خود ہوگی۔

    (معروف مزاح نگار شفیق الرّحمٰن کے قلم سے)

  • اردو کے ممتاز مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی برسی

    اردو کے ممتاز مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی برسی

    آج اردو کے نام وَر ادیب اور ممتاز مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 19 مارچ 2000ء کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ ان کا شمار اردو کے صفِ اوّل کے مزاح نگاروں میں کیا جاتا ہے۔

    شفیق الرّحمٰن 9 نومبر 1920ء کو کلا نور ضلع روہتک میں پیدا ہوئے تھے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد برطانوی دور میں انڈین آرمی کے شعبہ طب سے وابستہ ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ پاک فوج کا حصّہ بنے اور میجر جنرل کے عہدے تک ترقّی پائی۔

    شفیق الرّحمٰن کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ شگوفے 1943ء میں پہلی مرتبہ شایع ہوا۔ بعد میں دیگر کتب لہریں، مدوجزر، پرواز، حماقتیں، پچھتاوے، مزید حماقتیں، دجلہ، کرنیں اور دریچے شایع ہوئیں اور انھیں‌ ملک گیر شہرت اور پذیرائی ملی۔ ایک ناولٹ اور افسانوں کے مجموعے کے علاوہ ان کے ترجمہ کردہ ناول بھی کتابی صورت میں سامنے آئے، معاشیات اور صحّت و امراض سے متعلق بھی ان کی کتب شایع ہوئیں۔

    ڈاکٹر شفیق الرّحمٰن کی وجہِ شہرت تو ان کی مزاح نگاری ہے، لیکن ان کے رومانوی افسانے بھی مشہور ہیں۔

    وہ پاک فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد 1980ء سے 1986ء تک اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ حکومتِ پاکستان نے وفات کے بعد انھیں ہلالِ امتیاز سے سرفراز کیا تھا۔ ڈاکٹر شفیق الرحمٰن کو راولپنڈی کے فوجی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ’’لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا…‘‘

    ’’لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا…‘‘

    لڑکو! تم بڑے ہو گے تو تمہیں افسوس ہوگا۔ جوں جوں تمہارا تجربہ بڑھتا جائے گا، تمہارے خیالات میں پختگی آتی جائے گی اور یہ افسوس بھی بڑھتا جائے گا۔ یہ خواب پھیکے پڑتے جائیں گے، تب اپنے آپ کو فریب نہ دے سکو گے۔

    بڑے ہو کر تمہیں معلوم ہو گا کہ زندگی بڑی مشکل ہے۔ جینے کے لیے مرتبے کی ضرورت ہے۔ آسائش کی ضرورت ہے اور ان کے لیے روپے کی ضرورت ہے۔ اور روپیہ حاصل کرنے کے لیے مقابلہ ہوتا ہے۔ مقابلے میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے، دھوکا دینا پڑتا ہے، غداری کرنی پڑتی ہے۔ یہاں کوئی کسی کی پروا نہیں کرتا۔ دنیا میں دوستی، محبت، انس، سب رشتے مطلب پر قائم ہیں۔

    محبّت آمیز باتوں، مسکراہٹوں، مہربانیوں، شفقتوں، ان سب کی تہ میں کوئی غرض پوشیدہ ہے۔ یہاں تک کہ خدا کو بھی لوگ ضرورت پڑنے پر یاد کرتے ہیں۔ اور جب خدا دعا قبول نہیں کرتا تو لوگ دہریے بن جاتے ہیں، اس کے وجود سے منکر ہو جاتے ہیں۔

    اور دنیا کو تم کبھی خوش نہیں رکھ سکتے۔ اگر تم سادہ لوح ہوئے تو دنیا تم پر ہنسے گی، تمہارا مذاق اُڑاے گی۔ اگر عقل مند ہوئے تو حسد کرے گی۔ اگر الگ تھلگ رہے تو تمہیں چڑچڑا اور مکّار گردانا جائے گا۔ اگر ہر ایک سے گھل مل کر رہے تو تمہیں خوشامدی سمجھا جائے گا۔ اگر سوچ سمجھ کر دولت خرچ کی تو تمہیں پست خیال اور کنجوس کہیں گے اور اگر فراخ دل ہوئے تو بیوقوف اور فضول خرچ۔

    عمر بھر تمہیں کوئی نہیں سمجھے گا، نہ سمجھنے کی کوشش کرے گا۔ تم ہمیشہ تنہا رہو گے حتّٰی کہ ایک دن آئے گا اور چپکے سے اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ گے۔یہاں سے جاتے وقت تم متحیر ہو گے کہ یہ تماشا کیا تھا۔ اس تماشے کی ضرورت کیا تھی۔ یہ سب کچھ کس قدر بے معنٰی اور بے سود تھا۔

    (معروف مزاح نگار شفیق الرّحمٰن کے قلم سے)