Tag: مزاح نگار مجتبی حسین

  • ہماری بے مکانی دیکھتے جاؤ…

    ہماری بے مکانی دیکھتے جاؤ…

    پرسوں میں نے کرایہ کے مکانوں میں رہنے کی سنچری اور اپنی زندگی کی نصف سنچری ایک ساتھ مکمل کر لی تو سوچا کہ کیوں نہ اس مبارک و مسعود موقع کو سیلبریٹ کیا جائے۔

    یہ اعزاز کسے ملتا ہے کہ سواں مکان شروع اور زندگی کا پچاسواں سال ختم ہو۔ یہ حسنِ اتفاق نہیں، عشقِ اتفاق ہے۔

    میں خوشی خوشی گھر پہنچا تو بیوی کو افسردہ و رنجیدہ پایا۔ میں نے کہا: ’’بہت اداس دکھائی دیتی ہو۔ کیا نیا مکان تمہیں پسند نہیں آیا۔‘‘ بولی ’’تمہاری رفاقت میں آج تک میں نے اَن گنت مکان بدلے۔ کبھی کسی مکان کے بارے میں شکایت کی؟‘‘ میں نے کہا ’’سچ تو یہ ہے کہ مجھے تم سے ہی یہ شکایت ہے کہ اتنے مکان بدلنے کے باوجود تم نے میرا ساتھ اور ہاتھ نہیں چھوڑا۔‘‘ بولی ’’اگر میں مکانوں کے بدلنے میں ہنسی خوشی تمہارا ساتھ نہ دیتی تو تم مکان بدلنے کی بجائے بیویاں بدلتے اور اس کوشش میں ایک نہ ایک دن کہیں گھر داماد لگ جاتے۔‘‘

    میں نے کہا ’’بات کیا ہے؟ تم نہ صرف اداس نظر آتی ہو بلکہ لڑائی کے موڈ میں بھی ہو۔‘‘ بولی ’’ایک بری خبر ہے، خدا کرے کہ جھوٹی ہو، ابھی ابھی تمہارے بھتیجے نے آکر یہ اطلاع دی ہے کہ 25 سال پہلے تم جس ہاؤسنگ سوسائٹی کے ممبر بنے اس نے بالآخر مکان بنا لیے ہیں یہ کہ تمہیں اب اپنا مکان ملنے ہی والا ہے۔‘‘ اس اطلاع کو سن کر میں بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔ پیروں تلے سے مکان سمیت زمین نکلنے لگی۔ میں نے سوچا، ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ میں اور اپنا ذاتی مکان! زندگی کے 50 برس بیت چکے ہیں اب میں اپنا مکان لے کر کیا کروں گا۔

    میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ بیوی نے کہا ’’کسی سوچ میں پڑ گئے، بتاؤ اب کیا ہو گا؟‘‘ میں نے بیوی پر قابو پانے کی خاطر اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا ’’ہونا کیا ہے، اگر ذاتی مکان ملتا ہے تو اس میں چلے جاتے ہیں۔ لوگ تو ذاتی مکان کے لیے ترستے ہیں۔ یہ اداس ہونے کی نہیں خوش کی بات ہے۔‘‘ بولی ’’مگر میرے لیے یہ خوشی کی بات نہیں ہے۔ کرایہ کے مکان میں ازدواجی زندگی کا جو لطف ہے وہ ذاتی مکان میں کہاں۔ میں نے تم سے شادی اس لیے کی تھی کہ تمہارا اپنا کوئی ذاتی مکان نہیں، کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ جس دن تمہیں اپنا مکان مل جائے گا تم اپنی ساری توجہ مجھے بنانے سنوارنے کی بجائے مکان کو بنانے سجانے میں صرف کر دو گے۔ میں اپنے اور تمہارے بیچ کسی مکان کو حائل ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی۔ پھر ہماری خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز یہی ہے کہ تمہارا زیادہ وقت مکانوں کے مالکوں سے لڑنے یا انہیں خوش کرنے میں گزرتا ہے۔
    مجھ سے لڑنے کی تمہیں مہلت ہی نہیں ملتی۔ جس دن مالک مکان ہم دونوں کے بیچ سے نکل جائے گا، ہم ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو جائیں گے۔ یہ ایک جنگی حکمت عملی ہے جس کے باعث ہمارے گھر میں دائمی اور پائیدار امن قائم ہے۔ میں گھریلو اور عالمی امن کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دے سکتی ہوں۔ چاہے مجھے ذاتی مکان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھونا پڑے۔‘‘

    زندگی میں پہلی بار میں اپنی بیوی کی فہم و فراست کا قائل ہو گیا۔ میں نے کہا ’’میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی اب کرایہ کے مکانوں میں رہنے کا عادی ہو چکا ہوں۔ جس آدمی نے فی برس دو مکانوں کے حساب سے اپنی جائے رہائش تبدیل کی ہو، اس کی خانہ بدوشی کو کم از کم تمہیں تو تسلیم کر لینا چاہیے۔
    اپنی تو ساری زندگی اس طرح گزری کہ ایک پاؤں ایک مکان میں ہے اور دوسرا پاؤں دوسرے مکان میں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں مکانوں کو بدلتے بدلتے مکاں سے لامکاں تک پھیل گیا ہوں۔ میں مکان میں ہوں بھی اور نہیں بھی۔ میں مکان کے اندر ہوں اور مکان میرے اندر ہے۔ کرایہ کے مکانوں کی برکتوں سے جتنا میں واقف ہوں، شاید کوئی اور ہو، بلکہ آج میں جو کچھ ہوں وہ کرایہ کے مکانوں میں رہنے کی وجہ سے ہوں۔ تمہیں یاد ہو گا کہ شادی کے بعد ہم نے ایک مکان کرایہ پر لیا تھا۔ مالک مکان نے تین چار مہینوں تک ہمیں ہنی مون منانے کی اجازت دے دی۔ پانچویں مہینے سے اس نے کرایہ کی ادائیگی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ میں اس سے منہ چھپاتا پھرا۔ ایک دن آمنا سامنا ہوا تو اس نے پوچھا ’’آخر تم کرایہ کیوں ادا نہیں کرتے؟‘‘ میں نے کہا ’’اس لیے کہ بے روزگار ہوں۔ کہیں نوکری لگے تو کرایہ بھی ادا کروں۔‘‘ تمہیں شاید نہیں معلوم کہ مالک مکان کئی دنوں تک میری ملازمت کی خاطر جوتیاں چٹخاتا پھرا۔ جگہ جگہ میری درخواستیں دیں۔ بالآخر اس نے مجھے نوکری سے لگا دیا۔ تنخواہ سے سارا کرایہ وصول کیا اور اپنے گھر سے نکال باہر کیا۔

    (بھارت سے تعلق رکھنے والے اردو کے معروف مزاح نگار مجتبیٰ حسین کے مضمون سے اقتباس)

  • ایک عجیب و غریب ٹیلیفونک بات چیت

    کل رات کے پچھلے پہر فون کی گھنٹی بجی اور میں نے ریسیور اٹھایا تو ایک عجیب و غریب ٹیلی فونی کال سے میرا واسطہ پڑا۔

    مخاطب نے میرا نام لے کر کہا، ’’بتاؤ کیسے ہو۔ کس حال میں ہو؟‘‘ اپنا حال اسے بتانے سے پہلے عادت کے مطابق میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ دیکھیں دوسری طرف کون بول رہا ہے تاکہ میں اسی کے مطابق اپنا حال بتا سکوں۔ جس طرح کا شناسا ہو، اسے میں اسی طرح کا حال بتایا کرتا ہوں کیونکہ ہر رشتہ کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی یونہی رسماً میرا حال پوچھ لے اور میں اسے اپنا اصلی اور کھرا کھرا حال سنانے بیٹھ جاؤں۔ بعض لوگ بس یونہی مروتاً کسی کا حال پوچھ لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو آپ اپنا سچّا حال بتا بھی دیں تو آپ کا حال بہتر نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے مزید خراب ہونے کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔

    میں نے جب اس کا نام پوچھا تو آواز آئی ’’میں عبد اللطیف بول رہا ہوں، پرانی دہلی کے چتلی قبر والے علاقہ کا تمہارا پرانا دوست‘‘ عبد اللطیف کا نام سنتے ہی میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ اس دنیا میں میرا ایک ہی دوست عبد اللطیف تھا اور جس عبد اللطیف سے میری بات ہو رہی تھی اسے اس دنیا سے گزرے ہوئے چھ مہینے بیت چکے ہیں۔

    عبد اللطیف سے میری پچیس برس پرانی دوستی تھی، وہ خود تو ادیب، شاعر یا فن کار نہیں تھا لیکن اسے ادیبوں اور شاعروں کی محبت میں رہنے کا شوق تھا۔ پرانی دہلی میں اس کی کپڑے کی دکان تھی اور جس طرح وہ اپنے دوستوں کی خاطر تواضع کرتا تھا اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس کا کاروبار اچھا چلتا ہے۔ جب بھی میرے گھر آتا تو خالی ہاتھ نہیں آتا تھا، کچھ نہ کچھ ضرور لے آتا تھا۔ کوئی بقر عید ایسی نہیں گزری جب میں دہلی میں موجود ہوں اور وہ قربانی کے بکرے کی سالم ران لے کر میرے پاس نہ آیا ہو۔ اس کی یہ محبت یک طرفہ تھی۔ میرے ہر دوست نے کسی نہ کسی مرحلہ پر اپنا کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا کام مجھ سے ضرور کروایا لیکن عبد اللطیف نے کبھی کسی کام کے لیے نہیں کہا۔ جن دنوں میں پابندی سے کافی ہاؤس جایا کرتا تھا عبد اللطیف بڑی پابندی سے کافی ہاؤس کے سامنے رسالوں اور اخبارات کے ایک اسٹال پر میرا انتظار کرتا تھا اور جب تک میں وہاں نہ پہنچوں وہ رسالوں کے مطالعہ میں مصروف رہتا تھا۔ اس بہانے نیوز پیپر اسٹال والے سے بھی اس کی دوستی ہو گئی تھی اور وہ اس کے بیٹھنے کے لیے ایک اسٹول فراہم کر دیتا تھا تاکہ وہ اطمینان سے اخباروں اور رسالوں کا مطالعہ کر سکے۔ میرے وہاں پہنچنے کے بعد ہی وہ میرے ساتھ کافی ہاؤس میں داخل ہوتا تھا اور میرے ساتھ ہی باہر بھی نکلتا تھا۔ محفل میں وہ ہمیشہ خاموش رہتا تھا البتہ میرے اور میرے دوستوں کے درمیان جو نوک جھونک چلا کرتی تھی اس سے بے حد لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ یوں میں اس کی محبت کا عادی ہوتا چلا گیا۔ جب میں نے کافی ہاؤس آنا جانا کم کر دیا تو وہ فون کر کے میرے پاس آنے لگا۔ روز تو خیر نہیں آتا تھا لیکن ہفتہ میں ایک مرتبہ کسی نہ کسی طرح میرے پاس آ جاتا تھا۔

    چھے مہینے پہلے جب اس کا انتقال ہوا تو صبح صبح اُس کے بیٹے نے مجھے فون کر کے یہ اندوہناک اطلاع دی کہ ’’ابوّ کا کل رات اچانک انتقال ہو گیا، آج وہ غالباً آپ سے ملنے والے تھے، مرنے سے پہلے شدید کرب کے عالم میں بھی انہوں نے مجھے یہ ہدایت دی تھی کہ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو آپ کو فوراً اس کی اطلاع دے دی جائے چنانچہ آج دوپہر میں بعد نماز ظہر آئی ٹی او کے قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئے گی۔‘‘ اس خبر کو سن کر مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا۔

    عبد اللطیف جیسے خاموش، مخلص اور بے لوث محبت کرنے والے دوست کا اس دنیا سے گزر جانا میرے لیے نہایت تکلیف دہ سانحہ تھا۔ میری دنیا یوں بھی ان دنوں سکڑتی چلی جا رہی ہے۔ جب بھی کوئی پرانا دوست اس دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے میری سماجی زندگی کا ایک ستون گر گیا ہے۔ میرے سماجی رشتوں کے ایوان کی موجودہ حالت کم و بیش ویسی ہی ہو گئی ہے جیسے امریکی بم باری کے بعد بغداد شہر کی ہو گئی ہے۔ ہر عمارت نہ صرف تباہ و تاراج ہو چکی ہے بلکہ اس کے اندر جو سامان تھا وہ بھی لٹ چکا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دوستوں کی رحلت کو برداشت کرنے کی عادت مجھ میں پیدا ہوتی جا رہی ہے کیونکہ مشکلیں جب زیادہ پڑتی ہیں تو خود بخود آسان ہو جاتی ہیں۔ تاہم عبد اللطیف کی موت کی خبر سن کر میں بڑی دیر تک چپ چاپ بیٹھا رہا تاکہ میں اپنے اندر اس سانحہ کو برداشت کرنے کی ہمت پیدا کر سکوں۔ ہمت تو خیر پیدا نہیں ہوئی، البتہ بے بسی اور بے حسی کی ایک ایسی کیفیت ضرور پیدا ہوئی جسے لوگ غلط فہمی یا نا سمجھی میں ہمت کا نام دے ڈالتے ہیں۔

    کچھ دیر بعد میں نے گھڑی دیکھی تو دس بج رہے تھے۔ اتفاق سے اس دن مجھے صبح میں دو چار ضروری کام کرنے تھے۔ میں نے سوچا کہ کچھ کاموں کو ملتوی کر دوں اور جو بھی ضروری کام کروں انہیں کچھ اس طرح انجام دوں کہ ظہر کی نماز کے بعد عبد اللطیف کی آخری رسومات میں ضرور شرکت کر سکوں۔ میں نہانے کے لیے باتھ روم میں گیا تو معلوم ہوا کہ پانی نہیں آ رہا ہے۔ ایک رات پہلے شمالی ہندوستان میں بجلی کے گریڈ کے نظام میں خرابی پیدا ہو جانے کے بعد کئی گھنٹوں تک بجلی بند رہی تھی جس کی وجہ سے پانی کی سپلائی میں بھی خلل واقع ہو گیا تھا۔ میں نہانے اور داڑھی وغیرہ بنانے کے معاملہ میں زیادہ دیر نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ عبد اللطیف کی آخری رسومات میں ٹھیک وقت پر شرکت کرنا ضروری تھا۔ میں نے بحالتِ مجبوری منرل واٹر کے بیس بیس لیٹر والے دو کنستر ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور سے منگوائے۔ یہ اور بات ہے کنستروں کے آنے میں بھی آدھے گھنٹے کا وقت ضائع ہو گیا کیونکہ معلوم ہوا کہ ڈپارٹمنٹل اسٹور پر ان کنستروں کو حاصل کرنے والوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔

    غرض نہا کر غسل خانے سے نکلنے اور تیار ہو کر گھر سے باہر آنے تک بارہ بج چکے تھے۔

    دھوبی نے بھی کپڑوں پر استری کرنے میں کچھ دیر لگا دی تھی۔ مجھے سب سے پہلے بجلی کا بل جمع کرنا تھا اور اندیشہ تھا کہ اگر اس دن بل جمع نہ ہوا تو وہ بجلی جو پہلے ہی سے بند ہے، وہ بھی کٹ جائے گی۔ باہر نکلا تو پتہ چلا کہ آٹو رکشا والوں نے ہڑتال کر رکھی ہے۔ چار و ناچار ایک سائیکل رکشا پر سوار ہو کر بجلی کے دفتر تک گیا۔ وہاں گیا تو معلوم ہوا کہ بجلی کی خرابی کی وجہ سے کمپیوٹر سسٹم خراب ہو گیا ہے۔ جب تک کمپیوٹر ٹھیک نہیں ہو گا تب تک بل جمع نہیں ہو سکتا۔ مجبوراً ایک گھنٹہ تک لائن میں کھڑا رہا۔ مجھے رہ رہ کر عبد اللطیف کا خیال آتا رہا کہ اس کے گھر میں کہرام مچا ہو گا اور یہ کہ اب اس کی میّت کو غسل دیا جا رہا ہو گا اور کیا عجب کہ اس مقصد کے لیے بھی منرل واٹر کے کنستر منگوائے گئے ہوں۔ لعنت ہے اس شہر پر جہاں میّت کو غسل دینے کے لیے بھی منرل واٹر کا سہارا لینا پڑ جائے۔ خیر بجلی کا بل جمع کر کے باہر نکلنے تک ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا تھا۔ میں نہایت عجلت میں ایک ہڑتالی آٹو رکشا ڈرائیور کے آگے ہاتھ جوڑے، اسے اپنے ایک عزیز ترین دوست کے مرنے کا حوالہ دیا۔ بالآخر اس کی سوئی ہوئی انسانیت جاگ اٹھی اور وہ دگنے کرایہ پر مجھے لے چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ ہڑتالی آٹو رکشا ڈرائیوروں کی نظریں بچا کر پہلے تو وہ گلیوں میں چلتا رہا۔ پھر سڑک پر آیا تو ہڑتالیوں نے اس کے پہیوں کی ہوا نکال دی، مرتا کیا نہ کرتا، میں نے منت سماجت کر کے قبرستان کے طرف جانے والے ایک موٹر نشین کو روکا اور اس سے لفٹ لے لی۔ آخرکار جب میں قبرستان میں پہنچا تو اس وقت تک عبداللطیف کی میّت نہ صرف قبر میں اتاری جا چکی تھی بلکہ اس پر مٹی کی آخری تہ جمائی جا رہی تھی۔ مجھے بے حد دکھ ہوا کہ میں اپنے ایک بے لوث دوست کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔

    مگر کل رات جب عبد اللطیف مرحوم کا فون میرے پاس آیا تو میری ندامت اور شرمندگی کا پارہ ساتویں آسمان پر چڑھ گیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ’’عبد اللطیف! میں تم سے بے حد شرمندہ ہوں کہ میں تمہاری آخری رسومات میں شرکت کے لیے اس وقت پہنچا جب تمہاری قبر مٹی سے پاٹ دی گئی تھی اور میں تمہارا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ اس بات کا بڑا قلق ہے کہ میں اپنے ایک عزیز ترین دوست کا آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ تمہارے جانے سے میری زندگی میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہ ہو گا تم جیسا مخلص دوست اب کہاں ملے گا۔ بہرحال جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔ مشیت ایزدی کو یہی منظور تھا۔ تم بھی صبر کرو اور میں بھی صبر کرتا ہوں۔ ان اللہ مع الصابرین‘‘۔

    میری بات کو سن کر عبد اللطیف نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا ’’یار! تم جو بھی بات کرتے ہو نرالی کرتے ہوئے، مرنے والے کا پُرسہ عموماً اس کے لواحقین کو دیا جاتا ہے اور ان سے صبر کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ غالباً تم پہلے آدمی ہو جو مرنے والے کو بالمشافہ پُرسہ دے رہے ہو۔ میں نے بھی زندگی میں بہت سے پُرسے دیے ہیں۔ کیا میں نہیں جانتا کہ پُرسہ دینے والے کے دل میں کیا بات ہوتی ہے اور اس کی زبان پر کیا ہوتا ہے۔ مجھے اس بات کا بالکل دکھ نہیں ہے کہ تم میری آخری رسومات میں بروقت نہیں پہنچے۔ میں تو ہمیشہ سے ہی کہتا رہا ہوں کہ دہلی بڑی کُتّی چیز ہے۔ یہاں آدمی نہ تو چین سے زندہ رہ سکتا ہے اور نہ اپنے مرنے کے لیے کسی موزوں وقت کا انتخاب کر سکتا ہے۔ وہ تو میرا ہی قصور تھا کہ میں نے مرنے کے لیے ایسے دن کا انتخاب کیا، جب دہلی میں بارہ گھنٹوں سے بجلی غائب تھی اور اوپر سے آٹو رکشا والوں نے بھی ہڑتال کر رکھی تھی۔ اس کے باوجود تمہارا میری آخری رسومات میں آنا ایسا ہی ہے جیسے پہاڑ کو کاٹ کر دودھ کی نہر لانا۔ بھئی ’لانگ ڈسٹنس کال‘ میں بہت سی باتیں نہیں کہی جا سکتیں۔ میں پھر کبھی فون کروں گا‘‘۔ میں نے کہا ’’یہ تو بتاؤ کہ دوسری دنیا میں تمہارا کیا حال ہے؟ جنت میں داخل ہو گئے ہو یا جنت کے دروازے پر بیٹھے میرے آنے کا انتظار کر رہے ہو جس طرح کافی ہاؤس کے باہر تم میرے آنے کا انتظار کیا کرتے تھے تاکہ میں آ جاؤں تو میرے ساتھ کافی ہاؤس میں داخل ہو سکو۔ اور ہاں یہ تو بتاؤ کہ کیا دوسری دنیا میں بھی موبائل فون رکھنے کی سہولت ہے۔‘‘ عبد اللطیف نے پھر قہقہہ لگا کر کہا ’ بھیا! یہاں تو روحانی فون کی سہولت موجود ہے۔ میں تم سے بات بھی صرف اس لیے کر رہا ہوں کہ تمہارا فون کل سے ڈیڈ ہے، اگر تمہارا فون اچھا رہتا تو شاید میں تم سے بات نہ کر پاتا۔‘‘

    عبد اللطیف کے اس انکشاف کو سنتے ہی میری نیند اچانک اُچٹ گئی۔ گھڑی دیکھی تو رات کے تین بج رہے تھے۔ میں نے فون کا ریسیور اٹھایا تو وہ سچ مچ ڈیڈ تھا۔ یاد آیا کہ ایک دن پہلے ہی میں نے ٹیلی فون ایکسچینج میں اپنے فون کے ڈیڈ ہونے کی شکایت درج کرائی تھی۔ اس کے بعد بڑی دیر تک مجھے نیند نہ آئی۔ اس لیے کہ ایک عرصہ بعد عبد اللطیف مرحوم کی محبت سے لبریز باتیں سن کر میں نہال ہو گیا تھا۔

    دوسرے دن صبح صبح میں بطور خاص ٹیلی فون ایکسچینج گیا اور ایک دن پہلے لکھوائی ہوئی اپنی شکایت واپس لے لی۔ ایکسچینج والوں کو تاکید کی کہ وہ میرا فون ٹھیک نہ کریں بلکہ ڈیڈ ہی رہنے دیں۔ جب انہوں نے حیرت سے اپنی آنکھیں پھاڑ کر میری اس نامعقول تاکید کی وجہ پوچھی تو میں نے کہا ’’میرے فون کے ڈیڈ رہنے کی وجہ سے میرے پاس ڈیڈ لوگوں کے یعنی مرحومین کے فون آنے لگے ہیں، میرے سارے اچھے دوست اب دوسری دنیا میں آباد ہیں۔ ان سے اتنا ’’لانگ ڈسٹنس رابطہ‘‘ رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ میں اپنے فون کو ڈیڈ رکھوں۔ یوں بھی میں زندہ لوگوں کے ٹیلی فون کال سے تنگ آ چکا ہوں کیونکہ ان کی باتوں میں اب زندگی کم اور مردنی زیادہ پائی جاتی ہے۔ کیوں نہ میں مردہ لوگوں کی زندہ باتیں سنوں‘‘۔ وہ لوگ مجھے حیرت سے دیکھنے لگے تو میں وہاں سے واپس چلا آیا۔

  • دیمکوں کی ملکہ سے ایک ملاقات

    دیمکوں کی ملکہ سے ایک ملاقات

    ایک زمانہ تھا جب میرا زیادہ تر وقت لائبریریوں میں گزرتا تھا، لیکن جب میں نے دیکھا کہ کسی نے سچ کہا ہے کہ علم کی دولت آدمی کے پاس ایک بار آجاتی ہے تو پھر کبھی نہیں جاتی۔ میں نے لاکھ کوشش کی کہ اپنے اندر یہ جو علم کا افلاس ہے اسے کسی طرح باہر نکالوں اور اس کی جگہ جہالت کی دولت سے اپنے سارے وجود کو مالا مال کردوں، مگر یہ کام نہ ہوسکا۔

    یہ اور بات ہے کہ ایک عرصہ تک علم سے لگاتار اور مسلسل دور رہنے کی وجہ سے میں نے تھوڑی بہت ترقی کر لی ہے، مگر پچھلے دنوں بات کچھ یوں ہوئی کہ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کہیں جارہا تھا۔ راستہ میں اسے اچانک ایک ضروری کام یاد آگیا۔ اس نے کہا کہ وہ دو گھنٹوں میں واپس آجائے گا۔ تب تک میں یہیں اس کا انتظار کروں۔

    سامنے ایک پارک تھا۔ سوچا کہ یہاں وقت گزار لوں، لیکن اس عمر میں نوجوانوں کی خوش گوار مصروفیتوں اور ناخوش گوار حرکتوں میں مخل ہونا پسند نہ آیا۔ سامنے ایک ہوٹل تھا جہاں نہایت اونچی آواز میں موسیقی کو بجا کر گاہکوں کو ہوٹل کے اندر آنے سے روکا جا رہا تھا۔ اب وہ پرانی لائبریری ہی برابر میں رہ گئی تھی جس میں، مَیں اپنے زمانہ جاہلیت میں نہایت پابندی سے جایا کرتا تھا۔

    خیال آیا کہ چلو آج لائبریری میں چل کر دیکھتے ہیں کہ کس حال میں ہیں یارانِ وطن۔افسوس ہوا کہ اب بھی وہاں کچھ لوگ علم کی دولت کو سمیٹنے میں مصروف تھے۔ چوں کہ علم کی دولت چرائی نہیں جاسکتی۔ اسی لیے ایک صاحب ضروری علم کو حاصل کرنے کے بعد اپنے سارے گھوڑے بیچ کر کتاب پر سَر رکھ کر سو رہے تھے۔ چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ بہت دنوں بعد لسانُ العصر حضرت شیکسپئیر، مصورِ فطرت علامہ ورڈ سورتھ، شمس العلماء تھامس ہارڈی، مصورِغم جان کیٹس وغیرہ کی کتابوں کا دیدار کرنے کا موقع ملا۔

    میں نے سوچا کہ ان کتابوں میں اب میرے لیے کیا رکھا ہے۔ کیوں نہ اردو کتابوں کی ورق گردانی کی جائے۔ چناں چہ جب میں لائبریری کے اردو سیکشن میں داخل ہوا تو یوں لگا جیسے میں کسی بھوت بنگلہ میں داخل ہوگیا ہوں۔ میں خوف زدہ سا ہو گیا، لیکن ڈرتے ڈرتے میں نے گرد میں اٹی ہوئی ’کلیاتِ میر‘ کھولی تو دیکھا کہ اس میں سے ایک موٹی تازی دیمک بھاگنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں اسے مارنا ہی چاہتا تھا کہ اچانک دیمک نے کہا،

    ’’خبردار! جو مجھے ہاتھ لگایا تو۔ میں دیمکوں کی ملکہ ہوں۔ با ادب با ملاحظہ ہوشیار۔ ابھی ابھی محمد حسین آزاد کی ’آبِ حیات‘ کا خاتمہ کر کے یہاں پہنچی ہوں۔ جس نے ’آبِ حیات‘ پی رکھا ہو اسے تم کیا مارو گے۔ قاتل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم۔‘‘

    دیمک کے منہ سے اردو کے مصرع کو سن کر میں بھونچکا رہ گیا۔ میں نے حیرت سے کہا،’’تم تو بہت اچّھی اردو بول لیتی ہو بلکہ اردو شعروں پر بھی ہاتھ صاف کر لیتی ہو۔‘‘

    بولی، ’’اب تو اردو ادب ہی میرا اوڑھنا بچھونا اور کھانا پینا بن گیا ہے۔‘‘

    پوچھا، ’’کیا اردو زبان تمہیں بہت پسند ہے؟‘‘

    بولی،’’پسند ناپسند کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ زندگی میں سب سے بڑی اہمیت آرام اور سکون کی ہوتی ہے جو یہاں مجھے مل جاتا ہے۔ تم جس سماج میں رہتے ہو وہاں آرام، سکون اور شانتی کا دور دور تک کہیں کوئی پتہ نہیں ہے۔ امن و امان کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہو۔ اب اگر میں یہاں آرام سے رہنے لگی ہوں تو تمہیں کیوں تکلیف ہو رہی ہے۔‘‘

    میں نے پوچھا،’’لیکن تمہیں یہاں سکون کس طرح مل جاتا ہے؟‘‘

    بولی، ’’ان کتابوں کو پڑھنے کے لیے اب یہاں کوئی آتا ہی نہیں ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے یہ ساری کتابیں میرے لیے فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کا درجہ رکھتی ہیں۔ مجھے تو یقین ہے کہ تم جو اب یہاں آئے ہو تو تم بھی کتابیں پڑھنے کے لیے نہیں آئے ہو۔ کہیں تم خود مصنّف تو نہیں ہو؟‘‘

    میں نے حیرت سے پوچھا، ’’تم نے کیسے پہچانا کہ میں مصنّف ہوں۔‘‘

    بولی،’’میں تمہیں جانتی ہوں۔ ایک رسالہ کی ورق نوشی کرتے ہوئے میں نے تمہاری تصویر دیکھی تھی بلکہ تھوڑی سی تصویر کھائی بھی تھی۔ ایک دم بد ذائقہ اور کڑوی کسیلی نکلی۔ حالاں کہ وہ تمہاری جوانی کی تصویر تھی۔ پھر بھی اتنی کڑوی کہ کئی دنوں تک منہ کا مزہ خراب رہا۔ میں تو بڑی مشکل سے صرف تمہاری آنکھیں ہی کھا سکی تھی کیوں کہ تمہارے چہرے میں کھانے کے لیے ہے ہی کیا۔ تم اردو کے مصنّفوں میں یہی تو خرابی ہے کہ تصویریں ہمیشہ اپنی نوجوانی کی چھپواتے ہو اور تحریریں بچوں کی سی لکھتے ہو۔

    اور ہاں خوب یاد آیا تم نے کبھی سرسیّد احمد خان کو بغیر داڑھی کے دیکھا ہے؟ نہیں دیکھا تو ’آثارُالصّنادید‘ کی وہ جلد دیکھ لو جو سامنے پڑی ہے۔ ایک دن خیال آیا کہ سر سیّد داڑھی اور اپنی مخصوص ٹوپی کے بغیر کیسے لگتے ہوں گے۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے بڑے جتن کے ساتھ سر سیّد احمد خان کی ساری داڑھی نہایت احتیاط سے کھالی۔ پھر ٹوپی کا صفایا کیا۔ اب جو سر سیّد احمد خان کی تصویر دیکھی تو معاملہ وہی تھا۔ قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا۔ اب یہ تصویر میرے آرٹ کا ایک نادر نمونہ ہے۔

    مجھے تصویروں میں مسکراہٹیں بہت پسند آتی ہیں۔ مونا لیزا کی مسکراہٹ تو اتنی کھائی کہ کئی بار بد ہضمی ہو گئی۔ زمانے کو اس کی مسکراہٹ آج تک سمجھ میں نہیں آئی۔ مجھے اس کا ذائقہ سمجھ میں نہیں آیا۔ عجیب کھٹ میٹھا سا ذائقہ ہے۔ کھاتے جاؤ تو بس کھاتے ہی چلے جاؤ۔ پیٹ بھلے ہی بھر جائے، لیکن نیّت نہیں بھرتی۔‘‘

    میں نے کہا، ’’تم تو آرٹ کے بارے میں بھی بہت کچھ جانتی ہو۔‘‘

    بولی، ’’جب آدمی کا پیٹ بھرا ہو تو وہ آرٹ اور کلچر کی طرف راغب ہوتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کیڑوں مکوڑوں کا پیٹ بھر جائے تو وہ بھی یہی کرتے ہیں۔ تب احساس ہوا کہ انسانوں اور کیڑوں مکوڑوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ خیر اب تو تم لوگ بھی اپنی زندگی حشرات الارض کی طرح ہی گزار رہے ہو۔‘‘

    میں نے کہا، ’’اردو ادب پر تو تمہاری گہری نظر ہے۔‘‘

    بولی، ’’اب جو کوئی اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا ہی نہیں تو سوچا کہ کیوں نہ میں ہی نظر رکھ لوں۔‘‘