اوٹاوہ: کینڈین وزیراعظم نے کیوبک شہر کی مسجد میں مسلح حملہ آوروں کی جانب سے فائرنگ کےواقعےکو بزدلانہ حرکت قراردیا ہے۔
تفصیلات کےمطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کینیڈاکے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کیوبک مسجد حملے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے خاندان سے ہمدری کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم اس واقعے پر افسردہ ہے۔
Tonight, Canadians grieve for those killed in a cowardly attack on a mosque in Quebec City. My thoughts are with victims & their families.
کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کیوبک شہر کی مسجدمیں مسلح افراد کی فائرنگ کو دہشت گرد حملہ قرار دیا ہے۔
وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنے بیان میں کہا کہ فائرنگ کے اس واقعےکی تحقیقات کی جارہی ہے،انہوں نےکہا کہ مسلمان کمیونٹی ہماری سوسائٹی کا اہم حصہ ہے۔انہوں نےکہا کہ اس طرح کے حملوں کی ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
واضح رہےکہ کینیڈاکےشہرکیوبک کی مسجد میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کےنتیجےمیں چھ نمازی شہید جبکہ آٹھ افراد زخمی ہوگئے،فائرنگ کے وقت مسجد میں 40افراد موجود تھے۔
آسٹن: امریکی ریاست ٹیکساس کےشہرآسٹن میں قائم اسلامی مرکز اور مسجد آتشزدگی سے جل کرمکمل طور پرجل کرشہیدہوگئی۔
تفصیلات کےمطابق امریکی ریاست ٹیکساس کےشہر آسٹن میں مسجدمکمل طو پر جل کر شہید ہو گئی۔ایک ہفتے قبل مسجد میں چوری کی واردات بھی ہوئی تھی۔
عینی شاہدین کےمطابق مسجد میں آگ کا پتہ رات دو بجے کے قریب چلا اس وقت تک آگ مسجد کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔
وکٹوریہ اسلامی مرکز کے صدر شاہد ہاشمی کا کہنا ہےکہ مسجد مکمل طو پر شہید ہو چکی ہے،اور اسے جلتےاور منہدم ہوتےدیکھنا بہت تکلیف دہ تھا۔وکٹوریہ فائر مارشل ٹام لیگلر کا کہنا ہےکہ آگ لگنے کی وجوہات کا پتہ چلایاجا رہا ہے۔
شاہد ہاشمی کاکہنا ہے کہ ایک ہفتہ قبل مسجد میں رکھے لیپ ٹاپ اور دیگر قیمتی اشیا چوری ہوئی تھیں۔انہوں نےکہامسجد پر چند سال قبل شدت پسندوں کی جانب سے حملہ بھی کیا گیا تھا۔
واضح رہےکہ گزشتہ سال نومبر میں امریکی ریاست کیلیفورنیا میں مساجد کو موصول دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے تھے،جن میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف کی گئی ہے اور مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی دی گئی تھی۔
شارجہ : نوجوان لڑکے کو مسجد کے چندہ بکس سے پیسے چوری کر تے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیاگیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق شارجہ کو آپریٹیوسوسائٹی کی مسجد عبداللہ بن عمر کی انتظامیہ کو چندے کے ڈبے سے رقم غائب ہونے کی شکایات کا سامنا تھا، چور کو پکڑنے کے لیے ایک ملازم کو چندے کے باکس کی خفیہ نگرانی کی ذمہ داری دے دی گئی تھی جس نے ظہر کی نماز کے بعد ایک نوجوان لڑکے کو رقم چراتے ہوئے دیکھ لیا اور تصاویر کھینچ کر پولیس کو آگاہ کردیا۔
شارجہ پولیس نے مسجد انتظامیہ کی شکایت اور ثبوت فراہم کرنے کے بعد 17سالہ عرب نوجوان کو گرفتار کر کے تھانے منتقل کردیا ہے جہاں ملزم سے تحقیقات کا عمل جاری ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ عرب نوجوان کو مسجد کے چندہ باکس سے 250 درہم چوری کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ لڑکا ظہر کی نماز کے بعد عبداللہ بن عمر بن الخطاب مسجد میں داخل ہوا اور پیسے چراتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔
شارجہ پولیس نے نوجوان کو عدالت میں پیش کردیا ہے جہاں ملزم نے تمام الزامات سے یکسر انکار کر دیا جب کہ ملزم کے والد کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا بے گناہ ہے۔
پولیس نے موقف اختیار کیا کہ مسجد کی صفائی کرنے والے ملازم نے لڑکے کو چیرٹی باکس کے نزدیک کھڑے ہوکر ہینگر تار کی مدد سے پیسے نکالتے ہوئے دیکھا اور تصاویر اتارلیں جس کے بعد پولیس کو بلایا گیا تھا۔
مسجد عبداللہ بن عمر کے ملازم نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ لڑکے نے چندہ باکس سے رقم چرائی جس کی موقع پر تصاویر بنا لی تھیں جو کہ پبلک پراسیکیوشن کے حوالے بھی کر دی گئی ہیں۔
شارجہ پولیس نے عدالت کو مزید بتایا کہ یہ نوجوان لڑکا دیگر نامعلوم لڑکوں کے ساتھ مل کر دیگر مساجد کے چندہ باکس سے بھی پیسے چرانے میں ملوث ہے۔
عدالت نے فریقین اور گواہ کے بیانات سننے کے بعد کیس کی سماعت اگلے مہینے تک ملتوی کر دی ہے۔
کیلیفورنیا : کونسل برائے امریکن اسلامک ریلیشنز کا کہنا ہے کہ لاس اینجلس کی تین مساجد کو دھمکی آمیز خط موصول ہوئے ہیں تنظیم نے مساجد کے باہر پولیس کی نفری بڑھانے کا مطالبہ کیا۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجینسی کے مطابق کونسل برائے امریکن ریلیشنز نے لاس اینجلس کی تین مساجد کو لکھے گئے دھمکی آمیز خطوط ملنے پر انتظامیہ سے سیکیورٹی کا مطالبہ کردیا ہے۔
یہ خطوط گزشتہ ہفتے اسلامک سینٹر آف لانگ بیچ، اسلامک سینٹر آف کلیرمونٹ اور ایور گرین اسلامک سینٹر سینٹ جوز میں بھیجے گئے۔
مساجد کو موصول دھمکی آمیز خطوط ہاتھ سے تحریر کیے گئے ہیں جن میں نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف کی گئی ہے اور مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی دی گئی ہے۔
کونسل نے بتایا ہے کہ خط میں ڈونلڈ ٹرمپ کو نیا پولیس والا ظاہر کیا گیا ہے جو امریکا کو مسلمانوں سے صاف کردے گا اور مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا۔
سین جوز پولیس ڈپارٹمنٹ کے ترجمان سارجنٹ اینرک گارشیا نے کہا کہ پولیس نے تحقیقات شروع کردی ہیں اور اس معاملے کو نفرت پر مبنی عمل قرار دیا گیا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ امریکہ مذہبی رواداری پر یقین رکھتا ہے جہاں ہر شہری کو اپنے اپنے عقائد کے مطابق مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔
واضح رہے کہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے نفرت آمیز اور متنازعہ بیانات کے باعث شہرت رکھتے ہیں جن کے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی اقلیتیوں بالخصوص مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
تہران: دنیا میں کئی ایسی مساجد تعمیر کی گئیں جو فن تعمیر کا نمونہ ہیں۔ ان مساجد میں تعمیر کروانے والوں کی عقیدت اور تعمیر کرنے والوں کی مہارت و کاریگری نے مل کر ان مساجد کو عبادت کے ساتھ ایک قابل دید مقام میں بدل دیا۔
ان میں سے کچھ مساجد سیاحوں کے لیے بھی کھلی ہیں اور یہاں مسلمانوں اور غیر مسلم افراد دونوں کو داخلے کی اجازت ہے۔
ایسی ہی ایک مسجد ایران کے شہر شیراز میں بھی ہے جسے شاہ چراغ کہا جاتا ہے۔ شاہ چراغ یعنی بادشاہ کی روشنی یا چراغ نامی اس مسجد میں ہزاروں شیشوں کا استعمال کیا گیا ہے جو سورج اور چاند کی روشنی کو منعکس کر کے نہایت حسین سماں باندھ دیتے ہیں۔
اس مسجد کے بارے میں ابتدائی معلومات اندھیرے میں ہیں۔ بعض روایات کے مطابق 900 صدی عیسوی میں ایک سیاح نے کسی مقام سے روشنی آتی دیکھی تھی۔ جب اس نے وہاں پہنچ کر دیکھا تو وہاں ایک قبر موجود تھی جہاں سے روشنی نکل رہی تھی۔
یہ قبر بعد ازاں ایک مسلمان سپہ سالار کی ثابت ہوئی جس کے بعد اس کو باقاعدہ مقبرے اور مسجد کی شکل دے دی گئی۔
کابل: افغانستان کے دارالحکومت کابل میں واقع ایک مسجد میں دورانِ نماز خودکش حملے کے نتیجے میں جاں بحق افراد کی تعداد 32 ہوگئی، تیس سے زائد افراد زخمی ہیں،حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی۔
تفصیلات کے مطابق خود کش دھماکا کابل میں واقع اہل تشیع مکتبہ فکر کی مسجد باقر العلوم میں ہوا جس کے نتیجے میں 27 نمازی شہید اور متعدد افراد زخمی ہو گئے، بعدازاں زخمی افراد کے دم توڑنے سے یہ تعداد 32 ہوگئی،خود کش دھماکے وقت مسجد میں بڑی تعداد میں نمازی موجود تھے۔
افغان سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ خود کش حملہ آور پیدل آیا تھا اور دوران ادائیگی نماز مسجد کی صفوں میں شامل ہو کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
دھماکے کی اطلاع ملتے ہی امدادی ادارے فوری طور پر جائے وقوع پر پہنچ گئے اور جاں بحق و زخمی افراد کو قریبی اسپتال منتقل کیا جنہیں طبی امداد دی جا رہی ہے اسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ متعدد زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہے جس کے سبب شہادتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
افغان حکام کے مطابق خود کش حملے کے محرکات کا جائزہ لے رہے ہیں، جائے وقوع سے اہم ابتدائی شواہد اکٹھے کر لیے ہیں تا ہم پہلی ترجیح حادثے کے متاثرین کو امداد فراہم کرنا ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق حملے کی ذمہ داری داعش(دولت اسلامیہ عراق و شام) نے قبول کرلی۔
ایک عالمی جریدے کے مطابق دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 32 ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سے حکومت اور افغان طالبان کے درمیان چپقلش بڑھ گئی ہے جب کہ داعش بھی افغانستان کے کچھ علاقوں میں قابض ہو چکی ہے۔
زیورخ : سوئٹزرلینڈ میں سیکیورٹی اداروں نے ایک مسجد پر چھاپہ مار کارروائی کے دوران امام مسجد سمیت 4 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے مطابق سوئٹزرلینڈ میں واقع ایک مسجد پر سیکیورٹی اداروں کی جانب سے چھاپہ مارا گیا ہے، چھاپہ مار کارروائی میں امامِ مسجد سمیت 4 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
مسجد سے گرفتار کیے گئے افراد کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے جہاں تفتیشی عمل جا رہی ہے،گرفتار کیے گئے افرد سے اہم معلومات حاصل ہونے کا امکان ہے جس کی روشنی میں مزید شدت پسندوں کو قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق مسجد سے گرفتار کیے گئے افراد پر نوجوانوں کو داعش میں شمولت اختیار کرنے کے لیے ذہن سازی اور مالی معاونت کا الزام ہے،کارروائی داعش کا حصہ بننے والے چند نوجوانوں کی گرفتاری کے بعد تحقیقات کے بعد عمل میں لائی گئی۔
واضح رہے دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات اور شدت پسندی میں اضافے کے باعث بین الاقوامی سطح پر مذہبی رجحان رکھنے والے افراد اور عبادت گاہوں کی سخت نگرانی کا عمل جا ری ہے،سوئٹزر لینڈ میں ہونے والی کارروائی بھی اسی تناظر میں عمل میں لائی گئی ہے۔
محرام الحرام کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان میں موجود کچھ شرپسند اذہان عوام کے درمیان ایسے اعتراضات کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں جن سے آپس میں رنجشیں پیدا ہوں اور اتحاد بین المسلمین کو فروغ نہ ملے لیکن ایسے عناصر نہ پہلے کبھی اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں اور نہ آئندہ کبھی ہوسکیں گے۔ کراچی میں ایک ایسی مسجد بھی ہے جو اتحاد بین المسلمین کا روشن مظہر ہے اور دین و ملت میں رخنہ ڈالنے والے عناصر کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔
کراچی کی شاہراہ فیصل سے اگر آپ طارق روڈ جانے کے لیے شاہراہ قائدین کا راستہ لیں تو شاہراہ قائدین برج کہلانے والے اس پل کے نیچے ایک چھوٹی سی مسجد نظر آئے گی۔ مسجد کی موجودگی تو کوئی غیرمعمولی بات نہیں، ملک بھر میں آپ کو ہر گاؤں دیہات، قصبہ اور شہر میں ہر طرح کی چھوٹی بڑی مساجد نظر آئیں گی، لیکن اس مسجد کی خاص بات اس کے باہر لگا ہوا وہ بورڈ تھا جو ہر آتے جاتے شخص کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتا ہے۔
اس بورڈ پر لکھی عبارت نہایت حیرت انگیز ہے، ’یہ مسجد تمام مسالک کے مسلمانوں کے لیے ہے‘، اور اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ، نہ صرف مسجد قائم ہے بلکہ آباد بھی ہے۔
جب ملک بھر میں فرقہ وارانہ تعصب عروج پر ہو اور آپ کے کانوں میں اپنے سے مختلف فرقہ کے مسلمانوں کے لیے ’کافر‘ کا نعرہ گونجتا ہو تو ایسے میں یہ مسجد، کم از کم میرے لیے بہت انوکھی تھی۔ عصر حاضر کے معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی اپنی کتاب ’آب گم‘ میں لکھتے ہیں، ’مسلمانوں نے کسی کے ہندو، عیسائی یا بدھ مت کا پیروکار ہونے پر کبھی تعرض نہیں کیا۔ البتہ اپنے فقہ اور فرقے سے باہر ہر دوسرے مسلم فرقے سے تعلق رکھنے والے کا سر پھاڑنے اور کفر کا فتویٰ لگانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں‘۔
تو ایسے میں وہ کون مرد مومن تھا جس نے مسجد بنوا کر اس قدر کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا کہ اسے ہر فرقے کے لوگوں کے لیے عام کردیا؟
پہلی بار جب میں اس مسجد، مسجد عبد الرحمٰن میں گئی، تو چونکہ وہ کسی نماز کا وقت نہیں تھا، لہٰذا مسجد خالی تھی۔ مسجد کے سامنے ہی پولیس چوکی بنی ہوئی ہے۔ چوکی میں موجود اہلکاروں نے جب ہمیں کیمرے کے ساتھ مسجد میں جھانکتے دیکھا تو ان میں سے ایک اہلکار قریب آگیا۔
رسمی تعارف اور آمد کے مقصد کے بعد انہوں نے بتایا کہ مسجد میں پانچوں وقت باجماعت نماز ہوتی ہے۔ وہ خود بھی اس وقت نماز مغرب کی تیاری کے لیے جارہے تھے اور ان کا یہیں نماز پڑھنے کا ارادہ تھا۔
جب ہم نے ان سے مزید سوالات کیے تو پتہ چلا کہ اس مسجد کو دراصل کچھ پولیس اہلکاروں نے اپنی سہولت کے لیے بنایا تھا۔ جس بھلے شخص نے یہ مسجد بنوا کر اس کے باہر یہ حیرت انگیز بورڈ لگایا، پولیس ڈپارٹمنٹ میں وہ ایس ایچ او گوگا کے نام سے مشہور ہے۔
اب ہماری تلاش ایس ایچ او گوگا کے لیے تھی جو بے شمار فون کالز کے بعد بالآخر ختم ہوئی۔
جب میری ایس ایچ او گوگا سے بات ہوئی تو میرا پہلا سوال یہی تھا، کہ وہ کیا وجہ تھی کہ انہوں نے یہ قدم اٹھایا جو فرقہ وارانہ شدت پسندی کے اس ماحول میں شاید ان کی جان جانے کا سبب بھی بن سکتا تھا؟
ایس ایچ او گوگا
ایس ایچ او گوگا جن کا اصل نام محمد زکیب ہے، نے بتایا، ’جب ہم نے یہ مسجد بنائی تو پہلے دن ایک مسلک کے لوگ ہمارے پاس آئے۔ انہوں نے کہا ہمارے مولانا اس مسجد میں نماز کی امامت کریں گے۔ میں نے کہا سو بسم اللہ کیوں نہیں۔ اگلے دن ایک اور فرقے سے تعلق رکھنے والا شخص یہی مطالبہ لے کر آگیا، تب مجھے خیال آیا کہ یہ تو خوامخواہ ایک مسئلہ کھڑا ہوگیا‘۔
ایس ایچ او گوگا کے مطابق انہوں نے ’مولوی بٹھانے‘ کی فرمائش لے کر آنے والے تمام افراد کو شکریہ کے ساتھ واپس لوٹا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے ’یہ مسجد تمام مسالک کے مسلمانوں کے لیے ہے‘والا بورڈ لٹکایا اور ایک معتدل خیالات رکھنے والے مولانا کو یہاں کا امام مقرر کردیا۔
انہوں نے کہا، ’نیک نیتی سے قائم کی جانے والی اس مسجد کو اللہ نے اتنی برکت دی کہ آج بغیر کسی تنازعہ کے پانچوں وقت یہاں باجماعت نماز ہوتی ہے‘۔
سنہ 2012 میں یہ مسجد قائم کرنے والے ایس ایچ او گوگا اس وقت محکمہ 15 کے انچارج تھے۔ وہ اپنی جیب سے مسجد کے امام کو 2500 روپے ماہانہ تنخواہ دیا کرتے تھے۔ ڈیڑھ سال بعد انہیں ایس ایچ او سچل تعینات کردیا گیا اور ان کی جگہ ایک اورایس ایچ او ہمایوں نے سنبھال لی۔
ایس ایچ او گوگا کا کہنا تھا کہ وہاں سے جانے سے قبل انہوں نے ایس ایچ او ہمایوں کو مسجد کے انتظامات اورامام کی تنخواہ کی ذمہ داری بھی سونپی جو انہوں نے بخوشی قبول کی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے اس بورڈ یا کسی مسلکی اختلاف کی وجہ سے یہ مسجد کبھی کسی تنازعہ کا شکار نہیں بنی۔ ’کم از کم میں نے اپنی آنکھوں سے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا‘۔
سنہ 2013 میں انہیں ایک سانحہ سے گزرنا پڑا۔ 20 مئی 2013 کو دو سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے وال ایک مسلح تصادم کے دوران ان کی کمر میں گولی لگ گئی۔ انہیں فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا جہاں سرکاری خرچ پر ان کا بہترین علاج کیا گیا، لیکن علاج کارگر نہ ہوسکا اور انہیں اپنے دونوں پاؤں کھونے پڑے، ’بس جو اللہ کو منظور‘۔ انہوں نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔
واکنگ اسٹک کے سہارے چلتے ہوئے گوگا اب بھی محکمہ پولیس سے منسلک ہیں اورہیڈ کوارٹر ایسٹ میں دفتری امور کی انجام دہی کر رہے ہیں۔
نمازیوں سے آباد یہ مسجد اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلام میں فرقوں کا تصور نہ ہونے کے باوجود ان کی موجودگی ایک حقیقت تو ہے، لیکن یہ کوئی ایسی وجہ نہیں جس پر دوسرے مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے، اس اسلام سے جس نے ہمیشہ عالمی انسانیت کا درس دیا۔ بقول ایس ایچ او گوگا، ’یہ مسجد ’تمام مسلمانوں‘ کے لیے بنائی گئی ہے‘۔
شارجہ: شارجہ میں ایک مسجد میں ماحول دوست خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں جس کے بعد اب یہ مسجد 37 فیصد توانائی کی بچت کرتی ہے۔
متحدہ عرب امارات کی 5000 مساجد میں سے ایک مسجد، مسجد التوبہ کو 6 ماہ کے پائلٹ پروجیکٹ کے تحت ماحول دوست مسجد میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
اس مسجد میں توانائی کی بچت کرنے والے 5 آلات کو نصب کیا گیا اور صرف 6 ماہ میں اس سے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے۔ جنوری 2016 تک اس مسجد میں بجلی کے استعمال میں 37 فیصد کمی آئی۔ یہاں پر بجلی کی کھپت میں 778 کلو واٹ کمی دیکھنے میں آئی۔ یہ تناسب کسی بھی جگہ پر گرمیوں کے موسم میں توانائی کی بچت کی بلند ترین سطح ہے۔
یہاں پر بجلی کی بچت کے لیے اسمارٹ تھرمو سٹیٹ نصب کیے گئے جو کہ پچھلے 3 سال سے متحدہ عرب امارات میں مقامی طور پر تیار کیے جا رہے ہیں۔
شارجہ کے محکمہ مذہبی امور نے انجینیئرز کو اس پروجیکٹ کی نگرانی و مشاہدے کے لیے مقرر کیا ہے تاکہ مشرق وسطیٰ میں مساجد توانائی کی بچت کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
مساجد میں اکثر نمازی اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ نماز کے وقت شدید گرمی ہوجاتی ہے کیونکہ اے سی کو صحیح وقت پر کھولا نہیں جاتا۔ یہ تھرمو سٹیٹ روزانہ کی بنیاد پر نماز کے وقت، اور اے سی کے ٹھنڈا کرنے کی مدت کو مدنظر رکھتے ہوئے اے سی کو چلا دیتے ہیں جس سے بجلی کی بچت بھی ممکن ہے اور نمازی تکلیف سے بھی بچ جاتے ہیں۔
ان تھرمو سٹیٹ کی مؤثر کارکردگی کے لیے انہیں ’آٹو اذان‘ کے آلات سے بھی منسلک کیا گیا ہے۔ چونکہ اذان کا وقت ہر روز مختلف ہوتا ہے اور روزانہ 7 سے 10 منٹ کا فرق آجاتا ہے تو اسی فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ آلات اے سی کو مقررہ وقت پر کھول دیتے ہیں۔
اس پروجیکٹ پر تقریباً 200 ڈالر کی رقم خرچ کی جارہی ہے۔ ملک بھر کی تمام مساجد کی انتظامیہ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنی مساجد کو ماحول دوست بنائیں۔ البتہ پروجیکٹ شروع کرنے والی تنظیم ہنی ویل انوائرنمنٹ اینڈ انرجی سلوشن کے جنرل مینیجر دلیپ سنہا کے مطابق پروجیکٹ پر جو رقم خرچ کی جائے گی، وہ بجلی کے بلوں میں کمی کے بعد 3 ماہ میں ہی وصول ہوجاتی ہے۔
پروڈکٹ مارکیٹنگ مینیجر محمد التاول کے مطابق کئی مساجد کی انتظامیہ نے اس پروجیکٹ میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ان کے مطابق انہوں نے ان آلات کی تنصیب کو نہایت سادہ رکھا ہے اوراسے نصب کرنے میں کسی قسم کے تار استعمال نہیں ہوتے۔
ذرائع کے مطابق متحدہ عرب امارات کی حکومت اس قسم کے دیگر کئی منصوبوں پر کام کر رہی ہے اور بہت جلد ایسے پروجیکٹس شاپنگ مالز اور اسکولوں میں بھی شروع کردیے جائیں گے تاکہ مشرق وسطیٰ کے گرم موسم سے مطابقت کرتے ہوئے توانائی کی زیادہ سے زیادہ بچت کو ممکن بنایا جا سکے۔