Tag: مزاح گوئی

  • "یا مرض نہ رہے گا یا ہم نہ رہیں گے!”

    "یا مرض نہ رہے گا یا ہم نہ رہیں گے!”

    جب مرض بہت پرانا ہو جائے اور صحت یابی کی کوئی امید باقی نہ رہے تو زندگی کی تمام مسرتیں محدود ہو کر بس یہیں تک رہ جاتی ہیں کہ چارپائی کے سرہانے میز پر جو انگور کا خوشا رکھا ہے اس کے چند دانے کھا لیے، مہینے دو مہینے کے بعد کوٹھے پر غسل کر لیا یا گاہے گاہے ناخن ترشوا لیے۔

    مجھے کالج کا مرض لاحق ہوئے اب کئی برس ہو چکے ہیں۔ شباب کا رنگین زمانہ امتحانوں میں جوابات لکھتے لکھتے گزر گیا۔ اور اب زندگی کے جو دو چار دن باقی ہیں وہ سوالات مرتب کرتے کرتے گزر جائیں گے۔ ایم اے کا امتحان گویا مرض کا بحران تھا۔

    یقین تھا کہ اس کے بعد یا مرض نہ رہے گا یا ہم نہ رہیں گے۔ سو مرض تو بدستور باقی ہے اور ہم… ہر چند کہیں کہ ہیں، نہیں ہیں۔

    طالب علمی کا زمانہ بے فکری کا زمانہ تھا۔ نرم نرم گدیلوں پر گزرا، گویا بستر عیش پر دراز تھا۔ اب تو صاحبِ فراش ہوں۔ اب عیش صرف اس قدر نصیب ہے کہ انگور کھا لیا۔ غسل کر لیا۔ ناخن ترشوا لیے۔ تمام تگ و دو لائبریری کے ایک کمرے اور اسٹاف کے ایک ڈربے تک محدود ہے اور دونوں کے عین درمیان کا ہر موڑ ایک کمین گاہ معلوم ہوتا ہے۔

    (پطرس بخاری کے مضمون "اب اور تب” سے اقتباس)

  • مرید پور کے پیر اور ان کا بھتیجا!

    مرید پور کے پیر اور ان کا بھتیجا!

    میرا بھتیجا دیکھنے میں عام بھتیجوں سے مختلف نہیں۔ میری تمام خوبیاں اس میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ نئی پود سے تعلق رکھنے کے باعث اس میں بعض فالتو اوصاف نظر آتے ہیں۔ لیکن ایک صفت تو اس میں ایسی ہے کہ آج تک ہمارے خاندان میں اس شدت کے ساتھ کبھی رونما نہیں ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ بڑوں کی عزت کرتا ہے۔ اور میں تو اس کے نزدیک بس علم و فن کا ایک دیوتا ہوں۔

    یہ خبط اس کے دماغ میں کیوں سمایا ہے؟ اس کی وجہ میں یہی بتا سکتا ہوں کہ نہایت اعلیٰ سے اعلیٰ خاندانوں میں بھی کبھی کبھی ایسا دیکھنے میں آ جاتا ہے۔ میں شائستہ سے شائستہ دو زمانوں کے فرزندوں کو بعض وقت بزرگوں کا اس قدر احترام کرتے دیکھا، کہ ان پر پنچ ذات کا دھوکا ہونے لگتا ہے۔

    ایک سال میں کانگریس کے جلسے میں چلا گیا۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ کانگریس کا جلسہ میرے پاس چلا آیا۔ مطلب یہ کہ جس شہر میں، میں موجود تھا وہیں کانگریس والوں نے بھی اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی ٹھان لی۔

    جب کانگریس کا سالانہ جلسہ بغل میں ہو رہا ہو تو کون ایسا متقی ہو گا جو وہاں جانے سے گریز کرے، زمانہ بھی تعطیلات اور فرصت کا تھا چنانچہ میں نے مشغلۂ بیکاری کے طور پر اس جلسے کی ایک ایک تقریری سنی۔ دن بھر تو جلسے میں رہتا۔ رات کو گھر آ کر اس دن کے مختصر سے حالات اپنے بھتیجے کو لکھ بھیجتا تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔

    بعد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بھتیجے صاحب میرے ہر خط کو بے حد ادب و احترام کے ساتھ کھولتے، بلکہ بعض بعض باتوں سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس افتتاحی تقریب سے پیش تر وہ باقاعدہ وضو بھی کر لیتے۔ خط کو خود پڑھتے پھر دوستوں کو سناتے۔ پھر اخباروں کے ایجنٹ کی دکان پر مقامی لال بجھکڑوں کے حلقے میں اس کو خوب بڑھا چڑھا کر دہراتے، پھر مقامی اخبار کے بے حد مقامی ایڈیٹر کے حوالے کر دیتے جو اس کو بڑے اہتمام کے ساتھ چھاپ دیتا۔

    یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس اخبار نے میرے ان خطوط کے بل پر ایک کانگریس نمبر بھی نکال مارا جو اتنی بڑی تعداد میں چھپا کہ اس کے اوراق اب تک بعض پنساریوں کی دکانوں پر نظر آتے ہیں۔ بہرحال مرید پور کے بچے بچے نے میری قابلیت، انشا پردازی، صحیح الدماغی اور جوشِ قومی کی داد دی۔

    میری اجازت اور میرے علم کے بغیر مجھ کو مرید پور کا قومی لیڈر قرار دیا گیا۔ ایک دو شاعروں نے مجھ پر نظمیں بھی لکھیں۔ جو وقتاً فوقتاً مرید پور گزٹ میں چھپتی رہیں۔

    میں اپنی اس عزت افزائی سے محض بے خبر تھا۔ سچ ہے خدا جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے، مجھے معلوم تھا کہ میں اپنے بھتیجے کو محض چند خطوط لکھ کر اپنے ہم وطنوں کے دل میں اس قدر گھر کر لیا ہے۔

    (پطرس بخاری کے مزاحیہ مضمون "مرید پور کا پیر” سے انتخاب)

  • غزلیں اور نظمیں فراہم کرنے والا ادارہ!

    غزلیں اور نظمیں فراہم کرنے والا ادارہ!

    ”جناب والا! میں بچپن ہی سے اس نظریہ کا قائل ہوں کہ شعرا تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک پیدائشی شاعر، دوسرا موروثی شاعر اور تیسرا نمائشی شاعر۔

    ان دنوں ہر طرف نمائشی شعرا کی بھر مار ہے جو کہیں سے غزلیں، سہ غزلیں لکھوا کر لاتے ہیں، انہیں مشاعروں میں پڑھ کر نام کماتے ہیں۔ چوں کہ میں ابتدا ہی سے پیدائشی شاعر رہا ہوں اس لیے میں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ بڑا ہو کر ایک ایسی کمپنی قائم کروں گا جہاں سے نمائشی شعرا کو سستے داموں پر غزلیں اور نظمیں فراہم کی جائیں۔

    چناں چہ میں نے نہایت قلیل سرمائے سے کمپنی کا آغاز کیا۔ میں نے ایک سیکنڈ ہینڈ قلم اور ایک سیکنڈ ہینڈ دوات خریدی اور مستقبل کی طرف روانہ ہوگیا۔

    ابتدا میں میرا طریقہ کار یہ تھا کہ میں اپنے ہاتھ میں قلم پکڑ کر گلی گلی، آوازیں لگاتا پھرتا کہ ’غزل لکھوائیے، نظم کی اصلاح کروائیے۔ وہ دن میرے لیے سخت آزمائش کے تھے۔ جب ہر طرف پیدائشی شاعر نظر آیا کرتے تھے، لیکن رفتہ رفتہ نمائشی شعرا بھی نمودار ہونے لگے اور میرا کاروبار چل پڑا۔

    آج اس کمپنی کا پروپرائٹر ہوں۔ اب چار پیدائشی شعرا کے علاوہ ایک میوزک ڈائریکٹر کی خدمات بھی حاصل کرلی ہیں۔ پھر میں نے اپنی کمپنی میں ایک نیا شعبہ بھی قائم کیا ہے جسے شعبہ سامعین کا نام دیا گیا ہے۔ اس شعبے کے ذمہ یہ کام ہے کہ وہ مشاعروں میں سامعین کو روانہ کرے اور کمپنی کی فراہم کردہ غزلوں پر کچھ ایسی داد دے کہ اچھے خاصے نمائشی شاعر پر ”پیدائشی شاعر“ کا گمان ہونے لگ جائے۔

    چناں چہ میں فی سامع سواری خرچ کے علاوہ دو روپے چارج کرتا ہوں۔ میرا یہ شعبہ بھی دن دونی رات چوگنی ترقی کررہا ہے کیوں کہ مشاعرے زیادہ تر راتوں ہی میں منعقد ہوتے ہیں۔

    (ممتاز مزاح نگار مجتبیٰ حسین کی شگفتہ تحریر سے انتخاب)