Tag: مزاح پارے

  • اُن کو دے دو نکال کر آنکھیں!

    اُن کو دے دو نکال کر آنکھیں!

    پچھلے دنوں میری ملاقات ایک ایسی خاتون سے ہوئی جنہیں ”رنگ برنگی آنکھوں“ کا شوق ہے۔ اگر آپ رنگی برنگی آنکھوں کی اصطلاح پر حیران ہورہے ہیں تو آپ کو اس کی پوری اجازت ہے کیوں کہ میں بھی پہلے اسی طرح حیران ہوئی تھی۔

    غالبؔ کی پیش گوئی تو قصّۂ پارینہ ہوئی کہ:

    لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور

    سائنس نے تو وہ ترقی کی ہے کہ دل و جاں پر کیا منحصر ہے گردہ، پھیپھڑا، آنکھیں، زبان، ہاتھ، پاؤں غرض انسانی جسم کے تمام اعضاء یعنی ”اسپیئر پارٹس“ باآسانی ”بازارِ شفا“ میں دستیاب ہو جاتے ہیں۔ اسی پر بس نہیں، بازار میں خریداروں کے شوق کی تسکین کے لئے ”اسپیئر پارٹس“ کی مختلف ”ورائٹیز“ بھی تیار کی جارہی ہیں۔ تجربے کے طور پر ”بازارِشفا“میں سب سے پہلے آنکھوں کی مختلف ورائٹیز لائی گئی ہیں۔ آنکھوں کو فوقیت دینے کی وجہ شاید یہ ہو کہ ”بازارِ شفا“کے کاری گر یعنی ڈاکٹر صاحبان بھی اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ ”انکھیاں بڑی نعمت ہیں بابا۔“

    پہلے اگر کسی کی آنکھوں کے دیے بجھنے لگتے تھے تو ڈاکٹر صاحبان اس کی زندگی کا چراغ گل ہونے سے قبل اس کے دیے کی لو دوسرے دیے سے جوڑ کر اسے پھر سے منّور کردیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر اسے قرنیہ کی تبدیلی کہتے ہیں۔ یہ قرنیہ کسی مرنے والے کی وصیت کے مطابق اس کی وفات کے فوراً بعد آنکھوں سے نکال لیا جاتا ہے۔

    اب ایک چیز اور ایجاد ہوئی ہے۔ نام اس کا ”کنٹیکٹ لینس“ ہے۔ رنگ بھی اس کے کئی ہیں اور خوبی یہ کہ اسے آپ اپنے قرنیے پر لگا دیں، دیکھنے والے کو آپ کی ”ہوشیاری“ کا پتا بھی نہیں چلے گا اور آپ کی آنکھوں کی رنگت بھی بدل جائے گی۔

    کنٹیکٹ لینس بغیر رنگ کے بھی ہوتے ہیں۔ چناں چہ ڈاکٹر صاحبان اب صرف قرنیہ کا آپریشن نہیں کرتے بلکہ آپ کی آنکھوں کو آپ کا پسندیدہ رنگ بھی دیتے ہیں۔ آپ کنٹیکٹ لینس لینے کی خواہش کا اظہار کریں تو فوراً دریافت کیا جائے گا۔ ”کس رنگ میں چاہئے؟ نیلا، لال، ہرا، کتھئی ہر رنگ موجود ہے۔“ بالکل اسی طرح جیسے کپڑے کی دکان پر بزاز تھان پھیلا کر کہتا ہے۔”بہن جی، ڈیزائن پسند کر لیں، رنگ اور بھی مل جائیں گے۔ نیلا، پیلا، لال، ہرا، اودا، پانچ ورائٹیز ہیں اس میں۔“

    اس لینس کی ایک خوبی اور بھی ہے، یعنی اسے لگانے کے لئے خدانخواستہ کسی کا نابینا ہونا یا اس کی بینائی کا کمزور ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ کی بینائی کمزور ہے تو آپ اپنی آنکھیں ٹیسٹ کرا کے چشمے کی طرح لینس کا نمبر لے لیں ورنہ آپ کے سامنے بغیر نمبر کے تمام رنگ کے لینس رکھے ہیں۔ ”نظرِ انتخاب“ ڈالئے اور کوئی بھی رنگ پسند کرلیجئے۔

    میری ملاقات جس خاتون سے ہوئی تھی وہ رنگوں کی میچنگ کے معاملے میں اتنی ”حسّاس“ ہیں کہ لباس، نیل پاش اور لِپ اِسٹک سے لے کر آنکھوں تک سب میچنگ کلر میں چاہتی ہیں۔ اس روز وہ ”بازارِ شفا“ میں رنگ برنگی آنکھوں (لینس) کی خریداری کے سلسلے میں ہی آئی تھیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ انہوں نے کس کس رنگ کی آنکھیں خریدیں لیکن اتنا اطمینان ضرور ہے کہ وہ بے ضرر سی خاتونِ خانہ تھیں۔ لہٰذا، ان کے ”آنکھیں بدلنے“ سے کسی کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں ہے۔ گھر والے بھی چند دنوں میں ان کی اس عادت سے بخوبی واقف ہوجائیں گے اور ان کی رنگ بدلتی آنکھوں کی پروا نہیں کریں گے۔

    ہم اس بات سے بھی خوف زدہ نہیں ہیں کہ معاشرے کے جرائم پیشہ افراد کنٹیکٹ لینس سے ناجائز فائدہ اٹھائیں گے یعنی کوئی چور کالی آنکھوں کے ساتھ چوری کرنے کے بعد نیلی آنکھیں لگا کر مجمع میں شامل ہو کر ”چور چور، لینا، پکڑنا، جانے نہ پائے“ کی صدائیں لگانے لگے گا۔ ظاہر ہے ہم اس سے کیوں خوف زدہ ہوں۔ یہ دردِ سر تو محکمۂ پولیس کا ہے۔ ہم تو صرف ایسے ”عاشقِ صادق“ کے لئے پریشان ہیں جو اپنی محبوبہ کی نیلی آنکھیں دیکھ کر بڑے پیار سے کہے گا۔ ”جان! تمہاری آنکھوں میں جھیل جیسی گہرائی ہے۔ تمہاری نیلگوں آنکھوں میں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے۔“ اور اس بات پر محبوبہ بجائے شرمانے کے جھٹ لینس نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دے گی۔ ”لو ڈوب سکتے ہو تو ڈوب جاؤ، مرو گے تھوڑی۔“

    عاشق بے چارہ چکرا کر محبوبہ کی طرف دیکھے گا تو نیلگوں آنکھوں میں ”شبِ دیجور“ کی سیاہی نظر آئے گی۔ یا کبھی کسی محبوبہ کو غصہ آیا اور اس کی اصلی آنکھیں لال پیلی ہونے لگیں تو عاشق اسے منانے کی بجائے
    شانِ بے نیازی سے کہے گا۔ ”دیکھو جی! میرے پاس بھی نیلے اور پیلے رنگ کے کنٹیکٹ لینس ہیں۔ اگر تمہاری آنکھیں لال پیلی ہوسکتی ہیں تو میری آنکھیں بھی نیلی پیلی ہوسکتی ہیں۔“ تصّور کیجئے اس وقت بیچاری محبوبہ کی آنکھوں سے برستی برسات کا کیا منظر ہو گا۔

    برستی برسات پر خیال آیا کہ ان آنکھوں کے ساتھ رونا منع ہے کیوں کہ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ آنسوؤں کے ساتھ آنکھیں بھی بہہ جائیں۔ کنٹیکٹ لینس کے استعمال کا ایک نقصان یہ بھی ہوگا کہ کبھی کسی نے غصّے میں آنکھیں دکھانی شروع کیں تو دوسرا نہایت پیار سے داغؔ کا شعر پڑھتے ہوئے اپنے کنٹیکٹ لینس نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دے گا۔

    داغؔ آنکھیں نکالتے ہیں وہ
    اُن کو دے دو نکال کر آنکھیں

    (سینئر صحافی، فکاہیہ نگار حمیرا اطہر کے کالموں کے مجموعہ” بات سے بات” سے انتخاب، ان کی یہ تحریر 1979ء میں پاکستان کے ایک مؤقر جریدے میں شایع ہوئی تھی)

  • مطیع و فرماں بردار میاں

    مطیع و فرماں بردار میاں

    میں ایک میاں ہوں۔ مطیع و فرماں بردار۔

    اپنی بیوی روشن آرا کو اپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آگاہ کرنا اصولِ زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہا ہوں۔ خدا میرا انجام بخیر کرے۔

    چنانچہ میری اہلیہ میرے دوستوں کی تمام عادات و خصائل سے واقف ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دوست جتنے مجھ کو عزیز ہیں اتنے ہی روشن آرا کو برے لگتے ہیں۔ میرے احباب کی جن اداؤں نے مجھے مسحور کر رکھا ہے، انہیں میری اہلیہ ایک شریف انسان کے ليے باعث ذلت سمجھتی ہے۔ آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ خدا نحواستہ وہ کوئی ایسے آدمی ہیں، جن کا ذکر کسی معزز مجمع میں نہ کیا جاسکے۔ کچھ اپنے ہنر کے طفیل اور کچھ خاکسار کی صحبت کی بدولت سب کے سب ہی سفید پوش ہیں لیکن اس بات کو کیا کروں کہ ان کی دوستی میرے گھر کے امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔

    مثلاً مرزا صاحب ہی کو لیجیے۔ اچھے خاصے بھلے آدمی ہیں۔ گو محکمہ جنگلات میں ایک معقول عہدے پر ممتاز ہیں لیکن شکل و صورت ایسی پاکیزہ پائی ہے کہ امام مسجد معلوم ہوتے ہیں۔ جوا نہیں کھیلتے، گلی ڈنڈے کا ان کو شوق نہیں، جیب کترتے ہوئے کبھی وہ نہیں پکڑے گئے۔ البتہ کبوتر پال رکھے ہیں،انھیں سے جی بہلاتے ہیں۔

    ہماری اہلیہ کی یہ کیفیت ہے کہ محلے کا کوئی بدمعاش جوئے میں قید ہوجائے تو اس کی ماں کے پاس ماتم پرسی تک کو چلی جاتی ہیں۔ گلی ڈنڈے میں کسی کی آنکھ پھوٹ جائے تو مرہم پٹی کرتی رہتی ہیں۔ کوئی جیب کترا پکڑا جائے تو گھنٹوں آنسو بہاتی رہتی ہیں لیکن وہ بزرگ جن کو دنیا بھر کی زبان مرزا صاحب مرزا صاحب کہتے تھکتی نہیں، ہمارے گھر میں ’’موئے کبوتر باز‘‘ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ کبھی بھولے سے بھی میں آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کسی چیل، کوے، گدھ، شکرے کو دیکھنے لگ جاؤں تو روشن آرا کو فوراً خیال ہوجاتا ہے کہ بس اب یہ بھی کبوتر باز بننے لگا۔

    اس کے بعد مرزا صاحب کی شان میں ایک قصیدہ شروع ہوجاتا ہے۔ بیچ میں میری جانب گریز۔ کبھی لمبی بحر میں، کبھی چھوٹی بحر میں۔

    ایک دن جب یہ واقعہ پیش آیا، تو میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس مرزا کمبخت کو کبھی پاس نہ پھٹکنے دوں گا، آخر گھر سب سے مقدم ہے۔ میاں بیوی کے باہمی اخلاص کے مقابلے میں دوستوں کی خوشنودی کیا چیز ہے؟ چنانچہ ہم غصے میں بھرے ہوئے مرزا صاحب کے گھر گئے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ کہنے لگے، ’’اندر آجاؤ‘‘ ہم نے کہا، ’’نہیں آتے، تم باہر آؤ‘‘ خیر اندر گیا۔ بدن پر تیل مل کر ایک کبوتر کی چونچ منہ میں لئے دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے ’’بیٹھ جاؤ‘‘ ہم نے کہا ’’بیٹھیں گے نہیں‘‘ آخر بیٹھ گئے، معلوم ہوتا ہے ہمارے تیور کچھ بگڑے ہوئے تھے۔ مرزا بولے، ’’کیوں بھئی؟ خیرباشد!‘‘ میں نے کہا ’’کچھ نہیں۔‘‘ کہنے لگے ’’اس وقت کیسے آنا ہوا؟‘‘

    اب میرے دل میں فقرے کھولنے شروع ہوئے۔ پہلے ارادہ کیا کہ ایک دم ہی سب کچھ کہہ ڈالو اور چل دو۔ پھر سوچا کہ مذاق سمجھے گا، اس ليے کسی ڈھنگ سے بات شروع کرو لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ پہلے کیا کہیں۔ آخر ہم نے کہا،

    ’’مرزا! بھئی کبوتر بہت مہنگے ہوتے ہیں؟‘‘ یہ سنتے ہی مرزا صاحب نے چین سے لے کر امریکہ تک کے تمام کبوتروں کو ایک ایک کرکے گنوانا شروع کیا۔ اس کے بعد دانے کی مہنگائی کے متعلق گل افشانی کرتے رہے اور پھر محض مہنگائی پر تقریر کرنے لگے۔ اس دن تو ہم یوں ہی چلے آئے لیکن ابھی کھٹ پٹ کا ارادہ دل میں باقی تھا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ شام کو گھر میں ہماری صلح ہوگئی۔ ہم نے کہا ’’چلو اب مزرا کے ساتھ بگاڑنے سے کیا حاصل؟‘‘ چنانچہ دوسرے دن مرزا سے بھی صلح صفائی ہوگئی۔

    لیکن میری زندگی تلخ کرنے کے ليے ایک نہ ایک دوست ہمیشہ کارآمد ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فطرت نے میری طبیعت میں قبولیت اور صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کیونکہ ہماری اہلیہ کو ہم میں ہر وقت کسی نہ کسی دوست کی عادات کی جھلک نظر آتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ میری اپنی ذاتی شخصی سیرت بالکل ہی ناپید ہوچکی ہے۔

    (پطرس بخاری کے مزاحیہ مضمون سے چند پارے)

  • "ہم وزیرِ اعظم کی دوڑ میں شامل نہیں…”

    "ہم وزیرِ اعظم کی دوڑ میں شامل نہیں…”

    ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ جمہوریت میں عوام پر جو دو وقت کٹھن گزرتے ہیں ان کی صحیح عکاسی کرنے کے لئے مضطر خیرآبادی کے مصرع کی ترتیب میں ذرا سی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

    مصرع اس طرح لکھا جانا چاہیے۔

    اِک ترے جانے سے پہلے

    اِک ترے آنے کے بعد

    اگر آپ مصرع کی الٹی ترتیب کو بغور پڑھیں تو عوام اور عاشق کے کٹھن وقت کے کرب کی مدد سے حکومتوں اور معشوق کی آمدورفت کے صحیح پس منظر سے کماحقہ لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ ہمارے ایک اور دوست تھے۔ بے حد جذباتی مگر رکھ رکھاؤ والے۔ اس ملک کے تیسرے عام انتخابات میں پہلی بار اپنے ووٹ کا استعمال کرنے کے لئے جب وہ اپنے گھر سے چلے تو کچھ اس شان سے کہ نئی شیروانی اور نئے جوتے پہن رکھے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ زیر جامہ اور رومال بھی نیا تھا۔ آنکھوں میں سرمہ اور کان میں عطر کا پھاہا بھی رکھ چھوڑا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے عید کی نماز پڑھنے کے لیے جا رہے ہوں۔ یا سہرے کے بغیر خود اپنے ’عقد ثانی‘ میں شرکت کی غرض سے جا رہے ہوں۔ جمہوریت کا نیا نیا تجربہ تھا۔ اور ان دنوں عوام میں جوش و خروش بھی بہت پایا جاتا تھا۔ چنانچہ بعض جوشیلے رائے دہندے ایک ہی پولنگ بوتھ پر دس دس بوگس ووٹ ڈال کر آتے تھے۔ آج جب ہم جمہوریت سے اپنے پچاس سالہ شخصی تعلق پر نظر ڈالتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہمارے حقیر اور ادنیٰ سے ووٹ نے جواہر لال نہرو، لال بہادر شاستری اندرا گاندھی، راجیو گاندھی کے علاوہ وی پی سنگھ اور من موہن سنگھ جیسی ہستیوں کو اس ملک کی وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچانے میں مدد کی۔ ان پچاس برسوں تک تو معاملہ ٹھیک ٹھاک چلتا رہا۔ لیکن بعد میں سیاست دانوں کا سماجی اخلاقی اور علمی معیار رفتہ رفتہ گرتا چلا گیا۔

    ہمارے ایک دوست پارلیمنٹ کے رکن ہیں، دہلی میں رہتے ہیں اور انہوں نے ہم پر یہ پابندی عائد کر رکھی ہے کہ ہم کسی محفل میں ان کا تعارف رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے نہ کرائیں۔ کہتے ہیں لاج سی آتی ہے اور آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ اب پارلیمنٹ میں پڑھے لکھے ارکان کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ غیر سماجی عناصر اور جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بعض تو ایسے بھی ہیں جو جیلوں میں بند ہیں۔ تقریباً تین دہائیوں تک اس ملک کی سیاست میں ہماری دل چسپی برقرار رہی۔ لیکن جب پہلی مرتبہ مسز اندرا گاندھی انتخابات میں ہار گئیں تو ہم نے اس بات کا اتنا گہرا اثر قبول کیا کہ دو دنوں تک گھر سے باہر نہیں نکلے۔ بلکہ پریس کلب تک نہیں گئے۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ ہم اپنا ووٹ، ووٹ بینک میں رکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ لہٰذا ہم نے بڑی ہوشیاری سے اپنا ووٹ، ووٹ بینک سے نکالا اور اب اسے حسبِ موقع اور حسبِ ضرورت استعمال کرتے ہیں۔ یوں بھی بینکنگ سے ہمارا کوئی خاص سروکار نہیں ہے۔ لوگوں نے ہمیں بہت کم کسی بینک میں دیکھا ہو گا۔ جب ہم بینکوں میں اپنا پیسہ تک رکھنے کے قابل نہیں ہیں تو اپنے اکلوتے ووٹ کو کسی ووٹ بینک میں کیوں رکھیں۔

    ہمارے ایک اور دوست ہیں جو مسز اندرا گاندھی کی ہار سے اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ جمہوریت سے ہی دست بردار ہو گئے۔ اب نہ تو وہ ووٹ دینے جاتے ہیں نہ کسی انتخابی جلسے کو سنتے ہیں۔ ہم شخصی طور پر جمہوری عمل سے اس قدر بد دل ہونے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ صبح کبھی نہ کبھی تو آئے گی ہی جب ہمارے ووٹ کی حکمرانی پھر سے قائم ہو جائے گی۔ پچھلی دو دہائیوں کا ہمارا تجربہ کہتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس ملک میں کسی ایک پارٹی کی حکمرانی قائم ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ لہذا اب ’مخلوط حکومتوں‘ کا بول بالا ہے۔ مخلوط حکومت بے پیندے کے لوٹوں یا تھالی کی بینگنوں کی مدد سے بنائی جاتی ہے۔ مخلوط حکومت سرکار چلانے کے کرتب تو دکھا سکتی ہے لیکن کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکتی۔ پہلے سیاست دان اس ملک کو اور ملک کے شہریوں کو آپس میں جوڑنے کی بات کرتے تھے۔ مگر اب جوڑ توڑ ہی نہیں بلکہ توڑ توڑ کا چلن عام ہو گیا ہے۔ پہلے کوئی ایک سیاسی پارٹی شہریوں کو لوٹتی تھی مگر اب کئی لٹیرے مل کر پہلے عوام کے ووٹوں کو اور بعد میں ان کے نوٹوں کو لوٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس افراتفری کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اب ہر کس و نا کس اپنے آپ کو اس ملک کا وزیر اعظم بننے کا اہل سمجھنے لگا ہے۔ جس لیڈر کو اس کی تعلیمی لیاقت کی بنیاد پر ایل ڈی سی کو نوکری نہیں مل سکتی اب وہ بھی وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھنے لگا ہے۔

    جمہوریت کا یہی تو فائدہ ہے۔ تاہم ہم اپنے طور پر بہ رضا و رغبت یہ اعلان کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم وزیر اعظم کی دوڑ میں شامل نہیں ہیں۔ اگر کوئی صاحب یا پارٹی ہمیں وزیر اعظم بنانے کا ارادہ رکھتی ہے تو وہ ہمارے بھروسے بالکل نہ رہیں۔

    (مجتبیٰ‌ حسین ہندوستان کے ممتاز مزاح نگار، انشا پرداز، خاکہ نویس اور کالم نگار تھے جن کی یہ مزاحیہ تحریر بھارت میں سیاست اور انتخابات سے متعلق ہے)

  • ”میں تو تابع دار ہوں…“

    ”میں تو تابع دار ہوں…“

    بڑا مبارک ہوتا ہے وہ دن جب کوئی نیا خانساماں گھر میں آئے اور اس سے بھی زیادہ مبارک وہ دن جب وہ چلا جائے! چونکہ ایسے مبارک دن سال میں کئی بار آتے ہیں اور تلخیٔ کام و دہن کی آزمائش کر کے گزر جاتے ہیں۔ اس لیے اطمینان کاسانس لینا، بقول شاعر صرف دو ہی موقعوں پر نصیب ہوتا ہے…

    اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد

    عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بدذائقہ کھانا پکانے کا ہنر صرف تعلیم یافتہ بیگمات کو آتا ہے لیکن ہم اعداد و شمار سے ثابت کر سکتے ہیں کہ پیشہ ور خانساماں اس فن میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے ہنسنا اور کھانا آتا ہے۔ اسی وجہ سے پچھلے سو برس سے یہ فن کوئی ترقی نہیں کر سکے۔

    کچھ دن ہوئے ایک مڈل فیل خانساماں ملازمت کی تلاش میں آنکلا اور آتے ہی ہمارا نام اور پیشہ پوچھا۔ پھر سابق خانساماؤں کے پتے دریافت کیے۔ نیز یہ کہ آخری خانساماں نے ملازمت کیوں چھوڑی؟ باتوں باتوں میں انھوں نے یہ عندیہ بھی لینے کی کوشش کی کہ ہم ہفتے میں کتنی دفعہ باہر مدعو ہوتے ہیں اور باورچی خانے میں چینی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز سے ہمارے اعصاب اور اخلاق پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے۔ ایک شرط انھوں نے یہ بھی لگائی کہ اگر آپ گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑ پر جائیں گے تو پہلے ”عوضی مالک“ پیش کرنا پڑے گا۔

    کافی رد و کدّ کے بعد ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہم میں وہی خوبیاں تلاش کر رہے ہیں جو ہم ان میں ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی اور کام کے اوقات کا سوال آیا تو ہم نے کہا کہ اصولاً ہمیں محنتی آدمی پسند ہیں۔ خود بیگم صاحبہ صبح پانچ بجے سے رات کے دس بجے تک گھر کے کام کاج میں جٹی رہتی ہیں۔ کہنے لگے، ”صاحب! ان کی بات چھوڑیئے۔ وہ گھرکی مالک ہیں۔ میں تو نوکر ہوں!“ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ برتن نہیں مانجھوں گا۔ جھاڑو نہیں دوں گا۔ ایش ٹرے صاف نہیں کروں گا۔ میز نہیں لگاؤں گا۔ دعوتوں میں ہاتھ نہیں دھلاؤں گا۔

    ہم نے گھبرا کر پوچھا، ”پھر کیا کرو گے؟“

    ”یہ تو آپ بتائیے۔ کام آپ کو لینا ہے۔ میں تو تابع دار ہوں۔“

  • بے بسی کچھ نہ کھانے کی

    بے بسی کچھ نہ کھانے کی

    مثل مشہور ہے کہ ”پرہیز سب سے اچھا نسخہ ہے۔“ اور زباں زدِ عام بھی یہی ہے کہ ”پرہیز علاج سے بہتر ہے۔“ گویا معالج کی مجوزہ ادویات اُس وقت مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں جب اُن کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کی ہدایات پر سختی سے عمل کیا جائے جو علاج کا لازمی جزو اور پرہیز کہلاتی ہیں۔
    مصنفہ کی دیگر تحریریں اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    پرہیز اور علاج میں جو بنیادی فرق ہے، وہ بہت واضح ہے۔ علاج کے سلسلے میں جو رقم خرچ کرنی پڑتی ہے، پرہیز کے مرحلے سے گزرتے ہوئے اُس کی بچت ہوجاتی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس کے اور بھی کئی فائدے ہیں۔ ضبطِ نفس کے اس مظاہرے سے دنیا ہی نہیں عاقبت بھی سنورجاتی ہے۔ ایک ذرا دل پر جبر کیا کِیا، بیٹھے بٹھائے ہدایت یافتہ بھی ہوگئے اور جنّت کی کنجی بھی پالی۔
    ہمیں یہ مثل بہت اچھی لگتی ہے، جبھی اس پر عمل بھی کرتے ہیں، لیکن ایک مرتبہ یہی پرہیز ہمارے لیے کڑی آزمائش بن گیا۔ اس سے باعزّت گزر کے ہم سرخرو تو ہو گئے، لیکن کچھ دل ہی جانتا ہے جو دل پر ستم ہوئے۔
    ہُوا یوں کہ دانتوں کی شدید تکلیف ہمیں دندان ساز کے پاس لے گئی۔ ہمارے دانتوں کے ساتھ ڈاکٹر کا برتاؤ اُن کے پیشے کے عین مطابق تھا، سو ہم اُن کو قصور وار نہیں مانتے، لیکن وقتِ رخصت ڈاکٹر کی اس ہدایت نے ہمیں مشکل میں ڈال دیا کہ ”بی بی! دو گھنٹے تک کچھ نہ کھائیے گا۔“ بھوک ہم سے برداشت ہوجاتی ہے، لیکن یہاں تو صورتِ حال ہی مختلف تھی۔ ڈاکٹر کے کلینک سے محض چند قدم کے فاصلے پر احمد رشدی کا ترنّم کسی کے روزگار کے فروغ اور کسی کے ذوقِ طعام کا وسیلہ بنا ہُوا تھا۔
    گول گپے والا آیا گول گپے لایا
    اس سے قبل گول گپے کھانے کی خواہش نے اتنی شدت سے سَر نہ اٹھایا تھا، جتنا اس وقت ستا رہی تھی۔ ہم نے ازلی بے نیازی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے آگے راہ لی تو قلفی والا ہمارے ضبط کا امتحان لینے چلا آیا۔ ہم نے اس سے بھی نظریں چرا لیں۔ چند قدم کے فاصلے پر مونگ پھلی گرم کی صدائیں ہماری سماعت سے ٹکرا رہی تھیں تو دوسری جانب حبیب ولی محمد کی آواز بھی ہماری سماعت پر دستک دے رہی تھی۔
    دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں…
    چونکہ ہمیں بچپن ہی سے پرہیز علاج سے بہتر ہے کا خیال بہت بھلا لگتا ہے، سو ہم نے بدپرہیزی کے نتیجے میں ہونے والے مزید اور ممکنہ علاج سے بچنے کے لیے بچپن کی دوستی پر دھیان دیا اور دیرینہ رفاقت کا بھرم رکھتے ہوئے غیریت کی انتہا کر دی۔
    اُدھر قدم قدم پر ہر گھڑی ہمارے لیے ایک آزمائش تھی۔ یہ لیجیے”صفائی نصف ایمان ہے“ کی اطلاع دینے والے نصف ایمان سے ہاتھ کھینچے خود تو عالمِ برزخ میں کھڑے ہی تھے ہمیں بھی آزمائش میں ڈال دیا۔ گندگی کا ڈھیر چلّا چلّا کر ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔ قلفی، گول گپوں اور مونگ پھلی کی خواہش کو تو ہم نے اچھے وقتوں کے لیے اُٹھا رکھا مگر غلاظت کا انبار دیکھ کر بھی پیچ و تاب کھانے کے عمل سے خود کو باز رکھنا ہمارے لیے کٹھن تھا۔ گو پیچ وتاب کھانے پر پابندی ڈاکٹر کی ہدایت میں شامل نہ تھی لیکن اس عمل کے فوری ردِ عمل کے طور پر ہمیں ایک مرتبہ پھر کلینک کا راستہ ناپنا پڑتا کہ پیچ و تاب کھانے کا عمل دانتوں کی تکلیف کے ممکنہ خاتمہ میں حارج ہوتا۔ بھلا کبھی کسی نے دانت پیسے بغیر پیچ و تاپ کھایا ہے، پرہیز سے وفا نباہنے کا یہ فائدہ تو ہوا کہ ہم مزید عذاب جھیلنے سے بچ گئے۔
    اوّل اوّل تو ڈاکٹر کے تاکیدی فقرے ”بی بی! دو گھنٹے تک کچھ نہ کھائیے گا“ نے ہمیں صبر کی راہ دکھائی تھی، لیکن اگلی ہی ساعت ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ دورانِ گفتگو ہمیں قسم کھانے کی عادت نہیں، ورنہ کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو سکتا تھا۔ قسم کھانے کے لیے ہمیں بتیس دانتوں کے بیچ تولہ بھر زبان بہرحال ہلانی پڑتی۔ خیالات کی یلغار سے جتنا ہم نے بچنا چاہا اُتنا ہی اس کی زد میں رہے۔ ابھی ہماری سوچوں کا سفر جاری تھا کہ اچانک سڑک کے ایک جانب پڑے کوڑے پر ہماری نظر پڑی جو گلی گلی کسی کی یاد کی مانند بچھا رہتا ہے۔ جو رستہ دیکھ کر چلتے ہیں وہ یا تو خود کو بچا لیتے ہیں یا اپنا فشار خون بلند کر لیتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ ہی اور تھا، تڑپنے اور فریاد کی اجازت تو تھی پَر پیچ پر پیچ کھانے کی نہیں۔ سو بیچ سڑک پہ پڑے کوڑے کو ہم نے نظر انداز کرنا چاہا کہ بل کھانے کا حکم نہ تھا، سو ہم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوڑے کا ڈھیر لگانے والوں کو نگلنا چاہا لیکن ہماری بصارت نے بصیرت کے کہے میں آکر تعاون سے انکار کر کے ہماری رہی سہی امید پر پانی پھیر دیا۔
    ہمارا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی بھی طرح یہ دو گھنٹے جو دو صدیوں کے برابر لگ رہے ہیں دو پل میں بیت جائیں، پَر وقت نے کب کسی کی مانی ہے جو ہماری سنتا۔ وقت نے اپنی میعاد پوری کر کے ہی ہمیں آزادی کی نوید دی۔ اب ہم اپنے ہر اُس عمل کے لیے آزاد تھے جس کو کھانے سے نسبت تھی۔ ہاں وقت کی بے نیازی اور بے مہری کا ہمیں بہت گلہ تھا جس کی وقت کو پروا تک نہ تھی۔ اور جب وقت کی بے نیازی کے خلاف احتجاج کا خیال آیا تو وقت بیت گیا تھا کیونکہ دو گھنٹے کی میعاد پوری ہو چکی تھی اور ہم پر سے کچھ نہ کھانے کی قید بھی اٹھا لی گئی تھی۔ پَر اب کچھ کھانے کی خواہش سے ہمارا دل اچاٹ ہو چکا تھا۔
    بات یہیں ختم نہیں ہوئی تھی، اگلے روز بھی ڈاکٹر صاحب نے ہمیں بلایا تھا اور ترتیب وار ان ہی مراحل سے ہمیں گزرنا تھا گویا
    ابھی وقت کے امتحان اور بھی ہیں
    اور ہم نے تہیہ کر لیا تھا کہ جو آج نہ کر سکے وہ کل ضرور کریں گے اور قبل از وقت کریں گے۔ کون سا وقت؟ ارے بھئی وہی ”بد وقت‘‘جس میں بے شک ہم اشیائے خور و نوش سے ہاتھ کھینچ لیں لیکن رہ گزر کے عذاب سے کترا کر گزرنا ہمارے بس میں نہیں۔ سو ہم نے اسی وقت پیچ و تاب کھانا شروع کر دیا…. کس پر؟ کوئی ایک ہو تو ہم بتائیں بھی۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ جانے کیسے قلم کے توسط سے ہماری فسانۂ درد بیان کرنے کی نیت کی خبر عام ہو گئی اور مختلف محکموں کے کشتگانِ ستم قطار بنائے کھڑے ہو گئے۔
    ہر ستم کے مارے کی آرزو تھی کہ پہلے اس کے متعلقہ محکمہ کے دانت کھٹے کریں اور ہمارے قلم کی روشنائی اجازت ہی نہیں دے رہی تھی کہ پردہ نشینوں کو بے نقاب کریں لیکن چشم کشا حقائق سے چشم پوشی بھی تو جرم ہے اور پھر جو شے اظہر من الشّمس ہو اس کا پردہ رکھ کر ہم کون سا ثواب کما لیں گے؟ بس یہی سوچ کر ہم نے قلم کی روشنائی کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا کہ ہمارے اور آپ کے مابین رابطے کا یہ مستند و معتبر حوالہ اگر روٹھ گیا تو؟ سو ہم نے دل پر جبر کر کے خود کو ہر اس خواہش سے باز رکھا جو ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی بجا سکتی تھی۔ خود پر پابندیوں کے اس عمل سے گزرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ہم ڈاکٹر کے پاس گئے اور واپسی میں راستہ بھر بے بسی کی تصویر بنے مہر بہ لب صیاد کے مسکرانے کا تماشہ دیکھتے رہے۔ فضائی آلودگی، جا بجا گندگی کے ڈھیر، شاہراہوں پر لگے اسٹالوں اور دکانوں میں خریداروں پر ہونے والے مہنگائی کے تابڑ توڑ حملوں نے کئی بار ہمیں اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا مگر ہم نے کچھ نہ کھانے کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کھانے کی ہر قسم سے منہ موڑ لیا اور نہایت صبر شکر کے ساتھ یہ برا وقت بھی کاٹ لیا۔

    پیچ و تاب کھانے کے تمام تر سنہرے مواقع ہماری بے بسی پر ہنستے رہے اور ہم اس بے بسی پر شریفانہ احتجاج کرتے رہے۔

    دانتوں کی تکلیف سے تو ہم نے نجات حاصل کر لی لیکن اب بھی وہ برا وقت یاد آتا ہے جب شدید خواہش کے باوجود ہم نے پیچ و تاب نہیں کھایا تھا تو فیضؔ صاحب کا یہ شعر اپنی ساری توانائیوں سمیت ہمیں اپنے حصار میں لے لیتا ہے
    کیا کیا نہ تنہائی میں تجھے یاد کیا ہے
    کیا کیا نہ دلِ زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
    اور ہماری یادیں دستِ صبا تو ہیں نہیں کہ ہم فخریہ سینے سے لگائے پھرتے۔ ہمیں بے بس کرنے والے لمحات تو سینے کے وہ داغ ہیں جو اربابِ اختیار اور عوام النّاس کے باہمی تعاون ہی سے دھل سکتے ہیں۔
  • آیا کرکٹ کھیل کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں؟

    آیا کرکٹ کھیل کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں؟

    ہم آج تک کرکٹ نہیں کھیلے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں اس کی برائی کرنے کا حق نہیں۔

    اب اگر کسی شخص کو کتّے نے نہیں کاٹا، تو کیا اس بد نصیب کو کتّوں کی مذمت کرنے کا حق نہیں پہنچتا؟ ذرا غور کیجیے۔ افیم کی برائی صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو افیم نہیں کھاتے۔ افیم کھانے کے بعد ہم نے کسی کو افیم کی برائی کرتے نہیں دیکھا۔ برائی کرنا تو بڑی بات ہے ہم نے کچھ بھی تو کرتے نہیں دیکھا۔

    اب بھی بات صاف نہیں ہوئی تو ہم ایک اور مستند نظیر پیش کرتے ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد کو گڑ سے سخت چڑ تھی۔ ان کا قول ہے کہ جس نے ایک مرتبہ گڑ چکھ لیا اس کو تمام عمر دوسری مٹھاس پسند نہیں آسکتی چوں کہ وہ خود شکر کی لطیف حلاوتوں کے عادی و مداح تھے، لہذا ثابت ہوا کہ وہ بھی ساری عمر گڑ کھائے بغیر گڑکی برائی کرتے رہے۔

    یوں تو آج کل ہر وہ بات جس میں ہارنے کا امکان زیادہ ہو کھیل سمجھی جاتی ہے۔ تاہم کھیل اور کام میں جو بیّن فرق ہماری سمجھ میں آیا یہ ہے کہ کھیل کا مقصد خالصتاً تفریح ہے۔ دیکھا جائے تو کھیل کام کی ضد ہے جہاں اس میں گمبھیرتا آئی اور یہ کام بنا۔ یہی وجہ ہے کہ پولو انسان کے لئے کھیل ہے اور گھوڑے کے لئے کام۔ ضد کی اور بات ہے ورنہ خود مرزا بھی اس بنیادی فرق سے بے خبر نہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن وہ ٹنڈوالہ یار سے معاوضہ پر مشاعرہ ’’پڑھ‘‘ کے لوٹے تو ہم سے کہنے لگے،’’فی زمانہ ہم تو شاعری کو جب تک وہ کسی کا ذریعہ معاش نہ ہو، نری عیاشی بلکہ بدمعاشی سمجھتے ہیں۔‘‘

    اب یہ تنقیح قائم کی جاسکتی ہے کہ آیا کرکٹ کھیل کے اس معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کرکٹ دراصل انگریزوں کا کھیل ہے اور کچھ انہی کے بلغمی مزاج سے لگا کھاتا ہے۔ ان کی قومی خصلت ہے کہ وہ تفریح کے معاملے میں انتہائی جذباتی ہو جاتے ہیں اور معاملات محبت میں پرلے درجے کے کاروباری۔ اسی خوش گوار تضاد کا نتیجہ ہے کہ ان کا فلسفہ حد درجہ سطحی ہے اور مزاح نہایت گہرا۔

    کرکٹ سے ہماری دل بستگی ایک پرانا واقعہ ہے جس پر آج سو سال بعد تعجب یا تأسف کا اظہار کرنا اپنی ناواقفیتِ عامّہ کا ثبوت دینا ہے۔ 1857 کی رستخیز کے بعد بلکہ اس سے کچھ پہلے ہمارے پرکھوں کو انگریزی کلچر اور کرکٹ کے باہمی تعلق کا احساس ہو چلا تھا۔ چنانچہ سرسیّد احمد خاں نے بھی انگریزی تعلیم و تمدن کے ساتھ ساتھ کرکٹ کو اپنانے کی کوشش کی۔ روایت ہے کہ جب علی گڑھ کالج کے لڑکے میچ کھیلتے ہوتے تو سرسید میدان کے کنارے جا نماز بچھا کر بیٹھ جاتے۔ لڑکوں کا کھیل دیکھتے اور رو رو کر دعا مانگتے،’’الٰہی میری بچّوں کی لاج تیرے ہاتھ ہے۔‘‘

    جیسا کہ اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے، کرکٹ انگریزوں کے لیے مشغلہ نہیں مشن ہے۔ لیکن اگر آپ نے کبھی کرکٹ کی ٹیموں کو مئی جون کی بھری دوپہر میں ناعاقبت اندیشانہ جرأت کے ساتھ موسم کو چیلنج کرتے دیکھا ہے تو ہماری طرح آپ بھی اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ ہمارے ہاں کرکٹ مشغلہ ہے نہ مشن، اچھی خاصی تعزیری مشقت ہے، جس میں کام سے زیادہ عرق ریزی کرنا پڑتی ہے۔ اب اگر کوئی سر پھرا منہ مانگی اجرت دے کر بھی اپنے مزدوروں سے ایسے موسمی حالات میں یوں کام کرائے تو پہلے ہی دن اس کا چالان ہو جائے۔ مگر کرکٹ میں چونکہ عام طور سے معاوضہ لینے کا دستور نہیں، اس لئے چالان کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاتھوں جس طرح ہلکا پھلکا کھیل ترقی کر کے کام میں تبدیل ہو گیا وہ اس کے موجدین کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔ غالب نے شاید ایسی ہی کسی صورت حال سے متاثر ہوکر کہا تھا کہ ہم مغل بچّے بھی غضب ہوتے ہیں، جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں۔

    اور اس کا سبب بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیل کے معاملے میں ہمارا رویہ بالغوں جیسا نہیں، بالکل بچّوں کا سا ہے۔ اس لحاظ سے کہ صرف بچّے ہی کھیل میں اتنی سنجیدگی برتتے ہیں۔ پھر جیسے جیسے بچہ سیانا ہوتا ہے کھیل کے ضمن میں اس کا رویہ غیرسنجیدہ ہوتا چلا جاتا ہے اور یہی ذہنی بلوغ کی علامت ہے۔

    کرکٹ کے رسیا ہم جیسے نا آشنائے فن کو لاجواب کرنے کے لئے اکثر کہتے ہیں، ’’میاں! تم کرکٹ کی باریکیوں کو کیا جانو؟ کرکٹ اب کھیل نہیں رہا، سائنس بن گیا ہے سائنس!‘‘

    عجیب اتفاق ہے۔ تاش کے دھتیا بھی رمی کے متعلق نہایت فخر سے یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ سولہ آنے سائنٹفک کھیل ہے۔ بکنے والے بَکا کریں، لیکن ہمیں رمی کے سائنٹیفک ہونے میں مطلق شبہ نہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ روپیہ ہارنے کا اس سے زیادہ سائنٹیفک طریقہ ہنوز دریافت نہیں ہوا۔ پس ثابت ہوا کہ کرکٹ اور رمی قطعی سائنٹیفک ہیں اور اسی بنا پر کھیل نہیں کہلائے جاسکتے۔ بات یہ ہے کہ جہاں کھیل میں دماغ پر زور پڑا کھیل کھیل نہیں رہتا کام بن جاتا ہے۔

    محض کرکٹ ہی پر منحصر نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں رجحان عام ہے کہ تعلیم نہایت آسان اور تفریح روز بروز مشکل ہوتی جاتی ہے (مثلاً بی اے کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، مگر برج سیکھنے کے لئے عقل درکار ہے) ریڈیو، ٹیلی ویژن، سنیما اور با تصویر کتابوں نے اب تعلیم کو بالکل آسان اور عام کر دیا ہے لیکن کھیل دن بدن گراں اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا بعض غبی لڑکے کھیل سے جی چرا کر تعلیم کی طرف زیادہ توجہ دینے لگے ہیں۔ اس سے جو سبق آموز نتائج رونما ہوئے وہ سیاست دانوں کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہیں۔

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کے مضمون سے اقتباسات)

  • "مسکرائیے!”

    "مسکرائیے!”

    مشتاق احمد یوسفی نے واقعات یا سانحات کو اپنے مزاح کی بنیاد نہیں بنایا بلکہ عام حالات، رویّوں اور معمول کی گفتگو پر شیریں اور شگفتہ تبصرے کیے ہیں۔

    شستگی، ان کے مزاح کا خاص جوہر ہے۔ مزاحیہ ادب کے ایک دور کو ہم اگر کسی نام سے منسوب کرسکتے ہیں تو وہ یوسفی صاحب ہی کا نام ہے۔

    مزاح لکھنے والے کو عام طور پر دو مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ ایک تو تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرنا آسان نہیں‌ ہوتا اور دوسرا کسی کو اُس کی خامیوں کی طرف اس طرح متوجہ کرنا کہ دل شکنی نہ ہو۔ مشتاق یوسفی نے ان دونوں مشکلات کا حل یہ نکالا کہ اپنے طنز میں محبّت اور خیر خواہی کا رنگ شامل کرلیا اور کسی کی تحقیر نہیں کی۔

    بقول ضمیر جعفری ”یوسفی کی جس ادا پر میں خاص فریفتہ ہوں، وہ اُس کی اتھاہ محبت ہے۔ یوسفی اپنے کھیت میں نفرت، کدورت یا دشمنی کا بیج بوتا ہی نہیں۔“

    یہاں ہم اردو کے اس ممتاز مزاح نگار کی تحریروں سے یہ ‘شکر پارے’ آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "محبت اندھی ہوتی ہے، چنانچہ عورت کے لیے خوب صورت ہونا ضروری نہیں، بس مرد کا نابینا ہونا کافی ہوتا ہے۔”

    "آدمی ایک بار پروفیسر ہوجائے تو عمر بھر پروفیسر ہی رہتا ہے، خواہ بعد میں سمجھداری کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے۔”

    "مرض کا نام معلوم ہوجائے تو تکلیف تو دور نہیں ہوتی، الجھن دور ہوجاتی ہے۔”

    "انسان واحد حیوان ہے جو اپنا زہر دل میں رکھتا ہے۔”

    "خون، مشک، عشق اور ناجائز دولت کی طرح عمر بھی چھپائے نہیں چھپتی۔”

  • "آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟”

    "آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟”

    ایک دن مرزا غالب نے مومن خاں مومن سے پوچھا، ’’حکیم صاحب! آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟‘‘

    مومن نے جواب میں کہا، ’’مرزا صاحب! اگر درد سے آپ کا مطلب داڑھ کا درد ہے، تو اس کی کوئی دوانہیں۔ بہتر ہوگا آپ داڑھ نکلوا دیجیے کیوں کہ ولیم شیکسپیر نے کہا ہے‘‘، ’’وہ فلسفی ابھی پیدا نہیں ہوا جو داڑھ کا درد برداشت کر سکے۔‘‘

    مرزا غالب نے حکیم صاحب کی سادہ لوحی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے فرمایا، ’’میری مراد داڑھ کے درد سے نہیں، آپ کی دعا سے ابھی میری تمام داڑھیں کافی مضبوط ہیں۔‘‘

    ’’تو پھر شاید آپ کا اشارہ دردِ سر کی طرف ہے، دیکھیے مرزا صاحب! حکما نے دردِ سر کی درجنوں قسمیں گنوائی ہیں۔ مثلاً آدھے سر کا درد، سر کے پچھلے حصے کا درد، سر کے اگلے حصے کا درد، سر کے درمیانی حصے کا درد، ان میں ہر درد کے لیے ایک خاص بیماری ذمہ دار ہوتی ہے۔ مثلاً اگر آپ کے سر کے درمیانی حصہ میں درد ہوتا ہے تو ممکن ہے آپ کے دماغ میں رسولی ہو۔ اگر کنپٹیوں پر ہوتا ہے تو ہو سکتا ہے آپ کی بینائی کمزور ہو گئی ہو۔ دراصل درد سر کو مرض نہیں مرض کی علامت سمجھا جاتا ہے۔‘‘

    ’’بہرحال چاہے یہ مرض ہے یا مرض کی علامت، مجھے درد کی شکایت نہیں ہے۔‘‘

    ’’پھر آپ ضرور دردِ جگر میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آپ نے اپنے کچھ اشعار میں اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔

    مثلاً؛ یہ خلش کہاں ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

    یا…..حیراں ہوں روؤں دل کو یا پیٹوں جگر کو میں‘‘

    مرزا صاحب، حکما نے اس مرض کے لیے ’’پپیتا‘‘ کو اکسیر قرار دیا ہے۔ کسی تک بند نے کیا خوب کہا ہے۔

    جگر کے فعل سے انساں ہے جیتا
    اگر ضعفِ جگر ہے کھا پپیتا

    ’’آپ کا یہ قیاس بھی غلط ہے۔ میرا آ ج تک اس مرض سے واسطے نہیں پڑا۔‘‘

    ’’تو پھر آپ اس شاعرانہ مرض کے شکار ہو گئے ہیں جسے دردِ دل کہا جاتا ہے اور جس میں ہونے کے بعد میر کو کہنا پڑا تھا،

    الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا
    دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا

    ’’معلوم ہوتا ہے اس ڈومنی نے جس پر مرنے کا آپ نے اپنے ایک خط میں ذکر کیا ہے آپ کو کہیں کا نہیں رکھا۔‘‘

    ’’واہ حکیم صاحب! آپ بھی دوسروں کی طرح میری باتوں میں آ گئے۔ اجی قبلہ کیسی ڈومنی اور کہاں کی ڈومنی وہ تو میں نے یونہی مذاق کیا تھا۔ کیا آپ واقعی مجھے اتنا سادہ لوح سمجھتے ہیں کہ مغل زادہ ہو کر میں ایک ڈومنی کی محبت کا دم بھروں گا۔ دلّی میں مغل زادیوں کی کمی نہیں۔ ایک سے ایک حسین و جمیل ہے۔ انہیں چھوڑ کر ڈومنی کی طرف رجوع کرنا بالکل ایسا ہے جیسا کہ آپ نے اپنے شعر میں بیان کیا ہے؛

    اللہ رے گمرہی! بت و بت خانہ چھوڑ کر
    مومن چلا ہے کعبہ کو اک پارسا کے ساتھ

    ’’خدا نخواستہ کہیں آپ کو جوڑوں کا درد تو نہیں۔ دائمی زکام کی طرح یہ مرض بھی اتنا ڈھیٹ ہے کہ مریض کی ساری عمر جان نہیں چھوڑتا، بلکہ کچھ مریض تو مرنے کے بعد بھی قبر میں اس کی شکایت کرتے سنے گئے ہیں۔ عموماً یہ مرض جسم میں تیزابی مادّہ کے زیادہ ہو جانے سے ہوتا ہے۔‘‘

    ’’تیزابی مادہ کو ختم کرنے کے لیے ہی تو میں ہر روز تیزاب یعنی شراب پیتا ہوں۔ ہومیو پیتھی کا اصول ہے کہ زہر کا علاج زہر سے کیا جانا چاہیے۔ خدا جانے یہ سچ ہے یا جھوٹ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ شراب نے مجھے اب تک جوڑوں کے درد سے محفوظ رکھا ہے۔‘‘

    ’’پھر آپ یقینا دردِ گردہ میں مبتلا ہیں۔ یہ درد اتنا ظالم ہوتا ہے کہ مریض تڑپ تڑ کر بے حال ہو جاتا ہے۔‘‘

    ’’میرے گردے ابھی تک سلامت ہیں شاید اس لیے کہ میں بڑے دل گردے کا انسان ہوں۔‘‘

    ’’اگر یہ بات ہے تو پھر آپ کو محض وہم ہو گیا ہے کہ آپ کو درد کی شکایت ہے اور وہم کی دوا نہ لقمان حکیم کے پاس تھی نہ حکیم مومن خاں مومنؔ کے پاس ہے۔‘‘

    ’’قبلہ میں اس درد کا ذکر کر رہاہوں جسے عرفِ عام میں ’’زندگی‘‘ کہتے ہیں۔‘‘

    ’’اچھا، زندگی! اس کا علاج تو بڑا آسان ہے ، ابھی عرض کیے دیتا ہوں۔‘‘

    ’’ارشاد۔ ‘‘

    ’’کسی شخص کو بچھو نے کاٹ کھایا۔ درد سے بلبلاتے ہوئے اس نے ایک بزرگ سے پوچھا، اس درد کا بھی کوئی علاج ہے، بزرگ نے فرمایا، ’’ہاں ہے اور یہ کہ تین دن چیختے اور چلاتے رہو۔ چوتھے دن درد خود بخود کافور ہو جائے گا۔‘‘

    ’’سبحان اللہ! حکیم صاحب، آپ نے تو گویا میرے شعر کی تفسیر کر دی۔‘‘

    ’’کون سے شعر کی قبلہ؟‘‘

    ’’اس شعر کی قبلہ…

    غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
    شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

    نیند کیوں رات بھر…..

    ایک مرتبہ مرزا غالب نے شیخ ابراہیم ذوقؔ سے کہا، ’’شیخ صاحب! نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟‘‘ ذوق نے مسکراکر فرمایا۔ ظاہر ہے جس کمرے میں آپ سوتے ہیں ، وہاں اتنے مچھر ہیں کہ وہ رات بھر آپ کو کاٹتے رہتے ہیں۔ اس حالت میں نیند آئے بھی تو کیسے؟

    معلوم ہوتا ہے یا توٓپ کے پاس مسہری نہیں اور اگر ہے تو اتنی بوسیدہ کہ اس میں مچھر اندر گھس آتے ہیں۔ میری مانیے تو آج ایک نئی مسہری خرید لیجیے۔‘‘

    غالب نے ذوقؔ کی ذہانت میں حسبِ معمول اعتماد نہ رکھتے ہوئے جواب دیا، ’’دیکھیے صاحب! آخر ہم مغل زادے ہیں، اب اتنے گئے گزرے بھی نہیں کہ ہمارے پاس ایک ثابت و سالم مسہری بھی نہ ہو اور جہاں تک کمرے میں مچھروں کے ہونے کا سوال ہے۔ ہم دعویٰ سے کہ سکتے ہیں، جب سے ڈی ڈی ٹی چھڑکوائی ہے ایک مچھر بھی نظر نہیں آتا۔ بلکہ اب تو مچھروں کی گنگناہٹ سننے کے لیے ہمسائے کے ہاں جانا پڑتا ہے۔‘‘

    ’’تو پھر آپ کے پلنگ میں کھٹمل ہوں گے۔‘‘

    ’’کھٹملوں کے مارنے کے لیے ہم پلنگ پر گرم پانی انڈیلتے ہیں، بستر پر کھٹمل پاؤڈر چھڑکتے ہیں۔ اگر پھر بھی کوئی کھٹمل بچ جائے تو وہ ہمیں اس لیے نہیں کاٹتا ہے کہ ہمارے جسم میں اب لہو کتنا رہ گیا ہے۔ خدا جانے پھر نیند کیوں نہیں آتی۔‘‘

    ’’معلوم ہوتا ہے آپ کے دماغ میں کوئی الجھن ہے۔‘‘

    ’’بظاہر کوئی الجھن نظر نہیں آتی۔ آپ ہی کہیے بھلا مجھے کون سی الجھن ہو سکتی ہے۔‘‘ گستاخی معاف! سنا ہے آپ ایک ڈومنی پر مرتے ہیں، اور آپ کو ہماری بھابی اس لیے پسند نہیں کیوں کہ اسے آپ کے طور طریقے نا پسند ہیں۔ ممکن ہے آپ کے تحت الشعور میں یہ مسئلہ چٹکیاں لیتا رہتا ہو۔ ’’آیا امراؤ بیگم کو طلاق دی جائے یا ڈومنی سے قطع تعلق کر لیا جائے۔‘‘

    ’’واللہ! شیخ صاحب آپ کو بڑی دور کی سوجھی! ڈومنی سے ہمیں ایک شاعرانہ قسم کا لگاؤ ضرور ہے لیکن جہاں تک حسن کا تعلق ہے وہ امراؤ بیگم کی گرد کو نہیں پہنچتی۔‘‘

    ’’تو پھر یہ بات ہو سکتی ہے آپ محکمہ انکم ٹیکس سے اپنی اصلی آمدنی چھپا رہے ہیں اور آپ کو یہ فکر کھائے جاتا ہے۔ کسی دن آپ کے گھر چھاپہ پڑ گیا تو ان اشرفیوں کا کیا ہوگا جو آپ نے زمین میں دفن کر رکھی ہیں اور جن کا پتہ ایک خاص قسم کے آلہ سے لگایا جا سکتا ہے۔‘‘

    ’’اجی شیخ صاحب! کیسی اشرفیاں! یہاں زہر کھانے کو پیسہ نہیں شراب تو قرض کی پیتے ہیں اور اسی خود فریبی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہماری فاقہ کشی رنگ لائے گی۔ اگر ہمارے گھر چھاپہ پڑا تو شراب کی خالی بوتلوں اور آم کی گٹھلیوں کے علاوہ کوئی چیز نہیں ملےگی۔‘‘

    ’’اچھا وہ جو آپ کبھی کبھی اپنے گھر کو ایک اچھے خاصے قمار خانہ میں تبدیل کر دیتے ہیں، اس کے متعلق کیا خیال ہے۔‘‘

    ’’واہ شیخ صاحب! آپ عجیب باتیں کرتے ہیں، تھوڑا بہت جوا تو ہر مہذب شخص کھیلتا ہی ہے اور پھر ہر کلب میں بڑے بڑے لوگ ہر شام کو ’’برج‘‘ وغیرہ کھیلتے ہیں۔ جوا آخر جوا ہے چاہے وہ گھر پر کھیلا جائے یا کلب میں۔‘‘

    ’’اگر یہ بات نہیں تو پھر آپ کو کسی سے حسد ہے۔ آپ ساری رات حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں اور میر کے اس شعر کو گنگناتے ہیں؛

    اندوہ سے ہوئی نہ رہائی تمام شب
    مجھ دل زدہ کو نیند نہ آئی تمام شب‘‘

    ’’بخدا شیخ صاحب! ہم کسی شاعر کو اپنا مد مقابل ہی نہیں سمجھتے کہ اس سے حسد کریں۔ معاف کیجیے، آپ حالانکہ استادِ شاہ ہیں۔ لیکن ہم نے آپ کے متعلق بھی کہا تھا۔ ذوق کی شاعری بانگ دہل ہے اور ہماری نغمۂ چنگ۔‘‘

    ’’مرزا صاحب! یہ تو صریحاً زیادتی ہے۔ میں نے ایسے شعر بھی کہے ہیں جن پر آپ کو بھی سر دھننا پڑا ہے۔‘‘

    ’’لیکن ایسے اشعار کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔‘‘

    ’’یہ ہے آپ کی سخن فہمی کا عالم اور کہا تھا آپ نے،

    ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں‘‘

    ’’اگر ہم سخن فہم نہ ہوتے تو آپ کے کلام پر صحیح تبصرہ نہ کر سکتے۔ خیر چھوڑیے بات تو نیند نہ آنے کی ہو رہی تھی۔‘‘

    ’’کسی ڈاکٹر سے اپنا بلڈ پریشر چیک کرائیے۔ ہو سکتا ہے وہ بڑھ گیا ہو۔‘‘

    ’’قبلہ! جب بدن میں بلڈ ہی نہیں رہا تو پریشر کے ہونے یا بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

    ’’پھر ہر رات سونے سے پہلے کسی ایسی گولی کا سہارا لیجیے جس کے کھانے سے نیند آجائے۔ آج کل بازار میں ایسی گولیاں عام بک رہی ہیں۔‘‘

    ’’انہیں بھی استعمال کر چکے ہیں۔ نیند تو انہیں کھا کر کیا آتی البتہ بے چینی اور بھی بڑھ گئی۔ اس لیے انہیں ترک کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔‘‘

    ’’کسی ماہرِ نفسیات سے مشورہ کیجیے شاید وہ کچھ۔‘‘

    ’’وہ بھی کر چکے ہیں۔‘‘

    ’’تو کیا تشخیص کی اس نے؟‘‘

    ’’کہنے لگا، آپ کے تحت الشعور میں کسی ڈرنے مستقبل طور پر ڈیرا ڈال رکھا ہے۔ اس سے نجات حاصل کیجیے۔ آپ کو نیند آنے لگے گی۔‘‘

    ’’یہ تو بڑا آسان ہے، آپ اس ڈر سے نجات حاصل کیوں نہیں کر لیتے۔‘‘

    ’’لیکن ہمیں پتہ بھی تو چلے وہ کون سا ڈر ہے۔‘‘

    ’’اسی سے پوچھ لیا ہوتا۔‘‘

    ’’پوچھا تھا۔ اس نے جواب دیا، اس ڈر کا پتہ مریض کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا۔‘‘

    ’’کسی لائق ایلو پیتھک ڈاکٹر سے ملیے، شاید وہ۔۔۔‘‘

    ’’اس سے بھی مل چکے ہیں۔ خون، پیشاب، تھوک، پھیپھڑے، دل اور آنکھیں ٹیسٹ کرنے کے بعد کہنے لگا، ان میں تو کوئی نقص نہیں معلوم ہوتا ہے۔ آپ کو نیند سے الرجی ہو گئی ہے۔‘‘

    ’’علاج کیا بتایا؟‘‘

    ’’کوئی علاج نہیں بتایا۔ دلیل یہ دی کہ الرجی ایک لاعلاج مرض ہے۔‘‘

    ’’آپ اگر اجازت دیں تو خاکسار جو کہ نہ حکیم ہے نہ ڈاکٹر بلکہ محض ایک شاعر آپ کے مرض کا علاج کر سکتا ہے۔‘‘

    ’’ضرور کیجیے۔‘‘

    ’’دیکھیے! اگر آپ کو نیند رات بھر نہیں آتی تو آپ رات کے بجائے دن میں سویا کیجیے۔ یعنی رات کو دن اور دن کو رات سمجھا کیجیے۔‘‘

    ’’سبحان اللہ! کیا نکتہ پیدا کیا ہے۔ تعجب ہے ہمیں یہ آج تک کیوں نہیں سوجھا۔‘‘

    ’’سوجھتا کیسے‘‘، آپ تو اس وہم میں مبتلا ہیں؛

    آج مجھ سا نہیں زمانے میں
    شاعرِ نغر گوئے خوش گفتار

    ’’شیخ صاحب آپ نے خوب یاد دلایا۔ بخدا ہمارا یہ دعویٰ تعلی نہیں حقیقت پر مبنی ہے۔‘‘

    ’’چلیے یوں ہی سہی۔ جب تک آپ استاد شاہ نہیں ہیں مجھے آپ سے کوئی خطرہ نہیں۔‘‘

    ’’یہ اعزاز آپ کو ہی مبارک ہو۔ ہمیں تو پینے کو ’’اولڈ ٹام‘‘ اور کھانے کو ’’آم‘‘ ملتے رہیں۔ ہم خدا کا شکر بجا لائیں گے۔‘‘

    دراصل شراب پی پی کر آپ نے اپنا اعصابی نظام اتنا کمزور کر لیا ہے کہ آپ کو بے خوابی کی شکایت لاحق ہو گئی۔ اس پر ستم یہ کہ توبہ کرنے کی بجائے آپ فخر سے کہا کرتے ہیں۔ ’’ہر شب پیا ہی کرتے ہیں، مے جس قدر ملے۔‘‘

    ’’بس بس شیخ صاحب رہنے دیجیے، ورنہ مجھے آپ کو چپ کرانے کے لیے آپ کا ہی شعر پڑھنا پڑے گا۔‘‘

    ’’کون سا شعر قبلہ؟‘‘

    ’’رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تُو
    تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘‘

    (اردو ادب کے معروف طنز و مزاح نگار کنہیا لال کپور کے قلم کی شوخیاں)

  • شوکت تھانوی اور شامتِ اعمال

    شوکت تھانوی اور شامتِ اعمال

    شوکت تھانوی ایک ہمہ جہت تخلیق کار تھے جنھوں نے صحافت اور اردو ادب میں بڑا نام و مقام بنایا۔ انھوں‌ نے ناول، افسانے اور ڈرامے لکھے۔ شاعری اور کالم نگاری بھی کی۔ مختلف موضوعات پر سنجیدہ اور ادبی مضامین بھی تحریر کیے۔ یوں‌ انھوں نے ہر صنفِ ادب کو اپنی فکر اور تخلیقی وفور کے اظہار کا وسیلہ بنایا، مگر زیادہ شہرت ایک مزاح نگار کے طور پر حاصل کی۔

    اردو ادب کی اس ممتاز ہستی نے آپ بیتی بھی رقم کی تھی جس سے ایک دل چسپ اور شگفتہ پارہ ہم اپنے باذوق قارئین کے لیے یہاں نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "تمنا تھی تو صرف یہ کہ میرا کلام کسی رسالے میں چھپ جائے۔ آخر یہ حسرت بھی پوری ہو گئی اور لکھنؤ کے ایک رسالے میں جس کے نام ہی سے اس کا معیار ظاہر ہے یعنی ’’ترچھی نظر‘‘ میری ایک غزل چھپ گئی۔”

    "کچھ نہ پوچھیے میری خوشی کا عالم، میں نے وہ رسالہ کھول کر ایک میز پر رکھ دیا تھا کہ ہر آنے جانے والی کی نظر اس غزل پر پڑ سکے۔ مگر شامتِ اعمال کہ سب سے پہلے نظر والد صاحب کی پڑی اور انہوں نے یہ غزل پڑھتے ہی ایسا شور مچایا کہ گویا چور پکڑ لیا ہو۔ والدہ محترمہ کو بلا کر کہا، ’’آپ کے صاحب زادے فرماتے ہیں:

    ہمیشہ غیر کی عزت تری محفل میں ہوتی ہے
    ترے کوچہ میں ہم جا کر ذلیل و خوار ہوتے ہیں

    میں پوچھتا ہوں کہ یہ جاتے ہی کیوں ہیں۔ کس سے پوچھ کر جاتے ہیں؟

    والدہ بے چاری سہم کر رہ گئیں اور خوف زدہ آواز میں بولیں،’’غلطی سے چلا گیا ہو گا۔‘‘

    (کتاب کچا چٹّھا، کچھ یادیں کچھ باتیں، آپ بیتی سے انتخاب)