Tag: مسئلہ فلسطین

  • مسئلہ فلسطین کا حل دوعلیحدہ ریاستوں کا قیام ہے ،  چینی قونصل جنرل

    مسئلہ فلسطین کا حل دوعلیحدہ ریاستوں کا قیام ہے ، چینی قونصل جنرل

    لاہور : چینی قونصل جنرل ژاؤشیرین کا کہنا ہے کہ چین کا غزہ پر موقف واضح ہے۔ مسئلہ فلسطین کا حل دوعلیحدہ ریاستوں کا قیام ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چینی قونصل جنرل ژاؤشیرین نے اے آر وائی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا اسرائیل حماس جنگ کے بارے میں کہا کہ غزہ پر چین کی پالیسی کلیئرہےکہ اس کا حل 2علیحدہ ریاستوں کا قیام ہے، چینی قوم اور حکومت فلسطینیوں کے لئے ہمدردی رکھتی ہے۔

    چینی قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ فلسطینی پورا حق رکھتے ہیں کہ وہ مشرق وسطی میں علیحدہ ریاست قائم کریں۔

    ژاؤشیرین نے کہا کہ روایتی اورتاریخی طور پر یہ علاقہ فلسطینیوں کا وطن ہے، ہم سویلین پر طاقت کےاستعمال اورجانوں کے ضیاع کےخلاف ہیں، مسئلے کا حل طاقت کا استعمال نہیں بلکہ عالمی ثالثی میں مذاکرات ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ چین نے اپنا خصوصی نمائندہ بھی وہاں بھیجا تاکہ ثالثی سےحل نکل سکے، فلسطین کےمعاملے پر ہماری پالیسی تاریخ کی درست سمت کی طرف ہے۔

  • مسئلہ فلسطین کا فوری حل ناگزیر ہوگیا، نگراں وزیراعظم

    مسئلہ فلسطین کا فوری حل ناگزیر ہوگیا، نگراں وزیراعظم

    نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا فوری حل ناگزیر ہے، مشرقی وسطیٰ میں پائیدارامن دو ریاستی حل میں مضمر ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نگراں وزیراعظم کا اپن ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ مسئلہ فلسطین کا فوری حل ناگزیر ہے۔ مشرق وسطیٰ میں پنپنے والی پرتشدد صورتحال پر افسردہ ہوں۔ صورتحال مسئلہ فلسطین کے فوری حل کی متقاضی ہے۔

    انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ہم شہریوں کی حفاظت، دونوں اطراف سے تحمل کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کا امن دو ریاستی حل میں پوشیدہ ہے۔

    انھوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کا حل خودمختار ریاست فلسطین میں مخفی ہے۔ فلسطین کو فوری طور پر خودمختار ریاست، القدس کو دارالحکومت بنایا جائے۔

  • اسرائیل سے مذاکرات؟ سعودی عرب کا اہم اعلان

    ریاض: سعودی عرب فلسطین کے دو ریاستی حل کے اصولی موقف پر ڈٹ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی وزیرِ خاجہ کا کہنا ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حل تک وہ اسرائیل سے مذاکرات نہیں کریں گے، مشرقِ وسطیٰ میں امن صرف فلسطین کو آزاد ریاست کا حق دینے سے ہی آئے گا۔

    مڈل ایسٹ مانیٹر کے مطابق شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے جمعرات کو اعلان کیا کہ فلسطینی ریاست کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آ سکیں گے۔

    ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے بلومبرگ ٹی وی کو بتایا کہ ’’ہم نے مسلسل کہا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر آنا ایک ایسی چیز ہے جو خطے کے مفاد میں ہے، لیکن حقیقی سطح پر تعلقات تب ہی معمول پر آ سکیں گے جب فلسطینیوں کو امید دلائی جائے گی، اور فلسطینیوں کو عزت دی جائے گی۔‘‘

    بلومبرگ کے مطابق وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے ہماری پیشگی شرط فلسطینی ریاست کے قیام کا معاہدہ ہے۔

    سعودی عرب نے یمن اور فلسطین سے متعلق مؤقف واضح کر دیا

    واضح رہے کہ اسرائیل نے 2020 میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ’ابراہم معاہدہ‘ کیا تھا، یہ معاہدہ سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے، اقتصادی معاہدوں کے قیام اور سماجی تبادلوں کو سپورٹ کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

  • فلسطین: تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں…

    فلسطین: تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں…

    انتظار حسین کے افسانے’’ شرمُ الحرم‘‘ کے مرکزی کردار کی نیند اُڑ گئی ہے۔ وہ آنکھیں بند کرتا ہے تو اسے یوں لگتا ہے جیسے وہ بیتُ المقدس میں ہے اور لڑ رہا ہے۔

    انتظار حسین کا یہ کردار ہماری قوم کا ضمیر ہے۔ ہماری قوم جو گزشتہ نصف صدی سے بیتُ المقدس میں ہے اور لڑ رہی ہے، اقبال اس محاذ کے مجاہدِ اوّل تھے۔ وہ آزادیٔ فلسطین کے محاذ پر عربوں سے بھی پہلے پہنچے۔ اقبال نے اس جنگ کو اپنی قومی آزادی کی جنگ کا اٹوٹ سمجھا اور اس کی تہ در تہ معنویت کو آشکار کیا۔ ان کے نزدیک فلسطین کی آزادی اتنی اہمیت رکھتی تھی کہ دسمبر 1931ء میں وہ عالمِ اسلام کے نمائندوں کی کانفرنس میں شرکت کی خاطر لندن میں ہندی مسلمانوں کی آزادی کے مذاکرات کو ادھوڑا چھوڑ کر بیتُ المقدس جا پہنچے تھے۔

    اقبالؔ نے اقوامِ مشرق کو اس جہانِ پیر کی موت کی بشارت ہی نہ دی تھی جسے فرنگ نے قمار خانہ بنا رکھا تھا بلکہ آزادی کی منزل سَر کرتے ہوئے مشرق کو مغرب کے نو آبادیاتی اور سامراجی عزائم سے خبردار بھی کیا تھا۔ اقبال کی زندگی کا نصف آخر مشرق اور بالخصوص اسلامی مشرق کو مغرب کی تہذیبی اور سیاسی استعمار سے نجات کی راہیں سمجھانے اور اپنی خودی کی پرورش کی ترغیب دینے میں صرف ہوا۔ اپنی زندگی کے آخری چند برسوں میں اقبال کو تقسیمِ فلسطین کے تصوّر نے مسلسل بے چین رکھا۔

    اقبال نے اُس وقت سے ہی فکری اور عملی پیش بندیاں شروع کردی تھیں جب برطانوی سامراج ابھی مسئلہ فلسطین ایجاد کرنے میں کوشاں تھا۔ اس محاذ پر بھی اقبال نے اپنی سیاسی فکر اور اپنے فنی اعجاز ہر دو سے کام لیا مگر برطانیہ اور دنیائے عرب میں رائے عامّہ کی بیداری اور کل ہند مسلم لیگ کی عملی جدوجہد کے باوجود برطانوی سامراج اپنے ارادوں پر قائم رہا اور بالآخر فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ نافذ ہو کے رہا۔ اقبال کے خیال میں یہ مسئلہ یہودیوں کے لیے وطن کی تلاش کی خاطر ایجاد نہیں کیا گیا بلکہ در حقیقت یہ مشرق کے دروازے پر مغربی سامراج کے فوجی اڈے کی تعمیر کا شاخسانہ ہے۔ وہ اسے عالمِ اسلام کے قلب میں ایک ناسور سے تعبیر کرتے ہیں:

    رندانِ فرانسیس کا مے خانہ سلامت
    پُر ہے مئے گلرنگ سے ہر شیشہ حلب کا
    ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
    ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا؟
    مقصد ہے ملوکیتِ انگلیس کا کچھ اور
    قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رَطَب کا!

    رائل کمیشن کی رپورٹ میں تقسیمِ فلسطین کی تجویز نے اقبال کو اس قدر مضطرب کیا کہ رپورٹ کے شائع ہوتے ہی اقبال نے لاہور کے موچی دروازے میں ایک احتجاجی جلسۂ عام کا اہتمام کروایا۔ اس اجتماع میں اقبال کا جو بیان پڑھا گیا وہ سیاسی بصیرت اور پیش بینی کی بدولت دنیائے اسلام کی جدید سیاسی فکر میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔ اس بیان میں اقبال نے مغربی سامراج کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ دنیائے اسلام کو خود احتسابی کا درس بھی دیا ہے، وہ اس المیے کو دو بڑی عبرتوں کا آئینہ دار بتاتے ہیں۔ اوّل یہ کہ دنیائے اسلام کی سیاسی ہستی کی بقا کا راز عربوں اور ترکوں… عرب و عجم کے اتحاد میں مضمر ہے اور دوّم یہ کہ:

    ’’عربوں کو چاہیے کہ اپنے قومی مسائل پر غور و فکر کرتے ہوئے عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ بہ حالاتِ موجودہ ان بادشاہوں کی حیثیت ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ وہ محض اپنے ضمیر و ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی فیصلے یا کسی صائب نتیجے پر پہنچ سکیں۔‘‘

    اقبال کا یہ بیان تحریکِ آزادیٔ فلسطین کو عرب بادشاہوں کی مسندِ اقتدار سے متصادم دیکھتا ہے اور قرار دیتا ہے کہ مسئلہ فلسطین مسلمانوں کو موجودہ عالمی اداروں سے برگشتہ کر کے بالآخر اپنی علیحدہ جمعیتِ اقوام کے قیام کے امکانات پر غور کرنے پر مجبور کر دے گا:

    تہران ہو اگر عالمِ مشرق کا جنیوا
    شاید کرۂ اَرض کی تقدیر سنور جائے

    اقبال نے عرب عوام کو عرب بادشاہوں سے بیزاری کا درس صرف اپنی سیاسی تحریروں میں ہی نہیں دیا بلکہ جمالِ فن سے بھی اس درس کو دل نشین بنایا ہے:

    یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
    گلیمِ بو ذر و دلقِ اویس و چادرِ زہرا

    پیرِ حرم تو حفظِ حرم کے تقاضوں کو پسِ پشت ڈال چکا ہے، اس لیے اب اقبال کی آخری امید عرب عوام ہیں جن سے اقبال یوں مخاطب ہیں:

    زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
    میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
    تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
    فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے
    سنا ہے میں نے غلامی سے اُمتوں کی نجات
    خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے

    مگر اقبال کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور ہماری طرح دنیائے عرب بھی اپنی خودی کی پرورش سے کہیں زیادہ غیر کے دست و بازو پر ناز کرتی رہی۔ نتیجہ یہ کہ فروری 1949ء کی پسپائی نے اسرائیل کو قدموں تلے روند ڈالنے اور صفحۂ ہستی سے مٹا کر دَم لینے کے نعروں کا طلسم توڑ کر رکھ دیا۔ اس شکست نے مصر میں شہنشاہیت کے خلاف فوجی انقلاب کو ممکن بنایا اور صدر ناصر کی زیرِ قیادت تمام عرب دنیا میں انقلاب کی صدائیں گونجنے لگیں۔ برطانیہ اور فرانس کی مشترکہ یلغار کے مقابلے میں مصر کی ثابت قدمی اور کامرانی نے غریب عوام کو وہ اعتمادِ ذات اور غرورِ نفس بخشا جو، ن م راشد کی نظم ’’دل مرے صحرا نوردِ پیر دل‘‘ میں جلوہ گر ہے۔ ریگِ صحرا میں تمناؤں کے بے پایاں الاؤ کے قریب بیٹھ کر راشد اپنے ہم نفسوں سے یوں مخاطب ہیں:

    سالکو، فیروز بختو، آنے والے قافلو!
    شہر سے لوٹو گے تم تو پاؤ گے
    ریت کی سرحد پہ جو روحِ ابد خوابیدہ تھی
    جاگ اٹھی ہے ’’شکوہ ہائے نے‘‘ سے وہ
    ریت کی تہ میں جو شرمیلی سحر روئیدہ تھی
    جاگ اٹھی ہے حرّیت کی لَے سے وہ
    ریگ شب بیدار ہے، سنتی ہے ہر جابر کی چاپ
    ریگِ شب بیدار ہے، نگراں ہے مانندِ نقیب
    دیکھتی ہے سایۂ آمر کی چاپ!
    ریگ ہر عیار غارت گر موت کی!
    ریگ استبدار کے طغیاں کے شور و شر کی موت
    ریگ جب اٹھتی ہے، اڑ جاتی ہے ہر فاتح کی نیند
    ریگ کے نیزوں سے زخمی سب شہنشاہوں کے خواب
    ریگ، اے صحرا کی ریگ
    مجھ کو اپنے جاگتے ذروں کے خوابوں کی
    نئی تعبیر دے

    سوئز کے بحران کے گرد و پیش عرب بیداری کی بلند لہر سے وابستہ توقعات کے پس منظر میں جون 67ء کی جنگ میں عربوں کی آناً فاناً شکست نے ہمارے تخلیقی فن کار کی انا کو شدید چوٹ لگائی اور وہ منظور عارف کا ہم زباں ہو کر چیخ اٹھا:

    میں نے دیکھا، نہیں محسوس کیا ہے
    پھر بھی اک درد کی شدت ہے میرے سینے میں
    شکل کیا دیکھوں کئی داغ ہیں آئینے میں (آئینے کے داغ)

    اپنے داغ داغ چہرے اور اپنی زخم زخم ہستی کا اندمال اُسے اسلام کی انقلابی روح کی بازیافت میں نظر آیا اور یوں اس کی انسان دوستی کا رخ نمایاں طور پر اسلامی ہوگیا۔ اس کے ذہن کی گہرائیوں میں ہلچل مچانے والے سوال کو ابنِ انشاؔ نے یوں لب گویا عطا کیا:

    ’’آدھی دُنیا سوشلسٹ ہوچکی ہے اور باقی آدھی آزاد اور خود مختار…اور یہ سب مل کر اقوامِ متحدہ کے ایوانوں پر حاوی۔ لیکن ان کی مجموعی مادّی اور اخلاقی قوّت اسرائیل کی جارحیت کے معاملے میں صرف ایک بڑے اور امیر ملک کے ویٹو اور دھونس کی وجہ سے بیکار ہو کر رہ گئی ہے۔ بیروت کے تل زعتر کیمپ سے خاک و خون میں لتھڑے ہوئی عرب کی فغاں اٹھ رہی ہے اور کوئی سننے اور دست گیری کرنے والا نہیں۔‘‘

    اس ظلم پر ضمیر عالم خاموش کیوں ہے؟ انسان دوستی اور امن پسندی کے علم بردار دانشور مسلمانوں کو انسان کیوں نہیں سمجھتے ہو؟ اور خود مسلمان ویت نامی حرّیت پسندوں کا طرزِ عمل کیوں نہیں اپناتے؟ بیچارگی، تنہائی اور بے عملی کے اس صحرا میں ہمارے ادب نے اسلامی تاریخ سے توانائی اخذ کرنے کی ٹھانی:

    رن سے آتے تھے تو باطبلِ ظفر آتے تھے
    ورنہ نیزوں پہ سجائے ہوئے سَر آتے تھے

    اور….
    ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
    راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصی تیرا
    (احمد ندیم قاسمی)

    فیض احمد فیض صحرائے سینا میں گرم معرکۂ کار زار میں خدا کا جلوہ دیکھتے ہیں اور حرّیت پسندوں کی سرفروشی اور جاں سپاری کو قرآنی اور صوفیانہ استعاروں میں بیان کرتے ہیں:

    پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیٔ سینا
    پھر رنگ پہ ہے شعلۂ رخسارِ حقیقت
    پیغامِ اجل دعوتِ دیدارِ حقیقت
    اے دیدۂ بینا
    اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے
    اب قاتلِ جاں چارہ گرِ کلفتِ غم ہے!
    گلزارِ ارم پرتوِ صحرائے عدم ہے
    پندارِ جنوں
    حوصلہ راہِ عدم ہے کہ نہیں ہے!
    پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیٔ سینا، اے دیدۂ بینا

    آزمائش و ابتلا کی اس گھڑی میں فیضؔ اہلِ ایمان کے پندارِ جنوں کو پکارتے ہیں:

    پھر دل کو مصفا کرو، اس لوح پہ شاید
    مابینِ من و تو نیا پیماں کوئی اترے
    اب رسمِ ستم حکمتِ خاصانِ زمیں ہے
    تائیدِ ستم مصلحتِ مفتیٔ دیں ہے
    اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے
    لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے

    یہ رجائیت اُس رومانی انقلابیت سے پھوٹی ہے ، جس کی جڑیں حقیقت کی سرزمین میں زیادہ گہری نہیں ہیں اور جس پر مجھے فلسطینی شاعرہ فَدویٰ طوقان کی ڈائری کا ایک ورق یاد آتا ہے:

    ’’عرب رجعت پسندی روز بروز قوت پکڑ رہی ہے۔ اس کی وجہ وہ دولت ہے جو ریگ زاروں سے پھوٹ نکلی ہے … اور عرب ترقی پسندی ہنوزِ عالمِ طفلی میں ہے۔ اس کی عقل ابھی خام ہے لیکن اس کی زبان کافی دراز ہے۔‘‘

    عرب ترقی پسندی کے باب میں ہماری رومانی تصوریت کو حقیقت آشنا کرنے کا فریضہ تنقید، تراجم اور سفر ناموں نے سر انجام دیا ہے۔ جدید عربی اور ہم عصر فلسطینی ادب کے تنقید و تجزیہ اور ترجمہ و تعارف کا کام محمد کاظم نے جس دقّتِ نظر اور جس جرأتِ فکر کے ساتھ سر انجام دیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ محمد کاظم کے زیرِ اثر ادیبوں کا ایک پورا گروہ فلسطینی ادب کے تراجم میں مصروف ہے اور احمد ندیم قاسمی، امجد اسلام امجد، محمود شام، منو بھائی، کشور ناہید اور اظہر سہیل وغیرہ کے تراجم نے اردو میں مزاحمتی ادب کا ایک نیا دبستان کھول دیا ہے۔ اس دبستان کی بدولت نغمۂ حرّیت کی لَے ہمارے دلوں کو گرما رہی ہے اور ہمارے ذہنوں کو فلسطینی طرزِ فکر و احساس سے آشنا کر رہی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کا سفر نامہ’’ خانہ بدوش‘‘ اور مظہر الاسلام کا افسانہ ’’ زمین کا اغوا‘‘ پڑھنے کے بعد ابن انشا کا یہ سوال اور زیادہ شدت کے ساتھ ذہن کو تہہ و بالا کرنے لگتا ہے:

    اور….. اہل عرب
    جن کے اجداد نے
    شرق سے غرب تک
    شہسواری بھی کی، تاجداری بھی کی
    شہر و صحرا میں آواره و بے وطن ہیں
    حیفہ و جافہ و ناصره کے مکیں
    سالہا سال سے بے مکاں سَر فشاں
    دشت بھی غیر کا، شہر بھی غیر کا
    بحر بھی غیر کا
    اے خداوندِ افلاکیاں خاکیاں
    کیا عرب کو بھی آوارہ ہونا پڑے گا
    یعنی صدیوں تلک
    یوں ہی دیوارِ گریہ پہ رونا پڑے گا؟
    (دیوارِ گریہ)

    یہ تو ہے اس المیے کی انسانی سطح مگر اس بربادی کی ایک اس سے بھی برتر سطح ہے ۔ یہ سطح اس ظلم کی اسلامی معنویت سے عبارت ہے۔ اس معنویت کو انتظار حسین نے اپنی کہانیوں میں معجزۂ فن بنایا ہے۔

    (اقتباسات: فلسطین… اُردو ادب میں، از پروفیسر فتح محمد ملک)

  • اسرائیلی قبضہ ختم کرنے، دو خود مختار ریاستوں کے قیام کے لیے فوری مذاکرات کی ضرورت ہے: صدر یو این جنرل اسمبلی

    اسرائیلی قبضہ ختم کرنے، دو خود مختار ریاستوں کے قیام کے لیے فوری مذاکرات کی ضرورت ہے: صدر یو این جنرل اسمبلی

    اسلام آباد: اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکر نے کہا ہے کہ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے اور دو خود مختار ریاستوں کا قیام عمل میں لانے کے لیے فوری مذاکرات کی ضرورت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یو این جنرل اسمبلی کے صدر وولکن بوزکر آج اسلام آباد میں نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی میں خطاب کر رہے تھے، انھوں نے کہا مشرق وسطیٰ میں امن تک جنرل اسمبلی آرام سے نہیں بیٹھے گی۔

    انھوں نے کہا جنرل اسمبلی نے پچھلے ہفتے فلسطین کی صورت حال پر میٹنگ بلائی تھی، تاکہ سیکیورٹی کونسل کی خاموشی کا ازالہ ہو سکے، کیوں کہ اس اہم معاملے پر بے عملی یو این کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے، امید ہے سیکیورٹی کونسل سے اہم مسئلے پر متفقہ آواز سنائی دے گی۔

    وولکن بوزکر نے کہا فلسطین میں قوانین کی خلاف ورزی ہوئی، سیکڑوں فلسطینیوں کی جان چلی گئی، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، مذاکرات کی فوری ضرورت ہے تاکہ اسرائیلی قبضے کو ختم کیا جا سکے، اور 2 خود مختار ریاستوں کا قیام عمل میں آ سکے جو امن سے رہیں، یہ 1967 سے قبل کی سرحدوں میں ہوں، یروشلم دونوں کا دارالحکومت ہو۔

    انھوں نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا شاہ محمود نے فلسطینیوں کے لیے مضبوط مؤقف اور حمایت کا اظہار کیا، مجھے جموں و کشمیر کی صورت حال کا بھی بخوبی علم ہے، جنوبی ایشیا میں خوش حالی کا دار و مدار پاک بھارت تعلقات پر ہے، خطے میں خوش حالی کے لیے ضروری ہے تنازعہ کشمیر کا حل نکالیں۔

    صدر یو این جنرل اسمبلی نے مزید کہا مجھے ادراک ہے کہ عام پاکستانی کشمیر کے حوالے سے کیا محسوس کرتا ہوگا، بھارت اور پاکستان اس مسئلے کے پر امن حل کے راستے پر چلیں۔ وولکن بوزکر نے مسئلہ فلسطین اور کشمیر میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی اور کہا ہمیشہ فریقین پر زور دیا زمینی حقائق کو تبدیل نہ کیا جائے، متنازع علاقے کی حیثیت کو بدلنے سے گریز کیا جائے، تنازعہ کشمیر بھی اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ مسئلہ فلسطین۔

    وولکن بوزکر کا کہنا تھا افغانستان میں امن کی بحالی بھی اشد ضروری ہے، پاکستان نے کئی ملین افغان مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے، میں پاکستانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں، پاکستانیوں نے مصیبت کی گھڑی میں افغان کمیونٹی کو پناہ دی، پاکستان، افغانستان کو آپس میں جدا نہیں کیا جا سکتا۔

  • وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی آج اقوام متحدہ جنرل اسمبلی  میں مسئلہ فلسطین اٹھائیں گے

    وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی آج اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں مسئلہ فلسطین اٹھائیں گے

    اسلام آباد : وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی آج اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں مسئلہ فلسطین اٹھائیں گے ، وزیر خارجہ کا خطاب پاکستان کے میڈیا پربھی براہ راست نشر کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کااجلاس آج نیو یارک میں منعقدہوگا، اجلاس پاکستانی وقت کےمطابق شام7 بجے منعقدہوگا۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ اجلاس میں ترکی فلسطین پرحالیہ اسرائیلی جارحیت پرقراردادپیش کرےگا، پاکستان اس قراردادکااسپانسرہو گا، قراردادپرپاکستان اورترکی دیگرممالک کی حمایت کے حصول کیلئے کوشاں ہیں، بیشترممالک نےقراردادپرحمایت کی یقین دہانی کرا دی ہے، جس کے بعد جنرل اسمبلی میں پاکستان اورترکی کی مطلوبہ اکثریت کا حصول متوقع ہے۔

    سفارتی ذرائع کے مطابق قراردادمیں 4 نکات پرزوردیاجائےگا، فلسطینیوں کاقتل عام فوری طورپررکوائےجانےکامطالبہ کیاجائےگا، موجودہ صورتحال کو اسرائیلی جارحیت کےطورپرمتعارف کرانےکامطالبہ ہوگا، اسرائیل کےجنگی جرائم پراس کےاحتساب کی بات کی جائے گی اور القدس شریف کے بطور دارلحکومت فلسطینی ریاست پر زور دیا جائے گا۔

    ترجمان نے کہا ہے کہ شاہ محمودنیویارک میں جنرل اسمبلی اجلاس میں مسئلہ فلسطین اٹھائیں گے، پاکستان مسئلہ فلسطین سےمتعلق سفارتی کوششیں جاری رکھےہوئےہے ، اسرائیلی افواج کےفضائی حملوں میں فلسطینی بچےاورخواتین شہیدہوئیں۔

    شاہ محمودقریشی مختلف ممالک کےوزرائےخارجہ ، جنرل اسمبلی صدرسمیت اہم شخصیات سےملاقاتیں کریں گے جبکہ پاکستانی سفارتخانےمیں منعقدہ کمیونٹی ایونٹ میں شرکت کریں گے اور نیویارک میں مقامی و بین الاقوامی میڈیاکےساتھ گفتگوکریں گے،ذرائع

    اس دوران وزیرخارجہ فلسطین صورت حال ، اہم علاقائی و عالمی امورپرپاکستان کا نکتہ نظرپیش کریں گے ، پاکستان نےفلسطین پرحالیہ اسرائیلی جارحیت پر پروایکٹو کردارادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    ترجمان دفترخارجہ زاہد حفیظ نے کہا فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کےتناظرمیں پاکستان عالمی فورمز پر فرنٹ پرہے، پاکستان اس معاملےپرتمام دستیاب عالمی فورم کوفعال کررہاہے، اوآئی سی کےحالیہ اجلاس میں پاکستان قراردادکاپرائم موورتھا۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل اجلاس میں اسلامی ملکوں کےساتھ ملکر کوششیں کی گئیں، امریکا نے سلامتی کونسل اجلاس میں ویٹوکااختیاراستعمال کرلیا، جنرل اسمبلی میں امریکا کے پاس قراردادکوویٹوکرنےکااختیارنہیں ،دفتر خارجہ

    زاہد حفیظ نے مزید کہا کہ پاکستان اب جنرل اسمبلی میں فلسطین پرانتہائی اہم کرداراداکررہاہے، اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں دیگراسلامی ملکوں سےموثررابطہ موجودہے، اجلاس میں اسرائیلی جارحیت پرہرپہلوسےغورہوگا۔

  • ”ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے”

    ”ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے”

    اسرائیلی درندوں کی مشین گنوں سے نکلتی گولیوں سے خون میں نہاتی، گولہ بارود کے سبب ملبے کا ڈھیر بنتی ارضِ فلسطین کئی عشروں سے اقوامِ عالم کی بے حسی کا ماتم کررہی ہے۔ مظلوم فلسطینی امنِ عالم کے داعی اور انسانیت کا درس دینے والے ممالک کی خاموشی اور بے بسی پر تعجب کرتے ہیں۔

    آج ایک بار پھر فلسطین میں‌ ہر طرف آگ اور خون دکھائی دے رہا ہے۔ حالیہ دنوں‌ میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ اور فضائی حملوں میں بچّوں سمیت کئی مظلوم فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور صورتِ حال بگڑتی جارہی ہے۔

    پاکستان کے نام ور شاعر فیض احمد فیضؔ نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف 1983ء میں ایک نظم ”ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے” لکھی تھی۔ ان کی اس نظم میں شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے اور فتح کی نوید سنائی گئی ہے۔ نظم ملاحظہ کیجیے۔

    ”ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے”

    ہم جیتیں گے
    حقا ہم اک دن جیتیں گے
    بالآخر اک دن جیتیں گے

    کیا خوف زیلغارِ اعدا
    ہے سینہ سپر ہر غازی کا

    کیا خوف زیورشِ جیشِ قضا
    صف بستہ ہیں ارواحُ الشہدا
    ڈر کاہے کا

    ہم جیتیں گے
    حقا ہم اک دن جیتیں گے

    قد جاءَ الحقُّ و زھَق الباطل

    فرمودۂ ربِّ اکبر
    ہے جنت اپنے پاؤں تلے
    اور سایۂ رحمت سر پر ہے
    پھر کیا ڈر ہے

    ہم جیتیں گے
    حقا ہم اک دن جیتیں گے
    بالآخر اک دن جیتیں گے

  • غزہ میں صہیونی فورسز کی فائرنگ سے 5 فلسطینی شہید

    غزہ میں صہیونی فورسز کی فائرنگ سے 5 فلسطینی شہید

    مقبوضہ بیت المقدس: فلسطین میں صہیونی فورسز کی جارحیت جاری ہے، غزہ میں سرحد کے قریب صہیونی فورسز نے فائرنگ کر کے 5 فلسطینی شہید کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق صہیونی فورسز کی فائرنگ سے غزہ میں پانچ فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کر لیا ہے، صہیونی فورسز نے ہیلی کاپٹر اور ٹینک سے بم باری بھی کی۔

    فلسطینی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ ان پر مسلح افراد کی جانب سے تین راکٹ فائر کیے گئے تھے۔

    صیہونی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی عمریں چوبیس سے تیس سال کے درمیان تھیں۔

    ادھر میڈیا رپورٹس کے مطابق فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کے شمال میں بیت لاھیا کے شمال مغربی مقامات پر اسرائیلی جنگی ہیلی کاپٹروں نے متعدد اہداف پر بمباری کی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  شمالی غزہ میں اسرائیلی ہیلی کاپٹروں کی متعدد اہداف پر بمباری

    اسرائیلی فوج کا دعویٰ تھا کہ غزہ سے داغے گئے تین میزائلوں میں سے دو کو دفاعی نظام کے ذریعے ہدف تک پہنچنے سے قبل ہی فضا میں تباہ کر دیا گیا تھا۔

    اسرائیلی فوج کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ فلسطینیوں کا ایک گروپ شمالی غزہ کی سرحد سے دراندازی کی کوشش کر رہا ہے۔

    واضح رہے کہ صہیونی فوج نے 10 اگست کو بھی چار فلسطینیوں کو شہید کر دیا تھا، جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ سرحد عبور کر رہے تھے۔

    گزشتہ روز فلسطین میں غزہ پٹی میں ہفتہ وار احتجاج کے دوران اسرائیلی فوج سے تصادم کے دوران ایک فلسطینی شہید جب کہ 30 سے زائد افراد زخمی ہو گئے تھے۔

  • دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پہلا قدم مسئلہ فلسطین ہونا چاہیے،کویتی اسپیکر

    دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پہلا قدم مسئلہ فلسطین ہونا چاہیے،کویتی اسپیکر

    کویٹ سٹی : کویتی اسپیکر نے صیہونی ریاست اسرائیل کی دہشتگردی پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اسرائیل کو عالمی پارلیمان سے بے دخل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کویتی پارلیمنٹ مجلس الام کے اسپیکر مرزوق الغانم نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز مسئلہ فلسطین کے حل سے کیا جانا چاہیے۔ کویت صہیونی ریاست کو عالمی پارلیمنٹ سے بے دخل کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہا ہے۔

    فلسطینی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اخباری نمائندوں کے ایک وفد سے ملاقات میں کویتی پارلیمنٹ کے اسپیکر کا کہنا تھا کہ کویت عالمی پارلیمنٹ سے اسرائیلی ریاست کو نکال باہر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست کے مظالم کا محاسبہ اور فلسطینیوں کو جلد انصاف ملے گا، اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کے بارے میں بات کرتے ہوئے مرزوق الغانم نے کہا کہ بعض ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سیاسی سطح پر تعلقات ہیں مگر ہم اسے پارلیمانی اور عرب اقوام کی سطح پر قائم نہیں ہونے دیں گے۔

    مرزوق الغانم نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں مصر کی مثال دی جاسکتی ہے۔ مصر کا اسرائیل کے ساتھ سیاسی سطح پر ایک معاہدہ ہے مگر عوامی سطح پر صہیونی ریاست کے ساتھ کوئی تال میل نہیں۔

    کویتی اسپیکر نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کے 96 فی صد واقعات سے مسلمان متاثر ہوتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں مرزوق الغانم کا کہنا تھا کہ عرب ممالک کے باہمی اختلافات نے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کی راہ ہموار کی۔

    کویتی اسپیکر مرزوق الغانم کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز اسرائیل کے مظالم کے خلاف ہونا چاہیے۔

  • پاکستان کا سلامتی کونسل میں مسئلہ فلسطین اور کشمیر کے فوری حل پر زور

    پاکستان کا سلامتی کونسل میں مسئلہ فلسطین اور کشمیر کے فوری حل پر زور

    نیویارک: اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے سلامتی کونسل میں مسئلہ فلسطین اور کشمیر کے فوری حل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بیرونی قوتوں کی مداخلت اور مفادات کی جنگ نے خطے کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے سلامتی کونسل میں مشرق وسطی اور فلسطین پر مباحثے سے خطاب کیا۔ ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر اور فلسطین کا حل نہ ہونا سلامتی کونسل کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بیرونی قوتوں کی مداخلت اور مفادات کی جنگ نے خطے کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔ سلامتی کونسل ایجنڈے پر موجود مسائل کو حل کیے بغیر دیرپا امن ممکن نہیں۔

    ملیحہ لودھی نے مزید کہا کہ کشمیر اور فلسطین کے لوگوں نے حق خود ارادیت کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔

    اس سے قبل ایک خطاب میں ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ مستقل ارکان مفادات کو عالمی ذمہ داریوں پر فوقیت دیتے آئے ہیں، کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدر آمد نہیں ہوا۔

    انہوں نے کہا تھا کہ قراردادوں پر عملدر آمد نہ کروا کے کونسل نے ذمہ داری نہیں نبھائی، مقبوضہ علاقوں میں لوگوں سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے گئے۔ وعدے پورے نہ کیے جانا سلامتی کونسل کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔