Tag: مزاح نگار یوسف ناظم

  • شور نہ کیجیے!

    شور نہ کیجیے!

    شہروں اور خاص طور پر بڑے شہروں میں سکون اور اطمینانِ قلب کی کوئی جگہ ڈھونڈنا ایسا ہی ہے جیسے کسی ادبی رسالے کے خاص نمبر میں کسی خاص بات کی تلاش۔ شہروں میں بہرحال ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں سناٹا ہوا کرتا ہے۔ یہ جگہ لائبریری کہلاتی ہے۔

    اکثر لائبریریوں میں تو ہُو کا عالم رہتا ہے۔ لائبریری وہ مقام ہے جہاں لائبریرین کے سوا کوئی نہیں جاتا۔ لائبریرین بے چارہ بھی وہاں جانے پر اس لئے مجبور ہے کہ اسے اس کام کی تنخواہ ملتی ہے (مشہور تو یہی ہے کہ اسے تنخواہ بھی دی جاتی ہے)۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ شخص بھی بس کبھی کبھی ہی وہاں جاتا ہے (اتنی عقل تو اس میں ہونی ہی چاہیے) لائبریری میں آپ بیٹھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ایلورا کے کسی غار میں بیٹھے ہوئے ہیں (یہ مثال ان دنوں کے لئے ہے جب سیاحوں کا موسم نہ ہو) ذات کی تنہائی کے لئے کسی تنہا یا ویران مقام کی ضرورت تو نہیں ہوا کرتی لیکن ضرورت پڑنے پر لائبریری ہی کا رخ کرنا چاہئے۔

    کہتے ہیں ایک کیبرے ڈانسر سے کسی دانشور نے پوچھا کہ تم اتنی پڑھی لکھی ہو اور ایسے گھٹیا ہوٹل میں ڈانس کرنے آتی ہو، اس کی کیا وجہ ہے؟
    ڈانسر نے جواب دیا کہ اسے پڑھے لکھے لوگوں سے ملنے کا بڑا شوق تھا اور اس نے اسی شوق کی خاطر ایک لائبریری میں ملازمت بھی کی تھی لیکن وہاں کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص سے اس کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور جب سے اس نے اس گھٹیا ہوٹل میں آنا شروع کیا ہے، وہ شہر کے ہر دانشور سے مل چکی ہے۔

    کیا تعجب، یہ بات صحیح ہو کیونکہ کیبرے ڈانسر کو کوئی چیز پوشیدہ رکھنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ کسی مصنف کی کتاب کا فٹ پاتھ پر پہنچ جانا پہلے بہت برا سمجھا جاتا تھا (فٹ پاتھ کو لوگ نہایت ناقص قسم کی چیز سمجھتے ہیں اور اس پر چلنا بھی گوارا نہیں کرتے، وہ ہمیشہ سڑک کے بیچ میں چلا کرتے ہیں) لیکن اب اگر کسی مصنف کی کتاب، کسی لائبریری مین پہنچ جائے تو اسے اس کی سب سے بڑی بد قسمتی سمجھا جاتا ہے۔ فٹ پاتھ پر کتاب رکھی رہے تو کیا تعجب بھولے بھٹکے کسی کی نظر اس پر پڑ جائے بلکہ یہ فٹ پاتھ پر پہنچتی ہی اس وقت ہے جب یہ پڑھی جا چکتی ہے (کتاب کا سکنڈ ہینڈ ہونا بڑی عزت کی بات ہے)۔ لائبریری کی الماری میں بڑے اہتمام اور قرینے سے سجی ہوئی کتاب تو آج 25 ، 30 سال پہلے کی اس پردہ نشین خاتون کی طرح ہوتی ہے جس کے آنچل کی ہلکی سی جھلک بھی نظر آجاتی تو طوفان کھڑا ہو جاتا تھا ( اس زمانے میں چونکہ الیکشن کے امیدوار وغیرہ نہیں ہوا کرتے تھے اس لئے ایسی ہی چیزیں کھڑی ہوا کرتی تھیں) ان کتابوں کا آنچل بھی کبھی نہیں میلا ہوا کرتا۔ حالانکہ کتابوں کے گرد پوش آج کل اتنے نفیس اور خوبصورت ہوتے ہیں کہ کم سے کم انہیں تو دیکھا ہی جاسکتا ہے لیکن صرف گرد پوش دیکھنے کے لئے لائبریری کون جائے۔ آرٹ گیلری اس کام کے لئے بہتر جگہ ہے۔

    اگر مصنف خود ہی لائبریری جاکر اپنے ہی نام اپنی کتاب نہ نکلوائے تو کتاب میں رکھا ہوا کارڈ، اس کی قسمت ہی کی طرح معرّی رہے۔ ( اس میں ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اگر ناحسنِ اتفاق سے یہ کتاب کسی اور پڑھ لی ہے تو مصنف کو اپنے بارے میں اس معزز شخص کی رائے بھی معلوم ہوجائے گی۔ یہ رائے کتاب میں جگہ جگہ درج ہوگی کیونکہ لائبریری کی ہر کتاب، کتاب الرّائے ہوا کرتی ہے۔

    پڑھے لکھے لوگوں نے ان دنوں اپنی اپنی ذاتی لائبریریاں بنالی ہیں۔ ان لائبریریوں میں گم شدہ اور مسروقہ کتابوں کا نایاب ذخیرہ ہوتا ہے، لیکن الماریاں بہر حال ان کی اپنی ہوتی ہیں۔ اس میں ان کی مجبوری کو دخل ہے کیونکہ کتابیں تو مستعار مل جاتی لیکن الماریوں کے معاملے میں یہ طریقہ ابھی شروع نہیں ہوا ہے۔ (ہمارے پسماندہ ہونے کا یہ بھی ایک ثبوت ہے ) گھریلو لائبریری قائم کرنے والوں کو اتنی قربانی تو دینی ہی چاہئے۔ ذاتی لائبریری میں مختلف ترکیبوں سے جمع کی ہوئی کتابوں کا پڑھا جانا ضروری نہیں۔ کبھی کبھی انہیں جھٹک کر ٹھیک سے رکھ دینا کافی ہے (بعض لوگ ان کی طرف سال میں ایک آدھ مرتبہ نظر اٹھا کر دیکھ لینا بھی کافی سمجھتے ہیں) ان لوگوں کی بات البتہ الگ ہے جو خود کے لئے نہیں دوسروں کے لئے مطالعہ فرمایا کرتے ہیں۔ یہ لوگ ایک کتاب پڑھ کر جب تک دوسروں سے اپنے مطالعے کا انتقام نہیں لے لیتے، انہیں بلڈ پریشر رہتا ہے۔ یہ سمجھتے ہیں اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو ان کی ازدواجی زندگی میں فتور آجائے گا۔ پڑھتے تو خیر یہ دوسروں کے لئے ہیں لیکن لکھتے خود کے لئے ہیں۔ احتیاط یہ ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا سمجھ نہ لے۔ ان کی تصنیف میں ان کا اپنا حصہ ہی ہوتا ہے جتنا سمندر میں خشکی کا (اتنا کثیر حصہ معمولی بات نہیں) یہ لوگ بہر حال ان مصنفوں سے بہتر ہوتے ہیں جو صرف لکھنا جانتے ہیں پڑھنا نہیں۔

    لائبریریوں میں پہلے جگہ جگہ یہ ہدایت لکھی ہوتی تھی کہ شور نہ کیجئے۔ شور نہ کیجئے۔ اب ان ہدایتوں کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ضرورت تو ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ ابابیلیں نوٹسیں نہیں پڑھا کرتیں۔

    (یوسف ناظم کے مزاحیہ مضامین پر مشتمل کتاب ‘البتہ’ سے انتخاب)

  • مشاعروں میں ہوٹنگ کے ‘فوائد’

    مشاعروں میں ہوٹنگ کے ‘فوائد’

    مشاعرے تو بہت ہوتے ہیں، لیکن ہر مشاعرہ کام یاب نہیں ہوتا اور صرف کام یابی بھی کافی نہیں ہوتی۔ مشاعرہ اچّھے نمبروں سے کام یاب ہونا چاہیے۔ ایسی ہی کام یابی سے مشاعروں کا مستقبل روشن ہوتا ہے۔ مشاعروں کی کام یابی کا انحصار اب ہوٹنگ پر ہے۔ ہوٹنگ معرکے کی ہوگی تو مشاعرہ بھی معرکۃ الآرا ہوگا۔

    دیکھا گیا ہے کہ بڑے شہروں میں جہاں تعلیم یافتہ لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں ہوٹنگ کا معیار اچھا خاصا ہے، لیکن اضلاع کے سامعین ہوٹنگ کے معاملے میں ابھی پسماندہ ہیں۔ بعض اضلاع میں اس کا معیار ٹھیک رہا ہے، لیکن اس سلسلے میں ابھی انہیں بہت کام کرنا ہے۔ مشاعروں کے سیزن میں اضلاع کے کچھ مندوبین کو بڑے شہروں کے مشاعروں میں حاضر رہنا چاہیے۔

    مشاعرہ ورک شاپ میں حصہ لیے بغیر اچھی ہوٹنگ نہیں آتی۔ بڑے شہروں میں تو بعض مشاعرے ایسے بھی ہوئے ہیں کہ مشاعرے کے دوسرے دن مشاعرہ گاہ کی چھت کی مرمت کروانی پڑی ہے، اس لیے اب زیرِ سما مشاعروں کا رواج بڑھتا جارہا ہے۔ زیرِ سما مشاعروں میں، شاعر تو نہیں لیکن سامعین سماں باندھ دیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب مشاعروں میں شاعروں کے کلام کا مقابلہ ہوتا ہے، اب سامعین کے کمال کا مقابلہ ہوتا ہے۔ مشاعرے بھی ٹکٹ سے ہونے لگے ہیں جو ایک لحاظ سے اچھی بات ہے۔

    صحیح معنوں میں مشاعرہ وہ ہوتا ہے جب مشاعرہ گاہ میں زندگی رواں دواں ہو، مشاعرہ گاہ میں کیفیت کچھ ایسی ہونی چاہیے، جس سے یہ معلوم ہو کہ شاعروں کو سننے سامعین نہیں آئے، سامعین کا مورچہ آیا ہوا ہے۔ خوب صورت پنڈال جگمگاتا شہ نشین اور جگہ جگہ ایک ہزار کینڈل پاور کے قمقمے یہ سب بیکار ہیں۔ اصل چیز ہے ہوٹنگ۔ مشاعروں میں یہ نہ ہو تو منتظمینِ مشاعرہ مایوس ہوجاتے ہیں۔ ان کے سارے کیے کرائے پر پانی پِھر جاتا ہے۔

    مشاعروں میں ہوٹنگ کی ابتدا کب اور کہاں ہوئی اس کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں، لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مشاعرہ خود اور مشاعرے کے دیگر لوازمات (جن میں ہوٹنگ شامل ہے) شمالی ہند کی دین ہیں۔ البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کی رسمِ اجرا کہاں انجام دی گئی۔ تحقیق اس بات کی کرنی چاہیے کہ ٹکٹ سے پہلا مشاعرہ کس جگہ منعقد ہوا؟ اسی مشاعرے میں سامعین نے شور مچایا ہوگا۔ اسی احتجاج نے بعد میں ہوٹنگ کی شکل اختیار کی۔

    ہوٹنگ اب شوق یا شغل نہیں ہے، ایک فن ہے اور اس میں بھی وہی صنائع بدائع ہونے چاہییں جو شاعری میں مستعمل ہیں۔ ہوٹنگ میں اسقام کا پایا جانا معیوب ہے۔ کچھ لوگوں نے عملی تنقید کی طرح عملی ہوٹنگ کی بھی کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر شاعروں کی سرکوبی کے لیے عملی ہوٹنگ سے کام لیا گیا ہے، لیکن ان وارداتوں میں ‘ایلڈرس’ نے کبھی حصّہ نہیں لیا۔ ان وارداتوں کو ‘یوتھ فیسٹول’ سمجھ کر شاعروں کی تاریخ سے حذف کردینا چاہیے۔

    ہوٹنگ دل چسپی کی چیز ہے، دل شکنی کاحربہ نہیں۔ اسی لیے عملی ہوٹنگ مقبول نہیں ہوسکی۔ مشاعروں میں آلات و ظروف استعمال نہیں کیے جاسکتے۔ میونسپل کارپوریشن کے اجلاس کی بات اور ہوتی ہے۔

    (یوسف ناظم کا تعلق بھارت سے تھا، ان کا شمار اردو کے معروف طنز و مزاح نگاروں میں ہوتا ہے، پیشِ نظر مقتَباسات یوسف ناظم کے شگفتہ مضمون کے ہیں)