Tag: مستنصر حسین تارڑ

  • ہم اسی دھرتی سے پھوٹنے والے بُوٹے ہیں…

    ہم اسی دھرتی سے پھوٹنے والے بُوٹے ہیں…

    میں بہ مشکل ابھی ٹین ایج میں داخل ہو رہا تھا جب پاکستان ٹائمز کے باہر ایک کڑی دوپہر کی دھوپ میں، میں نے فیض صاحب کے آگے اپنی آٹو گراف بک کھول کر کہا ”آٹو گراف پلیز…“

    فیض صاحب نے آٹو گراف بک پر ایک مصرع گھسیٹ دیا اور ان کی لکھائی ہمیشہ گھسیٹی ہوئی لگتی تھی۔ ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے!

    میں کسی حد تک قلم کو جانتا تھا لیکن یہ لوح کیا بلا ہے نہیں جانتا تھا اور ان کی بچوں کی مانند پرورش کے بارے میں تو بالکل ہی نہیں جانتا تھا چناں چہ میں نے گھگھیا کر درخواست کی کہ وہ رباعی لکھ دیں، رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی۔

    تو فیض صاحب نے سگریٹ کا ایک اور سوٹا لگا کر کہا۔ بھئی وہ تو ہمیں یاد نہیں۔ تو میں نے فوراً کہا۔ جی مجھے یاد ہے۔ میں آپ کو لکھا دیتا ہوں اور میں نے وہ رباعی فیض صاحب کو لکھوائی۔ یعنی آج سے تقریباً 65 برس پیش تر میں فیض صاحب کو شعر لکھوایا کرتا تھا۔ اس رباعی کے پہلو میں ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے بھی آج تک موجود ہے اور میں اس مصرع کے بارے میں ہمیشہ مخمصے میں ہی رہا۔ اور پھر میری حیات میں ایک لمحہ ایسا آیا کہ کائنات کے آغاز کی مانند ہر سو تاریکی تھی۔ آمریت، جبر اور ظلم کی اتھاہ تاریکی اور اس میں ایک چراغ روشن ہوا۔ احتجاج کا۔ ”الفتح“ کا۔ میں نہیں مانتا اس صبحِ بے نور کو۔ ایک ایسا چراغ اور اسے روشن کرنے والا محمود شام تھا۔ اور تب پہلی بار مجھ پر آشکار ہوا کہ ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے کا کیا مطلب ہے۔ یہ مصرع محمود شام کی ذات کی مکمل تفسیر ہے۔

    محمود شام اور مجھ میں ایک قدر مشترک ہے۔ ہم دونوں اس دھرتی میں سے پھوٹنے والے بوٹے ہیں جو سندھ اور چناب کے پانیوں میں سے اپنے تخلیقی جوہر کشید کرتے ہیں۔

    (از قلم: مستنصر حسین تارڑ)

  • ‘مختصر بات قدرے تفصیل سے!’

    ‘مختصر بات قدرے تفصیل سے!’

    سیاستدانوں کو ٹیلی ویژن پر بھاشن دیتے ہوئے مجھے ہمیشہ اپنی بڑی خالہ جان یاد آ جاتی ہیں۔

    وہ بھی کسی سادہ سے سوال کے جواب میں ایک طویل داستان شروع کر دیتی تھیں، مثلاً میں پوچھتا کہ ”خالہ جان آج آپ دوپہر کے کھانے میں کیا پکا رہی ہیں؟“ تو وہ کچھ یوں آغاز کرتی تھیں کہ ”میں جو گھر سے نکلی ہوں تو راستے میں فاطمہ جولاہی مل گئی، اس کا بیٹا دوبئی میں ہے، اس نے ایک پورا صندوق کپڑے لتّے کا ماں کو بھیجا ہے، تو فاطمہ جولاہی نے مجھے وہ سارے کپڑے دکھائے۔“

    خالہ جان نہایت تفصیل سے ہر کپڑے اور ہر لباس کے بارے میں مجھے آگاہ کرتیں کہ ان میں سے کتنے سوٹ کمخواب کے تھے اور کتنے سوٹوں پر کتنی تعداد میں موتی ٹانکے تھے۔

    ازاں بعد وہ آشاں بی بی سے ملاقات کی تفصیل بیان کرنے لگتیں اور جب میں بیزار ہو کر کہتا کہ ”خالہ جی میں نے تو آپ سے پوچھا تھا کہ آج دوپہر کے کھانے پر آپ کیا بنا رہی ہیں؟“ تو وہ سخت خفا ہو جاتیں اور کہتیں کہ "ایک تو آج کل کے بچوں میں صبر نہیں ہے، بات سننے کا حوصلہ نہیں، میں نے دوپہر کے کھانے کے لئے ٹینڈے پکائے ہیں“۔

    ویسے خالہ جان اِن سیاست دانوں کی مانند دروغ گو اور منافق نہ تھیں، جو دل میں ہوتا تھا وہ بیان کر دیتی تھیں، اگرچہ قدرے "تفصیل” سے کرتی تھیں۔ ”

    (اقتباس ”مختصر بات اور باتوں کے خربوزے“ از مستنصر حسین تارڑ)

  • مستنصر حسین تارڑ کو مستقل پیس میکر پر ڈالنے کا فیصلہ

    مستنصر حسین تارڑ کو مستقل پیس میکر پر ڈالنے کا فیصلہ

    لاہور: ڈاکٹروں نے مستنصر حسین تارڑ کو مستقل پیس میکر پر ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق معروف مصنف مستنصر حسین تاڑر کو دل کے عارضے کے سبب پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی نے مستقل ہارٹ ڈیوائس امپلانٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    پی آئی سی انتظامیہ کے مطابق مستنصر حسین تاڑر کو کل مستقل پیس میکر ڈالا جائے گا، ان کے دل کے پٹھے کمزور ہو چکے ہیں، دل کے پٹھے اور دھڑکن متحرک رکھنے کے لیے ڈیوائس امپلانٹ کی جائے گی۔

    پی آئی سی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مستنصر حسین تاڑر انتہائی نگہداشت وارڈ میں زیر علاج ہیں، ان کا بلڈ پریشر بالکل نارمل ہے، ڈاکٹرز مسلسل چیک اپ کر رہے ہیں، تاڑر کو مزید تین روز اسپتال میں رکھا جائے گا۔

    پی آئی سی انتظامیہ کے مطابق دل کے عارضے کے باعث فی الوقت ایکسٹرنل پیس میکر ڈالا گیا ہے۔

  • "میرا قیمہ بنا دیجیے…!”

    "میرا قیمہ بنا دیجیے…!”

    میں ٹولنٹن مارکیٹ کی چھوٹے گوشت کی دکان پرکھڑا اپنی باری کا انتظارکررہا تھا اور کچھ اس قسم کے ’’جذباتی‘‘ سوال جواب سن رہا تھا۔

    ’’نسیم بھائی! پہلے میرا قیمہ بنا دیجیے‘‘ایک خاتون کہہ رہی تھیں۔ ’’بہن جی آپ فکر ہی نہ کریں، میں آپ کا ایسا قیمہ بناؤں گا کہ آپ یاد کریں گی۔۔۔!‘‘

    ’’ذرا جلدی کریں نسیم بھائی!‘‘

    ’’بس آپ کھڑی رہیں۔ آپ کے کھڑے کھڑے میں آپ کا قیمہ بنا دوں گا۔‘‘

    ’’قیمہ روکھا بناؤں یا موٹا۔۔۔‘‘

    ’’روکھا ٹھیک رہے گا لیکن میں ذرا جلدی میں ہوں‘‘

    ’’بہن جی یہ قریشی صاحب کا قیمہ ہے، یہ والا جو میں کُوٹ رہا ہوں، اس کے بعد انشاء اللہ آپ کا قیمہ بنے گا۔‘‘

    ’’نسیم صاحب۔ مغز چاہیے مل جائے گا۔‘‘ ایک صاحب دریافت کرتے ہیں۔

    ’’کیوں نہیں جناب۔ یہ ہمارے لیڈرانِ کرام تھوڑی ہیں، بکرے ہیں ان میں بہت مغز ہے، ابھی دیتا ہوں۔‘‘

    ’’اور میرے گردوں کا کیا ہوا؟‘‘ ایک آواز آتی ہے۔

    ’’یہ والے۔۔۔۔‘‘نسیم کا بھائی جو شکل سے ہیرو لگتا ہے چند گردے فضا میں بلند کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’آپ کے گردے ہیں۔ ابھی نکالے ہیں، بنا کر دیتا ہوں۔‘‘

    ’’اورمیری ران۔۔۔‘‘

    ’’یہ رہی آپ کی ران، بالکل نرم اور تازہ تازہ۔‘‘

    ’’اور میری سری۔۔۔‘‘

    ’’ابھی توڑتا ہوں۔۔۔‘‘

    ’’ایک صاحب جو آرڈر دے کر جا چکے تھے واپس آکر پوچھتے ہیں۔‘‘، ’’یار ابھی تک میرا گوشت نہیں بنایا۔۔۔‘‘

    ’’اوہو آپ یہ بتائیں کہ آپ کی بوٹیاں کیسے کاٹوں۔۔۔! چھوٹی یا بڑی۔۔۔ میں پانچ منٹ میں آپ کا گوشت بناتا ہوں جناب۔ ہم آپ کا گوشت نہیں کاٹیں گے تو اور کس کا کاٹیں گے۔‘‘

    بالآخر میری باری آتی ہے اور میں ایک مختصر سا آرڈر دیتا ہوں۔ ’’تارڑ صاحب۔‘‘ نسیم مسکراتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’اتنا گوشت تو پورے محلے کے لیے کافی ہوگا، کیا کریں گے اتنے گوشت کو دیگ پکائیں گے؟‘‘

    ’’بھائی آپ براہِ کرم جگتیں نہ کریں اور گوشت بنا دیں۔ اور یہ والی بوٹی تو اچھی نہیں ہے! یہ نہ ڈالنا۔‘‘

    ’’یہ والی۔۔۔؟‘‘ وہ بوٹی کو اٹھا کر اس کی نمائش کرتا ہے۔ ’’یہ والی تو بڑی جذباتی بوٹی ہے تارڑ صاحب۔‘‘

    نسیم اپنے گوشت کے بارے میں ’’جذباتی‘‘ کا لفظ بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ مثلاً جناب یہ گردہ ملاحظہ کیجیے بالکل جذباتی ہے۔ یہ چانپ جو آپ دیکھ رہے ہیں، جذباتی ہورہی ہے آہستہ آہستہ، یہ ران تو خیر ہے ہی جذباتی۔ ویسے میرے پاس غیر جذباتی گوشت بھی ہے لیکن آپ کو مزہ نہیں آئے گا۔ وہ سامنے والا بکرا جو لٹک رہا ہے وہ شہنشاہِ جذبات ہے اور بکری جو ہے یہ ملکۂ جذبات ہے۔ اس کی ٹانگ پیش کروں؟‘‘

    گوشت کے بارے میں کالم لکھنا غیر ادبی سا فعل ہے، لیکن کیا کیا جائے یہ مہنگا ہوتا جارہا ہے اور اس کے ساتھ ہی لوگوں کی ’’مسلمانی‘‘ کم ہوتی جارہی ہے۔ گوشت اور مسلمان لازم و ملزوم ہیں۔ ہمارے گاؤں میں تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زیادہ گوشت کھانے سے ایمان مضبوط ہوجاتا ہے۔ لوہے کی طرح۔ ظاہر ہے کہ اگر گوشت مہنگا ہوگا تو کم کھایا جائے گا اور اسی تناسب سے ’’مسلمانی‘‘ کم ہوتی جائے گی۔ میں بھی اسی لیے فکر مند ہوں۔

    گوشت کی قیمتوں میں یک دم اضافہ ہوگیا ہے اور کہیں سے احتجاج کا ایک لفظ سنائی نہیں دیا۔ سگریٹ مہنگے ہوجائیں تو چھوڑ دو، چائے مہنگی ہو جائے تو کم پیو۔ آٹا مہنگا ہو جائے تو کیک کھا لو، لیکن گوشت تو کم نہیں کھایا جاسکتا۔ مجھے چونکہ گوشت کی قیمتوں میں اضافے کی خبر نہ تھی، اس لیے میں نے جیب میں پڑی رقم کے مطابق آرڈر دیا اور پھر بعد میں بِل زیادہ بننے پر خوب خوب شرمندہ ہوا۔

    (اردو ادب میں طنز و مزاح پر مبنی تحریروں، ناول اور سفرنامہ نگاری کے لیے معروف مستنصر حسین تارڑ کے کالم سے منتخب پارے)

  • سیاست داں اور خالہ جان!

    سیاست داں اور خالہ جان!

    سیاست دانوں کو ٹیلی ویژن پر بھاشن دیتے ہوئے مجھے ہمیشہ اپنی بڑی خالہ جان یاد آجاتی ہیں۔ وہ بھی کسی سادہ سے سوال کے جواب میں ایک طویل داستان شروع کر دیتی تھیں۔

    مثلاً میں پوچھتا ہوں کہ "خالہ جان آج آپ دوپہر کے کھانے کے لیے کیا پکا رہی ہیں؟” تو وہ کچھ یوں آغاز کرتی تھیں کہ "میں جو گھر سے نکلی ہوں تو راستے میں فاطمہ جولاہی مل گئی، اس کا بیٹا دبئی میں ہے۔ اس نے ایک پورا صندوق کپڑے لتّے کا ماں کو بھیجا ہے، فاطمہ جولاہی نے مجھے وہ سارے کپڑے دکھائے۔”

    خالہ جان نہایت تفصیل سے ہر کپڑے اور ہر لباس کے بارے میں مجھے آگاہ کرتیں کہ ان میں سے کتنے سوٹ کمخواب کے تھے اور کتنے سوٹوں پر کتنی تعداد میں موتی ٹانکے گئے تھے۔ ازاں بعد وہ آشاں بی بی سے ملاقات کی تفصیل بیان کرنے لگتیں اور جب میں بیزار ہو کر کہتا کہ "خالہ جی میں نے تو آپ سے پوچھا تھا کہ آج دوپہر کے کھانے پر آپ کیا بنا رہی ہیں؟” تو وہ سخت خفا ہو جاتیں اور کہتیں کہ "ایک تو آج کل کے بچوں میں صبر نہیں ہے، بات سننے کا حوصلہ نہیں، میں نے دوپہر کے کھانے کے لیے ٹینڈے پکائے ہیں۔”

    ویسے خالہ جان ان سیاست دانوں کی مانند دروغ گو اور منافق نہ تھیں۔ جو دل میں ہوتا تھا وہ بیان کر دیتی تھیں، اگر چہ قدرے "تفصیل” سے کرتی تھیں۔

    (نام ور ادیب اور سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کی تحریر "مختصر بات اور باتوں کے خربوزے” سے اقتباس)

  • گدھوں کی خوبیاں

    گدھوں کی خوبیاں

    میں گدھوں کی خوبیاں نہیں گنواؤں گا، اگر آپ خود بال بچوں والے ہیں تو آپ کو یقینا یاد ہو گا کہ آپ اپنے بیٹے سے لاڈ کرتے ہوئے، اسے مخاطب کرتے ہوئے ہمیشہ کہا کرتے تھے:

    ”اوئے گدھے“ بلکہ جب بہت ہی پیار آتا تھا تو اسے گدھے کا بچہ بھی کہہ دیتے تھے۔

    یہ سوچنے کی بات ہے کہ آپ اپنے چھوٹے بچوں کو لاڈ پیار سے یہ کبھی نہیں کہتے کہ اوئے مگرمچھ یا اوئے گھوڑے کے بچے۔ صرف گدھے کے بچے کہتے ہیں تو اس سے گدھے کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

    ایک بار لاہور کے ڈیفنس میں مَیں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک گدھا گاڑی والا سنگِ مَرمَر کی ٹائلیں گاڑی پر لاد رہا ہے اور ان کا وزن اتنا ہے کہ پورے کا پورا گدھا ہوا میں معلق ہو چکا ہے اور بے بسی سے ٹانگیں چلا رہا ہے۔

    باقاعدہ گدھا بھی نہیں تھا، گدھے کا بچہ تھا۔ تو مجھے بہت ترس آیا اور میں نے اس کے مالک سے کہا کہ بھائی یہ بے زبان جانور ہے۔ ریڑھی پر اتنا وزن تو نہ لوڈ کرو کہ یہ بے چارہ ہوا میں معلق ہو کر ٹانگیں چلانے لگے تو وہ ہنس کر بولا۔

    ”صاحب آپ نہیں جانتے کہ یہ اس لمحے زندگی سے بہت لطف اندوز ہو رہا ہے بلکہ ہوا میں ریلیکس کر رہا ہے اور یوں ٹانگیں چلانے سے اس کی تھکن دور ہو رہی ہے۔“

    ٹائلیں لوڈ کرنے کے بعد گاڑی والے نے ہوا میں معلق گدھے کو کان سے پکڑ کر نیچے کیا، اس کے پاؤں زمین تک نہیں لایا اور اس سے پیشتر کہ وہ گاڑی کے بوجھ سے پھر بلند ہو جاتا، اُچک کر گاڑی کے اگلے حصے پر بیٹھ گیا اور یوں اس کے وزن سے گاڑی بیلنس میں آ گئی اور گدھا نہایت مزے سے کان ہلاتا سڑک پر رواں ہو گیا۔

    (طنز و مزاح، مستنصر حسین تارڑ کے قلم سے)

  • "ہمارے ہاں مینڈک کی کچھ قدر نہیں”

    "ہمارے ہاں مینڈک کی کچھ قدر نہیں”

    ہمارے ہاں تو بے چارے مینڈک کی کچھ قدر نہیں، لیکن دنیا کے اکثر ممالک میں انہیں نہایت رغبت سے کھایا جاتا ہے۔

    فرانسیسیوں کا تو نام ہی اس لیے فراگ پڑ گیا کہ وہ مینڈکوں کے بے حد شوقین ہیں، لیکن ذرا کوریا، چین اور ویت نام وغیرہ جا کر دیکھیے جہاں مینڈک کڑاہی، مینڈک فرائی اور مینڈک پلاؤ وغیرہ نہایت پسندیدہ ڈشیں ہیں۔

    پاکستانی ادیبوں کے وفد کے ساتھ چین جانے کا اتفاق ہوا تو ایک صبح ہوٹل کے ڈائننگ روم میں ناشتے کے لیے اترے، وہاں ایک جانب مغربی ناشتے کا اہتمام تھا اور برابر میں چینی ناشتا سجا ہوا تھا، میں نے سوچا کہ انڈہ ٹوسٹ وغیرہ تو کھاتے ہی رہتے ہیں کیوں نہ چینی ناشتا نوش کیا جائے۔

    اب وہاں پہنچے تو کوئی شے ایسی نہ تھی جس سے کچھ واقفیت ہو۔ ایک تشتری میں سفید رنگ کے نہایت خوش نظر قتلے سجے تھے جو نہایت ذائقہ دار لگ رہے تھے۔

    ذرا قریب ہو کر ملاحظہ کیا تو ہر قتلے کے سرے پر دو آنکھیں نظر آئیں جو شناسا سی لگتی تھیں، پھر یاد آگیا کہ انہیں کہاں دیکھا ہے، اپنے گاؤں کے جوہڑ کی سطح پر دیکھا تھا!

    یعنی مینڈک تھے، جی تو چاہا کہ ذرا ٹرائی کر لیے جائیں، لیکن آس پاس اپنی ادیب برادری تھی جس نے پاکستان واپسی پر مشہور کر دینا تھا کہ جی یہ تارڑ تو وہاں دن رات مینڈک کھاتا رہتا تھا۔

    یہ بھی شنید ہے کہ آپ جس جانور کا گوشت کھائیں آپ میں اس کی خصلتیں پیدا ہو جاتی ہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وطن واپسی پر گھر میں اچھلتے پھریں اور بچہ لوگ کو بھی پتہ چل جائے کہ والد صاحب تو ڈڈو کھاتے ہیں۔

    ویسے اس کا امکان تو نہ تھا کیوں کہ یہ مفروضہ درست نہیں کہ انسان جس جانور کا گوشت کھائے اس میں اسی جانور کی خصلتیں نمودار ہو جاتی ہیں۔

    وہ جو کہتے ہیں کہ مینڈکی کو زکام ہونا تو اس کے علاوہ ایک اور محاورہ ہے جس سے آپ واقف نہیں ہوں گے کہ مینڈک چلا مینڈک کی چال اپنی چال بھی بھول گیا۔

    یہ اس لیے معرضِ وجود میں آیا کہ دنیا بھر میں ہر مینڈک کی چال الگ الگ ہوتی ہے، چال سے مراد ان کا اچھل اچھل کر سفر کرنا ہے۔

    ہر مینڈک کے اچھل کر آگے جانے کا فاصلہ کسی اور مینڈک سے مختلف ہوتا ہے۔ کئی بار کوئی مینڈک کسی خوش رفتار مینڈک کی اچھل کود کی کاپی کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بری طرح ناکام رہتا ہے۔

    اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو کہیں سے دو مینڈک حاصل کیجیے اور پھر جب وہ اچھلنے لگیں تو ان کی چھلانگوں کا فاصلہ ناپیے، آپ دیکھیں گے کہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

    (مستنصر حسین تارڑ کے "ڈڈو” سے انتخاب)

  • جہاز میں زاہد حسین نہیں تھا!

    جہاز میں زاہد حسین نہیں تھا!

    ہمارے ایک ٹیچر مشتاق نامی لڑکے سے بہت بیزار تھے۔

    مشتاق کا کمال یہ تھا کہ اسے جو بھی مضمون لکھنے کو کہتے وہ اس میں کہیں نہ کہیں سے "میرا بہترین دوست” ضرور فٹ کردیتا تھا جو اسے فَر فَر یاد تھا۔

    مثال کے طور پر اسے کہا جاتا کہ ریلوے اسٹیشن پر مضمون لکھ دو تو وہ یوں لکھتا کہ میں اور میرے ماں باپ چیچو کی ملیاں جانے کے لیے ریلوے اسٹیشن گئے، وہاں گاڑی کھڑی تھی اور گاڑی میں میرا بہترین دوست زاہد بیٹھا تھا- زاہد حسین میرا کلاس فیلو ہے، اس کے تین بہن بھائی ہیں، اس کا باپ محکمہ پولیس میں افسر ہے- زاہد حسین بہت اچھا لڑکا ہے۔

    اگر اسے "میرا استاد” مضمون لکھنے کو کہتے تو وہ لکھتا۔

    ماسٹر افتخار میرے پسندیدہ استاد ہیں۔ ایک روز میں ان سے ملنے ان کے گھر گیا تو وہاں میرا بہترین دوست زاہد بیٹھا تھا- زاہد حسین میرا کلاس فیلو ہے۔ اس کے تین بہن بھائی ہیں۔ اس کا باپ محکمہ پولیس میں افسر ہے- زاہد حسین بہت اچھا لڑکا ہے۔

    ظاہر ہے جب کرکٹ میچ یا پکنک کی باری آتی تو وہاں بھی زاہد حسین موجود ہوتا ہے۔ تنگ آکر ماسٹر صاحب نے کہا کہ دیکھو یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہر جگہ تمھارا دوست زاہد حسین موجود ہو۔ آج تم ہوائی جہاز پر مضون لکھو اور یاد رکھو ہوائی جہاز میں زاہد حسین موجود نہیں ہونا چاہیے۔

    دوسرے دن مشتاق نے مضمون لکھا وہ اس طرح تھا۔

    میں اپنے ماں باپ کے ساتھ ایئرپورٹ گیا۔ وہاں جہاز کھڑا تھا، ہم اس میں بیٹھ گئے۔ جہاز میں زاہد حسین نہیں تھا۔ پھر جہاز اڑنے لگا۔ میں نے کھڑکی سے نیچے جھانکا تو زمین پر میرا بہترین دوست زاہد جا رہا تھا۔ زاہد حسین میرا کلاس فیلو ہے۔ اس کے تین بہن بھائی……

  • انور سجاد: اردو ادب کے باغ کی آخری بہار

    انور سجاد: اردو ادب کے باغ کی آخری بہار

    ہر شخص کو موت آ لے گی، سوائے آرٹسٹ کے۔

    آرٹسٹ اپنے آرٹ کے وسیلے زندہ رہتا ہے۔ آرٹ ہی آب حیات ہے، یہی صدیوں تک جینے کا نسخہ ہے۔ یہی باقی رکھتا ہے۔

    انور سجاد اپنی اساس میں ایک آرٹسٹ تھے، ایک مکمل آرٹسٹ۔ چاہے وہ فکشن لکھ رہے ہوں، یا ہاتھ میں برش ہو، یا رقص میں ان کے پاؤں تھرکتے ہوں، یا ان کی باکمال آواز  ہماری سماعتوں میں اترتی ہو، ہمیشہ ایک آرٹسٹ ہمارے روبرو ہوتا۔

    جدید افسانے کے اس سرخیل، اس باکمال فکشن نگار سے متعلق، اس دل پذیر شخص سے متعلق اردو کے چند اہم ادیبوں سے ہم نے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔

    بین الاقوامی معیار کی اردونثر کاجہان تو اجڑ گیا: مستنصر حسین تارڑ

    اردو کے ہر دل عزیز  ادیب، ممتاز فکشن نگار اور سفر نامہ نویس، مستنصر حسین تارڑ نے ڈاکٹر انور سجاد کے انتقال پر کہا، انتظار حسین، عبداللہ حسین، یوسفی صاحب اور اب انور سجاد؛ بین الاقوامی معیار کی اردونثر کاجہان تو اجڑ گیا.

    انھوں نے کہا کہ انور سجاد ادب کے باغ کی (خوشیوں کا باغ کی) آخری بہار تھی، آخری خوش نوا، خوش آثار، خوش کمال آخری بلبل تھی جو، نغمہ سنج ہوتی  رخصت ہوگئی، اور باغ اجڑ کے رہ گیا۔

    تارڑ صاحب کے مطابق انور سجار، سریندر پرکاش اور بلراج من را کے ساتھ جدید افسانے کے بانیوں‌ میں شمار ہوتے ہیں، ان کے ہاں ایک خاص ردھم تھا، زبان پر بڑی گرفت تھی. انور سجاد نے جدید اردو افسانے پر دیرپا اثرات مرتب کیے، 90 فی صد جدید کہانی کار ان ہی کے انداز کی پیروی کرتے ہیں، البتہ ان کے ہاں وہ ردہم مفقود ہے.

    ان کے مطابق انور سجاد کی مثال اس ماڈرن آرٹسٹ کی تھی، جو کلاسیکی آرٹ پر بھی گرفت رکھتا ہے، جو تجریدی اسٹروک سے پہلے سیدھی لکیر کھینچا جانتا ہے، بعد والوں میں یہ فن کم  دکھائی دیا. اللہ  مرحوم کی مغفرت فرمائے اور سفرِ آخرت میں آسانیاں عطا فرمائے.

    وہ علامت نگاروں اور تجرید نگاروں میں‌ نئی تحریک کے بانی تھے: محمد حمید شاہد

    ممتاز نقاد اور فکشن نگار، محمد حمید شاہد کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر انور سجاد ان افراد میں‌ سے تھے، جنھوں نے اردو فکشن کا مزاج بدلا، انتظار حسین نے ماضی  میں اپنا تخلیقی جوہر ڈھونڈا، انور سجاد نے حال اور لمحہ موجود سے جڑ کر اپنا ادب تخلیق کیا، علامت نگاروں اور تجرید نگاروں میں‌ وہ نئی تحریک کے بانی تھے.

    انھوں نے کہا کہ انور سجاد نے اپنے معاصرین پر گہرے اثرات مرتب کیے. ان کا ناول ’’خوشیوں کا باغ‘‘ منفرد شے ہے، انھوں نے زندگی کو الگ انداز میں محسوس کیا، نظریاتی طور پر ترقی پسند تھے، البتہ فکشن میں‌اپنی راہ الگ بنائی. ڈرامے بھی خوب لکھے، صدا کاری کی رقص کیا، مصوری کی.

    فکری طرح پر بہت واضح تھے، بڑے انسان تھے، لکھنا ترک کر دیا، مگر اپنا کام کر گئے. لکھنایوں  چھوڑا کہ انھیں لگا کہ وہ خود کو دہرا رہے ہیں، ایک بار انتظار حسین سے بھی کہہ دیا کہ اب آپ بھی لکھنا چھوڑ دیں۔ المختصر انھوں نے ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو بھرپور انداز میں استعمال کیا.

    انور سجاد کے فکشن نے اردو پر گہرے اثرات مرتب کیے: رفاقت حیات

    معروف فکشن نگار رفاقت حیات کے مطابق منٹو کے بعد جن افراد نے فکشن میں‌نئی جہت متعارف کروانے کی کوشش کی، ان میں‌انتظار حسین اور انور سجاد کا نام اہم ہے. منٹو کا افسانہ ’’پھندے‘‘ ان کے سامنے ایک مثال تھا.

    انور سجاد منٹو کی حقیقت نگاری کے بجائے علامت کی طرف گئے، گو وہ کچھ جلدی چلے گئے، ابھی حقیقت نگاری میں بہت کام باقی تھا، مگر انھوں نے معیاری فکشن لکھا.

    ان کا سب سے اچھا کام ان کے افسانوں میں سامنے آیا. انتظار حسین اور انور سجاد نے آدمی کے اندر کی دنیا، ٹوٹ پھوٹ کو منظر کیا، خارج سے ہٹ کر اس کے باطن کی طرف متوجہ کیا. اس کا اثر یہ ہوا کہ حقیقت نگار  بھی اِس سمت متوجہ ہوئے، انھوں‌نے توازن قائم کیا.

    رفاقت حیات کے مطابق  آج ناول میں‌ جو تجربات ہورہے ہیں، زبان اور پلاٹ کے حوالے سے، ان کی ابتدائی مثالوں‌ میں ان کا ناول "خوشیوں کا باغ” اہم ہے. انور سجاد کے فکشن نے اردو پر گہرے اثرات مرتب کیے.

  • مستنصرحسین تارڑ کو سالگرہ مبارک

    مستنصرحسین تارڑ کو سالگرہ مبارک

    اردو ادب کے عظیم ادیب اور سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ آج اپنی 80 ویں سالگرہ منا رہے ہیں، آپ اب تک پچاس سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کی وجہ شہرت سفر نامے اور ناول نگاری ہے۔ اس کے علاوہ ڈراما نگاری، افسانہ نگاری اور فن اداکاری سے بھی وابستہ رہے۔ مستنصر حسین تارڑ کا شمار پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیبوں میں ہوتا ہے۔

    مستنصر حسین تارڑ 1 مارچ 1939ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ بیڈن روڈ پر واقع لکشمی مینشن میں اُن کا بچپن گزرا جہاں ان کے پڑوس میں سعادت حسن منٹو رہتے تھے۔ اُنھوں نے مشن ہائی اسکول، رنگ محل اور مسلم ماڈل ہائی اسکول میں تعلیم حاصل ک۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ ایف اے کے بعد برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ممالک کا رخ کیا، جہاں فلم، تھیٹر اور ادب کو نئے زاویے سے سمجھنے، پرکھنے اور برتنے کا موقع ملا۔ پانچ برس وہاں گزارے اور ٹیکسٹائل انجنئیرنگ کی تعلیم حاصل کرکے وطن واپس لوٹے۔

    انہوں نے ٹی وی ڈراموں میں بھی کام کیا ہے اورمتعدد سفر بھی کیے ہیں اور 20 سے زائد سفر نامے تحریر کیے ہیں۔باقاعدگی سے کالم بھی لکھا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ناول کے حوالے سے بھی ان کا نام اہم ہے۔ انہوں نے بہاؤ، راکھ، خس و خاشاک زمانے ، اے غزال شب اور منطق الطیرجیسے شہرہ آفاق ناول تخلیق کیے۔

    ناول دھماکا نہیں کرتا، بلکہ قاری میں سرایت کر جاتا ہے: مستنصر حسین تارڑ

    کبھی شہرت کو سنجیدہ نہیں‌ لیا، ممتاز ادیب مستنصر حسین تارڑ‌ کا خصوصی انٹرویو

    ان کا اپنی تخلیقات سے متعلق کہنا ت ہے کہ ’’بہاؤ‘‘ جیسا ناول اب خود بھی نہیں لکھ سکتا، اپنا آخری ناول ’’منطق الطیر جدید‘‘ لکھتے ہوئے اسی تخلیق تجربے سے گزرا، جس سے بہاؤ کے وقت گزرا تھا۔

    ناول اور سفرناموں کے علاوہ مستنصر حسین تارڑ نے ڈرامے بھی تحریر کیے جن میں قابل ذکر شہپر، ہزاروں راستے، پرندے ،سورج کے ساتھ ساتھ، ایک حقیقت ایک افسانہ، کیلاش اور فریب شامل ہیں۔

    اس کے علاوہ آپ نے ٹی وی پروگراموں کی میزبانی بھی کرتے رہے ہیں۔ پی ٹی وی نے جب پہلی مرتبہ 1988ء میں صبح کی نشریات صبح بخیر کے نام سے شروع کیں تو مستنصر حسین تارڑ نے ان نشریات کی کئی سال تک میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔ ریڈیو پروگرام کی بھی میزبانی کی ۔

    مستنصر حسین تارڑ کو متعدد انعامات اور اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے جن میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، پی ٹی وی ایوارڈ اورلائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سرفہرست ہیں ۔