Tag: مستنصر حسین تارڑ

  • ناول دھماکا نہیں کرتا، بلکہ آہستہ آہستہ قاری میں سرایت کر جاتا ہے: مستنصر حسین تارڑ

    ناول دھماکا نہیں کرتا، بلکہ آہستہ آہستہ قاری میں سرایت کر جاتا ہے: مستنصر حسین تارڑ

    وہاں سیکڑوں پنچھی تھے، جو  ٹیلے کی سمت کھنچے چلے آئے تھے کہ اُنھیں خبر ملی تھی کہ وہ فسوں گر  ادھر  موجود ہے۔ فسوں گر، جس کی بانسری کی دھن نے انھیں گرویدہ بنا لیا ہے.

    وہ شخص ادھر موجود ہے، جس کے الفاظ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ ہیں، جس کی کہانیاں ان کی رگوں میں دوڑتی ہیں۔

    تو وہ آرٹس کونسل آف پاکستان کی سمت آتے تھے، جہاں گیارہویں عالمی اردو کانفرنس جاری تھی۔

    [bs-quote quote=”فکشن بے یقینی کو معلق کرنے کا نام ہے، آپ کہتے ہیں کہ یہ ناقابل یقین ہے، مگر اس کی طاقت اسے معلق کر دیتی ہے، یہ اسی وقت ہوتا ہے، جب آپ بھٹکنے کو تیار ہوں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

    یہ مستنصر حسین تارڑ کا ذکر ہے۔ تارڑ، جو ایک امکان کا نام ہے۔ امکان کہ ادیب کو بھی عالم گیر محبت مل سکتی ہے،امکان کہ اب بھی الفاظ جاود جگا سکتے ہیں،  امکان کہ لکھاری کو بھی دیوانہ وار چاہا جاسکتا ہے۔

    لازوال ادیب گیبرئیل گارسیا مارکیز نے اساطیری شہرت کے حامل چے گویرا سے متعلق کہا تھا،’’میں اس کے بارے میں سیکڑوں برس تک لاکھوں صفحات لکھ سکتا ہوں۔‘‘ البتہ تارڑ صاحب سے متعلق ایسا کوئی بھی دعویٰ مناسب نہیں کہ ہمیں سیکڑوں برس میسر نہیں۔ البتہ اس بے بدل ادیب کے اس خصوصی انٹرویو سے قبل، جو ان کے تازہ ناول ’’منطق الطیر، جدید‘‘ کے گرد گھومتا ہے، تعارف ضروری ہے، چاہے وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو۔

    وہ، جو جھنڈے کی طرح ممتاز ہے


    تارڑ صاحب آپ اپنا تعارف ہیں۔ 1939 لاہور میں آنکھ کھولی۔ گجرات کے ایک کاشت کار گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔ اس قلم کار نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ جو اِن سے پہلے گزرے، اُن میں سے بیش تر کی یاد ذہن سے محو ہوئی، اورجو بعد میں آئے، اُن میں سے اکثر کے سر احتراماً جھک گئے۔

    آپ کی کئی جہتیں ہیں۔ سفرنامہ نویس، فکشن نگار، اداکار، اسکرپٹ رائٹر، ٹی وی میزبان، اور ہر شعبے میں اپنی مثال آپ۔ کہا جاسکتا ہے کہ تارڑ صاحب نے جس شے کو ہاتھ لگایا، اسے سونا بنا دیا۔

    چار سو ڈراموں میں لیڈ، مقبول ترین مارننگ شو کی میزبانی، مگر شوبز کی کہانی کے لیے ایک الگ نشست درکار، سو اپنی توجہ ادب پر مرکوز رکھتے ہیں۔

    ستر سے زاید کتب آپ کے قلم نکلیں، جو اپنے میدان میں مقبول ترین ٹھہریں۔ ’’نکلے تیری تلاش میں‘‘ نے اردو سفر نامے میں نئی جہت متعارف کروائی، ’’پیار کا پہلا شہر‘‘ اردو ناول کی صنف میں بیسٹ سیلر ٹھہرا، اور ناول ”بہاﺅ “ نے اردو فکشن کو اوج پرپہنچا دیا، جسے پڑھ کر ایک ہندوستانی نقاد پروفیسر خالد اشرف نے کہا تھا:’’اردو کا مستقبل اب لاہور سے وابستہ ہے، جہاں تارڑ رہتا ہے۔‘‘ ادبی جریدے ”ذہن جدید“ کے سروے میں یہ اردو کے دس بہترین ناولز کا حصہ بنا، اور بی بی سی نے اس کا موازنہ مارکیز کے ”تنہائی کے سو سال“ سے کیا۔

    [bs-quote quote=”’’منطق الطیر جدید‘‘ ایک مشکل کام تھا۔ ’’بہاؤ ‘‘کے بعد اگر کسی ناول پر یکسوئی سے کام کیا، تو  اسی پر کیا” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

    ان کے ایک اہم ناول ’’اے غزال شب‘‘ کا ”لینن فور سیل“ کے عنوان سے انگریزی میں ترجمہ ہوا، جو عالمی ادب کے قارئین کویہ خبر پہنچتا ہے کہ اردو فکشن کا بہاﺅ اورگہرائی کیا ہے۔ حساس موضوعات کو منظر کرتے ناول ”راکھ“ نے 1999 میں وزیراعظم ادبی ایوارڈ اپنے نام کیا۔ اسے ایک جرمن ریسرچ نے برصغیر کا نمایندہ ناول قرار دیا۔

    ان کی کتب گذشتہ تیس برس سے شعبہ اردو، ماسکو یونیورسٹی میں پڑھائی جارہی ہیں، جہاں کے طلبا یہ کہتے ہیں کہ وہ اردو ادب کو فیض اور تارڑ کی وجہ سے جانتے ہیں۔

    تارڑ صاحب کو دوحہ قطر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا،انھیں تمغہ برائے حسن کارکردگی پیش کیا گیا، ستارہ امتیاز پیش ہوا، مگر اصل اعزاز وہ عالم گیر محبت ہے، جو ان کے حصے میں آئی۔

    سوال و جواب کی دنیا


    سوال: فرید الدین عطار نے صدیوں، نسلوں کو گرویدہ بنایا، مولانا روم بھی ان سے متاثر تھے، آپ بھی انھیں مرشد کہتے ہیں، ایسے تخلیق کار کی تخلیق کردہ کائنات سے مماثل یا مشابہہ کائنات تخلیق کرنا کتنا بڑا چیلینج تھا؟

    تارڑ: فکشن نگار بنیادی طور پر اس خواہش میں مبتلا ہوتا ہے کہ وہ  بھی چھوٹا سا تخلیق کار بن جائے، تاکہ وہ اپنے تخلیق کار (خدا) کو بتا سکے کہ وہ بھی کسی حد تک قادر ہے۔ فرید الدین عطار کا کلاسیک منطق الطیر گذشتہ پچاس برس سے میرے مطالعے ہے، میری بیش تر کتابوں میں اس کے پرندوں کا تذکرہ آتا ہے، میرے ناول ’’خس و خاشاک‘‘ کا ایک کردار دریا کے کنارے بیٹھا ہوا ہے، اور اچانک پرندہ بن کر اڑ جاتا ہے، میری کتابوں ’’فاختہ‘‘ اور ’’پکھیرو‘‘ میں بھی پرندے ہیں۔

    [bs-quote quote=”جو محدود ذہن رکھتے ہیں، وہ عام طور کتابیں پڑھتے  ہی نہیں ہیں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

    اب سوال یہ ہے کہ یہ پرندے کیوں مجھے اپنی جانب کھینچتے ہیں؟ جیسے میں نے اردو کانفرنس میں کہا تھا کہ ہم بھی عطار کی طرح سچ کے تلاش میں ہیں، سچ ملے نہ ملے، یہ الگ بات ہے، تو میرا ناول ’’منطق الطیر جدید‘‘ فرید الدین عطار کو ٹریبوٹ ہے، ساتھ یہ کہنے کی بھی ہے کہ ہم جو آپ سے متاثر ہوئے ہیں، ہم بھی ایک چھوٹے سے تخلیق کار ہیں، آپ ہی نقش قدم پر چل کر اپنے پرندوں کے ساتھ اپنے سچ کی جستجو میں ہیں۔

    سوال: آپ کی کتابوں میں پرندے تو ابتدا سے ساتھ ہیں، لیکن یہ فیصلہ کب ہوا کہ انھیں ناول کی شکل دی جائے، کیا اس کے لیے ٹلہ جوگیاں کا سفر کیا گیا؟

    تارڑ: دراصل پچاس برس میں ہر شے بدل جاتی ہے، معاشرتی اور اخلاقی اقدار بدل جاتی ہیں، سوچ بدل جاتی ہے، فیشن تو بدل ہی جاتا ہے۔ ہمارے زمانے میں خدا حافظ کہا جاتا تھا، اب اللہ حافظ آگیا، اس وقت لڑکیاں اگر ’’یار‘‘ کا لفظ استعمال کریں، تو بہت معیوب سمجھا جاتا تھا، اب یہ عام ہے۔ مطلب یہ نہیں کہ اخلاق تباہ ہوا ہے، بلکہ  اقدار تبدیل ہوگئیں۔ تو اسی طرح سچ کا تصور بھی بدلا ہے۔ تو ہر فرد یہ جاننے کا خواہش مند ہوتا ہے کہ میں کون ہوں؟ کہاں سے آیا ہوں؟ کہاں جاؤں گا؟ یعنی ہر شخص کو ان ہی سوالوں کی جستجو ہوتی ہے۔ اگر وہ خوش قسمت ہو، تو ایک آدھ کا جواب مل جاتا ہے، اور نہیں بھی ملتا، تو وہ جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ تو یہ ایک ایسی ہی کاوش ہے۔

    ’’منطق الطیر جدید‘‘ ایک مشکل کام تھا۔ ’’بہاؤ ‘‘کے بعد اگر کسی ناول پر یکسوئی سے کام کیا، تو  اسی پر کیا۔ کسی نے کہا  کہ اس میں عام طرز کے برعکس واقعات نگاری نہیں۔ تو میں نے جواب دیا کہ یہ اسی لیے مشکل ہے کہ کوئی واقعہ نہیں، ایک مسلسل کیفیت، ایک مسلسل واقعہ ہے۔ میں نے ٹلہ جوگیاں سے متعلق مطالعہ کیا، ویڈیوز دیکھیں، البتہ کوشش کے باوجود وہاں جا نہیں سکا، تو اپنے تخیل میں ایک ٹلہ جوگیاں بنا لیا، مگر احتیاط کی کہ کوئی ایسی شے نہ ہو، جو متصادم ثابت ہو۔ بعد میں ایک دوست نے ٹلہ جوگیاں چلنے کے لیے کہا، مگر تب میں نے منع کر دیا کہ اب مناسب نہیں۔ پھر ضروری نہیں کہ تخلیق کار وہاں جائے، جس جگہ کو اس نے موضوع بنایا ہو۔

    سوال: آپ نے ایک حساس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، ادیان اور عشق، مردوں کے نمائندہ پرندے، عورتوں کے نمائندہ پرندے، ان کا سنجوگ؟

    تارڑ: مجھے اس میں فرید الدین عطار کی سپورٹ حاصل تھی۔ میں نے لکھتے ہوئے ان حوالوں، سہاروں کو پیش نظر رکھا، جیسے منصور حلاج، قرۃ العین طاہرہ۔ پھر اپنا نظریہ شامل کیا۔ پھر اس میں تاریخی حوالے بھی ہیں۔ خوش قسمتی سے، جو محدود ذہن رکھتے ہیں، وہ عام طور کتابیں پڑھتے  ہی نہیں ہیں۔

    سوال: ناول ’’خس و خاشاک زمانے‘‘ آپ کے دیگر ناولز سے نہ صرف ضخیم ہے، بلکہ اس کا کینوس بھی وسیع ہے، ہندوستانی فکشن نگار مشرف عالم ذوقی نے اسے کلاسیکی ناول سے میلوں آگے کی چیز قرار دیا، البتہ توقعات کے برعکس وہ زیادہ زیربحث نہیں آیا؟

    تارڑ: دراصل ضخیم ناول لوگ پڑھنے سے گھبراتے ہیں۔ جب جب میرے تین بہترین ناولز کا انتخاب کیا گیا، تو ہر شخص نے اپنی پسند کے مطابق چناؤ کیا۔ آج کل میرے ناول ’’ڈاکیا اور جولاہا‘‘ پر بات ہو رہی ہے، گو اسے چھپے ہوئے دس برس ہوگئے۔ تو ناول نظم یا غزل کی طرح دھماکا نہیں کرتا، وہ آہستہ آہستہ اپنی جگہ بناتا ہے، آہستہ آہستہ قارئین میں سرایت کرتا جاتا ہے۔ اگر سکت ہوتی ہے، تو باقی رہتا ہے، ورنہ نہیں رہتا۔

    [bs-quote quote=”لٹریچر میں واضح منزل سے انحراف کے حیران کن نتائج برآمد ہوتے ہیں” style=”style-7″ align=”left” author_name=”مستنصر حسین تارڑ”][/bs-quote]

    سوال: ’’منطق الطیر جدید‘‘ کی تکنیک پر بات کرتے ہوئے ممتاز نقاد اور دانش ور شمیم حنفی نے اس ضمن میں ’’یولیسس‘‘ کا حوالہ دیا تھا؟

    تارڑ: ہاں، اس میں جیمز جوائس کے یولیسس کی طرح کوئی باقاعدہ واقعہ نہیں ہے، اس تناظر میں کہہ سکتے ہیں۔

    سوال: آپ کے لکھنے کا ڈھب کیا ہے؟ ٹائپ کرتے ہیں، ہاتھ سے لکھتے ہیں؟

    جواب: نہیں میں ٹائپ نہیں کرتا، انگریزی میں جب کالم لکھتا تھا، تو ٹائپ رائٹر پر لکھتا تھا، ورنہ میز پر قلم کے ساتھ لکھتا ہوں، جب تک قلم سے نہیں لکھتا، بات نہیں بنتی۔ قلم سے بھی کچھ برآمد ہوتا ہے۔ ساڑھے سات بجے اسٹڈی میں چلا جاتا ہوں، ساڑھے دس گیارہ بجے تک وہاں رہتا ہوں۔

    سوال: آپ نے اپنی فکشن نگار ی سے متعلق ایک بار کہا تھا کہ آپ سفر سے قبل منزل سامنے رکھتے ہیں، مگر پھر نامعلوم کی سمت چلے جاتے ہیں؟

    جواب: کئی برس پہلے کی بات ہے، اسلام آباد کی ایک ادبی تقریب میں ممتاز مفتی میرے پاس آئے، اور کہا کہ ’’ٹی وی کی شہرت تمھیں کھا جائے گی، تم میں بڑا ادیب بنے کی صلاحیت ہے۔‘‘ میں نے کہا،’’مفتی صاحب، میں اس شہرت کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔‘‘ کہنے لگے،’’نہیں، ٹی وی چھوڑو، ورنہ میں تم سے بات نہیں کروں گا۔‘‘ خیر، بعد میں انھوں نے خط لکھا اور  تسلیم کیا کہ ان کا اندازہ  غلط تھا۔

    کچھ عرصے بعد پروفیسر رفیق اختر کے گھر ایک ملاقات ہوئی، وہاں ممتاز مفتی کے علاوہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ بھی موجود تھے۔ تو وہاں ممتاز مفتی نے اچانک کہا، ’’تارڑ، یہ جو تم لکھتے لکھتے اچانک نئی سمت چلے جاتے ہو، یہ تکنیک پروفیسر رفیق اختر سے مستعار لی؟‘‘ میں نے کہا کہ میں پروفیسر رفیق اختر کی قادر الکلامی اور تفسیر کا بڑا قائل ہوں، مگر یہ میرا اپنا طریقہ ہے۔

    ابتدا میں لکھنے والا بڑا محتاط ہوتا ہے، مگر بعد میں وہ نامعلوم کی سمت، اندھیری گلی کی سمت بھی چلا جاتا ہے۔ جس زمانے میں میں یورپ میں hitchhiking کرتا تھا، تو یوں ہوتا کہ کہیں اور جانا ہے، مگر جس شخص سے لفٹ لی، وہ کسی اور قصبے کی سمت جارہا ہے، تو اس سمت چل دیے، کیوں کہ اس کا اپنا چارم اور رومانس ہوتا ہے، یہی چیز لٹریچر میں ہوتی ہے کہ آپ جس واضح منزل کی سمت جارہے ہیں، اسے انحراف کر کے اس سمت چلے جاتے ہیں، جس کی آپ کو خبر نہیں، اور اس سے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ فکشن بے یقینی کو معلق کرنے کا نام ہے، آپ کہتے ہیں کہ یہ ناقابل یقین ہے، مگر اس کی طاقت اسے معلق کر دیتی ہے، یہ اسی وقت ہوتا ہے، جب آپ بھٹکنے کو تیار ہوں۔

    سوال: ’’اے غزال شب‘‘ کے بعد ایک طویل وقفہ تھا، ناول کی سمت آپ بارہ برس بعد آئے، تو اب پھر ایک وقفہ ہے، یا کسی ناول پر کام کر رہے ہیں؟

    تارڑ: ’’اے غزال شپ‘‘ کے بعد میرا نہیں خیال تھا کہ پھر فکشن لکھوں گا، مگر پھر یہ (منطق الطیر جدید) سامنے آگیا، مگر فی الحال کوئی ناول ذہن میں نہیں ہے، ممکن ہے، یہ آخری ہو۔

  • کتب بینی میں کمی نہیں آئی بلکہ قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوا، مستنصر حسین تارڑ

    کتب بینی میں کمی نہیں آئی بلکہ قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوا، مستنصر حسین تارڑ

    کراچی: ممتاز مصنف، کالم و نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ نے کہا ہے کہ کتب بینی میں کسی بھی طرح کمی نہیں آئی بلکہ قارئین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا، قاری اپنےرائٹر سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق لکھے۔

    تفصیلات کے مطابق آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام گیارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے دوسرے روز کئی ادبی محافل کا انعقاد کیا گیا، چھٹے اجلاس میں ممتاز مصنف، کالم نگار ، ڈرامہ اور نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

    مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ ’کتب بینی میں کسی بھی طرح کمی نہیں آئی ہے بلکہ یہ پہلے سے بڑھ گئی، پہلے پڑھنے والا لکھنے والے کے پیچھے ہوتا تھا مگر آج قاری  لکھنے والے سے آگے آگے ہوتا ہے، اس لیے وہ مصنف سے بین الاقوامی طرز پر لکھنے کی توقع بھی رکھتا ہے‘۔

    اُن کا کہنا تھا کہ  مجھ سے اکثر یہ پوچھا جاتا ہے کہ میری کتابوں کی فروخت زیادہ کیوں نہیں ہوتی؟ میرا جواب یہی ہے کہ میں اچھا لکھتا ہوں، پہلے رائٹرز کا ایک ایڈیشن شائع ہوتا تھا اور سال سال بھر پڑا رہتا تھا مگر اس میں مصنف کی غلطی نہیں تھی بلکہ یہ کتاب کے تقسیم کار  کی غلطی تھی کیو نکہ وہ کتاب کی درست طریقے سے تقسیم نہیں کرتے تھے، اگر ڈسٹری بیوٹر درست انداز سے کتاب کی تقسیم کرے تو بیس ہزار سے زائد کتابیں فروخت ہوسکتی ہیں۔

    مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ ‘میری کتاب ”پیار کا پہلا شہر“کے اب تک 76ایڈیشن شائع ہوچکے، اگر میں لکھاری نہیں ہوتا تو  تو صرف ایک قاری ہی ہوتا کیونکہ میں کتاب کے بغیر نہیں رہ سکتا‘۔

    مزید پڑھیں: عالمی اردو کانفرنس: ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

    نامہ نگار کا کہنا تھا کہ ’میں اکثر ادبی تقاریب میں خود جاتا ہوں جبکہ زیادہ پرگراموں میں مجھے مدعو بھی کیا جاتا ہے، پہلے تو دعوت نامہ دینے والوں سے میں خود ہی معذرت کرلیتا ہوں اور انہیں بتاتا ہوں کہ میں 80 سال کا ہورہا ہوں اس لیے مجھے زیادہ نہ بلایا کریں، یہ بات سن کر وہ کہتے ہیں کہ ’دیکھیں آئندہ سال کس نے دیکھا ہے ہم ہوں یا نہ ہوں لہٰذا آپ تقریب میں شرکت ضرور کریں، میں ان کے اصرار پر سمجھ جاتا ہوں کہ وہ یہ بات خود کے لیے نہیں بلکہ مجھے ہی مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں‘۔

    مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ پانی، پرندے اور موت یہ تینوں موضوع میرے ناولوں کے لازمی جز ہیں کیونکہ میں موت کے بہت قریب سے کئی بار گزر چکا ہوں۔

    اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے مستنصر حسین تارڑ کا کہنا تھا کہ ’ایک بار مجھے حالات غنودگی میں اسپتال لے جایا جارہا تھا تو میں نے دیکھا کہ سامنے میری والدہ دوپٹہ اوڑھے کھڑی مجھے دیکھ رہی ہیں، میں نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں تجھے دیکھنے آئی ہوں تب مجھے تسلی ہوئی کہ میری زندگی ابھی باقی ہے کیونکہ اگر یہ میری زندگی کا آخری سفر ہوتا تو میری ماں مجھ سے کہتی کہ میں تجھے لینے آئی ہوں‘۔

    مستنصر حسین تارڑ نے مزید بتایا کہ میں برطانیہ سے روس اُس دور میں پہنچا جب وہاں غیر ملکیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر انقلابِ روس کے بعد مقامیوں نے مہمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’میری تصانیف کے کئی حصے اور تحریریں ماسکو کے مختلف کالجوں کے نصاب میں شامل ہیں اور طالب علم ان سے استفادہ بھی کررہے ہیں‘۔

    ’ماسکو میں پاکستان دو باتوں کی وجہ سے مشہور ہے ایک فیض کی شاعری اور دوسری میری نثر نگاری‘۔

    اس موقع پر بھارت سے آئے ہوئے ممتاز دانشور اور نقاد شمیم حنفی نے مستنصر حسین تارڑ کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری خوش بختی ہے کہ جن لوگوں سے میرا 45سال پرانا ساتھ ہے اُن سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، میں نے جب مستنصر حسین تارڑ کی کتابیں ”نکلی تیری تلاش میں“ اور ”فاختہ“ پڑھیں تو میں ان کا کا دیوانہ ہوگیا کیونکہ مجھے وہ لوگ اچھے لگتے ہیں جو آسمان سے زیادہ زمین سے جُڑے ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’تارڑ صاحب کا ناول ”بہاﺅ“ بھارت میں بھی بہت مشہور ہے‘۔

    انہوں نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ انسان کی نجات کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ وہ انسان دوست ہو، نہ جانے انسان نے نفرت کرنے کے لئے اتنے سارے راستے کیسے تلاش کرلیے، روس نے انقلاب کے بعد بڑا ادب تو پیدا نہیں کیا مگر وہاں پر قارئین کی خاصی بڑی تعداد ضرور پیدا ہوئی، ماسکو اور روس کے قارئین ادیبوں سے بہت محبت کرتے ہیں۔

    ڈاکٹر ضیاءالحسن نے مستنصر حسین تارڑ کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ کسی بھی تخلیق کار کی گفتگو کو ہم اس کے کام کے حوالے سے پرکھتے ہیں مگر قاری اس کو تخلیقی عمل سے باہر رہتے ہوئے دیکھتا ہے، ادب میں تارڑ صاحب کا مقام بہت بڑا ہے انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے مگرمیں سمجھتا ہوں کہ ناول نگاری میں ان کی شہرت بہت زیادہ ہے۔

    اس موقع پر مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ”منطق الطیر“ کا اجراء بھی کیاگیا۔  اجلاس میں معروف نقاد و ادیب شمیم حنفی اور ڈاکٹر ضیاء الحسن نے مستنصر حسین تارڑ کی شخصیت کے حوالے سے بھی گفتگو کی جبکہ اقبال خورشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔        

  • منطق الطیرجدید:عطار کے پرندے اور تارڑ کا عشق

    منطق الطیرجدید:عطار کے پرندے اور تارڑ کا عشق

    چار چیزیں ہیں، جو  اُس کے فن میں رواں دواں ہیں۔

    ان میں سے ایک پرقوت تخیل ہے، جو کسی پکھیرو سا آسمانوں کی وسعتوں میں پرواز کرتا ہے۔ ایک ہے مسلسل سفر سے حاصل ہونے والا اَن مول تجربہ، ایک بے  پناہ مطالعہ ہے، اور  ایک ہے لکھنے کی میز۔

    مستنصر حسین تارڑ کا لکھنے کی میز سے اٹوٹ رشتہ ہے۔ قلم دوات نے بھی بے وفائی نہیں کی۔ اور یوں ایک کے بعد ایک، دلوں میں کھب جانے والی کتابیں جنم لیتی رہیں۔

    [bs-quote quote=”پرندے، پانی اور موت؛ یہ تین چیزیں ہیں، جو تارڑ کے فکشن کا جزو ہیں” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    اور  ان میں سرفہرست ”بہاﺅ “ہے، اپنی نوعیت کا منفرد قصہ، پاروشنی کی کہانی، جو بہ قول عبداللہ حسین اردو فکشن کا مضبوط ترین نسوانی کردار ہے۔

    مگر یہاں پاروشنی موضوع نہیں، گو وہ مصنف کی زیست کا جزو ہے، مگر فی الحال نہیں۔ اس وقت تو پرندے ہمارے موضوع ہیں۔ الگ الگ خطوں سے آنے والے پرندے،ٹلہ جوگیاں کی سمت، جو جہلم سے بیس میل دور، تین ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

    دیکھو، وہ پرندے جوگیوں کی کاخانقاہ کی سمت آتے ہیں، جو ایک چوٹی پر واقع ہے، جس کی بنیاد ایک گیانی گورکھ ناتھ نے دو ہزار سال پیش تر رکھی، جہاں اکبر نے ایک تالاب تعمیر کروایا۔

    فرید الدین عطار کی لازوال کتاب منطق الطیرکے پرندے،جس نے قونیہ کے مولانا روم کو بھی گھائل کیا وہ پرندے لاہور کے تارڑ کے دل کی کائنات میں اڑتے  پھرتے ہیں، اُس کی کہانیوں میں در آتے ہیں، پانی اور موت کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔

    پرندے، پانی اور موت؛ یہ تین چیزیں ہیں، جو تارڑ کے فکشن کا جزو ہیں۔

    [bs-quote quote=”منطق الطیر،جدید وہ کتاب ہے، جس کے تارڑ کے مداح منتظر تھے، بالخصوص وہ، جن کی توجہ کا محوران کا فکشن ہے” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    نیشاپور کے عطار کی لازوال کتاب، جس کا اثر بانو قدسیہ کے ناول ”راجہ گدھ“ پر گہرا ہے، اُسے دوبارہ لکھنے کی ہمت تو وہی کرسکتا ہے، جو عشق سے لبریز ہو، چھلک رہا ہو۔

    رومی نے کہا تھا:”عطار عشق کے سات شہروں سے گزرا، جب کہ میں ابھی پہلی گلی کے موڑ پر ہوں!“

    اور جب تارڑ نے انتساب عطار کے نام کیا،تو لکھا :”پرندوں کی بولیاں میرے کانوں میں پھونکنے والے مرشد عطار کے نام۔“

    صاحبو، جو موضوع شجر ممنوعہ ٹھہرے، جیسے مذہب، اس پر قلم اٹھانے کے لیے بڑا حوصلہ درکار، مگر فکشن کی دنیا میں حوصلہ کافی نہیں۔ یہاں آرٹ شرط ہے۔حساس موضوع کوفکشن کرنا پل صراط عبور کرنے کے مترادف، اور منطق الطیر، جدید کا مصنف یہ کرگزرتا ہے کہ وہ ایک بلند پایہ ادیب ہے۔ ایک پنچھی، جو اب اس آسمان میں پرواز کرتا ہے، جہاں خوف کی پہنچ نہیں۔ اور کلاکار ایسا کہ اپنے پروں کے پھڑپھڑاہٹ سے، گرویدہ بنا لینے والے دل کش مناظر کو جنم دیتا ہے۔

    [bs-quote quote=”رومی نے کہا تھا:عطار عشق کے سات شہروں سے گزرا، جب کہ میں ابھی پہلی گلی کے موڑ پر ہوں” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    ایک ماسٹر رائٹر کے مانند تارڑ نے ٹلہ جوگیاں کے سفر کی، ایک خواب سی دنیا تخلیق کی، ایک ناممکن دنیا، ایک انوکھی دنیا جہاں تاریخ، اساطیر اور مذہبی روایات سے نکلنے والے کرداروں سے ہماری ملاقات ہوتی ہے۔ 

    البتہ سب سے اہم ہیں وہ پرندے، جو صدیوں سے جیوت ہیں، جو سامی و غیرسامی ادیان کے بانیوں کی من موہنی صورت دیکھ چکے ہیں۔ ایک کوہ طور پر موجود تھا ایک نے صلیب اور سمندر کے درمیان چکر کاٹے ایک نے غار حرا میں چاندنی اترتے دیکھی۔ ایک پنچھی بلخ کے آتش کدہ سے آیا، ایک نے بدھ کی پسلی سے جنم لیا ، ایک کرشن کی بنسی سے برآمد ہوا۔

    یہ پنچھی ٹلہ جوگیاں کی سمت کیوں آتے ہیں؟ وہ اپنے ٹھکانوں سے اِس سمت کیوں اڑان بھرتے ہیں؟کیا وہ ہنوز متلاشی ہیں؟ تبصرہ نگار اس بابت خاموش ہے!

    تو صاحبو، کہانی آگے بڑھتی ہے۔ اب مزید پنچھی اترتے ہیں۔ اور یہی کہانی کا اہم ترین موڑ ہے۔ یہ پنچھی اِسی گندمی دھرتی سے ہیں، جو ہیر، سوہنی اور صاحباں کا نور  ہیں، قرة العین طاہرہ ہیں۔ اور یہاں تارڑ نے، ایک بلند پایہ ادیب کے مانند، جو وہ ہے، اپنے نظریہ کو ادب میں گوندھ دیا۔ ایسا نظریہ، جو اگر کوئی اور پیش کرتا، تو شاید پڑھنے والا دہل جاتا۔ یہ کہانی کا سب سے نازک حصہ ہے،سب سے دشوار، سب سے منفرد حصہ۔

    ادیان اور عشق، دو طرح کے پنچھی، مرد اور عورت۔ ایک انوکھا امتزاج۔ ایک پرخطر امتزاج۔

    منطق الطیر،جدید وہ کتاب ہے، جس کے تارڑ کے مداح منتظر تھے، بالخصوص وہ، جن کی توجہ کا محوران کا فکشن ہے۔”اے غزال شب“ کے بعد، اُس اہم ناول کے بعد جب پہلی بار سوویت یونین کے زوال کو کسی اردوناول نگار نے موضوع بنایا ایک طویل وقفہ در آیاتھا۔

    اور یہ بے سبب نہیں تھا کہ تارڑ کو تخلیقی اوج تک پہنچنا تھا۔اپنے مرشد عطارکی تخلیق کردہ صدیوں پرانی دنیا سے مشابہ دنیا تخلیق کرنی تھی۔

    [bs-quote quote=”ایک ماسٹر رائٹر کے مانند تارڑ نے ٹلہ جوگیاں کے سفر کی، ایک خواب سی دنیا تخلیق کی” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    منطق الطیر ، جدید ایک مشکل ناول ہے۔صرف قارئین کے لیے نہیں، جن سے ناول تاریخ، مذہبی روایات اور اساطیر سے واقفیت کا تقاضا کرتا ہے، یہ مصنف کے لیے بھی آسان نہ تھا۔ مصنف، جو اب آٹھ عشرے جی چکا ہے، اورکچھ ایسا لکھنا چاہتا ہے، جو اس نے پہلے نہیں لکھا،کچھ ایسا کہنا چاہتا ہے، جو ان کہا ہے۔

    حقیقت و خواب کے مابین سفر کرتے ہوئے یہ ناول کہیں کہیں علامتی ہوجاتا ہے، اورکہیں کہیں اس میں تجریدی رنگ در آتا ہے۔کہیں کہیں یہ قاری کو پریشان کرتا ہے کہ یہ بیانیہ واقعات نگاری پر مشتمل نہیں۔

    اختتام میں، جب مذہبی بیانیوں کی نمائندگی کرنے والے پنچھی نیشاپور کی سمت جاتے ہیں، عطار کی سمت، تو وہ ویسے نہیں رہتے، جیسے وہ پہلے تھے کہ عشق کی سنہری آگ نے انھیں بدل دیا ہے، من موہنا بنا دیا ہے۔

    اور دیکھو، وہ اڑان بھر چکے ہیں۔ اور اپنے پیچھے ایک نومولود پنچھی چھوڑ کر۔ پنچھی، جو ہمارا ہے، جس سے ہم محبت کرتے ہیں۔