Tag: مزاح گو شاعر

  • عنایتُ اللہ حجّام کیوں‌ مشہور ہے؟ (دل چسپ تذکرہ)

    عنایتُ اللہ حجّام کیوں‌ مشہور ہے؟ (دل چسپ تذکرہ)

    عنایت اللہ، حجّام عرف کلّو قوم (پیشے) کے حجّام تھے۔ اسی مناسبت سے تخلّص بھی حجّام رکھا تھا۔ انہیں سودا کی شاگردی پر بہت ناز تھا۔ ان کے سوا کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔

    مصحفی نے ان کے کلام کی تعریف میں لکھا ہے کہ وہ باوجود کم علم ہونے کے شعر خوب کہتے تھے۔ ان کے اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ باریک بیں تھے۔ اور ندرتِ مضمون سے کلام کو جِلا دیتے تھے۔ مزاج میں ظرافت تھی۔ غزلوں کے مقطع میں اکثر اپنے پیشے کے رعایت سے مضمون باندھتے تھے۔ جو خوب بامزہ ہوتے تھے۔ میر حسن نے لکھا ہے کہ مدرسہ غازی الدّین خاں کے قریب ان کی شعر و سخن کی محفل جما کرتی تھی۔

    مختلف تذکرہ نگاروں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ عنایت اللہ حجّام کے مزاج میں شوخی اس قدر تھی کہ وہ اپنے آپ کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ چنانچہ ان کی غزلوں کے مقطعے اسی وجہ سے محفلوں میں مزہ دے جاتے تھے اور ان پر خوب واہ وا ہوتی تھی۔ اوّل تو وہ خود قوم کے حجّام اس پر مستزاد یہ کہ تخلّص بھی حجّام۔ پھر اس تخلّص کی رعایت سے اپنے پیشے کی کار گزاریاں۔ یہ کیفیت پوری محفل کو لوٹ پوٹ کرنے کے لیے کافی تھی۔ یہ اشعار دیکھیے۔

    اس شوخ کے کوچے میں نہ جایا کرو حجّام
    چھن جائیں گے اک دن کہیں ہتھیار تمہارے

    روز رخسار کے لیتا ہے مزے خوباں کے
    بہتر اس سے کوئی حجّام ہنر کیا ہوگا

    حجّام کو ایک طرف تو مشاعروں میں کافی مقبولیت حاصل تھی۔ خواہ اس کی وجہ ان کا ظریفانہ انداز بیان ہو یا اپنے پیشے کے مضامین کا مضحک اظہار۔ دوسرے اس زمانے کے ایک بڑے استادِ فن سے انہیں تلمذ حاصل تھا۔ جو ان جیسے کم علم اور بے رتبہ لوگوں کے لیے فخر کی بات تھی۔ اس کے علاوہ اس زمانے کے بہت بڑے متقی اور پرہیز گار صوفی محمد فخر الدّین سے انہیں بیعت حاصل تھی۔ جس سے ان کی سماجی حیثیت بھی بڑھ گئی تھی۔ چنانچہ وہ اپنے محلّے میں اپنی عرفیت کلو سے نہیں بلکہ شاہ جی کے لقب سے مشہور تھے۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ پھر اپنے سامنے کسی کی کوئی حقیقت نہ سمجھی۔

    میر نے نکاتُ الشّعرا میں عنایتُ اللہ حجّام کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ہوسکتا ہے کہ اپنی مقبولیت کے پیشِ نظر انہیں یہ بات بری لگی ہو اور میر کے مقابلے پر آئے ہوں۔ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اپنے استاد کی حمایت میں انہوں نے بلاوجہ عداوت مول لی ہو۔ جیسا کہ قائم اور مجذوب نے حقِ شاگردی ادا کیا تھا۔

    (ماخوذ از’’اردو کے ابتدائی ادبی معرکے‘‘)

  • آ کے ہم کو بھی ”تا” کرے کوئی!

    آ کے ہم کو بھی ”تا” کرے کوئی!

    بابائے ظرافت سید ضمیر جعفری کو ہم سے بچھڑے بیس برس بیت چکے ہیں۔ اردو ادب میں‌ نثر ہو یا نظم طنز و مزاح کے لیے مشہور شخصیات میں‌ ضمیر جعفری‌ کا نام اپنے موضوعات اور شائستہ انداز کی وجہ سے سرِفہرست رہے گا۔

    سماج کے مختلف مسائل، خوبیوں اور خامیوں‌ کو اجاگر کرنے کے ساتھ انھوں نے ہماری تفریحِ طبع کا خوب سامان کیا۔

    سید ضمیر جعفری نے ہمیشہ پُر وقار انداز میں بامقصد تفریح کا موقع دیا۔ ان کی یہ غزل آپ کو ضرور مسکرانے پر مجبور کردے گی۔

    نمکین غزل
    شب کو دلیا دلا کرے کوئی
    صبح کو ناشتہ کرے کوئی

    آدمی سے سلوک دنیا کا
    جیسے انڈا تلا کرے کوئی

    سوچتا ہوں کہ اس زمانے میں
    دادی اماں کو کیا کرے کوئی

    جس سے گھر ہی چلے نہ ملک چلے
    ایسی تعلیم کیا کرے کوئی

    ایسی قسمت کہاں ضمیرؔ اپنی
    آ کے پیچھے سے ”تا” کرے کوئی

  • مرید پور کے پیر اور ان کا بھتیجا!

    مرید پور کے پیر اور ان کا بھتیجا!

    میرا بھتیجا دیکھنے میں عام بھتیجوں سے مختلف نہیں۔ میری تمام خوبیاں اس میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ نئی پود سے تعلق رکھنے کے باعث اس میں بعض فالتو اوصاف نظر آتے ہیں۔ لیکن ایک صفت تو اس میں ایسی ہے کہ آج تک ہمارے خاندان میں اس شدت کے ساتھ کبھی رونما نہیں ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ بڑوں کی عزت کرتا ہے۔ اور میں تو اس کے نزدیک بس علم و فن کا ایک دیوتا ہوں۔

    یہ خبط اس کے دماغ میں کیوں سمایا ہے؟ اس کی وجہ میں یہی بتا سکتا ہوں کہ نہایت اعلیٰ سے اعلیٰ خاندانوں میں بھی کبھی کبھی ایسا دیکھنے میں آ جاتا ہے۔ میں شائستہ سے شائستہ دو زمانوں کے فرزندوں کو بعض وقت بزرگوں کا اس قدر احترام کرتے دیکھا، کہ ان پر پنچ ذات کا دھوکا ہونے لگتا ہے۔

    ایک سال میں کانگریس کے جلسے میں چلا گیا۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ کانگریس کا جلسہ میرے پاس چلا آیا۔ مطلب یہ کہ جس شہر میں، میں موجود تھا وہیں کانگریس والوں نے بھی اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی ٹھان لی۔

    جب کانگریس کا سالانہ جلسہ بغل میں ہو رہا ہو تو کون ایسا متقی ہو گا جو وہاں جانے سے گریز کرے، زمانہ بھی تعطیلات اور فرصت کا تھا چنانچہ میں نے مشغلۂ بیکاری کے طور پر اس جلسے کی ایک ایک تقریری سنی۔ دن بھر تو جلسے میں رہتا۔ رات کو گھر آ کر اس دن کے مختصر سے حالات اپنے بھتیجے کو لکھ بھیجتا تاکہ سند رہے اور وقت ضرورت کام آئے۔

    بعد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بھتیجے صاحب میرے ہر خط کو بے حد ادب و احترام کے ساتھ کھولتے، بلکہ بعض بعض باتوں سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس افتتاحی تقریب سے پیش تر وہ باقاعدہ وضو بھی کر لیتے۔ خط کو خود پڑھتے پھر دوستوں کو سناتے۔ پھر اخباروں کے ایجنٹ کی دکان پر مقامی لال بجھکڑوں کے حلقے میں اس کو خوب بڑھا چڑھا کر دہراتے، پھر مقامی اخبار کے بے حد مقامی ایڈیٹر کے حوالے کر دیتے جو اس کو بڑے اہتمام کے ساتھ چھاپ دیتا۔

    یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس اخبار نے میرے ان خطوط کے بل پر ایک کانگریس نمبر بھی نکال مارا جو اتنی بڑی تعداد میں چھپا کہ اس کے اوراق اب تک بعض پنساریوں کی دکانوں پر نظر آتے ہیں۔ بہرحال مرید پور کے بچے بچے نے میری قابلیت، انشا پردازی، صحیح الدماغی اور جوشِ قومی کی داد دی۔

    میری اجازت اور میرے علم کے بغیر مجھ کو مرید پور کا قومی لیڈر قرار دیا گیا۔ ایک دو شاعروں نے مجھ پر نظمیں بھی لکھیں۔ جو وقتاً فوقتاً مرید پور گزٹ میں چھپتی رہیں۔

    میں اپنی اس عزت افزائی سے محض بے خبر تھا۔ سچ ہے خدا جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے، مجھے معلوم تھا کہ میں اپنے بھتیجے کو محض چند خطوط لکھ کر اپنے ہم وطنوں کے دل میں اس قدر گھر کر لیا ہے۔

    (پطرس بخاری کے مزاحیہ مضمون "مرید پور کا پیر” سے انتخاب)