Tag: مسئلہ کشمیر

  • امریکی صدرپاکستان اوربھارت کے درمیان ثالثی کے لیے میدان میں آگئے

    امریکی صدرپاکستان اوربھارت کے درمیان ثالثی کے لیے میدان میں آگئے

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور نریندر مودی سے کشمیر میں تناؤ میں کمی کے لیے بات چیت ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کے لیے میدان میں آگئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ عمران خان اور نریندر مودی سے کشمیر پر بات چیت ہوئی۔

    امریکی صدر نے کہا کہ بھارت اورپاکستان سے کشمیرمیں تناؤ میں کمی کے لیے بات کی، خطے میں بہت کشیدہ صورت حال ہے، لیکن بات چیت مثبت رہی۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ تجارت اوراسٹرٹیجک معاملات پربھی گفتگو ہوئی۔

    یاد رہے کہ رواں ماہ 2 اگست کو وائٹ ہاؤس کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیرپرثالثی کی پیشکش کی تھی۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لیے تیار ہوں، اس کا دارومدارمودی پر ہے، وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی، زبردست انسان ہیں، مودی سے بھی ملاقات کرچکا ہوں۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں دونوں مسئلہ کشمیرپر بہترین طریقے سے آگے بڑھ سکتے ہیں، دونوں ممالک چاہیں تو میں مسئلہ کشمیر پرکردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوں۔

    امریکی صدر نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر دی

    واضح رہے کہ 22 جولائی کو وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں امریکی صدر نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان بھارت کے مابین ثالثی کی پیش کش کی تھی۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ عمران خان اور میں دونوں نئے لیڈرز ہیں، مسئلہ کشمیر پر دونوں لیڈرز بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں، کشمیر اور افغانستان کا مسئلہ حل ہوگا تو پورے خطے میں خوش حالی ہوگی۔

  • عوام کی مرضی کے بغیر کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنا درست نہیں، مسعود خان

    عوام کی مرضی کے بغیر کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنا درست نہیں، مسعود خان

    مظفرآباد: صدر آزاد کشمیر مسعود خان نے کہا ہے کہ کشمیری عوام کی مرضی کے بغیر کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنا درست اقدام نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صدر آزاد کشمیر مسعود خان کا کہنا ہے کہ بھارتی حکمرانوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ برصغیر کے خطے کو جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔

    مسعود خان نے کہا کہ بھارت کشمیر کے مسئلے پر خطے کے امن کو تباہ یا برصغیر کو جنگ میں دھکیلنے کے لیے جارحانہ کارروائیاں کرسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوج کی تعیناتی پر پاکستان اور عالمی برادری دونوں کو شدید تشویش ہے۔

    صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کی مرضی کے بغیر کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنا درست اقدام نہیں ہے۔

    یاد رہے کہ پانچ اگست کو مودی سرکار نے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اے کو ختم کردیا تھا۔

    راجیہ سبھا میں بل کے حق میں 125 جبکہ مخالفت میں 61 ووٹ آئے تھے، بھارت نے 6 اگست کو لوک سبھا سے بھی دونوں بل بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرالیے تھے۔

  • دنیا نے تسلیم کرلیا کہ مسئلہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں، اسد قیصر

    دنیا نے تسلیم کرلیا کہ مسئلہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں، اسد قیصر

    اسلام آباد : اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ دنیا نے تسلیم کرلیا کہ مسئلہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں، نصف صدی بعد سلامتی کونسل کا اجلاس ہونا پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں صحافیون سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے پر پوری دنیا بھارتی اقدامات کی مذمت کر رہی ہے۔

    ہم نے کشمیر کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر نصف صدی بعد سلامتی کونسل کا اجلاس ہونا پاکستان کی کامیابی ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا نے تسلیم کرلیا کہ مسئلہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے، سلامتی کونسل کےاجلاس سے کشمیریوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔

    ایک سوال کے جواب میں اسپیکرقومی اسمبلی نے کہا کہ بھارتی مظالم پر عالمی برادری کی خاموشی ٹوٹی ہے اور پاکستان بھی دنیا کے ہر فورم پر کشمیرکا مقدمہ لڑرہا ہے۔

    پورے کشمیر میں کرفیو کی وجہ سے کشمیری عوام بھوک اور اذیت میں مبتلا ہیں، اور مریضوں کو دوائیں تک میسر نہیں ہیں، ذرائع ابلاغ پر بھی پابندی ہے، انہوں نے اپیل کی کہ سلامتی کونسل کشمیر کی صورتحال مزید خراب ہونے سے بچائے۔

  • اقوام متحدہ مسئلہ کشمیرحل کرانے کے لیے فعال کردار ادا کرے، ترکی

    اقوام متحدہ مسئلہ کشمیرحل کرانے کے لیے فعال کردار ادا کرے، ترکی

    انقرہ: ترکی نے سلامتی کونسل میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر مشاورت کا خیرمقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ اقوام متحدہ اپنی قرارداوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق ترک وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کے جمعے کو ہونے والے اجلاس کا خیر مقدم کیا۔

    ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ اقوام متحدہ سے کشمیر کے مسئلے کو حل کرانے کے لیے مزید فعال کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    ترک وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ مسئلہ کشمیر متعلقہ فریقوں کے درمیان بات چیت سے حل کیا جائے اور ایسے یکطرفہ اقدامات سے گریز کیا جائے جو صورت حال کو مزید کشیدگی کی طرف لے جائیں۔

    واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں آج مسلسل 14 ویں روز بھی کرفیو برقرار ہے اور مواصلات کا نظام مکمل پر معطل ہے، قابض انتظامیہ نے ٹیلی فون سروس بند کررکھی ہے جبکہ ذرائع ابلاغ پرسخت پابندیاں عائد ہیں۔

    کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق مواصلاتی نظام کی معطلی، مسلسل کرفیو اور سخت پابندیوں کے باعث لوگوں کو بچوں کے لیے دودھ، زندگی بچانے والی ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کا سامنا ہے۔

    عیدالاضحیٰ کے موقع پر بھی مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ رہا جس کے باعث مسلمان عید کی نماز اور سنت ابراہیمی علیہ اسلام ادا کرنے سے محروم رہے۔

  • ماضی کی حکومتوں نے مسئلہ کشمیرکے بجائے تجارت کو فروغ دیا: سراج الحق

    ماضی کی حکومتوں نے مسئلہ کشمیرکے بجائے تجارت کو فروغ دیا: سراج الحق

    لاہور: امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ ماضی میں حکومتوں نے مسئلہ کشمیرکے بجائے تجارت کو فروغ دیا.

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی نے خود بھارت کو تباہی کے راستے پر ڈال دیا ہے.

    امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ جوائنٹ سیشن میں تمام جماعتوں نے مل کرحکومت کو پیغام دیا تھا، یہ موثر اقدام تھا.

    انھوں نے کہا کہ حکومت کے بعض اقدامات کی وجہ سے اتحاد قائم نہیں ہوپا رہا ہے، یہ وقت کی ضرورت ہے.

    خیال رہے کہ بھارت نے غیر قانونی اقدام کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کر دی ہے، آرٹیکل 370 کے خاتمے کو مقبوضہ کشمیر کے عوام نے رد کر دیا. ہزاروں افراد سڑکوں‌ پر نکل آئے.

    مزید پڑھیں: بھارت نے سرحدوں کی خلاف ورزی کی تو بھرپور سرپرائز دیں گے: ڈی جی آئی ایس پی آر

    گزشتہ تیرہ روز سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے، جس کی وجہ سے روز مرہ سرگرمیاں معطل ہوگئی ہیں.

    اس موضوع پر گزشتہ روز پچاس سال کے طویل انتظار کے بعد سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا، جس میں ارکان کو اس مسئلے پر بریفنگ دی گئی.

    تجزیہ کار اسے پاکستان کی بڑی کامیابی ٹھہرا رہے ہیں، سلامتی کونسل کے اجلاس سے ثابت ہوتا ہے کہ اب کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں رہا.

  • مقبوضہ کشمیر: تقسیمِ ہند سے آج تک

    مقبوضہ کشمیر: تقسیمِ ہند سے آج تک

    آج تقریباً پچاس سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پاکستان اور بھارت کے درمیان ازل سے موجود مسئلہ کشمیر پر خصوصی اجلاس منعقد کرنے جارہی ہے، ساری دنیا اس وقت نیویار ک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز پر نظریں جمائیں بیٹھی ہے کہ وہاں آج کیا طے پاتا ہے۔

    پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود مسئلہ کشمیر اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ یہ دونوں ممالک خود، تقسیم کے فوراً بعد ہی یہ مسئلہ شروع ہوگیا تھا۔

    اس مسئلے پر پاکستان اور بھارت اب تک چار بڑی جنگیں لڑچکے ہیں ، جن میں سے پہلی جنگ کے نتیجے میں پاکستان نے وہ علاقہ حاصل کیا تھا جو کہ اب آزاد کشمیر یا پاکستانی کشمیر کہلاتا ہے جبکہ بٹوارے سے آج تک بھارت وادی ٔ جموں اور کشمیر اور لداخ کے علاقے پر قابض ہے جبکہ اسکائی چن اور شکسگام کا غیر آباد علاقہ چین کے زیرِ انتظام ہے۔

    پہلی جنگ 1947ء، دوسری 1965ء اور تیسری 1971ء اورچوتھی 1999ء میں کارگل کے محاذ پر لڑی گئی جسے دنیا کا سب سے بلند ، دشوار گزار اور مہنگا ترین میدانِ جنگ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آئے دن مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان عارضی سرحدی اہتمام جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے، پر بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ جس میں بھارت کی جانب سے کی جانے والی فائرنگ میں اکثر پاکستان کی شہری آبادی نشانہ بنتی رہی ہے، پاکستان کی جانب سے بھی بھارتی توپوں کو فی الفور جواب دیا جاتا رہا ہے۔

    رواں سال 27 فروری کو بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پار کرکے پاکستان کے زیر اہتمام علاقوں میں فضائی کارروائی کرنے کی کوشش کی گئی جس کا بروقت جواب دیتے ہوئے پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے دو طیارے مار گرائے تھے اور پاکستانی حدود میں گرنے والے طیارے کے پائلٹ ابھیندن کو گرفتار بھی کرلیا تھا۔ بعد ازاں بھارتی پائلٹ کو امن کے پیغام کے طور پر واپس بھیج دیا گیا۔

    اب ذرا چلتے ہیں ماضی میں اور جائزہ لیتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر در حقیقت ہے کیا اور آج تک کیوں یہ دنیا کی دو بڑی ایٹمی طاقتوں کے درمیان وجہ نزاع بنا ہوا ہے؟؟۔

    برصغیر کی تقسیم کے وقت ایک برطانوی وکیل ریڈ کلف کو ہندوستان کے بٹوارے کا ٹاسک سونپا گیا، ریڈکلف نے ہندوستان کے دوصوبوں پنجاب اور بنگال کو آبادی کی بنیاد پر پاکستان اورہندوستان میں تقسیم کیا جبکہ ریاستوں کو اختیاردیا گیا کہ آیا وہ ہندوستان میں شمولیت اختیار کریں یا پھر پاکستان کا حصہ بن جائیں، ریاستوں کے اختیار میں بھی ریاست کی آبادی کے مذہب کو ملحوظ ِخاطررکھا گیا۔ اس کلیے کے تحت کشمیر جو کہ ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی لیکن یہاں ہری سنگھ نامی سکھ راجہ کی حکومت تھی اور اس نے پہلے ریاست کی آزاد حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش کی تاہم بعد میں بھارت کے ساتھ الحاق کا معاہدہ کرلیا۔

    اس موقع پر 22 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کے مجاہدین نے کشمیر پر بھارتی تسلط سے بچانے کے لیے جدوجہد شروع کی جس کے جواب میں بھارت نے اپنی مسلح افواج میدان میں اتار دیں، قبائلی مجاہدین بھارت سے گلگت بلتستان اور موجودہ آزاد کشمیر کو چھین کر پاکستان کے ساتھ انضمام کرنے میں کامیاب رہے جبکہ بھارت اپنی بھاری بھرکم فوج کے ساتھ
    مقبوضہ کشمیر پر قابض ہوگیا۔

    دسمبر 1947 میں بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ایک ملاقات میں انہیں بتایا کہ وہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔جب بھارت نے اس مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع کیا تو یکم جنوری، 1948 کو یونائیٹڈ نیشنز کمیشن آن انڈیا اینڈ پاکستان ( یو این سی آئی پی ) کی تشکیل کی
    گئی۔

    21اپریل، 1948 کوسلامتی کونسل نے اپنی قرارداد نمبر 47 منظورکی جس میں کہا گیا کہ کشمیر میں دونوں ملکوں کی طرف سے فوری فائر بندی عمل میں لائی جائے اور دونوں ممالک کی فوجیں علاقے سے نکل جائیں، تاکہ وہاں اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کا اہتمام کیا جائے ’اور کشمیری لوگوں سے پوچھا جائے کہ وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ‘۔.

    تاہم، مکمل فائر بندی کا نفاذ یکم جنوری 1949 کو عمل میں آیا جب پاکستان کی طرف سے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی اور بھارت کی طرف سے ان کے ہم منصب جنرل رائے بوچر نے دستخط کیے۔ تاہم اس موقع پر بھی دونوں ملک سلامتی کونسل کی قرادداد کے مطابق فوجی انخلا پر متفق نہ ہو سکے۔ اتفاق نہ ہونے کا سبب بھارت کا اصرار تھا کہ پاکستان کو جارح ملک قرار دیا جائے، جبکہ پاکستان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ برابری کی بنیاد پر حل ہونا چاہیے۔

    اقوام متحدہ کے مذاکرات کار بھی برابری کی بنیاد پر اس مسئلے کو حل کرنے پر زور دے رہے تھے۔ تاہم، بھارت کے انکار کے بعد فوجی انخلا پر کوئی سمجھوتا نہ ہو سکا ۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اس مسئلے کے حل میں ناکامی کی کلیدی وجہ یہ سمجھی جاتی ہے کہ اقوام متحدہ نے قانونی پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف سیاسی پہلو کو ملحوظ خاطر رکھا۔

    دسمبر 1949ء میں سلامتی کونسل نے کینیڈا سے تعلق رکھنے والے سلامتی کونسل کے صدر، جنرل مکنوٹن سے درخواست کی کہ تنازعے کے حل کے لیے دونوں ملکوں سے رجوع کریں۔

    مکنوٹن نے 22 دسمبر کو اپنی تجاویز پیش کیں۔ اور جب 29 دسمبر کو سلامتی کونسل کے صدر کے طور پر ان کی میعاد مکمل ہو رہی تھی، انھوں نے کونسل کو اپنی سفارشات پیش کیں۔ اس پرسلامتی کونسل نے انھیں ثالثی جاری رکھنے کے لیے کہا۔ انھوں نے تین فروری 1950ء کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کی۔

    انھوں نے تجویز دی کہ پاکستان اور بھارت ایک ساتھ اپنی فوجیں واپس بلائیں۔ دونوں ملکوں کو تنازعے میں ’مساوی پارٹنر‘ قرار دیا گیا، جب کہ یہ تجویز بھارت کو قابل قبول نہیں تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ صرف اسےکشمیر میں موجود رہنا چاہیے۔ اس پر امریکہ نے بھارت کو تنبیہ کی کہ اسے یہ فیصلہ ماننا ہوگا۔

    سرد جنگ کے تاریخ نویس، رابرٹ مک ہان نے لکھا ہے کہ ’’امریکی اہل کاروں نے محسوس کیا کہ قانونی و تیکنیکی بہانوں سے بھارت ہمیشہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مصالحت کی کوششوں کی مخالفت کرتا رہا ہے، جس کا مقصد یہ تھا کہ استصواب رائے سے بچا جا سکے‘‘۔

    اس کے بعد سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں علاقے سے پانچ ماہ کے اندر اندر فوج کو ہٹائے جانے کے لیے کہا گیا۔

    بعدازاں، 14 مارچ 1950 میں بھارت نے اس قرارداد کو تسلیم کیا۔ جس پر اقوام متحدہ نے دونوں ملکوں کے لیے نمائندہ خصوصی کے طور پر سر اوون ڈکسن کو تعینات کیا، جس کے ذمے یہ کام تھا کہ جموں و کشمیر سے دونوں ملکوں کی فوجوں کو واپس بلایا جائے۔

    اقوام متحدہ نے اپنے اہلکار تعینات کیے۔ اگلے مرحلے میں ڈکسن نے دونوں ملکوں میں شیخ عبداللہ اور غلام عباس کی اتحادی حکومت تشکیل دینے یا پھر قلم دان مختلف سیاسی جماعتوں میں باٹنے کی سفارش کی۔

    پھر ڈکسن نے پاکستانی وزیر اعظم کے سامنے بھارتی ہم منصب، نہرو سے پوچھا کہ علاقے میں استصواب رائے کے بارے میں کیا خیال ہے۔ بھارت نے اس تجویز کے حق کی حامی بھری۔

    دراصل نہرو نے ہی ’بٹوارہ اور استصواب رائے‘ کے پلان کی تجویز دی تھی، یعنی جموں اور لداخ بھارت کا ہوگا اور آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات پاکستان کے ساتھ ہوں گے۔ ڈکسن نے اس منصوبے کی حمایت کی۔

    ڈکسن کے جانشین، ڈاکٹر فرینک گراہم 30 اپریل، 1951 میں علاقے میں پہنچے۔ 16 جولائی، 1952ء کو گراہم نے تجویز دی کہ علاقے میں پاکستان اپنی فوجیں 3000 سے 6000 تک کر دے، جب کہ بھارت یہ تعداد 12000 سے 16000 کے درمیان کر دے۔ پاکستان نے سلامتی کونسل کی قراردداد پر عمل درآمد کیا جب کہ بھارت نے کسی جواز کے بغیر اسے مسترد کردیا تھا۔

    گراہم نے تنازع میں مصالحت کی بھی کوشش کی۔ فوجیں کم کرنے کے معاملے پر گراہم کو کسی قدر کامیابی ہوئی۔ لیکن، اس سلسلے میں خاطر خواہ پیش رفت رک گئی۔

    اس کے بعد، گراہم نے حتمی رپورٹ پیش کی اور ثالثی کی کوششیں رک گئیں۔ فوجوں کی تعداد کم کرنے اور استصواب رائے کے منتظم کی تعیناتی کے معاملے پر دونوں ملک رضامند نہیں ہوئے۔

    اس سے قبل، 1948 میں سلامتی کونسل نے قرارداد 47 منظور کی تھی جس کے بعد 1951ء میں بھارت اور پاکستان نے ’کراچی معاہدے‘ پر دستخط کیے تھے، جس میں جنگ بندی اور مبصرین کی تعیناتی کے لیے کہا گیا تھا۔

    سال 1951 میں قرارداد 91 منظور ہوئی جس کے تحت بھارت اور پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کا فوجی مبصر گروپ قائم کیا گیا، تاکہ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر کنٹرول کیا جا سکے۔

    سال 1971 کی بھارت پاکستان لڑائی کے بعد دونوں ملکوں نے 1972ء میں شملہ سمجھوتے پر دستخط کیے، ساتھ ہی، کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کا مبصر گروپ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

    سنہ 1999 میں پاکستان اور بھارت کی افواج ایک بار پھر کارگل کے محاذ پر آمنے سامنے آئیں ، اس جنگ کے بارے میں آج تک حقائق ابہام کے پردے میں ہیں۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے کو بھاری نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے ، تاہم جنگ کے اختتام پر دونوں ممالک سنہ 1972 کی طے شدہ کنٹرول لائن پر واپس چلے گئے اور کوئی بھی خطے کی ڈیموگرافی تبدیل نہیں کرپایا تھا۔

    مسئلہ کشمیر جنرل مشرف کے دور میں

    پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے برسراقتدار آنے کے بعد ابتدا میں دونوں ملکوں کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے ۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اپنی دوسری مدت کے دوران صدر مشرف کو آگرہ آنے کی دعوت دی جہاں سنہ 2001 میں دونوں رہنماؤں میں کشمیر کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں جامع مذاکرات ہوئے۔

    اس وقت کے پاکستانی وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب ‘Neither a hawk nor a dove’ میں لکھا ہے کہ آگرہ سمجھوتے میں دونوں ملک مسئلہ کشمیر کے حل کے جس قدر قریب پہنچ گئے تھے، اس سے قبل کبھی نہیں پہنچے تھے۔

    امریکہ کے سابق نائب وزیر خارجہ رچرڈ باؤچر نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ واجپائی اور مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کے خد و خال طے کر لیے تھے اور دونوں ملکوں کے درمیان یہ دیرینہ مسئلہ حتمی حل کے انتہائی قریب پہنچ گیا تھا۔ تاہم پاکستان میں حکومت پر مشرف کی گرفت کمزور پڑنے اور بھارت میں واجپائی کی اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی میں انتہا پسند مؤقف رکھنے والوں کی مزاہمت کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔

    جولائی 2015 میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے سابق چیف اے ایس دولت نے انکشاف کیا تھا کہ آگرہ سمٹ کا ناکام بنانے میں اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے ان مذاکرات کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

    اس کے بعد سے آج تک ایل او سی پردونوں ممالک کی جھڑپیں جاری ہیں اور سنہ 2016 میں مقبوخہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کرنے والے نوجوان برہان وانی کی بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر تحریک آزادی میں نئی جان پڑ گئی اور بھارت کے خلاف احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے ۔

    آرٹیکل 370 کی منسوخی

    حال ہی میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں نافذآرٹیکل 370 اے جو کہ کشمیر کو ایک جداگانہ حیثیت دیتا تھا، اسے ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کو اپنی یونین ٹیریٹری قرار دے دیا۔

    آرٹیکل 370 ختم ہونے سے کشمیر کی بھارتی آئین میں جو ایک خصوصی حیثیت تھی ، وہ ختم ہوگئی ہے اور اب غیر کشمیری افراد علاقے میں جائیدادیں خرید سکیں گے اور سرکاری نوکریاں بھی حاصل کرسکیں گے۔

    بھارتی آئین کی دفعہ 370 ایک خصوصی دفعہ ہے جو ریاست جموں و کشمیر کو جداگانہ حیثیت دیتی ہے۔ یہ دفعہ ریاست جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتی ہے جبکہ زیادہ تر امور میں وفاقی آئین کے نفاذ کو جموں کشمیر میں ممنوع کرتی ہے۔

    اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی امور، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں متحدہ مرکزی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے۔

    اس دفعہ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے بہت سے بنیادی امور جن میں شہریوں کے لیے جائداد، شہریت اور بنیادی انسانی حقوق شامل ہیں ان کے قوانین عام بھارتی قوانین سے مختلف ہیں۔

    مقبوضہ کشمیر میں کرفیو

    اس بل کو لانے سے قبل ہی بھارت نے بھاری تعداد میں اپنی تازہ دم فوجیں مقبوضہ کشمیرمیں اتاردی تھیں جس کے سبب وہاں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے ، لوگ گھروں میں محصورہوکررہ گئے، کشمیری رہنما محبوبہ مفتی،عمرعبداللہ اورسجاد لون سمیت دیگر رہنماؤں کوبھی نظربند کردیاگیا ہے۔

    مقبوضہ وادی میں 4 اگست کو دفعہ ایک چوالیس کے تحت کرفیو نافدکر کےوادی میں تمام تعلیمی اداروں کو تاحکم ثانی بنداور لوگو ں کی نقل وحرکت پربھی پابندی عائد کردی گئی ہے، سری نگر سمیت پوری وادی کشمیرمیں موبائل فون،انٹرنیٹ،ریڈیو، ٹی وی سمیت مواصلاتی نظام معطل کردیاگیا ہے جبکہ بھارتی فورسز کےاہلکاروں نےپولیس تھانوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

    پاکستان نے اس معاملے پر فوری ردعمل دیتے ہوئے تیز ترین سفارت کاری شروع کی۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے اس حوالے سے چین کا ہنگامہ دورہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ دنیا میں موثر آواز رکھنے والے ممالک سے بھی رابطے تیز کردیے، پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے 14 اگست کوآزاد کشمیر کا دورہ کیااور وزیر اعظم پاکستان نے کشمیری عوام کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ساری دنیا میں کشمیر کےسفیر بن کرجائیں گے۔

    اقوام متحدہ میں تعینات پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے لیے درخواست دی جسے قبول کرلیا گیا، اقوام متحدہ ، امریکا ، برطانیہ اور چین سمیت کئی اہم ممالک مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پہلے ہی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ آج اس اجلاس میں پچاس سال بعد سلامتی کونسل کے مستقل ممبران
    مسئلہ کشمیر پر گفتگو کریں گے۔

    سلامتی کونسل کا طریقہ کار

    سلامتی کونسل کے پانچ رکن ممالک خود ایجنڈا تشکیل دیتے ہیں جسے کونسل کا صدر یو این کے تمام اراکین میں تقسیم کردیتا ہے۔ رکن ممالک اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن ہوتا پھر وہی ہے جو کونسل چاہتی ہے۔

    قرارداد پاس کرنے کا طریقۂ کار بہت ہی پیچیدہ ہے۔ پہلے ڈرافٹ کی تیاری کچھ اس طریقے سے عمل میں لائی جاتی ہے کہ وہ سب کو قابل قبول بھی ہو۔

    کونسل میں قرارداد پیش ہونے کے بعد ووٹنگ کا مرحلہ آتا ہے جس میں پانچ مستقل رکن ممالک کے علاوہ دس غیر مستقل رکن ممالک بھی حصہ لیتے ہیں۔

    غیر مستقل رکن ممالک بھی قرارداد پر اپنی تجاویز دیتے ہیں لیکن اس کے بعد بھی ہوتا وہی ہے جو کونسل کے مستقل ارکان کی مرضی ہوتی ہے۔

    جب یہ ممالک ایک حل پر پہنچ جاتے ہیں تو پھر ہی کوئی نتیجہ نکلتا ہے لیکن اگر ایک رکن بھی متفق نہ ہو تو قرارداد ویٹو ہوجاتی ہے۔


    پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ سلامتی کونسل میں کوئی بھی ہمارے لیے پھولوں کے ہار لے کر نہیں کھڑا ہوگا، لیکن پچاس سال بعد اس مسئلے کا ایک بار پھر سلامتی کونسل میں آجانا، یقیناً پاکستان کی جانب سے کامیاب سفارت کاری کی نوید ہے کیونکہ بھارت شروع سے کشمیر کو اپنا داخلی معاملہ قرار دیتا آیا ہے جبکہ پاکستان نے ہمیشہ اسے ایک بین الاقوامی تنازعہ قراردیا ہے اور اقوام متحدہ کی اس پر پہلے سے موجود قراردادوں کی تائید کی ہے۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی طاقتیں کشمیر کے عوام کو بھارت کے ریاستی ظلم و جبر سے بچانے اور کشمیریوں کو آزادی ٔ استصوابِ رائے کا حق دلانے میں کیا کردار ادا کرتی ہیں۔

  • امید ہے سلامتی کونسل کشمیر کے مظلوم عوام کی مشکلات کا حل نکالے گی، ملیحہ لودھی

    امید ہے سلامتی کونسل کشمیر کے مظلوم عوام کی مشکلات کا حل نکالے گی، ملیحہ لودھی

    نیویارک: اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ امید ہے سلامتی کونسل کشمیر کے مظلوم عوام کی مشکلات کا حل نکالے گی۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقبل مندوب ملیحہ لودھی نے غیرملکی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل کو بھارت کے غیرقانونی ہتھکنڈوں کا نوٹس لینا ہوگا۔

    ملیحہ لودھی نے کہا کہ سلامتی کونسل کے اندر پاکستانی موقف سنا جارہا ہے، امید ہے سلامتی کونسل اراکین اپنی قراردادوں کی روشنی میں کشمیر پر بحث کریں گے۔

    واضح رہے کہ چند روز قبل ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ کشمیر میں بھارت کئی دہائیوں سے عالمی اقدار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہا ہے۔

    مزید پڑھیں: انسانی حقوق پرلیکچردینے والوں کو کشمیری عوام کی بھی پرواہ ہونی چاہیے، ملیحہ لودھی

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان امن جبکہ بھارت بدامنی اور کشیدگی کو فروغ دے رہا ہے، اقوام عالم کشمیر میں انسانیت سوز مظالم پر اب خاموش نہیں رہ سکتے ہیں۔

    ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ کشمیرمیں بھارت کئی دہائیوں سے عالمی اقدار اور انسانی حقوق پامال کر رہا ہے، بھارت نے خطے میں خطرناک صورت حال پیدا کر دی ہے۔

    پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ پوری ریاست میں کرفیو لگانا ثبوت ہے بھارتی اقدام غیرقانونی ہے، جب بھی کرفیو اٹھا کشمیری عوام بھارت کونکل جانے کا ہی کہیں گے۔

  • خطے میں پائیدار امن کی چابی مسئلہ کشمیر کا حل ہے، سراج الحق

    خطے میں پائیدار امن کی چابی مسئلہ کشمیر کا حل ہے، سراج الحق

    لاہور: امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ خطے میں پائیدار امن کی چابی مسئلہ کشمیر کا حل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ مودی کی جنونیت کی وجہ سے خطہ شعلوں کی نذر ہوسکتاہے، عالمی برادری کو مودی کے پاگل پن کا نوٹس لینا چاہئے۔

    امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کا تیسرا اور اہم ترین فریق کمشیری ہیں، کشمیریوں کو اعتماد میں لیے بغیر مسئلہ کشمیر کا حل قابل قبول نہیں ہوگا۔

    سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ آج دنیا بھر میں بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پر منایا جارہا ہے، اقلیتوں کے لیے عذاب بھارتی جمہوریت کا نقاب اترچکا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہزاروں کشمیریوں کا پاکستانی پرچم تھامے مارچ کرنا بھارت کے لئے نوشتہ دیوارہے: سراج الحق

    امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ امن پسند قوموں کو مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔

    واضح رہے کہ چند روز قبل سراج الحق کا کہنا تھا کہ ہزاروں کشمیریوں کا پاکستانی پرچم تھامے مارچ بھارت کے لیے نوشتہ دیوار ہے، ہم پاکستانی قوم، عالمی برادری کو متحرک کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، بھارتی عمل قابل مذمت ہے، آج پاکستان کی شہ رگ پر بھارت قابض ہے۔

  • مسئلہ کشمیر کا حل ضرور نکلے گا، شہزاد اکبر

    مسئلہ کشمیر کا حل ضرور نکلے گا، شہزاد اکبر

    لندن : وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے سامراجی قوت نافذ کردی، مسئلہ کشمیر کا حل اب ضرور نکلے گا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے یوم سیاہ کے موقع پر کہا مسئلہ کشمیرایک مرتبہ پھرعالمی پلیٹ فارم پر آچکا ہے، بھارت نے مقبوضہ کشمیرکی حیثیت یکطرفہ طورپرختم کی۔

    شہزاداکبر کا کہنا تھا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے سامراجی قوت نافذ کردی، اقوام متحدہ کا خصوصی اجلاس بلایا جا چکا ہے، مسئلہ کشمیر کا حل ضرور نکلے گا۔

    معاون خصوصی نے مزید کہا پاکستانی حکومت، فوج کشمیریوں بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے اورکسی بھی حدتک جانے کو تیار ہے۔

    خیال رہے لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے کشمیریوں سےاظہاریکجہتی کیلئے تاریخی احتجاج کیا جارہا ہے، برطانیہ بھر سے مظاہرین بھارتی ہائی کمیشن کےسامنےاحتجاج میں شریک ہیں۔

    بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے احتجاج میں سکھ برادری اوربرطانوی شہری، ہندوبرادری اوردیگرمذاہب کےلوگ بھی موجود ہے۔

    خیال رہے پاکستان بھر میں بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر آج یوم سیاہ منا یا جارہا ہے ، یوم سیاہ پر کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے اسلام آباد میں سرکاری عمارتوں پرقومی پرچم سرنگوں ہیں۔

    واضح رہے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ 15 اگست کو بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے گا۔

  • سیکیورٹی کونسل کا فوری مسئلہ کشمیر پر نوٹس لینا حکومت کی کامیابی ہے، راجہ بشارت

    سیکیورٹی کونسل کا فوری مسئلہ کشمیر پر نوٹس لینا حکومت کی کامیابی ہے، راجہ بشارت

    لاہور: وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے کہا ہے کہ اہل وطن یوم سیاہ منا کر کشمیریوں سے بھر پور اظہار یکجہتی کریں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیرقانون پنجاب راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا بھارتی یوم آزادی پر یوم سیاہ منانے کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔ انہوں نے کہا کہ اہل وطن یوم سیاہ منا کر کشمیریوں سے بھر پور اظہار یکجہتی کریں۔

    صوبائی وزیرقانون نے مزید کہا کہ سیکیورٹی کونسل کا فوری مسئلہ کشمیر پر نوٹس لینا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی کامیابی ہے۔

    مودی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور وادی میں قابض فوج کے مظالم کے خلاف آج 15 اگست کو بھارت کا یوم آزادی سرکاری سطح پر یوم سیاہ کے طور منایا جا رہا ہے۔

    کیا دنیا مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی خاموشی سے دیکھتی رہے گی، عمران خان

    اس سے قبل وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ مودی پہلے گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی کرچکا ہے، کیا دنیا مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی خاموشی سے دیکھتی رہے گی۔

    واضح رہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 اے ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں گیارویں روز بھی کرفیو جاری ہے، مقبوضہ وادی کا بیرونی دنیا سے رابطہ بدستور منقطع ہے۔

    مقبوضہ کشمیر میں موبائل فون، انٹرنیٹ سروس بند اور ٹی وی نشریات معطل ہیں۔ مقبوضہ وادی میں کھانے پینے کی اشیا اور دواؤں کی قلت ہے، جامع مسجد کے اطراف رکاوٹیں لگائی گئی ہیں۔